سورہ طارق (86): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ At-Taariq کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الطارق کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ طارق کے بارے میں معلومات

Surah At-Taariq
سُورَةُ الطَّارِقِ
صفحہ 591 (آیات 1 سے 17 تک)

سورہ طارق کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ طارق کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والے کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalssamai waalttariqi

سورة الطارق ایک نظر میں

اس پارے کے ابتدائیہ میں ہم نے بتایا تھا کہ یہ سورت دراصل انسان کے خوابیدہ احساس پر پے درپے شدید ضربات ہیں ، شدید ترین ضربات اور ایسی بےساختہ چیخ و پکار پر مشتمل ہے ، جو کسی ایسے شخص کو جگانے کے لئے کی جاتی ہے جو غفلت کی نیند میں غرق ہو ، یہ ضربات اور ان کے ساتھ یہ بےساختہ آوازیں کچھ اس مضمون کی ہیں۔ اٹھو ، جاگو ، دیکھو ، توجہ کرو ، غور کرو ، گہری سوچ سے کام لو۔ آخر اس کارخانہ قدرت کا ایک چلانے والا ہے۔ اس کائنات کی پشت پر ایک حکیمانہ قوت کام کررہی ہے۔ یہ پوری کائنات ایک لگے بندھے ضابطے کے مطابق چل رہی ہے۔ دیکھو اس جہاں میں تمہارا امتحان ہورہا ہے۔ تم اپنے اقوال وافعال کے ذمہ دار ہو ، پوری زندگی کا حساب و کتاب تم نے پیش کرنا ہے۔ ایک شدید عذاب بھی تیار ہے اور ایک عظیم نعمتوں بھری جنت بھی موجود ہے جس کا ایک عظیم مملکت کی طرح نظام ہے۔

یہ سورت ان خصوصیات کا نمونہ ہے۔ اس کی ضربات میں اسی طرح شدت ہے جس طرح ان کے مناظر شدید ہیں۔ موسیقی کا انداز بھی شدید ہے۔ الفاظ کا ترنم بھی شدید ہے ، اور معنوی اشارات میں بھی شدت ہے۔ مثلا الطارق ، الثاقب ، الدافق ، الرجع اور الصدع کے الفاظ لفظی اور معنوی اور ترنم میں شدت رکھتے ہیں۔

معنوی سختی کا نمونہ یہ ہے کہ ہر نفس کی نگرانی ہورہی ہے۔

ان کل .................... حافظ (4:86) ” کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کے اوپر کوئی نگہبان نہ ہو “۔ اور قیامت کے دن ایسے شدید حالات ہوں گے کہ کسی کے پاس نہ کوئی اپنی طاقت ہوگی اور کوئی مددگار ہوگا۔

یوم تبلی ............................ ولا ناصر (10:86) ” جس روز پوشیدہ اسرار کی جانچ پڑتال ہوگی اس وقت انسان کے پاس نہ خود اپنا کوئی زور ہوگا اور نہ کوئی اس کی مدد کرنے والا ہوگا “۔ اور یہ قرآن کا آخری اور فیصلہ کن بات ہے۔

انہ لقول ........................ بالھزل (14:86) ” یہ ایک جچی تلی بات ہے یعنی مذاق نہیں ہے “۔ پھر اس سورة میں جو دھمکی دی گئی اس میں شدت اور سختی کا انداز شامل ہے۔

انھم ............................ رویدا (17:86)

” یہ لوگ کچھ چالیں چل رہے ہیں۔ میں بھی ایک چال چل رہا ہوں ، پس چھوڑ دو اے نبی ان کافروں کو ایک ذرا کی ذرا ان کے حال پر “۔

جس طرح ہم نے پارے کے مقدمہ میں کہا تھا اس میں وہ تمام موضوعات پائے جاتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک الٰہ ہے ، یہ کائنات ایک تدبیر اور تقدیر کے مطابق چل رہی ہے۔ یہ زندگی ایک آزمائش ہے ، انسان یہاں اپنے افعال واقوال کا ذمہ دار ہے اور ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ جہاں جزاء وسزا ہوگی وغیرہ وغیرہ۔

جن کائناتی مناظر کو پیش کیا گیا ہے اور جن نظریاتی مقاصد کو پیش کیا گیا ہے ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور مطابقت ہے۔ اور اس کی تفصیلی فصاحت اس وقت ہوگی جب ہم قرآن کریم کی آیات بھی بحث کریں گے۔ اپنے انداز بیان کے اعتبار سے قرآن کی آیات بو بےمثال حسن رکھتی ہیں۔

