سورة آل عمران (3): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورة آل عمران کے بارے میں معلومات

Surah Aal-i-Imraan
سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ
صفحہ 50 (آیات 1 سے 9 تک)

الٓمٓ ٱللَّهُ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْحَىُّ ٱلْقَيُّومُ نَزَّلَ عَلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ بِٱلْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنزَلَ ٱلتَّوْرَىٰةَ وَٱلْإِنجِيلَ مِن قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَأَنزَلَ ٱلْفُرْقَانَ ۗ إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ ذُو ٱنتِقَامٍ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَخْفَىٰ عَلَيْهِ شَىْءٌ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا فِى ٱلسَّمَآءِ هُوَ ٱلَّذِى يُصَوِّرُكُمْ فِى ٱلْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَآءُ ۚ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ هُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ عَلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ مِنْهُ ءَايَٰتٌ مُّحْكَمَٰتٌ هُنَّ أُمُّ ٱلْكِتَٰبِ وَأُخَرُ مُتَشَٰبِهَٰتٌ ۖ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَٰبَهَ مِنْهُ ٱبْتِغَآءَ ٱلْفِتْنَةِ وَٱبْتِغَآءَ تَأْوِيلِهِۦ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُۥٓ إِلَّا ٱللَّهُ ۗ وَٱلرَّٰسِخُونَ فِى ٱلْعِلْمِ يَقُولُونَ ءَامَنَّا بِهِۦ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّآ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَٰبِ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْوَهَّابُ رَبَّنَآ إِنَّكَ جَامِعُ ٱلنَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُخْلِفُ ٱلْمِيعَادَ
50

سورة آل عمران کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورة آل عمران کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

الف لام میم

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aliflammeem

درس 23 ایک نظر میں

اگر ہم ان روایات کو لے لیں ‘ جن میں یہ کہا گیا ہے کہ اس سورت کی ابتدائی 80 سے کچھ اوپر آیات اس موقع پر نازل ہوئیں جب وفد نجران رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مناظرے کے لئے آیا تھا ‘ یہ وفد عیسائیوں پر مشتمل تھا ‘ اور یہ لوگ رسول ﷺ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے تھے ۔ تو پھر اس سبق کی تمام آیات گویا اس موقع پر نازل شدہ تصور ہوں گی ‘ لیکن یہ روایات خود اس حقیقت کو بیان کردیتی ہیں کہ یہ وفد عام الوفود 9 ھ میں آیا تھا ‘ اس وقت غلبہ اسلام کا شہرہ جزیرۃ العرب اور اس کے اردگرد علاقوں میں پھیل گیا تھا اور جزیرۃ العرب کے مختلف علاقوں سے وفود رسول اکرم ﷺ کے ساتھ ملاقات کے لئے دھڑا دھڑ حاضر ہورہے تھے ‘ ان وفود میں سے بعض تو معلومات حاصل کرنے آئے تھے اور بعض ایسے تھے جو جدید حالات میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ معاہدات کی پیشکش بھی کرتے تھے ۔

جیسا کہ میں اس سے پہلے کہہ چکا ہوں ‘ کہ ان آیات میں جن موضوعات پر بحث کی گئی ہے اور جس انداز سے بحث کی گئی ہے ۔ یہ دونوں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ آیات ہجرت کے بعد قریبی زمانہ میں نازل ہوئیں ۔ اس سورت میں زیادہ تر اہل کتاب کے ساتھ نظریاتی مباحثہ ہے ۔ ان کے غلط عقائد کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر جو شبہات پیدا ہوتے تھے ۔ ان کے جوابات ہیں ‘ یا ان اعتراضات کے جوابات ہیں جو وہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی صحت کے بارے میں کیا کرتے تھے ‘ یا وہ ہدایات ہیں جو اہل کتاب کے حوالے سے حقیقت توحید اور شرک کے بارے میں نازل ہوئیں ‘ یا وہ خبرداری ہے جو اللہ نے یہاں اہل کتاب کی سازشوں کے مقابلے میں دی اور کہا کہ تم ان کے دھوکے میں نہ آؤ ‘ اپنے موقف پر ثابت قدم رہو ‘ ان موضوعات و مباحث کی وجہ سے میرا میلان اس طرف ہے کہ یہ آیات وفد نجران کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں ۔ کیونکہ یہ وفد 9 ھ میں آیا تھا ‘ اس لئے کہ ان آیات کے نزول کے لئے 9 ھ سے پہلے بھی مدینہ طیبہ میں ایسے حالات تھے کہ ان کا نزول ان میں ہوایا یہ پوری سورت ان میں نازل ہوگئی ہو۔ اس لئے ان آیات کی تشریح کے وقت ہم واقعہ نجران ہی کو پیش نظر نہ رکھیں گے بلکہ اس سورت کا خطاب عام اہل کتاب کو سمجھاجائے گا ۔ کیونکہ تاریخی شواہد کے مطابق یہ واقعہ بہت متاخر ہے ۔

جیسا کہ ہم نے اوپر تمہید میں کہا ‘ ان آیات میں ‘ اس اصلی کشمکش کا ذکر ہے ‘ جو اس وقت تحریک اسلامی اور اس کے عقائد و نظریات اور اہل کتاب اور مشرکین اور ان کے عقائد ونظریات کے درمیان برپاتھی ‘ یہ جنگ ظہور اسلام کے ساتھ ہی شروع تھی ‘ اس میں کوئی وقفہ نہ تھا ‘ خصوصاً اس وقت اس کشمکش میں بڑی تیزی آگئی تھی جب تحریک اسلامی کا ہیڈ کو راٹر مدینہ منتقل ہوا اور وہاں ایک اسلامی حکومت قائم ہوگئی ۔ اس نظریاتی جنگ میں مشرکین اور یہودی شانہ بشانہ لڑ رہے تھے ۔ اور ان کی اس مشترکہ مہم کو قرآن کریم تفصیل سے ریکارڈ کرتا ہے۔

یہ بات بعید از امکان نہیں ہے کہ جزیرۃ العرب کے اطراف واکناف میں جو عیسائی آباد تھے ‘ ان میں مذہبی پیشوا بھی اس نظریاتی جنگ میں کسی نہ کسی صورت میں شریک ہوں ‘ نیز یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو صحیح عقائد ونظریات پیش کئے تھے ان کا علم ان عیسائیوں کو ہوگیا ہو ‘ اور وہ اس موضوع پر رسول اکرم ﷺ کے ساتھ بحث و مباحثہ کے لئے آئے ہوں ‘ کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں عیسائی اپنی اصل راہ سے ہٹ گئے تھے ۔ اور اس موضوع پر قرآن کریم تنقید کرچکا تھا ‘ اور عقیدہ توحید کے حوالے سے عیسائیوں پر رد آگیا تھا۔

اس سبق میں ابتداء ہی اسلام کے عقیدہ توحید کو اہل شرک کے انحرافات اور شبہات سے پاک وصاف کرکے بیان کیا گیا ہے ‘ اور یہ قرار دیا گیا کہ قرآن کریم حق و باطل کے درمیان فرقان ہے ‘ اور جو شخص بھی آیات الٰہی کا انکار کرے گا وہ کافر تصور ہوگا۔ چاہے وہ اہل کتاب میں سے ‘ ان آیات میں قرآن کے حوالے سے بتایا گیا مسلمانوں اور اہل ایمان کا رویہ ان آیات کے ساتھ کیا ہے ‘ اپنے رب کے ساتھ ان کا کیا رویہ ہونا چاہئے ‘ واضح طو رپر بیان کیا جاتا ہے کہ ایمان کی کیا علامات ہوتی ہیں ‘ وہ اس قدر واضح ہوتی ہیں کہ اہل ایمان کی پہچان میں کوئی غلطی نہیں ہوتی ۔ اور کفر کی بھی کچھ علامات ہوتی ہیں اور اہل کفر کی پہچان میں بھی غلطی نہیں ہوسکتی ۔ فرماتے ہیں :

