سورۃ العلق (96): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Alaq کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ العلق کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ العلق کے بارے میں معلومات

Surah Al-Alaq
سُورَةُ العَلَقِ
صفحہ 597 (آیات 1 سے 19 تک)

سورۃ العلق کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ العلق کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Iqra biismi rabbika allathee khalaqa

اقرا باسم .................................... علم بالقلم (1:96 تا 4) ” پڑھو (اے نبی) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو ، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا ، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا “۔

اس وحی کو لے کر حضور ﷺ واپس آئے اور حال یہ تھا کہ آپ کانپ رہے تھے۔ آپ حضرت خدیجہ ؓ کے پاس پہنچے اور ان سے کہا ” مجھے چادراوڑھاﺅ“ مجھے چادر اوڑھاﺅ“۔ تو انہوں نے آپ کو چادر اوڑھادی۔ یہاں تک کہ آپ کا خوف دور ہوا۔ پھر آپ نے حضرت خدیجہ ؓ سے کہا مجھے کیا ہوگیا ہے اور پھر آپ نے ان کو پوری کہانی سنائی اور کہا میں تو ڈر گیا تھا کہ میری جان ہی نہ چلی جائے۔ تو اس پر حضرت خدیجہ ؓ نے کہا : ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ میں آپ کو خوشخبری دیتی ہوں ، خدا کی قسم اللہ کبھی بھی آپ کو بےسہارا نہ چھوڑے گا۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، سچ بولتے ہیں ، کمزوروں کی مدد کرتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی مصیبتوں میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر حضرت خدیجہ ؓ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ ابن نوفل ابن اسد ابن عبدالعزی ابن قصی کے پاس لے گئیں۔ ورقہ زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے اور عبرانی اور عربی میں انجیل لکھتے تھے۔ جس قدر اللہ کی مشیت ہوتی۔ اس وقت وہ بہت بوڑھے اور نابینا تھے۔ حضرت خدیجہ ؓ نے ان سے کہا بھائی ذرا اپنے بھتیجے کا حال سنئے۔ ورقہ نے کہا بھتیجے تمہیں کیا نظرآیا۔ تو رسول اللہ ﷺ کو جو کچھ نظر آیا تھا آپ نے بیان فرمادیا۔ اس پر ورقہ نے کہا یہ تو وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوا تھا ، کاش میں جوان ہوتا اور کاش میں اس وقت زندہ ہوتا کہ جب تمہاری قوم تمہیں وطن سے نکال دے گی تو حضور ﷺ نے فرمایا کیا سچ مچ وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے۔ ورقہ نے کہا جو تعلیم تم لے کر آئے ہو ، اس طرح کی تعلیم جو بھی لے کر آیا ہے لوگ اس کے دشمن ہوگئے۔ اگر میں نے تمہارا یہ دور پایا تو میں ضرور تمہاری مدد کروں گا۔ زیادہ مدت نہ گزری کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا “۔ (بخاری اور مسلم میں یہ حدیث امام زہری سے مروی ہے)

طبری نے حضرت عبداللہ ابن زبیر سے یہ روایت کی ہے ”.... حضرت جبرائیل میرے پاس دیبا کا ایک ٹکڑا لے کر آئے ۔ جب میں سو رہا تھا۔ اس میں ایک کتاب تھی ، انہوں نے مجھ سے کہا پڑھو۔ میں نے کہا میں نہیں پڑھتا تو انہوں مجھے بھینچا ، اس قدر کہ میں سمجھا میری جان نکل گئی ۔ پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو ، تو میں نے کہا میں کیا پڑھوں ؟ یہ بات میں نے اس ڈر سے کہی کہ فرشتہ میرے ساتھ دوبارہ وہ کام نہ کرے جو اس نے کیا۔ تو اس نے کہا :

اقرا باسم ............................ مالم یعلم (1:96 تا 5) فرماتے ہیں اب میں نے اسے پڑھ لیا۔ میں نے آخر تک پڑھ لیا۔ میں نے آخر تک پڑھ لیا۔ اس کے بعد وہ میرے پاس سے چلا گیا اور میں نیند سے بیدار ہوگیا۔ حالت یہ تھی کہ میرے دل میں ایک کتاب لکھ دی گئی تھی۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ مخلوق خدا میں سے شاعر اور مجنوں مجھے سب سے برے لگتے تھے۔ میں ان دونوں قسم کے لوگوں کی طرف دیکھ بھی نہ سکتا تھا۔ فرماتے ہیں میں نے سوچا کہ شاعر اور مجنوں سے تو موت ہی بہتر ہے۔ تاکہ قریش میرے بارے میں شاعر اور مجنوں کا لفظ نہ استعمال کرسکیں۔ بہتر ہے کہ میں اونچے پہاڑ پر چلاﺅں ، اپنے آپ کو اس پر سے گراﺅں اور اپنے آپ کو قتل کرکے اس صورت حالات سے نجات پاﺅں۔ چناچہ میں اس ارادے سے نکلا یہاں تک کہ میں پہاڑ کے وسط میں تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی جو یوں تھی ” اے محمد ﷺ تم اللہ کے رسول ہو اور میں جبرائیل ہوں “۔ میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کیا دیکھتا ہوں کہ جبرائیل ایک انسان کی صورت میں آسمان کے افق پر کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں : ” اے محمد ﷺ تم تو رسول اللہ ہو اور میں جبرائیل ہوں “۔ فرماتے ہیں میں کھڑا ہوگیا اور انہیں دیکھتا رہا۔ اور اس منظر نے مجھے اس کام سے روک لیا جو میں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے ایک قدم آگے بڑھ رہا تھا اور نہ پیچھے۔ میں نے کوشش کی کہ آسمان کے اطراف میں اس سے منہ پھیر لوں لیکن میں جدھر بھی دیکھتا انہیں وہاں کھڑا پاتا۔ چناچہ میں یونہی کھڑارہا ، نہ ایک قدم آگے بڑھرہا تھا اور نہ ایک قدم پیچھے مڑ رہا تھا۔ یہاں تک کہ خدیجہ ؓ نے اپنے آدمی میری تلاش میں بھیجے۔ یہ لوگ مجھے دیکھ کر مکہ پہنچ گئے اور خدیجہ ؓ کی طرف لوٹ گئے۔ میں وہیں کھڑا رہا۔ اس کے بعد وہ چلے گئے اور میں بھی اپنے اہل و عیال کی طرف مکہ آگیا “۔ ابن اسحاق نے اس روایت کو طویل عبارت میں وھب ابن کیسان سے بھی روایت کیا ہے۔

اس واقعہ پر میں نے بہت غور کیا ، اس پہلے واقعہ کو سیرت کی کتابوں میں تو ہم نے بارہا پڑھا تھا ، کتب تفاسیر میں بھی دیکھا تھا ، لیکن ہم پڑھ کر آگے بڑھ گئے تھے یا قدرے غور کرکے آگے بڑھ گئے تھے۔ لیکن اب غور کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ تو ایک عظیم واقعہ تھا ، اور نہایت ہی عظیم واقعہ تھا۔ ہم اس واقعہ کی عظمت کا جو تصور بھی کریں لیکن اس کے کچھ پہلو پھر بھی ہمارے تصور سے خارج رہیں گے۔ بہرحال یہ واقعہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے بھی عظیم ہے اور اپنے مفہوم کے اعتبار سے بھی عظیم ہے۔ انسانوں کی زندگی پر اس کے جو آثار مرتب ہوئے اس کے اعتبار سے بھی عظیم ہے اور وہ لمحات جن میں یہ واقعہ پیش آیا وہ اس زمین کے عظیم اور قیمتی لمحات تھے۔ آغاز نظام کائنات سے لے کر اس کے انجام تک۔

