سورہ یوسف: آیت 15 - فلما ذهبوا به وأجمعوا أن... - اردو

آیت 15 کی تفسیر, سورہ یوسف

فَلَمَّا ذَهَبُوا۟ بِهِۦ وَأَجْمَعُوٓا۟ أَن يَجْعَلُوهُ فِى غَيَٰبَتِ ٱلْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ

اردو ترجمہ

اِس طرح اصرار کر کے جب وہ اُسے لے گئے اور انہوں نے طے کر لیا کہ اسے ایک اندھے کنویں میں چھوڑ دیں، تو ہم نے یوسفؑ کو وحی کی کہ "ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتائے گا، یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falamma thahaboo bihi waajmaAAoo an yajAAaloohu fee ghayabati aljubbi waawhayna ilayhi latunabiannahum biamrihim hatha wahum la yashAAuroona

آیت 15 کی تفسیر

اب یہ لوگ انہیں لے کر جا رہے ہیں اس مکروہ سازش پر یہ لوگ عمل پیرا ہورہے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس بچے کے دل میں یہ بات ڈال رہا ہے کہ یہ ایک آزمائش ہے اور یہ ختم ہونے والی ہے اور یہ کہ انشاء اللہ وہ زندہ رہے گا اور اپنے غافل بھائیوں کو اس کے بارے میں خود بتائے گا۔

ان کے درمیان یہ بات طے پاگئی کہ اب یوسف کو کنوئیں میں ڈالنا ہے ، جہاں وہ ان کی نظروں سے دور رہے گا۔ اب ہر شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ اس وقت یوسف پر کیا گزری ہوگی کہ یہ سب بھائی مل کر اس کمزور بچے کو کنوئیں میں ڈال رہے ہوں گ۔ جس کو اپنی موت قریب نظر آرہی ہوگی اور بھائیوں کی نظریں بدل گئی ہوں گی ، اس عالم بےبسی و بےکسی میں اب صرف اللہ کی مدد آتی ہے اور اللہ ان کے دل میں اطمینان اور سکینت ڈال دیتے ہیں کہ تم زندہ رہوگے ، ان کو بتاؤ گے کہ تم نے کیا کیا تھا ، اور ایسے حالات میں جبکہ کنوئیں میں ڈالا جانے والا یہ بچہ اب مملکت کا فرمانروا ہوگا۔

آیت 15 فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ يَّجْعَلُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ یہاں پر اَجْمَعُوْٓا کے بعد عَلٰی کا صلہ محذوف ہے یعنی اس منصوبے پر وہ سب کے سب جمع ہوگئے انہوں نے اس رائے پر اتفاق کرلیا۔وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ ھٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ یہ بات الہام کی صورت میں حضرت یوسف کے دل میں ڈالی گئی ہوگی کیونکہ ابھی آپ کی عمر نبوت کی تو نہیں تھی کہ باقاعدہ وحی ہوتی۔ بہر حال آپ پر یہ الہام کیا گیا کہ ایک دن تم اپنے ان بھائیوں کو یہ بات اس وقت جتلاؤ گے جب انہیں اس کا خیال بھی نہیں ہوگا۔ اس چھوٹے سے فقرے میں جو بلاغت ہے اس کا جواب نہیں۔ چند الفاظ کے اندر حضرت یوسف کی تسلی کے لیے گویا پوری داستان بیان کردی گئی ہے کہ تمہاری جان کو خطرہ نہیں ہے تم نہ صرف اس مشکل صورت حال سے نکلنے میں کامیاب ہوجاؤ گے بلکہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب تم اس قابل ہو گے کہ اپنے ان بھائیوں کو ان کا یہ سلوک جتلا سکو۔

