اس صفحہ میں سورہ Yusuf کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يوسف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
اب یہ لوگ انہیں لے کر جا رہے ہیں اس مکروہ سازش پر یہ لوگ عمل پیرا ہورہے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس بچے کے دل میں یہ بات ڈال رہا ہے کہ یہ ایک آزمائش ہے اور یہ ختم ہونے والی ہے اور یہ کہ انشاء اللہ وہ زندہ رہے گا اور اپنے غافل بھائیوں کو اس کے بارے میں خود بتائے گا۔
ان کے درمیان یہ بات طے پاگئی کہ اب یوسف کو کنوئیں میں ڈالنا ہے ، جہاں وہ ان کی نظروں سے دور رہے گا۔ اب ہر شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ اس وقت یوسف پر کیا گزری ہوگی کہ یہ سب بھائی مل کر اس کمزور بچے کو کنوئیں میں ڈال رہے ہوں گ۔ جس کو اپنی موت قریب نظر آرہی ہوگی اور بھائیوں کی نظریں بدل گئی ہوں گی ، اس عالم بےبسی و بےکسی میں اب صرف اللہ کی مدد آتی ہے اور اللہ ان کے دل میں اطمینان اور سکینت ڈال دیتے ہیں کہ تم زندہ رہوگے ، ان کو بتاؤ گے کہ تم نے کیا کیا تھا ، اور ایسے حالات میں جبکہ کنوئیں میں ڈالا جانے والا یہ بچہ اب مملکت کا فرمانروا ہوگا۔
اب ہم یوسف کو اس اندھے کنوئیں میں چھوڑ کر ذرا کنعان چلتے ہیں۔ یہ اب اللہ کی حمایت اور کفالت میں ہیں جب تک کہ اللہ ان کو وہاں سے نکال نہیں دیتا۔ اب پردہ گرتا ہے اور یہ لوگ اس قدر برا کام کرنے کے بعد اب والد کے سامنے کھڑے ہیں ذرا ملاحظہ کریں ان کی بہانہ سازی :
شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے۔ اور کہا " ابا جان ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے لگ گئے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آکر اسے کھا گیا۔ آ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچے ہی ہوں۔ اور وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگا کرلے غائے تھے۔ یہ سن کر ان کے باپ نے کہا " بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا۔ اچھا صبروں کروں گا اور بخوبی صبر کروں گا ، جو بات تم بنا رہے ہو ، اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جاسکتی ہے۔
ان کے دل میں کینے کی آگ جل رہی تھی اور یہ لوگ جھوٹ پر جھوٹ گھڑ رہے تھے۔ اگر ان کو اپنے اعصاب پر ذرا بھی کنٹرول ہوتا تو وہ ایسا ہرگز نہ کرتے ، وہ اس مکروہ سازش کا آغاز ہی نہ کرتے اور جب حضرت یعقوب نے ان پر اعتماد کرکے یوسف کو ان کے ساتھ رخصت کردیا تھا تو ان کو باز آجانا چاہیے تھا۔ لیکن یوسف اب ان کی برداشت سے باہر ہوگئے تھے۔ اور وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے اس سیاہ کارنامے کے سرانجام دینے کے لیے یہ بہترین موقعہ ہے۔ پھر ان کو خود حضرت یعقوب کی زبانی بھیڑئیے کا بہانہ بھی مل گیا تھا اور ان کی جلد بازی اور کچے پن کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہوں نے باپ کے اندیشے کے سوا کوئی اور بہانہ بھی نہ بنایا ، کہ کل ہی تو حضرت یعقوب اس بہانے سے انہیں ڈراتے تھے اور یہ لوگ کہتے تھے کہ ہم تو بڑا جتھا ہیں۔ اب وہی بہانہ بنا رہے ہیں۔ بظاہر یہ بہانہ تو معقول نہیں ہے کہ رات کو جس بات سے انہیں متنبہ کیا گیا تھا وہی بہانہ صبح کو وہ پیش کردیں۔ پھر ان کے سطحی پن کا اس سے زیادہ اور ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ یوسف کی قمیص پر وہ خون لگا کرلے آئے۔ اور ظاہر یہ ہے کہ یہ بالکل بادی النظر میں ایک چھوٹا سا بہانہ تھا ، لیکن انہوں نے یہ جھوٹ پیش کیا : وَجَاۗءُوْٓا اَبَاهُمْ عِشَاۗءً يَّبْكُوْنَ ۔ قَالُوْا يٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَكَلَهُ الذِّئْبُ : شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے۔ اور کہا " ابا جان ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے لگ گئے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آکر اسے کھا گیا۔