سوال یہ ہے کہ یہ واقعہ کیا تھا اور ان لمحات میں وہ کیا کچھ ہوگیا ؟ اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ جل شانہ جو بہت ہی عظیم ، جبار وقہار اور متکبر ہے ، اور مالک الملک ہے ، اس اللہ نے اپنی بلندیوں سے اس حقیقت پر نظر کرم فرمائی جسے عرف عام میں ” السان “ کہتے ہیں ، جو اللہ کی اس عظیم کائنات کے ایک گمنام گوشے میں پڑا ہوا تھا ، جسے عرف عام میں ” زمین “ کہتے ہیں۔ اللہ نے اپنی اس مخلوق انسان کو یہ اعزاز بخشا کہ وہ الٰہی تجلیات کا مہبط بنے ، اللہ کی حکمت کا امین بنے ، اللہ کے کلام کا منزل بنے اور یوں اللہ کی تقدیر اور تدابیر اس مخلوق کو جس مقام و مرتبہ تک لے جانا چاہتی تھی اس کی مثال بنے۔

یہ ایک عظیم بات ہے ، اس قدر عظیم جس کی عظمتیں لا انتہا ہیں اور اس کی عظمتیں مزید واضح ہوتی ہیں۔ جب انسان اپنی قوتوں کی تنگ دامنی پر نظر ڈالے کہ ایک طرف حقیقت الوہیت ہے جو بےقید ہے ، ازلی اور ابدی ہے جبکہ انسان کی جانب ایک حقیقت ہے جو بندگی کی حقیقت ہے ، محدود ہے ، بدلنے والی اور فنا ہونے والی حقیقت ہے۔ تب انسان کو صحیح شعور ہوتا ہے کہ اس مخلوق پر اللہ کی کس قدر عظیم عنایت تھی۔ تب پھر انسان محسوس کرتا ہے کہ یہ کس قدر عظیم اور خوشگوار حقیقت ہے اور پھر انسان نہایت عاجزی ، خشوع و خضوع اور شکر اور خوشدلی کے ساتھ اسے لیتا ہے۔ پھر وہ اس کائنات کی لاانتہا اطراف میں اللہ کے کلمات کو گونجتا ہوا پاتا ہے کہ یہ کلمات اس ناچیز انسان پر ، اس ناچیز مکان میں نازل ہوتے ہیں ، یہ انسان ایک چیز ذرہ ہے اور یہ زمین ایک حقیر ذرہ ہے۔

پھر اس عظیم واقعہ کے معانی کس قدر دورس ہیں ؟ اللہ کی جانب سے دیکھاجائے تو یہ اس کی جانب سے ایک وسیع فضل وکرم ہے۔ وہ فضل وکرم کرنے والا ہے ، اس کی رحمت میں یہ انسان سرشار ہے ، وہ بہت بڑا کریم ہے ، محبت کرنے والا ہے ، احسان کرنے والا ہے ، وہ جس پر فضل وکرم کرتا ہے تو بغیر سبب وعلت کے کرتا ہے۔ یہ فضل وکرم تو اس کی ذاتی صفات کا پہلو ہے۔

اور اگر انسان کے زاویہ سے دیکھا جائے تو اللہ نے انسان پر اس قدر فضل وکرم کیا ہے جس کا وہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا اور اب وہ اس کا شکرادا نہیں کرسکتا۔ صرف اس ایک کرم کا اگر تمام انسان شکر ادا کرنے لگ جائیں تو اگر وہ رات دن رکوع و سجود میں رہیں پھر بھی اس ایک کرم کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کرم کہ اللہ بندے کو یاد کرے ، اس کی طرف نظر کرم کرے ، اس کے ساتھ رابطہ قائم کرے ، اور انسانوں ہی میں سے ایک ذات گرامی کو رسول بنا کر بھیج دے۔ زمین اللہ کے کلمات کا مہیط بن جائے۔ اس رسول کا مقام رہائش بن جائے اور اس زمین کے اطراف واکناف میں ان کلمات کی گونج بلند ہورہی ہو۔

پوری انسانیت کی زندگی میں اس واقعہ کے نتیجے میں کیا تغیر رونما ہوا ، تو بات یہ ہے کہ پہلے لمحے ہی سے انسانیت پر اس کے اثرات شروع ہوئے ، تاریخ کا دھارا بدل گیا ، انسانی ضمیر کے خطوط بدل گئے ، وہ قبلہ متعین ہوگیا جس کی طر انسان نے رخ کرنا تھا اور جس سے انسانوں نے اقدار کے تصورات اور پیمانے اخذ کرنے تھے۔ یہ پیمانے زمینی اور مادی نہ تھے بلکہ یہ آسمانی اور وحی الٰہی کے پیمانے تھے۔

اس وقت سے آج تک وہ لوگ جن کی روح میں یہ بات بیٹھ گئی تھی وہ اللہ کے رحم وکرم میں داخل ہوگئے ، ان پر براہ راست اللہ کا رحم ہونے لگا۔ ان لوگوں کا رویہ ہوگیا کہ وہ ہر معاملے میں براہ راست اللہ کی طرف نظریں اٹھائے رکھتے تھے ، خواہ کوئی چھوٹا سا معاملہ ہو یا بڑا۔ یہ لوگ اللہ کی نظروں کے نیچے حرکت کرتے تھے ، وہ یہ توقع رکھتے تھے کہ اللہ ان کی دستگیری کرے گا ، اور ان کو اپنی منزل تک قدم بقدم چلائے گا۔ ان کو غلط راہ سے روکے گا اور سیدھی راہ کی طرف موڑے دے گا۔ اور وہ ہر وقت اس بات کی توقع رکھتے تھے کہ ابھی اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے اور ان کے دلی رازوں کو کھول دیتی ہے۔ ابھی اللہ کا حکم آتا ہے اور ان کی مشکلات حل ہوجاتی ہیں کہ یہ بات کرو اور اس سے رک جاﺅ۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک عجیب زمانہ تھا ، یہ 23 سالہ زمانہ تھا ، ان زمانوں میں انسانوں اور بندوں کے درمیان براہ راست تعلق قائم رہا۔ یہ ایک ایسا زمانہ تھا کہ اس کی حقیقت کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے تھے ، جو اس میں رہتے تھے۔ جنہوں نے اس زمانے کو محسوس کیا ، جنہوں نے اس کا آغاز اور انجام دیکھا ، جنہوں نے اس براہ راست رابطے کی شیرینی کو دیکھا ، اور انہوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ دست قدرت قدم قدم پر ان کی دستگیری کررہی ہے ، اور انہوں نے دیکھا تھا کہ وہ کہاں سے چلے اور کہاں پہنچے ، یہ ایک ایسی مسافت تھی ، ایسا انقلابی سفر تھا جس کی طوالت کو اس دنیا کے کسی معیار سے نہیں ناپا جاسکتا تھا یہ انسانی ضمیر کا سفر تھا ، جسے کائنات کے فاصلوں کے پیمانوں سے نہیں ناپا جاسکتا۔ یہ دواجرام فلکی کے درمیان کا سفر بھی نہ تھا بلکہ یہ ایک مکمل تبدیلی انقلاب تھا ، اب مادی اور زمینی پیمانوں کے مقابلہ میں آسمانی پیمانے آگئے تھے ، خواہشات سے مدد طلب کرنے کی بجائے اب وحی سے مدد لی جارہی تھی۔ لوگ جاہلیت سے سفر کرکے اسلام میں داخل ہوگئے تھے ، شرک سے چل کر لوگ ربانیت میں داخل ہوگئے تھے۔ یہ طویل سفر تھا ، زمین اور آسمانوں کے درمیان کے فاصلے سے بھی طویل اور بعید۔

