سورہ روم: آیت 25 - ومن آياته أن تقوم السماء... - اردو

آیت 25 کی تفسیر, سورہ روم

وَمِنْ ءَايَٰتِهِۦٓ أَن تَقُومَ ٱلسَّمَآءُ وَٱلْأَرْضُ بِأَمْرِهِۦ ۚ ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِّنَ ٱلْأَرْضِ إِذَآ أَنتُمْ تَخْرُجُونَ

اردو ترجمہ

اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں پھر جونہی کہ اُس نے تمہیں زمین سے پکارا، بس ایک ہی پکار میں اچانک تم نکل آؤ گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamin ayatihi an taqooma alssamao waalardu biamrihi thumma itha daAAakum daAAwatan mina alardi itha antum takhrujoona

آیت 25 کی تفسیر

“۔ ومن ایتہ ان ۔۔۔۔۔۔۔۔ کل لہ قنتون (30: 25 – 26)

آسمانوں اور زمین کا انتظام و قیام نہایت ہی سلیم و متین انتظام ہے جس کی حرکات متعین ہیں اور ان میں ایک سیکنڈ کی تقدیم و

تاخیر نہیں ہوتی۔ یہ اللہ جل شانہ کی تدبیر سے ہے۔ کوئی مخلوق یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ یا اس کے سوا کوئی اور یہ انتظام کر رہا ہے اور کوئی عقلمند شخص اس بات کا قائل نہیں ہوسکتا کہ یہ سب کچھ بغیر کسی کرنے والے مدبر کے ہو رہا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ اللہ کے معجزات میں سے ایک معجزہ نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ یہ زمین و آسمان اللہ کے کھڑے کرنے سے کھڑے ہیں۔ اللہ کے احکام کی تعمیل کر رہے ہیں ، اس کے مطیع فرمان ہیں۔ ان میں کوئی سرتابی ، انحراف اور اضطراب نہیں ہے۔

ثم اذا دعا کم ۔۔۔۔۔ تخرجون (30: 25) ” پھر جونہی کہ اس نے تمہیں زمین سے پکارا پس ایک ہی پکار میں اچانک تم نکل آؤ گے “۔ جو سائنس دان بھی اللہ کے اس نظام اور ان اندازوں اور ان قدرتوں پر غور کرے وہ اللہ کی اس دعوت کے جواب میں لبیک ہی کہہ سکتا ہے کہ جب اللہ پکارے گا تو لوگ خود کار طریقوں سے نکل آئیں گے۔ اب یہاں اس باین اور مضمون کا خاتمہ آتا ہے اور اس میں بتایا جاتا ہے کہ انسان ، حیوان ، نباتات و جمادات سب کے سب اللہ کے مطیع فرمان ہیں۔

ولہ من فی السموت والارض کل لہ قنتون (30: 26) ” اور آسمان و زمین میں جو ہیں اس کے بندے ہیں۔ سب کے سب اس کے تابع فرمان ہیں “۔ مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان میں جو مخلوق بھی ہے وہ اللہ کے بندے ہیں ، طوعاً و کرہا مطیع فرمان ہیں اور یہ سب کچھ اللہ کی سنت کے مطابق چلتے ہیں اور ان میں نہ مختلف ہو سکتا ہے اور نہ انحراف ہو سکتا ہے۔ سب چیزیں اللہ کی سنت اور مشیت کی محکوم ہیں۔ دینی اعتبار سے وہ مومن ہوں یا کافر ہوں۔ اگرچہ ان کا دل اور دماغ کافر ہوتا ہے لیکن ان کا پورا جسم اور ان کے گرد پھیلی ہوئی یہ پوری کائنات اللہ کی مطیع ہے۔ جس طرح کائنات کی دوسری اشیاء سنت الہیہ کے لیے قانت اور مطیع ہیں اسی طرح انسان بھی ہے۔ رب کائنات کا یہ گہرا ، طویل اور عظیم سفر آخری اور اہم بات پر ختم ہوتا ہے کہ ایک دن تم نے اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے لیکن تم اس دن سے غافل ہو۔

آیت 25 وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ تَقُوْمَ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِہٖ ط ”ہماری زمین ‘ سورج ‘ نظام شمسی اور چھوٹے بڑے بیشمار ستاروں اور سیاروں کا ایک عظیم الشان اور لامتناہی نظام بھی اس کی قدرت کے مظاہر میں سے ہے۔ آج کا انسان جانتا ہے کہ اس نظام کے اندر ایسے ایسے ستارے بھی ہیں جن کے مقابلے میں ہمارے سورج کی جسامت کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ یہ اتنے بڑے بڑے اجرام سماویہ اللہ ہی کے حکم سے اپنے اپنے مدار پر قائم ہیں اور یوں اس کی مشیت سے کائنات کا یہ مجموعی نظام چل رہا ہے۔ثُمَّ اِذَا دَعَاکُمْ دَعْوَۃً ق مِّنَ الْاَرْضِق اِذَآ اَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ ”قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ کی شان ”کُن فیکُون“ کا ظہور ہوگا اور اس کے ایک ہی حکم سے پوری نسل انسانی زمین سے باہر نکل کر اس کے حضور حاضر ہوجائے گی۔

آیت 25 - سورہ روم: (ومن آياته أن تقوم السماء والأرض بأمره ۚ ثم إذا دعاكم دعوة من الأرض إذا أنتم تخرجون...) - اردو