اردو ترجمہ

اور تم کیا جانو کہ وہ رات کو نمودار ہونے والا کیا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama adraka ma alttariqu

وما ادرک ................ الطارق (2:86) ” تم کیا جانو کہ وہ رات کو نمودار ہونے والا (طارق) کیا ہے ؟ “۔ گویا وہ ایک ایسی چیز ہے کہ انسان ادرک سے ماوراء ہے۔ اس کے بعد قرآن مجید خود اس کی تعریف اور وضاحت کرتا ہے کہ وہ النجم الثاقب (3:86) ” چمکتا ہوا تارا “ ہے اسے ثاقب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی شعاعوں کے ذریعہ تاریکیوں کو پھاڑ کر اپنی روشنی زمین پر پھینکتا ہے۔ اس مفہوم کے اعتبار سے ہر ستارہ نجم ثاقب ہے۔ اس آیت سے ہم معلوم نہیں کرسکتے کہ وہ ستارہ کون سا ہے اور نہ اس تعین کی چنداں ضرورت ہے بلکہ اس سے مطلق ستارہ مراد لینا ہی بہتر ہے۔ اس طرح مفہوم یہ ہوگا ” قسم ہے آسمان کی اور اس کے اندر موجود چمکتے ہوئے ستاروں کی جو تاریکیوں کو پھاڑ کر روشنی پہنچاتے ہیں “ اور وہ اس روشنی کے ذریعہ اس پردہ تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوجاتے ہیں جو دوسری چیزوں کو چھپا لیتا ہے۔ اس مفہوم سے سورت کے اندر بیان ہونے والے حقائق اور مفاہیم کی طرف بھی اشارہ ہوگا جیسا کہ آگے تشریح میں آرہا ہے۔

جواب قسم یہ ہے کہ ہر نفس سے اوپر اللہ نے اپنے حکم سے ایک نگران مقرر کررکھا ہے۔

اردو ترجمہ

چمکتا ہوا تارا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alnnajmu alththaqibu

اردو ترجمہ

کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کے اوپر کوئی نگہبان نہ ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In kullu nafsin lamma AAalayha hafithun

ان کل .................. حافظ (4:86) ” کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کے اوپر کوئی نگہبان نہ ہو “۔ جن الفاظ اور جس ترکیب میں یہ بات کہی گئی ہے وہ سخت تاکیدی اسلوب ہے۔ نفی و اثبات کہ کوئی نفس نہیں ہے مگر اس پر نگراں مقرر ہے۔ جو اس کی نگرانی بھی کرتا ہے اور اس کے اعمال کو بھی لکھتا ہے۔ اور یہ نگران اس کی حفاظت بھی کرتا ہے اور اس کی تقرری اللہ کے حکم سے ہے۔ ان تمام باتوں کو نفس کی طرف منسوب کیا گیا ہے کیونکہ تمام انسانی راز تمام انسانی افکار ، انسانی نفس کے اندر ہوتے ہیں اور یہ نفس ہی سزا وجزا کا ذمہ دار ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کو یونہی نہیں چھوڑ دیا گیا کہ شتر بےمہار کی طرح جہاں چاہیں گھومیں پھریں اور ان کا کوئی محافظ اور چرواہا نہ ہو ، اور ان کو زمین کی وادیوں میں بغیر نگراں کے چھوڑ دیا گیا ہو ، کہ جہاں چاہیں گھومیں اور جہاں چاہیں چریں اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو ، بلکہ انسانوں کے اعمال کو بڑی دقت کے ساتھ ریکارڈ کیا جارہا ہے اور یہ ریکارڈ ہر شخص کا براہ راست تیار ہورہا ہے اور نہایت صفائی کے ساتھ ہورہا ہے۔

یہ آیت اس بات اور خوفناک حقیقت کو سامنے لاتی ہے کہ انسان چاہے بظاہر اکیلا ہو ، اکیلا کسی وقت نہیں ہوتا ، جب دنیا میں کوئی بھی دیکھنے والا نہ ہو تو اللہ اور اللہ کا نمائندہ دیکھ رہا ہے اور ریکارڈ کررہا ہے ، اگر کوئی دنیاوی آنکھ اسے نہیں بھی دیکھ رہی اور کسی ستارے کی چمک بھی اس تک نہیں پہنچ رہی تو اللہ کی نظریں اس پر ہیں اور اللہ کا مقرر کردہ نگران ساتھ لگا ہوا ہے۔ اس طرح جس طرح نجم ثاقب کی روشنی تاریکیوں کو پھاڑ پہنچ جاتی ہے ۔ اسی طرح اللہ کی نگرانی میں بھی کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔ اور اللہ کا مقرر کردہ نگران ساتھ لگا ہوا ہے۔ اس طرح جس طرح نجم ثاقب کی روشنی تاریکیوں کو پھاڑ پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ کی نگرانی میں بھی کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔ اور اللہ کے کمالات یکساں ہیں ، وہ جس طرح آفاق میں کام کرتے ہیں اسی طرح انفس میں بھی کرتے ہیں۔