یہ لوگ ذوق معرفت رکھتے تھے ، اور اس کی شیرینی اور مٹھاس کو پاتے تھے ، اس کی قدروقیمت کا انہیں شعور تھا ، اور جب رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے تو انہوں نے اس کمی کو محسوس کیا۔ انہوں نے محسوس کرلیا کہ یہ ایک دور تھا جو بیت گیا ، اگر یہ دور عملاً گزرا نہ ہوتا تو عقل اس کا تصور بھی نہ کرسکتی۔

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہا چلو ام ایمن کے پاس چلیں ، ہم ان سے اسی طرح ملاقات کریں جس طرح رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ ملاقات کے لئے جاتے تھے۔ جب وہ اس کے قریب گئے تو وہ رونے لگیں ، انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کے رونے کی وجہ کیا ہے ؟ کیا آپ نہیں جانتیں کہ اللہ کے ہاں رسول اللہ کا جو مقام ہے جو آپ کے لئے بہتر ہے ۔ انہوں نے کہا ہاں میں جانتی ہوں کہ اللہ کے ہاں رسول اللہ ﷺ کے لئے جو کچھ ہے وہ بہت بہتر ہے ، لیکن میں اس لئے رورہی ہوں کہ آسمان سے وحی کا آنا رک گیا ہے ، ان کی بات نے ان دونوں کو رلا دیا اور وہ بھی رونے لگے۔ (مسلم)

یہ ایک مبارک گھڑی تھی اور اس کے اثرات اس وقت سے آج تک انسانی زندگی کو متاثر کررہے ہیں اور یہ اثرات اس وقت تک اپنا کام کرتے رہیں گے جب تک اللہ زمین کا وارث نہیں ہوجاتا اور قیامت برپا نہیں ہوجاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس گھڑی کے واقعہ نے انسان کو از سر نو زندگی عطا کی۔ اس طرح کہ اس نے اپنی قدریں زمین سے لینے کی بجائے آسمان سے لینا شروع کردیں اور اپنی زندگی کا نظام وحی سے اخذ کرنے لگے ، خواہشات نفسانیہ سے اخذ نہیں کرتے تھے۔

اس لمحہ میں جو کچھ ہوا اس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ اس سے قبل تاریخ میں کوئی ایسا انقلاب واقع نہ ہوا تھا اور نہ آپ کے بعد اس قسم کا کوئی واقعہ ہوا۔ یہ واقعہ دراصل تاریخ کا دوراہا تھا۔ اس نے تاریخ کا رخ پھیر دیا اور پھر تاریخ میں ایسے نشانات راہ قائم کردیئے گئے جنہیں آج تک مٹایا نہیں جاسکا۔ نہ بعد کے واقعات نے ان نشانات کا رنگ ہلکا کیا۔ انسانی عقائد ونظریات میں اس کائنات ، اس زندگی ، اور اس کی اعلیٰ قدروں کا ایک تصور بٹھادیا گیا۔ ان کو اس رطح واضح کردیا گیا کہ اس سے قبل تاریخ میں ان اعلیٰ قدروں کو اس طرح نہ نکھارا گیا تھا۔ اعلیٰ قدروں کی یہ ایک ایسی تصویر کشی تھی جو جامع تھی ، جو صاف تھی ، جو نہایت ہی مجرد تھی اور دنیا کے رنگوں سے خالی اور پاک تھی ، جبکہ اس کے رنگ واقعی تھے اور انسانی زندگی کے ساتھ اچھی طرح ہم آہنگ تھے ۔ چناچہ اسلامی نظام زندگی کے اصول وقواعد رکھ دیئے گئے ، اور اسلامی نظام کے نشانات اور خطوط وضع کردیئے گئے۔

لیھلک ............................ بینة ” تاکہ جو نیست ونابود ہوتا ہے ، وہ دلیل سے نیست ونابود ہو اور جو زندہ رہتا ہے وہ دلیل سے زندہ رہے “۔ ان خطوط میں کوئی اجمال اور ابہام نہ چھوڑا گیا۔ اگر کوئی نہیں مانتا تو پھر وہ جانتے پوچھتے نہ مانے گا ، اب اگر کوئی راہ راست سے بھٹکتا ہے تو وہ ارادة ایسا کرے گا اور اگر کوئی کجی اختیار کرتا ہے ، کو وہ قصداً ایسا کرے گا۔

اس منظر ولمحے میں یہ ایک ممتاز واقعہ تھا ، یہ ایسا کائناتی حادثہ تھا جس نے ایک عہد کو ختم کردیا جو دنیا سے نابود ہوگیا اور ایک عہد کا آغاز کردیا جو ابدالا باد تک رہے گا۔

یہ حادثہ انسانی تاریخ میں ایک فرقان بن گیا۔ یہ انسانی زندی میں فرقان بن گیا۔ صرف کسی امت یا قوم کی زندگی میں نہیں۔ اس حادثہ کی گونج پوری کائنات میں ریکارڈ ہوگئی اور پوری کائنات اس کے ساتھ چلنے لگی۔ یہ حادثہ انسانی ضمیر میں ریکارڈ ہوگیا۔ یہ انسانی ضمیر آج بھی اسے یاد کررہا ہے اس کی یادیں مٹاتا ہے اور کبھی اسے بھولتا نہیں اور انسانی ضمیر اس بات کو پاتا ہے کہ یا واقع ، یا حادثہ دراصل انسانیت کے لئے ایک نیا جنم تھا اور انسانی قدروں میں یہ انقلاب تاریخ میں ایک ہی بار واقعہ ہوا ، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔

یہ تھی بات اس سورت کے پہلے پیراگراف کی ۔ رہیں بعد کی آیات اور پیرے تو ظاہر ہے کہ وہ بعد میں نازل ہوئے۔ بعد کی آیات سیرت النبی کے ان واقعات کی طرف اشارہ کررہی ہیں جو بہت ہی بعد کے زمانوں میں پیش آئے جبکہ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ علانیہ تبلیغ کریں ، اور اس دور میں پھر آپ کی مخالفت شروع ہوگئی تھی جیسا کہ آتا ہے۔

ارءیت ........................ صلی ” کیا تونے اس شخص کو دیکھا ہے جو اللہ کے بندے کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے “۔ لیکن بعد میں نازل ہونے کے باوجود سورت کے اجزاء میں ایک ربط ہے اور مطلع کے بعد جو حقائق لائے گئے ہیں ان میں مکمل ترتیب ہے۔ چناچہ پوری سورت ایک کامل وحدت اور ایک مکمل مضمون بن جاتی ہے جس کے اجزاء باہم پیوست اور منظم ہیں۔

اقرا باسم ............................ لم یعلم (1:96 تا 5) ” پڑھو (اے نبی) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو ، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا ، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا “۔ یہ قرآن کی پہلی سورت ہے ، رسول خدا کو پہلا حکم کیا دیا جاتا ہے ؟ پہلی ہدایت کیا دی جاتی ہے ؟ ان لمحات میں جب پہلے پہل ان کا عالم بالا کے ساتھ رابطہ قائم ہوا ، جب سب سے پہلے انہیں دعوت اسلامی کی ذمہ داری سپرد کی گئی ، حکم یہ ہوا کہ ” پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدام کیا “۔ اللہ کی صفات میں سے تخلیق کی صفت کو لیا گیا جس کے ذریعہ پوری کائنات کو عدم سے وجود میں لایا گیا۔

اردو ترجمہ

جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khalaqa alinsana min AAalaqin

اس کے بعد اس کائنات میں انسان کی تخلیق اور انسانی دور کے آغاز کی حقیقت کو لیا گیا۔