” اللہ وہ ‘ زندہ جاوید ہستی ‘ جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے ‘ حقیقت میں اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ‘ اس نے تم پر کتاب نازل کی ‘ جو حق لے کر آئی ہے ‘ اور ان کتابوں کی تصدیق کررہی ہے جو پہلے آئی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کے لئے تورات و انجیل نازل کرچکا ہے ‘ اور اس نے وہ کسوٹی اتاری ہے ۔ اب جو لوگ اللہ کے فرامین قبول کرنے سے انکار کریں۔ ان کو یقیناً سخت سزا ملے گی ۔ “ اللہ بےپناہ طاقت کا مالک ہے اور برائی کا بدلہ دینے والا ہے ‘ زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ وہی تو ہے جو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ‘ تمہاری صورتیں ، جیسی چاہتا ہے بناتا ہے ‘ اس زبردست حکمت والے کے سوا کوئی اور خدا نہیں۔ وہی اللہ ہے ‘ جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی۔ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں ۔ ایک محکمات جو کتاب کی اصل بنیادیں ہیں ۔ اور دوسری متشابہات ‘ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں ‘ حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ بخلاف اس کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ۔” ہمارا ان پر ایمان ہے ‘ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں ‘ اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں۔ “ (1 : 3 تا 8)

” اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ‘ اور فرشتوں اور سب اہل علم نے بھی شہادت دی ہے ‘ وہ انصاف پر قائم ہے ‘ اس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی اللہ نہیں ‘ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ‘ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کئے جنہیں کتاب دی گئی تھی ۔ ان کے اس طرزعمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آجانے کے بعد ‘ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لئے ایسا کیا ‘ اور جو کوئی اللہ کے احکام وہدایات کی اطاعت سے انکار کردے ‘ اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ۔

اور اس سبق میں ایک تہدید تو ایسی آئی ہے جس میں روئے سخن یہود کی طرف ہے ‘ مثلاً فرمایا ” جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ‘ جو نبیوں کو ناحق قتل کرتے ہیں ‘ اور ان لوگوں کو بھی قتل کرتے ہیں جو عدل و انصاف کا حکم دیتے ہیں تو انہیں درناک عذاب کی خوشخبری دیجئے ۔ “ قتل انبیاء کا ذکر آتے ہی ذہن یہودیوں کی طرف چلا جاتا ہے ‘ اس لئے کہ یہ کارنامہ وہی سرانجام دیتے رہے ہیں ۔ ایک دوسری آیت میں آیا ہے ۔” اہل ایمان اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں ۔ “ اس آیت میں اگرچہ لفظ کافر واقع ہے تاہم اس سے مراد غالباً یہودی ہیں ‘ اگرچہ اس میں مشرکین بھی شامل ہوسکتے ہیں ۔ اس لئے تحریک اسلامی کے اس دور تک بعض مسلمان ‘ اپنے کافر مشرکین اقارب اور یہودیوں میں سے اپنے دوستوں کے ساتھ تعلقات قائم کئے ہوتے تھے ۔ اس لئے یہاں انہیں اب ایسے تعلقات جاری رکھنے سے منع کردیا گیا اور اس قدر سخت الفاظ میں ان تعلقات کے انجام بد سے ڈرایا گیا ‘ چاہے یہ دوست یہودی ہوں یا مشرکین ہوں ۔ کیونکہ سب کے الکافرین کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔

اسی طرح ایک دوسری آیت ” ان لوگوں کو کہہ دو جنہوں نے کفر اختیار کیا ‘ تم عنقریب مغلوب ہوگے اور تمہیں جہنم کی طرف لے جایا جائے گا ‘ جو بہت ہی برا ٹھکانہ ہے ‘ تمہارے لیے ان دوگروہوں میں سامان عبرت ہے جو ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے ‘ ایک اللہ کی راہ میں لڑرہا تھا اور دوسرا کافر تھا ‘ دیکھنے والے دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دوچند تھا۔ “ اس آیت میں غزوہ بدر کے واقعات کی طرف اشارہ ہے ‘ لیکن خطاب یہودیوں سے ہے ‘ اس سلسلے میں حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت منقول ہے ‘ فرماتے ہیں کہ جب رسول اکرم ﷺ نے بدر کے دن قریش کو شکست دی اور آپ ﷺ مدینہ طیبہ لوٹے تو یہودیوں کو جمع کیا تو انہیں یہ نصیحت کی کہ اس سے قبل کے تمہارا وہ حال ہوجائے جو قریش کا ہو ‘ تم مسلمان ہوجاؤ۔ انہوں نے کہا : محمد ! بیشک تم نے قریش کے چند آدمیوں کو قتل کردیا ہے مگر اس سے کہیں غرور میں مبتلا نہ ہوجاؤ کیونکہ وہ ناتجربہ کار تھے اور جنگ کے بارے میں زیادہ جانتے نہ تھے ۔ اگر تم نے ہمارے ساتھ جنگ کی تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم کچھ لوگ ہیں شائد آپ کو ہم جیسے لوگوں کبھی واسطہ نہ پڑے ۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت فرمائی کہ ” ان لوگوں سے کہہ دو کہ جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ‘ بہت جلدی تم مغلوب ہوجاؤگے اور پھر جہنم کی طرف تمہیں اٹھایاجائے گا “………ان الفاظ تک ” ایک گروہ اللہ کے راستے میں لڑتا ہے ۔ “ یعنی بدر میں اور ” دوسرا کافر ہے۔ “ (ابوداؤد)

اس طرح اس سبق کی آیت ” اب اگر یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں ‘ کیا تم نے بھی اس کی اطاعت اور بندگی قبول کی ؟ “ اگر کی ‘ تو راہ راست پاگئے اور اگر اس سے منہ موڑا تو تم پر صرف پیغام پہنچانا ہے ۔ آگے اللہ خود اپنے بندوں کے معاملات دیکھنے والا ہے ۔ “ (60 : 3 میں رسول ﷺ کو خطاب ہے ‘ اور یہ خطاب اگرچہ اہل کتاب کے ساتھ نظریاتی مباحثہ کے اس سبق کے آغاز میں ہے ‘ تاہم یہ عام ہے اور مخالف خواہ اہل کتاب ہوں یا غیر اہل کتاب ہوں ‘ اس آیت کا آخری حصہ ” اگر انہوں نے منہ موڑا تو تم پر صرف پیغام پہنچانے کی ذمہ داری ہے ۔ “ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت رسول ﷺ پر اہل کتاب کے خلاف جہاد فرض نہ ہوا تھا۔ اور آپ ان سے جزیہ بھی وصول نہ کرتے تھے ۔ جس سے ہمارا یہ نظریہ درست معلوم ہوتا ہے کہ اس سبق میں جو زیر بحث آیات ہیں وہ ہجرت کے بعد ابتدائی دور میں نازل ہوئیں۔

غرض ان تمام آیات پر اچھی طرح غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تعلق کسی ایک واقعہ مثلاً قدوم نجران سے نہیں ہے ‘ ان میں دی گئی ہدایات عام ہیں اور ان کا انطباق تمام مخالفین اسلام پر ہوتا ہے ‘ ہاں جن واقعات کی نسبت سے ان آیات کا نزول ہوا ہے۔ ایسے واقعات میں ایک واقعہ وفد نجران کا بھی ہوسکتا ہے ‘ کیونکہ ان ابتدائی دنوں میں ایسے مواقع بار بار وقوع پذیر ہوا کرتے تھے ۔ کیونکہ اس دور میں جزیرۃ العرب میں مسلمانوں اور ان کے مخالفین کے درمیان ایک ہمہ گیر نظریاتی جنگ جاری تھی ۔ خصوصاً یہود مدینہ کے ساتھ۔

