اس صفحہ میں سورہ Al-Muzzammil کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المزمل کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1{ یٰٓــاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ۔ } ”اے کمبل میں لپٹ کر لیٹنے والے ﷺ !“ فداہ آباونا وامّھاتنا۔
آیت 3{ نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا۔ } ”یعنی اس کا آدھا یا اس سے تھوڑا کم کر لیجیے۔“ یعنی آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور آدھی رات یا ایک تہائی رات کا قیام کریں۔
آیت 4{ اَوْ زِدْ عَلَیْہِ } ”یا اس پر تھوڑا بڑھا لیں“ یا پھر رات کا دو تہائی حصہ قیام میں گزاریں۔ گویا آپ ﷺ کے قیام اللیل کا دورانیہ یا نصاب ایک تہائی رات سے لے کر دو تہائی رات تک ہونا چاہیے۔ اس نصاب میں ہمارے لیے رمضان کے قیام اللیل کے حوالے سے بھی راہنمائی موجود ہے۔ رمضان کی راتوں کے قیام کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رض سے مروی حضور ﷺ کا فرمان ہے : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لـَــــہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ‘ وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَـہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ‘ وَمَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ 1”جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے گئے ‘ اور جس نے رمضان کی راتوں میں قیام کیا قرآن سننے اور سنانے کے لیے ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ ‘ اس کے بھی تمام سابقہ گناہ معاف کردیے گئے ‘ اور جو لیلۃ القدر میں کھڑا رہا قرآن سننے اور سنانے کے لیے ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ اس کی بھی سابقہ تمام خطائیں بخش دی گئیں !“ اب ظاہر ہے ”قیام اللیل“ کی اصطلاح کا اطلاق رات کے ایک بڑے حصے کے قیام پر ہی ہوسکتا ہے۔ گھنٹے بھر میں جیسے تی سے بیس رکعتیں پڑھ کر سو جانے کو تو قیام اللیل نہیں کہا جاسکتا۔ اور یہ بیس رکعتوں کا نصاب تو اصل میں ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے سارا دن محنت و مشقت میں گزارنا ہے۔ ایسے لوگوں کی مجبوری کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت عمر فاروق رض نے ان کے لیے قیام اللیل کا ایک کم سے کم معیار مقرر فرما دیا تھا۔ البتہ جن لوگوں کے حالات موافق ہوں انہیں رمضان المبارک میں بہرصورت زیر مطالعہ آیات کے مفہوم و مدعا کے مطابق قیام اللیل کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اسی طرح وہ حضرات جو اپنی ملازمت وغیرہ سے ایک ماہ کی رخصت لے سکتے ہوں انہیں بھی چاہیے کہ وہ اپنی سالانہ چھٹیاں سیرسپاٹوں پر ضائع کرنے کے بجائے رمضان کے لیے بچا کر رکھا کریں ‘ تاکہ قیام اللیل کی برکتوں سے کماحقہ مستفید ہو سکیں۔ { وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا۔ } ”اور ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھتے جایئے۔“ تَرْتِیْلکے معنی قرآن مجید کو خوب ٹھہرٹھہر کر اور سمجھ کر پڑھنے کے ہیں۔ گویا قیام اللیل کا اصل لازمہ قرآن مجید کی تلاوت ہے اور وہ بھی ترتیل کے ساتھ۔ واضح رہے کہ حضور ﷺ کو یہ حکم نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں دے دیا گیا تھا۔ بعد میں جب باقاعدہ پانچ نمازیں فرض ہوگئیں تو قیام اللیل کو مختصر کر کے تہجد کی شکل دے دی گئی ‘ لیکن اس میں بھی قرآن کی تلاوت پر زور دیا گیا : { وَمِنَ الَّــیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ } بنی اسرائیل : 79 یعنی تہجد بھی قرآن کے ساتھ بِــہٖ ادا کریں۔ تہجد کا حق یوں ادا نہیں ہوتا کہ چند مختصر سورتوں کے ساتھ آٹھ رکعتیں ادا کیں اور پھر بیٹھ کر دوسرے اذکار میں مشغول ہوگئے۔ بہرحال جسے اللہ تعالیٰ نے تہجد کی توفیق دی ہو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اتنا قرآن ضرور یاد کرے جس سے تہجد کا کچھ نہ کچھ حق ادا ہو سکے۔