اور وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ بادی النظر میں نظر آتا ہے کہ یہ بہانہ جھوٹا ہے اور مشکوک آدمی تو نظر ہی یوں اتا ہے کہ چور کی داڑھی میں تنکا : چناچہ کہتے ہیں : وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ : آ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچے ہی ہوں۔
حضرت یعقوب نے حالات کو بھانپ لیا ، خود نبوت نے انہیں بتا دیا کہ یوسف کو کم از کم بھیڑئیے نے نہیں کھایا۔ انہوں نے کوئی اور ہی سازش کی ہے۔ یہ جو بتا رہے ہیں وہ واقعہ نہیں ہے جو بتا رہے ہیں ، یہ تو نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے صرف یہ تبصرہ کیا کہ تمہارے نفسوں نے تمہارے لیے کوئی بڑا برا کام آسان بنا دیا ہے اور اس کا ارتکاب تم نے کرلیا ہے اور یہ کہ ان کے لیے صبر کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ جزع و فزع ان کے شایان شان نہیں ہے اور یہ جھوٹ بادی النظر میں جھوٹ ہے جو یہ لوگ گھڑ رہے ہیں۔ اس کے بارے میں میں اللہ ہی سے شکایت کرسکتے ہیں۔
اب ہم جلدی سے واپس ہوتے ہیں کہ اندھے کنوئیں میں یوسف (علیہ السلام) کس حال میں ہیں۔ اس طرح اس قصے کی پہلی کڑی ختم ہوتی ہے :
یہ اندھا کنواں شارع عام پر تھا ، شارع عام کے ارد گرد لوگ ہمیشہ پانی کی تلاش میں بوقت ضرورت نکلتے ہی رہتے ہیں۔ خصوصاً بارش کا پانی بھی ایسے کنوؤں میں جمع ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات یہ کنواں خشک بھی ہوتا ہے۔
وجاءت سیارۃ " ادھر ایک قافلہ آیا " عربی میں قافلے کو سیارہ اس لیے کہتے ہیں کہ سیر کے معنی چلنے کے ہیں اور قافلہ بھی ایک طویل سفر پر ہوتا ہے ، اسے نشانہ حوالہ اور فنامہ بھی کہتے ہیں۔
فارسلوا واردھم " اور اس نے اپنے سقے کو پانی لانے کے لیے بھیاج " وارد بمعنی سقہ اسے وارد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ پانی ان کی طرف لاتا ہے۔
فادلی دلو " سقے نے کنوئیں میں ڈول ڈالا " تاکہ وہ دیکھے کہ کنوئیں میں پانی ہے۔ اب یہاں سیاق کلام میں اس بات کو چھوڑ دیا جاتا ہے کہ حضرت یوسف ڈول کے ساتھ لٹک گئے کیونکہ یہ بات بالکل عیاں ہے اور یہاں قارئین کو ایک حیران کن صورت حال سے دوچار کرنا مطلوب ہے۔ یہ کسی بھی قصے کا فنی کمال ہوتا ہے۔
قال یبشری ھذا غلام۔ (یوسف کو دیکھ) مبارک ہو یہاں تو ایک لڑکا ہے۔ یہاں قصے کی مزید تفصیلات کو حذف کردیا جاتا ہے کہ یوسف کس قدر خوش ہوئے ، یا ان کے تاثرات و حالات کیا تھے ، صرف یوسف کے انجام کی طرف اشارہ آجاتا ہے۔
واسروہ بضاعۃ " ان لوگوں نے اس کو مال تجارت سمجھ کر چھپا لیا " انہوں نے اسے نہایت ہی خفیہ سامان تجارت سمجھا۔ ارادہ کرلیا کہ یہ غلام کی حیثیت میں بہت ہی اچھا فروخت ہوگا ، چونکہ در حقیقت وہ غلام تو تھا نہیں اس لیے انہوں نے اسے لوگوں کی نظروں سے چھپا لیا۔ اور چونکہ چوری کا مال تھا ، اس لیے کم قیمت پر فروخت کردیا اور اونے پونے سکوں کے عوض۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍۢ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُوْدَةٍ ۚ وَكَانُوْا فِيْهِ مِنَ الزَّاهِدِيْنَ ۔ آخر کار انہوں نے تھوڑی سی قیمت پر چند درہموں کے عوض اسے بیچ ڈالا اور وہ اس کی قیمت کے معاملہ میں کچھ زیادہ کے امیدوار نہ تھے۔ غرض اللہ کے اس برگزیدہ نبی کے لیے یہ حالات نہایت ہی حوصلہ شکن تھے۔
درس نمبر 107 ایک نظر میں
یہ سبق اس قصے کے دوسرے حلقے پر مشتمل ہے۔ اب یوسف (علیہ السلام) مصر پہنچ گئے ہیں۔ غلام کی طرح بک گئے ہیں ، لیکن جس شخص نے اسے خریدا ، اس نے دیکھ لیا کہ یہ بچہ نہایت ہی ہونہار ہے۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ چناچہ اس نے اپنی بیوی کو ان کے بارے میں ہدایات دیں کہ یہ بچہ غیر معمولی ہے۔ یہاں سے حضرت یوسف کے خواب کی تعبیر شروع ہوتی ہے۔
لیکن بلوغ تک پہنچتے پہنچے حضرت یوسف کے لیے ایک دوسرے قسم کا امتحان ابھی باقی تھا۔ حضرت یوسف کو اللہ نے منصب رسالت کے شایان شان علم و حکمت عطا کیا ہوا تھا اور یہ آزمائش ایسی تھی کہ محض اللہ کا فضل و کرم ہی اس امتحان میں کسی کو بچا سکتا تھا۔ حضرت یوسف اعلی طبقات کے آزادانہ ماحول میں پل رہے تھے۔ ایسے طبقات بالعموم عیاشی اور فسق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان طبقات کے اکثر نوجوان بےراہ روی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ حضرت یوسف محض فضل الہی سے اس گندے ماحول سے پاک دامن بن کر نکلے ۔ ان کے لیے یہ مشقت سابقہ آزمائشوں سے کچھ کم نہ تھی۔
