سورۃ البلاد (90): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Balad کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البلد کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البلاد کے بارے میں معلومات

Surah Al-Balad
سُورَةُ البَلَدِ
صفحہ 594 (آیات 1 سے 20 تک)

لَآ أُقْسِمُ بِهَٰذَا ٱلْبَلَدِ وَأَنتَ حِلٌّۢ بِهَٰذَا ٱلْبَلَدِ وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ لَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ فِى كَبَدٍ أَيَحْسَبُ أَن لَّن يَقْدِرَ عَلَيْهِ أَحَدٌ يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا أَيَحْسَبُ أَن لَّمْ يَرَهُۥٓ أَحَدٌ أَلَمْ نَجْعَل لَّهُۥ عَيْنَيْنِ وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ وَهَدَيْنَٰهُ ٱلنَّجْدَيْنِ فَلَا ٱقْتَحَمَ ٱلْعَقَبَةَ وَمَآ أَدْرَىٰكَ مَا ٱلْعَقَبَةُ فَكُّ رَقَبَةٍ أَوْ إِطْعَٰمٌ فِى يَوْمٍ ذِى مَسْغَبَةٍ يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ ثُمَّ كَانَ مِنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَتَوَاصَوْا۟ بِٱلصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا۟ بِٱلْمَرْحَمَةِ أُو۟لَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلْمَيْمَنَةِ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِـَٔايَٰتِنَا هُمْ أَصْحَٰبُ ٱلْمَشْـَٔمَةِ عَلَيْهِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَةٌۢ
594

سورۃ البلاد کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البلاد کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

نہیں، میں قسم کھاتا ہوں اِس شہر کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La oqsimu bihatha albaladi

آیت 1{ لَآ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ۔ } ”نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔“ اس آیت میں بھی لَآ اُقْسِمُکا مفہوم بالکل وہی ہے جو اس سے پہلے ہم سورة القیامہ کی پہلی اور دوسری آیات یا سورة الانشقاق کی آیت 16 میں پڑھ چکے ہیں۔ یعنی ان آیات میں لَا نافیہ نہیں ہے بلکہ مخاطبین کے خیالاتِ باطلہ کے ابطال کے لیے ہے۔ چناچہ سورة القیامہ کی پہلی آیت { لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ } کا اگر ہم انگریزی ترجمہ کریں تو ہم کہیں گے : Nay , - swear by the Day of Judgement ! دراصل انگریزی میں تو Nay کے بعد کو ما , آجانے سے مفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے ‘ لیکن عربی میں چونکہ ”کو ما“ وغیرہ کا استعمال نہیں ہوتا اس لیے سننے یا پڑھنے والا لَآ اُقْسِمُ کا مفہوم یوں بھی سمجھ سکتا ہے کہ ”میں قسم نہیں کھاتا“۔ بہرحال اس آیت کا مفہوم یہی ہے کہ جو کچھ تم لوگ کہہ رہے ہو وہ درست نہیں ‘ بلکہ میں اس شہر یعنی مکہ مکرمہ کی قسم کھاتا ہوں کہ تمہارے خیالات و نظریات باطل ہیں۔ آگے چل کر واضح ہوجائے گا کہ یہاں مکہ مکرمہ کی قسم کیوں کھائی جا رہی ہے۔

اردو ترجمہ

اور حال یہ ہے کہ (اے نبیؐ) اِس شہر میں تم کو حلال کر لیا گیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanta hillun bihatha albaladi

