سورۃ الفل (105): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Fil کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الفيل کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الفل کے بارے میں معلومات

Surah Al-Fil
سُورَةُ الفِيلِ
صفحہ 601 (آیات 1 سے 5 تک)

سورۃ الفل کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam tara kayfa faAAala rabbuka biashabi alfeeli

الم ترکیف ........................ الفیل (1:105) ” تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا ؟ “۔ یہ سوالیہ انداز تعجب انگیزی کے لئے اختیار کیا گیا ہے کہ یہ عجیب واقعہ تھا ، اور اس میں بہت بڑی عبرت ہے اور اس میں عظیم معانی پوشیدہ ہیں۔ یہ واقعہ عربوں میں معروف ومشہور تھا۔ بلکہ اس واقعہ سے عربوں میں کیلنڈر شروع ہوگیا تھا اور یہ اہم تاریخ بن گیا تھا۔ لوگ کہتے فلاں واقعہ ہاتھی والوں کے سال ہوا ، اور فلاں واقعہ عام الفیل سے دو سال پہلے ہوا۔ اور فلاں واقعہ عام الفیل کے دس سال بعدواقع ہوا۔ اور مشہور روایت یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی پیدائش بھی عام الفیل میں ہوئی اور یہ تقدیر کے فیصلوں کے مطابق عجیب اتفاق تھا۔

غرض اس سورت میں کوئی ایسا واقعہ بیان ہوا تھا جسے وہ نہ جانتے ہوں۔ یہ ایک واقعہ تھا جو ان کے علم میں تھا اور قرآن نے ان کو یاددلایا۔ اور مقصد اگلی جانب کی طرف متوجہ کرنا تھا۔

اردو ترجمہ

کیا اُس نے اُن کی تدبیر کو اکارت نہیں کر دیا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam yajAAal kaydahum fee tadleelin

اس کے بعد کا فقرہ بھی سوالیہ ہے لیکن استفہام تقریری ہے ، یعنی ایسا سوال جس کا جواب اثبات میں ہوتا ہے۔

الم یجعل ........................ تضلیل (2:105) ” کیا اس نے ان کی تدبیر کو اکارت نہیں کردیا “۔ یعنی ان کے مکرو تدبیر کو اس طرح بےراہ نہیں کردیا کہ وہ نشانے پر نہ لگے اور اپنی منزل تک نہ پہنچے۔ اسی طرح جس طرح ایک انسان راہ گم کردے اور منزل مقصود تک نہ پہنچ سکے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ قریش کو یاد دلاتا ہے کہ اس نے ان افعام و احسان کیا۔ ان کی حمایت کی اور اس گھر کو بچایا اور اس وقت بچایا جب وہ خود ابرہہ کے لشکر جرار کا سامنا کرنے سے قاصر تھے۔ شاید کہ وہ شرم کریں اور اس ذات باری کا انکار نہ کریں۔ جس نے ان کی مدد نہایت کمزوری اور عاجزی کی حالت میں کی تھی۔ ان کا کردار اس وقت بعینہ اسی طرح کا ہے جس طرح ابرہہ کا تھا۔ وہ مکہ کے مٹھی بھر مسلمان کو اپنے غرور اور قوت کے بل بوتے پر روندڈالنا چاہتے تھے۔ ان کو چاہئے کہ ذرا اس زور آور کا حال یاد کرلیں جس نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تھی اور اس کی حرمت کو پامال کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ اللہ یہ طاقت رکھتا ہے کہ جس طرح اس نے بیت اللہ کو بچایا ، اسی طرح اس کی دعوت کو لے کر چلنے والی حزب اللہ کو بھی بچائے۔

سوال یہ ہے کہ اللہ نے پھر ان کی مکاری کو کس طرح گمراہ اور خطا کردیا ، تو اس کی تصویر کشی بھی قرآن کریم نہایت خوبصورت انداز میں کرتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور اُن پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waarsala AAalayhim tayran ababeela

وارسل ................................ کعصف ماکول (3:105 تا 5) ” اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیئے جو ان کے اوپر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے ، پھر ان کا یہ حال کردی جیسے (جانوروں کا ) کھایا ہوا بھوسا “۔

ابابیل (3:105) کے معنی جھنڈ کے ہوتے ہیں۔

سجیل (4:105) فارسی سے معرب ہے اور دولفظوں سے مرکب ہے ” سنگ گل “ یعنی مٹی کو پکاکر اس سے پتھر بنادیا گیا تھا ، یا ایسے پتھر تھے جو کیچڑ کے ساتھ آلودہ تھے۔

