اس صفحہ میں سورہ Al-Jinn کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الجن کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 2{ یَّہْدِیْٓ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ط } ”جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے ‘ تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔“ قرآن کے بارے میں جنات کا یہ ردِّعمل ہم انسانوں کے لیے باعث عبرت اور لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ قرآن سنا اور وہ اس پر فوراً ایمان لے آئے ‘ بلکہ قرآن کو سن کر نہ صرف اس پر فوراً ایمان لے آئے بلکہ داعی بن کر اس کا پیغام اپنی قوم تک پہنچانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ قرآن کو بار بار پڑھتے ہیں ‘ بار بار سنتے ہیں ‘ لیکن ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کو اس نیت سے اور اس انداز سے پڑھتے یا سنتے ہی نہیں کہ وہ ہمارے دلوں میں اترے۔ ہم تو رمضان کے قیام اللیل کے لیے بھی اس مسجد کا انتخاب کرتے ہیں جہاں کے قاری صاحب کم سے کم وقت میں ”منزل“ طے کرلیتے ہوں۔ بلکہ آج کل تو باقاعدہ اشتہارات کے ذریعے مختلف مساجد میں ایک سے بڑھ کر ایک ”پرکشش پیکج“ پیش کیا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں صرف اتنے دنوں میں قرآن ختم کرا دیا جاتا ہے … ہماری مسجد میں نماز تراویح صرف تیس منٹ میں پڑھا دی جاتی ہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ اندازہ کیجیے ! جہاں قرآن مجید کم از کم وقت میں ختم کرنے کے لیے دوڑیں لگی ہوں وہاں سمجھنے ‘ سمجھانے کی فرصت کسے ہوگی ؟ اب ذرا اس طرزعمل کے مقابلے میں مذکورہ جنات کے رویے ّکا تصور کریں جو ایک ہی مرتبہ قرآن مجید کو سن کر کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ قرآن پر ایمان لانے کا اعلان کرنے کے بعد انہوں نے کہا : { وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا۔ } ”اور اب ہم کبھی بھی اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔“
آیت 4{ وَّاَنَّـہٗ کَانَ یَـقُوْلُ سَفِیْہُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًا۔ } ”اور یقینا ہمارا بیوقوف سردار اللہ کے بارے میں خلافِ حقیقت باتیں کہتا رہا ہے۔“ اپنے ”بیوقوف“ سے ان کا اشارہ اپنے سب سے بڑے جن عزازیل ابلیس کی طرف ہے۔
آیت 5{ وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّـنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا۔ } ”اور یہ کہ ہم تو اس گمان میں رہے کہ جن اور انسان اللہ پر ہرگز کوئی جھوٹ نہیں باندھیں گے۔“ وہ بدبخت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا رہا اور ہم اس خوش فہمی میں اس کی باتوں کو مانتے رہے کہ کوئی انسان یا جن اللہ کے بارے میں کبھی کوئی خلافِ حق بات نہیں کرسکتا۔
آیت 6{ وَّاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْہُمْ رَہَقًا۔ } ”اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ مرد جنات میں سے کچھ مردوں کی پناہ پکڑتے تھے ‘ تو انہوں نے ان جنات کی سرکشی میں مزید اضافہ کیا۔“ عربوں کے ہاں جنات سے پناہ طلب کرنے کا رواج عام تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہر جنگل اور ہر ویرانے میں جنات کا بسیرا ہوتا ہے۔ اس لیے جب ان کا کوئی قافلہ صحرا میں کہیں پڑائو کرتا تو قافلے کا سردار بآوازِ بلند پکارتا کہ ہم اس وادی کے سردار جن کی پناہ میں آتے ہیں۔ اب ظاہر ہے جنات تو انسانوں کی ایسی حماقتوں پر ہنستے ہوں گے کہ دیکھو ! آج اسی آدم علیہ السلام کی اولاد ہمیں معبود بنائے بیٹھی ہے جسے سجدہ نہ کرنے پر ہمارے جدامجد کو جنت سے نکال دیا گیا تھا۔ چناچہ انسانوں کی ایسی حرکتوں سے جنات کے غرور اور سرکشی میں اور بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔
آیت 7{ وَّاَنَّـہُمْ ظَنُّوْا کَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّـبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًا۔ } ”اور یہ کہ انہوں نے بھی ایسا ہی سمجھا جیسا کہ تم نے سمجھا ہوا ہے کہ اللہ کسی کو ہرگز نہیں اٹھائے گا۔“ اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بھی مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اٹھائے گا ‘ یعنی بعث بعد الموت کے عقیدے میں کوئی حقیقت نہیں۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کسی کو بھی رسول بنا کر نہیں بھیجے گا۔ سورة الاحقاف میں جنات کے تذکرے کے حوالے سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنات تورات سے واقف تھے اور وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ تھے کہ پچھلے چھ سو برس سے دنیا میں کوئی رسول نہیں آیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضور ﷺ کے درمیان تقریباً چھ سو برس کا زمانہ انسانی تاریخ میں سلسلہ رسالت کے انقطاع کا طویل ترین وقفہ ہے۔ چناچہ اپنی ان معلومات کی بنیاد پر جنات یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ رسالت کا دروازہ اب ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے اور یہ کہ اب دنیا میں کوئی رسول نہیں آئے گا۔
