سورۃ الاحزاب (33): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Ahzaab کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأحزاب کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الاحزاب کے بارے میں معلومات

Surah Al-Ahzaab
سُورَةُ الأَحۡزَابِ
صفحہ 418 (آیات 1 سے 6 تک)

يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ ٱتَّقِ ٱللَّهَ وَلَا تُطِعِ ٱلْكَٰفِرِينَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا وَٱتَّبِعْ مَا يُوحَىٰٓ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَكِيلًا مَّا جَعَلَ ٱللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِى جَوْفِهِۦ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَٰجَكُمُ ٱلَّٰٓـِٔى تُظَٰهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَٰتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَآءَكُمْ أَبْنَآءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَٰهِكُمْ ۖ وَٱللَّهُ يَقُولُ ٱلْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى ٱلسَّبِيلَ ٱدْعُوهُمْ لِءَابَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ ٱللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوٓا۟ ءَابَآءَهُمْ فَإِخْوَٰنُكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَمَوَٰلِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَآ أَخْطَأْتُم بِهِۦ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ٱلنَّبِىُّ أَوْلَىٰ بِٱلْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَٰجُهُۥٓ أُمَّهَٰتُهُمْ ۗ وَأُو۟لُوا۟ ٱلْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِى كِتَٰبِ ٱللَّهِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُهَٰجِرِينَ إِلَّآ أَن تَفْعَلُوٓا۟ إِلَىٰٓ أَوْلِيَآئِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِى ٱلْكِتَٰبِ مَسْطُورًا
418

سورۃ الاحزاب کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الاحزاب کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اے نبیؐ! اللہ سے ڈرو اور کفار و منافقین کی اطاعت نہ کرو، حقیقت میں علیم اور حکیم تو اللہ ہی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnabiyyu ittaqi Allaha wala tutiAAi alkafireena waalmunafiqeena inna Allaha kana AAaleeman hakeeman

یایھا النبی اتق اللہ۔۔۔۔۔ وکفی باللہ وکیلا (1 – 3)

یہ اس سورة کا آغار ہے جس میں اس نئے اسلامی معاشرے کی اخلاقی اور اجتماعی زندگی کی تنظیم نو کی گئی ہے۔ یہ آغاز ہی بتاتا ہے کہ اسلامی نظام زندگی کا مزاج کیا ہے اور وہ قواعد اور اصول کیا ہیں جن پر اسلامی نظام عملا قائم ہے۔ وہ تصورات کیا ہیں جن کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے ضمیر و اخلاق پر اثر انداز ہوتا ہے۔

اسلام محض ہدایات اور وعظ نہیں ہے۔ نہ اسلام محض چند اخلاقی تعلیمات کا نام ہے ، نہ اسلام صرف قوانین کا مجوعہ ہے۔ نہ وہ محض رسم و رواج کا نام ہے۔ اسلام دراصل مذکورہ بالا تمام چیزوں کا مجموعہ ہے۔ لیکن یہ سب چیزیں بھی اسلام نہیں ہیں ۔ اسلام دراصل سرتسلیم خم کردینے کا نام ہے۔ اللہ کی مشیت اور اللہ کی خواہش کے سامنے سرتسلیم خم کردینا۔ اللہ کی تقدیر کے سامنے جھکنا اور سب سے اول بات یہ کہ اللہ کے احکام اوامرو نواہی کے ماننے کے لیے تیار ہوجانا۔ اللہ انسانوں کے لیے جو نظام تجویز کرتا ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرے ، بغیر ادھر ادھر توجہ کرنے کے ، اور اس کے سوا کسی اور طرف رخ کرنے کے۔ بغیر اس کے کہ اللہ کے سوا کسی اور قوت پر بھروسہ کیا جائے ۔ اسلام کا بنیادی شعور یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ وہ ایک ایسے قانون قدرت کا تابع ہے جو خود انسان اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی پوری کائنات کو کنڑول کرتا ہے۔ یہ نظام افلاک و کواکب کو بھی کنڑول کرتا ہے اور تمام وجود کو بھی کنٹرول کرتا ہے خواہ خفیہ ہو یا ظاہر ہو۔ غائب ہو یا حاضر ہو۔ انسان اسے سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہو۔ اس یقین کے ساتھ کہ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے صرف اللہ کے احکام کا اتباع کرنا ہے اور ان کاموں سے روکنا ہے جن سے رکنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ ان اسباب اور ذرائع کو استعمال کرنا ہے جو اللہ نے ان کیلئے فراہم کیے ہیں اور پھر ان نتائج کا انتظار کرنا ہے جو اللہ نے نکالنے ہیں۔ یہ وہ قاعدہ ہے جس کے اوپر تمام شریعتیں اور تمام قوانین قائم ہوتے ہیں ، رسم و رواج قائم ہوتے ہیں ، آداب و اخلاق قائم ہوتے ہیں یعنی وہ عقیدہ جو ضمیر و شعور میں ہوتا ہے وہ انسانی زندگی میں عملاً ظہور پذیر ہو اور انسان کی زندگی میں اس کے عملی آثار موجود ہوں کہ انسان کا نفس اللہ کے سامنے جھک گیا ہے اور وہ اسلامی نظام حیات کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے شریعت پھوٹتی ہے۔ اس شریعت پر بھی ایک پورا نظام زندگی استوار ہوتا ہے اور یہ تینوں امور باہم مربوط اور ہم جسم ہوتے ہیں۔ یہ ہے اسلام۔

چناچہ اس سورة کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے کے لیے جدید قانون سازی کی جائے یعنی اللہ سے ڈرنا۔ خطاب نبی ﷺ کی طرف ہے کیونکہ حضور اکرم ﷺ ہی اس جدید معاشرے کے منظم اعلیٰ تھے۔

یایھا النبی اتق اللہ (33: 1) ” اے نبی ، اللہ سے ڈرو “۔ اللہ سے ڈرنا اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ اللہ ہمارے اوپر نگران ہے اور وہ بہت جلیل القدر ہے۔ یہ اسلام کا بنیادی شعور اور بنیادی قاعدہ ہے۔ تقویٰ ہی انسان کے اندر ایک پاسبان ہوتا ہے جو انسان کو اللہ کے احکام کی پیروی پر مائل کرتا ہے۔ چناچہ تقویٰ ہی کی وجہ سے اسلامی نظام زندگی عملاً قائم ہوتا ہے۔ دوسرا حکم آیا ہے کہ کافروں اور منافقوں کی خواہشات کی اطاعت نہ کرو۔ ان کی تجاویز اور ان کی ہدایات کو نظر انداز کرو ، نہ ان سے رائے لو اور نہ ان کے اصرار کو تسلیم کرو۔