یہ چٹکی کے ذریعہ نفس انسانی کے احساس کو بیدار کرکے اسے کائنات سے جوڑ دیا گیا ، اب ایک دوسری چٹکی کے ذریعہ اللہ کی گہری تدبیر اور اٹل تقدیر کے بارے میں اس کے احساس کو بیدار کیا جاتا ہے۔ آسمانوں اور ستاروں کی قسم اٹھا کر اس گہری تدبیر کی طرف اشارہ تھا۔ اب بتایا جاتا ہے کہ انسان اور زمین اور ستاروں کی بات تو دور کی بات ہے یہ تمہارا نفس بھی کرشمہ قدرت ہے۔ خود انسان کی تخلیق ہی بتاتی ہے کہ یہ انسان شتر بےمہار نہیں ہے اور نہ خود رو ہے۔ اور نہ بےمقصد سلسلہ وجود وعدم ہے۔

اردو ترجمہ

پھر ذرا انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falyanthuri alinsanu mimma khuliqa

انسان کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا اور پھر دیکھتے دیکھتے کیا بن گیا۔ ایک ایسے پانی سے پیدا کیا جو اچھل کر جسم انسانی سے نکلتا ہے اور یہ آتا کہاں سے ہے ، انسان کی پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔ یہ پانی مرد کی ریڑھ کی ہڈیوں سے جمع ہوتا ہے۔ اور عورت کی سینے کی بالائی ہڈیوں سے نکلتا ہے اور اس پانی کا بننا اور اس کا یوں خارج ہونا اللہ کے رازوں میں سے ایک راز تھا جسے انسان ابھی تک نہیں جانتا تھا ، گزشتہ نصف صدی میں سائنس نے اپنے اسلوب تحقیق کے مطابق اس کے بعض پہلوﺅں سے پردہ اٹھایا اور معلوم ہوا کہ انسان کی پیٹھ کی ہیوں اور عورت کے سینے کی بلائی ہڈیوں کے اندر عورت کا مادہ منوبہ بنتا ہے اور یہ دونوں مواد جب ایک نہایت ہی محفوظ جگہ میں اکٹھے ہوتے ہیں تو پھر ان سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔

حقیقت ہے کہ انسان کی ابتدائی پیدائش اور آخری شکل تمام کے درمیان ایک طویل اور خوفناک سفر ہے۔ وہ پانی جو ریڑھ کی ہڈیوں اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے اس کے اور پھر ایک مکمل شکل و صورت کے انسان کے درمیان ایک طویل سفر ہے ، جو عقل بھی رکھتا ہے۔ وہ عضوی ، اعصابی ، عقلی اور نفسیاتی پیچیدہ ترکیب بھی رکھتا ہے۔ یہ سفر جو اچھلتا پانی طے کرکے ایک عاقل وبالغ انسان کی شکل اختیار کرلیتا ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان سے باہر ایک قوت ہے جو اس مائع پانی کو ایک سمت میں چلاتی ہے ، جبکہ ابتدائی حالت میں اس پانی کے اندر نہ قدرت ہے نہ کوئی ہیولا ہے ، یہ پانی یہ طویل سفر نہایت ہی عجیب و غریب انداز میں طے کرتا ہے اور اس انجام تک پہنچتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس پر ایک نگران مقرر ہے کہ وہ اس باریک نکتے کی نگرانی کرتا ہے جس کے اندر نہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس پر ایک نگران مقرر ہے کہ وہ اس باریک نکتے کی نگرانی کرتا ہے جس کے اندر نہ عقل ہے اور نہ اس کے اندر کوئی ہیولا نظر آتا ہے۔ نہ قوت ہے اور نہ ارادہ ہے اور اس نکتے کے اس طویل سفر میں مسلسل نگران رہتا ہے۔ اس نکتے کے اندر اس قدر عجائب ہیں کہ انسان اپنی شعوری زندگی کے آغاز سے انتہا تک اس قدر عجائب وغرائب نہیں دیکھ سکتا۔

