اس صفحہ میں سورہ Maryam کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ مريم کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
یہ حروف مقطعات جن سے اس سورة کا آغاز ہو رہا ہے ان کی تفسیر میں ہماری یہی رائے ہے کہ یہ وہی حروف ہیں جن سے قرآن کریم بنا ہے۔ ان ہی سے یہ معجز کتاب بنی ہے اور انسانیت اس کتاب جیسی کتاب لانے سے عاجز ہے۔ حالانکہ یہ حروف اور ان سے بنے ہوئے کلمات انسانوں کی دسترس میں ہیں ، لیکن وہ اس موجود مواد سے کوئی ایسی کتاب تیار کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔
ان حروف کے تذکرے کے بعد حضرت زکریا اور یحییٰ کا قصہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس قصے کا بیشتر مواد رحمت الٰہی پر مبنی ہے۔ پورے ماحول پر رحمت خداوندی سایہ فگن ہے۔ چناچہ آغاز ہی لفظ رحمت سے ہوتا ہے ، ذکر رحمت سے ہوتا ہے ……
اصل قصے کا آغاز ایک دعا کے منظر سے ہوتا ہے۔ یہ دعا حضرت زکریا کرتے ہیں اور نہایت عاجزی اور خضوع و خشوع کے ساتھ کرتے ہیں۔
وہ اپنے رب کے ساتھ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو کر مناجات کرتے ہیں۔ نہ کوئی دیکھتا ہے ، نہ کوئی سنتا ہے گوشہ تنہائی میں نہایت خلوص کے ساتھ رب کو پکارتے ہیں اور اپنا سینہ کھول کر اپنے رب کے سامنے رکھتے ہیں (جو خوب جانتا ہے) وہ اپنا بوجھ ، پریشانی ، اللہ کے سامنے رکھتے ہیں۔ نہایت قرب و اتصال کی حالت میں وہ رب کو پکارتے ہیں۔ (رب) ۔ وہ یہاں حرف ندایا کو بھی بیچ میں نہیں لاتے۔ اللہ تو بغیر دعا کے بھی سنتا ہے اور دیکھتا ہے ، اسے کسی پکارنے والے کی پکار کی ضرورت نہیں ، لیکن یہ ایک غمزدہ شخص کی ضرورت ہے کہ وہ پکارے ، وہ شکوہ کرے ، اور اللہ رحیم و کریم ہے۔ اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے او وہ جانتا ہے کہ پکارنے ، رونے اور شکوہ کرنے سے بھی اس مخلوق کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔ اس لئے اللہ نے حکم دیا ہے کہ دعا کرو ، گڑگڑائو ، جس چیز سے تمہارے دل پر بوجھ پڑتا ہے اسے باہر نکالو ،
وقال ربکم ادعونی استجب لکم ” اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارو ، میں تمہاری پکار کو سنتا ہوں اور قبول کرتا ہوں۔ “ تاکہ تمہارے اعصاب پر سے قدرے بوجھ اتر جائے۔ تمہارے دلوں کو یہ اطمینان تو ہوجائے کہ ہم نے ایک قوی ترہستی کے پاس رپورٹ کردی ہے۔ وہ بڑی قوت والا قادر مطلق ہے تاکہ تمہیں یہ شعور مل جائے کہ تمہارا رباطہ اس ذات سے ہے جس کے ہاں کوئی سوال مایوس نہیں ہوتا اور اس پر جو بھروسہ کرے وہ کبھی بھی ناکام نہیں ہوتا۔
حضرت زکریا رب کے سامنے یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کی ہڈیاں ڈھیلی پڑگئی ہیں اور جب ہڈیاں ڈھیلی پڑج ائیں تو جسم سارا کا سارا ڈھیلا پڑجاتا ہے۔ کیونکہ ہڈیاں ہی تو جسم کا مضبوط ترین حصہ ہیں۔ جسم کا بنیادی ڈھانچہ ہی ہڈیوں سے کھڑا ہوتا ہے۔ پھر وہ بالوں کی سفیدی کی شکایت کرتے ہیں۔ انداز تعبیر کو دیکھیے کہ گویا سفیدی ایک آگ ہے جو سر کے بالوں کو لگی ہوئی ہے۔ سر اس میں تیزی سے جل رہا ہے اور جلد ہی اس میں کوئی سیاہ بال نہ رہے گا۔
ہڈیوں کا ڈھیلا پڑنا اور سر کے بالوں کا سفید ہونا دونوں کنایہ ہے ، بڑھاپے سے اور اس ضعف و کمزوری سے جس سے وہ دوچار ہیں اور اللہ کی رحمت سے بھی وہ ناامید نہیں ہیں۔ عرض پیش کرتے ہیں۔