خلق الانسان من علق (2:96) ” جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی “۔ خون کے ایک نکتے سے ، جو جامد تھا اور رحم کی دیواروں کے ساتھ چیک کیا تھا۔ یہ تھا انسان کی پیدائش کا نقطہ آغاز جس کی ساخت بہت سادہ ہے ، اس انداز تخلیق سے دو باتیں آتی ہیں ، ایک یہ کہ اللہ بڑا کریم ہے اور دوسری یہ اس کی قدرت خود اس کی تخلیق سے عیاں ہے ، کرم یہ ہے کہ اس نے خون کے جمے ہوئے اس نکتے ، خوردبنی نکتے کو انسان کے مقام تک پہنچایا جو پڑھتا پڑھاتا ہے۔

اردو ترجمہ

پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Iqra warabbuka alakramu

اقرا وربک ............................ مالم یعلم (3:96 تا 5) ” پڑھو ، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا ، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا “۔ انسان کی تخلیق کے بعد ، یہ اس میں بہت بڑی تبدیلی تھی لیکن یہ کر کستا ہے ، وہ بڑا کریم ہے ، اس لئے اللہ نے ایک خوردبینی نکتے میں یہ تغیر رونما کردیا کہ وہ کامل انسان کے بعد عالم انسان بن گیا ، یہ اس قدر عظیم تبدیلی ہے کہ اس سے سرچکرا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ان آیات میں اسلام کا نظریہ تعلیم بھی واضح کیا گیا ہے ، رب نے انسان کو تعلیم ” قلم “ کے ساتھ دی۔ کیونکہ اس وقت بھی اور آج بھی انسان کی زندگی میں قلم اہم اور موثرذریعہ تعلیم ہے اور اس حقیقت کو جس طرح ہم آج سمجھتے ہیں نزول قرآن کے وقت اس طرح نہ سمجھتے تھے ، لیکن اللہ تعالیٰ تعلیم اور قلم کی قدروقیمت کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ لہٰذا آخری رسول کو آخری مشن سپرد کرتے وقت اللہ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا اور قرآن کی پہلی سورت میں یہ اسارہ کردیا گیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ جس رسول کو یہ ہدایت دی گئی وہ خط نہ لکھ سکتے تھے۔ لہٰذا اگر کوئی یہک ہے کہ یہ قرآن کسی انسان کی تصنیف ہے تو کوئی امی انسان یہ بات نہیں کرسکتا تھا۔ لہٰذا یہ ایک حقیقت ہے جو وحی الٰہی نے بتائی اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ رسول خدا ﷺ کے سچے رسول ہیں۔

اس کے بعد یہ بتایا جاتا ہے ، کہ قرآن کے نظریہ کے مطابق تعلیم کا سرچشمہ کیا ہے۔ یہ سرچشمہ ذات باری ہے۔ انسان نے آج تک جس قدر علم حاصل کیا ہے یا آئندہ کرے گا۔ آج تک انسان پر اس کائنات کے جو اسرار کھلے ہیں وہ اللہ ہی کے فضل وکرم سے کھلے ہیں۔ انسانی زندگی اور انسانی نفس کے بارے میں جو اسرار کھلے ہیں وہ بھی اللہ کے فضل وکرم سے کھلے ہیں۔ اللہ ہی وہ واعد مصدر اور منبع سے جس کے سوا کوئی اور سرچشمہ علم و حکمت نہیں ہے۔

یہ پیراگراف جو ان لمحات کے آغاز میں نازل ہوا ، جن میں سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ اور عالم بالا کے درمیان رابطہ قائم ہوا ، اس ایک ہی پیراگراف کے اندر ایمانی تصور حیات کے اساسی اصول بیان کردیئے گئے تاکہ ” ہر حکم ، ہر حرکت ، ہر قدم ، ہر عمل اور ہر کام اللہ کے نام اور اللہ کے احکام کے مطابق ہوگا ، اللہ کے نام سے اقدام ہوگا ، اللہ کے نام سے چلے گا ، اللہ کے رخ ہوجائے گا اور انجام کار اللہ تک پہنچے گا “۔ اس لئے کہ اللہ ہی خالق ہے ، وہی جاننے والا اور جان کاری دینے والا ہے ، اسی سے آغاز ہے ، اسی کی جانب سے نشوونما ہے اور اسی کی طرف سے تعلیم وتربیت ہے ، انسان سیکھتا ہے جو کچھ سیکھتا ہے وہ جانتا ہے جو کچھ بھی جانتا ہے لیکن سب علم وہنر کا سرچشمہ ذات باری ہے جس نے پیدا کیا ، علم کے ذرائع دیئے اور

اردو ترجمہ

جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allathee AAallama bialqalami

اردو ترجمہ

انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAallama alinsana ma lam yaAAlam

علم الانسان مالم یعلم (5:96) ” اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو انسان نہ جانتا تھا “۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک نے عالم بالا کے ابتدائی لمحات ہی میں اس حقیقت کو اخذ فرمایا اور آپ کی سوچ ، آپ کے تصرفات ، آپ کے کلام اور آپ کے عمل اور آپ کے رخ پر اور آپکی پوری زندگی میں یہ شعور چھایا رہا۔ کیونکہ یہ ایمان کا پہلا اصول تھا۔

امام شمس الدین ابو عبداللہ محمد ابن قیم الجوزیہ اپنی کتاب ” زادالمعاد فی ہدی خیر العباد “ میں رسول ﷺ کی سیرت کے اہم خدوخال کے بارے میں یوں فرماتے ہیں :

” اللہ کی یاد اور اس کے ذکر کے معاملے میں رسول اللہ ﷺ ایک نہایت ہی مکمل انسان تھے ، آپ کی گفتگو کا اہم حصہ ذکر الٰہی اور ذات باری کے متعلق مسائل ہی پر مشتمل ہوتا تھا۔ آپ کے احکام آپ کے مناہی ، اسلامی قوانین کی وضاحت ، اور تمام دوسری ہدایات دراصل ذکر الٰہی ہی کے پہلو تھے ، اللہ کے اسماء وصفات بیان کرنا ، اللہ کے احکام اور شریعت کے مسائل بیان کرنا ، انجام بد سے ڈرانا وغیرہ سب باتیں اللہ کا ذکر ہی تھیں ، پھر اللہ کی نعمتوں پر اس کی تعریف ، اس کی برتری ، اس کی حمد ، اس کی تسبیح اللہ کا ذکر ہی تو تھا ، پھر اللہ سے مانگنا ، دعا کرنا ، اللہ کی طرف راغب ہونا ، اللہ سے ڈرنا ، یہ سب ذکر الٰہی کے مختلف انداز ہی تو تھے ، جب آپ خاموش ہوتے تو بھی یاد الٰہی کرتے ، ہر وقت ہر حال میں آپ کے شعور میں ذات باری موجود ہوا کرتی تھی۔ ہر سانس جو اندر جاتا یا باہر آتا ، آپ کھڑے ہوتے یا بیٹھے ہوتے ، چلتے پھرتے یا سوار ہوتے ، سفر میں ہوتے یا حضر میں ، اقامت پذیر ہوتے یا کوچ کی حالت میں ہوتے ، غرض ہر دم اور ہر حال میں اللہ کو یاد فرماتے “۔

آپ جب نیند سے بیدار ہوتے تو فرماتے۔

الحمدللہ الذی ............................ النشور ” اس ذات کے لئے حمدوثنا ہے جس نے ہمیں موت دینے (نیند) کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف دوبارہ زندہ ہوکر جانا ہے “۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ رات کو جب کبھی ، اچانک بیدار ہوتے تو دس بار ” اللہ اکبر “ کہتے اور دس بار تہلیل کرتے یعنی کہتے۔

لاالہ الا اللہ ” نہیں ہے کوئی حاکم مگر اللہ “۔ اور اس کے بعد دس بار یہ دعا پڑھتے۔

اللھم انی اعوذبک من ضیق الدنیا ومن ضیق یوم القیمة ” اے اللہ میں دنیا کی تنگی اور آخرت کی تنگی سے تیری پناہ مانگتا ہوں “۔ اس کے بعد آپ نماز شروع کرتے۔ اور انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ حضور ﷺ جب رات کو جاگتے تو یہ دعا پڑھتے۔