یہ ایک نکتہ نہایت ہی باریک نکتہ ہوتا ہے اور یہ نہایت طاقتور خوردبین سے بھی بمشکل نظر آتا ہے۔ یہ پانی جب ایک بار مرد کی پشت سے اچھل کر نکلتا ہے تو اس کے اندر ایسے کروڑوں نکتے ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک نکتہ اپنے مقام تک پہنچتا ہے۔ یہ حقیقت کہ اس نکتے کی کوئی شکل نہیں ہوتی اس کے اندر عقل نہیں ہوتی ، اس کے اندر کوئی قوت نہیں ہوتی ، اور کوئی ارادہ نہیں ہوتا ، اس وقت معلوم ہوجاتی ہے جب یہ نکتہ رحم مادر میں جاکر ٹھہرتا ہے اور پھر غذا کا متلاشی ہوتا ہے۔ اب دست قدرت اس کی رہنمائی یوں کرتا ہے کہ یہ نکتہ اپنے ارد گرد پائے جانے والے رحم مادر کی دیواروں کو کھانا شروع کردیتا ہے اور یہ رحم مادر کے اندر اپنے لئے خون کا ایک حوض بنا لیتا ہے۔ یہ خون اس کے لئے غذا کا کام کرتا ہے۔ جونہی اسے اطمینان ہوتا ہے کہ اس کی خوراک کا انتظام ہوگیا ہے۔ یہ ایک نئی کاروائی شروع کرتا ہے۔ اب یہ تقسیم در تقسیم ہونا شروع کرتا ہے۔ اور مسلسل تقسیم ہوتا رہتا ہے۔ یہ سادہ ، بےعقل اور بےشکل اور ضعیف وناتواں اور قوت و ارادے سے محروم خلیے کو معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کس طرف بڑھنا ہے۔ یہ دست قدرت ہی ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کی رہنمائی کرتا ہے اور اسے قوت وا ارادہ سے نوازتا ہے کہ اسے کدھر جانا ہے اور کیا شکل اختیار کرنی ہے۔ دست قدرت اسے حکم دیتا ہے کہ وہ اس مسلسل تقسیم کے عمل سے پیدا ہونے والے خلیوں کو اس کام میں لگادے جس کے لئے انہیں پیدا کیا جارہا ہے۔ اس عمارت کے جس حصے کے لئے خلیے پیدا ہوتے ہیں وہ اس عضو کی طرف بڑھتے ہیں جبکہ جسم انسانی کی عمارت مجموعی اعتبار سے بےحد پیچیدہ عمارت ہے۔ تقسیم کے عمل سے پیدا ہونے والے یہ خلیے مسلسل چلتے ہیں اور ان اعضا کی شکل میں جمع ہوتے ہیں اور آخر کاء یہ عظیم ہیکل تیار ہوتا ہے۔ یہ خلیے انسان کے جسم کے اندر عضلاتی نظام تیار کرتے ہیں۔ پھر ان کا ایک گروپ اعضابی نظام تیار کرتا ہے۔ ان کا ایک گروپ شرائین کا جال بچھاتا ہے۔ یہ اور اس عمارت کے دوسرے پیچیدہ نظام تیار ہوتے ہیں لیکن یہ تعمیر وتشکیل کا عمل اس قدر سادہ نہیں ہے جس طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس نظام کے اندر نہایت ہی گہری ٹیکنالوجی کام کرتی ہے۔ ہڈیوں میں سے ہر ہڈی ، عضلات میں سے ہر ایک عضلا اور اعصاب میں سے ہر ایک پٹھا ، کسی دوسری ہڈی ، پٹھے کے پوری طرح مشابہ اور یکساں نہیں ہے۔ کوئی پٹھا دوسرے اعصاب کے ساتھ یکساں نہیں ہے کیونکہ یہ عمارت بےحد پیچیدہ ہے۔ اس کی ساخت بھی نہایت عجیب ہے۔ ہر ایک کا فعل اور فریضہ الگ ہے۔ اس لئے ہر خلیہ معلم قدرت سے یہ بات سیکھتا ہے اور اخذ کرتا ہے کہ وہ کس مخصوص عضو کے لئے مخصوص ہے۔ اور اس نے اس عضو کے اندر پھر کیا ڈیوٹی سرانجام دینی ہے۔ اس لئے جسم کے اندر جو چھوٹے سے چھوٹا خلیہ بھی حرکت کرتا ہے ، معلم قدرت کی رہنمائی میں وہ اپنی راہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس نے کہاں جانا ہے اور اس کی ڈیوٹی کیا ہے اور اس نے کیا کرنا ہے۔ کوئی ایک خلیہ یا ان کا گروپ بھی کبھی اپنی راہ غلط نہیں کرتا۔ مثلاً جو خلیے آنکھ بناتے ہیں ، ان کو معلوم ہوتا ہے کہ آنکھ سر میں ہوتی ہے۔ یہ جائز نہیں ہے کہ وہ پیٹ یا پاﺅں یا بازوﺅں میں آنکھیں بنائیں۔ حالانکہ اگر اللہ چاہے تو وہ پیٹ ، ہاتھ اور پاﺅں میں کسی جگہ آنکھ بنا دے۔ اگر آنکھ بناننے والا پہلا خلیہ ان مقامات کی طرف چلا جائے اور وہاں آنکھ بنادے تو وہ بناسکتا ہے لیکن جب آنکھ کا خلیہ سفر کرتا ہے تو وہ اسی مقام کی طرف سفر کرتا ہے جو اس کے لئے اس انسانی پیچیدہ ہیولا کے اندر مخصوص کردیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس خلیے کو یا ان خلیات کو یہ احکام کون دیتا ہے۔ کون ہے جس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آنکھ کو اس جگہ ہونا چاہئے اور اس جگہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہ اللہ ہی حافظ و برتر ہے جو ان خلیات کی نگرانی کرتا ہے ، ان کو ہدایت دیتا ہے ، ان کو راہ بتاتا ہے اور ایسی تاریکیوں میں رہا بتاتا ہے جہاں الہل کے سوا کوئی اور راہ بنانے والا ہوتا ہی نہیں ہے۔