ولا تطع الکفرین والمنفقین (33: 1) ” کفار اور منافقین کی اطاعت نہ کرو “۔ اللہ کے احکام کی اطاعت کرنے کا حکم یہاں بعد میں آتا ہے۔ اس سے بھی پہلے کہا گیا کہ کفار اور منافقین کی اطاعت نہ کرو ، اس لیے کہ اس دور میں کفار اور منافقین کی طرف مسلمانوں اور حضور اکرم ﷺ پر بہت ہی دباؤ تھا۔ اس لیے یہاں حکیم دیا گیا کہ آئندہ اسلامی معاشرے کی عملی تنظیم میں بھی ان کی کوئی بات نہ سنو اور ان کے دباؤ کے آگے نہ جھکو۔ حضور ﷺ کو تو اس وقت کے حالات کے مطابق حکم دیا گیا لیکن تحریک اسلامی کو ہر زمان و مکان میں یہی کرنا چاہئے کہ جہاں اپنی حکومت قائم ہو تو وہاں غیروں کی آراء و تجاویز کو قبول نہ کرو تاکہ اسلامی نظام حیات خالص اپنی پالیسی پر آگے بڑھے اور وہ کسی غیر کی پالیسی کے دباؤ میں نہ ہو۔

کسی مسلمان کو یہ دھوکہ نہ کھانا چاہئے کہ ان کفار اور منافقین کے پاس مہارت ہے اور وہ علم و تجربہ رکھتے ہیں جس طرح آج کل اپنے لیے اپنی کمزوری کے دور میں یہ وجہ جواز تلاش کرتے ہیں اس لیے کہ اللہ ہی علیم و حکیم ہے۔ اس نے مسلمانوں کو جو نظام زندگی دیا ہے وہ اس نے علم و حکمت کی اساس پر دیا ہے۔ اس میں کوئی فتور اور قصور نہیں ہے اور لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی علم و حکمت نہیں ہے۔ اور اس کے بعد متصلا یہ حکم دیا جاتا ہے۔

واتبع ما یوحی الیک من ربک (33: 2) ” اور پیروی کرو اس بات کی جس کا اشارہ تمہارے رب کی طرف سے تمہیں کیا جارہا ہے “۔ کیونکہ مسلمانوں کے لیے ہدایات اللہ سے آیا کرتی ہیں۔ کفار اور منافقین کی طرف سے نہیں۔ مسلمان خدا کا اتباع کرتے ہیں کسی اور کا نہیں۔ اس آیت کی طرز تعبیر ہی میں بعض گہرے اشارات پائے جاتے ہیں یعنی اتباع کرو اس بات کی جو تمہارے طرف وحی (اشارہ) کی جا رہی ہے ، خصوصیت کے ساتھ۔ پھر یہ اشارہ رب کی طرف سے ہے۔ گویا یہاں یہ خاص اشارات کئے جا رہے ہیں ، ان کو سمجھو۔ اور یہ اشارات اللہ مطاع کی طرف سے ہیں۔

ان اللہ کان بما تعملون خبیرا (33: 2) ” اللہ ہر اس بات سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ اللہ جو ہدایات دیتا ہے وہ اعلیٰ درجے کے علم اور مہارت پر مبنی ہیں۔ وہ تمہارے اعمال کی حقیقت سے باخبر ہے۔ تمہارے رجحانات اور تمہاری خواہشات سے باخبر ہے۔ اور آخری ہدایت یہ ہے کہ

و توکل علی اللہ وکفی باللہ وکیلا (33: 3) ” اللہ پر توکل کرو ، اللہ ہی وکیل ہونے کے لیے کافی ہے “ یہ بات اہم نہیں ہے کہ کفار و منافقین تمہارے ساتھ ہیں یا تمہارے خلاف ہیں۔ نہ ان کی مکاریوں اور سازشوں کو کوئی حیثیت ہے۔ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو ، اللہ تمہارے معاملات کے اندر اپنے علم ، اپنی خبرداری اور مہارت سے تصرف کرے گا۔ معاملات کو اللہ پر چھوڑ دینا ہی وہ چیز ہے جس پر آخر کار انسان کا دل مطمئن ہوکر شرح صدر حاصل کرلیتا ہے اور وہ اپنے حدود وقیود سے باخبر ہوجاتا ہے۔ اپنے حدود سے باہر کے معاملات کو اللہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ اپنی حدود پر رک جاتا ہے اور آگے کی بات ، بات والے پر چھوڑ دیتا ہے۔ نہایت اطمینان ، پورے بھروسے اور پورے یقین کے ساتھ اپنے حصے کا کام کرتا ہے۔

یہ تین عناصر ، خدا کا خوف ، وحی الٰہی کا پورا اتباع اور اللہ وحدہ پر بھروسہ یہ کسی بھی داعی کے اصل زاد راہ ہیں۔ بشرطیکہ وہ کفار اور منافقین سے کٹ جائے۔ یہ عناصر دعوت اسلامی کو اپنے منہاج پر قائم رکھتے ہیں یعنی اللہ سے (خوف) اللہ کی طرف سے آنے والے حکم کا اتباع اور اللہ پر بھروسہ۔ یہ ہدایات ایک زبردست ، گہرے تبصرے پر رقم ہوتی ہیں اور یہ تبصرہ ایک حسی مشاہدے پر مبنی ہے۔

اردو ترجمہ

پیروی کرو اُس بات کی جس کا اشارہ تمہارے رب کی طرف سے تمہیں کیا جا رہا ہے، اللہ ہر اُس بات سے باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaittabiAA ma yooha ilayka min rabbika inna Allaha kana bima taAAmaloona khabeeran

اردو ترجمہ

اللہ پر توکل کرو، اللہ ہی وکیل ہونے کے لیے کافی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Watawakkal AAala Allahi wakafa biAllahi wakeelan

اردو ترجمہ

اللہ نے کسی شخص کے دھڑ میں دو دِل نہیں رکھے ہیں، نہ اس نے تم لوگوں کی اُن بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنا دیا ہے، اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہے، اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma jaAAala Allahu lirajulin min qalbayni fee jawfihi wama jaAAala azwajakumu allaee tuthahiroona minhunna ommahatikum wama jaAAala adAAiyaakum abnaakum thalikum qawlukum biafwahikum waAllahu yaqoolu alhaqqa wahuwa yahdee alssabeela

ما جعل اللہ لرجل من قلبین فی جو فہ ” اللہ نے کسی شخص کے دھڑ میں دو دل نہیں رکھے “۔ ہر انسان کے اندر ایک ہی دل اور ایک ہی دماغ ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کا تصور بھی ایک ہوگا اور اس کا نظام بھی ایک ہوگا۔ وہ ایک ہی صراط مستقیم پر چل سکتا ہے۔ اس کے سامنے ایک ہی پیمانہ ہوگا جس سے وہ حسن وقبح کو ناپے گا۔ اور ایک ہی پیمانے سے وہ واقعات اور اقدار کو ناپے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اس کی زندگی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی۔ وہ منافق ہوگا۔ اس کی زندگی میں نشیب و فراز ہوں گے اور وہ صراط مستقیم پر نہ ہوگا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک انسان اپنے اخلاق و آداب ایک سرچشمے سے لے اور اپنا دستور و قانون کسی دوسرے سرچشمے سے لے اور اپنا اجتماعی اور معاشی نظام کسی تیسرے سر چشمے سے لے اور اپنے فنون اور فلسفے کسی چوتھے سرچشمے سے لے۔ اس قسم کے مخلوط خیالات کسی ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ ایسا شخص اور اس کی شخصیت ٹکڑے ٹکڑے ہوگی اور اس کا وجود قائم نہ رہ سکے گا۔