بھائی اپنے منصوبہ میں کامیاب ہوگئے۔ سمجھا بجھا کر بھائیوں نے باپ کو راضی کر ہی لیا۔ اور حضرت یوسف کو لے کر چلے جنگل میں جا کر سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یوسف کو کسی غیر آباد کنویں کی تہ میں ڈال دیں۔ حالانکہ باپ سے یہ کہہ کرلے گئے تھے کہ اس کا جی بہلے گا، ہم اسے عزت کے ساتھ لے جائیں گے۔ ہر طرح خوش رکھیں گے۔ اس کا جی بہل جائے گا اور یہ راضی خوشی رہے گا۔ یہاں آتے ہی غداری شروع کردی اور لطف یہ ہے کہ سب نے ایک ساتھ دل سخت کرلیا۔ باپ نے ان کی باتوں میں آکر اپنے لخت جگر کو ان کے سپرد کردیا۔ جاتے ہوئے سینے سے لگا کر پیار پچکار کر دعائیں دے کر رخصت کیا۔ باپ کی آنکھوں سے ہٹتے ہی ان سب نے بھائی کو ایذائیں دینی شروع کردیں برا بھلا کہنے لگے اور چانٹا چٹول سے بھی باز نہ رہے۔ مارتے پیٹتے برا بھلا کہتے، اس کنویں کے پاس پہنچے اور ہاتھ پاؤں رسی سے جکڑ کر کنویں میں گرانا چاہا۔ آپ ایک ایک کے دامن سے چمٹتے ہیں اور ایک ایک سے رحم کی درخواست کرتے ہیں لیکن ہر ایک جھڑک دیتا ہے اور دھکا دے کر مار پیٹ کر ہٹا دیتا ہے مایوس ہوگئے سب نے مل کر مضبوط باندھا اور کنویں میں لٹکا دیا آپ نے کنویں کا کنارا ہاتھ سے تھام لیا لیکن بھائیوں نے انگلویوں پر مار مار کر اسے بھی ہاتھ سے چھڑا لیا۔ آدھی دور آپ پہنچے ہوں گے کہ انہوں نے رسی کاٹ دی۔ آپ تہ میں جا گرے، کنویں کے درمیان ایک پتھر تھا جس پر آکر کھڑے ہوگئے۔ عین اس مصیبت کے وقت عین اس سختی اور تنگی کے وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کی جانب وحی کی کہ آپ کا دل مطمئن ہوجائے آپ صبر و برداشت سے کام لیں اور انجام کا آپ کو علم ہوجائے۔ وحی میں فرمایا گا کہ غمگین نہ ہو یہ نہ سمجھ کہ یہ مصیبت دور نہ ہوگی۔ سن اللہ تعالیٰ تجھے اس سختی کے بعد آسانی دے گا۔ اس تکلیف کے بعد راحت ملے گی۔ ان بھائیوں پر اللہ تجھے غلبہ دے گا۔ یہ گو تجھے پست کرنا چاہتے ہیں لیکن اللہ کی چاہت ہے کہ وہ تجھے بلند کرے۔ یہ جو کچھ آج تیرے ساتھ کر رہے ہیں وقت آئے گا کہ تو انہیں ان کے اس کرتوت کو یاد دلائے گا اور یہ ندامت سے سر جھکائے ہوئے ہوں گے اپنے قصور سن رہے ہوں گے۔ اور انہیں یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ تو وہ ہے۔ چناچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب برادران یوسف حضرت یوسف ؑ کے پاس پہنچے تو آپ نے تو انہیں پہچان لیا لیکن یہ نہ پہچان سکے۔ اس وقت آپ نے ایک پیالہ منگوایا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر اسے انگلی سے ٹھونکا۔ آواز نکلی ہی تھی اس وقت آپ نے فرمایا لو یہ جام تو کچھ کہہ رہا ہے اور تمہارے متعلق ہی کچھ خبر دے رہا ہے۔ یہ کہہ رہا ہے تہارا ایک یوسف نامی سوتیلا بھائی تھا۔ تم اسے باپ کے پاس سے لے گئے اور اسے کنویں میں پھینک دیا۔ پھر اسے انگلی ماری اور ذرا سی دیر کان لگا کر فرمایا لو یہ کہہ رہا ہے کہ پھر تم اس کے کرتے پر جھوٹا خون لگا کر باپ کے پاس گئے اور وہاں جاکر ان سے کہہ دیا کہ تیرے لڑکے کو بھیڑیئے نے کھالیا۔ اب تو یہ حیران ہوگئے آپس میں کہنے لگے ہائے برا ہوا بھانڈا پھوٹ گیا اس جام نے تو تمام سچی سچی باتیں بادشاہ سے کہہ دیں۔ پس یہی ہے جو آپ کو کنویں میں وحی ہوئی کہ ان کے اس کے کرتوت کو تو انہیں ان کے بےشعوری میں جتائے گا۔

آیت 15 - سورہ یوسف: (فلما ذهبوا به وأجمعوا أن يجعلوه في غيابت الجب ۚ وأوحينا إليه لتنبئنهم بأمرهم هذا وهم لا يشعرون...) - اردو