سورۃ الحجرات (49): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Hujuraat کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحجرات کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الحجرات کے بارے میں معلومات

Surah Al-Hujuraat
سُورَةُ الحُجُرَاتِ
صفحہ 515 (آیات 1 سے 4 تک)

سورۃ الحجرات کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الحجرات کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo la tuqaddimoo bayna yadayi Allahi warasoolihi waittaqoo Allaha inna Allaha sameeAAun AAaleemun

آیت 1{ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ} ”اے اہل ِایمان مت آگے بڑھو اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقینا اللہ سب کچھ سننے والا ‘ سب کچھ جاننے والا ہے۔“ یہ آیت گویا اسلامی ریاست کے آئین کی بنیاد ہے۔ اسلامی ریاست کے آئین کی پہلی شق یہ ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہے اوراقتدارِ مطلق کا مالک صرف اکیلا وہ ہے۔ اس نظری و اعتقادی حقیقت کی تعمیل و تنفیذ کا طریقہ اس آیت میں بتایا گیا ہے۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جو حدود قائم کردی ہیں ان حدود سے کسی بھی معاملے میں تجاوز نہیں ہوگا۔ اس آیت کے مفہوم کو پاکستان کے ہر دستور میں ان الفاظ کے ساتھ شامل رکھا گیا ہے : No Legislation will be done repugnant to the Quran and the Sunnah۔ یہ شق گویا اسلامی ریاست کے آئین کے لیے اصل الاصول کا درجہ رکھتی ہے۔ چناچہ آئین پاکستان میں اس شق کے شامل ہونے سے اصولی طور پر تو پاکستان ایک اسلامی ریاست بن گیا ‘ لیکن عملی طور پر اس ”ذمہ داری“ سے جان چھڑانے کے لیے کمال یہ دکھایا گیا کہ ان الفاظ کے ساتھ ایک ہاتھ سے آئین کے اندر اسلام داخل کر کے دوسرے ہاتھ سے نکال لیا گیا۔ آئین پاکستان کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کے مقصد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل Islamic Ideological Council تشکیل دی گئی اور اسے بظاہر یہ اہم اور مقدس فریضہ سونپا گیا کہ وہ پارلیمنٹ کی ”قانون سازی“ پر گہری نظر رکھے گی اور اس ضمن میں کسی کوتاہی اور غلطی کی صورت میں حکومت کو رپورٹ پیش کرے گی۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک تھا ‘ لیکن اس میں منافقت یہ برتی گئی کہ آئین کی رو سے حکومت کو نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کرنے کا پابند نہیں کیا گیا۔ چناچہ کونسل نے اقتصادیات اور غیر سودی بینکاری کے حوالے سے بہت مفید سفارشات مرتب کی ہیں۔ بہت سے دوسرے معاملات میں بھی تحقیقاتی رپوٹیں حکومتوں کو بھجوائی ہیں۔ کونسل کی سفارشات جمع ہوتے ہوتے الماریاں بھر گئیں ‘ لیکن کسی حکومت نے ان میں سے کسی ایک سفارش کو بھی تنفیذ کے حوالے سے لائق اعتناء نہ سمجھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کونسل کی تمام تحقیقات اور سفارشات کلی طور پر لاحاصل مشق exercise in futility ثابت ہوئیں۔ بہر حال زیر مطالعہ آیت کی رو سے جب کسی ریاست کے آئین میں مذکورہ شق شامل کرلی جائے گی تو اصولی طور پر وہ ریاست اسلامی ریاست بن جائے گی۔ اس کے بعداس ریاست کے قانون ساز ادارے کو چاہے پارلیمنٹ کہیں ‘ مجلس ملی کہیں یا کانگرس کا نام دیں ‘ اس کی قانون سازی کا دائرئہ اختیار legislative authority قرآن وسنت کی بالادستی کے باعث محدود ہوجائے گا۔ یعنی اس ”قدغن“ کے بعد وہ مقننہ اپنے ملک کے لیے صرف قرآن و سنت کے دائرے کے اندر رہ کر ہی قانون سازی کرسکے گی۔ اس دائرے کے اندر جو قانون سازی کی جائے گی وہ جائز اور مباح ہوگی اور اس دائرے کی حدود سے متجاوز ہوتا ہوا کوئی بھی قانون ناجائز اور ممنوع قرار پائے گا ‘ چاہے اس قانون کو مقننہ کے تمام ارکان ہی کی حمایت حاصل کیوں نہ ہو۔ اسلامی مقننہ کی اس ”محدودیت“ کو اس مثال سے سمجھیں کہ کسی دعوت میں بلائے گئے مہمانوں کی تواضع روح افزا شربت سے کی جائے ‘ سیون اَپ سے یا دودھ سوڈا وغیرہ سے ‘ اس بارے میں فیصلہ تو کثرت رائے سے کیا جاسکتا ہے ‘ لیکن تمام میزبان اپنے سو فیصد ووٹوں سے بھی مہمانوں کو کوئی ایسا مشروب پلانے کا فیصلہ نہیں کرسکتے جس کا پینا قرآن و سنت میں ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ اس نکتے کو رسول اللہ ﷺ نے اس مثال کے ذریعے نہایت عمدگی سے واضح فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : مَثَلُ الْمُؤْمِنِ وَمَثَلُ الْاِیْمَانِ کَمَثَلِ الْفَرَسِ فِیْ آخِیَّتِہٖ ، یَجُوْلُ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی آخِیَّتِہٖ … 1 یعنی ”مومن کی مثال اور ایمان کی مثال اس گھوڑے کی سی ہے جو اپنے کھونٹے کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ وہ گھومنے پھرنے کے بعد پھر اپنے کھونٹے پر واپس لوٹ آتا ہے…“ ظاہر ہے مومن تو وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہے اور ان کے احکام کو مانتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کے کھونٹے سے بندھ چکا ہے ‘ اب وہ اس کھونٹے کے گردا گرد ایک دائرے میں اپنی مرضی سے چرچگ ُ سکتا ہے ‘ لیکن اس دائرے کی حدود کا تعین اس کھونٹے کی رسی حدود اللہ کے اندر موجود گنجائش کی بنیاد پر ہی ہوگا۔ اس کے برعکس ایک وہ شخص ہے جو مادر پدر آزاد ہے۔ وہ نہ اللہ کو مانتا ہے ‘ نہ رسول ﷺ کو جانتا ہے اور نہ ہی ان کے احکام کو پہچانتا ہے ‘ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے ‘ جو چاہے کرے اور جس چیز کو چاہے اپنے لیے ”جائز“ قرار دے لے۔ چناچہ ایسے افراد اگر کسی ملک یا ریاست کے قانون ساز ادارے میں بیٹھے ہوں گے تو وہ کثرت رائے سے اپنی ریاست اور قوم کے لیے جو قانون چاہیں منظور کرلیں۔ وہ چاہیں تو ہم جنس پرستی کو جائز قرار دے دیں اور چاہیں تو مرد کی مرد سے شادی کو قانونی حیثیت دے دیں۔ اب اس کے بعد جو چار آیات آرہی ہیں وہ اہل ایمان پر اللہ کے رسول ﷺ کے حقوق کا تعین کرتی ہیں۔ حضور ﷺ کی تعظیم ‘ آپ ﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کے اتباع کا جذبہ گویا ایک مسلمان معاشرے کی تہذیب اور اس کے تمدن کی بنیاد ہے۔ اس بارے میں ایک عمومی حکم { وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ } ہم سورة الفتح میں پڑھ آئے ہیں۔ اس حکم کی شرح گویا اب اگلی آیات میں بیان ہو رہی ہے۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo la tarfaAAoo aswatakum fawqa sawti alnnabiyyi wala tajharoo lahu bialqawli kajahri baAAdikum libaAAdin an tahbata aAAmalukum waantum la tashAAuroona

