سورۃ المعارج (70): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Ma'aarij کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المعارج کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المعارج کے بارے میں معلومات

Surah Al-Ma'aarij
سُورَةُ المَعَارِجِ
صفحہ 568 (آیات 1 سے 10 تک)

سورۃ المعارج کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المعارج کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

مانگنے والے نے عذاب مانگا ہے، (وہ عذاب) جو ضرور واقع ہونے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Saala sailun biAAathabin waqiAAin

آیت 1 ‘ 2{ سَاَلَ سَآئِلٌم بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ - لِّلْکٰفِرِیْنَ لَـیْسَ لَہٗ دَافِعٌ۔ } ”مانگا ایک مانگنے والے نے ایک ایسا عذاب جو واقع ہونے والا ہو ‘ کافروں کے لیے ‘ جس کو کوئی ٹال نہ سکے گا۔“ یہاں سَاَلَ سَآئِلٌسے کون مراد ہے ؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ میری رائے بہت پہلے سے یہ تھی کہ یہ عذاب طلب کرنے والے خود حضور ﷺ ہیں ‘ لیکن مجھے اپنی رائے پر اطمینان اس وقت ہوا جب مجھے معلوم ہوا کہ شاہ عبدالقادر دہلوی رح کی رائے بھی یہی ہے۔ عام مفسرین میں سے بہت کم لوگ شاہ صاحب رح کی اس رائے سے متفق ہیں کہ اس آیت میں حضور ﷺ کی خواہش یا دعا کا ذکر ہے۔ اس آیت کو سمجھنے کے لیے دراصل اس دور کا نقشہ ذہن میں لانا ضروری ہے جب حضور ﷺ پر ہر طرف سے طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور مکہ کی گلیوں میں آپ ﷺ کو شاعر ‘ مجنون ‘ ساحر اور کذاب جیسے ناموں سے پکارا جارہا تھا معاذ اللہ۔ اعلانِ نبوت کے بعد تین سال تک تو یوں سمجھئے کہ پورے شہر کی مخالفت کا نشانہ صرف حضور ﷺ کی ذات تھی۔ مشرکین کا خیال تھا کہ اگر وہ آپ ﷺ کی قوت ارادی اور ہمت توڑنے یا کسی بھی طریقے سے آپ ﷺ کو آپ ﷺ کے موقف سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ تحریک خود بخود ختم ہوجائے گی۔ چناچہ اس دور میں عام اہل ایمان کو نظرانداز کر کے صرف آپ ﷺ کی ذات کو نشانے پر رکھا گیا تھا۔ اس دوران اگرچہ آپ ﷺ کو کوئی جسمانی اذیت تو نہ پہنچائی گئی لیکن باقاعدہ ایک منظم مہم کے تحت آپ ﷺ کے خلاف ذہنی ‘ نفسیاتی اور جذباتی تشدد کی انتہا کردی گئی۔ ان لوگوں کی اس مذموم مہم کی وجہ سے حضور ﷺ مسلسل ایک کرب اور تکلیف کی کیفیت میں تھے۔ اس کا اندازہ ان الفاظ اور جملوں سے بھی ہوتا ہے جو اس دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں آپ ﷺ کی تسلی کے لیے جگہ جگہ آئے ہیں۔ بہرحال حضور ﷺ بھی تو آخر انسان تھے۔ مسلسل شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرتے ہوئے ردّعمل کے طور پر آپ ﷺ کے دل میں ایسی خواہش کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا کہ اب ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجانا چاہیے۔ چناچہ ان آیات میں آپ ﷺ کی اسی خواہش یا دعا کا ذکر ہے۔ اس حوالے سے یہاں یہ نکتہ بھی مدنظر رہے کہ اس سورت کا سورة نوح کے ساتھ جوڑے کا تعلق ہے اور سورة نوح میں بھی حضرت نوح علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر ہے جس میں آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لیے سخت عذاب مانگا تھا۔ گویا ان دونوں سورتوں کے اس مضمون کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس تعلق میں یہ مناسبت بھی بہت اہم ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام پہلے رسول اور حضور ﷺ آخری رسول ہیں۔ 1

اردو ترجمہ

کافروں کے لیے ہے، کوئی اُسے دفع کرنے والا نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lilkafireena laysa lahu dafiAAun

اردو ترجمہ

اُس خدا کی طرف سے ہے جو عروج کے زینوں کا مالک ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Mina Allahi thee almaAAariji

اردو ترجمہ

ملائکہ اور روح اُس کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

TaAAruju almalaikatu waalrroohu ilayhi fee yawmin kana miqdaruhu khamseena alfa sanatin