ایک نظریاتی شخص ، جس کا فی الواقعہ کوئی نظریہ اور عقیدہ ہو ، یہ نہیں کرسکتا کہ وہ زندگی کے چھوٹے یا بڑے معاملے میں کوئی نظریاتی موقف نہ رکھتا ہو۔ وہ ہر وقت اپنے نظریات کے تقاضوں کے مطابق قدریں اپناتا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ کوئی بات کرے یا کوئی حرکت کرے ، یا کوئی نیت و ارادہ کرے یا کوئی سوچ کرے اور وہ اس کے نظریات سے متاثر نہ ہو یا اس کے عقیدے سے مبرا ہو۔ کیونکہ اللہ نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں رکھے۔ ایک دل ہوتا ہے ، ایک عقیدہ ہوتا ہے ، ایک عمل ہوتا ہے ، ایک سمت ہوتی ہے اور ایک ہی پیمانہ اور قدر ہوتی ہے۔

کوئی نظریاتی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام میں نے اپنی ذاتی حیثیت میں کیا ہے اور یہ میں نے ایک مسلمان کی حیثیت میں کیا ہے۔ جیسا کہ آج کل کے سیاست دان ایسا کرتے ہیں ، یا جیسا کہ اجتماعی جمعیتیں کرتی ہیں یا علمی سوسائٹیاں کرتی ہیں۔ غرض انسان ایک ہوتا ہے ، اس کا دل ایک ہوتا ہے ، نظریہ ایک ہوتا ہے ، قبلہ ایک ہوتا ہے ، اس کا تصور ایک ہوتا ہے ، اقدار اور حسن و قبح کے پیمانے ایک ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ اس کے عقائد میں ہوتا ہے۔

غرض اسی ایک دل کے ساتھ انسان تنہا بھی زندہ رہتا ہے ، خاندان میں بھی رہتا ہے ، جماعت میں بھی رہتا ہے ، حکومت میں بھی رہتا ہے ، دنیا میں بھی رہتا ہے ، چھپے بھی رہتا ہے اور برملا بھی رہتا ہے۔ مزدور و آقا بھی رہتا ہے ، حاکم و محکوم بھی رہتا ہے۔ مشکلات اور سہولیات میں بھی رہتا ہے۔ غرض یہ اس کا رنگ ہوتا ہے۔ یہ تبدیل نہیں ہوتا۔ نہ اس کا معیار بدلتا ہے اور نہ قیمت بدلتی ہے۔ نہ اس کی سوچ بدلتی ہے۔

ما جعل اللہ لرجل من قلبین فی جو فہ (33: 4) لہٰذا کسی بھی نظریاتی اسلام کا منہاج ایک ہوتا ہے ، راستہ ایک ہوتا ہے ، رخ ایک ہوتا ہے۔ صرف اللہ کے حکم کے سامنے جھکتا ہے۔ دل ایک ہے تو الٰہ بھی ایک ہے ، آقا بھی ایک ہے ، منہاج حیات بھی ایک ہے اور اگر کوئی ایسا نہ ہوگا تو اس کی زندگی منتشر ہوگی اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رہ جائے گا۔ اس فیصلہ کن تبصرے کے بعد اور منہاج حیات کے تعین کے بعد اب سیاق کلام قانونی اصلاحات شروع کرتا ہے۔ پہلے ظہار اور متنبی کا قانون منسوخ کیا جاتا ہے تاکہ خاندان کو بیرونی عناصر سے پاک کرکے خالص رشتہ داری اور قدرتی بنیادوں پر تعمیر کیا جائے۔

وما جعل ازواجکم الئ۔۔۔۔۔۔ وکان اللہ غفورا رحیما (4 – 5)

” ۔ “۔

جاہلیت میں رواج یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کہتا تھا تم مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہو۔ یعنی تم مجھ پر اس طرح حرام ہو جس طرح ماں حرام ہے۔ اسی وقت سے اس پر اس کے ساتھ مجامعت حرام ہوجاتی۔ اب یہ معلقہ ہوجاتی نہ یہ مطلقہ ہوتی کہ دوسرا کوئی اس سے نکاح کرتا ، نہ اس کی بیوی بن سکتی۔ اور یہ عورتوں پر ہونے والے مظالم میں سے سب سے بڑا ظلم تھا۔ اور جاہلیت کے دور کی بدسلوکیوں میں سے ایک بدسلوکی تھی۔

اسلام نے اصلاحات کا کام سب سے پہلے خاندانی نظام سے شروع کیا۔ خاندان کے اندر ہونے والے اس ظلم کو ختم کیا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ خاندان انسانی اجتماعیت کا پہلا دائرہ ہے۔ اس لیے اسلام نے خاندانی نظام کی طرف بہت توجہ دی تاکہ جس تربیت گاہ میں بچے پرورش پاتے ہیں ، اس کی فضا خوشگوار ہو ، اور پر امن ہو ، چناچہ عورت کو اس عظیم بوجھ سے نکالا گیا اور اسے اس حالت قید سے رہائی دلا دی گئی۔ اور میاں بیوی کے تعلقات کو ازسرنو عدل و انصاف پر استوار کیا۔ چناچہ یہ قانون وضع کیا گیا۔

وما جعل ازواجکم ۔۔۔۔۔ امھتکم (33: 4) ” اس نے تم لوگوں کی ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو ، تمہاری ماں نہیں بنا دیا ہے “۔ کیونکہ صرف زبان سے ماں کہنے سے بیوی ماں نہیں بن جاتی۔ حقیقت واقعہ کے مطابق ماں ، ماں ہے اور بیوی ، بیوی ہے۔ محض ایک لفظ کہنے سے تعلقات و روابط کی نوعیت نہیں بدل جاتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ظہار کی وجہ سے ابدی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ جس طرح ماں حرام ہوتی ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں تھا۔

روایات میں آتا ہے کہ سورة مجادلہ میں ظہار کے ظالمانہ قانون کو باطل کیا گیا اور واقعہ یوں ہوں کہ اوس ابن الصامت نے اپنی بیوی خولہ بنت ثعلبہ کے ساتھ ظہار کرلیا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور اس نے یہ دعویٰ کیا رسول خدا ﷺ یہ میرا مال کھا گیا ، اس نے میری جوانی کو ختم کردیا ، اور میرا پیٹ پھول گیا۔ اور میری عمر بڑھ گئی اور میری اولاد ختم ہوگئی تو اسنے میرے ساتھ ظہار کرلیا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ” میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ تم اس پر حرام ہوگئی ہو “۔ اس نے شکایت بار بار پیش کی۔ اس پر سورة مجادلہ کی یہ آیات نازل ہوئیں :

قد سمع اللہ قول التی ۔۔۔۔۔۔۔ وللکفرین عذاب الیم (58: 1 – 4) ” اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملے میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے ۔ اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے ، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں ، ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کا جنا ہے۔ یہ لوگ ایک سخت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں اور حقیقت یہ کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا ہے اور درگزر فرمانے والا ہے۔ جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی اس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ایک غلام آزاد کرنا ہوگا ، اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اس سے باخبر ہے اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے ، قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ 60 مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور کافروں کے لیے دردناک سزا ہے “۔