کعصف (5:105) کے معنی ہیں درختوں کے خشک پتے ۔ عصف کی صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ ماکول ہے۔ یعنی کھایا ہوا ہے یعنی پتوں کی حالت یہ ہے کہ ان کو حشرات الارض نے کھا کر پیس دیا ہے ، یا حیوانات نے چپا کر ریزہ ریزہ کردیا اور پیس دیا۔ یہ ایک حسی تصویر کشی ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کے جھنڈ ان پر پتھر مارتے تھے تو ان کے اجسام ریزہ ریزہ ہوجاتے تھے۔ لہٰذا ایسی تاویلات کی ضرورت نہیں ہے کہ چیچک یا خسرے کی وجہ سے ان کے اجسام ریزہ ریزہ ہوگئے۔

اس واقعہ میں جو حقائق بیان ہوئے وہ کئی زاویوں سے ہمارے لئے عبرت انگیز اور بصیرت افروز ہیں :

اس سے پہلی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ وہ اپنے گھر کی حمایت اور اس کا بچاﺅ مشرکین کے ذریعہ انجام دے۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو اس گھر کی طرف منسوب کرتے تھے ، وہ اسے بچانے کی کوشش بھی کرتے اور اس میں پناہ بھی لیتے۔ جب اللہ نے ارادہ کیا کہ وہ اس گھر کو بچائے اور اس کی حفاظت کرے اور سا کی حمایت کا اعلان کرے اور اس گھر پر غیرت کرے ، تو اللہ نے مشرکین مکہ کی حالت اس طرح کردی کہ وہ اس جارح قوت کے سامنے بےبس ہوجائیں اور قدرت الٰہیہ بالکل عیاں ہو کر اپنے گھر کی حفاظت کرے جو ایک محترم گھر ہے تاکہ بیت اللہ کی حفاظت میں مشرکین کا کوئی تاریخی کردار نہ ہو ، جس کے تحت حمیت جاہلیت کا کذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ یہ نکتہ اس بات کو بھی ترجیح دے دیتا ہے کہ اس حملہ آور لشکر کی ہلاکت میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی اور معجزانہ انداز اختیار کیا۔ اور ان کی ہلاکت میں کوئی عام مالوف طریقہ اختیار نہ کیا گیا تھا۔ یہ بات زیادہ مناسب اور قرین قیاس ہے۔

خانہ کعبہ کی حمایت میں اس کھلی مداخلت کا تقاضا یہ تھا کہ قریش اور بیت اللہ کے ارد گرد پھیلے ہوئے عرب نبی ﷺ کی بعثت کے بعد خود اسلام میں داخل ہوتے اور بیت اللہ کی خدمت اور فوقیت پر فخر نہ کرتے اور بیت اللہ کے ارد گرد انہوں نے بت پرستی کا جو جال پھیلا رکھا تھا وہ ان کے اسلام میں داخل ہونے کے لئے مانع نہ ہوتا مگر افسوس کہ انہوں نے اسالم قبول نہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں اس حادثہ کا ذکر اس انداز سے کیا گیا ہے کہ اہل قریش کو شرمندہ کیا جائے اور یہ گویا ان پر تنقید ہے اور ان کے معاندانہ موقف پر تعجب کا اظہار ہے کہ کیوں نہ انہوں نے اس واقعہ سے کوئی عبرت لی۔

اس سے دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ نے اہل کتاب ، ابرہہ اور اس کے لشکر کو توفیق نہ دی کہ وہ اس گھر کو گراسکیں اور اس مقدس سرزمین پر اپنی حکومت قائم کرسکیں۔ اگرچہ اسگھر کے متوالی بھی مشرک ہوں ، تاکہ یہ گھر کسی بھی استعماری قوت کے تسلط سے آزاد رہے۔ اس علاقے میں کوئی بیرونی سازش کارفرمانہ ہو۔ اور اس سرزمین کی آزادی محفوظ ہوتا کہ اللہ کی تقدیر میں یہاں سے جو جدید دین اور جدید نظریہ اٹھنے والا تھا وہ آزادی کی فضا میں نمودار ہو۔ اس پر کسی حکومتی اقتدار کا دباﺅ نہ ہو۔ اور کوئی بیرونی ڈکٹیٹر یہاں سرکشی نہ کرسکے اور کوئی دین اس دین سے برتر نہ ہو جو تمام ادیان کو اپنی گرفت میں لینے والا تھا اور جو پوری انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ اپنے ہاتھ میں لینے والا تھا ، کسی سے رہنمائی لینے والا نہ تھا۔ یہ تھی اللہ کی تدبیر نبی آخر الزمان اور آپ کے دین کے لئے۔ یہ بات اس وقت ہورہی تھی ، جب کہ لوگوں کو معلوم نہ تھا کہ اس نئے دین کا قائد اسی سال پیدا ہوگیا ہے۔