اس پہلے سبق میں اسلامی تصور حیات کے بارے میں نہایت ہی اہم بنیادی تصورات کو پیش کیا گیا ہے ۔ اس نظریہ حیات کی نوعیت اور اس کے مزاج کے بارے میں بھی اہم وضاحتیں دی گئی ہیں۔ نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس نظریہ حیات کے عملی اثرات ‘ انسانی زندگی پر کیا مرتب ہوتے ہیں ‘ وہ آثار جو لازمہ ایمان ہیں ‘ مثلاً اللہ تعالیٰ کو وحدہٗ لاشریک سمجھنا ‘ اور اس کا لازمی نتیجہ یہ بتا گیا ہے کہ ایک مؤحد اللہ کا مسلم بھی ہوجائے ‘ یہی دین ہے اور اس کے سوا کوئی دین نہیں ہے۔ اور مسلم ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کردے اور اس کی اطاعت کرے ۔ اس کے اوامر کو مانے ‘ اس کی شریعت کو مانے ‘ اس کے رسول اور رسول کے طریقہ زندگی کا اتباع کرے۔ پس اس نظریہ حیات کی رو سے اگر کوئی سر تسلیم خم نہیں کرتا ‘ کوئی اطاعت نہیں کرتا ‘ کوئی رسول کا اتباع نہیں کرتا تو وہ مسلم نہیں ہے۔ لہٰذا وہ ایسا دیندار نہیں ہے جس کے دین کو اللہ نے پسند کیا ہو۔ اور اللہ نے صرف اسلام کو پسند کیا ہے ۔ اور اسلام جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا مکمل طور پر سر تسلیم خم کردینے ‘ اطاعت کرنے اور اتباع کرنے کا نام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم بڑے تعجب کے ساتھ اہل کتاب پر یہ تبصرہ کرتا ہے جب انہیں اس طرف بلایا جاتا ہے کہ آؤ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کریں یَتَوَلّٰی فَرِیقٌ مِّنھُم وَھُم مُّعرِضُونَ وہ منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ قرآن کی اصلاح میں یہ اعراض کفر کے ہم معنی ہے ‘ اور اس اعراض سے ان کے دعوائے ایمان کی قلعی کھل جاتی ہے اور اس سے ایمان کی نفی ہوتی ہے۔ اس حقیقت کی مزید وضاحت اس سورت کے حصہ دوئم میں کی گئی ہے ………اس قدر اجمالی تعارف کے بعد اب مناسب ہے کہ اس درس کی آیات کی مفصل تشریح و تفسیر پیش کی جائے۔

یہ حروف مقطعات ہیں ‘ ان کی کوئی توضیح وتشریح تو ممکن نہیں ہے ‘ البتہ ترجیحی بنیاد پر ‘ میں اس کا وہی مفہوم بیان کرتا ہوں ‘ جو میں نے سورة بقرہ کے ابتداء میں بیان کیا تھا ‘ یعنی یہ اس چیلنج کی طرف اشارہ ہے کہ یہ کتاب انہی حروف سے بنی ہے ‘ جو مخالفین اسلام کے دسترس میں ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود یہ کتاب معجزہ ہے ‘ اور مخالفین اس جیسی کتاب لانے میں ناکام رہے ہیں۔

ان حروف کی جس تفسیر کو ہم نے ترجیح دی ہے ‘ متعددسورتوں میں اس چیلنج کی تشریح یا اشارہ خود اس سورت میں بھی پایا جاتا ہے جس کی ابتداء میں یہ حروف وارد ہوئے ہیں ۔ مثلاً سورة بقرہ میں یہ اشارہ بطور صریح چیلنج موجود ہے

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (23)

” اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے ‘ یہ ہماری ہے یا نہیں تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنالاؤ ‘ اپنے سارے ہم نواؤں کو بلالو ‘ ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو ‘ مدد لے لو ‘ اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر دکھاؤ۔ “ (23 : 2)

زیربحث سورة آل عمران میں ‘ تحدی اور چیلنج کا اشارہ ایک دوسری نوعیت سے کیا گیا ہے ‘ یہ کہ یہ کتاب اس اللہ کی جانب سے نازل کی گئی ہے ۔ جس کے سوا کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے ۔ اور یہ انہی حروف وکلمات سے مولف ہے جن حروف وکلمات میں تمام دوسری کتب سماوی نازل ہوئی تھیں ۔ اور جن پر خود اہل کتاب ایمان لاچکے ہیں ‘ جن سے اس سورت کا زیادہ تر خطاب متعلق ہے ۔ اس لئے یہ بات کوئی قابل تعجب یا قابل انکار نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان ہی حروف سے مولف ایک نئی کتاب اپنے رسول پر نازل کرے۔

اردو ترجمہ

اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، حقیقت میں اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu la ilaha illa huwa alhayyu alqayyoomu

یوں اس سورت کا آغاز ان منکرین اسلام اہل کتاب پر تنقید سے ہوتا ہے ‘ جو رسول ﷺ کی رسالت کا انکار کررہے تھے ‘ حالانکہ وہ اپنے دین کی بنیاد پر اور اہل کتاب ہونے کے ناطے نبوت ‘ رسالت ‘ کتب سماوی اور وحی الٰہی کے تصور سے واقف تھے ‘ اس لئے ان کا فرض تھا کہ سب سے پہلے اسلام لاتے اور رسول ﷺ کی تصدیق کرتے بشرطیکہ ان کی تصدیق صرف دلیل اور حجت کے اطمینان پر موقوف ہوتی۔

اس فیصلہ کن حملے میں ‘ ان تمام شبہات کی بیخ کنی کردی جاتی ‘ جو اہل کتاب کے دلوں میں پائے جاتے تھے ‘ یا جنہیں وہ جان بوجھ کر مومنین کے دلوں میں ڈالنا چاہتے تھے ‘ اس لئے ان کا پروپیگنڈا کرتے تھے ۔ اس تنقید میں ان راستوں اور ان دروازوں کی نشان دہی کردی گئی ہے جن کے ذریعہ یہ شبہات داخل ہوتے تھے ۔ اس لئے یہاں انسدادی طور پر بتادیا گیا کہ اللہ کی آیات سے متعلق سچے مومنوں کا موقف کیا ہے اور ان کے بارے میں مخالفین اور منحرفین کی سوچ کیا ہے ۔ سورت کے اس آغاز میں سچے اہل ایمان کا تعلق باللہ ‘ اللہ کے دربار میں ان کی عاجزی اور ان کی التجاؤں کی ایک خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی صفات کے بارے میں یہ تصور رکھتے ہیں ۔ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ…………… ” اللہ وہ زندہ جاوید ہستی ہے ‘ جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ “

یہ خالص اور صاف ستھری توحید دراصل ایک مسلمان کے عقیدہ اور تمام غیر مسلموں کے عقائد کے درمیان ایک خط امتیاز کھینچ دیتی ‘ جن میں ملحدین اور مشرکین بھی شامل ہیں اور منحرفین اہل کتاب بھی شامل ہیں چاہے یہودی ہوں یا نصاریٰ ہوں ‘ اپنے تصورات اور عقائد کے اختلاف کے مطابق ‘ غرض توحید ایک مسلم اور تمام غیر مسلموں کے عقائد کے درمیان ایک خط امتیاز ہے ‘ اس لئے کہ یہاں نظام زندگی کا تعین تصور حیات اور عقائد پر ہوتا ہے ۔ یہ عقیدہ ہی جو نظام زندگی کا تعین کرتا ہے ۔

اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ‘ خدائی میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے ‘ وہ زندہ ہے ‘ اور حیات اس کی ذاتی صفت ہے ۔ وہ ہر قید سے آزاد ہے ، زندہ مطلق ہے ‘ وہ القیوم ہے ‘ اس کائنات کو اسی نے تھاما ہوا ہے ‘ زندگی اس کی وجہ سے قائم ہے ‘ ہر موجود اس کی وجہ سے موجود ہے ۔ پھر وہ سب کو قائم رکھے ہوئے ہے ۔ اس لئے اس کے بغیر کائنات میں نہ کوئی ہستی موجود رہ سکتی ہے اور نہ موجود ہوسکتی ہے۔

یہ ہے خط امتیاز ایک تصور حیات اور عقیدہ میں اور یہی فرق ہے ایک مسلم کے طرزعمل اور نظام زندگی میں بمقابلہ ایک غیر مسلم ‘ اس سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں اسلامی تصور توحید اور اسلامی عقائد اور ان کے عقائد باطلہ اور عقائد جاہلیت کے اندھیروں کے درمیان بھی امتیاز ہوجاتا ہے ۔ جاہلیت کے تصورات میں مشرکین عرب کے اس وقت کے تصورات بھی شامل ہیں اور یہود ونصاریٰ کے وہ منحرف شدہ تصورات بھی جن کے وہ قائل تھے ۔

