اس صفحہ میں سورہ As-Sajda کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ السجدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
سورتوں کے شروع میں جو حروف مقطعات ہیں ان کی پوری بحث ہم سورة بقرہ کے شروع میں کرچکے ہیں۔ یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ کتاب قرآن حکیم بیشک وشبہ اللہ رب العلمین کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ مشرکین کا یہ قول غلط ہے کہ حضور ﷺ نے خود اسے گھڑلیا ہے۔ نہیں یہ تو یقینا اللہ کی طرف سے ہے اس لئے اترا ہے کہ حضور ﷺ اس قوم کو ڈراوے کے ساتھ آگاہ کردیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی اور پیغمبر نہیں آیا۔ تاکہ وہ حق کی اتباع کرکے نجات حاصل کرلیں۔
ہر ایک کی نکیل اللہ جل شانہ کے ہاتھ میں ہے تمام چیزوں کا خالق اللہ ہے۔ اس نے چھ دن میں زمین و آسمان بنائے پھر عرش پر قرار پکڑا۔ اس کی تفسیر گذر چکی ہے۔ مالک وخالق وہی ہے ہر چیز کی نکیل اسی کے ہاتھ میں ہے۔ تدبیریں سب کاموں کی وہی کرتا ہے ہر چیز پر غلبہ اسی کا ہے۔ اس کے سوا مخلوق کا نہ کوئی والی نہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارشی۔ اے وہ لوگو جو اس کے سوا اوروں کی عبادت کرتے ہو۔ دوسروں پر بھروسہ کرتے ہو کیا تم نہیں سمجھ سکتے کہ اتنی بڑی قدرتوں والا کیوں کسی کو اپنا شریک کار بنانے لگا ؟ وہ برابری سے، وزیر ومشیر سے شریک وسہیم سے پاک منزہ اور مبرا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اسکے علاوہ کوئی پالنہار ہے۔ نسائی میں ہے حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں ہیں میرا ہاتھ تھام کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی تمام چزیں پیدا کرکے ساتویں دن عرش پر قیام کیا۔ مٹی ہفتے کے دن بنی۔ پہاڑ اتوار کے دن درخت سوموار کے دن برائیاں منگل کے دن نور بدھ کے دن جانور جمعرات کے دن آدم جمعہ کے دن عصر کے بعد دن کی آخری گھڑی میں اسے تمام روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا جس میں سفید وسیاہ اچھی بری ہر طرح کی تھی اسی باعث اولاد آدم بھی بھلی بری ہوئی۔ امام بخاری اسے معلل بتلاتے ہیں فرماتے ہیں اور سند سے مروری ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے اسے کعب احبار سے بیان کیا ہے اور حضرات محدثین نے بھی اسے معلل بتلایا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس کا حکم ساتوں آسمانوں کے اوپر سے اترتا ہے اور ساتوں زمینوں کے نیچے تک پہنچتا ہے جسے اور آیت میں ہے (اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا 12ۧ) 65۔ الطلاق :12) اللہ تعالیٰ نے ساتھ آسمان بنائے اور انہی کے مثل زمینیں اس کا حکم ان سب کے درمیان اترتا ہے۔ اعمال اپنے دیوان کی طرف اٹھائے اور چڑھائے جاتے ہیں جو آسمان دنیا کے اوپر ہے۔ زمین سے آسمان اول پانچ سو سال کے فاصلہ پر ہے اور اتناہی اس کا گھیراؤ ہے۔ اتنا اترنا چڑھنا اللہ کی قدرت سے فرشتہ ایک آنکھ جھپکنے میں کرلیتا ہے۔ اسی لئے فرمایا ایک دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی ہے۔ ان امور کا مدبر اللہ ہے وہ اپنے بندوں کے اعمال سے باخبر ہے۔ سب چھوٹے بڑے عمل اس کی طرف چڑھتے ہیں۔ وہ غالب ہے جس نے ہر چیز کو اپنے ماتحت کر رکھا ہے کل بندے اور کل گردنیں اس کے سامنے جھکی ہوئی ہیں وہ اپنے مومن بندوں پر بہت ہی مہربان ہے عزیز ہے اپنی رحمت میں اور رحیم ہے اپنی عزت میں۔