اس قانون کی رو سے ظہار کی وجہ سے میاں بیوی کو وقتی طور پر ایک دوسرے سے علیحدہ کردیا گیا اور سابق قانون میں جو ابدی حرمت تھی ، اسے ختم کردیا گیا۔ اور اگر میاں بیوی باہم دوبارہ ازدواجی زندگی اختیار کرنا چاہیں تو اسے سے قبل وہ ایک غلام آزاد کریں یا مسلسل دو ماہ روزے رکھیں یا 60 مسکینوں کو کھانا کھلائیں۔ یوں دوبارہ بیوی خاوند کے لیے حلال ہوجائے گی اور دونوں کی ازدواجی زندگی حسب سابق شروع ہوجائے گی۔ اور یہ نیا قانون واقعیت پسندانہ ہے اور واقعی صورت حالات پر مبنی ہے۔

وما جعل ازواجکم الئی تظھرون منھن امھتکم (33: 4) ” اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو ، تمہاری مائیں نہیں بنایا “۔ اس جاہلی عادت کی وجہ سے خاندان ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا تھا اور دوسری جانب عورت پر ایک دائمی ظلم تھا اور وہ زندہ درگور ہوجاتی تھی۔ یوں خاندانی روابط کے اندر اضطراب ، طوائف الملوکی اور پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی تھیں اور یہ سب کچھ مرد کی ذاتی خواہشات اور جاہلی سوسائٹی میں ان کی برتری اور تشدد کی وجہ سے تھا۔ یہ تو تھا مسئلہ ظہار رہا قانون متنبی اور لوگوں کو اپنے باپوں کے سوا دوسروں کے نام سے پکارنا “ یہ بھی خاندانی نظام کے لیے باعث پریشانی تھا اور اسکی وجہ سے ایک خاندان کی ہم آہنگی میں خلل پڑتا تھا۔ اس کے باوجود کہ عربی معاشرے میں عفت اور نسب کا بہت بڑا خیال رکھا جاتا تھا اور نسب پر فخر کیا جاتا تھا لیکن اس فخر و مباہات کے ساتھ ساتھ بعض کمزور پہلو بھی عرب معاشرے میں پائے جاتے تھے۔ معدودے چند خاندانوں کے سوا یہ کمزوریاں عموماً تھیں۔

بعض لوگوں کے ہاں ایسے بیٹے بھی تھے جن کے سرے سے باپ معلوم ہی نہ تھے۔ بعض لوگوں کو اس قسم کے نوجوان پسند آئے تو وہ انہیں اپنا بیٹا بنا لیتے ہیں اس کو اپنے نسب میں شمار کرلیتے اور دونوں ایک دوسرے کی میراث کے حقدار ہوجاتے۔

بعض بیٹے ایسے تھے کہ ان کے باپ معلوم تھے لیکن بعض اوقات ایک شخص کو کوئی ایسا لڑکا پسند آجاتا ، وہ اسے اپنا بیٹا بنا لیتا۔ اور اسے اپنے نسب میں شریک کرلیتا ۔ لوگوں کے اندر وہ ابن فلاں مشہور ہوتا۔ وہ اس کے خاندان کا فرد بن جاتا۔ یہ معاملہ خصوصاً جنگی قیدیوں اور اغوا شدہ لوگوں کے ساتھ ہوتا۔ جنگ اور ڈاکوں میں بچے اور نوجوان لڑکے قید ہوجاتے۔ بعض لوگ ایسے لوگوں کو اپنا بیٹا بنا لیتے۔ اسے اپنا نام دے دیتے اور وہ اس کے ساتھ مشہور ہوجاتا اور وہ بیٹے کے حقوق و فرائض ادا کرتا۔

انہی میں سے زیاد ابن حارثہ کلبی بھی تھا۔ یہ ایک عربی قبیلہ ہے ، ایام جاہلیت کے دور میں ڈکیتیوں میں سے کسی ڈکیتی میں یہ قید ہوکر آگیا۔ اسے حکم ابن حزام نے اپنی پھوپھی خدیجہ کے لیے خرید لیا۔ جب حضور ﷺ نے خدیجہ کو اپنے نکاح میں لے لیا تو اس نے یہ حضور ﷺ کو بخش دیا۔ اس کے بعد اس کے باپ اور بیٹے نے اسے آزاد کرنے کا مطالبہ کیا تو حضور اکرم ﷺ نے اسے اختیار دے دیا تو زید نے حضور ﷺ کو اختیار کرلیا۔ حضور اکرم ﷺ نے اسے آزاد کرکے معبنی بنا دیا اور لوگ اسے زید ابن محمد کہنے لگے۔ غلاموں میں سے حضور ﷺ پر وہ سب سے پہلے ایمان لائے۔

جب اسلام نے خاندانی تعلقات کو اپنی طبیعی اور فطری بنیادوں پر استوار کرنا شروع کیا ، خاندانی روابط کو مستحکم بنانے کی سعی کی اور خاندان کو خالص خاندانی حد تک محدود کیا تو جاہلی قانون متنبی کو ختم کردیا اور خاندانی روابط کو نسب کی بنیاد پر قائم کردیا۔ یعنی خونی رشتے باپ بیٹے کی اساس پر ۔ اور یہ حکم دیا۔

وما جعل ادعیاء کم ابناء کم (33: 4) ” اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنایا “۔

ذلکم قولکم بافواھکم (33: 4) ” یہ وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکالتے ہو “۔ صرف باتوں سے واقعات اور حقائق نہیں بدلتے۔ اور صرف باتوں سے خونی رشتے بھی قائم نہیں ہوتے اور وراثت کے حقوق بھی پیدا نہیں ہوجاتے۔ اور محض زبان سے یہ رشتے ایسے نہیں ہوتے جو اس وقت ہوتے ہیں جب ایک زندہ بچہ زندہ ماں سے پیدا ہوتا ہے یا حقیقی باپ سے پیدا ہوجاتا ہے۔

واللہ یقول الحق وھو یھدی ۔۔۔۔ (33: 4) ” مگر اللہ جو بات کہتا ہے وہی حقیقت ہے اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے “۔ وہ مطلق حق کہتا ہے جس کے اندر کوئی باطل نہیں ہوتا اور ان سچائیوں میں سے ایک سچائی یہ ہے کہ خاندانی قوانین اور رشتے حقیقت پر مبنی ہوں۔ یعنی خون اور نسب کے روابط ہوں۔ نہ محض زبانی باتوں پر۔ وہ قانون سازی میں سیدھا راستی اختیار کرتا ہے اور اسی کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ یہ فطری قانون ہوتا ہے اور انسان کے بنائے ہوئے قوانین ان فطری قوانین کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ خصوصاً جبکہ وہ حقائق نہ ہوں۔ محض خالی خولی باتیں ہوں۔ ایسے الفاظ ہوں جن کا کوئی مفہوم نہ ہو ، لہٰذا ایسے قوانین و روابط پر حقیقی قوانین و روابط غالب ہوجاتے ہیں جو سیدھے راستے پر مبنی ہوں۔