اور وہ ساتھ ساتھ قبولیت دعا سے پہلے اپنا تبصرہ بھی کرتے ہیں۔
ولم اکن بدعاءک رب شقیاً (91 : 3) ” اور اے پروردگار میں کبھی تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں ہوا۔ “ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں رب تعالیٰ کی یہ دعادت رہی ہے کہ جب بھی انہوں نے دعا کی ہے رب تعالیٰ نے منظور فرمائی ہے۔ جب وہ اپنے زمانہ جوانی اور قوت میں دعا میں نامراد نہیں رہے تو اب حالت ضعیفی میں تو وہ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ اللہ انہیں نامراد نہ کرے اور ان کی دعا کو قبول کرلے۔
یہ تھی حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا اپنے رب کے جناب میں ، نہایت ہی خفیہ انداز میں اور عاجزی اور تضرع کے ساتھ ، الفاظ ، عانی ، ماحول اور اثرات پر اعتبار سے اس میں نرمی پائی جاتی ہے ، اور منظر پر نہایت ہی ادب اور شائستگی چھائی ہوتی ہے۔
اب جواب دعاء ملاحظہ ہو اور اس موقعہ پر مکالمات :۔
قبولیت دعا کے اس لمحے کی تصویر کشی نہایت ہی مہربانی ، محبت اور رضا کی فضا میں ہے۔ عالم بالا سے رب ذوالجلال خود اپنے بندے کو پکارتے ہیں یزکریا (اے زکریا) اور پکارتے ہی اسے خوشخبری دے دی جاتی ہے۔ انا نبشرک بغلم (91 : 8) ” ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ “ اب اللہ ان پر مہربانی کی انتہا کردیتے ہیں کہ لڑکے کا نام بھی عالم بالا سے تجویز ہوتا ہے۔ اسمہ یحی (91 : 8) ” جس کا نام یحییٰ ہوگا۔ ‘ اور پھر یہ کہ اس سے قبل یہ نام کسی فرد بشر کا نہیں رکھا گیا۔ لم نجعل لہ من قبل سمیاً (91 : 8) ” اس نام کا کوئی آدمی اس سے پہلے پیدا نہیں کیا۔
یہ اللہ کے کرم کا فیض اور بارش ہے ، اسے اللہ اپنے اس بندے پر نچھاور کر رہا ہے جس نے اسے نہایت ہی عاجزی سے پکارا۔ تنہئای میں پکارا ، اپنا سینہ کھول کر رب کے سامنے رکھ دیا کہ اسے ڈر گئیا ہے۔ اپنا مسئلہ اللہ کے سامنے رکھا۔ اس دعا پر ان کو جس چیز نے مجبور کیا تھا وہ یہ تھی کہ انہیں اپنے عزیزوں اور ساتھیوں سے خطرہ لاحق تھا کہ وہ اسلامی نظریہ حیات کی امانت اور مالی انتظام اچھی طرح نہ کرسکیں گے۔ اللہ نے ان پر فضل کیا اور ان کی خواہش پوری کردی اور ان کو راضی کردیا۔
ان کی دعا چونکہ فوری طور پر منظور ہوگئی ، ان کی خواہش اولاد کا جوش فوراً ٹھنڈا ہوگیا ، امید کی حرارت یقین میں بدل گئی۔ وہ اچانک ایک واقعی صورتحال سے دوچار ہوگئے کہ عملاً اب یہ کام کس طرح ہوگا۔ وہ تو سوکھا بوڑھا ہے ، ہڈیاں ڈھیلی پڑگئی ہیں ، سر سفید ہے۔ پھر بیوی بانجھ ہے ، جوانی میں اس سے کوئی اولاد نہیں ہوئی ، اب کس طرح وہ بچہ دے گی۔ اس لئے مزید طلب اطمینان قدرتی ہے۔ لہٰذا وہ معلوم کرتے ہیں کہ اس بچے کا ذریعہ کون اور کیا ہوگا ؟
قال رب انی یکون لی غلم و کانت امراتی عاقراً وقدبلغت من الکبر عتیاً (91 : 8) ” عرض کیا ، پروردگار ! بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا ، جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو کر سوکھ چکا ہوں۔ “ چونکہ ان کو ایک عملی صورتحال سے دوچار ہنا پڑا۔ پھر اللہ کا وعدہ بھی ہے اور ٹال ہے۔ ان کو پورا پورا یقین ہے کہ یہ عمل ہونے والا ہے لیکن وہ اس کی کیفیت معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں یہ وعدہ کس طرح حقیقت کا روپ اختیار کرے گا تاکہ ان کا دل مطمئن ہو۔ یہ ایک قدرتی اور طبیعی نفسیاتی حالت ہوتی ہے۔ حضرت زکریا نبی صالح ہیں مگر ایک بشر ہیں اور ایک واقعیت پسند انسان۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ واقعی حقیقی صورت حالات کو اللہ کس طرح بدل دے گا ؟