بہترین خالق بہترین مصور ومدور فرماتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر چیز کو قرینے سے بہترین طور سے ترکیب پر خوبصورت بنائی ہے۔ ہر چیز کی پیدائش کتنی عمدہ کیسی مستحکم اور مضبوط ہے۔ آسمان و زمین کی پیدائش کیساتھ ہی خود انسان کی پیدائش پر غور کرو۔ اس کا شروع دیکھو کہ مٹی سے پیدا ہوا ہے۔ ابو البشر حضرت آدم ؑ مٹی سے پیدائے ہوئے۔ پر ان کی نسل نطفے سے جاری رکھی جو مرد کی پیٹھ اور عورت کے سینے سے نکلتا ہے۔ پھر اسے یعنی آدم کو مٹی سے پیدا کرنے کے بعد ٹھیک ٹھاک اور درست کیا اور اس میں اپنے پاس کی روح پھونکی۔ تمہیں کان آنکھ سمجھ عطا فرمائی۔ افسوس کہ پھر بھی تم شکر گذاری میں کثرت نہیں کرتے۔ نیک انجام اور خوش نصیب وہ شخص ہے جو اللہ کی دی ہوئی طاقتوں کو اسی کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ جل شانہ وعزاسمہ
انسان اور فرشتوں کا ساتھ کفار کا عقیدہ بیان ہو رہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد جینے کے قائل نہیں۔ اور اسے وہ محال جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہمارے ریزے ریزے جدا ہوجائیں گے اور مٹی میں مل کر مٹی ہوجائیں گے پھر بھی کیا ہم نئے سرے سے بنائے جاسکتے ہیں۔ افسوس یہ لوگ اپنے اوپر اللہ کو بھی قیاس کرتے ہیں اور اپنی محدود قدرت پر اللہ کی نامعلوم قدرت کا اندازہ کرتے ہیں۔ مانتے ہیں جانتے ہیں کہ اللہ نے اول بار پیدا کیا ہے۔ تعجب ہے پھر دوبارہ پیدا کرنے پر اسے قدرت کیوں نہیں مانتے ؟ حالانکہ اس کا تو صرف فرمان چلتا ہے۔ جہاں کہا یوں ہوجا وہیں ہوگیا۔ اسی لئے فرمادیا کہ انہیں اپنے پروردگار کی ملاقات سے انکار ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ ملک الموت جو تمہاری روح قبض کرنے پر مقرر ہیں تمہیں فوت کردیں گے۔ اس آیت میں بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ملک الموت ایک فرشتہ کا لقب ہے۔ حضرت برا کی وہ حدیث جس کا بیان سورة ابراہیم میں گذرچکا ہے اس سے بھی پہلی بات سمجھ میں آتی ہے اور بعض آثار میں ان کا نام عزرائیل بھی آیا ہے اور یہی مشہور ہے۔ ہاں ان کے ساتھی اور ان کے ساتھ کام کرنے والے فرشتے بھی ہیں جو جسم سے روح نکالتے ہیں اور نرخرے تک پہنچ جانے کے بعد ملک الموت اسے لے لیتے ہیں۔ ان کے لئے زمین سمیٹ دی گئی ہیں اور ایسی ہی ہے جیسے ہمارے سامنے کوئی طشتری رکھی ہوئی ہو۔ کہ جو چاہا اٹھالیا۔ ایک مرسل حدیث بھی اس مضمون کی ہے۔ ابن عباس ؓ کا مقولہ بھی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک انصاری کے سرہانے ملک الموت کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ملک الموت میرے صحابی کے ساتھ آسانی کیجئے۔ آپ نے جواب دیا کہ اے اللہ کے نبی تسکین خاطر رکھئے اور دل خوش کیجئے واللہ میں خود باایمان اور نہایت نرمی کرنے والا ہوں۔ سنو ! یارسول ﷺ قسم ہے اللہ کی تمام دنیا کے ہر کچے پکے گھر میں خواہ وہ خشکی میں ہو یا تری میں ہر دن میں میرے پانچ پھیرے ہوتے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے کو میں اس سے بھی زیادہ جانتا ہوں جتنا وہ اپنے آپ کو جانتا ہے۔ یارسول اللہ ﷺ یقین مانئے اللہ کی قسم میں تو ایک مچھر کی جان قبض کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتاجب تک مجھے اللہ کا حکم نہ ہو۔ حضرت جعفر کا بیان ہے کہ ملک الموت ؑ کا دن میں پانچ وقت ایک ایک شخص کو ڈھونڈ بھال کرنا یہی ہے کہ آپ پانچوں نمازوں کے وقت دیکھ لیا کرتے ہیں اگر وہ نمازوں کی حفاظت کرنے والا ہو تو فرشتے اس کے قریب رہتے ہیں اور شیطان اس سے دور رہتا ہے اور اس کے آخری وقت فرشتہ اسے لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کی تلقین کرتا ہے۔ مجاہد فرماتے ہیں ہر دن ہر گھر پر ملک الموت دو دفعہ آتے ہیں۔ کعب احبار اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہر دروازے پر ٹھہر کر دن بھر میں سات مرتبہ نظر مارتے ہیں کہ اس میں کوئی وہ تو نہیں جس کی روح نکالنے کا حکم ہوچکا ہو۔ پھر قیامت کے دن سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے قبروں سے نکل کر میدان محشر میں اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اپنے کئے کا پھل پانا ہے۔