قرآن کریم نے یہودیوں کے بارے میں ‘ یہ بات نقل کی ہے کہ وہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ابن اللہ کا مقام دیتے تھے ‘ قرآن کریم نے یہودیوں کے جس باطل عقیدے کا ذکر کیا ہے آج یہودی جس کتاب مقدس کے قائل ہیں اس میں موجود ہے ‘ مثلاً سفر تکوین اصحاح ششم میں ذکر ہے۔

” جب روئے زمین پر آدمی بہت بڑھنے لگے اور ان کی بیٹیاں پیدا ہوئیں ‘ تو خدا کے ” بیٹوں “ نے آدمی کی بیٹیوں کو دیکھا کہ وہ خوبصورت ہیں اور جن کو انہوں نے جنا ان سے بیاہ کرلیا۔ تب خداوند نے کہا کہ میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی کیونکہ وہ بھی تو بشر ہے اس کی عمر ایک سو بیس برس ہوگی ۔ ان دنوں میں زمین پر جبار تھے اور بعد میں جب خداوند کے بیٹے انسانوں کی بیٹیوں کے پاس گئے تو ان کے لئے ان سے اولاد ہوئی ۔ یہی قدیم زمانے کے سورما ہیں جو بڑے نامور ہوئے۔ “

مسیحی تصور ات میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ‘ قرآن کریم نے ان کا قول نقل کیا ہے کہ ” اللہ تینوں میں سے ایک ہے “ اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثٌ ثَلَاثَة……………اور ان کا یہ قول اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ المَسِیحُ ابنُ مَریَمَ……………” کہ اللہ مسیح بن مریم ہیں “ اور یہ کہ انہوں نے حضرت مسیح اور ان کی والدہ کو اللہ کے سوا دوالٰہ بنالیا تھا۔ اور انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو بھی اللہ کے علاوہ رب بنالیا تھا ‘ مشہور مصنف آرنلڈ اپنی کتاب تبلیغ اسلام میں لکھتے ہیں :

” ظہور اسلام سے تقریباً ایک سو سال پہلے قیصر یوستینیان روسی سلطنت میں اتحاد پیدا کرنے میں بظاہر کامیاب رہا تھا ‘ مگر اس کی وفات کے بعد سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ‘ کیونکہ دارالسلطنت اور صوبجات کے درمیان ایک مشترکہ قومیت کا جذبہ بالکل باقی نہیں رہا تھا ۔ ہرقل نے کوشش کی تھی کہ شام کے ملک کو مرکزی حکومت کے ساتھ دوبارہ وابستہ کرے اور اسے اس میں کسی قدر کامیابی بھی ہوئی تھی ‘ مگر بدقسمتی سے اس نے مصالحت کے لئے جو طریقے اختیار کئے ‘ ان سے اختلاف رفع ہونے کی بجائے اور شدید ہوگیا ‘ لوگوں کے دلوں میں مذہبی تعصبات نے قومی جذبے کی جگہ لے رکھی تھی لہٰذا قیصر نے کوشش کی کہ دین مسیحی کی تفسیر وتشریح ایسے طریق پر کرے جس سے مخالف فرقوں کے باہمی مناقشات مٹ جائیں اور جو لوگ دین سے منحرف ہوچکے ہیں ان کو آرتھوڈوکس ‘ کلیسا اور مرکزی حکومت کے ساتھ متحد کردیں ۔ خلقیدونہ کے مقام پر مسیحی علماء کی جو مجلس 451 ء میں بیٹھی تھی اس نے اس عقیدے کا اعلان کیا تھا کہ ” حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دو اقنوم تسلیم کرنے چاہئیں ‘ اس طور پر کہ ان میں کوئی اختلاط یاتبدیلی یا تقسیم یا علیحدگی نہیں ہے ۔ ان کی فطرتوں کا جو اختلاف ہے جو ان کے اجتماع سے باطل نہیں ہوجاتا بلکہ ہر اقنوم کے خواص برقرار ہیں اور ایک ذات اور ایک وجود میں موجود ہیں ۔ مگر اس طرح نہیں کہ یہ خواص دوہستیوں میں منقسم یا الگ الگ ہوں بلکہ وہی ایک بیٹا ہے ، اکلوتا ، کلمۃ اللہ مگر مونوفرائٹ (Monophysites) فرقے نے اس عقیدے کو رد کردیا کیونکہ وہ لوگ اس بات کے قائل تھے کہ ” مسیح کی ذات میں صرف ایک اقنوم ہے ‘ یہ ذات مرکب ہے جس میں تمام ربانی اور انسانی صفات شامل ہیں ۔ مگر وہ وجود جس میں یہ صفات ہیں ‘ اس میں دوئی نہیں ہے بلکہ وہ ایک مرکب وحدت ہے ۔ “ اس فرقے کے لوگ خاص طور پر شام ‘ مصر اور رومی سلطنت کے باہر ملکوں میں آباد تھے ۔ چناچہ ان دونوں فرقوں کے درمیان اس مسئلے پر دوصدیوں تک گرماگرم مباحثہ جاری رہا ‘ یہاں تک کہ ہرقل نے آکر فریقین کے درمیان مونوتھیلتزم (Monotheletism) کے عقیدے کے ذریعے سے مصالحت پیدا کرنی چاہی ۔ اس عقیدے کا مفہوم یہ تھا کہ اقانیم کی دوئی کو تسلیم کرتے ہوئے مسیح کی واقعی زندگی میں ذات کی وحدت کو قائم رکھا جائے ‘ اس لئے کہ ایک واحد ذات میں حرکت وعمل کے دوسلسلے قابل قبول نہیں ہوسکتے ۔ چناچہ مسیح ‘ جو ابن اللہ ہیں ‘ ایک ہی ذریعے اور وسیلے سے انسانی اور ربانی دونوں قسم کے نتائج پیدا کرتے ہیں ‘ یعنی کلمہ مجسم میں ایک ہی مشیئت کارفرما ہے۔ “

” مگر ہرقل کا بھی وہی انجام ہوا جو بہت سے صلح کرانے والوں کا ہوا کرتا ہے ‘ کیونکہ نہ صرف مناظرے کی آگ اور بھڑک اٹھی بلکہ لوگوں نے قیصر پر بےدینی کا الزام لگایا اور دونوں فرقوں کو مورد عتاب بننا پڑا۔ “

ایک دوسرے مسیحی مسٹر کینن ٹیلر لکھتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے وقت مشرقی عیسائیوں کی حالت یہ تھی کہ یہ لوگ درحقیقت مشرکین تھے ‘ وہ شہداء کے ایک طبقے کی پوجا کرتے تھے ۔ اسی طرح عیسائی پیروں اور فرشتوں کی عبادت کرتے تھے ‘ اور ان کا کم سے کم جو شرکیہ عقیدہ تھا وہ یہ ہے کہ بقول ان کے وہ ان الہٰوں کی بندگی محض اس لئے کرتے ہیں کہ کی بندگی کی وجہ سے انہیں قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے۔ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى ……………

غلط اعتقادات اور تصورات کے اس جنگل اور ڈھیر میں ‘ جن کی طرف اس سے قبل ہم اشارہ کرچکے ہیں ‘ اسلام آیا اور اس نے اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقیدے کا فیصلہ کن ‘ صریح اور واضح ممتاز تصور دیا۔ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ…………… ” نہیں کوئی الٰہ مگر اللہ ‘ وہی زندہ ہے اور وہی ہے جو تھامنے والا ہے ۔ “………یہ عقیدہ اور یہ تصور حیات ایسا تھا کہ اس نے فریقین کے راستے جدا کردئیے ۔ دونوں کا طرز عمل اور دونوں کا طریق زندگی جدا کردیا ………جس شخص کے نظریہ اور شعور میں یہ ہو کہ اللہ ایک وحدہ لاشریک ہے اور اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔ وہ زندہ ہے اور اس کے سوا اس مفہوم میں کوئی زندہ نہیں ہے ‘ تمام دوسرے موجودات کا وجود اس کے ساتھ قائم ہے۔ اور وہی ہے جو تمام موجودات اور تمام زندوں کو تھامے ہوئے ہے ………جس شخص کا یہ عقیدہ ہو اور ان صفات کے ساتھ ہو ‘ اس کا نظام زندگی اور طرز حیات یقیناً اس شخص سے مختلف ہونا چاہئے جس کی ذہنی دنیا پر غلط اور وہم پرستانہ تصورات کے بادل چھائے ہوئے ہوں جن کا اوپر ہم نے ذکر کیا ۔ اس قسم کے غلط تصورات کے حامل شخص کی زندگی پر وہ اثرات مرتب نہیں ہوسکتے ۔ جو اس شخص کی زندگی پر ہوسکتے ہیں ایسے خدا کا قائل ہو جو اس کی زندگی میں فعال اور متصرف ہے اور علی کل شیئ قدیر ہے۔