اللہ کی ہاں سے اس کا بھی جواب آجاتا ہے۔ اے بندے یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے۔ ذرا اپنے نفس کو تو دیکھو کہ تم کیسے وجود میں آگئے جبکہ تم سرے سے تھے ہی نہیں۔ ہر ذات ذات کی یہی مثال ہے۔ اس کائنات کی ہر زندہ چیز نہ تھی اور ہوگئی۔
قال کذلک قال ربک ھو علی ھین وقد خلقتک من قبل ولم تک شیئاً (91 : 9) ” جواب ملا ، ایسا ہی ہوگا ، تیرا رب فرماتا ہے کہ یہ تو میرے لئے ایک ذرا سی بات ہے۔ اس سے پہلے میں تجھے پیدا کرچکا ہوں جب کہ تو کوئی چیز نہ تھا۔ “
اپنی مخلوقات کی پیدائش میں اللہ کے لئے کوئی چیز مشکل نہیں ہے۔ چھوٹی اور بڑی چیز ، حقیر اور عظیم چیز سب کا سبب صرف کن ہے۔ جب اللہ کا حکم ہوتا ہے تو ہوجاتا ہے۔
یہ اللہ ہی ہے جس نے بانجھ عورت کو ایسا بنایا ہے کہ اس کی اولاد نہ ہو اور بوڑھوں کو ایسا بنایا ہے کہ اس سے سلسلہ تناسل کا چلنا ختم ہوجائے۔ وہ بانجھ کو درست بھی کرسکتا ہے اور بانجھ پن کو دور کرسکتا ہے اور ایک بوڑھے مرد میں از سر نو قوت تولید پیدا کرسکتا ہے اور یہ کام بہ نسبت اس کے ، کہ اللہ نے انسان کو اس حال میں پیدا کیا کہ وہ کچھ نہ تھا ، آسان ہے۔ اگرچہ اللہ کے لئے یہ کوئی مشکل نہیں ہے کہ وہ کس چیز کو ابتدائً پیدا کرے یا اس کا اعادہ کرتا چلا جائے۔
ان سب حقائق کے باوجود حضرت زکریا مکمل اطمینان کے لئے اس قدر بےتاب ہیں کہ وہ اس ناقابل توقع عمل کے لئے علامت اور نشانی طلب فرماتے ہیں کہ جب یہ خوشخبری عملاً ظہور پذیر ہوگی تو اس کی علامت کیا ہوگی۔ تو اللہ نے اس خوشخبری کے لئے ایک ایسی علامت مقرر کی جو اس فضا کے ساتھ ہم آہنگ ہے جس میں حضرت نے یہ دعا ابتدائً کی تھی اور قبول ہوئی تھی تاکہ زکریا اس علامت کے ذریعہ رب تعالیٰ کا شکر بھی ادا کریں کہ اللہ نے انہیں اس بڑھاپے میں ایک بچہ دیا۔ وہ لوگوں کی دنیا سے کٹ جائیں اور تین دن صرف اللہ کے ساتھ مشغول ہوں۔ ان دنوں میں اس کی زبان صرف تسبیح الٰہی میں گویا ہو سکے گی اور اگر وہ لوگوں سے بات کرنا چاہیں گے تو زبان بند ہوجائے گی۔ حالانکہ ان کے اعضاء درست ہوں گے۔ ان کی زبان کو بھی کوئی معاملہ لاحق نہ ہوگا۔
قال ایتک الا تکلم الناس ثلث لیال سویا (91 : 01) ” فرمایا تیرے لئے نشانی یہ ہے کہ تو پیہم تین دن لوگوں سے بات نہ کرسکے گا۔ “ چناچہ ایسا ہی ہوا۔
فخرج علی قومہ من المحراب فاوحی ال یھم ان سبحوا بکرہ و عشیا ً (91 : 11) ” چناچہ وہ محراب سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آیا اور اس نے اشارے سے ان کو ہدایت کی کہ صبح و شام تسبیح کرو۔ “ تاکہ وہ بھی اس فضا اور اس حالت میں داخل ہوجائیں جس وہ داخل ہوچکے ہیں اور وہ بھی ان کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کریں کہ اللہ نے اس پر اور ان پر احسان کیا کیونکہ یہ لڑکا ان کے بعد ان کا امام اور راہنما ہوگا۔
یہاں قرآن مجید زکریا کو حالت خاموشی میں چھوڑ دیتا ہے ، پردہ گرتا ہے ، اور اس منظر کا صفحہ لپیٹ لیا جاتا ہے اور جب دوسرا منظر سامنے آتا ہے تو اس میں خود حضرت یحییٰ چلے آ رہے ہیں اور ان کو عالم بالا سے رب کی ندا آتی ہے۔