یہ تمام خلیے ، اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی طور پر اس فریم ورک کے اندر کام کرتے ہیں جو ان کے لئے ان خلیات کا مجموعی نظم طے کرتا ہے۔ اس مجموعی نظم میں اس عضو کی شکل بھی ہوتی ہے اور اس کے اندر وراثتی خصوصیات بھی ہوتی ہیں ، مثلاً اگر انسان کی آنکھ کے خلیات ہیں تو وہ ایک تو انسانی آنکھ بنائیں گے اور دوسرے یہ کہ اس آنکھ کے اندر اس انسان کے آباء و اجداد کی مخصوص شکل و صورت بھی محفوظ ہوگی۔ اس نقشے سے معمولی انحراف بھی اس عضو کے نظام کو خراب کردیتا ہے۔ تو سوال پھر یہی ہے کہ وہ ہستی کون ہے جس نے خلیات کو یہ قدرت دی اور ان کو ایسا منظم عمل کرنے کا طریقہ سکھایا۔ حالانکہ یہ ایک سادہ خلیہ ہوتا ہے اور اس میں عقل وادراک نہیں ہوتا۔ نہ قوت اور ارادہ ہوتا ہے۔ اس سوال کا سیدھا سادھا جواب یہی ہے کہ صرف اللہ کی ذات ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو ان خلیات کو وہ کچھ سکھاتا ہے کہ انسان نہ اس قسم کا نقشہ بناسکتا ہے۔ نہ ایک عضوتیار کرسکتا ہے۔ نہ ہاتھ ، نہ آنکھ ، نہ ان کا کوئی حصہ۔ اس کے برعکس ایک سادہ خلیہ یا خلیات کا مجموعہ یہ کام کر دکھاتا ہے ، جہ نہایت ہی عظیم اور پیچیدہ کام ہے۔

ایک خلیے سے انسان تک اس سفر کے اس سرسری جائزے کے اندر ایک جہاں ہے عجائبات اور انوکھی چیزوں کا ، یعنی اچھلتے پانی سے انسان بننے تک کے مراحل میں۔ اعضاء کا نظام ، ان عجائب کی تفصیلات بیان کرنے سے بھی ہم عاجز ہیں۔ اور نہ ظلال القرآن کے محدود صفحات میں یہ ممکن ہے لیکن یہ سب عجائبات اس بات پر شاہد ناطق ہیں کہ ایک خفیہ دست قدرت ہے جو ان خلیوں سے یہ کام کرواتا ہے۔ ان حقائق سے ایک تو وہ حقیقت ثابت ہوتی ہے جس پر آسمان اور الطارق کی قسم اٹھائی گئی ہے اور یہ قسم اور جواب قسم دوسری عظیم حقیقت کے لئے ایک تمہید ہے کہ تمام انسانوں نے ، اسی طرح ایک بار پھر خود کار انداز سے اپنی قبروں سے اٹھنا ہے لیکن اس دوسری حقیقت کا مشرکین مکہ انکار کرتے تھے جو قرآن کے اولین مخاطب تھے ، جن کے سامنے یہ سورت سب سے پہلے اتری تھی۔