یہ صرف توحید خالص کی برکت ہے جس کے نتیجے میں ایک انسان صرف ایک ہی الٰہ کی بندگی کرسکتا ہے ۔ ایسے تصور میں کوئی شخص کسی غیر اللہ سے کوئی امداد طلب نہیں کرتا ۔ وہ صرف اللہ سے نصرت کا طلبگار ہوتا ہے ۔ نہ وہ غیر اللہ سے نظام حیات اور نظام قانون اخذ کرتا ہے ‘ نہ وہ اخلاق وآداب غیر اللہ سے اخذ کرتا ہے ۔ نہ وہ اجتماعی اور اقتصادی نظام اغیار سے لیتا ہے ۔ غرض ایک موحد اپنی زندگی کے کسی بھی شعبے میں غیر اللہ سے کچھ اخذ نہیں کرتا اور نہ ہی حیات بعد الممات کے تصور میں غیر اللہ کو اہمیت دیتا ہے ۔ رہے وہ کھوٹے ‘ ٹیڑھے ‘ پیچیدہ شرکیہ جاہلی عقائد تو ان کے حاملین کا ایک رخ ہوتا ہے نہ ان کو قرار وثبات حاصل ہوتا ہے ‘ نہ ان میں حدود حلال و حرام ہوتے ہیں ‘ نہ ان میں صحیح اور غلط کے اندر کوئی تمیز ہوتی ہے ‘ نہ نظام اور شریعت میں ‘ نہ آداب واخلاق میں ‘ نہ طرزعمل اور سلوک میں ‘ غرض یہ تمام امور تب طے ہوتے جب کسی شخص کے عقیدے اور نظریے میں ان کی جہت طے ہوتی ہے ‘ اس کے بعد ایک انسان ‘ اس مصدر ‘ اس جہت کی طرف متوجہ ہوکر اس کی بندگی اور اطاعت کرتا ہے۔

اور جب اسلام نے طے کردیا کہ …………… اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُتو اس طرح ایک مسلمان اللہ وحدہ کی طرف متوجہ ہوگیا اور اس طرح اس کے اور دوسرے عقائد والوں کے راستے جدا ہوگئے۔

یہی وجہ ہے کہ اس اعتقادی جدائی کی وجہ سے اسلامی نظام زندگی کا مزاج بالکل علیحدہ ہوگیا ہے ۔ اسلامی زندگی ‘ اپنے تمام عناصر ترکیبی کے ساتھ پوری کی پوری اسلامی تصور حیات سے تشکیل پاتی ہے ۔ اور اسلامی تصور حیات ایک خالص اور مکمل توحید پر مبنی ہے اور یہ عقیدہ توحید اس وقت انسانی ضمیر میں مستقلاً قرار نہیں پکڑتا جب تک اس کے کچھ عملی آثار زندگی میں مرتب نہ ہوں ‘ مثلاً زندگی کے ہر شعبے میں عقیدہ توحید کے ساتھ انسانی نظام شریعت بھی اللہ تعالیٰ سے اخذ کرے اور زندگی کی ہر سرگرمی اور تگ ودو میں ذات خداوندی کی طرف متوجہ ہو۔

توحید خالص کے بیان کے بعد ‘ ایسی جامع توحید کہ اللہ کی ذات میں بھی اس کا کوئی شریک نہ اور اس کی صفات میں کوئی شریک نہ ہو ‘ اب اس منبع اور مصدر کا بیان ہوتا ہے جس سے کہ ایک مسلمان اپنا دین اخذ کرتا ہے۔ جہاں سے کتب سماوی اور رسولوں کی تعلیمات نازل ہوتی ہیں ۔ یعنی جہاں سے ہر دور اور ہر زمانے میں انسانوں نے اپنے نظام زندگی اخذ کیا ہے ۔

اردو ترجمہ

اُس نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے، جو حق لے کر آئی ہے اور اُن کتابوں کی تصدیق کر رہی ہے جو پہلے سے آئی ہوئی تھیں اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے تورات اور انجیل نازل کر چکا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Nazzala AAalayka alkitaba bialhaqqi musaddiqan lima bayna yadayhi waanzala alttawrata waalinjeela

اس آیت کے پہلے جملے میں اسلامی تصور حیات کے تمام اساسی حقائق ذکر ہوئے ہیں ‘ اہل کتاب وغیرہ میں سے جو لوگ حضرت محمد ﷺ کی رسالت کے منکر تھے۔ ان کی تردید کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کچھ نازل ہوا وہ درست ہے۔

یہ آیت بتاتی ہے کہ ہدایت کا نزول صرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتا ہے۔ تمام کتب سماوی اس کی جانب سے ہیں ‘ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور وہ حی اور قیوم ہے ‘ وہی ہے جس نے آپ پر یہ قرآن کریم اتارا اور وہی ہے جس نے اس سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات اتاری ‘ وہی ہے جس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر انجیل اتاری ‘ اس لئے اللہ کی الوہیت اور اس کی بندگی میں اس کے ساتھ کسی کا اشتراک و اختلاط نہ ہوگا۔ وہی ایک الٰہ ہے جو اپنے مختار بندوں پر کتابیں نازل کرتا ہے ۔ اور وہ بندے اس سے ہدایت اخذ کرتے ہیں ۔ اور وہ اخذ کرنے والے بھی اللہ کے بندے ہی ہوتے ہیں اگرچہ وہ انبیاء ہوں۔

یہ آیت بتاتی ہے کہ کتب سماوی میں جو راہ ہدایت وہ ایک دین ہے ‘ اس لئے کہ آپ پر یہ کتاب جو سچائی لے کر آئی ہے ‘ وہ ان تمام صداقتوں کی تصدیق کرتی ہے ‘ جو انبیاء سابقہ پر نازل ہوئیں۔ مثلاً تورات اور انجیل میں ‘ اور ان سب کتابوں اور رسالتوں کا ہدف ایک ہی رہا ہے یعنی لوگوں کو راہ راست پر لانا ‘ پھر یہ کتاب جو آپ پر نازل کی گئی ہے۔ اس کی ایک دوسری صفت بھی ہے ۔ وہ یہ کہ چونکہ کتب سماوی کے اندر ان کے ماننے والوں نے مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ بہت تحریفات کی ہیں اس لئے یہ فرقان بھی ہے ۔ یہ ان کتب سماوی کی اصل ہدایات اور ان محرفہ ہدایات کے درمیان فرق کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ کیا اصل ہے اور کیا انحراف اور کیا تحریف ہے ‘ جیسا کہ اس کا ایک نمونہ ہم نے آرنلڈ کی کتاب دعوت الی الاسلام کے طویل اقتباس میں دیا تھا۔

اس میں ضمناً یہ فیصلہ بھی کردیا جاتا ہے کہ اہل کتاب کے لئے اس رسالت جدیدہ کے انکار کرنے کے لئے کوئی وجہ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اس رسالت کی راہ بھی وہی ہے جس پر سابقہ رسالتیں تھیں ۔ یہ کتاب اسی طرح نازل ہوئی جس طرح اس سے قبل کتابیں نازل ہوئیں ۔ جس طرح اس سے قبل ایک بشر رسول پر نازل ہوئیں ‘ اسی طرح یہ کتاب بھی ایک بشر پر نازل ہوئی ہے ۔ اور یہ کتاب ان تمام کتابوں اور رسولوں کی تصدیق کرتی ہے ۔ جس طرح یہ حق پر مشتمل ہے ‘ اسی طرح وہ کتابیں بھی سچائی پر مشتمل تھیں ۔ اور اس کتاب کو اسی ذات نے اتارا جس کا حق ہے کہ وہ سچائی اتارے ‘ اس لئے کہ صرف اسی ذات کو اختیار حاصل ہے کہ وہ انسانوں کے لئے نظام زندگی تجویز کرے ‘ ان کے فکری تصورات ان کے لئے وضع کرے ۔ ان کے لئے شریعت تجویز کرے ۔ ان کے لئے اخلاق وآداب کا نظام تجویز کرے اور یہ تمام کتابیں اس کتاب منزل میں موجود ہوں۔

