اس صفحہ میں سورہ An-Naml کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النمل کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 3 الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ بالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ ”یعنی آخرت پر ان کا پورا یقین ہے۔ سورة البقرۃ کے آغاز میں بھی متقین کی صفات کے ضمن میں عقیدۂ آخرت پر ایمان کے لیے لفظ ”یُوْقِنُوْنَ“ ہی استعمال ہوا ہے۔ دراصل انسان کے عمل اور کردار کے اچھے یا برے ہونے کا تعلق براہ راست عقیدۂ آخرت کے ساتھ ہے۔ آخرت پر اگر یقین کامل نہیں ہے تو انسان کا عمل اور کردار بھی درست نہیں ہوسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان کے لیے ہم نے اُن کے کرتوتوں کو خوشنما بنا دیا ہے، اس لیے وہ بھٹکتے پھر رہے ہیں
انگریزی ٹرانسلیٹریشن
Inna allatheena la yuminoona bialakhirati zayyanna lahum aAAmalahum fahum yaAAmahoona
آیت 4 اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ زَیَّنَّا لَہُمْ اَعْمَالَہُمْ ”ایسے لوگوں کو اپنے غلط کام بھی اچھے لگتے ہیں اور اپنا کلچر ہی مثالی نظر آتا ہے۔فَہُمْ یَعْمَہُوْنَ ”ع م ی کے مادہ میں بصارت ظاہری کے اندھے پن کا مفہوم ہے ‘ جبکہ ع م ہ کے مادہ میں بصیرت باطنی کے اندھے پن کے معنی پائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بصارت تو چاہے درست ہو مگر بصیرت ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ انسان کی اس کیفیت کو سورة الحج میں یوں بیان فرمایا گیا ہے : فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ ”تو اصل میں آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں ‘ بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔“
(اِنہیں اُس وقت کا قصہ سناؤ) جب موسیٰؑ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ "مجھے ایک آگ سی نظر آئی ہے، میں ابھی یا تو وہاں سے کوئی خبر لے کر آتا ہوں یا کوئی انگارا چن لاتا ہوں تاکہ تم لوگ گرم ہو سکو"
انگریزی ٹرانسلیٹریشن
Ith qala moosa liahlihi innee anastu naran saateekum minha bikhabarin aw ateekum bishihabin qabasin laAAallakum tastaloona
سَاٰتِیْکُمْ مِّنْہَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْکُمْ بِشِہَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّکُمْ تَصْطَلُوْنَ ”عبارت کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رات کا وقت تھا ‘ سردی کا موسم تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ایسے علاقے سے گزر رہے تھے جس سے انہیں کچھ واقفیت نہ تھی۔
اور پھینک تو ذرا اپنی لاٹھی" جونہی کہ موسیٰؑ نے دیکھا لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا "اے موسیٰؑ، ڈرو نہیں میرے حضور رسول ڈرا نہیں کرتے
انگریزی ٹرانسلیٹریشن
Waalqi AAasaka falamma raaha tahtazzu kaannaha jannun walla mudbiran walam yuAAaqqib ya moosa la takhaf innee la yakhafu ladayya almursaloona
فَلَمَّا رَاٰہَا تَہْتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ ط ”یعنی آپ علیہ السلام پر شدید خوف طاری ہوگیا۔
اِلّا یہ کہ کسی نے قصور کیا ہو پھر اگر برائی کے بعد اُس نے بھَلائی سے اپنے فعل کو بدل لیا تو میں معاف کرنے والا مہربان ہوں
انگریزی ٹرانسلیٹریشن
Illa man thalama thumma baddala husnan baAAda sooin fainnee ghafoorun raheemun
آیت 11 اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ”اس استثناء کو بعض مفسرین نے متصل مانا ہے اور بعض نے منقطع۔ متصل ہونے کی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جس رسول سے کوئی قصور سرزد ہوا ہو اس پر خوف طاری ہوسکتا ہے۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اس وقت خوف کا طاری ہوجانا اس خطا کے سبب تھا جو قتل اگرچہ وہ قتل عمد نہیں تھا ‘ قتل خطا تھا کی صورت میں ان سے سرزد ہوئی تھی۔ لیکن اس کے برعکس کچھ مفسرین کے نزدیک یہ استثناء منقطع ہے ‘ یعنی یہ الگ جملہ ہے اور اس کا پچھلے جملے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
اور ذرا اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں تو ڈالو چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے یہ (دو نشانیاں) نو نشانیوں میں سے ہیں فرعون اور اس کی قوم کی طرف (لے جانے کے لیے)، وہ بڑے بد کردار لوگ ہیں"
انگریزی ٹرانسلیٹریشن
Waadkhil yadaka fee jaybika takhruj baydaa min ghayri sooin fee tisAAi ayatin ila firAAawna waqawmihi innahum kanoo qawman fasiqeena
آیت 12 وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍقف ”یعنی یہ سفیدی برص یا کسی اور بیماری کے باعث نہیں ہوگی۔فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِہٖ ط ”یعنی فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجتے ہوئے ابھی آپ علیہ السلام کو صرف یہ دو نشانیاں دی جا رہی ہیں ‘ جبکہُ کل نو 9 نشانیاں دی جانی مقصود ہیں۔ باقی نشانیاں بعد میں موقع محل اور ضرورت کے مطابق دی جائیں گی۔