سورۃ المنافقون (63): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Munaafiqoon کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المنافقون کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المنافقون کے بارے میں معلومات

Surah Al-Munaafiqoon
سُورَةُ المُنَافِقُونَ
صفحہ 554 (آیات 1 سے 4 تک)

سورۃ المنافقون کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں "ہم گواہی دیتے ہیں کہ آ پ یقیناً اللہ کے رسول ہیں" ہاں، اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اُس کے رسول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جھوٹے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Itha jaaka almunafiqoona qaloo nashhadu innaka larasoolu Allahi waAllahu yaAAlamu innaka larasooluhu waAllahu yashhadu inna almunafiqeena lakathiboona

آیت 1{ اِذَا جَآئَ کَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ 7} ”اے نبی ﷺ ! جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں۔“ { وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ } ”اور اللہ جانتا ہے کہ یقینا آپ اس کے رسول ہیں۔“ { وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَــکٰذِبُوْنَ۔ } ”اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین یقینا جھوٹے ہیں۔“ یعنی آپ ﷺ کی رسالت کی گواہی یہ لوگ صرف اپنی زبانوں سے دیتے ہیں ‘ ان کے دل اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے ‘ اس لیے یہ لوگ جھوٹے کٰذِبُوْنَ ہیں۔ جیسا کہ تمہیدی کلمات میں ذکر ہوا ہے بات بات پر جھوٹ بولنا مرض منافقت کی پہلی سٹیج ہے۔

اردو ترجمہ

انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور اِس طرح یہ اللہ کے راستے سے خود رکتے اور دنیا کو روکتے ہیں کیسی بری حرکتیں ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ittakhathoo aymanahum junnatan fasaddoo AAan sabeeli Allahi innahum saa ma kanoo yaAAmaloona

آیت 2 { اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } ”انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور یہ اللہ کے راستے سے رُک گئے ہیں۔“ جہاد و قتال سے بچنے کے لیے یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر جھوٹے بہانے بناتے تھے کہ اللہ کی قسم میری بیوی سخت بیمار ہے ‘ گھر میں کوئی دوسرا اس کی دیکھ بھال کرنے والا بھی نہیں ‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب نوبت قسموں تک پہنچ گئی تو گویا مرض دوسری سٹیج میں داخل ہوگیا۔ { اِنَّہُمْ سَآئَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ } ”بہت ہی برا کام ہے جو یہ لوگ کرر ہے ہیں۔“

اردو ترجمہ

یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لا کر پھر کفر کیا اس لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، اب یہ کچھ نہیں سمجھتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika biannahum amanoo thumma kafaroo fatubiAAa AAala quloobihim fahum la yafqahoona