اس آیت کے دوسرے حصے میں ان لوگوں کے لئے ایک خوفناک تنبیہ کا ذکر ہے جو بغیر کسی حجت کے اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ اللہ عزیز ہے ‘ وہ بےپناہ قوتوں کا مالک ہے اور اس کی پکڑ شدید ہوتی ہے اور کبھی انتقام بھی لیتا ہے جو بہت خوفناک ہوتا ہے ۔ اور وہ لوگ جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں گویا وہ تمام دینوں کا انکار کرتے ہیں جو اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہے ‘ اہل کتاب نے پہلے اس کتاب کا انکار کیا جو ان پر نازل ہوئی ہے اور جس کی انہوں نے تحریف کی ہے۔ وہی اب اس کتاب کا انکار کرتے ہیں ۔ اس لئے کہ انہوں نے خود اپنی کتابوں کی بھی تحریف کی تھی ۔ اس لئے یہ کتاب جدید ان کے لئے فرقان ہے ۔ اس لئے یہاں یہ شدید دہمکی انہی کو دی گئی ہے ۔ اور انہی سے کہا گیا ہے کہ تم اللہ کے انتقام سے بچو۔

اردو ترجمہ

اور اس نے وہ کسوٹی اتاری ہے (جو حق اور باطل کا فرق د کھانے والی ہے) اب جو لوگ اللہ کے فرامین کو قبول کرنے سے انکار کریں، ان کو یقیناً سخت سزا ملے گی اللہ بے پناہ طاقت کا مالک ہے اور برائی کا بدلہ دینے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Min qablu hudan lilnnasi waanzala alfurqana inna allatheena kafaroo biayati Allahi lahum AAathabun shadeedun waAllahu AAazeezun thoo intiqamin

اردو ترجمہ

زمین اور آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna Allaha la yakhfa AAalayhi shayon fee alardi wala fee alssamai

عذاب الٰہی اور انتقام الٰہی کی دہمکی کے بعد انہیں یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اللہ کی ذات سے کسی کی کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے ۔ اس سے نہ کوئی چیز مخفی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی چیز بچ سکتی ہے۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الأرْضِ وَلا فِي السَّمَاءِ ………… ” اللہ وہ ذات ہے جس پر زمین و آسمان دونوں کے اندر پائے جانے والی کوئی شئے مخفی نہیں ہے ۔ “ یہ کہ اس پر کوئی بات مخفی نہیں ہے اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے اس لئے کہ وہی الٰہ ہے ‘ وہی ہے جس نے اس کائنات کو تھاما ہوا ہے ۔ اس لئے اس کا علم محیط ہے ، سورت کے آغاز میں اس کی صفت قیومیت کا ذکر موجود ہے ۔ نیز یہاں خصوصاًاس لئے بھی صفت احاطہ علم کا ذکر کیا گیا کہ اس آیت میں ایک خوفناک ‘ ڈراوا بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ اس سے کوئی چیز پوشیدہ رکھی جائے ۔ ارض وسماء میں کوئی شیئ بھی اس سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ اس سے کسی نیت و ارادہ کو بھی پوشیدہ نہیں رکھاجاسکتا ۔ کوئی تدبیر بھی اس سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ اس طرح اس کے نظام میں یہ بھی ممکن نہیں ہے کوئی سزا سے بچ نکلے گا یا اس کے حیطہ علم سے کچھ باہر رہ جائے گا ۔

اللہ کے اس لطیف اور دقیق علم کے سائے ‘ انسانی شعور کو خود اس کی پیدائش کے سلسلے میں ایک ٹچ دیا جاتا ہے ‘ انسانی شعور کو یہ چٹکی ‘ خود تخلیق انسان کے بارے میں دی جاتی ہے ۔ انسان کی تخلیق جو پردہ غیب میں ‘ رحم مادر کے پس پردہ اندھیروں میں عمل پذیر ہوتی ہے ‘ جس کے بارے میں نہ انسان کا علم رسائی حاصل کرسکا ہے اور نہ ہی اس کا ادراک کرتا ہے۔ اور نہ ہی وہ عمل تخلیق انسان کے دائرہ قدرت میں آسکا ہے۔

اردو ترجمہ

وہی تو ہے جو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں، جیسی چاہتا ہے، بناتا ہے اُس زبردست حکمت والے کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee yusawwirukum fee alarhami kayfa yashao la ilaha illa huwa alAAazeezu alhakeemu

وہ رحم مادر میں تمہیں ایک شکل و حرارت دیتا ہے ‘ جس طرح اس کی مشیئت ہوتی ہے پھر وہ تمہیں اس شکل و صورت کے ساتھ مناسب خصوصیات بھی عطا کرتا ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کے سوا کوئی ذات اس تصویر سازی میں شریک نہیں ہوتی ‘ یہ کام وہ صرف اپنے ارادے اور اپنی مشیئت سے کرتا ہے ۔” جس طرح چاہتا ہے۔ “ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔ “ وہ عزیز ہے۔ “ وہ اس تخلیق اور تصویر سازی پر پوری قدرت رکھتا ہے ۔” وہ حکیم ہے ‘ یہ تمام تخلیقی عمل بڑی گہری ‘ ٹیکنالوجی پر مبنی ہے۔ اس میں نہ کوئی رکاوٹ آتی ہے ‘ اور نہ اس کام میں اس کے ساتھ کوئی شریک ہے ۔ “

تخلیق انسان کی طرف یہاں اشارہ کرنے کا مقصد یہ ہے خطاب اہل کتاب سے ہے اور اہل کتاب کے اندر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تخلیق کے بارے میں نہایت ہی غلط خیالات اور شکوک و شبہات پائے جاتے تھے ۔ اللہ ہی ہے جس نے حضرت عیسیٰ کی تصویر کشی کی ‘ جس طرح اس نے چاہا ‘ یہ عقیدہ باطل ہے کہ حضرت عیسیٰ بذات خود رب ہیں ۔ یا خدا ہیں ‘ یا خدا کے بیٹے ہیں یا کوئی لاہوتی ناسوتی اقنوم ہیں۔ اس لئے کہ یہ تصورات ناقابل فہم ناقابل ادراک ہونے کے ساتھ ساتھ ‘ عقیدہ توحید کے صحیح ‘ قابل فہم اور واضح تصور کے بھی خلاف ہیں ۔

اس کے بعد قرآن مجید ان لوگوں کی نشان دہی کرتا ہے جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہے ۔ اور یہ لوگ وہ ہیں جو قرآن کریم کی قطعی الدلالت آیات کو چھوڑ کر ان آیات کے درپے ہوتے ہیں جن کے مفہوم میں تاویل کا احتمال ہوتا ہے تاکہ وہ ایسی آیات کی غلط تاویل کرکے اسلامی نظریات کے اندر شبہات پیدا کریں ۔ یہ نشان دہی اس لئے کی جاتی ہے کہ اہل ایمان اور اہل حقائق کی حقیقی صفات بیان کردی جائیں ۔ یہ بتایا جائے کہ ان کا ایمان کس قدر خالص ہے ۔ اور کس طرح اللہ کے قطعی احکام کو بلا چون وچراء عمل میں لاتے ہیں ۔ فرماتے ہیں۔

اردو ترجمہ

وہی خدا ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے اِس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات جن لوگوں کے دلو ں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا بخلا ف اِس کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ "ہمارا اُن پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں" اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee anzala AAalayka alkitaba minhu ayatun muhkamatun hunna ommu alkitabi waokharu mutashabihatun faamma allatheena fee quloobihim zayghun fayattabiAAoona ma tashabaha minhu ibtighaa alfitnati waibtighaa taweelihi wama yaAAlamu taweelahu illa Allahu waalrrasikhoona fee alAAilmi yaqooloona amanna bihi kullun min AAindi rabbina wama yaththakkaru illa oloo alalbabi