اردو ترجمہ

ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khuliqa min main dafiqin

اردو ترجمہ

جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yakhruju min bayni alssulbi waalttaraibi

اردو ترجمہ

یقیناً وہ (خالق) اُسے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innahu AAala rajAAihi laqadirun

یہ اللہ ہی ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی نگہداشت کی۔ لہٰذا اس پر قادر ہے کہ موت کے بعد اسے زندگی بخشے اور مرکر مٹی میں مل جانے کے بعد اسے حیات جدید دے۔ اللہ کی پہلی تخلیق جس کا اوپر ذکر ہوا ، یہ شہادت دے رہی ہے کہ وہ دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ پہلی زندگی اللہ کی تدبیر اور اللہ کی قدرت پر شاہد عادل ہے کیونکہ پہلی تخلیق میں نہایت حکیمانہ ٹیکنالوجی پوشیدہ ہے۔ اگر انسان کو دوبارہ زندہ کرنے اور حساب و کتاب لینے کو تسلیم نہ کیا جائے تو پہلی تخلیق کا پورا نظام عبث ہوجائے گا۔

اردو ترجمہ

جس روز پوشیدہ اسرار کی جانچ پڑتال ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma tubla alssarairu

یوم تبلی السرآئر (9:86) ” جس روز پوشیدہ اسرار کی جانچ پڑتال ہوگی “۔ جب چھپے ہوئے راز کھلیں گے اور وہ پردے جن کی تہوں میں راز پوشیدہ ہوں گے ہٹ جائیں گے ، ان رازوں کی جانچ ہوگی وہ ظاہر اور کھلے ہوں گے اور راز نہ رہیں گے ، جس طرح چمکتا ہوا تارہ اندھیروں سے نمودار ہوتا ہے اور جس طرح نفس انسانی پردوں کے اندر ملفوف ہوتا ہے اور اس کا حافظ اس کی ہر بات جانتا ہے تو جس دن انسان کے پاس نہ قوت ہوگی اور نہ اس کا کوئی مددگار ہوگا ، اس دن سب کچھ سامنے آجائے گا۔

اردو ترجمہ

اُس وقت انسان کے پاس نہ خود اپنا کوئی زور ہوگا اور نہ کوئی اس کی مدد کرنے والا ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fama lahu min quwwatin wala nasirin

فمالہ .................... ناصر (10:86) ” اس وقت انسان کے پاس نہ خود اپنا کوئی زور ہوگا اور نہ کوئی اس کی مدد کرنے والا ہوگا “۔ یعنی نہ ذاتی قوت ہوگی اور نہ خارج سے کوئی امداد ملے گی۔ اور کوئی بات پوشیدہ بھی نہ رہے گی اور انسان کی تمام کمزوریاں ظاہر ہوجائیں گی تو یہ بہت ہی سخت گھڑی ہوگی۔ ایسے حالات کا احساس انسان پر گہرا اثر ڈالتا ہے ، کہ یہ کائنات ، پھر نفس انسانی ، پھر تخلیق انسانی کے مختلف مدارج اور آخر کار قیامت کے دن انسان کی بےبسی کہ جب تمام راز کھل جائیں گے ، اور تمام قوتیں اور سہارے ختم ہوں گے۔

شاید اب بھی کسی قدر شک باقی رہ گیا ہے۔ نفس انسانی کے اندر کچھ خلجان موجود ہے اور بعض اوقات نہایت ہی موثر کلام اور اٹل دلائل کے بعد بھی انسان کے شبہات رہتے ہیں۔ اس لئے پھر تاکید قسموں کے بعد بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک فیصلہ کن بات ہے اور یہاں بھی اس قرآن اور کائنات کے درمیان ربط پیدا کرکے بات کی جاتی ہے جس طرح آغاز سورت میں کیا گیا۔

اردو ترجمہ

قسم ہے بارش برسانے والے آسمان کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalssamai thati alrrajAAi