آیت 5{ اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا۔ } ”ہم عنقریب آپ ﷺ پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔“ اس سے مراد رسالت انذار و تبلیغ کی ذمہ داری ہے ‘ جس کے بارے میں پہلا حکم سورة المدثر کی ابتدائی آیات میں آیا تھا۔ واضح رہے کہ سورة المزمل کی زیر مطالعہ آیات غالباً ابتدائی نو آیات تیسری وحی کی صورت میں نازل ہوئیں ‘ جبکہ اس کے بعد نازل ہونے والی چوتھی وحی سورة المدثر کی ابتدائی آیات پر مشتمل تھی۔ اس آیت میں حضور ﷺ کو اس عظیم ذمہ داری کے بارے میں بتایا جا رہا ہے جس کا بوجھ عنقریب آپ ﷺ کے کندھوں پر پڑنے والا تھا۔ اخلاق و کردار کے اعتبار سے تو حضور ﷺ پہلے ہی انسانیت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے ‘ لیکن اب رسالت کی کٹھن ذمہ داریوں کے حوالے سے آپ ﷺ کو مزید ریاضت کرنے کی ہدایت کی گئی کہ اب آپ ﷺ رات کا بیشتر حصہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہو کر قرآن مجید پڑھنے میں گزارا کریں اور اس طرح قرآن مجید کو زیادہ سے زیادہ اپنے اندر جذب کریں۔
آیت 6{ اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّــیْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْأً } ”یقینا رات کا جاگنا بہت موثر ہے نفس کو زیر کرنے کے لیے“ { وَّاَقْوَمُ قِیْلًا۔ } ”اور بات کو زیادہ درست رکھنے والا ہے۔“ یہ نہایت سکون و اطمینان کا وقت ہوتا ہے۔ اس وقت بندے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔
آیت 7{ اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا۔ } ”یقینا دن کے اوقات میں تو آپ ﷺ کے لیے بڑی مصروفیات ہیں۔“ دن کے اوقات میں تو آپ ﷺ کو بہت سی دوسری مصروفیات کا سامنا ہوتا ہے۔ دعوت کے سلسلے میں طرح طرح کے لوگوں سے ملنا اور ان کی کڑوی کسیلی باتیں سننا بذات ِخود ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ ان مصروفیات میں آپ ﷺ کی توجہ بٹی رہتی ہے۔ لیکن رات کی تنہائیوں میں تو بس آپ ﷺ ہیں اور آپ ﷺ کا رب ہے۔ اس وقت آپ ﷺ پوری توجہ اور دلجمعی سے اپنے رب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
آیت 8{ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَـبَتَّلْ اِلَـیْہِ تَـبْتِیْلًا۔ } ”اور آپ ﷺ اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کریں اور ہر طرف سے کٹ کر بس اسی کے ہو رہیں۔“ تبتّلکا معروف مفہوم تو یہی ہے کہ سب سے کٹ کر کسی ایک کا ہوجانا ‘ لیکن عملی طور پر اس حکم کے ذریعے ایک بندئہ مومن سے ”بےہمہ و باہمہ“ کی کیفیت مطلوب ہے۔ یعنی رشتوں اور تعلقات کے ہجوم میں بظاہر سب کے ساتھ نظر آئو ‘ لیکن حقیقت میں تمہارا تعلق کسی کے ساتھ بھی نہ ہو۔ جیسے قیامت کے دن ہر انسان کو انفرادی حیثیت سے اللہ کے حضور کھڑے ہونا ہوگا۔ اس وقت ماں باپ ‘ اولاد ‘ بیوی ‘ شوہر کوئی بھی ساتھ نہیں ہوگا۔ بہرحال ایک بندئہ مومن کو فریضہ دعوت و تبلیغ کی ادائیگی کے لیے بظاہر تو معاشرے میں رہنا ہے اور خود سے متعلقہ لوگوں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہے ‘ لیکن باطنی طور پر اسے تمام لوگوں سے ذہنی و قلبی رشتے ‘ دوستیاں ‘ امیدیں اور توقعات توڑ کر صرف اللہ تعالیٰ سے رشتہ استوار کرنا چاہیے۔ یہ ہے وَتَـبَتَّلْ اِلَـیْہِ تَـبْتِیْلًا کے حکم کا اصل مدعا۔