آیت 2{ وَاَنْتَ حِلٌّم بِہٰذَا الْبَلَدِ۔ } ”اور اے نبی ﷺ ! آپ حلال کرلیے گئے ہیں اس شہر میں۔“ کچھ مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ یوں بھی کیا ہے کہ ”آپ کے لیے حلال ہوجائے گا یہ شہر“۔ یعنی اگرچہ یہ بلد الحرام ہے ‘ یہاں خونریزی وغیرہ کی اجازت نہیں ‘ لیکن ایک وقت آئے گا کہ آپ ﷺ کو اس کی اجازت مل جائے گی ‘ جیسے فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ حضور ﷺ کے لیے حلال کردیا گیا اور اس دن لشکرکشی کے دوران مسلح تصادم کے اکا دکا واقعات بھی ہوئے۔ البتہ میرے نزدیک آیت کا اصل مدعا اور مفہوم وہی ہے جو میں نے ترجمے میں اختیار کیا ہے کہ اے نبی ﷺ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس بلد الحرام میں آپ ﷺ کی عزت پر حملے ہو رہے ہیں ‘ آپ ﷺ کی عزت نفس کو مجروح کیا جا رہا ہے ‘ آپ ﷺ کو مسلسل ستایا جا رہا ہے۔ اس وادی غَیْر ذِی زَرْعٍ کے ماحول میں جہاں معمول کی زندگی بھی سراپا مشقت ہے وہاں اہل شہر کی مخالفت نے آپ ﷺ کے لیے زندگی کو مزید کٹھن اور مشکل بنا دیا ہے۔ چناچہ دعوت حق کی جدوجہد میں مسلسل سختیاں برداشت کرتے ہوئے آپ ﷺ کی زندگی کے شب و روز کی اس وقت جو صورت حال اور کیفیت ہے ‘ ہم اس کی قسم کھا رہے ہیں۔

اردو ترجمہ

اور قسم کھاتا ہوں باپ کی اور اس اولاد کی جو اس سے پیدا ہوئی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wawalidin wama walada

آیت 3{ وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ۔ } ”اور قسم ہے والد کی اور اولاد کی۔“ اس قسم میں اس مشقت اور ذمہ داری کی طرف اشارہ ہے جو ایک والد کو اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت وغیرہ کے حوالے سے برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اب اگلی آیت میں اس حقیقت یعنی مقسم علیہ کا ذکر ہے جس پر یہ قسمیں کھائی جا رہی ہیں :

اردو ترجمہ

درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad khalaqna alinsana fee kabadin

آیت 4{ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ۔ } ”بیشک ہم نے انسان کو پیدا ہی محنت اور مشقت میں کیا ہے۔“ سورة الانشقاق میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : { یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ۔ } ”اے انسان ! تو مشقت پر مشقت برداشت کرتے جا رہا ہے اپنے رب کی طرف ‘ پھر تو اس سے ملنے والا ہے“۔ انسانی زندگی کے بارے میں یہ تلخ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس دنیا میں کوئی انسان جیسا ہے جہاں ہے ‘ غریب ہے ‘ امیر ہے ‘ صاحب اقتدار ہے ‘ فقیر ہے ‘ کلفت ‘ مشقت ‘ کو فت ‘ پریشانی اس کا مقدر ہے۔ کوئی انسان جسمانی محنت کے ہاتھوں بےحال ہے تو کوئی ذہنی مشقت کی وجہ سے پریشان۔ کوئی جذباتی اذیت سے دوچار ہے تو کوئی نفسیاتی خلفشار کا شکار ہے۔ کوئی کوڑی کوڑی کا محتاج ہے تو کسی کے لیے دولت کے انبار وبال جان ہیں ‘ کسی کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں تو کوئی مخملی گدیلوں پر لیٹا نیند کو ترستا ہے۔ غرض مختلف انسانوں کی مشقت کی کیفیت ‘ نوعیت اور شدت تو مختلف ہوسکتی ہے مگر مشقت اور پریشانی سے چھٹکارا جیتے جی کسی کو بھی نہیں ہے۔ بقول غالب ؎قید ِحیات و بند ِغم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں !بظاہر تو یہ صورت حال بھی بہت گھمبیر محسوس ہوتی ہے ‘ لیکن انسان کی اصل مشکل اس سے کہیں بڑی ہے اور وہ مشکل یہ ہے کہ اسے دنیوی زندگی میں پیش آنے والی یہ تمام پریشانیاں اور سختیاں بھی سہنی ہیں اور اس کے بعد اپنے ربّ کے حضور پیش ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب بھی دینا ہے۔ سورة الانشقاق کی مذکورہ آیت میں اسی ”ملاقات“ کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے انسان کی قسمت کا حتمی فیصلہ تو اسی ملاقات میں ہونا ہے۔ اس ساری صورتحال میں انسان کی اصل مشقت ‘ اصل مشکل اور اصل ٹریجڈی کا اندازہ لگانا ہو تو ایک ایسے انسان کا تصور کریں جو زندگی بھر ”دنیا“ حاصل کرنے کے جنون میں کو لہو کا بیل بن کر محنت و مشقت کی چکی ّمیں ِپستا اور طرح طرح کی ذہنی و نفسیاتی اذیتوں کی آگ میں جلتا رہا۔ پھر مشقتوں پر مشقتیں برداشت کرتا اور تکلیفوں پر تکلیفیں جھیلتا یہ انسان جب اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوا تو اس کا دامن مطلوبہ معیار و مقدار کی نیکیوں سے خالی تھا۔ چنانچہ اس عدالت سے اسے دائمی سزا کا حکم ہوا : { وَیَصْلٰی سَعِیْرًا۔ } الانشقاق اور اس کے بعدا سے جہنم میں جھونک دیا گیا۔۔۔۔ ہمیشہ ہمیش کے لیے ! یہ ہے انسان کی اصل مشکل اور اصل ٹریجڈی جس کا تصور بھی روح فرسا ہے۔ چناچہ ہر انسان کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ : اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ؟