آیت 3{ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا } ”یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے“ یعنی ان کی منافقت شعوری نہیں ہے کہ وہ بدنیتی سے دھوکہ دینے کے لیے ایمان لائے ہوں۔ دین اسلام کی دعوت جب ان لوگوں تک پہنچی تھی تو ان کی فطرت نے گواہی دی تھی کہ یہ سچ اور حق کی دعوت ہے اور اس وقت وہ نیک نیتی سے ایمان لائے تھے۔ کچھ دیر کے لیے انہیں ایمان کی دولت نصیب ہوئی تھی ‘ لیکن ایمان لاتے وقت انہیں معلوم نہیں تھا کہ ع ”یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے“۔ اہل ِایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے : { وَلَـنَـبْلُوَنَّــکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِط } البقرۃ : 155 کہ ہم تمہیں کسی قدر خوف ‘ بھوک اور مال و جان کے نقصانات جیسی سخت آزمائشوں سے ضرور آزمائیں گے۔ لیکن منافقین کو اس صورت حال کا اندازہ نہیں تھا۔ منافقین ِمدینہ میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے قبیلے کے سردار کے پیچھے ایمان لے آئے تھے۔ جیسے اوس اور خزرج کے قائدین ایمان لے آئے تو پورا پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ انہیں کیا پتا تھا کہ عملی طور پر ایمان کے تقاضے کیا ہیں۔ وہ تو برف کے تودے کی اوپری سطح tip of the iceberg ہی کو دیکھ رہے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ اس تودے کے نیچے کیا ہے۔ بہرحال ایسے لوگ ایمان تو سچے دل سے لائے تھے ‘ لیکن ان کا ایمان تھا کمزور۔ اسی لیے تکلیفیں اور آزمائشیں دیکھ کر ان کے پائوں لڑکھڑاگئے۔ البتہ ضعیف الایمان مسلمانوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اپنی تمامتر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود ایمان کے دامن سے وابستہ رہے۔ ان سے جب کوئی کوتاہی ہوئی تو انہوں نے اس کا اقرار بھی کیا اور اس کے لیے وہ معافی کے طلب گار بھی ہوئے۔ سورة التوبہ میں ان لوگوں کا ذکر گزر چکا ہے اور وہاں ان کے ضعف ِایمان کا علاج بھی تجویز کردیا گیا : { خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْط } التوبۃ : 103 ”ان کے اموال میں سے صدقات قبول فرما لیجیے ‘ اس صدقے کے ذریعے سے آپ ﷺ انہیں پاک کریں گے اور ان کا تزکیہ کریں گے ‘ اور ان کے لیے دعا کیجیے“۔ یعنی انفاق فی سبیل اللہ سے ان کے ایمان کی کمزوری دور ہوجائے گی۔ بہرحال جو لوگ ایک دفعہ ایمان لانے کے بعد مشکلات سے گھبرا کر ایمان کے عملی تقاضوں سے جی چرانے لگے اور اپنی اس خیانت کو جھوٹے بہانوں سے چھپانے لگے وہ منافقت کی راہ پر چل نکلے۔ { فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا یَفْقَہُوْنَ۔ } ”تو ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ‘ پس یہ سمجھنے سے عاری ہوگئے۔“ ان کی منافقانہ روش کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی۔ چناچہ اب ان کی سمجھ بوجھ کی صلاحیت مفقود ہوچکی ہے اور یہ حقیقی تفقہ سے عاری ہوچکے ہیں۔

اردو ترجمہ

اِنہیں دیکھو تو اِن کے جثے تمہیں بڑے شاندار نظر آئیں بولیں تو تم ان کی باتیں سنتے رہ جاؤ مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چن کر رکھ دیے گئے ہوں ہر زور کی آواز کو یہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں یہ پکے دشمن ہیں، ان سے بچ کر رہو، اللہ کی مار ان پر، یہ کدھر الٹے پھرائے جا رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha raaytahum tuAAjibuka ajsamuhum wain yaqooloo tasmaAA liqawlihim kaannahum khushubun musannadatun yahsaboona kulla sayhatin AAalayhim humu alAAaduwwu faihtharhum qatalahumu Allahu anna yufakoona