آیت 10{ وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ } ”اور جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس پر صبر کیجیے“ { وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیْلًا۔ } ”اور ان کو چھوڑ دیجیے بڑی خوبصورتی سے کنارہ کشی کرتے ہوئے۔“ یہ لوگ آپ ﷺ کے لیے شاعر ‘ جادوگر اور مجنون جیسے نام رکھتے ہیں۔ یہ صورت حال آپ ﷺ کے لیے بلاشبہ نہایت تکلیف دہ ہے ‘ لیکن آپ ﷺ ان لوگوں کی باتوں پر صبر کریں اور خوبصورت انداز میں ان کو چھوڑ کر الگ ہوجائیں۔ سورة الفرقان میں اللہ کے نیک بندوں کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے : { وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ } کہ جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ ان کو سلام کر کے گزر جاتے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے اس حکمت عملی کو اپنانا بہت ضروری ہے۔ ظاہر ہے انسان کے حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے۔ ہوسکتا ہے آج جن لوگوں کو آپ کی دعوت سے چڑ ہے کل انہیں آپ کی یہی باتیں اچھی لگنے لگیں۔ اس لیے لوگوں سے دوبارہ بات کرنے کا راستہ کھلا رکھنا ضروری ہے۔ یہ آیات نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھیں۔ اگلے بارہ سال کے دوران مکہ کے حالات نے ابھی کئی نشیب و فراز دیکھنے تھے۔ اس لیے حضور ﷺ کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ اہل مکہ کی اوچھی حرکتوں کی وجہ سے آپ ﷺ ان کو نظرانداز تو کریں ‘ لیکن تعلقات میں اس قدر تلخی نہ آنے دیں کہ دوبارہ انہیں دعوت دینا ممکن نہ رہے۔
آیت 1 1{ وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَۃِ } ”آپ مجھے اور ان جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیں ‘ جو بڑی نعمتوں سے نوازے گئے ہیں“ ان کو مال و اولاد ‘ بڑی بڑی جائیدادیں اور طرح طرح کی دوسری نعمتیں بھی میں نے ہی عطا کی ہیں اور اب ان کی سرکشی کا مزہ بھی انہیں میں ہی چکھائوں گا ‘ لہٰذا ان کا معاملہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ نوٹ کیجیے ابتدائی دور کی ان سورتوں میں ذَرْنِیْ اور ذَرْھُمْ کے صیغے بار بار آرہے ہیں۔ { وَمَہِّلْہُمْ قَلِیْلًا۔ } ”اور ابھی آپ انہیں تھوڑی سی مہلت دیں۔“ قبل ازیں ہم سورة مریم میں اس سے ملتا جلتا یہ حکم بھی پڑھ چکے ہیں : { فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْہِمْط اِنَّمَا نَعُدُّ لَہُمْ عَدًّا۔ } ”تو آپ ﷺ ان کے خلاف فیصلے کے لیے جلدی نہ کیجیے۔ ہم ان کی پوری پوری گنتی کر رہے ہیں“۔ سورة الطارق کی اس آیت میں بھی بالکل یہی مضمون بیان ہوا ہے : { فَمَہِّلِ الْکٰفِرِیْنَ اَمْہِلْہُمْ رُوَیْدًا۔ } ”تو آپ کافروں کو مہلت دیں ‘ بس تھوڑی سی مزید مہلت۔“
آیت 13{ وَّطَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ } ”اور وہ کھانا جو حلق میں اٹک جائے گا“ اس سے مراد ”زقوم“ ہے جس کا ذکر قرآن میں متعدد بار ہوا ہے۔ اس کی تفصیل سورة الواقعہ ‘ آیت 52 کے ضمن میں دیکھی جاسکتی ہے۔ { وَّعَذَابًا اَلِیْمًا۔ } ”اور دردناک عذاب ہے۔“ یعنی یہ لوگ جہنم کا ایندھن بننے اور اس کے دردناک عذابوں کا مزہ چکھنے کے لیے کشاں کشاں اس کی طرف جا رہے ہیں ‘ لیکن ابھی ہم کچھ دیر کے لیے انہیں مہلت دینا چاہتے ہیں۔