اردو ترجمہ

کیا اُس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اُس پر کوئی قابو نہ پا سکے گا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ayahsabu an lan yaqdira AAalayhi ahadun

آیت 5{ اَیَحْسَبُ اَنْ لَّـنْ یَّـقْدِرَ عَلَیْہِ اَحَدٌ۔ } ”کیا یہ سمجھتا ہے کہ اس کے اوپر کوئی قابو نہیں پاسکے گا ؟“ مشقت میں پڑے ہوئے انسان کا حال دیکھو۔ اس حالت میں بھی وہ غرور کرتا ہے۔ ابوجہل کو دیکھو کیسے اکڑا ہوا ہے۔۔۔ مقامِ غور ہے ! چاروں طرف سے مصائب و مشکلات میں گھرے ہوئے انسان کا اپنے خالق اور مالک کے سامنے یہ حال ہے تو اگر اس کے لیے دنیا میں آسانیاں ہی آسانیاں ہوتیں تو پھر یہ اللہ تعالیٰ سے کیسی کیسی بغاوتیں کرتا اور مخلوقِ خدا پر کیا کیا ستم ڈھاتا !

اردو ترجمہ

کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yaqoolu ahlaktu malan lubadan

آیت 6{ یَـقُوْلُ اَہْلَکْتُ مَالًا لُّـبَدًا۔ } ”کہتا ہے میں نے تو ڈھیروں مال خرچ کر ڈالا۔“ اس فقرے میں سردارانِ قریش کی ذہنیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ لوگ بھلائی اور نیکی کے کام اکثر و بیشتر جذبہ مسابقت کے تحت کرتے تھے اور پھر اپنی نیکیوں کا خوب چرچا کرتے اور شیخیاں بگھارتے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں سے اکثر لوگوں کے ایمان نہ لانے کا سبب بھی یہی جذبہ مسابقت تھا۔ ظاہر ہے وہ لوگ حضور ﷺ کو اپنے خاندان کے مدمقابل خاندان کا ایک فرد سمجھتے تھے اور اس حیثیت سے آپ ﷺ کے سامنے سرتسلیم خم کرنا انہیں کسی قیمت پر گوارا نہیں تھا۔ اس حوالے سے ابوجہل کا اقراری بیان تو تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ کیا تمہارے خیال میں محمد ﷺ جھوٹے ہیں ؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں ‘ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس پر پوچھنے والے نے سوال کیا کہ پھر تم ان ﷺ پر ایمان کیوں نہیں لے آتے ؟ اس پر اس نے جو جواب دیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے خاندان کا بنوہاشم کے ساتھ پشتوں سے مقابلہ چلا آ رہا ہے۔ انہوں نے غرباء کو کھانے کھلائے تو ہم نے ان سے بڑھ کر کھانے کھلائے۔ اگر وہ ُ حجاج ّکی خدمت کرنے میں پیش پیش رہے تو اس میدان میں بھی ہم نے انہیں آگے نہیں نکلنے دیا۔ یوں اب تک ہم ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے چلے آ رہے ہیں۔ اب اگر ہم ان کی نبوت کو تسلیم کرلیں تو ہم ہمیشہ کے لیے ان کے غلام بن جائیں گے اور یہ صورت حال کم از کم مجھے کسی قیمت پر قابل قبول نہیں۔ آیت زیر مطالعہ میں سردارانِ قریش کے اسی طرزعمل کی تصویر دکھائی گئی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی شخص کبھی بھلائی کا کوئی کام سرانجام دے لیتا ہے تو جگہ جگہ اس کا تذکرہ کرتا اور شیخیاں بگھارتا پھرتا ہے کہ فلاں کام میں میں نے ڈھیروں مال کھپا ڈالا ہے۔

