اس صفحہ میں سورہ Al-Fil کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الفيل کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 2{ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَہُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ۔ } ”کیا اس نے ان کی تمام تدبیروں کو بےکار اور غیر موثر نہیں کردیا ؟“ اَبرہہ کی اس لشکر کشی کا مقصد انہدامِ کعبہ کے علاوہ عرب میں عیسائیت پھیلانا اور اس تجارت پر قبضہ کرنا بھی تھا جو بلاد مشرق اور رومی مقبوضات کے درمیان عربوں کے ذریعے ہوتی تھی۔
آیت 4{ تَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ۔ } ”جو ان پر مارتے تھے کنکر کی پتھریاں۔“ رَمٰی یَرْمِی رَمْیًاکا معنی ہے پھینکنا ‘ مارنا۔ حج کے دوران شیطان کو کنکریاں مارنے کے عمل کو بھی ”رمی جمرات“ کہا جاتا ہے۔ لفظ سِجِّیْلدراصل فارسی ترکیب ”سنگ ِگل“ سے معرب ہے فارسی کی ”گ“ عربی میں آکر ”ج“ سے بدل گئی ہے۔ فارسی میں سنگ بمعنی پتھر اور گل بمعنی مٹی استعمال ہوتا ہے۔ چناچہ سنگ ِگل کے لغوی معنی ہیں مٹی کا پتھر۔ اس سے مراد وہ کنکریاں ہیں جو ریتلی زمین پر ہلکی بارش برسنے اور بعد میں مسلسل تیز دھوپ چمکنے کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔ یعنی بارش کے ایک ایک قطرے کے ساتھ جو ریت ملی مٹی گیلی ہوجاتی ہے وہ بعد میں مسلسل تیز دھوپ کی حرارت سے پک کر سخت کنکری بن جاتی ہے۔ ابرہہ کے لشکرجرار کو تباہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو کسی غیر معمولی طاقت کے استعمال کی ضرورت نہ پڑی ‘ بلکہ اس نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ُ جھنڈ بھیج دیے جو ساحل سمندر کی طرف سے امڈ پڑے اور چند لمحوں کی سنگ باری سے اس لشکر کا بھرکس نکال دیا۔ ان میں سے ہر پرندہ تین چھوٹی چھوٹی کنکریاں اٹھائے ہوئے تھا ‘ ایک اپنی چونچ میں اور دو اپنے پنجوں میں۔
آیت 5{ فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ۔ } ”پھر اس نے کردیا ان کو کھائے ہوئے بھس کی طرح۔“ یعنی اس پورے لشکر کی حالت اس چارے یا ُ بھس کی طرح ہوگئی جسے جانوروں نے کھا کر چھوڑ دیا ہو۔