ایک روایت میں آتا ہے کہ وفد نجران کے عیسائیوں نے رسول ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ حضرت عیسیٰ کو کلمۃ اللہ اور روح اللہ سمجھتے ہیں ؟ وہ ان الفاظ سے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اپنے عقائد باطلہ ثابت کرنا چاہتے تھے ۔ مثلاً یہ کہ وہ بشر نہیں ‘ روح اللہ ہیں اور روح اللہ کی وہ اپنی تعبیرات کرتے تھے ۔ لیکن وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں قرآن کریم کی ان آیات کی بات بھی نہ کرتے تھے ۔ جو اس موضوع پر محکمات تھیں ‘ جن میں اللہ کی بےقید وحدانیت کا ذکر تھا۔ اور جن میں اس بات کی قطعی تردیدکردی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک یا اس کا کوئی لڑکا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان آیات کا نزول فرمایا اور ان کی اس سازش کا انکشاف کیا جس کی وجہ سے وہ ان متشابہ تعبیرات قرآن سے غلط فائدہ اٹھاتے تھے ۔ اور قطعی الدلالت آیات سے صرف نظر کرتے تھے ۔

لیکن یہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے عام ہے ‘ اس میں قرآن مجید کی آیات کے بارے میں مختلف مکتب ہائے فکر کے لوگوں کے مختلف مواقف پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔ چناچہ اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ قرآن مجید ایک کتاب ہدایت ہے ۔ اس میں بعض باتیں تو ایسی ہیں جن کا تعلق اصول ایمان اور اسلامی فکر کے بنیادی حقائق سے ہے ۔ بعض میں اسلامی نظام حیات کی تفصیلات دی گئی ہیں اور بعض آیات میں ان غیبی امور کا بیان ہے جن کا صحیح تصور ہماری محدود عقل کے دائرہ قدرت سے باہر ‘ جن پر ادراک انسانی اپنے موجود محدود وسائل علم کے ذریعہ قابو نہیں پاسکتا ۔ اور ان نصوص میں اکثر وہ باتیں بیان کی گئی ہیں جو انسان کے ادراک سے باہر ہیں ۔

قرآن مجید نے پہلے دو امور یعنی عقیدہ اور نظریہ تصورات اور افکار کے بارے میں اور اسلامی نظام حیات اور شریعت کے بارے میں قطعی الدلالت آیات نازل فرمائیں ۔ جن کا تصور بھی ممکن ہے اور جن کے مقاصد بھی بالکل واضح ہیں اور یہی دوشعبے ہیں جو قرآن کا اصل موضوع ہیں ۔ رہے وہ جن کی خبر رسول ﷺ نے خبر دی یا قرآن نے دی اور ہم نے انہیں سنایا پڑھایا وہ غیبی خبریں جو قرآن نے سنائیں ہیں جن میں پیدائش مسیح کی خبر بھی ہے تو اس بارے میں ہدایت یہ ہے کہ جس حد تک انہیں سمجھ سکتے ہو تو ضرور را ہوار ادراک کو طولانی دو لیکن حد ادراک سے آگے ایمان لاؤ کہ بس یہ خالق حقیقی کی جانب سے ایک حق بات اور ماہیت اور کیفیت کا ادراک فی الحال مشکل ہے ‘ اس لئے کہ اپنی ماہیت کے اعتبار سے وہ انسان کے موجودہ ذرائع سے وراء ہے۔

اب رہے وہ لوگ ‘ تو وہ ان آیات پر غور ‘ خود اپنی شخصیت کے حوالے سے کرتے ہیں ‘ اگر وہ صحیح الفکر ہیں تو ان کی سوچ صحیح ہے ۔ اگر ان کی فکر ٹیڑھی ہے تو ان کی سوچ بھی ٹیڑھی ہے ۔ اور وہ اپنی اس ٹیڑھی فطرت کی وجہ سے گمراہ ہوگئے ہیں تو یہ لوگ قرآن کریم صاف ستھری اور واضح آیات سے صرف نظر کرتے ہیں ۔ وہ واضح اصولوں کو ترک کردیتے ہیں ۔ وہ نہایت ہی مفصل ہیں اور جن کے اوپر اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی نظام زندگی قائم ہے ۔ اور یہ لوگ متشابہات کے درپے ہوتے ہیں جن کی تصدیق کا دارومدار صرف ایمان پر ہے اور یہ کہ اللہ کی جانب سے نازل کی گئی ہیں ۔

اور یہ کہ ان کے صحیح معنی صرف اللہ جل شانہ کے علم میں ہیں ۔ جیسا کہ انسانی ذرائع علم نسبتی ہیں اور ان کی قوت مدرکہ کا میدان کار محدود ہے ۔ نیز ان کے صحیح فہم کا مدار اس براہ راست الہام اور شعور پر ہے ‘ جو کتاب اللہ کی صداقت کے بارے میں ایک صحیح الفکر آدمی کو حاصل ہوتا ہے کہ یہ پوری کتاب ایک سچی کتاب ہے ۔ اور یہ کہ وہ سچائی کے ساتھ اتاری گئی ہے اور کسی پہلو سے بھی باطل نہ اس پر حملہ آور ہوسکتا ہے ۔ اور ٹیڑھے دل و دماغ والے ان متشابہات کے پیچھے اس لئے پڑے رہتے ہیں کہ وہ ان آیات میں ایسے مواقع تلاش کرلیتے ہیں جن کے ذریعے وہ فتنے پیدا کرتے ہیں ۔ ایسی تاویلات پیدا کرتے ہیں ۔ جس سے اسلامی تصور حیات کے اندر شکوک پیدا کئے جاسکیں ۔ اور جب ان کے ذریعے وہ فکری انتشار پیدا کرلیں تو پھر وہ فکری ژولیدگی کو ان آیات میں بھی داخل کردیں جو بالکل قطعی اور واضح ہیں ۔ حالانکہ ان متشابہات کی تاویل صرف اللہ جانتا ہے وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلا اللَّهُ …………… ” حالانکہ اس کے اصل معنی صرف اللہ جانتا ہے۔ “

رہے وہ لوگ جو علم میں پختہ کار ہیں ‘ وہ لوگ جنہوں نے علم کے بل بوتے پر جان لیا ہے کہ انسانی عقل ‘ انسانی فکر اور یہ عقل وفکر اپنی موجودہ قوت اور موجودہ ذرائع عقل وفکر کی مدد سے وہ ان متشابہات کے مفاہیم نہیں پاسکتے ۔ اس لئے وہ پوری شرح صدر اور اطمینان سے کہتے ہیں آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا……………” ہم ان پر ایمان لائے ‘ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں “ ان کا یہ ایمان انہیں اس نتیجے تک پہنچاتا ہے ‘ بڑے وثوق سے کہ یہ آیات اللہ کی جانب سے ہیں ‘ اس لئے یہ حق ہیں اور سچائی پر مبنی ہیں ۔ اور جس چیز کا فیصلہ اللہ کردے وہ بذات خود سچی ہوتی ہیں اور انسانی عقل کے نہ بات فرائض میں شامل ہے ۔ اور نہ ہی اس کے دائرہ قدرت میں ہے کہ وہ ان آیات کے اسباب وعلل کا کھوج لگائے ………اس کے مفاہیم کی ماہیت معلوم کرے اور ان کے اندر پوشیدہ اسباب وعلل کا کھوج لائے وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ……………کے سامنے جب یہ آیات پیش ہوتی ہیں تو وہ ان کی صداقت کو قبول کرلیتے ہیں۔ وہ اپنی داقت شعار فطرت اور فہم رسا کی وجہ سے مطمئن ہوجاتے ہیں ۔ ان کی عقل ان میں شک ہی نہیں کرتی ۔ اس لئے کہ انہوں نے یہ بات پالی ہوتی ہے کہ علم اور خردمندی یہ ہے کہ جس حقیقت کا ادراک بذریعہ علم وعقل نہ ہوسکے اس میں دلچسپی نہ لی جائے ۔ خصوصاً جو امور انسان کے ذرائع علم کے حدود سے باہر ہوں۔

وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ……………کی یہ ایک بہترین تصویر ہے ‘ اس تصویر اور تعریف کا انکار وہی شخص کرسکتا ہے جو سطحی ہو ۔ جو اپنے سطحی علم کی وجہ سے اس غرے میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے سب کچھ حاصل کرلیا ہے ۔ اور جو چیز ان کے علم میں نہیں ہے گویا اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔ وہ فرض کرلیتے ہیں کہ وہ سب کچھ پاگئے ۔ اس لئے تمام حقائق کی صورت وہی ہے جو ان کے ذہن میں آتی ہو ‘ اس سے وہ اللہ تعالیٰ کے مطلق اور بےقید کلام کا قیاس اپنی عقلیت کے پیمانوں اور فصیلوں کے مطابق کرتے ہیں ‘ حالانکہ یہ پیمانے ان کی محدود عقل میں نہیں سماتے ‘ اس لئے ہزار حقائق عقل بشری کے دائرے سے باہر ہیں ۔ چونکہ وہ فطرتاً یقین کرنے والے ہوتے ہیں ‘ اس لئے ان کی سچی فطرت تک سچائی جلدی پہنچ جاتی ہے اور تصدیق کرلیتی ہے اور مطمئن ہوجاتی ہے۔ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلا أُولُو الألْبَابِ……………” اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں۔ “

جب ایک انسان دانشمندی کے اس مقام تک آپہنچتا ہے تو ان کا اجر اللہ کی طرف سے ہوتا ہے وہ خشوع و خضوع اور گڑگڑا کر دست بدعا ہوجاتے ہیں کہ اللہ ۔ انہیں حق پر قائم رکھ کر ہدایت کے بعد گمراہ نہ کر ‘ ان پر اپنی رحمت اور اپنے فضل کی بارش کردے ۔ خوف آخرت ان کے دامن گیر ہوجاتا ہے ‘ جہاں انہیں لازماً جانا ہے ‘ جس سے کوئی مفر نہیں۔

اردو ترجمہ

وہ اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ: "پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے رستہ پر لگا چکا ہے، تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو ہمیں اپنے خزانہ فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیاض حقیقی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbana la tuzigh quloobana baAAda ith hadaytana wahab lana min ladunka rahmatan innaka anta alwahhabu

جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں ان کا اپنے رب کے ساتھ یہ تعلق ہے ‘ اور یہ ایسا تعلق ہے جو ایک صحیح مومن کا ہونا چاہئے ‘ جو اللہ کے کلام اور اللہ کے عہد پر پورا بھروسہ ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے ۔ وہ اللہ کے فضل و رحمت کے صحیح شعور کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے ‘ خصوصاً اس وقت جب ایک مومن اللہ کی قضا وقدر پر پختہ یقین بھی رکھتا ہو اور اللہ کا خوف بھی اس کے دل میں موجزن ہو۔ اور ایک مومن نہ غافل ہوتا ہے ‘ نہ مغرور ہوتا ہے ‘ نہ اپنے روز وشب میں کبھی اپنے فرائض بھولتا ہے۔

قلب مومن کی ضلالت اور گمراہی کے بعد دولت ایمان ملنے کی بڑی قدر دانی ہوتی ہے ۔ اور کسی دھندلے تصور کے بعد اپنی آنکھوں سے حقیقت کو دیکھ لینے کی اس کے دل میں بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ اور حیرانی و پریشانی کے کے بعد راہ راست پانے سے اسے شعور ہوتا ہے ۔ خلجان اور بےیقینی کے بعد اطمینان پانے پر وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے ‘ وہ دنیا کی تمام غلامیوں سے آزاد ہوکر ایک اللہ کی غلامی میں داخل ہوکر پر مسرت ہوتا ہے اور اسے یہ شعور ہوتا ہے کہ دولت ایمان دیکر اللہ تعالیٰ نے اسے بہت کچھ دیدیاہے……………اس لئے وہ دوبارہ گمراہی کی راہ سے بہت ہی ڈرتا ہے ‘ چونکہ وہ راہ راست پر آچکا ہوتا ہے اس لئے دوبارہ گمراہی کے نشیب و فراز اور تاریک راہوں میں پھنس جانے سے بہت خوف کھاتا ہے ‘ وہ یوں ڈرتا ہے جس طرح وہ شخص جو ایک خوش گوار موسم میں گھنی چھاؤں میں بیٹھا ہو تو جھلسادینے والی گرمی اور بےآب وگیاہ صحرا کے تصور سے بھی ڈر رہا ہو ‘ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی قدر اور ذوق یقین وہی شخص پاسکتا ہے جس نے بدبختی کے کڑے دن اور الحاد وزندگی کی ذہنی خشکی کے دن دیکھے ہوں ۔ ایسا ہی شخص اچھی طرح اندازہ کرسکتا ہے کہ بےدینی گمراہی اور فسق وفجور کی زندگی کے مقابلے میں ایمانی زندگی کے اندر کس قدر مٹھاس ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ایسے مقامات پر ایک مومن ایسے خضوع وخشوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا……………” اے ہمارے رب ! راہ ہدایت دکھانے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کردیجیو۔ “ یہ پکارتے ہیں کہ انہیں گمراہی کے بعد ایک عظیم رحمت مل گئی ہے ۔ کہیں وہ لٹ نہ جائے ‘ یہ ایک ایسا انعام ہے جس سے بڑا کوئی انعام نہیں ہے ۔

وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ……………” ہمیں اپنے خزانہ غیب سے رحمت عطاکر تو ہی فیاض حقیقی ہے۔ “ یعنی یہ لوگ اپنے شعور ایمان کے ذریعہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے فضل و رحمت کے سوا کچھ نہیں کرسکتے ۔ خود ان کے دل بھی ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں ۔ اس لئے وہ اپنی ہدایت اور نجات اخروی کے لئے بھی اللہ کے سامنے دست بدعا ہوتے ہیں۔

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ اکثر اوقات یہ دعا فرمایا کرتے تھے ۔” تمام دل اللہ رحمان کی دوانگلیوں کی گرفت میں ہیں ‘ جب وہ دلوں کو سیدھا کرنا چاہے تو سیدھا کردیتا ہے۔ اور جب وہ ٹیڑھا کرنا چاہے تو وہ ٹیڑھا کردیتا ہے۔ “ اور جب ایک مومن کو صحیح طرح اس بات کا شعور حاصل ہوتا ہے تو وہ نہایت گرم جوشی کے ساتھ آستانہ درگاہ الٰہی کے ساتھ چمٹ جاتا ہے ‘ اور گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ کی معاونت اور توفیق کا طلب گار ہوجاتا ہے اور اس کی طرف متوجہ ہوکر اس کی رحمت اور اس کے فضل وکرم کا طلبگار ہوتا ہے تاکہ وہ خزانہ محفوظ رہے ‘ جو اس نے اس مومن کو عطا کیا ہے اور وہ کرم باقی رہے جن سے اسے نوازا گیا ہے۔

اس کے بعد روئے سخن اہل کفر کی طرف مڑجاتا ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ ان کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ ان کے بارے میں وہ سنت الٰہی کیا ہے۔ جس میں کوئی تبدیلی کبھی واقعہ نہیں ہوتی ۔ معنی یہ کہ ان کے گناہوں پر ان سے ضرور مواخذہ ہوگا ۔ اہل کتاب میں سے جو لوگ ‘ اس دین کا انکار کرتے ہیں اور اس کی راہ روکے کھڑے ہوتے ہیں انہیں یہ دہمکی کی جاتی ہے کہ وہ باز آجائیں ‘ رسول ﷺ کے واسطہ سے انہیں متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ کفار مکہ کے انجام بد سے عبرت حاصل کریں ‘ جوان کی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوا ‘ جن میں ایک قلت قلیلہ کے مقابلے میں ان کے بھاری لشکر کو شکست ہوئی۔

اردو ترجمہ

پروردگار! تو یقیناً سب لوگوں کو ایک روز جمع کرنے والا ہے، جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں تو ہرگز اپنے وعدے سے ٹلنے والا نہیں ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbana innaka jamiAAu alnnasi liyawmin la rayba feehi inna Allaha la yukhlifu almeeAAada
50