ادعوھم لابآئھم اقسط عند اللہ (33: 5) ” منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے “۔ منصفانہ بات یہ ہے کہ بیٹے کو باپ کے نام سے پکارا جائے۔ یہی اس والد کے ساتھ انصاف ہے جس کے جسم سے یہ ٹکڑا علیحدہ ہو کر شخص بنا۔ بیٹے کے ساتھ بھی انصاف ہے اور انہی دونوں کے درمیان وراثت بھی انصاف ہے۔ باپ اور بیٹے ہی ایک دوسرے کے حقیقی معاون ہو سکتے ہیں۔ بیٹا باپ کی خفیہ خصوصیات کا بھی امین ہو سکتا ہے اور آباؤاجداد کے خصائص کا بھی امین ہے۔ یہ اسطرح بھی عدل ہے کہ ہر حق کو اس کی جگہ رکھ دیا گیا اور روابط کو فطری اصولوں پر قائم کردیا گیا۔ نہ والد کی حق تلفی ہو اور نہ بیٹے کی حق تلفی ہو۔ غیر حقیقی والد کو معبنیٰ ہونے کے ذمہ داریاں نہ اٹھانی پڑیں گی اور نہ اسے وہ مفادات ملیں گے جن کا وہ مستحق نہ تھا۔ نہ معبنی غیر ضروری ذمہ داریاں اٹھائے گا اور نہ وہ مفادات لے سکے گا جس کا وہ مستحق نہ تھا۔

یہ وہ عائلی نظام ہے جس کی وجہ سے خاندان کی ذمہ داریوں میں توازن پیدا ہوتا ہے اور خاندان نہایت ہی مستحکم اور گہری اور واقعیت پسندانہ بنیادوں پر قائم ہوتا ہے ۔ اس کی اساس میں سچائی ، حق پسندی اور فطرت سے ہم آہنگی ہے۔ ہر وہ نظام جو خاندانی نظام کو نظر انداز کرتا ہے وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ وہ ضعیف کمزور اور جعلی بنیادوں پر اٹھا ہوا ہوتا ہے اور کوئی ایسا نظام زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ دور جاہلیت میں خاندان کے روابط میں بہت انتشار تھا۔ اسی طرح جنسی تعلقات میں بھی انتشار تھا ، اس کے نتیجے میں انساب کے اندر بہت ہی اختلاط پیدا ہوگیا تھا اور بعض اوقات لوگوں کے باپوں کا بھی پتہ نہ لگتا تھا۔ اسلام نے اس معاملے کے اندر سہولت پیدا کردی کیونکہ اسلام کا منشا یہ تھا کہ خاندانی نظام کو ازسرنو منظم کیا جائے۔ اور اسلام خاندان کی اساس پر اجتماعی نظام کی تشکیل کے درپے تھا۔ اس لیے جن لوگوں کے آباء و اجداد کا پتہ نہ تھا ، ان کو اسلامی جماعت میں ایک مقام دے دیا۔ یہ اخوت اسلامی کا مقام تھا۔

فان لم تعلموا ابآءھم فاخوانکم فی الدین (33: 5) ” اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور رفیق ہیں “۔ اخوت فی الدین کا تعلق ایک اخلاقی اور روحانی تعلق ہے اور اس پر کوئی قانونی حقوق و فرائض مرتب نہیں کیے گئے ۔ مثلاً وراثت کی کفالت اور ادائیگی دے کر ، جبکہ معبنی بنانے پر یہ قانونی حقوق و فرائض مرتب ہوتے تھے۔ یہ اس لیے کہ ان لوگوں کا بھی اسلامی جماعت میں کوئی نہ کوئی مقام اور رابطہ ہونا چاہئے۔

فان لم تعلموا ابآءھم (33: 5) ” اگر تمہیں ان کے آباؤ و اجداد معلوم نہ ہوں “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دور جاہلیت کے معاشرے میں نسب کے اعتبار سے بہت بڑا انتشار تھا۔ اس کے نتیجے میں جنسی تعلقات کے معاملے میں بھی انتشار تھا۔ اس انتشار سے بچنے کے لیے اسلام نے خاندانی نظام کو ازسر نو مرتب کیا۔ یوں خاندانی نظام مستحکم بنیادوں پر استوار ہوگیا۔

انساب کو اپنی حقیقت کی طرف واپس کردینے کے بعد اب یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کو اپنا نسب صحیح معلوم نہ ہو اور وہ نسب کے سلسلے میں کوئی غلب بات کہہ دے تو اس کا کوئی قصور نہ ہوگا۔

ولیس علیکم جناح فیما اخطاتم بہ ولکن ما تعمدت قلوبکم (33: 5) ” نادانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے کہ تم دل سے ارادہ کرو۔ یہ اللہ کی بہت بڑی مہربانی ہے کہ اللہ کسی پر کوئی ایسا حکم عائد نہیں کرتا جس کے بجا لانے کی ان میں طاقت نہ ہو۔

وکان اللہ غفورا رحیما (33: 5) ” اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے “۔ نبی ﷺ نے نسب کے سلسلے میں بہت ہی تاکید اور تشدید فرمائی ہے کیونکہ اسلام کا مقصد یہ تھا کہ جدید معاشرے کو ایسے خطوط پر منظم کیا جائے جس میں کوئی انتشار نہ ہو جس طرح جاہلی معاشروں میں کسی کے بارے میں کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کون کس کی اولاد سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اپنا نسب چھپاتے ہیں ان کو سخت وعید کی گئی اور ان پر کفر کا اطلاق کیا گیا۔ ابن جریر نے ، یعقوب ابن ابراہیم سے ، ابن علیہ سے ، عینیہ ابن عبد الرحمن نے ان کے باپ سے ، ابوبکر ؓ سے فرماتے ہیں ، اللہ نے فرمایا۔

ادعوھم لابآءھم ۔۔۔۔۔ الدین وموالیکم (33: 5) ” منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو ، یہ اللہ کے نزدیک بہت ہی منصفانہ بات ہے۔ اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں “۔ میرے باپ نے کہا ” عینیہ ابن عبد الرحمن کہتے ہیں “۔ خدا کی قسم میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اگر کسی کو یقین ہوتا کہ میرا باپ گدھا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس کی طرف منسوب کرتا “۔ اور حدیث میں آیا ہے۔

من اوعی الی غیر ابیہ وھو یعلم الا کفر ” جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا اور کسی طرف منسوب کیا اور وہ جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہے تو اس نے کفر کا ارتکاب کیا “۔ یہ تہدید اس پالیسی کے مطابق ہے جس کے ذریعے اسلام خاندان اور خاندانی روابط کو ہر شک و شبہ سے پاک رکھنا چاہتا ہے اور اسلام سلسلہ نسب کو صحیح ، سلامت ، مسلم الثبوت رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس پر اسلامی معاشرے کی تعمیر کی جائے اور یہ معاشرہ صحیح اور پاک معاشرہ ہو۔