اردو ترجمہ

کیا وہ سمجھتا ہے کہ کسی نے اُس کو نہیں دیکھا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ayahsabu an lam yarahu ahadun

آیت 7{ اَیَحْسَبُ اَنْ لَّـمْ یَرَہٗٓ اَحَدٌ۔ } ”کیا اس کا گمان ہے کہ اسے کسی نے دیکھا نہیں ؟“ کیا وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہر شخص کے ایک ایک عمل سے واقف ہے اس کی اس نیکی سے وہ بیخبر ہے۔ یعنی اگر تو اس نے وہ نیکی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کی تھی تو پھر وہ اس کا ڈھنڈھورا کیوں پیٹ رہا ہے ؟

اردو ترجمہ

کیا ہم نے اُسے دو آنکھیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam najAAal lahu AAaynayni

اردو ترجمہ

اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walisanan washafatayni

اردو ترجمہ

اور دونوں نمایاں راستے اُسے (نہیں) دکھا دیے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahadaynahu alnnajdayni

آیت 10{ وَہَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ۔ } ”اور ہم نے اس کو راہ دکھلا دی دو گھاٹیوں کی۔“ عام مفسرین کے نزدیک دو گھاٹیوں سے مراد نیکی اور بدی کے دو راستے ہیں۔ البتہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس سے ماں کی دو چھاتیاں مراد ہیں۔ نجد کے لغوی معنی ابھری ہوئی چیز کے ہیں۔ بلند سطح پر جو راستہ ہو اس کو بھی نجد کہتے ہیں۔ چناچہ ”النَّجْدین“ کے معنی ”دو بلند واضح راستے“ بھی ہوسکتے ہیں اور ”دواُبھار“ بھی۔ اور مجھے موخر الذکر رائے زیادہ پسند ہے۔ انسان کی زبان ‘ اس کے دو ہونٹوں اور پھر ماں کی چھاتیوں کے ذکر کے حوالے سے دراصل یہاں انسان کی اس جبلی اور پیدائشی ہدایت کا ذکر مقصود ہے جس کے بارے میں ہم سورة الاعلیٰ کی آیت { وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی۔ } میں پڑھ آئے ہیں۔ ظاہر ہے ایک بچہ اپنی پیدائش کے فوراً بعد نہ صرف ماں کے دودھ کی تلاش شروع کردیتا ہے بلکہ جونہی اس کی رسائی ماں کی چھاتیوں تک ہوتی ہے تو وہ دودھ چوسنے بھی لگتا ہے۔ اس نومولود کو آخر اپنی غذا کی تلاش کا یہ شعور کس نے دیا ہے ؟ اور اس مرحلے پر زبان اور ہونٹوں کے اس خاص استعمال کا طریقہ اسے کس نے سکھایا ہے ؟ ظاہر ہے یہ شعور ‘ یہ آگہی اور یہ ہدایت اس کی اس فطرت اور جبلت کا حصہ ہے جو اسے اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے اور اس اعتبار سے بچے کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