آیت 4{ تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَـیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ۔ } ”چڑھتے ہیں فرشتے اور روح اس کی جانب ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے۔“ یہ آیت ہمارے لیے آیات متشابہات میں سے ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہ اللہ تعالیٰ کے ”ذِی الْمَعَارِجِ“ ہونے کی وضاحت ہے کہ اس کی بارگاہِ بلند تک پہنچنے کے لیے فرشتوں اور جبریل علیہ السلام کو بھی پچاس ہزار سال کی مسافت کے برابر فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ پچاس ہزار برس کے دن سے یہاں قیامت کا دن مراد ہے جو کفار کے لیے تو بہت طویل اور سخت ہوگا ‘ البتہ اہل ایمان کو وہ دن ایسے محسوس ہوگا جیسے انہوں نے دن کا کچھ حصہ یا ایک فرض نماز ادا کرنے کے برابر وقت گزارا ہو۔ حضرت ابوسعید خدری رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس دن کے بارے میں پوچھا گیا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اِنَّـہٗ لَیُخَفَّفُ عَلَی الْمُؤْمِنِ حَتّٰی یَـکُوْنَ اَھْوَنَ عَلَیْہِ مِنْ صَلَاۃٍ مَکْتُوْبَۃٍ یُصَلِّیْھَا فِی الدُّنْیَا ”اس ذات کی قسم جس کے دست ِ قدرت میں میری جان ہے ! یہ دن مومن کے لیے بہت مختصر کردیا جائے گا ‘ یہاں تک کہ جتنے وقت میں وہ دنیا میں ایک فرض نماز ادا کرتا ہے اس سے بھی اسے مختصر معلوم ہوگا۔“

اردو ترجمہ

پس اے نبیؐ، صبر کرو، شائستہ صبر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faisbir sabran jameelan

آیت 5{ فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا۔ } ”تو آپ ﷺ بڑی خوبصورتی سے صبر کیجیے۔“ یہ ہے وہ اصل پیغام جو ان آیات کے ذریعے حضور ﷺ کو دینا مقصود تھا ‘ کہ ابھی تو سفر کا آغاز ہوا ہے ‘ آنے والا وقت اور بھی کٹھن ہوگا۔ لہٰذا آپ ﷺ اپنے راستے میں آنے والی ہر مشکل کا صبر اور استقامت کے ساتھ سامنا کریں۔ اس سے پہلے سورة القلم میں بھی آپ ﷺ کو ایسی ہی ہدایت کی گئی ہے : { فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَـکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ 7} آیت 48 ”تو آپ ﷺ انتظار کیجیے اپنے رب کے حکم کا ‘ اور دیکھئے ! آپ ﷺ اس مچھلی والے کی طرح نہ ہوجایئے گا !“

اردو ترجمہ

یہ لوگ اُسے دور سمجھتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innahum yarawnahu baAAeedan

آیت 6 ‘ 7{ اِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا - وَّنَرٰٹہُ قَرِیْبًا۔ } ”یہ لوگ تو اس عذاب کو دور سمجھ رہے ہیں ‘ اور ہم اسے نہایت قریب دیکھ رہے ہیں۔“ ظاہر ہے انسان تو صرف اپنے سامنے کی چیز کو ہی دیکھ سکتا ہے ‘ مستقبل میں جھانکنا تو اس کے بس میں نہیں ہے۔ اسی لیے مستقبل کی چیزیں یا خبریں اسے عام طور پر دور محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے تو مستقبل وغیرہ کچھ نہیں اور نہ ہی کوئی چیز اس سے غائب ہے۔ وہ تو ہرچیز کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ رہا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ سڑک پر سفر کرتے ہوئے ایک شخص صرف اسی شہر یا مقام کو دیکھ سکتا ہے جو اس کے سامنے ہے جبکہ اس سے اگلا شہر مستقبل میں ہونے کی وجہ سے اس کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو شخص ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے وہ ان دونوں شہروں کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ سکتا ہے۔ بقول آئن سٹائن every thing is relative کہ دنیا کی ہرچیز کسی دوسری چیز سے متعلق و مشروط ہے۔ چناچہ کسی بھی چیز یا صورت حال کو صرف ایک ہی زاویے سے دیکھ کر کوئی رائے قائم نہیں کر لینی چاہیے۔ دنیا میں ہمارے اعتبار سے بھی قریب اور بعید relative ہیں ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو کوئی شے بھی بعید نہیں ‘ ہرچیز اس کے سامنے ہے۔ ماضی ‘ حال اور مستقبل آنِ واحد میں اس کے سامنے موجود ہیں۔

اردو ترجمہ

اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wanarahu qareeban

اردو ترجمہ

(وہ عذاب اُس روز ہوگا) جس روز آسمان پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہو جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma takoonu alssamao kaalmuhli

اردو ترجمہ

اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون جیسے ہو جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Watakoonu aljibalu kaalAAihni

اردو ترجمہ

اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala yasalu hameemun hameeman
568