درس نمبر 107 تشریح آیات
21 ۔۔۔ تا ۔۔۔ 34
تفسیر آیت 21: ابھی تک ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ حضرت کو کس نے خریدا۔ لیکن قدرے بعد میں یہ بتایا جائے گا کہ خریدار عزیز مصر ہے۔ کہا گیا ہے کہ وہ مصر کے اکابر میں سے تھا۔ لیکن ہمیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت یوسف کو قدم جمانے کا موقع مل گیا۔ اب مصیبت اور مشقت کے دن بیت گئے اور اب ان کے لیے اچھے سے اچھے دن آنے والے ہیں
اکرمی مثواہ " اس کو اچھی طرح رکھنا " مثوی ثوی سے اسم ظرف ہے یعنی رات گزارنے کی جگہ اور ٹھہرنے کی جگہ۔ اکرام مثوی سے مراد خود ان کا اکرام ہے۔ لیکن اس کے مقام اکرام کرو ، زیادہ مبالغہ ہے اس سے کہ کوئی کہے اس کا اکرام کرو۔ یعنی صرف اس کی ذات کا اکرام ہی نہیں بلکہ اس کی بجائے قیام کا بھی اکرام ہو۔ اب ایک تو اس کا جائے قیام اندھے کنویں میں تھا جو ہر طرف سے خطرات میں گھرا ہوا تھا اور ہر طرف مصائب ہی مصائب تھے اور اب یہاں ان کا تمکن ہے۔
عزیز مصر اپنی بیوی کو یہ بھی بتا دیتا ہے کہ اس بچے سے اس کی کیا امیدیں وابستہ ہیں ؟
عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا : بعید نہیں کہ یہ ہمارے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔ جس طرح بعض روایات میں آتا ہے شاید اس کے ہاں کوئی بیٹآ نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس شخص نے یہ عندیہ دیا کہ اگر یہ بچہ صاحب فراست نکلا تو اسے بیٹآ بنا لیں گے ، جس طرح حضرت یوسف کے مزاج اور طور طریقوں سے معلوم ہوتا تھا ، بعد میں وہ نہایت ہی رجل رشید ثابت ہوئے۔
اب یہاں قصے کے واقعات کو روک لیا جاتا ہے اور درمیان میں ایک مختصر سا تبصرہ آتا ہے اور بتایا جاتا ہے۔ یہ تدابیر اللہ نے اس لیے اختیار کیں تاکہ حضرت یوسف کے قدم مصر میں جم جائیں۔ اب حضرت یوسف نے اس خریدار کے دل اور اس کے خاندان میں قدم جما لیے ہیں اور ان کی ترقی کا دور شروع ہوچکا ہے اور آگے جا کر ان کو اس بلند سوسائٹی میں رکھ کر معاملہ فہمی کے مواقع فراہم ہوں گے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے تمام امور پر مکمل کنٹرول حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ کے منصوبے اسی طرح نافذ ہوتے ہیں جس طرح اللہ چاہتا ہے۔
وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۡ وَلِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ۭ وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِهٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ : اس طرح ہم نے یوسف کے لیے اس سرزمین میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔ اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے۔ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
یہ کس طرح ؟ دیکھو یوسف کے بھائیوں نے ان کے خلاف کیا سازش کی اور اللہ نے ان کے لیے کیا سوچا اور اہا۔ اور اللہ نے جو چاہا وہ کامیاب رہا۔ کیونکہ اللہ کو تمام امور پر کنٹرول حاصل ہے لہذا ان کی تدابیر دھری کی دھری رہ گئیں اور حضرت یوسف کے بارے میں اللہ کا منصوبہ کامیاب رہا۔
مگر اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے کہ جو اللہ چاہتا ہے ، وہ ہوتا ہے اور لوگوں کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
حضرت یوسف کو اللہ نے یہ صلاحیت دی کہ وہ ہر معاملے میں صحیح فیصلہ کرنے ، واقعات کے نتائج وہ پہلے سے معلوم کرلیتے ، خوابوں کی تعبیر وہ بہت ہی اچھی طرح جانتے۔ تاویل احادیث اور تاویل رویا کا مفہوم عام بھی ہوسکتا ہے یعنی زندگی کے تمام معاملات کو وہ اچھی طرح سلجھاتے تھے اور یہ صلاح ان کو ان کی نیکی اور حسن سلوک کی وجہ سے دی گئی تھی اور اللہ تعالیٰ محسنین کو اسی طرح جزا دیتا ہے۔