اردو ترجمہ

مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fala iqtahama alAAaqabata

اردو ترجمہ

اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama adraka ma alAAaqabatu

اردو ترجمہ

کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fakku raqabatin

آیت 13{ فَکُّ رَقَـبَۃٍ۔ } ”کسی گردن کا چھڑا دینا۔“ یعنی مال خرچ کر کے کسی غلام کو آزاد کرا دینا ‘ یا کسی مقروض کا قرض ادا کردینا۔

اردو ترجمہ

یا فاقے کے دن

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aw itAAamun fee yawmin thee masghabatin

آیت 14{ اَوْ اِطْعٰـمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ۔ } ”یا کھانا کھلا دینا بھوک کے دن میں۔“ یعنی کسی شخص کا قحط سالی کے دوران بھوکوں کو کھانا کھلانا۔ خصوصی طور پر ایسی صورت حال میں جب اسے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضرورت کا خیال بھی پریشان کیے دے رہا ہو۔

اردو ترجمہ

کسی قریبی یتیم

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yateeman tha maqrabatin

اردو ترجمہ

یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aw miskeenan tha matrabatin

آیت 16{ اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ۔ } ”یا اس محتاج کو جو مٹی میں رُل رہا ہے۔“ یہ وہ فلسفہ ہے جس پر سورة الحدید کے مطالعہ کے دوران تفصیل سے گفتگو ہوچکی ہے۔ یہ مشکل گھاٹی دراصل ُ حب ِمال کی وہ چٹان ہے جو متعلقہ انسان کے لیے بھلائی کے راستے کو مسدود کیے کھڑی ہے۔ سورة الحدید کی آیت 18 کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے اسے گاڑی کی بریک سے تشبیہہ دی تھی۔ چناچہ مذکورہ گھاٹی کو عبور کرنے یا گاڑی کی بریک کو کھولنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے مال کو اللہ کی رضا کے لیے محتاجوں اور ناداروں کی مدد کرنے اور بھلائی کے دوسروں کاموں پر دل کھول کر خرچ کرے۔ یعنی مال کی محبت کی آلودگی کو دل سے صاف کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اپنے پیارے مال کو اللہ تعالیٰ کی محبت پر قربان کردیا جائے۔ یاد رکھیں ! حب مال کی گندگی کو دل سے نکالے بغیر انسان کو ایمان کی حلاوت نصیب نہیں ہوسکتی۔ اس مضمون کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو سورة الحدید آیات 17 تا 20 کی تشریح۔

اردو ترجمہ

پھر (اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی اُن لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلق خدا پر) رحم کی تلقین کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma kana mina allatheena amanoo watawasaw bialssabri watawasaw bialmarhamati

آیت 17{ ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا } ”پھر وہ شامل ہو ان لوگوں میں جو ایمان لائے“ یہاں پر لفظ ثُمَّ بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ یعنی پہلے انسان اس مشکل گھاٹی کو عبور کرے ‘ اپنے دل کی زمین میں انفاق فی سبیل اللہ کا ہل چلائے ‘ اس کے ذریعے سے دل کی زمین سے حب مال کا جھاڑ جھنکاڑ صاف کرے ‘ اور پھر ثُمَّ اس میں ایمان کا بیج ڈالے۔ اگر وہ اس ترتیب اور اس انداز سے محنت کرے گا تو تبھی ایمان کا پودا اس کے دل کی زمین میں اپنی جڑیں پھیلائے گا اور برگ و بار لائے گا۔ { وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ۔ } ”اور جنہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی اور باہم ایک دوسرے کو ہمدردی کی نصیحت کی۔“ یہ مضمون سورة العصر میں بایں الفاظ آیا ہے : { اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔ } ”سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کیے ‘ اور باہم ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی“۔ الفاظ اور مفہوم کے اعتبار سے ان دونوں آیات میں گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ البتہ دونوں جگہ مذکور اصطلاحات کی ترتیب مختلف ہے۔ سورة العصر کی اس آیت میں ایمان کے بعد عمل صالح کا بیان ہے جبکہ آیت زیر مطالعہ میں عمل صالح غرباء و مساکین اور یتیموں کے حقوق کی ادائیگی کے بعد ایمان کا ذکر ہے۔ سورة العصر میں تواصی بالحق کے بعد تواصی بالصبر کا تذکرہ ہے ‘ جبکہ یہاں پر پہلے تواصی بالصبر اور بعد میں تواصی بالمرحمہ کا ذکر آیا ہے۔ اس پہلو سے دونوں آیات کے تقابلی مطالعہ سے بہت سے حقائق و رموز کی نشاندہی ہوتی ہے۔