لا الہ الا انت سبحانک الھم استغفرک لذنبی واسئلک رحمتک اللھم زدنی علما ولا تزع قلبی بعد اذ ھدیتنی وھب لی من لدنک رحمة انک انت الوھاب (ابوداﺅد) ” اے اللہ تیرے سوا کوئی حاکم نہیں ، تو پاک ہے اور برتر ہے۔ اے اللہ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں ، اور تجھ سے تیری رحمت طلب کرتا ہوں۔ اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرما اور میرے دل کو ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھا نہ کر ، اور مجھے اپنی جانب سے رحمت عطا فرما۔ بیشک تو ہی بخشنے والا ہے “۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص رات کو بیدار ہو اور کہے۔

لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ۔ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر۔ الحمد للہ وسبحان اللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم ” نہیں کوئی حاکم مگر اللہ صرف وہی حاکم ہے ، اسکے ساتھ کوئی شریک نہیں ، بادشاہت اسی کی ہے ، تعریف اسی کی ہے ، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ، سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، وہی پاک ہے ، ہر عیب سے ۔ اس کے سوا کوئی حاکم نہیں۔ اللہ ہی بڑا ہے ، کوئی تدبیر اور کوئی قوت نہیں مگر اللہ کے ذریعہ ہی ہے ، جو بلند اور عظیم ہے “۔ اور پھر وہ یہ دعا کرے۔

اللھم اغفرلی ” اے اللہ ، مجھے بخش دے “۔ یا کوئی اور دعا کرے تو یہ دعا قبول ہوگی اور اگر وہ وضو کرکے نماز بھی ادا کرے تو نماز قبول ہوگی (بخاری) ۔

ایک بار حضرت ابن عباس ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس رات گزاری۔ فرماتے ہیں کہ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ نے آسمان کی طرف سراٹھایا اور سورة آل عمران کی دس آیات

انا فی خلق السموت سے آخر تک تلاوت کیں اور پھر اللہ کی حمد یوں بیان کی۔

اللھم لک احمد انت نور السموت والارض ومن فیھن۔ لک الحمد انت قیم السموات والارض ومن فیھن۔ ولک الحمد انت الحق وعدک الحق وقولک الحق ولقائک الحق والجنة حق والنار حق والنبیون حق ، ومحمد حق ، والساعة حق اللھم لک اسلمت وبک امنت وعلیک توکلت والیک انبت وبک خاصمت والیک حاکمت فاغفرلی ماقدمت وما اخرت وما اسررت وما اعلنت انت الھی لا الہ الا انت ولا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم۔

” اے اللہ سب تعریفیں تیرے لئے ہیں ، تو ہی زمین اور آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ، ان کا نور ہے ، سب تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں ، تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان سب چیزوں کا قائم رکھنے والا ہے ، حمد تیرے ہی لئے ہے ۔ تو حق ہے تیرا وعدہ حق ہے ، تیری بات حق ہے ، تجھ سے ملناحق ہے ، جنت حق ہے ، آگ حق ہے ، نبی حق ہیں ، محمد حق ہیں ، قیامت حق ہے۔ اے اللہ میں تیرا مطیع فرمان ہوں تیرے اوپر ایمان لانے والا ہوں ، آگ حق ہے ، نبی حق ہیں ، محمد حق ہیں ، قیامت حق ہے۔ اے اللہ میں تیرا مطیع فرمان ہوں تیرے اوپر ایمان لانے والا ہوں ، تجھ پر توکل کرنے والا ہوں ، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں تیری ہی خاطر لڑا ، اور سب معاملات تیرے ہی سامنے پیش کیے۔ اس لئے مجھے معاف کردے۔ میری اگلی اور پچھلی غلطیوں کو معاف کردے ، جو پوشیدہ رکھا اور جو علانیہ کیا ، تو ہی مرا حکم ہے اور تیرے سوا کوئی حاکم نہیں ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی تدبیر اور کوئی قوت نہیں ہے ، جو علی وعظیم ہے “۔

اور حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہے ، حضور جب رات کو قیام فرماتے تو یہ دعا پڑھتے۔

اللھم رب جبرائیل ومیکائیل واسرافیل فاطر السموات والارض عالم الغبت والشھادة انت منکم بین عباد لئفیما کانوا فیہ یختلفون اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشاء الی صراط مستقیم۔

” اور اللہ ، جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل کے رب ، زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے کھلی اور پوشیدہ ہر چیز کو جاننے والے ، تو فیصلہ کرنے والا ہے ان چیزوں کا جن میں لوگ اختلاف کرتے ہیں ، حق کی جن باتوں میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے ان کے بارے میں مجھے راہ راست کی طرف ہدایت کر ، بیشک تو جسے چاہتا ہے راہ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے “۔ انہوں نے غالباً یہ کہا کہ حضور ﷺ نماز کا آغاز اسی دعا سے کرتے تھے۔

اور جب آپ وتر پڑھتے تھے تو وتر سے فارغ ہونے کے بعد آپ سبحان اللہ القدوس تین بار پڑھتے تھے اور تین بار باآواز بلند پڑھتے تھے ۔ ذرا لمبی آواز کے ساتھ۔

آپ جب اپنے گھر سے نکلتے تھے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔

بسم اللہ توکلت علی اللہ اللھم انی اعوذ بک من ان اضل اواضل اوازل اواظلم اواظلم او اجھل اویجھل علی۔ (حدیث صحیح)

” اللہ کے نام سے شروع کیا ، اللہ پر بھروسہ کیا ، اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں گمراہ ہوجاﺅ، یا گمراہ کردیا جاﺅں یالغزش کروں یا میں ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے میں کسی سے جھگڑوں یا مجھ سے ناحق جھگڑا کیا جائے “۔

اور حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر سے نکلے وقت یہ دعا پڑھے۔

بسم اللہ توکلت علی اللہ ولا حول ولا قوة الا باللہ۔

” شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے ، میں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور نہیں ہے کوئی تدبیر اور کوئی قوت مگر اللہ کے ساتھ “۔ تو اللہ کی طرف سے ایسے شخص کو کہا جاتا ہے۔

ھدیت وکفیت ورفیت ” تمہیں راہ راست ملی ، تمہاری حاجت پوری ہوئی اور تمہیں پورا پورا اجر ملا “۔ اور شیطان اس کنارہ کش ہوجائے گا (حدیث حسن)

حضرت ابن عباس ؓ ایک رات آپ کے پاس رہے تو فرماتے ہیں کہ صبح کو جب آپ نماز کے لئے نکلے تو آپ نے یہ دعا پڑھی۔

اللھم اجعل قلبی نوراء واجعل فی لسانی نوراء واجعل فی سمعی نورا ، واجعل فی بصری نورا ، واجعل فی خلفی نورا ، ومن امامی نورا وجعل من فوقی نورا ، واجعل من تحتی نورا اللھم اعظم لی نورا۔

” اے اللہ ، میرے دل میں تو نوردے ، میری زبان کو منور کردے ، میرے کانوں میں نور ڈال دے ، میری آنکھوں میں روشنی کردے ، میرے پیچھے روشنی کردے ، میرے آگے روشنی کردے ، میرے اوپر روشنی کردے ، میرے نیچے روشنی کردے اور میرے نور کو عظیم کردے “۔

فضل ابن مرزوق نے عطیہ عوفی سے روایت کی ہے ، انہوں نے ابوسعید خدری سے ، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص بھی اپنے گھر سے نماز کے لئے نکلے اور یہ دعا پڑھے۔

