سورہ تحریم (66): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ At-Tahrim کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التحريم کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ تحریم کے بارے میں معلومات

Surah At-Tahrim
سُورَةُ التَّحۡرِيمِ
صفحہ 560 (آیات 1 سے 7 تک)

يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ ٱللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِى مَرْضَاتَ أَزْوَٰجِكَ ۚ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ قَدْ فَرَضَ ٱللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَٰنِكُمْ ۚ وَٱللَّهُ مَوْلَىٰكُمْ ۖ وَهُوَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ وَإِذْ أَسَرَّ ٱلنَّبِىُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَٰجِهِۦ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِۦ وَأَظْهَرَهُ ٱللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُۥ وَأَعْرَضَ عَنۢ بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِۦ قَالَتْ مَنْ أَنۢبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِىَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْخَبِيرُ إِن تَتُوبَآ إِلَى ٱللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِن تَظَٰهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ ٱللَّهَ هُوَ مَوْلَىٰهُ وَجِبْرِيلُ وَصَٰلِحُ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۖ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ عَسَىٰ رَبُّهُۥٓ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُۥٓ أَزْوَٰجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَٰتٍ مُّؤْمِنَٰتٍ قَٰنِتَٰتٍ تَٰٓئِبَٰتٍ عَٰبِدَٰتٍ سَٰٓئِحَٰتٍ ثَيِّبَٰتٍ وَأَبْكَارًا يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ قُوٓا۟ أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ ٱللَّهَ مَآ أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لَا تَعْتَذِرُوا۟ ٱلْيَوْمَ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
560

سورہ تحریم کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ تحریم کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے؟ (کیا اس لیے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو؟ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnabiyyu lima tuharrimu ma ahalla Allahu laka tabtaghee mardata azwajika waAllahu ghafoorun raheemun