اس کے بعد ایک دوسرے عبوری قانون کے اندر ترمیم کردی جاتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ جب وارد مدینہ ہوئے تو وہاں آپ ﷺ نے انصار اور مہاجرین کے درمیان مواخات قائم کی۔ اسلام سے قبل جاہلیت میں اس قسم کا کوئی نظام نہ تھا۔ یہ نظام ہجرت کے بعد اسلام نے ایجاد کیا تھا کیونکہ مہاجرین اپنی دولت مکہ میں چھوڑ آئے تھے۔ یہاں تہی دست وارد ہوئے۔ اسی طرح مدینہ میں بھی ایسے لوگ تھے جن کو ان کے خاندان والوں نے گھروں سے نکال دیا تھا کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے تھے۔ مواخات کو ختم کرکے نبی ﷺ کو دلایت عامہ دے دی گئی اور یہ ولایت تمام دوسری ولایتوں پر مقدم قرار دے دی گئی۔ نبی ﷺ کے ولی عام بننے کے ساتھ ساتھ آپ کی ازدواج کو بھی روحانی مائیں قرار دے دیا گیا۔

اردو ترجمہ

منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں نا دانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اُس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

OdAAoohum liabaihim huwa aqsatu AAinda Allahi fain lam taAAlamoo abaahum faikhwanukum fee alddeeni wamawaleekum walaysa AAalaykum junahun feema akhtatum bihi walakin ma taAAammadat quloobukum wakana Allahu ghafooran raheeman

اردو ترجمہ

بلاشبہ نبی تو اہل ایمان کے لیے اُن کی اپنی ذات پر مقدم ہے، اور نبی کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں، مگر کتاب اللہ کی رو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کر سکتے ہو یہ حکم کتاب الٰہی میں لکھا ہوا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alnnabiyyu awla bialmumineena min anfusihim waazwajuhu ommahatuhum waoloo alarhami baAAduhum awla bibaAAdin fee kitabi Allahi mina almumineena waalmuhajireena illa an tafAAaloo ila awliyaikum maAAroofan kana thalika fee alkitabi mastooran

النبی اولیٰ بالمومنین ۔۔۔۔۔ فی الکتب مسطورا (6) ” “۔

مہاجرین نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ وہ سب کچھ چھوڑ کر مدینہ چلے آئے ، اللہ کی طرف بھاگ نکلے ، صرف دین لے کر بھاگ گئے۔ انہوں نے اپنے عقیدہ کو اپنی برادری کے تعلقات ، اپنے مال کے ذخائر ، اپنے اسباب حیات ، بچپن کی یادوں ، یاروں اور دوستوں کی محفلوں پر ترجیح دے دی۔ یہ لوگ صرف اپنا عقیدہ بچا کر نکل آئے اور اس کے سوا سب کچھ چھوڑ چھاڑ دیا۔ اس انداز پر ہجرت کرکے انہوں نے وہ تمام چیزیں چھوڑ دیں جو ہر انسان کے لیے عزیز ہوتی ہیں۔ اہل و عیال ، بیٹے بیٹیاں اور دوسرے رشتہ دار۔ یہ ایک زندہ مثال تھی اور یہ اس کرہ ارض پر واقع ہوئی کہ لوگوں نے صرف عقائد کی خاطر سب کو چھوڑ دیا۔ ان کے دلوں پر عقیدہ چھایا ہوا تھا۔ چناچہ ان کے دل میں اس عقیدے اور نظریہ کے سوا کوئی چیز باقی ہی نہ رہی۔ ان کی شخصیت مجتمع ہوگئی۔

ما جعل اللہ لرجل من قلبین فی جو فہ (33: 4) ” اللہ نے کسی انسان کے دھڑ میں دو دل نہیں بنائے “۔ اسی طرح مدینہ میں بھی ایک نئی صورت حال پیدا ہوگئی۔ بعض خاندانوں کے افراد اسلام میں داخل ہوگئے اور دوسرے لوگ شرک کرتے رہے۔ دونوں کے درمیان تعلقات کٹ گئے۔ غرض خاندانی روابط کے اندر ایک بھونچال سا آگیا اور اجتماعی نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔ یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ اسلامی معاشرہ نوزائیدہ تھا۔ اور اسلامی مملکت ابھی مستحکم نہ تھی۔ یہ دراصل ابھی تک ایک مجوزہ نظام ہی تھا جس کا زیادہ حصہ تصورات ہی میں تھا۔ ابھی تک اس کے مستحکم ادارے تشکیل نہ پائے تھے۔

غرض مدینہ میں ایک نظریاتی طوفان اٹھا۔ یہ اسلامی نظریہ حیات کا طوفان تھا۔ اس نے تمام جذبات ، تمام رسم و رواج اور تمام روابط اور تعلقات کو ختم کردیا اور اس نئی سوسائٹی کے اندر صرف اسلامی رابطہ باقی رہ گیا۔ تمام دل عقیدہ اسلامی پر جمع تھے ، خاندان ، نسب ، قبیلہ ، دوستی اور قومی تعلقات نظریاتی لہروں کے نیچے دب گئے اور یہ نئی اکائیاں جو اسلامی سوسائٹی میں جم وہو چکی تھیں باہم مل گئیں۔ ایک نئی سوسائٹی وجود میں آگئی اور اسلامی اخوت پر لوگ جمع ہوگئے۔ یہ لوگ اسلامی اخوت پر کسی قانون یا حکم کے ذریعہ جمو نہ ہوگئے تھے بلکہ اسلامی نظریہ حیات نے ان کے اندر ایک زبردست اتحادی شعور پیدا کردیا تھا۔ یہ شعور اس قدر پختہ تھا کہ انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہ تھی۔ غرض اس طرح ایک بہت بڑا خاندان وجود میں آگیا۔ ایک جماعت وجود میں آگئی۔ اس قسم کا خاندان نہ حکومت کی اساس پر قائم ہو سکتا تھا ، نہ معاشرتی حالات اسے پیدا کرسکتے تھے۔ بہرحال یہ اخوت اسلامی تھی ، ایک اندرونی شعور تھا۔

مہاجرین انصار بھائیوں کے ہاں آکر اترے۔ جنہوں نے ان کے لیے مدینہ کو خوب سنبھالا۔ استقبال کیا۔ ان کو اپنے دلوں اور گھروں میں اتارا اور آنکھوں پر بٹھایا۔ انہوں نے ان کو اپنے مالوں میں شریک کیا اور ایک دوسرے سے بڑھ کر ان کو پناہ دی۔ اس قدر مقابلہ ہوا کہ کوئی مہاجر کسی انصاری کے ہاں صرف قرعہ اندازی کے ذریعے جاسکتا تھا۔ کیونکہ مہاجرین کم تھے اور انصار زیادہ تھے جو پناہ دینا چاہتے تھے۔ یہ پناہ نہایت اعتماد اور شوق سے دی گئی ۔ حقیقی خوشی اور دلی مسرت کے ساتھ دی گئی ۔ یہ پناہ ہر قسم کے فطری بخل اور تکبر اور نمائش سے پاک تھی۔

رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات قائم کی۔ یہ نظام نظریاتی سو سائٹیوں کی تاریخ میں ایک بےمثال نظا ، تھا۔ یہ برادری باقاعدہ خون کی برداری کے قائم مقام ہوگئی۔ چناچہ اس نظام کے تحت لوگ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوئے اور اجتماعی تکافل کے دوسرے فرائض و واجبات بھی ادا کرتے رہے۔ مثلاً دیت وغیرہ۔

یہ شعوری اتحاد نہایت بلند مقام تک جا پہنچا اور مسلمانوں نے بڑی سنجیدگی سے ان تعلقات کو مستحکم کیا۔ اسی طرح وہ بھائی بن گئے جس طرح اسلام کے دوسرے احکام انہوں نے قبول کیے۔ چناچہ یہ سوسائٹی ایک مستحکم حکومت کی شکل اختیار کرگئی ہے اور مواخات کے اصول باقاعدہ حکومتی ادارہ ، ایک قانونی نظام اور ایک مستقل صورت حال اختیار کر گئے۔ بلکہ اس کی جڑیں بہت گہری ہوگئیں۔ اس نئی جماعت اور سوسائٹی کو کسی دھچکے سے بچانا بھی ضروری تھا۔ یہ نظام جو مستقل شکل اختیار کر رہا تھا اللہ کے منشاء کے مطابق ایک عارضی انتظام تھا۔

جس جماعت کو بھی ایسے حالات کا سامنا ہو جیسا کہ مدینہ کی اسلامی جماعت کو تھا ، اس کے لیے اس قسم کا شعور پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ اس شعور کے تحت ایک مستقل سوسائٹی اور حکومت وجود میں آجائے۔ ایک قانونی نظام ہو ، اور مسلم ادارے ہوں تکہ غیر معمولی حالات میں ایسے جماعت کو درپیش مسائل حل کیے جاسکیں اور اس طرح جماعتی زندگی کو ترقی دی جاسکی۔ یہ کام اس وقت تک ہوتا رہے جب تک حالات معمول پر نہیں آجاتے۔

اسلام اگرچہ اس قسم کے شعور کو ہر وقت زندگی رکھنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس قسم کی اخوت اور ایثار کے فوارے اسلامی سوسائٹی کے اندر پھوٹتے ہی رہیں۔ ان سے حجت اور قوت کے چشمے جاری رہیں لیکن اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ سوسائٹی کا ارتقاء طبیعی حالات کے مطابق ہو اور اجتماعیت کا نظام محض وقتی جذبات اور وقتی طوفان پر نہ ہو ، جن سے غیر معمولی حالات میں کام لیا جاتا ہے بلکہ سوسائٹی کو طبیعی اور نارمل حالات پر استوار کیا جاتا رہے۔ اور معمول کے مطابق نظام چلتا رہے۔ حتی کہ غیر ضروری اور استثنائی حالات ختم ہوں۔

جب غزوہ بدر کے بعد مدینہ میں حالات قدرے معمول پر آگئے ، اسلامی حکومت مستحکم ہوگئی ، اجتماعی حالات معمول کے مطابق مستحکم ہوگئے اور لوگوں کے لیے روزگار کا انتظام ہوگیا۔ اسلامی لشکروں نے جو چھوٹی موٹی لشکر کشیاں شروع کردی تھیں ، بدر کی جنگ کے بعد ان کی وجہ سے لوگوں کے مالی حالات درست ہوگئے ، خصوصاً بنی قینقاع کی جلاوطنی کی وجہ سے مسلمانوں کے پاس کافی اموال جمع ہوگئے۔ جو نہی سوسائٹی کے اندر دوسرے ذرائع سے سوشل سیکورٹی کا انتظام ہوگیا قرآن کریم نے مواخات کے اس غیر معمولی نظام کو ازوائے قانون ختم کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگائی اور اجتماعی کفالیت کا نظام خاندانی اور نسب کے نظام کے ساتھ منسلک کردیا گیا ۔ البتہ اسلام نے اسلامی اخوت اور مواخات کے پیچھے جو شعوری جذبہ تھا ، اسے بہرحال بحال رکھا کہ اگر پھر اس قسم کے غیر معمولی حالات پیدا ہوجائیں تو دوبارہ یہ نظام قائم ہوسکے۔ اس طرح جماعت مسلمہ کے اندر اجتماعی کفالت کا نظام اپنی حقیقی حالت کی طرف لوٹا دیا گیا ، غرض وراثت ، دیات میں تکافل خون اور نسب کی طرف لوٹا دیا گیا۔ جیسا کہ اللہ کی کتاب میں پہلے ہی یہ درج تھا۔

واولوا الارحام بعضھم ۔۔۔۔۔ فی الکتب مسطورا (33: 6) ” مگر کتاب اللہ کی رو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں ، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کرسکتے ہیں۔ یہ حکیم کتاب الٰہی میں لکھا ہوا ہے “۔ فیصلہ کردیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ ولی عام ہیں اور یہ وہ ولایت ہے جو رشتہ داری بلکہ اپنے نفوس پر بھی مقدم ہے۔

النبی اولی بالمومنین من انفسھم (33: 6) ” نبی مومنین کے لیے ان کے نفسوں سے بھی مقدم ہے “۔ اور یہ بھی فیصلہ کردیا گیا کہ ازواج مطہرات روحانی مائیں ہیں۔

وازواجہ امھتھم (33: 6) ” آپ ﷺ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں “۔ نبی ﷺ کی ولایت عام ولایت ہے ، آپ کو اختیارات حاصل تھے کہ آپ امت مسلمہ کو زندگی کا پورا نظام دے دیں۔ اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ رسول اللہ پر درود وسلام بھیجیں اور ان کے لیے کوئی راہ اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ ان امور کو اپنالیں جو ان کے لیے نبی ﷺ نے اختیار کرلیے۔

لایومن احدکم ۔۔۔۔۔ جئت بہ ” تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہشات ان احکام کے تابع نہ ہوجائیں جو میں لے کر آیا ہوں “۔ اس میں مسلمانوں کا شعور بھی شامل ہے ، لہٰذا ان کے لئے رسول اللہ ﷺ کی ذات سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہونی چاہئے۔ اپنی جان سے بھی وہ بمقابلہ رسول زیادہ محبت نہیں کرسکتے۔ ان کے دلوں میں کوئی ذات یا کوئی چیز ذات رسول سے مقدم نہ ہونی چاہئے۔ حدیث صحیح میں ہے۔