آج عالمی صلبیت اور عالمی صیہونیت مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کو نہایت فاجرانہ اور لالچی نظروں سے دیکھتے ہیں اور ان کے ان مکارانہ منصوبوں کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں ، لیکن اس سورت سے ہمیں جو اشارات ملتے ہیں ان سے ہمیں ایک گونہ اطمینان نصیب ہوجاتا ہے کہ اسلام کے مقامات مقدسہ کے خلاف ان کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ جس اللہ نے اپنے گھر کو اہل کتاب سے اس وقت بھی بچایا جب اس کے متولی اور مجاور مشرک تھے تو وہ اس کی حفاظت آج بھی کرے گا۔ اسی طرح اللہ اپنے نبی کے شہر کو بھی ان سازشوں اور للچائی ہوئی مکارانہ نظروں سے بچائے گا۔

تیسری بات یہ کہ اس کرہ ارض پر ماضی میں عربوں کا کوئی قابل ذکر کردار نہ تھا بلکہ اسلام سے قبل ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ یمن میں وہ اہل فارس اور حبشیوں کے غلام تھے۔ اگر کہیں جنوبی عرب میں ان کی کوئی حکومت قائم بھی ہوئی تو وہ ایرانیوں کے زیر انتداب تھی۔ شمال میں شام کا علاقہ رومی مملکت کے تحت تھا۔ یہ علاقہ یا تو براہ راست رومی سلطنت کے تحت ہوتا یا وہ یہاں اپنے زیر حمایت کوئی عربی سلطنت قائم کرتے۔ صرف جزیرة العرب کا قلب ہی ایسا علاقہ تھا جو کسی غیر حکومت کے اثرورسوخ سے پاک تھا لیکن اس علاقے کا کوئی عالمی کردار نہ تھا۔ یہ ایک پسماندہ بدوی علاقہ تھا۔ اس علاقے میں جب قبائلی جنگ چھڑ جاتی تو یہ چالیس چالیس سال تک جاری رہتی۔ اس انتشار کی وجہ سے ان علاقوں کے باشندوں کی کوئی وقعت قریب ممالک کے ہاں نہ تھی۔ ان کی جو جنگی حیثیت تھی اس کا اظہار ہاتھ والوں کی مہم کے دوران ہوگیا تھا کہ وہ کسی بیرونی حملہ آور کے مقابلے کی ہمیت نہ رکھتے تھے۔

عربوں کا عالمی کردار ادا کرنے کا موقعہ ، سب سے پہلے اسلام کے جھنڈے تلے نصیب ہوا۔ ان کی ایک ایسی عالمی مملکت وجود میں آئی جس کی کوئی حیثیت تھی اور لوگ اس کا شمار بھی کرتے تھے۔ یہ دراصل سیلاب کی طرح ایک عالمی انقلاب تھا۔ اس انقلاب میں کئی مملکتیں بہہ گئیں ، کئی تخت گر گئے اور انسانیت کی قیادت کا مقام عربوں کو حاصل ہوگیا ۔ یہ اس وقت ہوا جب اس کرہ ارض پر سے گمراہ اور کھوٹی قیادتوں کے اختیارات زائل کردیئے گئے۔ سول یہ ہے کہ عربوں کو یہ مقام کب اور کیوں حاصل ہوا ؟ یہ مقام انہیں اس وقت حاصل ہوا جب انہوں نے اس بات کو بھلا دیا کہ وہ عرب ہیں۔ انہوں نے علاقائی ، نسل اور لسانی عصبیت کے نعروں کو بھلا دیا۔ انہوں نے صرف اس بات کو یاد رکھا کہ وہ مسلم ہیں اور صرف مسلم ہیں۔ انہوں نے صرف اسلام کے جھنڈے بلند کیے اور وہ ایک عظیم نظریہ حیات لے کر اٹھے اور اسے تمام انسانوں تک پہنچا دیا۔ وہ انسانیت کے لئے رحم اور اس کے لئے بھلائی کے حامل بن گئے۔ انہوں نے نہ قومیت کا نعرہ بلند کیا ، نہ نسلی عصبیت کا ، بلکہ وہ ایک آسمانی ہدایت پر مبنی فکر لے کر اٹھے اور اسے ایک آسمانی ہدایت کے طور پر لوگوں تک پہنچایا۔ انہوں نے دین اسلام کو ایک دنیاوی مذہب اور دنیاوی نظریہ کے طور پر نہ لیا جس سے ان کا مقصد یہ نہ تھا کہ کوئی عربی امپیریلزم قائم کردیں ، تاکہ اس کے زیر سایہ اس زمین پر خوب پھریں اور چگیں۔ ان کی ناک اونچی ہو ، اور وہ دنیا میں اس شہنشاہیت کی وجہ سے بڑے بن جائیں اور لوگوں کو رومیوں اور فارسیوں کی حکومت سے نکال کر عربوں کی حکومت میں داخل کردیں بلکہ وہ اس لئے اٹھے تھے کہ لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ وحدہ کی بندگی میں داخل کریں۔ جیسا کہ یزدگرد کی مجلس میں مسلمانوں کے نمائندے حضرت ربعی ابن عامر نے کہا۔” اللہ نے ہمیں اس لئے اٹھیا ہے کہ ہم لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں داخل کریں۔ اور دنیا کی تنگ دامنی سے نکال کر آخرت کی وسعتوں میں داخل کردیں اور عوام کو دوسرے ادیان کے ظلم سے نکال کر اسلام کے انصاف میں داخل کریں “۔