اس سورت کی ابتدائی آیتوں کے شان نزول میں مفسرین کے اقوال یہ ہیں (ا) بعض تو کہتے ہیں یہ حضرت ماریہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہیں حضور ﷺ نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا جس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں، نسائی میں یہ روایت موجود ہے کہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے کہنے سننے سے ایسا ہوا تھا کہ ایک لونڈی کی نسبت آپ نے یہ فرمایا تھا اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں، ابن جریر میں ہے کہ ام ابراہیم کے ساتھ آپ نے اپنی کسی بیوی صاحبہ کے گھر میں بات چیت کی جس پر انہوں نے کہا یا رسول اللہ میرے گھر میں اور میرے بستر پر ؟ چناچہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کرلیا تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ کہ حلال آپ پر حرام کیسے ہوجائے گا ؟ تو آپ نے قسم کھائی کہ اب ان سے اس قسم کی بات چیت نہ کروں گا۔ اس پر یہ آیت اتری، حضرت زید فرماتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ کسی کا یہ کہہ دینا کہ تو مجھ پر حرام ہے لغو اور فضول ہے، حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ تو مجھ پر حرام ہے اللہ کی قسم میں تجھ سے صحبت داری نہ کروں گا۔ حضرت مسروق فرماتے ہیں پس حرام کرنے کے باپ میں تو آپ پر عتاب کیا گیا اور قسم کے کفارے کا حکم ہوا، ابن جریر میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت عمر سے دریافت کیا کہ یہ دونوں عورتیں کون تھیں ؟ فرمایا عائشہ اور حفصہ اور ابتدا قصہ ام ابراہیم قطبیہ کے بارے میں ہوئی۔ حضرت حفضہ کے گھر میں ان کی باری والے دن حضور ﷺ ان سے ملے تھے۔ جس پر حضرت حفضہ کو رنج ہوا کہ میری باری کے دن میرے گھر اور میرے بستر پر ؟ حضور نے انہیں رضامند کرنے اور منانے کے لئے کہہ دیا کہ میں اسے اپنے اوپر حرام کرتا ہوں، اب تم اس واقعہ کا ذکر کسی سے نہ کرنا لیکن حضرت حفضہ نے حضرت عائشہ سے واقعہ کہہ دیا کہ میں اسے اپنے اوپر حرام کرتا ہوں، اب تم اس واقعہ کا ذکر کسی سے نہ کرنا لیکن حضرت حفضہ نے حضرت عائشہ سے واقعہ کہہ دیا اللہ نے اس کی اطلاعق اپنے نبی کو دے دی اور یہ کل آیتیں نازل فرمائیں، آپ نے کفارہ دے کر اپنی قسم توڑ دی اور اس لونڈی سے ملے جلے، اسی واقعہ کو دلیل بنا کر حضرت عبداللہ بن عباس کا فتویٰ ہے کہ جو کہے فلاں چیز مجھ پر حرام ہے اسے قسم کا کفارہ دینا چاہئے، ایک شخص نے آپ سے یہی مسئلہ پوچھا کہ میں اپنی عورت کو اپنے اوپر حرام کرچکا ہوں تو آپ نے فرمایا وہ تجھ پر حرام نہیں، سب سے زیادہ سخت کفارہ اس کا تو راہ اللہ غلام آزاد کرنا ہے۔ امام احمد اور بہت سے فقہاء کا فتویٰ ہے کہ جو شخص اپنی بیوی، لونڈی یا کسی کھانے پینے پہننے اوڑھنے کی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے تو اس پر کفارہ واجب ہوجاتا ہے۔ امام شافعی وغیرہ فرماتے ہیں صرف بیوی اور لونڈی کے حرام کرنے پر کفارہ ہے کسی اور پر نہیں، اور اگر حرام کہنے سے نیت طلاق کی رکھی تو بیشک طلاق ہوجائے گی، اسی طرح لونڈی کے بارے میں اگر آزادگی کی نیت حرام کا لفظ کہنے سے رکھی ہے تو وہ آزاد ہوجائے گی۔ (2) ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ آیت اس عورت کے باب میں نازل ہوئی ہے جس نے اپنا نفس آنحضرت ﷺ کو ہبہ کیا تھا، لیکن یہ غریب ہے، بالکل صحیح بات یہ ہے کہ ان آیتوں کا اترنا آپ کے شہد حرام کرلینے پر تھا۔ (3) صحیح بخاری میں اس آیت کے موقعہ پر کہ حضرت زینب بنت بخش ؓ کے گھر رسول اللہ ﷺ شہد پیتے تھے اور اس کی خاطر ذرا سی دیر وہاں ٹھہرتے بھی تھے اس پر حضرت عائشہ حضرت عائشہ اور حضرت حفضہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے ہاں حضور ﷺ آئیں وہ کہے کہ یا رسول اللہ کہ آج تو آپ کے منہ سے گوند کی سی بدبو آتی ہے شاید آپ نے مغافیر کھایا ہوگا چناچہ ہم نے یہی کیا آپ نے فرمایا نہیں میں نے تو زینب کے گھر شہد پیا ہے اب قسم کھاتا ہو کہ نہ پیوں گا یہ کسی سے کہنا مت، امام بخاری اس حدیث کو کتاب الایمان والندوہ میں بھی کچھ زیادتی کے ساتھ لائے ہیں جس میں ہے کہ دونوں عورتوں سے یہاں مراد عائشہ اور حفصہ ہیں ؓ اور چپکے سے بات کہنا یہی تھا کہ میں نے شہد پیا ہے، کتاب الطلاق میں امام صاحب ؒ اس حدیث کو لائے ہیں۔ پھر فرمایا ہے مغافیر گوندے کے مشابہ ایک چیز ہے جو شور گھاس میں پیدا ہوتی ہے اس میں قدرے مٹھاس ہوتی ہے۔ صحیح خباری شریف کی کتاب الطلاق میں یہ حدیث حضرت عائشہ سے ان الفاظ میں مروی ہے کہ حضور ﷺ کو مٹھاس اور شہد بہت پسند تھا عصر کی نماز کے بعد اپنی بیویوں کے گھر آتے اور کسی سے نزدیکی کرتے ایک مرتبہ آپ حضرت حفضہ کے گئے اور جتنا وہاں رکتے تھے اس سے زیادہ رکے مجھے غیرت سوار ہوئی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان کی قوم کی ایک عورت نے ایک کپی شہد کے انہیں بطور ہدیہ کے بھیجی ہے، انہوں نے حضور ﷺ کو شہد کا شربت پلایا اور اتنی دیر روک رکھا میں نے کہا خیر اس کسی حیلے سے ٹال دوں گی چناچہ میں نے حضرت سودہ بنت زمعہ سے کہا کہ تمہارے پاس جب حضور ﷺ آئیں اور قریب ہوں تو تم کہنا کہ آج کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے آپ فرمائیں گے نہیں تم کہنا پھر یہ بدبو کیسی آتی ہے ؟ آپ فرمائیں گے مجھے حفضہ نے شہد پلایا تھا تو تم کہنا کہ شاید شہد کی مکھی نے عرفط نامی خار دار درخت چوسا ہوگا، میرے پاس آئیں گے میں بھی یہی کہوں گی، پھر اے صفیہ تمہارے پاس جب آئیں تو تم بھی یہی کنا، حضرت سودہ فرماتی ہیں جب حضور ﷺ میرے گھر آئے ابھی تو دروازے ہی پر تھے جو میں نے ارادہ کیا کہ تم نے جو مجھ سے کہا میں آپ سے کہہ دوں کیونکہ میں تم سے بہت ڈرتی تھی لیکن خیر اس وقت تو خاموش رہی جب آپ میرے پاس آئے میں نے تمہارا تمام کہنا پورا کردیا، پھر حضرت ﷺ میرے پاس آئے میں نے بھی یہی کہا پھر حضرت صفیہ کے پاس گئے انہوں نے بھی یہی کہا پھر جب حضرت حفضہ کے پاس گئے تو حضرت حفضہ نے شہد کا شربت پلانا چاہا آپ نے فرمایا مجھے اس کی حاجت نہیں، حضرت سودہ فرمانے لگیں افسوس ہم نے اسے حرام کرا دیا میں نے کہا خاموش رہو، صحیح مسلم کی اس حدیث میں اتنی زیادتی اور ہے کہ نبی ﷺ کو بدبو سے سخت نفرت تھی اسی لئے ان بیویوں نے کہا تھا کہ آپ نے مغافیر کھایا ہے اس میں بھی قدرے بدبو ہوتی ہے، جب آپ نے جواب دیا کہ نہیں میں نے تو شہد پیا ہے تو انہوں نے کہہ دیا کہ پھر اس شہد کی مکھی نے عرفط درخت کو چوسا ہوگا جس کے گوند کا نام مغافیر ہے اور اس کے اثر سے اس شہد میں اس کی بو رہ گئی ہوگی، اس روایت میں لفظ جرست ہے جس کے معنی جوہری نے کئے ہیں کھایا اور شہد کی مکھیوں کو بھی جو راس کہتے ہیں اور جرس مد ہم ہلکی آواز کو کہتے ہیں، عرب کہتے ہیں جبکہ پرنددانہ چگ رہا ہو اور اس کی چونچ کی آواز سنائی دیتی ہو، ایک حدیث میں ہے پھر وہ جنتی پرندوں کی ہلکی اور میٹھی سہانی آوازیں سنیں گے، یہاں بھی عربی میں لفظ جرس ہے، اصمعی کہتے ہیں میں حضرت شعبہ کی مجلس میں تھا وہاں انہوں نے اس لفظ جرس کو جرش بڑی شین کے ساتھ پڑھا میں نے کہا چھوٹے سین سے ہے حضرت شعبہ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا یہ ہم سے زیادہ اسے جانتے ہیں یہی ٹھیک ہے تم اصلاح کرلو، الغرض شہد نوشی کے واقعہ میں شہد پلانے والیوں میں دو نام مروی ہیں ایک حضرت حفضہ کا دوسرا حضرت زینب کا بلکہ اس امر پر اتفاق کرنے والیوں میں حضرت عائشہ کے ساتھ حضرت حفضہ کا نام ہے پس ممکن ہے یہ وہ واقعہ ہوں، یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن ان دونوں کے بارے میں اس آیت کا نازل ہونا ذرا غور طلب ہے واللہ اعلم، آپس میں اس قسم کا مشورہ کرنے والی حضرت عائشہ اور حضرت حفضہ تھیں یہ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے جو مسند امام احمد میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں مجھے مدتوں سے آرزو تھی کہ حضرت عمر سے حضور ﷺ کی ان دونوں بیوی صاحبان کا نام معلوم کروں جن کا ذکر آیت ان تتوبا الخ، میں ہے پس حج کے سفر میں جب خلیفتہ الرسول چلے تو میں بھی ہم رکاب ہو لیا ایک راستے میں حضرت عمر راستہ چھوڑ جنگل کی طرف چلے میں ڈولچی لئے ہوئے پیچھے پیچھے گیا آپ حاجت ضروری سے فارغی ہو کر آئے میں نے پانی ڈلوایا اور وضو کرایا، اب موقعہ پا کر سوال کیا کہ اے امیر المومنین جن کے بارے میں یہ آیت ہے وہ دونوں کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا ابن عباس افسوس، حضرت زہری فرماتے ہیں حضرت عمر کو ان کا یہ دریافت کرنا برا معلوم ہوا لیکن چھپانا جائز نہ تھا اس لئے جواب دیا اس سے مراد حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ ہیں ؓ پھر حضرت عمر نے واقعہ بیان کرنا شروع کیا کہ ہم قریش تو اپنی عورتوں کو اپنے زیر فرمان رکھتے تھے لیکن مدینہ آئے تو ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ہم پر غلبہ حاصل کرنا چاہا۔ میں مدینہ شریف کے بالائی حصہ میں حضرت امیہ بن زید کے گھر میں ٹھہرا ہوا تھا ایک مرتبہ میں اپنی بیوی پر کچھ ناراض ہوا اور کچھ کہنے سننے لگا تو پلٹ کر اس نے مجھے جواب دینے شروع کئے مجھے نہایت برا معلوم ہوا کہ یہ کیا حرکت ہے ؟ یہ نئی بات کیسی ؟ اس نے میرا تعجب دیکھ کر کہا کہ آپ کس خیال میں ہیں ؟ اللہ کی قسم آنحضرت ﷺ کی بیواں بھی آپ کو جواب دیتی ہیں اور بعض مرتبہ تو دن دن بھر بول چال چھوڑ دیتی ہیں اب میں تو ایک دوسری الجھن میں پڑگیا سیدھا اپنی بیٹی حفصہ کے گھر گیا اور دریافت کیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ تم حضور ﷺ کو جواب دیتی ہو اور کبھی کبھی سارا سارا دن روٹھی رہتی ہو ؟ جواب ملا کہ سچ ہے۔ میں نے کہا کہ برباد ہوئی اور نقصان میں پڑی جس نے ایسا کیا۔ کیا تم اس سے غافل ہوگئیں کہ رسول اللہ ﷺ کے غصہ کی وجہ سے ایسی عورت پر اللہ ناراض ہوجائے اور وہ کہیں کی نہ رہے ؟ خبردار آئندہ سے حضور ﷺ کو کوئی جواب نہ دینا نہ آپ سے کچھ طلب کرنا جو مانگنا ہو مجھ سے مانگ لیا کرو، حضرت عائشہ کو دیکھ کر تم ان کی حرص نہ کرنا وہ تم سے اچھی اور تم سے بہت زیادہ رسول اللہ ﷺ کی منظور نظر ہیں۔ اب اور سنو میرا پڑوسی ایک انصاری تھا اس نے اور میں نے باریاں مقرر کرلی تھیں ایک دن میں حضور ﷺ کی خدمت میں گذارتا اور ایک دن وہ، میں اپنی باری والے دن کی تمام حدیثیں آیتیں وغیرہ انہیں آ کر سنا دیتا اور یہ بات ہم میں اس وقت مشہور ہو رہی تھی کہ غسانی بادشاہ اپنے فوجی گھوڑوں کے نعل لگوا رہا ہے اور اس کا ارادہ ہم پر چڑھائی کرنے کا ہے، ایک مرتبہ میرے ساتھی اپنی باری والے دن گئے ہوئے تھے عشاء کے وقت آگئے اور میرا دروازہ کھڑ کھڑا کر مجھے آوازیں دینے لگے میں گھبرا کر باہر نکلا دریافت کیا خریت تو ہے ؟ اس نے کہا آج تو بڑا بھاری کام ہوگیا میں نے کہا کیا غسانی بادشاہ آپہنچا ؟ اس نے کہا اس سے بھی بڑھ کر میں نے پوچھا وہ کیا ؟ کہا رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی میں نے کہا افسوس حفصہ برباد ہوگئی اور اس نے نقصان اٹھایا مجھے پہلے ہی سے اس امر کا کھٹکا تھا صبح کی نماز پڑھتے ہی کپڑے پہن کر میں چلا سیدھا حفضہ کے پاس گیا دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں میں نے کہا کیا رسول اللہ ﷺ نے تمہیں طلاق دے دی ؟ جواب دیا یہ تو کچھ معلوم نہیں، آپ ہم سے الگ ہو کر اپنے اس بالا خانہ میں تشریف فرما ہیں میں وہاں گیا دیکھا کہ ایک حبشی غلام پہرے پر ہے میں نے کہا جاؤ میرے لئے اجازت طلب کرو وہ گیا پھر آ کر کہنے لگا حضور ﷺ نے کچھ جواب نہیں دیا میں وہاں سے واپس چلا آیا مسجد میں گیا دیکھا کہ منبر کے پاس ایک گروہ صحابہ کا بیٹھا ہوا ہے اور بعض بعض کے تو آنسو نکل رہے ہیں، میں تھوڑی سی دیر بیٹھا لیکن چین کہاں پھر اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں جا کر غلام سے کہا کہ میرے لئے اجازت طلبب کرو اس نے پھر آ کر یہی کہا کہ کچھ جواب نہیں ملا، میں دوبارہ مسجد چلا گیا پھر وہاں سے گھبرا کر نکلا یہاں آیا پھر غلام سے کہا غلام گیا آیا اور وہی جواب دیا میں واپس مڑا ہی تھا کہ غلام نے مجھے آواز دی کہ آیئے آپ کو اجازت مل گئی میں گیا دیکھا کہ حضور ﷺ ایک بورے پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے ہیں جس کے نشان آپ کے جسم مبارک پر ظاہر ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا نہیں، میں نے کہا اللہ اکبر ! یا رسول اللہ کہ بات یہ ہے کہ ہم قوم قریش تو اپنی بیویوں کو اپنے دباؤ میں رکھا کرتے تھے لیکن مدینے والوں پر ان کی بیویاں غالب ہیں یہاں آ کر ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی یہی حرکت شروع کردی، پھر میں نے اپنی بیوی کا واقعہ اور میرا یہ خبر پا کر کہ حضور ﷺ کی بیوایں بھی ایسا کرتی ہیں یہ کہنا کہ کیا انہیں ڈر نہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے غصہ کی وجہ سے اللہ بھی ان سے ناراض ہوجائے اور وہ ہلاک ہوجائیں بیان کیا اس پر حضور ﷺ مسکرا دیئے۔ میں نے پھر اپنا حفصہ کے پاس جانا اور انہیں حضرت عائشہ کی ریس کرنے سے روکنا بیان کیا اس پر دوبارہ مسکرائے میں نے کہا اگر اجازت ہو تو ذرا سی دیر اور رک جاؤں ؟ آپ نے اجازت دی میں بیٹھ گیا اب جو سر اٹھا کر چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو آپ کی بیٹھک (دربار خاص) میں سوائے تین خشک کھالوں کے اور کوئی چیز نہ دیکھی، آزردہ دل ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت پر کشادگی کرے دیکھئے تو فارسی اور رومی جو اللہ کی عبادت ہی نہیں کرتے انہیں کس قدر دنیا کی نعمتوں میں وسعت دی گئی ہے ؟ یہ سنتے ہی آپ سنبھل بیٹھے اور فرمانے لگے اے ابن خطاب کیا تو شک میں ہے ؟ اس قوم کی اچھائیاں انہیں بہ عجلت دنیا میں ہی دے دی گئیں میں نے کہا حضور ﷺ میرے لئے اللہ سے طلب بخشش کیجئے، بات یہ تھی کہ آپ نے سخت ناراضگی کی وجہ سے قسم کھالی تھی کہ مہینہ بھر تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جاؤں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تنبیہہ کی، یہ حدیث بخاری مسلم ترمذی اور نسائی میں بھی ہے، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے ابن عباس فرماتے ہیں سال بھر اسی امید میں گذر گیا کہ موقعہ ملے تو حضرت عمر سے ان دونوں کے نام دریافت کروں لیکن ہیبت فاروقی سے ہمت نہیں پڑتی تھی یہاں تک کہ حج کی واپسی میں پوچھا پھر پوری حدیث بیان کی جو اوپر گذر چکی، صحیح مسلم میں ہے کہ طلاق کی شہرت کا واقعہ پردہ کی آیتوں کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے، اس میں یہ بھی ہے حضرت عمر جس طرح حضرت حفضہ کے پاس جا کر انہیں سمجھا آئے تھے اسی طرح حضرت عائشہ کے پاس بھی ہو آئے تھے، اور یہ بھی ہے کہ اس غلام کا نام جو ڈیوڑھی پر پہرہ دے رہے تھے حضرت رباح تھا ؓ یہ بھی ہے کہ حضرت عمر نے حضور ﷺ سے کہا آپ عورتوں کے بارے میں اس مشقت میں کیوں پڑتے ہیں ؟ اگر آپ انہیں طلاق بھی دے دیں دیں تو آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتے، جبرائیل، میکائیل اور میں اور ابوبکر اور جملہ مومن ہیں، حضرت عمر فرماتے ہیں الحمد اللہ میں اس قسم کی جو بات کہتا مجھے امید لگی رہتی کہ اللہ تعالیٰ میری بات کی تصدیق نازل فرمائے گا، پس اس موقعہ پر بھی آیت تخبیر یعنی (عَسٰى رَبُّهٗٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰۗىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰۗىِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبْكَارًا) 66۔ التحریم :5) اور (وَاِنْ تَظٰهَرَا عَلَيْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَجِبْرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِيْرٌ) 66۔ التحریم :4) ، آپ پر نازل ہوئیں، مجھے جب آپ سے معلوم ہوا کہا آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی تو میں نے مسجد میں آ کر دروازے پر کھڑا ہو کر اونچی آواز سے سب کو اطلاع دے دی کہ حضور ﷺ نے ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی، اسی کے بارے میں آیت الخ آخر تک اتری یعنی جہاں انہیں کوئی امن کی یا خوف کی خبر پہنچی کہ یہ اسے شہرت دینے لگتے ہیں اگر یہ اس خبر کو رسول ﷺ یا ذی عقل و علم مسلمانوں تک پہنچا دیتے تو بیشک ان میں سے جو لوگ محقق ہیں وہ اسے سمجھ لیتے۔ حضرت عمر یہاں تک اس آیت کو پڑھ کر فرماتے پس اس امر کا استنباط کرنے والوں میں سے میں ہی ہوں اور بھی بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے کہ صالح المومنین سے مراد حضرت ابوبکر حضرت عمر ہیں، بعض نے حضرت عثمان کا نام بھی لیا ہے بعض نے حضرت علی کا۔ ایک ضعیف حدیث میں مرفوعاً صرف حضرت علی کا نام ہے لیکن سند ضعیف ہے اور بالکل منکر ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آپ کی بیویاں غیرت میں آگئیں جس پر میں نے ان سے کہا کہ اگر حضور ﷺ تمہیں طلاق دے دیں گے تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ کو دے گا پس میرے لفظوں ہی میں قرآن کی یہ آیت اتری، پہلے یہ بیان ہوچکا ہے کہ حضرت عمر ﷺ نے بہت سی باتوں میں قرآن کی موافقت کی جیسے پردے کے بارے میں بدری قیدیوں کے بارے میں مقام ابراہیم کو قبلہ ٹھہرانے کے بارے میں، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ مجھے جب امہات المومنین کی اس رنجش کی خبر پہنچی تو ان کی خدم تمہیں میں گیا اور انہیں بھی کہنا شروع کیا یہاں تک کہ آخری ام المومنین کے پاس ہپنچا تو مجھے جواب ملا کہ کیا ہمیں رسول اللہ ﷺ خود نصیحت کرنے کے لئے کم ہیں جو تم آگئے ؟ اس پر میں خاموش ہوگیا لیکن قرآن میں آیت عسی ربہ الخ، نازل ہوئی، صحیح بخاری میں ہے کہ جواب دینے والی ام المومنین حضرت ام سلمہ تھیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو بات حضور ﷺ نے چپکے سے اپنی بیوی صاحبہ سے کہی تھی اس کا واقعہ یہ ہے کہ آپ حضرت حفضہ کی گھر میں تھے وہ تشریف لائیں اور حضرت ماریہ سے آپ کو مشغول پایا تو آپ نے انہیں فرمایا تم (حضرت) عائشہ کو خبر نہ کرنا میں تمہیں ایک بشارت سناتا ہوں میرے انتقال کے بعد میری خلافت (حضرت) ابوبکر کے بعد تمہارے والد آئیں گے۔ حضرت حفضہ نے حضرت عائشہ کو خبر کردی پس حضرت عائشہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا اس کی خبر آپ کو کس نے پہنچائی ؟ آپ نے فرمایا مجھے علیم وخبیر اللہ نے خبر پہنچائی، صدیقہ نے کہا میں آپ کی طرف نہ دیکھوں گی جب تک کہا آپ ماریہ کو اپنے اوپر حرام نہ کرلیں آپ نے حرام کرلی اس پر آیت (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ۚ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 66۔ التحریم :1) ، نازل ہوئی (طبرانی) لیکن اس کی سند مخدوش ہے، مقصد یہ ہے کہ ان تمام روایات سے ان پاک آیتوں کی تفسی ظاہر ہوگئی۔ ترجمہ کی تفسیر تو ظاہر ہی ہے سائحات کی تفسیر ایک تو یہ ہے کہ روزے رکھنے والیاں ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی تفسیر اس لفظ کی آئی ہے جو حدیث سورة برات کے اس لفظ کی تفسیر میں گذر چکی ہے کہ اس امت کی سیاحت روزے رکھنا ہے، دوسری تفسیر یہ ہے کہ مراد اس ہجرت کرنے والیاں، لیکن اول قول ہی اولیٰ ہے واللہ اعلم، پھر فرمایا ان میں سے بعض بیوہ ہوں گی اور بعض کنواریاں اس لئے جی خوش رہے، قسموں کی تبدیلی نفس کو بھلی معلوم ہوتی ہے، معجم طبرانی میں ابن یزید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے اس آیت میں جو وعدہ فرمایا ہے اس سے مراد بیوہ سے تو حضرت آسیہ ہیں جو فرعون کی بیوی تھیں اور کنواری سے مراد حضرت مریم ہیں جو حضرت عمران کی بیٹی تھیں، ابن عساکر میں ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اس وقت حضرت خدیجہ ؓ آپ کے پاس آئیں تو حضرت جبرائیل نے فرمایا اللہ تعالیٰ حضرت خدیجہ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہیں خوشی ہو جنت کے ایک چاندی کے گھر کی جہاں نہ گرمی ہے نہ تکلیف ہے نہ شورو غل جو چھدے ہوئی موتی کا بنا ہوا ہے جس کے دائیں بائیں مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم کے مکانات ہیں اور روایت میں ہے کہ حضرت خدیجہ کے انتقال کے وقت آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے خدیجہ اپنی سوکنوں سے میرا سلام کہنا حضرت خدیجہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا مجھ سے پہلے بھی کسی سے نکاح کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون اور کلثوم بہن موسیٰ کی ان تینوں کو میرے نکاح میں دے رکھا ہے، یہ حدیث بھی ضعیف ہے، عمران اور آسیہ زوجہ فرعون اور کلثوم بہن موسیٰ کی ان تینوں کو میرے نکاح میں دے رکھا ہے، یہ حدیث بھی ضعیف ہے، حضرت ابو امامہ سے ابو یعلی میں مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کیا جانتے ہو اللہ تعالیٰ نے جنت میں میرا نکاح مریم بنت عمران کلثوم اخت موسیٰ اور آسیہ زوجہ فرعون سے کردیا ہے، میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ کو مبارک ہو، یہ حدیث بھی ضعیف ہے اور ساتھ ہی مرسل بھی ہے۔