والذی نفسی بیدہ ۔۔۔۔۔ والناس اجمعین ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا ، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے نفس اس کے مال ، اور اس کی اولاد بلکہ تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ صحیح حدیث میں ہے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں ۔ میں نے کہا حضور ، آپ میرے نفس کے سوا مجھے دنیا کی تمام چیزوں سے عزیز ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں اے عمر ، یہاں تک کہ میں آپ کے لئے تمہاری جان سے بھی محبوب نہ ہوجاؤں “۔ اس پر اس نے کہا رسول خدا ، خدا کی قسم بیشک آپ مجھے تمام چیزوں سے محبوب ہیں یہاں تک میرے نفس سے بھی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا ” اب اے عمر “۔ یہ صرف باتیں ہی نہ تھیں۔ یہ ایک بلند معیار تھا جس تک اسلامی سوسائٹی پہنچی ہوئی تھی اور اس تک کوئی دل تب ہی پہنچ سکتا ہے جب تک کسی دل کو عالم بالا کی جانب سے مساس حاصل نہ ہوجائے اور وہ اپنی نظریں افق بلند تک اونچی نہ کردے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ذات کی کشش اور اس کی گہری محبت بھی رسول اللہ ﷺ کے لیے ہوجاتی ہے۔ انسان اپنی ذات اور اپنی ذات کے متعلقات سے ناقابل تصور محبت کرتا ہے۔ بعض اوقات اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنے جذبات اور احساسات پر قابو پالیا ہے۔ اپنے نفس کر رام کو لیا ہے اور حب ذات کی بلندیوں سے وہ اتر آیا ہے لیکن جب اس کی ذات اور اس کے مفادات پر زد پڑتی ہے تو وہ یوں اچھل پڑتا ہے جیسا کہ اسے سانپ نے ڈس لیا ہے۔ وہ اس چبھن کو اس طرح محسوس کرتا ہے کہ اسے برداشت ہی نہیں کرسکتا۔ اگر برداشت کر بھی لے تو یہ درد اس کے شعور میں بیٹھ جاتا ہے اور اس کی گہرائیوں میں گھر کرلیتا ہے۔ بعض اوقات انسان اپنی پوری زندگی بھی قربان کردینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے لیکن اپنی ذاتی توہین برداشت نہیں کرسکتا۔ نہ وہ کوئی ایسا عیب برداشت کرسکتا ہے جو اس کی ذات وصفات کی طرف منسوب کیا جائے اگرچہ کوئی بظاہر یہ ظاہر کرے کہ وہ ان باتوں پر کوئی اعتراض نہیں کرتا ، یا ان کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ غرض اپنی ذات پر قابو پانا اور اپنی ذات سے بھی حضور اکرم ﷺ اور اپنے نظریہ کو زیادہ اہمیت دینا ، محض زبانی بات نہیں ہے کہ کوئی آسانی سے کہہ دے۔ یہ ایک ایسا مقام بلند ہے جس تک عالم بالا کے مساس کے بغیر کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اس کے لیے طویل جدوجہد ، طویل مشق اور دائمی بیداری اور مخلصانہ خواہش کی ضرورت ہے جس کے ساتھ اللہ کی خاص مدد شامل حال رہے۔ یہ ہے عظیم جہاد۔ جیسا کہ اسے رسول اللہ ﷺ کے جہاد اکبر کہا اور یہ وہ مقام ہے کہ حضرت عمر ؓ جیسی شخصیت کو بھی نبی ﷺ کی جانب سے تنبیہ اور تصحیح کی ضرورت پڑگئی۔ یہ ان کے قلب صافی کی ایک چن کی تھی جس کے نتیجے میں حضرت عمر ؓ اس مقام بلند تک پہنچ گئے اور ایک سیکنڈ میں۔ ولایت عامہ میں بھی نبی ﷺ کے حوالے سے امت کے افراد پر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں۔ حدیث صحیح میں ہے ” جو بھی مومن ہیں میں ان کے لئے تمام لوگوں سے محبوب ہوں ، دنیا اور آخرت دونوں میں ، اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو۔

النبی اولی بالمومنین من انفسھم (33: 6) ” نبی مومنین کے لیے ان کے نفسوں سے بھی مقدم ہے “۔ اس لیے جس مومن نے مال چھوڑا تو یہ اس کے عصبات کو ملے گا جو بھی ہوں اور اگر اس پر قرض ہو یا کوئی نادان ہو تو وہ میرے پاس آئے ، میں اس کا والی ہوں “۔ معنی یہ ہے کہ اگر مومن مر جائے اور اس کی میراث میں مال نہ ہو جس سے اس کا قرضہ ادا کردیا جائے تو میں اس کا قرض ادا کروں گا اور اگر اس کے عیال ہوں تو میں ان کی پرورش کروں گا ، اگر چھوٹے ہوں ۔ اس کے علاوہ عام حالات میں ، عام لوگوں کی زندگی طبعی حالات کے مطابق اپنی جدوجہد کے مطابق گزرے گی ، اس کے لیے اس قوم کے غیر معمولی جوش و خروش پیدا کرنے کی ضرورت نہیں جو غیر معمولی حالات میں ہوتا ہے۔ اگرچہ نظام مواخات قانونی اعتبار سے تو ختم کردیا گیا مگر اخلاقی دائرے میں موجود رہا۔ لہٰذا اگر کوئی دوست اپنے دوست کے لیے کوئی وصیت کرتا ہے تو اسے ثلث مال تک وصیت کی اجازت ہے۔

الا ان تفعلوا الی اولیئکم معروفا (33: 6) ” الا یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی احسان کرنا چاہو “۔ ان تمام اقدامات کو مضبوطی سے اس کے ساتھ مربوط کردیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ اللہ کا ارادہ اور مشیت ہے اور کان ذلک فی الکتب مسطورا (33: 6) ” یہ قانون کتاب میں لکھا ہوا تھا “۔ لہٰذا دل مطمئن رہیں اور اس اصل کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں جس کی طرف تمام قوانین لوٹتے ہیں۔ یوں اب لوگوں کی معاشی زندگی اپنے قدرتی اصولوں پر استوار ہوجاتی ہے اور نہایت ہی سنجیدگی اور اطمینان سے چلتی ہے۔ اور اس کو ایسے معیار پر نہیں رکھا گیا جو غیر معمولی حالات میں قائم کیے جاسکتے ہیں۔ محدود جماعتوں اور محدود افراد کے اندر۔

لیکن اسلام اس فیاض سرچشمے کو بند بھی نہیں کرتا تاکہ اگر مستقبل میں اسلامی جماعت کو کسی استثنائی حالت میں ضرورت پڑے تو وہ اس جذبہ کو کام میں لائے یعنی ہنگامی حالات میں۔ اس بات کی مناسبت سے کہ یہ سب کچھ پہلے ہی کتاب میں لکھا ہوا تھا اور اللہ کی مشیت نے طے کردیا تھا کہ وہ باقی رہنے والا دائمی قانون بن جائے اور مسلسل طریقہ کار ہو۔ اس حوالے سے نبیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے۔ خصوصاً اولو العزم نبیوں سے کہ وہ اسلامی نظام کے قیام کی ذمہ داری قبول کریں اور اس تحریک پر جمے رہیں لوگوں کے اندر تبلیغ و تحریک کا کام جاری رکھیں اور ان اقوام میں اس دعوت کو جاری رکھیں جن کی طرف ان کو بھیجا گیا ہے تاکہ یہ بات لوگوں کے خلاف حجت ہو کہ ان تک پیغام پہنچا تھا اور وہ اپنی ضلالت و ہدایات کے ذمہ دار ہیں کفر اور ایمان کے ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ پیغمبروں کی تبلیغ کے بعد تو حجت تمام ہوجاتی ہے۔

418