یہ وہ وقت تھا جب دنیا میں عربوں کا وجود قائم ہوا ، ان کو قوت ملی ، ان کی قیادت قائم ہوئی ، لیکن یہ دعوت اللہ کے لئے تھی اور یہ جہاد اللہ کی راہ میں تھا۔ یہ قوت ایک عرصہ تک قائم رہی ، ایک زمانہ تک وہ انسانیت کے قائد رہے ، جب تک کہ وہ اپنے طریقے پر قائم رہے۔ جب انہوں نے اسلامی نظریہ حیات سے انحراف کیا اور وہ قومی عصبیت کے داعی بنے اور انہوں نے اللہ کے جھنڈے بلند کرنے کی بجائے عصبیت کے جھنڈے اٹھا لئے ، تو زمین نے ان کو پرے پھینک دیا ، اقوام عالم نے انہیں روند ڈالا کیونکہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ دیا تو اللہ نے ان کو چھوڑ دیا اور جس طرح انہوں نے اللہ کو بھلا دیا اللہ نے بھی ان کو بھلا دیا۔

سوال یہ ہے کہ اسلام کے سوا عربوں کی حیثیت ہی کیا ہے ؟ اگر وہ اسلامی عقیدہ ، اسلامی تصورات اور افکار کو ایک طرف رکھ دیں تو ان کے پاس کیا چیز ہے جو وہ انسانیت کے سامنے پیش کرسکتے ہیں ؟ اور اگر کسی قوم کے پاس انسانوں کے لئے کوئی پیغام نہیں ہے تو وہ قوم ہی کیا ہے ؟ تاریخ عالم گواہ ہے کہ جن اقوام نے کبھی انسانیت کی قیادت کی ، ان کے پاس ایک فکر تھی ، ایک پیغام تھا جو انہوں نے انسانیت کو دیا۔ جن اقوام کے پاس کوئی پیغام نہ تھا مثلاً تاتاری ، جنہوں نے پورے مشرق کو روندڈالا اور برابر جنہوں نے عالم عرب پر سے رومیوں کی سلطنت کو ختم کیا۔ یہ لوگ طویل عرصہ تک زندہ نہ رہ سکے ، بلکہ یہ ان اقوام ہی کے اندر پگھل گئے جن کو انہوں نے فتح کیا تھا۔ یاد رہے کہ عربوں نے انسانیت کو جس نظریہ سے نوازا وہ فقط اسلامی نظریہ حیات تھا۔ اس نظریہ کی وجہ سے وہ عالمی قیادت کے منصب پر فائز ہوئے۔ جب انہوں نے اس نظریہ کو پس پشت ڈال دیا تو اس کرہ ارض پر ان کا کوئی کام ہی نہ رہا۔ تاریخ سے ان کا کردار ختم ہوگیا۔ آج عرب اگر زندہ رہنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اس سبق کو یاد رکھیں۔ اگر وہ قوت اور قیادت چاہتے ہیں ورنہ ان کی کوئی حیثیت قائم نہیں ہوسکتی۔ اللہ ہی ہے جو گمراہوں کو ہدایت دے سکتا ہے۔

اردو ترجمہ

جو اُن پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tarmeehim bihijaratin min sijjeelin

اردو ترجمہ

پھر اُن کا یہ حال کر دیا جیسے جانوروں کا کھایا ہوا بھوسا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FajaAAalahum kaAAasfin makoolin
601