آیت 2 { یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَـکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ } ”اے اہل ِایمان ! اپنی آواز کبھی بلند نہ کرنا نبی ﷺ کی آواز پر اور نہ انہیں اس طرح آواز دے کر پکارنا جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو بلند آواز سے پکارتے ہو“ { اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ } ”مبادا تمہارے سارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔“ خبردار ! نبی کریم ﷺ کی تعظیم و توقیر کا معاملہ بہت نازک اور حساس ہے۔ اس معاملے میں ہمیشہ چوکنا اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو نبی کریم ﷺ کی شان میں کسی معمولی سی بےادبی سے تم میں سے کسی کے تمام نیک اعمال ضائع ہوجائیں اور وہ اسی زعم میں رہے کہ میں تو پکا سچا مسلمان ہوں ‘ ہمیشہ کبائر سے بچ کر رہتا ہوں ‘ میں نے کبھی چوری نہیں کی ‘ ڈاکا نہیں ڈالا ‘ اور کبھی زنا کاری کا نہیں سوچا۔

اردو ترجمہ

جو لوگ رسول خدا کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں وہ در حقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے، اُن کے لیے مغفرت ہے اور اجر عظیم

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena yaghuddoona aswatahum AAinda rasooli Allahi olaika allatheena imtahana Allahu quloobahum lilttaqwa lahum maghfiratun waajrun AAatheemun

آیت 3 { اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی } ”بیشک وہ لوگ جو اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے ‘ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے جانچ پرکھ کر ُ چن لیا ہے تقویٰ کے لیے۔“ پچھلی آیت میں جو حکم منفی انداز میں دیا گیا ہے اسی حکم کو اب شاباش کے لیے مثبت انداز میں دہرایا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنے رسول ﷺ کے ادب کے حوالے سے آپ ﷺ کے صحابہ کرام رض کا طرز عمل اس قدر پسند آیا ہے کہ اس بنیاد پر اس نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے نور سے خصوصی طور پر منور کرنے کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ { لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ } ”ان کے لیے مغفرت بھی ہے اور بہت بڑا اجر بھی۔“

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، جو لوگ تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena yunadoonaka min warai alhujurati aktharuhum la yaAAqiloona

آیت 4 { اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ } ”بیشک وہ لوگ جو آپ ﷺ کو پکارتے ہیں حجروں کے پیچھے سے ان میں سے اکثر وہ ہیں جو عقل نہیں رکھتے۔“ بعض اوقات جب حضور ﷺ اپنے حجرہ مبارک میں تشریف فرما ہوتے تو بدو ّقسم کے لوگ باہر کھڑے ہو کر آپ ﷺ کو آوازیں دینا شروع کردیتے : ”یَا مُحَمَّد اُخْرُجْ اِلَیْنَا“۔ حضور ﷺ کے گھر تشریف لے جانے ‘ آرام فرمانے اور گھر سے باہر رونق افروز ہونے کے اپنے معمولات تھے۔ لہٰذا یہاں دو ٹوک انداز میں بتادیا گیا کہ وقت بےوقت گھر سے باہر کھڑے ہو کر لوگوں کا آپ ﷺ کو بےباکانہ انداز میں آوازیں دینے کا یہ طرز عمل اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ کسی کو گھر سے باہر بلانے کا یہ انداز اور طریقہ عام معاشرتی آداب کے بھی خلاف ہے۔

515