آیت 8{ وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآئَ } ”اور یہ کہ ہم نے ٹٹولا آسمان کو“ ہم نے غیب کی خبروں کی ٹوہ میں آسمان کی پہنائیوں میں حسب معمول بھاگ دوڑ کی۔ { فَوَجَدْنٰـہَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّشُہُبًا۔ } ”تو ہم نے دیکھا کہ وہ سخت پہروں اور انگاروں سے بھرا ہوا ہے۔“ ہم نے دیکھا کہ آسمان میں اب جگہ جگہ پہرے مقرر کردیے گئے ہیں اور شہاب ثاقب کی قسم کے میزائل نصب کر کے حفاظتی انتظامات غیر معمولی طور پر سخت کردیے گئے ہیں۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی کئی مرتبہ ذکر ہوچکا ہے ‘ آگ اور نور کی کچھ خصوصیات مشترک ہونے کے باعث جنات اور فرشتوں کے مابین تخلیقی اعتبار سے کچھ نہ کچھ قربت پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرشتے جب عالم بالا سے احکام لے کر زمین کی طرف آتے ہیں تو شیاطین ِجن ان سے اللہ تعالیٰ کے فیصلوں اور احکام سے متعلق پیشگی خبریں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی خبریں وہ اپنے ان انسان ساتھیوں تک پہنچانے کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں جو دنیا میں کاہنوں اور جادوگروں کے روپ میں شرک و ضلالت کی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں۔ عام حالات میں تو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے شاید ان جنات کو ایسی خبروں تک کسی نہ کسی حد تک رسائی ہوجاتی ہو مگر نزول وحی کے زمانے میں انہیں حساس حدود کے قریب بھی پھٹکنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ آیات زیر مطالعہ میں اسی حوالے سے جنات کی چہ میگوئیوں کا ذکر ہورہا ہے۔
آیت 10{ وَّاَنَّا لَا نَدْرِیْٓ اَشَرٌّ اُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ } ”اور یہ کہ ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے لیے کسی شر کا ارادہ کیا جا رہا ہے“ { اَمْ اَرَادَ بِہِمْ رَبُّہُمْ رَشَدًا۔ } ”یا ان کے لیے ان کے رب نے کسی بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔“ جنات کی اس بات سے ایسے لگتا ہے جیسے وہ تورات کے عالم تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جب کسی قوم کی طرف کوئی رسول مبعوث ہوتا ہے تو اس کے دو امکانی نتائج میں سے ایک نتیجہ ضرور سامنے آتا ہے۔ یا تو متعلقہ قوم اپنے رسول پر ایمان لا کر ہدایت کے راستے پر چل پڑتی ہے یا اس کا انکار کر کے تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی قوم پر عذاب بھیجنا چاہتا ہے تو اس قوم میں رسول مبعوث کر کے اتمامِ حجت ضرور کرتا ہے ‘ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل کی اس آیت میں واضح کیا گیا ہے : { وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَـبْعَثَ رَسُوْلًا۔ } ”اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ کسی رسول کو نہ بھیج دیں“۔ چناچہ آسمانوں پر غیر معمولی سخت حفاظتی انتظامات دیکھ کر جنات یہ تو سمجھ گئے کہ اہل زمین کے لیے وحی و رسالت کا سلسلہ پھر سے شروع ہوچکا ہے ‘ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس سلسلے کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا۔ کیا اللہ تعالیٰ کو اپنے اس فیصلے سے انسانوں کی بھلائی مطلوب ہے یا اس نے اہل زمین کو قوم نوح علیہ السلام ‘ قومِ ہود علیہ السلام اور قوم صالح علیہ السلام کی طرح ایک مرتبہ پھر تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور ان پر عذاب بھیجنے سے پہلے رسول مبعوث کر کے وہ ان لوگوں پر اتمامِ حجت کرنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے نبوت و رسالت ِمحمدی ﷺ تو انسانیت کے حق میں سراسر خیر ہی خیر ہے ‘ لیکن ان جنات کو اس وقت تک اس بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔
آیت 1 1{ وَّاَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَمِنَّا دُوْنَ ذٰلِکَ ط } ”اور یہ کہ ہم میں نیک لوگ بھی ہیں اور کچھ اس سے مختلف قسم کے بھی ہیں۔“ یہاں نیک کے مقابل میں ان کا اشارہ تو ظاہر ہے سرکش اور فسادی جنات ہی کی طرف ہے ‘ لیکن انہوں نے ان کا ذکر ایسے الفاظ کے ساتھ نہیں کیا۔ یہ دراصل حکمت تبلیغ کا اہم اصول ہے کہ برے کو بھی برا نہ کہو۔ { کُنَّا طَرَآئِقَ قِدَدًا۔ } ”ہم مختلف راستوں پر پھٹے ہوئے تھے۔“ طَرَائِق جمع ہے طَرِیْقَۃ کی اور قِدَد جمع ہے قِدَّۃٌ کی ‘ یعنی مختلف الرائے فرقے۔ قَدَّ یَقُدُّ قَدًّاکے معنی پھاڑنے یا کاٹنے کے ہیں۔ جیسے سورة یوسف کی آیت 25 میں آیا ہے : { قَدَّتْ قَمِیْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ } ”اس عورت نے پھاڑ دی آپ علیہ السلام کی قمیص پیچھے سے۔“
آیت 13{ وَّاَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْہُدٰٓی اٰمَنَّا بِہٖ ط } ”اور یہ کہ ہم نے جونہی اس ہدایت الہدیٰ کو سنا ہم اس پر ایمان لے آئے۔“ { فَمَنْ یُّؤْمِنْ مبِرَبِّہٖ فَلَا یَخَافُ بَخْسًا وَّلَا رَہَقًا۔ } ”تو جو کوئی بھی ایمان لائے گا اپنے رب پر اسے نہ تو کسی نقصان کا خوف ہوگا اور نہ زیادتی کا۔“ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے نیک اعمال کا پورا پورا اجر دے گا ‘ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی یا حق تلفی کا معاملہ نہیں ہوگا۔