آیت 4 { وَاِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ } ”اے نبی ﷺ ! جب آپ انہیں دیکھتے ہیں تو ان کے جسم آپ کو بڑے اچھے لگتے ہیں۔“ جسمانی طور پر ان کی شخصیات بڑی دلکش اور متاثر کن ہیں۔ { وَاِنْ یَّـقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ } ”اور اگر وہ بات کرتے ہیں تو آپ ﷺ ان کی بات سنتے ہیں۔“ ظاہر ہے یہ لوگ سرمایہ دار بھی تھے اور معاشرتی لحاظ سے بھی صاحب حیثیت تھے۔ اس لحاظ سے ان کی گفتگو ہر فورم پر توجہ سے سنی جاتی تھی۔ { کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ} ”لیکن اصل میں یہ دیوار سے لگائی ہوئی خشک لکڑیوں کی مانند ہیں۔“ حقیقت میں ان لوگوں کی حیثیت ان خشک لکڑیوں کی سی ہے جو کسی سہارے کے بغیر کھڑی بھی نہیں ہوسکتیں اور انہیں دیوار کی ٹیک لگا کر کھڑا کیا جاتا ہے۔ { یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْہِمْ } ”یہ ہر زور کی آواز کو اپنے ہی اوپر گمان کرتے ہیں۔“ اندر سے یہ لوگ اس قدر بودے اور بزدل ہیں کہ کوئی بھی زور کی آواز یا کوئی آہٹ سنتے ہیں تو ان کی جان پر بن جاتی ہے۔ یہ ہر خطرے کو اپنے ہی اوپر سمجھتے ہیں اور ہر وقت کسی ناگہانی حملے کے خدشے یا جہاد و قتال کے تقاضے کے ڈر سے سہمے رہتے ہیں۔ { ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ } ”آپ ﷺ کے اصل دشمن یہی ہیں ‘ آپ ان سے بچ کر رہیں !“ یہ ان کے مرض نفاق کی تیسری سٹیج کا ذکر ہے۔ ان کی دشمنی چونکہ دوستی کے پردے میں چھپی ہوتی ہے اس لیے یہاں خصوصی طور پر ان سے ہوشیار رہنے کی ہدایت کی جا رہی ہے کہ اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آستین کے سانپ ہیں۔ مشرکین مکہ کے لشکر آپ لوگوں کے لیے اتنے خطرناک نہیں جتنے یہ اندر کے دشمن خطرناک ہیں۔ لہٰذا آپ ﷺ ان کو ہلکا نہ سمجھیں اور ان سے ہوشیار رہیں۔ ایسی صورت حال کے لیے حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ قول بہت اہم ہے کہ ”فاختہ کی مانند بےضرر لیکن سانپ کی طرح ہوشیار رہو“۔ منافقین اگرچہ حضور ﷺ سے دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ‘ لیکن حضور ﷺ کی شان یہی تھی کہ آپ ﷺ ان کی غلطیاں اور گستاخیاں مسلسل نظرانداز فرماتے رہتے تھے ‘ بلکہ آپ ﷺ اپنی طبعی شرافت اور مروّت کی وجہ سے ان کے جھوٹے بہانے بھی مان لیتے تھے۔ یہاں تک کہ غزوئہ تبوک کی تیاری کے موقع پر جب آپ ﷺ نے بہت سے منافقین کو جھوٹے بہانوں کی وجہ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہہ آگئی : { عَفَا اللّٰہُ عَنْکَج لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ۔ } التوبۃ ”اے نبی ﷺ ! اللہ آپ کو معاف فرمائے یا اللہ نے آپ کو معاف فرمادیا آپ نے انہیں کیوں اجازت دے دی ؟ یہاں تک کہ آپ کے لیے واضح ہوجاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور آپ یہ بھی جان لیتے کہ کون جھوٹے ہیں !“ { قَاتَلَہُمُ اللّٰہُز اَنّٰی یُؤْفَـکُوْنَ۔ } ”اللہ ان کو ہلاک کرے ‘ یہ کہاں سے پھرائے جا رہے ہیں !“ تصور کیجیے یہ لوگ کس قدرقابل رشک مقام سے ناکام و نامراد لوٹے ہیں ! ان کو نبی آخر الزماں ﷺ کا زمانہ نصیب ہوا ‘ آپ ﷺ کی دعوت ایمان پر لبیک کہنے کی توفیق ملی ‘ آپ ﷺ کے قدموں میں بیٹھنے کے مواقع ہاتھ آئے۔ کیسی کیسی سعادتیں تھیں جو ان لوگوں کے حصے میں آئی تھیں۔ بقول ابراہیم ذوق : ع ”یہ نصیب اللہ اکبر ! لوٹنے کی جائے ہے“۔ مگر دوسری طرف ان کی بدنصیبی کی انتہا یہ ہے کہ یہاں تک پہنچ کر بھی یہ لوگ نامراد کے نامراد ہی رہے۔ مقامِ عبرت ہے ! کس بلندی پر پہنچ کر یہ لوگ کس اتھاہ پستی میں گرے ہیں : ؎قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند دوچارہاتھ جب کہ لب ِبام رہ گیا !

554