اردو ترجمہ

یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Olaika ashabu almaymanati

آیت 18{ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ۔ } ”یہ ہوں گے داہنے والے۔“ یعنی یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھوں میں دیے جائیں گے۔ لفظ یمن کے معنی خوش بختی کے بھی ہیں۔ اس معنی میں آیت کا مفہوم یوں ہوگا کہ یہ وہ خوش قسمت لوگ ہوں گے جو رشد و ہدایت کے راستے پر چلتے ہوئے فوز و فلاح کی منازل تک پہنچ گئے۔

اردو ترجمہ

اور جنہوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا وہ بائیں بازو والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena kafaroo biayatina hum ashabu almashamati

آیت 19{ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا } ”اور جنہوں نے انکار کیا ہماری آیات کا“ { ہُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ۔ } ”وہ ہوں گے بائیں والے۔“ یعنی ان کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھوں میں پکڑائے جائیں گے۔ لغوی اعتبار سے جس طرح یمن کے معنی خوش بختی کے ہیں اسی طرح الْمَشْئَمَۃ کے مادے میں بدبختی کے معنی پائے جاتے ہیں شومئی قسمت کی ترکیب اردو میں بھی مستعمل ہے۔ لہٰذا اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ ہوگا کہ ”یہ بدبختی والے لوگ ہوں گے“۔ قرآن مجید میں آخرت کی کامیابی یا ناکامی کے حوالے سے دائیں والے اصحاب المیمنہ یا اصحاب الیمین اور بائیں والے اصحاب المشئمہ یا اصحاب الشمال کا ذکر بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ البتہ سورة الواقعہ کی اس آیت میں نسل انسانی کے تین گروہوں کا تذکرہ بھی ہوا ہے : { وَکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَۃً۔ } کہ اس دن تم لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہو جائو گے۔ ان میں سے دو گروہ تو یہی دائیں اور بائیں والے بتائے گئے ہیں ‘ جبکہ تیسرے گروہ کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے : { وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ - اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ۔ } الواقعۃ ”اور آگے نکل جانے والے تو ہیں ہی آگے نکل جانے والے۔ وہی تو بہت مقرب ہوں گے“۔ گویا یہ تیسرا گروہ اہل جنت میں سے بہت ہی خاص لوگوں یعنی مقربین بارگاہ پر مشتمل ہوگا۔ بہرحال آیت زیر مطالعہ میں ان بدقسمت لوگوں کا ذکر ہوا ہے جنہیں بائیں ہاتھ میں اعمال نامے پکڑا کر جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔

اردو ترجمہ

ان پر آگ چھائی ہوئی ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAalayhim narun musadatun

آیت 20{ عَلَیْہِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَۃٌ۔ } ”ان پر آگ بند کردی جائے گی۔“ تاکہ پریشر ککر کی طرح آگ کی ساری تپش اندر ہی رہے اور انہیں شدید ترین عذاب ملے۔ اللہ کی پناہ ! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسے عذاب سے محفوظ رکھے اور اپنی رحمت اور شان غفاری کے طفیل اصحابِ جنت میں شامل فرمائے۔ آمین !

594