اردو ترجمہ

اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے اللہ تمہارا مولیٰ ہے، اور وہی علیم و حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad farada Allahu lakum tahillata aymanikum waAllahu mawlakum wahuwa alAAaleemu alhakeemu

اردو ترجمہ

(اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبیؐ نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی پھر جب اُس بیوی نے (کسی اور پر) وہ راز ظاہر کر دیا، اور اللہ نے نبیؐ کو اِس (افشائے راز) کی اطلاع دے دی، تو نبیؐ نے اس پر کسی حد تک (اُس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے درگزر کیا پھر جب نبیؐ نے اُسے (افشائے راز کی) یہ بات بتائی تو اُس نے پوچھا آپ کو اِس کی کس نے خبر دی؟ نبیؐ نے کہا، "مجھے اُس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith asarra alnnabiyyu ila baAAdi azwajihi hadeethan falamma nabbaat bihi waathharahu Allahu AAalayhi AAarrafa baAAdahu waaAArada AAan baAAdin falamma nabbaaha bihi qalat man anbaaka hatha qala nabbaaniya alAAaleemu alkhabeeru

اردو ترجمہ

اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں، اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اُس کا مولیٰ ہے اور اُس کے بعد جبریل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In tatooba ila Allahi faqad saghat quloobukuma wain tathahara AAalayhi fainna Allaha huwa mawlahu wajibreelu wasalihu almumineena waalmalaikatu baAAda thalika thaheerun

اردو ترجمہ

بعید نہیں کہ اگر نبیؐ تم سب بیویوں کو طلاق دیدے تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں، سچی مسلمان، با ایمان، اطاعت گزار، توبہ گزار، عبادت گزار، اور روزہ دار، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAasa rabbuhu in tallaqakunna an yubdilahu azwajan khayran minkunna muslimatin muminatin qanitatin taibatin AAabidatin saihatin thayyibatin waabkaran

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo qoo anfusakum waahleekum naran waqooduha alnnasu waalhijaratu AAalayha malaikatun ghilathun shidadun la yaAAsoona Allaha ma amarahum wayafAAaloona ma yumaroona