اللھم انی اسئلک بحق السائلین علیک وبحق ممشائی الیک فائی لم اخراج بطور اولا اشراولا ریاء ولا سمعة وانما خرجت اتقاء سخطک وابتغاء مرضاتک اسئلک ان تنقذنی من النار وان تغفرلی ذنوبی فانہ لایغفرالذنوب الاانت۔

” اے اللہ میں تجھ سے ان سوال کرنے والوں کے حق کے ذریعہ سوال کرتا ہوں ، جو تجھ پر ہے ، پھر میری جانب سے تیری طرف چلنے کے حق سے سوال کرتا ہوں ، کیونکہ میں نہ غرور کرتا ہوا نکلا ہوں اور نہ اکڑتا ہوا نکلا ہوں ، نہ ریاکاری سے اور شہرت کی طلب میں نکلا ہوں۔ تیرے غضب سے بچنے کے لئے نکلا ہوں اور تیری رضاکا طلبگار ہوں ، میرا سوال یہ ہے کہ مجھے آگ سے بچا دے ، میرے گناہوں کو بخش دے ، گناہ بخشنے والا تو تو ہی ہے “۔ تو اللہ ستر ہزار فرشتے مقرر فرمائے گا جو اس کے لئے بخشش طلب کریں گے اور اللہ اس کی طرف اپنا چہرہ مبارک کرے گا جب تک وہ نماز ادا نہیں کرتا (یہ حدیث سندا ومتنا ضعیف ہے)

امام ابوداﺅد نے روایت کی ہے کہ حضور اکرم ﷺ جب بھی مسجد میں داخل ہوتے تو فرماتے۔

اعوذ باللہ العظیم وبوجھہ الکریم و سلطانہ القدیم من الشیطن الرجیم۔

” میں شیطان رجیم سے اللہ عظیم کی پناہ مانگتا ہوں ، اس کے مکرم چہرے کی پناہ مانگتا ہوں اور اس کے قدیم اقتدار میں پناہ مانگتا ہوں “۔ جب کوئی یہ دعا پڑھتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ اس شخص نے پورے دن کے لئے اپنے آپ کو مجھ سے محفوظ کرلیا۔

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : ” تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو ، تو چاہئے کہ وہ مجھ پر صلوٰة وسلام پڑھے اور اس کے بعد یہ دعا پڑھے۔

اللھم افتح لی ابواب رحمتک۔

” اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے “۔ اور جب مسجد سے نکلے تو یہ کہے۔

اللھم انی اسئلک من فضلک۔

” اے اللہ میں تیرے فضل کا سوالی ہوں “۔ اور آپ سے یہ نقول ہے کہ جب بھی آپ مسجد میں داخل ہوتے تو محمد اور آل محمد پہ صلوٰة وسلام بھیجتے اور پھر کہتے۔

اللھم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک۔

” اے اللہ میرے گناہ بخش دے اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لئے کھول دے اور جب آپ نکلتے تو پھر بھی حضرت محمد اور آل محمد پر صلوٰة وسلام بھیجتے اور پھر کہتے۔

اللھم اغفرلی ذنوبی وافتح لی باب رحمتک۔

” اے اللہ ! میرے گنہ معاف کردے اور میرے لئے اپنے فضل کا دروازہ کھول دے “۔

” حضور اکرم ﷺ کی عادت تھی کہ جب صبح کی نماز پڑھتے تو مصلے پر بیٹھتے اور اللہ کو یاد فرماتے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔ جب صبح ہوتی تو آپ فرماتے۔ :

اللھم بک اصبحنا وبک اسینا وبک نحیا وبک نموت والیک النشور (حدیث صحیح)

” اللہ تیرے ہی حکم سے ہم صبح تک پہنچتے ہیں اور تیرے ہی ختم سے ہماری شام ہوتی ہے اور تیرے ہی حکم سے ہم زندہ رہتے ہیں اور تیرے ہی حکم سے ہم مرتے ہیں اور تیرے ہی طرف ہم نے زندہ ہوکراٹھنا ہے “۔ اور آپ یہ کلمات بھی کہا کرتے تھے :

اصبحنا واصبح الملک للہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ وحد لاشریک لہ۔ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر۔ رب اسئلک خیر مافی ھذا الیوم وخیر مابعدہ واعوذبک من شر ھذا الیوم وشرمابعدہ رب اعوذبکمن الکس وسوء الکبر رب اعوذبک من عذاب فی النار و عذاب فی القبر۔

” ہم صبح میں داخل ہوئے اور تمام اقتدار اللہ کے لئے ہے ، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، اللہ کے سوا کوئی حاکم نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی کی بادشاہت ہے ، اس کی تعریف ہے اور وہ عر چیز پر قدرت رکھتا ہے اے اللہ میں تجھ سے اس دن کی بھلائی مانگتا ہوں اور اس کے بعد کے دن کی بھی اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس دن کے شر سے اور اس کے بعد کے دن کے شر سے اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے بڑھاپے کی کمزوریوں سے پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ میں آگ کے عذاب اور قبر کے عذاب سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں “۔ اور شام ہوتی تو آپ یہی دعا یوں پڑھتے :

امسینا وامسی الملک بعد ” ہم شام کے وقت تک پہنچے اور بادشاہت اللہ کے لئے ہے تاآخر (مسلم)

اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضور اکرم ﷺ سے پوچھا کہ مجھے ایسے کلمات بتائیے کہ میں صبح وشام کہوں تو آپ نے فرمایا یہ کلمات کہا کریں :

اللھم فاطر السموات والارض عالم الغیب والشھادة رب کل شئی ملیکة ومال کہ اشھد ان لا الہ الاانت۔ اعوذبک من شر نفسی وشر الشیطن وشرکہ وان اقترف علی نفسی سو اور اجرہ الی مسلم ۔

” اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ظاہر اور غیب کے جاننے والے ، ہر چیز کے رب حکمران اور مالک ، میں شہادت دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ میں اپنے نفس اور شیطان کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور اس سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے نفس کو نقصان پہنچاﺅں یا کسی مسلمان کی طرف نقصان کا رخ کروں “۔ اس کے بعد اس باب میں انہوں نے بہت سی احادیث نقل کیں۔

” اور حضور اکرم ﷺ جب نیا کپڑاپہنتے تھے تو اس کا نام لیتے تھے یعنی پاجامہ ، قمیص اور چادر پھر یہ پڑھتے تھے۔

اللھم لک الحمد انت کسوتنیہ اسئلک خیرہ وخیر ماصنع لہ واعوذبک من شرہ وشرما صنع لہ۔

” اے اللہ ، سب تعریفیں تیرے لئے ہیں۔ یہ تونے مجھے پہنایا ہے۔ میں تجھ ہی سے اس کی بھلائی چاہتا ہوں اور اس مقصد کی بھلائی چاہتا ہوں جس کے لئے یہ بنا اور تجھ ہی سے اس کے شر اور اس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جس کے لئے اسے بنایا گیا “۔ (حدیث صحیح)

” آپ سے یہ بھی منقول ہے کہ جب آپ اپنے گھر کو لوٹتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔

الحمدللہ الذی کفانی واوانی والحمدللہ الذی اطعمنی وسقانی والحمد للہ الذی من علی اسئلک ان تجیرنی من النار۔

” اس خدا کی تعریف جو میرے لئے کافی ہو اور جس نے مجھے ٹھکانا دیا۔ اس خدا کی تعریف جس نے مجھے کھلایا پلایا ، اس خدا کی تعریف جس نے مجھ پر احسان کیا۔ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تم مجھے آگ سے بچا “۔

اور صحیحین میں یہ روایت مروی ہے کہ آپ جب بیت الخلا کو جاتے تھے تو یہ فرماتے۔

اللھم انی اعوذبک میں الخبث والخبائث۔

” اے اللہ میں گندی چیزوں اور گندی باتوں سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں “۔ اور جب آپ بیت الخلاء سے نکلتے تھے فرماتے۔