الرجع کے معنی ہیں لوٹنے کے ، آسمان بار بار بارش برساتا ہے اور الصدع کے معنی پھٹنے کے ہیں اور بارش کے بعد جب زمین سے نباتات اگتے ہیں تو وہ پھٹتی ہے اور اس سے پودے پھوٹتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں زندگی کی ایک قسم کا اظہار کرتی ہیں۔ یعنی نباتات اور ان کی پہلی زندگی کہ آسمانوں سے پانی برستا ہے اور پھر نباتات اگتے ہیں۔ یہ تمثیل اس سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے کہ نطفے کا پانی اچھل کر برسے ، اور آسمان کے بجائے ریڑھ اور سینے کی ہڈیوں سے نکلے اور رحم کے اندھیروں سے بچہ نمودار ہو۔ گویا ایک ہی زندگی ہے اور ایک ہی منظر ہے ، ایک ہی قسم کی حرکت ، ایک ہی نظام اور ایک ہی قسم کی تخلیق ہے اور دونوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں کا صانع ایک ہے۔ اور کوئی معقول انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا ہے کہ وہ ایسی کوئی تخلیق کرسکتا ہے اور ان تخلیقات کے ہم شکل کوئی مخلوق بناسکتا ہے۔

یہ منظر چمکتے ہوئے ستارے کے منظر کے بھی ہم رنگ ہے۔ ایسے ستارے کی روشنی بھی ظلمتوں کے پردے پھاڑ کر سامنے آتی ہے اور جس طرح یہ روشنی نمودار ہوتی ہے اس طرح چھپے ہوئے راز بھی نمودار ہوں گے گویا یہ مناظر بھی ہم رنگ ہیں۔ اور ان سے بھی ایک ہی صانع کی قدرت کا پتہ چلتا ہے۔

یہ دوکائناتی مخلوقات ہیں جن کی قسم اٹھائی جارہی ہے یا کائناتی حادثات ہیں جن کی قسم اٹھائی جارہی ہے آسمان جو بار بار بارش برساتا ہے اور زمین جو نباتات کے اگنے کی وجہ سے با ربار پھٹتی ہے۔ ان دونوں واقعات یا حادثات کا منظر ، اس منظر کے اندر پوشیدہ اشارات اور خود ان الفاظ صدع اور رجع کی قطعیت اور سختی اور پھر ان کے ساتھ اللہ کی قسم اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ دوبارہ زندگی اور باز پرس قطعی بات ہے۔ مذاق نہیں ہے۔ یا یہ کہ یہ پورا قرآن مجید ایک قطعی بات کرتا ہے اور اس کے اندر کوئی بات محض بات کے لئے نہیں کی گئی۔ اس میں جو تصورات بیان کیے گئے ہیں وہ فیصلہ کن خیالات اور نظریات ہیں اور وہ حق اور سچائی ہیں جن کے اندر کوئی شبہ اور شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ آخری بات ہے ، اللہ کا آخری کلام ہے۔ اس کے بعد کوئی لکام نہیں ہے۔ اور اس کے حقائق میں کوئی کلام نہیں ہے۔ اور زمین وآسماناس پر شاہدعادل ہیں خصوصاً بارش برسانے والا آسمان اور فصلیں اگانے والی زمین۔

ان حقائق کے بیان کے سایہ میں ، کہ تمام انسانوں کو اٹھایا جائے گا اور ان سے باز پرس ہوگی ، روئے سخن حضور اکرم ﷺ اور اس مٹھی بھر جماعت کی طرف پھرجاتا ہے جو مکہ مکرمہ میں نہایت ہی کٹھن حالات سے گزر رہے تھے۔ اور ان کے خلاف اور ان کی دعوت اور تحریک کے خلاف رات دن کی سازشیں ہورہی تھیں۔ اور اس کام کے لئے یہ ہر وقت گھات میں بیٹھے رہتے تھے ، اور اسلامی تحریک کے مقابلے میں مختلف تدابیر اختیار کرتے تھے اور دعوت اسلامی کے پھیلنے کے راستے بند کرتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ نئے ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ کو تلقین کی جاتی ہے کہ آپ ثابت قدر رہیں اور ان لوگوں کی سازشوں کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ ایک وقت تک یہ مخالفت ہوگی اور آخرکار کامیابی آپ کے قدم چومے گی ، اس دعوت کی قیادت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ صبر اور اطمینان سے کام جاری رکھیں۔ اللہ خود تدابیر اختیار کررہا ہے۔

اردو ترجمہ

اور (نباتات اگتے وقت) پھٹ جانے والی زمین کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalardi thati alssadAAi

اردو ترجمہ

یہ ایک جچی تلی بات ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innahu laqawlun faslun

اردو ترجمہ

ہنسی مذاق نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama huwa bialhazli

اردو ترجمہ

یہ لوگ چالیں چل رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innahum yakeedoona kaydan