آیت 14{ یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَکَانَتِ الْجِبَالُ کَثِیْبًا مَّہِیْلًا۔ } ”جس دن کہ زمین اور پہاڑ لرزنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے بکھرتے تودے بن جائیں گے۔“ کوہ ہمالیہ جیسے بڑے بڑے پہاڑ اس دن ریزہ ریزہ ہو کر ریت کے ٹیلوں sand dunes کی طرح ہوجائیں گے۔ پھر ان ٹیلوں کے پھسلنے اور بکھرنے کے باعث زمین کے تمام نشیب و فراز برابر ہوجائیں گے۔ اس طرح کہ : { لاَ تَرٰی فِیْہَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا۔ } طٰہٰ ”آپ نہ تو اس میں کوئی ٹیڑھ دیکھیں گے اور نہ کوئی ٹیلا۔“
آیت 15{ اِنَّــآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا لا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ } ”اے لوگو ! ہم نے تمہاری طرف ایک رسول ﷺ بھیج دیا ہے تم پر گواہ بنا کر۔“ ہمارا یہ رسول ﷺ دنیا میں تمہارے سامنے اپنے قول و عمل سے حق کی گواہی دے گا اور قیامت کے دن تمہارے خلاف گواہی دے گا ‘ کہ اے اللہ ! میں نے تو تیرا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا ‘ اب اس حوالے سے یہ لوگ خود جواب دہ ہیں۔ { کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا۔ } ”جیسے کہ ہم نے بھیجا تھا فرعون کی طرف بھی ایک رسول۔“ اسی طرح اس سے پہلے ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے رسول کی حیثیت سے فرعون کے پاس بھیجا تھا۔
آیت 16{ فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ } ”پس فرعون نے نافرمانی کی ہمارے رسول علیہ السلام کی“ { فَاَخَذْنٰـہُ اَخْذًا وَّبِیْلًا۔ } ”تو ہم نے پکڑ لیا اس کو بڑے وبال والی پکڑ۔“ اب تم خود ہی سوچو کہ اللہ کے رسول علیہ السلام کو جھٹلا کر اگر فرعون جیسا مطلق العنان بادشاہ نہیں بچ پایا تھا اور اسی جرم کی پاداش میں اگر عاد وثمود جیسی طاقتور قوموں کو نیست و نابود کردیا گیا تھا تو تم لوگ اللہ کے رسول ﷺ کو جھٹلا کر کیسے بچے رہو گے !
آیت 17{ فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَا } ”اب اگر تم کفر کرو گے تو تم کیسے بچ جائو گے اس دن ‘ جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا“ قیامت کا دن اللہ کے نافرمانوں کے لیے بہت سخت ہوگا۔
آیت 18{ نِالسَّمَآئُ مُنْفَطِرٌم بِہٖط کَانَ وَعْدُہٗ مَفْعُوْلًا۔ } ”آسمان اس سے پھٹ پڑنے والا ہے ‘ اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔“ قیامت اس کائنات پر کہیں باہر سے نہیں آئے گی ‘ وہ اس وقت بھی اس کے اندر موجود ہے ‘ جیسے کہ سورة الاعراف میں فرمایا گیا ہے : { ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } آیت 187 کہ وہ آسمان و زمین پر بہت بھاری ہے۔ چناچہ قیامت کا ”بھاری پن“ کائنات کے لیے ناقابل برداشت ہوا جا رہا ہے اور اب اس کے ظہور سے متعلق اللہ کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آیا ہی چاہتا ہے۔
آیت 19{ اِنَّ ہٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌج } ”یقینا یہ ایک یاددہانی ہے۔“ { فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا۔ } ”تو جو کوئی بھی چاہے وہ اپنے رب کی طرف راستہ اختیار کرلے۔“ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن مجید کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے۔ آمین !