غفرانک ” اے اللہ میں تیری مغفرت طلب کرتا ہوں “۔ اور یہ بھی آتا کہ آپ یہ الفاظ فرماتے۔

الحمد للہ الذی اذھب عینی الاذی وعافانی۔

” اللہ کا شکر ہے کہ جس نے مجھ سے تکلیف وہ چیز دور کردیا اور عافیت بخشی “۔ (ابن ماجہ)

اور آپ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے اپنا دست مبارک ایک برتن میں ڈالا جس میں پانی تھا اور پھر صحابہ ؓ سے کہا ، اللہ کے نام سے وضوکرو اور آپ سے بھی منقول ہے کہ آپ چاند دیکھتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے۔

اللھم اھلہ علینا بالا من والا ایمان والسلامة والاسلام ربی وربک اللہ۔

” اے اللہ ! اس چاند کو ہم پر امن ، ایمان ، سلامتی اور اسلام کے ساتھ نکال۔ اے چاند میرا رب تیرا رب اللہ ہے “۔ (ترمذی)

اور جب آپ کھانے میں ہاتھ ڈالتے تو بسم اللہ پڑھتے اور لوگوں کو حکم دیتے کہ بسم اللہ کہہ کر کھاﺅ، اور فرماتے جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اس پر اللہ کا نام لے ، اگر وہ بھول جائے اور آغاز میں نہ کہہ سکے تو یوں کہے۔

بسم اللہ فی اولہ واخرہ۔

” اللہ کے نام سے آغاز میں بھی اور آخر میں بھی “۔ (صحیح)

یہ تھی حضور ﷺ کی زندگی اور اس پوری زندگی میں آپ اس ہدایت پر عمل پیرا تھے جو آغاز وحی میں کی گئی تھی۔ اور آپ کا ایمان ، آپ کے نظریات اور آپ کے افعال وحرکات میں یہ بات رچ بس گئی تھی۔

اس حقیقت کے تقاضے تو یہ تھے کہ انسان اللہ کی معرفت حاصل کرتا اور اللہ کا شکر ادا کرتا ، یعنی اس حقیقت پر کہ اللہ نے اسے پیدا کیا ، اس نے علم سکھایا ، اور اسے تمام مخلوقات میں مکرم بنایا ، لیکن انسان نے ایسا نہ کیا بلکہ وہ اس سے بالکل الٹا چلا اور اس کا انحراف اور اس کی خلاف توقع حرکت کا ذکر اگلے پیراگراف میں کیا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، انسان سرکشی کرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla inna alinsana layatgha

انسان یہ نہیں سوچتا کہ اسے دینے والا اور غنی کرنے والا تو اللہ ہی ہے۔ اس سے قبل اسے پیدا بھی اللہ نے کیا اور تمام مخلوقات سے مکرم بھی بنایا اور اسے تعلم بھی دی لیکن انسان کا عمومی رویہ یہ ہے کہ جب اسے دیا جاتا ہے اور غنی بنا دیا جاتا ہے تو یہ بالمعموم شکر رب ادا نہیں کرتا الایہ کہ کسی کو اس کا ایمان اس ناشکری سے بچادے۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو اس سرچشمے کا احساس بھی نہیں ہوتا جس سے یہ عطا اور غنا آرہی ہوتی ہے ، حالانکہ اس کو دینے والا اور غنی بنانے والا وہی ہوتا ہے جس نے اسے پیدا کیا ، عزت بخشی اور علم دیا۔ لیکن انسان نہ صرف یہ کہ اس منعم کا احساس مند نہیں ہوتا بلکہ وہ نہایت سرکشی اور فسق وفجور کی راہ اختیار کرتا ہے بغاوت کرتا ہے اور تکبر کرتا ہے جبکہ اس کا حق یہ تھا کہ وہ اللہ کے انعامات کو جانتا اور شکر کرتا۔

یہ ایک سرکش انسان کی تصویر کھینچ دی گئی جو اپنی تخلیق کو بھی بھول چکا ہے اور جس کو دوبت مندی نے سخت بگاڑدیا ہے ، تو ایک ملفوف اور بالواسطہ انداز میں اسے دھمکی دی جاتی ہے۔

اردو ترجمہ

اِس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

An raahu istaghna

اردو ترجمہ

پلٹنا یقیناً تیرے رب ہی کی طرف ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna ila rabbika alrrujAAa

ان الی ........................ الرجعی (8:96) ” بیشک پلٹنا تیرے رب کی طرف ہی ہے “۔ آخر یہ غافل اور سرکش بھاگے گا کہاں ، آخر آنا تو اللہ ہی کے سامنے ہے۔

لکن اس تہدید کے ساتھ ساتھ اسلامی تصور حیات کا ایک بنیادی اصول اور نظریہ بھی پیش کردیا جاتا ہے ، یہ کہ سب نے اللہ کے دربار میں حاضر ہونا ہے۔ سب نے اللہ کی طرف لوٹنا ہے ، ہر چیز میں ہر بات کے حوالے سے ، ہر نیت و ارادہ میں اور ہر فعل و حرکت میں ، کیونکہ اللہ کے سوا اور کوء یجائے پناہ اور مرجع ہے ہی نہیں۔ اگر کوئی نیک ہے یا بد ہے ، سب نے اللہ کے سامنے جانا ہے۔ اگر کوئی فرمان بردار ہے یا معصیت کیش ہے ، حق پر ہے یا باطل پر ہے ، اچھا ہے ، یا شریر ہے۔ غنی ہے یا فقیر ہے۔ سب نے اللہ ہی کے سامنے جانا ہے۔ یہ شخص جس نے اپنے آپ کو غنی سمجھ کر سرکشی کی یہ بھی اپنے آپ کو اللہ کے سامنے باندھا ہوا پائے گا۔ لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اللہ کے سامنے پیش ہونے کے وقت کے لئے کچھ کرے۔ کیونکہ وہی خالق ہے اور اس کی طرف لوٹنا ہے۔ اس طرح ان دوپیراگرافوں میں اسلامی نظریات و عقائد کے دونوں سرے لے لئے جاتے ہیں ، یعنی اسلام کا نظریہ آغاز حیات اور نشوونما ، پھر اسلام کا نظریہ تعلیم وتربیت اور تہذیب وشائستگی اور پھر اللہ کی طرف لوٹنا اور عقیدہ وحشر ونشر اور حساب و کتاب کے لئے اللہ کے سامنے جانا ہے اور وہاں سب اختیارات اللہ کے ہوں گے۔

ان الی ربک الرجعی (8:96) ” بیشک تیرے رب ہی کی طرف پلٹنا ہے “۔

اب تیسرا پیراگراف آتا ہے ، سورة بہت ہی مختصر ہے ، لیکن یہاں سرکشی ایک نہیایت واضح اور گھناﺅنی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ انسانی انگشت بدنداں رہ جاتا ہے اور ایسے واقعات کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ یہ تصویر کشی قرآن کے منفرد انداز میں ہے۔

اردو ترجمہ

تم نے دیکھا اُس شخص کو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Araayta allathee yanha

قرآن اس تصویر کو نہایت ہی گھناﺅنی شکل میں لیکن نہایت ہی واضح انداز میں پیش کرتا ہے۔ انداز قرآن کا اپنا ہے ، جسے کوئی ادیب تحریری انداز نہیں دے سکتا۔ یہ ایک زندہ اور تابندہ تقریری انداز ہے جس میں نہایت ہی مختصر جھلکیوں کی شکل میں ، نہایت آسانی اور ہلک پھلکے انداز میں اور نہایت ہی تیز رفتار فلم کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔

ارءیت ” کیا تم نے دیکھا ؟ “۔ اس قسم کا مکروہ منظر بھی کبھی نظروں سے گزرا ہے۔ کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ یوں بھی ہوسکتا ہے۔