ہمارا گھرانہ ہماری ذمہ داریاں حضرت علی ؓ فرماتے ہیں ارشاد ربانی ہے کہ اپنے گھرانے کے لوگوں کو علم و ادب سکھاؤ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اللہ کے فرمان بجا لاؤ اس کی نافرمانیاں مت کرو اپنے گھرانے کے لوگوں کو ذکر اللہ کی تاکید کرو تاکہ اللہ تمہیں جہنم سے بچا لے، مجاہد فرماتے ہیں اللہ سے ڈرو اور اپنے گھر والوں کو بھی یہی تلقین کرو، قتادہ فرماتے ہیں اللہ کی اطاعت کا انہیں حکم دو اور نافرمانیوں سے روکتے رہو ان پر اللہ کے حکم قائم رکھو اور انہیں احکام اللہ بجا لانے کی تاکید کرتے رہو نیک کاموں میں ان کی مدد کرو اور برے کاموں پر انہیں ڈانٹو ڈپٹو۔ ضحاک و مقاتل فرماتے ہیں ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اپنے رشتے کنبے کے لوگوں کو اور اپنے لونڈی غلام کو اللہ کے فرمان بجا لانے کی اور اس کی نافرمانیوں سے رکنے کی تعلیم دیتا رہے، مسند احمد میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب بچے سات سال کے ہوجائیں انہیں نماز پڑھنے کو کہتے سنتے رہا کرو جب دس سال کے ہوجائیں اور نماز میں سستی کریں تو انہیں مار کر دھمکا کر پڑھاؤ، یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے، فقہاء کا فرمان ہے کہ اسی طرح روزے کی بھی تاکید اور تنبیہہ اس عمر سے شروع کر دینی چاہئے تاکہ بالغ ہونے تک پوری طرح نماز روزے کی عادت ہوجائے اطاعت کے بجالانے اور معصیت سے بچنے رہنے اور برائی سے دور رہنے کا سلیقہ پیدا ہوجائے۔ ان کاموں سے تم اور وہ جہنم کی آگ سے بچ جاؤ گے جس آگ کا ایندھن انسانوں کے جسم اور پتھر ہیں ان چیزوں سے یہ آگ سلگائی گئی ہے پھر خیال کرلو کہ کس قدر تیز ہوگی ؟ پتھر سے مراد یا تو وہ پتھر ہے جن کی دنیا میں پرستش ہوتی رہی جیسے اور جگہ ہے ترجمہ تم اور تمہارے معبود جہنم کی لکڑیاں ہو، یا گندھک کے نہایت ہی بدبو دار پتھر ہیں، ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی اس وقت آپ کی خدمت میں بعض اصحاب تھے جن میں سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا جہنم کے پتھر دنیا کے پتھروں جیسے ہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ جہنم کا ایک پتھر ساری دنیا کے تمام پتھروں سے بڑا ہے انہیں یہ سن کر غشی آگئی حضور ﷺ نے ان کے دل پر ہاتھ رکھا تو وہ دل دھڑک رہا تھا آپ نے انہیں آواز دی کہ اے شیخ کہو لا الہ الا للہ اس نے اسے پڑھا پھر آپ نے اسے جنت کی خوشخبری دی تو آپ کے اصحاب نے کہا کیا ہم سب کے درمیان صرف اسی کو یہ خوشخبری دی جا رہی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں دیکھو قرآن میں ہے ترجمہ یہ اس کے لئے ہے جو میرے سامنے کھڑا ہونے اور میرے دھمکیوں کا ڈر رکھتا ہو، یہ حدیث غریب اور مرسل ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے اس آگ سے عذاب کرنے والے فرشتے سخت طبیعت والے ہیں جن کے دلوں میں کافروں کے لئے اللہ نے رحم رکھا ہی نہیں اور جو بدترین ترکیبوں میں بڑی بھاری سزائیں کرتے ہیں جن کے دیکھنے سے بھی پتہ پانی اور کلیجہ چھلنی ہوجائے، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جب دوزخیوں کا پہلا جتھا جہنم کو چلا جائے گا تو دیکھے گا کہ پہلے دروازہ پر چار لاکھ فرشتے عذاب کرنے والے تیار ہیں جن کے چہرے بڑے ہیبت ناک اور نہایت سیاہ ہیں کچلیاں باہر کو نکلی ہوئی ہیں سخت بےرحم ہیں ایک ذرے کے برابر بھی اللہ نے ان کے دلوں میں رحم نہیں رکھا اس قدر جسیم ہیں کہ اگر کوئی پرند ان کے ایک کھوے سے اڑ کر دوسرے کھوے تک پہنچنا چاہے تو کئی مہینے گذر جائیں، پھر دروازہ پر انیس فرشتے پائیں گے جن کے سینوں کی چوڑائی ستر سال کی راہ ہے پھر ایک دروازہ سے دوسرے دروازہ کی طرف دھکیل دیئے جائیں گے پانچ سو سال تک گرتے رہنے کے بعد دوسرا دروازہ آئے گا وہاں بھی اسی طرح ایسے ہی اور اتنے ہی فرشتوں کو موجود پائیں گے اسی طرح ہر ایک دروازہ پر یہ فرشتے اللہ کے فرمان کے تابع ہیں ادھر فرمایا گیا ادھر انہوں نے عمل شروع کردیا ان کا نام زبانیہ ہے اللہ ہمیں اپنے عذاب سے پناہ دے آمین۔ قیامت کے دن کفار سے فرمایا جائے گا کہ آج تم بیکار عذر پیش نہ کرو کوئی معذرت ہمارے سامنے نہ چل سکے گی، تمہارے کرتوت کا مزہ تمہیں چکھنا ہی پڑے گا۔ پھر ارشاد ہے کہ اے ایمان والو تم سچی اور خالص توبہ کرو جس سے تمہارے اگلے گناہ معاف ہوجائیں میل کچیل دھل جائے، برائیوں کی عادت ختم ہوجائے، حضرت نعمان بن بشیر نے اپنے ایک خطبے میں بیان فرمایا کہ لوگو میں نے حضرت عمر بن خطاب سے سنا ہے کہ خلاص توبہ یہ ہے کہ انسان گناہ کی معافی چاہے اور پھر اس گناہ کو نہ کرے اور روایت میں ہے پھر اس کے کرنے کا ارادہ بھی نہ کرے، حضرت عبداللہ سے بھی اسی کے قریب مروی ہے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی آیا ہے جو ضعیف ہے اور ٹھیک یہی ہے کہ وہ بھی موقوف ہی ہے واللہ اعلم، علماء سلف فرماتے ہیں توبہ خالص یہ ہے کہ گناہ کو اس وقت چھوڑ دے جو ہوچکا ہے اس پر نادم ہو اور آئندہ کے لئے نہ کرنے کا پختہ عزم ہو، اور اگر گناہ میں کسی انسان کا حق ہے تو چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ حق باقاعدہ ادا کر دے، حضور ﷺ فرماتے ہیں نادم ہونا بھی توبہ کرنا ہے، حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں ہمیں کہا گیا تھا کہ اس امت کے آخری لوگ قیامت کے قریب کیا کیا کام کریں گے ؟ ان میں ایک یہ ہے کہ انسان اپنی بیوی یا لونڈی سے اس کے پاخانہ کی جگہ میں وطی کرے گا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے مطلق حرام کردیا ہے اور جس فعل پر اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی ہوتی ہے، اسی طرح مرد مرد سے بدفعلی کریں گے جو حرام اور باعث ناراضی اللہ و رسول اللہ ہے، ان لوگوں کی نماز بھی اللہ کے ہاں مقبول نہیں جب تک کہ یہ توبہ نصوح نہ کریں، حضرت ابوذر نے حضرت ابی سے پوچھا توبتہ النصوح کیا ہے ؟ فرمایا میں نے حضور ﷺ سے یہی سوال کیا تھا تو آپنے فرمایا قصور سے گناہ ہوگیا پھر اس پر نادم ہونا اللہ تعالیٰ سے معافی چاہنا اور پھر اس گناہ کی طرف مائل نہ ہونا، حضرت حسن فرماتے ہیں توبہ نصوح یہ ہے کہ جیسے گناہ کی محبت تھی ویسا ہی بغض دل میں بیٹھ جائے اور جب وہ گناہ یاد آئے اس سے استغفار ہو، جب کوئی شخص توبہ کرنے پر پختگی کرلیتا ہے اور اپنی توبہ پر جما رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام اگلی خطائیں مٹا دیتا ہے جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ اسلام لانے سے پہلے کی تمام برائیاں اسلام فنا کردیتا ہے اور توبہ سے پہلے کی تمام خطائیں توبہ سوخت کردیتی ہے، اب رہی یہ بات کہ توبہ نصوح میں یہ شرط بھی ہے کہ توبہ کرنے والا پھر مرتے دم تک یہ گناہ نہ کرے۔ جیسے کہ احادیث و آثار ابھی بیان ہوئے جن میں ہے کہ پھر کبھی نہ کرے، یا صرف اس کا عزم راسخ کافی ہے کہ اسے اب کبھی نہ کروں گا گو پھر بہ مقتضائے بشریت بھولے چوکے ہوجائے، جیسے کہ ابھی حدیث گذری کہ توبہ اپنے سے پہلے گناہوں کو بالکل مٹا دیتی ہے، تو تنہا توبہ کے ساتھ ہی گناہ معاف ہوجاتے ہیں یا پھر مرتے دم تک اس کام کا نہ ہونا گناہ کی معافی کی شرط کے طور پر ہے ؟ پس پہلی بات کی دلیل تو یہ صحیح حدیث ہے کہ جو شخص اسلام میں نیکیاں کرے وہ اپنی جاہلیت کی برائیوں پر پکڑا نہ جائے گا اور جو اسلام لا کر بھی برائیوں میں مبتلا رہے وہ اسلام اور جاہلیت کی دونوں برائیوں میں پکڑا جائے گا، پس اسلام جو کہ گناہوں کو دور کرنے میں توبہ سے بڑھ کر ہے جب اس کے بعد بھی اپنی بدکردارویوں کی وجہ سے پہلی برائیوں میں بھی پکڑ ہوئی تو توبہ کے بعد بطور اولیٰ ہونی چاہئے۔ واللہ اعلم۔ لفظ عسی گو تمنا امید اور امکان کے معنی دیتا ہے لیکن کلام اللہ میں اس کے معنی تحقیق کے ہوتے ہیں پس فرمان ہے کہ خالص توبہ کرنے والے قطعاً اپنے گناہوں کو معاف کروا لیں گے اور سرسبز و شاداب جنتوں میں آئیں گے۔ پھر ارشاد ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو ہرگز شرمندہ نہ کرے گا، انہیں اللہ کی طرف سے نور عطا ہوگا جو ان کے آگے آگے اور دائیں طرف ہوگا۔ اور سب اندھیروں میں ہوں گے اور یہ روشنی میں ہوں گے، جیسے کہ پہلے سورة حدید کی تفسیر میں گذر چکا، جب یہ دیکھیں گے کہ منافقوں کو جو روشنی ملی تھیں عین ضرورت کے وقت وہ ان سے چھین لی گئی اور وہ اندھیروں میں بھٹکتے رہ گئے تو دعا کریں گے کہ اے اللہ ہمارے ساتھ ایسا نہ ہو ہماری روشنی تو آخر وقت تک ہمارے ساتھ ہی رہے ہمارا نور ایمان بجھنے نہ پائے۔ بنو کنانہ کے ایک صحابی فرماتے ہیں فتح مکہ والے دن رسول اللہ ﷺ کے پیچھے میں نے نماز پڑھی تو میں نے آپ کی اس دعا کو سنا (ترجمہ) میرے اللہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرنا، ایک حدیث میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں قیامت کے دن سب سے پہلے سجدے کی اجازت مجھے دی جائے گی اور اسی طرح سب سے پہلے سجدے سے سر اٹھانے کی اجازت بھی مجھی کو مرحمت ہوگی میں اپنے سامنے اور دائیں بائیں نظریں ڈال کر اپنی امت کو پہچان لوں گا ایک صحابی نے کہا حضور ﷺ انہیں کیسے پہچانیں گے ؟ وہاں تو بہت سی امتیں مخلوط ہوں گی آپ نے فرمایا میری امت کے لوگوں کی ایک نشانی تو یہ ہے کہ ان کے اعضاء وضو منور ہوں گے چمک رہے ہوں گے کسی اور امت میں یہ بات نہ ہوگی دوسری پہچان یہ ہے کہ ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے، تیسری نشانی یہ ہوگی کہ سجدے کے نشان ان کی پیشانیوں پر ہوں گے جن سے میں پہچان لوں گا چوتھی علامت یہ ہے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے ہوگا۔

اردو ترجمہ

(اُس وقت کہا جائے گا کہ) اے کافرو، آج معذرتیں پیش نہ کرو، تہیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena kafaroo la taAAtathiroo alyawma innama tujzawna ma kuntum taAAmaloona
560