اس صفحہ میں سورہ At-Talaaq کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الطلاق کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1{ یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ } ”اے نبی ﷺ ! جب آپ لوگ اپنی عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے حساب سے طلاق دو اور عدت کا پورا لحاظ رکھو۔“ نوٹ کیجیے ! حضور ﷺ کو صیغہ واحد میں مخاطب کرنے کے بعد فوراً جمع کا صیغہ طَلَّقْتُمْ آگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ خود حضور ﷺ کی ذات سے نہیں ‘ عام اہل ایمان سے متعلق ہے اور آپ ﷺ کو اہل ایمان کے نمائندہ ‘ معلم اور ہادی کی حیثیت سے مخاطب کیا گیا ہے۔ عدت کے حساب سے طلاق دینے اور عدت کا لحاظ رکھنے کے بہت سے پہلو ہیں۔ مجموعی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نازک اور حساس معاملے میں شریعت کی طے کردہ حدود وقیود کا لحاظ رکھو اور متعلقہ قوانین کی سختی سے پابندی کرو۔ مثلاً حیض کی حالت میں طلاق نہ دو ‘ تینوں طلاقیں اکٹھی نہ دو ‘ ہر طلاق کی عدت کا حساب رکھو ‘ عدت کے دوران عورت کا نکاح نہ کرو۔ میاں بیوی کے درمیان ایک یا دو طلاقوں کے بعد ہونے والی علیحدگی کی صورت میں ان دونوں کے آپس میں دوبارہ نکاح کے حق کو تسلیم کرو ‘ وغیرہ وغیرہ۔ { وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّـکُمْ } ”اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جو تمہارا ربّ ہے۔“ { لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْم بُیُوْتِہِنَّ } ”انہیں مت نکال باہر کرو ان کے گھروں سے“ ایسا نہ ہو کہ غصے میں طلاق دی اور کہا کہ نکل جائو میرے گھر سے ‘ ابھی اور اسی وقت ! یہ طریقہ قطعاً غلط ہے۔ { وَلَا یَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّـبَـیِّنَۃٍط } ”اور وہ خود بھی نہ نکلیں ‘ سوائے اس کے کہ وہ ارتکاب کریں کسی کھلی بےحیائی کا۔“ عام حالات میں تو طلاق کے فوراً بعد عورت کو گھر سے نہیں نکالا جاسکتا ‘ اور نہ ہی اسے از خود نکلنے کی اجازت ہے۔ لیکن اس دوران اگر وہ بدکاری وغیرہ میں ملوث ہوجائے تو ایسی صورت میں اسے اس گھر سے نکالا جاسکتا ہے۔ { وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ } ”اور یہ اللہ کی حدود ہیں۔“ { وَمَنْ یَّـتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ } ”اور جو کوئی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تو اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا۔“ { لَا تَدْرِیْ لَـعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا۔ } ”تمہیں نہیں معلوم کہ شاید اس کے بعد اللہ کوئی نئی صورت پیدا کردے۔“ طلاق کے بعد اگر عورت شوہر کے گھر میں ہی عدت گزار رہی ہو تو حالات بہتر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کیا معلوم اللہ تعالیٰ ان دونوں میں بہتری کی کوئی صورت پیدا کر دے اور وہ پہلی طلاق کے بعد ہی رجوع کرلیں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی مشیت سے حالات ہمیشہ کے لیے سازگار ہوجائیں۔
آیت 2 { فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ } ”پھر جب وہ اپنی عدت کی میعاد کو پہنچنے لگیں تو اب ان کو یا تو اپنے نکاح میں روک رکھو معروف طریقے سے ‘ یا جدا کردو معروف طریقے سے“ یعنی ایک یا دو طلاق دینے کی صورت میں عدت پوری ہوجانے سے پہلے مرد کو حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر تو وہ رجوع کرنا چاہتا ہے تو شریعت کے طے کردہ طریقے سے رجوع کرلے اور اگر اس نے طلاق ہی کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر بھلے طریقے سے عورت کو گھر سے رخصت کر دے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اسے ستانے کی غرض سے روکے رکھے۔ { وَّاَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ } ”اور اپنے میں سے دو معتبر اشخاص کو گواہ بنا لو“ یعنی اگر کوئی طلاق کے بعد رجوع کرنا چاہے تو وہ اپنے لوگوں میں سے کم از کم دو معتبر اشخاص کی موجودگی میں ایسا کرے۔ { وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ } ”اور گواہی قائم کرو اللہ کے لیے۔“ { ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ } ”یہ ہے جس کی نصیحت کی جا رہی ہے ہراس شخص کو کہ جو ایمان رکھتا ہو اللہ پر اور یوم آخر پر۔“ اس سے ملتے جلتے الفاظ سورة الاحزاب کی آیت 21 میں حضور ﷺ کے اسوہ اور سورة الممتحنہ کی آیت 6 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے ساتھیوں کے اسوہ کے بارے میں بھی آئے ہیں۔ مطلب یہ کہ حضور ﷺ کا اُسوئہ کاملہ تو اپنی جگہ پر موجود ہے ‘ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے ساتھیوں کی زندگی بھی مثالی نمونہ ہے ‘ لیکن کس کے لیے ؟ { لِمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ }۔ یعنی حضور ﷺ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اُسوئہ حسنہ سے استفادہ صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور یوم آخرت کی حاضری کی امید رکھتا ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے اس جملے کا مفہوم بھی یہی ہے کہ مسائل طلاق سے متعلق یہ وعظ اور نصیحت صرف اسی شخص کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے جو واقعی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔ { وَمَنْ یَّــتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّـہٗ مَخْرَجًا } ”اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا ‘ اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا۔“ اللہ کے تقویٰ کا مقام و مرتبہ واضح کرنے کا یہ بہت حسین اور دلکش انداز ہے اور اس اعتبار سے یہ قرآن مجید کا منفرد مقام ہے۔ یہاں پر ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لیں کہ حقیقی تقویٰ دل کا تقویٰ ہے ‘ جس کے بارے میں حضور ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے دست مبارک سے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا ، اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا ، اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا 1 کہ اصل تقویٰ یہاں دل کے اندر ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ کا براہ راست تعلق انسان کے دل کے ساتھ ہے۔ اگر دل میں تقویٰ نہیں تو ّجبہ و دستار کا اہتمام اور متقیانہ وضع قطع کی حیثیت بہروپ سے زیادہ کچھ نہیں۔ چناچہ اس آیت میں اہل تقویٰ کو بہت بڑی بشارت سنائی جا رہی ہے کہ اگر کسی بندئہ مومن کا تقویٰ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول و منظور ہوا تو اس کے لیے مشکل سے مشکل صورت حال سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور پیدا کردیا جائے گا ‘ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے تو فرعون نے انہیں ساحل سمندر پر جا لیا۔ اب آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون کا لشکر۔ بظاہر بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا ‘ مگر اللہ تعالیٰ نے سمندر کو پھاڑ کر ان کے لیے راستہ پیدا کردیا۔ اسی طرح جب حضور ﷺ غارِ ثور میں تشریف فرما تھے تو مشرکین مکہ میں سے کچھ لوگ آپ ﷺ کے کھوج میں غار کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ انہیں دیکھ کر حضرت ابوبکر رض نے عرض کیا کہ حضور ﷺ ! اگر ان لوگوں نے نیچے اپنے قدموں کی طرف بھی دیکھ لیا تو ہم انہیں نظر آجائیں گے۔ حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر رض کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : { لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَاج } التوبۃ : 40 کہ آپ فکر مت کریں ‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے ! اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی صورت حال پیدا فرما دی کہ مشرکین آپ ﷺ کو نہ دیکھ سکے۔ حضور ﷺ کے سفر طائف کی مثال لیں تو بظاہر وہاں سے آپ ﷺ خالی ہاتھ واپس آئے تھے ‘ لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لیے مدینہ سے کھڑکی کھول دی اور ایسے حالات پیدا فرما دیے کہ آپ ﷺ کے مدینہ تشریف لے جانے سے پہلے ہی وہاں انقلاب آگیا۔ یہ مثالیں گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے متقی بندوں کے لیے ضرور ”مخرج“ پیدا فرماتا ہے۔ چناچہ اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف اہل ایمان کے لیے آیت زیر مطالعہ کے ان الفاظ میں یہ خوشخبری ہے کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنی کوششیں پورے خلوص سے جاری رکھیں۔ جب اللہ تعالیٰ کو ان کوششوں کی کامیابی منظور ہوگی تو حیرت انگیز طریقے سے منزل خود چل کر ان کے سامنے آجائے گی۔
آیت 3{ وَّیَرْزُقْـہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ } ”اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا۔“ اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ رزق یعنی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کا ہے۔ اس لیے جب کوئی اللہ کا بندہ اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فرمانِ الٰہی : { اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ } الانعام کو اپنا نصب العین بنانا چاہتا ہے تو اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ یہ اندیشہ بنتا ہے کہ ضروریاتِ زندگی کیسے پوری ہوں گی ؟ چناچہ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اہل ِ ایمان کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اے میرے بندو ! تمہارا رازق تو میں ہوں اور تمہیں رزق دینے کے لیے میں وسائل و اسباب کا محتاج نہیں ہوں۔ تم لوگ ایمان و یقین کے ساتھ مجھ پر اعتماد کرکے دیکھو ‘ میں تمہیں وہاں سے رزق دوں گا جہاں سے تمہیں گمان بھی نہیں ہوگا۔{ وَمَنْ یَّـتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ } ”اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے تو اس کے لیے وہ کافی ہے۔“ جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اپنے معاملات اس کے سپرد کردیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات و حاجات کو اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔ اسی بات کو کسی شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے : ؎کار ساز ما بہ فکر ِکارِ ما فکر ِما در کار ما آزار ما !کہ ہمارا کارساز تو اللہ ہے ‘ اور وہ ہمارے کاموں کی فکر میں مصروف ہے ‘ اس لیے ہم اپنے کاموں کی فکر کے جھنجھٹ میں کیوں پڑیں ! ظاہر ہے اگر ہم خود اپنے کاموں کی فکر کریں گے تو غلطیاں بھی کریں گے ‘ نقصان بھی اٹھائیں گے اور ٹھوکریں بھی کھائیں گے ‘ تو کیوں نہ ہم اپنے کام اسے سونپ کر خود کو اس کے کام اقامت دین کی جدوجہد میں لگا دیں۔ اللہ تو ایسا قدردان ہے کہ اگر اس کا کوئی بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرتا ہے تو وہ بدلے میں اس کا مددگار بن جاتا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے : مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَۃِ اَخِیْہِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ حَاجَتِہٖ 1 کہ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرنے میں اپنا وقت صرف کرتا ہے تو اللہ اس کی ضرورتیں پوری کرنے میں لگ جاتا ہے۔ تو اگر اللہ کا کوئی بندہ اپنی ذاتی ترجیحات کو پس پشت ڈال کر خود کو براہ راست اللہ تعالیٰ کے کام میں لگا دے گا تو کیا اللہ اس کے معاملات کو خراب ہونے کے لیے چھوڑ دے گا ؟ ہرگز نہیں ! ایسا تو دنیا میں ہم انسانوں کے ہاں بھی نہیں ہوتا ‘ بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس انسان میں تھوڑی سی بھی شرافت اور مروت ہوتی ہے وہ دوسرے انسان کی وفاداری کا بدلہ ضرور چکاتا ہے۔ چناچہ جب ایک انسان بھی دوسرے انسان کی وفاشعاری کا صلہ دینا ضروری سمجھتا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک وفاشعار اور متوکل ّ بندے کی کس کس انداز سے دست گیری فرمائے گا۔ یاد رکھیں ! توکل کا تعلق بندے کے ایمان سے ہے۔ جس قدر گہرا اور پختہ کسی کا ایمان ہوگا ‘ اسی قدرمضبوط اس کا توکل ہوگا۔ آج ہمارے لیے اللہ تعالیٰ پر بھرپور توکل کرنا اس لیے مشکل ہے کہ ہمارا ایمان کمزور ہے۔ تو آیئے ! ہم اپنا ایمان مضبوط کر کے اللہ پر توکل کریں۔ اپنے معاملات کی منصوبہ بندیوں کا دردسر مول لینے کے بجائے تفویض الامر الی اللّٰہ کی حکمت عملی اپنائیں۔ اپنے معاملات اس کے سپرد کردیں اور اس کے کام کو اپناکام سمجھ کر اس کے لیے اپنا تن من دھن کھپا دیں !۔۔۔۔ - -{ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ بِصِیْرٌج بِالْعِبَادِ۔ } المومن { اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ } ”اللہ تو یقینا اپنا کام پورا کر کے ہی رہتا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے دین کو غالب کرنا ہی ہے ‘ لیکن اس عظیم الشان کام کے لیے جدوجہد کی سعادت وہ اپنے بندوں کے نام کرنا چاہتا ہے۔ اب اس کے لیے ہر انسان کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس منافع بخش ”کاروبار“ میں شریک ہونا چاہتا ہے یا اپنی محرومی پر قناعت کر کے بیٹھے رہنے کو پسند کرتا ہے۔ جیسے ابوبکر ‘ عمر ‘ عثمان ‘ علی ‘ عبدالرحمن بن عوف اور ان کے ساتھی j اس جدوجہد میں شریک ہو کر ہمیشہ کے لیے سرخروہو گئے ‘ جبکہ ابوجہل ‘ ابولہب اور ان کے ہم نوائوں نے اس سے بےاعتنائی دکھائی اور ابدی محرومیاں اپنے نام کرالیں۔ آج ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قیام قیامت سے پہلے پہلے اس کرئہ ارضی پر دین اسلام کو غالب تو ہونا ہے اور یقینا ہم جیسے انسانوں کی کوششوں اور قربانیوں سے ہی ہونا ہے ‘ تو کیا ہم اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو تیار ہیں یا محرومین کی صفوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں ؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارا تن من دھن غرض سب کچھ اس جدوجہد میں کھپ جائے اور ہماری ہڈیاں چورا بن کر بھی اسلام کی تعمیر نو میں کام آجائیں تو یہ ہماری بہت بڑی کامیابی اور خوش قسمتی ہوگی۔ { قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا۔ } ”اللہ نے ہرچیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔“ یہ بہت خوبصورت اور سبق آموز جملہ ہے۔ غلبہ دین کی جدوجہد کے تناظر میں دیکھیں تو اس کا مفہوم واضح تر ہوجاتا ہے ‘ کہ اے راہ حق کے مسافرو ! تمہاری محنت اور جدوجہد کس کس گھاٹی سے ہوتی ہوئی کب ‘ کہاں پہنچے گی اور اللہ کی مدد کب تمہارے شامل حال ہوگی ‘ اللہ کے ہاں یہ سب کچھ طے ہے۔ یقینا اس راستے میں کامیابی کا دارومدار اللہ کی مدد پر ہے ‘ لیکن اللہ کی مدد تو تبھی آئے گی جب تم خود کو اس کا اہل ثابت کرو گے۔ اس کے لیے تمہیں منہج نبوی ﷺ کو اپناتے ہوئے ہر اس راستے سے گزرنا ہوگا جس راستے سے حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گزرے اور ہر وہ سختی برداشت کرنا ہوگی جو آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر برداشت کی۔ جب ان تمام امتحانات سے سرخرو ہو کر آگے بڑھو گے تو خود کو ایک ایسے میدان میں کھڑا پائو گے جس کے نشیب و فراز سرزمین ِبدر کے نشیب و فراز سے ملتے جلتے ہوں گے۔ اس میدان کی مخالف سمت سے اسلحہ کی جھنکار اور لَا غَالِبَ لَـکُمُ الْیَوْمَ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی ہوگی ‘ جبکہ اس کی فضا ملکوتی تقدس کے احساس سے معمور ہوگی۔ جب تم یہ سب کچھ دیکھو اور محسوس کرو تو جان لینا کہ تمہاری جدوجہد کا فیصلہ کن موڑ آپہنچا ہے۔ بس اس موقع پر تم سجدے میں گرجانا اور رو رو کر دعا کرنا کہ اے اللہ ! ہم نے تیرے داعی کی دعوت پر لبیک کہا ! ہم تیرے پیغام کو لے کر قریہ قریہ گھومے ! گلی گلی پھرے ! ایک عرصہ تک ہم نے اپنی صبحیں اور اپنی شامیں اسی فکر میں بتادیں ! ہم نے اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو پھلانگنے اور ہر مشکل گھاٹی کو عبور کرنے کی کوشش کی ! اے اللہ ! ہم نے یہ سب کچھ تیری رضا کے لیے کیا ‘ اور تیری ہی توفیق اور مشیت سے کیا۔ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں معلوم ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے ہم کوشش ‘ محنت ‘ ایثار اور قربانی کا حق ادا نہیں کرسکے ! لیکن ہم سے جو ہوسکا وہ ہم نے پوری دیانت داری اور اخلاص سے کیا۔ پروردگار ! ہم نے اپنی سالہاسال کی محنت کو آج اس میدان میں تیرے حضور پیش کردیا ہے ! اے گناہوں کو معاف کرنے والے ! تو ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور ہماری کوتاہیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ہماری اس حقیر سی کمائی کو قبول فرما لے …! اگر یہ دعائیں مذکورہ تمام مراحل طے کرنے کے بعد مانگی جائیں گی تو ضرور قبول ہوں گی ‘ تب اللہ کی مدد بھی آئے گی ‘ فرشتے بھی اتریں گے اور دنیوی کامیابی بھی نصیب ہوگی۔ لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کاروبار بھی چلتا رہے ‘ معیارِ زندگی بھی برقرار رہے ‘ معمولاتِ زندگی میں بھی خلل نہ پڑے ‘ مال و جان بھی محفوظ رہے ‘ بچوں کے کیریئرز بھی بن جائیں اور ہمارے ہی ہاتھوں سے اقامت دین کا ”کارنامہ“ بھی انجام پا جائے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے۔ ایسے لوگ کسی جماعت کے اراکین کی فہرست میں نام لکھوا کر سمجھتے ہیں کہ بس انہوں نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ اس کے بعد وہ انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ اب اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی ‘ دین غالب ہوجائے گا اور اس کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کے مستحق ٹھہریں گے۔ گویا اللہ تعالیٰ کو تو معلوم ہی نہیں کہ کس نے کیا قربانی دی ہے ‘ کس نے کتنا وقت لگایا ہے ‘ کس نے کس مرحلے پر کس مہم میں کتنا حصہ ڈالا ہے۔ نہیں ! یہ کوئی اندھیر نگری نہیں ! اللہ کے ہاں ہرچیز اور ہر انسان کے ہر عمل کا حساب موجود ہے ! قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا اس نے ہرچیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے !
اب آئندہ آیات میں پھر طلاق سے متعلق مسائل کا ذکر ہے : آیت 4 { وََالّٰٓئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ } ”اور تمہارے ہاں کی خواتین میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں“ یعنی ایسی عمر رسیدہ خواتین جن کے حیض کا سلسلہ بند ہوچکا ہو۔ { اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْہُرٍ } ”اگر تمہیں شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہوگی“ ایسی خواتین کے معاملے میں چونکہ تین طہر اور تین حیض کا حساب کرنا ممکن نہیں ‘ اس لیے ان کی عدت کا شمار مہینوں میں کیا جائے گا۔ چناچہ ان کی عدت کی مدت تین ماہ ہوگی۔ { وََّالّٰٓئِیْ لَمْ یَحِضْنَط } ”اور ان کی بھی جن کو ابھی حیض آیا ہی نہیں۔“ اگر کسی لڑکی کا کم سنی میں نکاح ہوگیا اور ابھی اسے حیض آنا شروع نہیں ہوا تھا کہ طلاق ہوگئی تو اس کی عدت بھی تین ماہ ہی شمار ہوگی۔ { وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ } ”اور حاملہ خواتین کی عدت یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے۔“ ایسی صورت میں وضع حمل جب بھی ہوجائے گا عدت ختم ہوجائے گی ‘ چاہے اس میں نو ماہ لگیں یا ایک ماہ بعد ہی وضع حمل ہوجائے۔۔۔۔ اس کے بعد پھر سے تقویٰ کے بارے میں یاد دہانی کرائی جا رہی ہے۔ اس سے قبل پہلی اور دوسری آیت میں بھی تقویٰ کا ذکر آچکا ہے : { وَمَنْ یَّـتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا۔ } ”اور جو کوئی اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ اس کے کاموں میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔“ جیسا کہ سورة الیل میں فرمایا گیا ہے :{ فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی۔ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی۔ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی۔ }”تو جس نے اللہ کی راہ میں مال دیا اور اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کیا ‘ اور بھلائی کو سچ مانا ‘ اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔“
آیت 5{ ذٰلِکَ اَمْرُ اللّٰہِ اَنْزَلَـہٗٓ اِلَـیْکُمْ } ”یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے نازل کردیا ہے تمہاری طرف۔“ یعنی اس حکم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ذمہ داری لے لی ہے کہ میرے بندوں میں سے جو کوئی میرا تقویٰ اختیار کرے گا میں اس کے معاملات میں ضرور آسانیاں پیدا فرمائوں گا۔ { وَمَنْ یَّـتَّقِ اللّٰہَ یُـکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہٖ } ”اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا وہ اس کی برائیوں کو اس سے دور فرما دے گا“ اس حکم کا تعلق خصوصی طور پر آخرت سے ہے۔ یعنی اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والے شخص کے دنیوی معاملات میں بھی آسانیاں پیدا کردی جائیں گی اور آخرت کے احتساب کے حوالے سے بھی اس کے نامہ اعمال کو گناہوں سے پاک کردیا جائے گا۔ { وَیُعْظِمْ لَـہٗٓ اَجْرًا۔ } ”اور اسے بہت بڑا اجرو ثواب عطا کرے گا۔“