ان لوگوں کی حقیقت تو ہم نے بھی بتادی ہے ، یہ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیے گئے ہیں جو والد کی پیٹھ اور والدہ کے سینے سے نکلتا ہے۔ ابتدائی طور پر اس پانی میں نہ طاقت تھی ، نہ قوت اور نہ ارادہ۔ نہ علم اور نہ ہدایت۔ ان لوگوں کو تودست قدرت اس طویل طریقے سے وجود میں لائی ہے اور ایک دن دوبارہ ان کو اسی طرح پیدا کیا جائے گا اور ان کے تمام راز کھل جائیں گے اور پھر اسی طرح بےبس اور بےکس ہوں گے۔ یہ لوگ اللہ کی تحریک کے خلاف سازشیں کررہے ہیں ؟ میں ان کا خالق ، ہدایت دینے والا ، حفاظت کرنے والا ، پیدا کرنے والا ، مارنے والا اور دوبارہ لوٹانے والا ہوں ، ان کو میں نے اس امتحان میں ڈالا ہوا ہے۔ میں قادر اور قاہر ہوں اور آسمانوں پر چمکتے ستاروں کا پیدا کرنے والا ہوں۔ جس پانی سے وہ پیدا ہوئے ہیں اور اسے ایک بولنے اور سوچنے والا انسان بنایا ، اللہ ہی نے یہ آسمان بنایا ہے جو بارش برساتا ہے اور اس میں نباتات پیدا کرتا ہے۔ یہ کام کرنے والا میں ہوں اور میں بھی ان کی تدابیر کے مقابلے میں تدابیر کرتا ہوں۔

اب ایک طرف ان لوگوں کی سازشیں ہیں اور دوسری طرف اللہ کی تدابیر ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے ، اس جنگ کا درحقیقت ایک ہی فریق ہے ، دوسرا فریق جو بظاہر نظر آتا ہے وہ محض مذاق کے لئے ہے۔

اردو ترجمہ

اور میں بھی ایک چال چل رہا ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waakeedu kaydan

اردو ترجمہ

پس چھوڑ دو اے نبیؐ، اِن کافروں کو اک ذرا کی ذرا اِن کے حال پر چھوڑ دو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Famahhili alkafireena amhilhum ruwaydan

فمھل ................ رویدا (17:86) ” پس چھوڑ دو اے نبی ان کافروں کو ان کو تھوڑی سی مہلت دے دو “۔ جلدی نہ کرو ، اس معرکے کا انجام دور نہیں ہے۔ آپ نے اس معرکے کی حقیقت کو دیکھ لیا ہے ، ان لوگوں کو ذرا سی مہلت بھی ایک بڑی حکمت کے تحت دی جارہی ہے ، اور یہ مہلت قلیل ہی ہے۔ اگرچہ تمہاری پوری زندگی اس میں لگ جائے اس لئے انسانوں کو جو عمر اس دنیا کے لئے دی گئی ہے ، وہ تو قلیل ہی ہے۔

انداز تعبیر محبت بھرا ہے ، اللہ تعالیٰ رسول اللہ سے فرماتا ہے کہ آپ ان کو مہلت دے دیں۔

فمھل…………رویدا (17:86) ” آپ ان کافروں کو مہلت دے دیں ایک تھوڑے وقت کے لئے “۔ گویا نبی ﷺ کے ہاتھ میں ہیں۔ گویا مہلت دینا آپ کے اختیارات میں ہے حالانکہ درحقیقت رسول اللہ ﷺ کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے ، یہ ایک انداز محبت ہے۔ اور اس انداز سے حضور اکرم رحمت و شفقت کے جھونکے محسوس کرتے ہیں۔ اور آپ کی یہ خواہش کہ فوری کامیابی ہو ، اس فضا میں ڈوب جاتی ہے ، یوں اللہ آپ کے ارادے کو اپنے ارادے میں ملا دیتا ہے اور بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید آپ اختیارات میں شریک ہی ، یوں آپ کے سامنے سے وہ پردے ہٹ جاتے ہیں اور آپ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں قطعی فیصلے ہوتے ہیں۔ گویا یہ کہا جارہا ہے کہ یہ اختیارات آپ کے ہاتھ میں ہیں لیکن آپ قدرے مہلت دے دیں۔ یہ انداز محبت ہے ۔ نہایت ہی لطیف انداز انس و محبت۔ ایسے انداز گفتگو سے وہ تمام کلفتیں دور ہوجاتی ہیں جو اس راہ میں آپ کو پیش آرہی تھیں۔ تمام تھکاوٹیں ، تمام مشکلات دور ہوجاتی ہیں ، مشکلات اور مشقتوں کے پہاڑ پگھل جاتے ہیں اور فضا پر انس و محبت کے سائے چھاجاتے ہیں۔

591