ارءیت ........................ صلی (10:96) ” تم نے دیکھا اس شخص جو ایک بندے کو منع کرتا ہے جبکہ وہ نماز پڑھنے سے “۔ تم دیکھتے نہیں کہ یہ کس قدر برا اور شنیع فعل ہے۔ سخت گھناﺅنا فعل ہے کہ ایک شخص خدا کی عبادت کررہا ہے اور دوسرا اسے عبادت کرنے سے روک رہا ہے۔ پھر صورت یہ ہو کہ وہ شخص راہ راست پر ہو ، اور لوگوں کو تقویٰ خدا خوفی اور اچھی باتوں کی ہدیات دے رہا ہو ، اور روکنے والا اسے روک رہاہو۔

پھر اس پر مزید کہ وہ یہ فعل ، نہایت ہی گناﺅنا فعل بھی کررہا ہے اور اس کے ساتھ اس سے بھی برے فعل کا ارتکاب کرہرا ہے۔

اردو ترجمہ

جو ایک بندے کو منع کرتا ہے جبکہ وہ نماز پڑھتا ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAabdan itha salla

اردو ترجمہ

تمہارا کیا خیال ہے اگر (وہ بندہ) راہ راست پر ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Araayta in kana AAala alhuda

اردو ترجمہ

یا پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aw amara bialttaqwa

اردو ترجمہ

تمہارا کیا خیال ہے اگر (یہ منع کرنے والا شخص حق کو) جھٹلاتا اور منہ موڑتا ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Araayta in kaththaba watawalla

ارءیت .................... وتولی (13:96) ” تمہارا کیا خیال ہے اگر (یہ منع کرنے والا شخص حق کو) جھٹلاتا اور منہ موڑتا ہو “۔ یہاں بھی ایک بالواسطہ اور درپردہ دھمکی دی جاتی ہے جس طرح سابقہ پیرگراف کے آخر میں دی گئی تھی۔

اردو ترجمہ

کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam yaAAlam bianna Allaha yara

الم ........................ یری (14:96) ” کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے “۔ اللہ دیکھ رہا ہے کہ یہ شخص ناحق تکذیب کررہا ہے اور ناحق منہ موڑ رہا ہے اور یہ بندہ مومن نبی ﷺ کو ناحق نماز سے بھی روکتا ہے جبکہ نبی ﷺ ہدایت پر ہیں اور تقویٰ کا حکم دیتے ہیں اور آخرت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

الم ........................ یری (14:96) ” کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے “۔ یہ ایک منظر ہے جس میں ایک شخص دعوت اسلامی کی راہ رو کھڑا ہے ، ایمان کی راہ رو کے ہوئے ہے۔ اطاعت وتقویٰ کی راہ روکے ہوئے ہے۔ ایسے شخص کو اب آخری دھمکی دی جاتی ہے لیکن اس بات پر کھلی دھمکی ہے بغیر لاگ لپیٹ کے۔

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر اسے کھینچیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla lain lam yantahi lanasfaAAan bialnnasiyati

یہ ایک واضح اور براہ راست دھمکی ہے اور ہے بھی شدید الفاظ میں۔

کلالئن ........................ بالنا صیة (15:96) “” ہرگز نہیں ! اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر کھینچیں گے “۔ یوں

لنسفعاکا تلفظ بھی شدید اور اس کی آواز بھی سختی اس کے مفہوم کی سختی پر دلالت کرتی ہے۔ سفع کے معنی سختی سے پکڑنے کے ہیں۔ ناصیہ کا مفہوم ہے پیشانی۔ پیشانی سرکشوں اور متکبرین کے اظہار کبر کے لئے اونچا مقام ہے۔ ایسے لوگ سر کو بلند رکھتے ہیں اور سر کی بلندی کے وقت پھر پیشانی سے بلند ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسی پیشانی کو پکڑ کر گرانا ہی مناسب ہے۔ کیونکہ

اردو ترجمہ

اُس پیشانی کو جو جھوٹی اور سخت خطا کار ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Nasiyatin kathibatin khatiatin

ناصیة کاذبة (16:96) ” یہ جھوٹی پیشانی ہے “۔ اور یہ چونکہ پکڑ دھکڑ کا مقام ہے اور ایسے مواقع پر لوگ یاروں مددگاروں کو بلاتے ہیں تو کہہ دیا گیا۔

اردو ترجمہ

وہ بلا لے اپنے حامیوں کی ٹولی کو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FalyadAAu nadiyahu

فلیدع نادیہ (17:96) ” وہ بلائے اپنے حامیوں کے ٹولے کو “۔ ہم بھی انتظام کرلیں گے۔

اردو ترجمہ

ہم بھی عذاب کے فرشتوں کو بلا لیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

SanadAAu alzzabaniyata

سندع الزبانیة (18:96) ” ہم بھی فرشتوں کو بلالیں گے “۔ جو بہت سخت خو اور سخت گرفت والے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے معرکے کا انجام ان کی خواری ہی ہوگا۔

یہ سورة ایسے متوقع اور خوفناک منظر پر ختم ہوتی ہے۔ اس منظر پر اہل ایمان کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ایمان اور اسلام پر ثابت قدم رہیں اور اللہ کے احکام کی اطاعت کرتے رہیں۔

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، اُس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla la tutiAAhu waosjud waiqtarib

یعنی یہ سرکش جو تمہیں نماز سے روکتا ہے ، اس کی اطاعت نہ کرو ، یہ جو دعوت اسلامی کی راہ روکتا ہے ، اس کی مزاحمت کرو ، رب کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اس کا قرب حاصل کرو۔ انسان صرف عبادت اور اطاعت کے ذریعہ ہی خدا کے قریب ہوتا ہے۔ ایسے سرکشوں کو نظر انداز کردو ، اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی قوتیں اس سے نمٹ لیں۔

روایات صحیحہ میں یہ بات مذکور ہے کہ اس سورت کے پہلے پیراگراف کے علاوہ اگلا پورا حصہ ابوجہل کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ یہ جب خانہ کعبہ میں آیا تو حضور مقام ابراہیم پر نماز پڑھ رہے تھے۔ تو اس نے کہا اے محمد کیا میں نے تم کو اس سے روکا نہ تھا ، اس نے رسول اللہ ﷺ کو دھمکی دی اور حضور نے بھی اس کو خوب ڈانٹا۔ اور شاید اس موقعہ پر حضور ﷺ نے اس کو گلے سے پکڑ کر کہا۔

اولی لک فاولی (باز آجاﺅ ورنہ ....) اور اس نے کہا ، اے محمد تم مجھے کس چیز کی دھمکی دیتے ہو ، خدا کی قسم اس وادی میں میرے دوست ویار سب سے زیادہ ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

فلیدع نادیہ (17:96) ” یہ اپنے یارومددگار بلائے “۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اگر اس وقت یہ اپنے حامیوں کو بلاتا تو عذاب کے فرشتے اسی وقت ان کو دبوچ لیتے۔

لیکن اس سورت کا مفہوم عام ہے۔ ہر مومن اور مطیع فرمان داعی الی اللہ اور ان کے مقابل آنے والے سرکش اور نافرمان پر یہ سورت صادق آتی ہے۔ ہر وہ باغی جو لوگوں کو نماز سے روکتا ہے اور اللہ کی اطاعت شعاری سے منع کرتا ہے اور نیکی کے خلاف سازشیں کرتا ہے ، اس کے لئے یہ دھمکی تیار ہے۔ آخری ہدایت یہ ہے۔

کلا لا ........................ واقترب (19:96) ” ہرگز نہیں اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو ، اور اللہ کا قرب حاصل کرو “۔ اس تفسیر کے مطابق سورت کے تمام پیراگراف باہم مربوط ہوجاتے ہیں۔

597