اس صفحہ میں سورہ Ar-Room کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الروم کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 25 وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ تَقُوْمَ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِہٖ ط ”ہماری زمین ‘ سورج ‘ نظام شمسی اور چھوٹے بڑے بیشمار ستاروں اور سیاروں کا ایک عظیم الشان اور لامتناہی نظام بھی اس کی قدرت کے مظاہر میں سے ہے۔ آج کا انسان جانتا ہے کہ اس نظام کے اندر ایسے ایسے ستارے بھی ہیں جن کے مقابلے میں ہمارے سورج کی جسامت کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ یہ اتنے بڑے بڑے اجرام سماویہ اللہ ہی کے حکم سے اپنے اپنے مدار پر قائم ہیں اور یوں اس کی مشیت سے کائنات کا یہ مجموعی نظام چل رہا ہے۔ثُمَّ اِذَا دَعَاکُمْ دَعْوَۃً ق مِّنَ الْاَرْضِق اِذَآ اَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ ”قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ کی شان ”کُن فیکُون“ کا ظہور ہوگا اور اس کے ایک ہی حکم سے پوری نسل انسانی زمین سے باہر نکل کر اس کے حضور حاضر ہوجائے گی۔
آیت 27 وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ ط ”یہ بعث بعد الموت کے بارے میں عقلی دلیل ہے جو قرآن میں متعدد بار دہرائی گئی ہے۔ معمولی سمجھ بوجھ کا انسان بھی اس دلیل کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ کسی بھی کام کا پہلی دفعہ کرنا دوسری دفعہ کرنے کے مقابلے میں نسبتاً مشکل ہوتا ہے ‘ اور جب کسی کام کو ایک دفعہ سر انجام دے دیا جائے اور اس سے متعلق تمام مشکلات کا حل ڈھونڈ لیا جائے تو اسی کام کو دوسری مرتبہ کرنا نسبتاً بہت آسان ہوجاتا ہے۔ اہل عرب جو قرآن کے مخاطب اول تھے ‘ وہ اللہ کے منکر نہیں تھے۔ وہ تسلیم کرتے تھے کہ ان کا خالق اور اس پوری کائنات کا خالق اللہ ہی ہے۔ ان کے اس عقیدے کا ذکر قرآن میں بہت تکرار سے ملتا ہے۔ مثلاً : وَلَءِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ط لقمٰن : 25 ”اور اگر آپ ﷺ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے !“ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں ان لوگوں کو خالص منطقی اور عقلی سطح پر یہ نکتہ سمجھانا مقصود ہے کہ جس اللہ کے بارے میں تم مانتے ہو کہ وہ زمین و آسمان کا خالق ہے اور خود تمہارا بھی خالق ہے اس کے بارے میں تمہارے لیے یہ ماننا کیوں مشکل ہو رہا ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ بھی پیدا کرے گا ؟ جس اللہ نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہ آخر دوسری مرتبہ ایسا کیوں نہیں کرسکے گا ؟ جبکہ کسی بھی چیز کو دوسری مرتبہ بنانا پہلے کی نسبت کہیں آسان ہوتا ہے۔وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ”یہاں پر اللہ تعالیٰ کے لیے ”مثل“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ لیکن مثل یا مثال کا جو مفہوم ہمارے ذہنوں میں ہے اس کا اللہ کے بارے میں تصور کرنا مناسب اور موزوں نہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ”مثل“ کا ترجمہ ”شان“ یا ”صفت“ سے کیا جائے کہ اس کی شان بہت اعلیٰ اور بلند ہے یا اس کی صفت سب سے برتر ہے۔
ہَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَآءٌ ”ظاہر ہے کوئی آقا اپنے کسی غلام کو کبھی بھی اپنی ملکیت اور اپنی جائیداد میں اس طرح تصرف کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کا حق اور اختیار خود اس کے برابر ہوجائے۔ گویا یہ امر محال ہے۔تَخَافُوْنَہُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ ط ”یعنی کیا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جیسے خدشات اور اندیشے تم اپنی ذات اور اپنے مال و اسباب کے بارے میں رکھتے ہو ان لونڈی غلاموں کے بارے میں بھی تمہیں ایسے ہی اندیشے لاحق ہوئے ہوں ؟ تم لوگ اپنے آپ ‘ اپنی اولاد ‘ اپنی ملکیت کے بارے میں تو ہر وقت متفکرّ رہتے ہو کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے ‘ ویسا نہ ہوجائے ‘ مگر کبھی تمہیں اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بارے میں بھی ایسی ہی سوچوں نے پریشان کیا ہے ؟ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ”یعنی تم لوگ اگر کچھ بھی عقل رکھتے ہو تو تمہیں اس مثال سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ جب تم لوگ اپنے غلاموں کو اپنے برابر بٹھانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تو پھر تم یہ کیسے سوچ لیتے ہو کہ اللہ اپنی مخلوق کو اپنے برابر کرلے گا ؟ تم لوگ خود بھی تسلیم کرتے ہو کہ بڑا معبود اللہ ہی ہے اور تمہارے بنائے ہوئے شریک چھوٹے معبود ہیں تو تم چھوٹے معبودوں کے بارے میں کیسے گمان کرلیتے ہو کہ اللہ انہیں اپنے اختیارات کا مالک بنا دے گا اور ان کی سفارش اللہ کو مجبور کر دے گی ؟ تمہارے یہ من گھڑت معبود چاہے ملائکہ میں سے ہوں یا انبیاء اور اولیاء اللہ میں سے ‘ وہ سب کے سب اللہ کی مخلوق ہیں اور مخلوق میں سے یہ لوگ خالق کے برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟
فَمَنْ یَّہْدِیْ مَنْ اَضَلَّ اللّٰہُ ط ”اگر کسی کی ہٹ دھرمی کی سزا کے طور پر اللہ ہی نے اس کی گمراہی پر مہر ثبت کردی ہو تو وہ ہدایت کیسے پاسکتا ہے ؟وَمَا لَہُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ ”اگلی آیات اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ ان میں دین کی بنیاد اور اصل روح بیان ہوئی ہے۔
آیت 30 فَاَقِمْ وَجْہَکَ للدِّیْنِ حَنِیْفًا ط ”تم اپنے کردار میں ایسی توحیدی شان پیدا کرو کہ تمہارا ایک ایک عمل گویا اس دعوے کی گواہی بن جائے : قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الانعام ”آپ ﷺ کہیے کہ میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے“۔ اور دنیا کے تمام جھمیلوں کو چھوڑ کر اپنی توجہ ذات باری تعالیٰ کی طرف اس انداز سے مرکوز کردو کہ تمہاری زندگی کے شب و روز میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان الفاظ کا رنگ جھلکتا نظر آئے : اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ الانعام ”میں نے تو اپنا رخ کرلیا ہے یکسو ہو کر اس ہستی کی طرف جس نے آسمان و زمین کو بنایا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔“فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا ط ”یہی فطرت سلیمہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تخلیق کی ہے۔ نسل انسانی کا ہر بچہ اسی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کی اس فطرت پر کچھ اور رنگ چڑھا دیتے ہیں یا اس کے ماحول کی وجہ سے اس کا رخ کسی اور طرف مڑ جاتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے : کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ 1”ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے ‘ پھر اس کے والدین اسے یہودی ‘ نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔“لاَ تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ”یعنی اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ یوں بھی کیا ہے : ”اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو تبدیل نہ کیا جائے“۔ یا ”اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے“۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے اس کو بگاڑنا اور مسخ کرنا جائز نہیں ہے۔
آیت 31 مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ وَاتَّقُوْہُ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ”یہاں مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ کے الفاظ میں گویا پچھلی آیت کے مضمون فَاَقِمْ وَجْہَکَ للدِّیْنِ حَنِیْفًا ط کا ہی تسلسل ہے۔ پچھلی آیت میں صیغہ واحد میں حضور ﷺ سے خطاب تھا اور اب جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے اس حکم میں امت کو بھی شامل کرلیا گیا ہے۔ قرآن کے اس اسلوب کا قبل ازیں کئی بار ذکر ہوچکا ہے کہ مکی سورتوں میں اکثر مقامات پر حضور ﷺ سے صیغہ واحد کے پردے میں اصل خطاب امت سے ہی ہوتا ہے۔
آیت 32 مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا ط ”فَرَقَکے معنی جدا کرنا اور پھاڑ دینا کے ہیں ‘ جبکہ فَرَّقَ میں اس بنیادی معنی پر مستزاد کسی چیز کو کاٹ دینا ‘ توڑ دینا اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیناکا مفہوم بھی شامل ہوجاتا ہے۔ سورة البقرۃ میں ارشاد ہوا : وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ وَاَغْرَقْنَا اٰلَ فِرْعَوْنَ آیت 50 ”اور یاد کرو جب کہ ہم نے تمہاری خاطر سمندر کو پھاڑ دیا پھر تمہیں بچالیا اور فرعونیوں کو غرق کردیا“۔ اس طرح فرق یا فرقہ کے معنی کسی چیز کا کٹا ہوا حصہ یا ٹکڑا کے ہیں۔ جیسا کہ سورة الشعراء کی اس آیت میں ہے : فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ ”تو وہ سمندر پھٹ گیا ‘ پھر ہوگیا ہر ٹکڑا ایک بہت بڑے پہاڑ کی مانند۔“اس اعتبار سے دین کو پھاڑنے اور ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ دین کے نام لیواؤں نے اپنی اطاعت کو اس طرح منتشر کردیا کہ زندگی کے ایک حصے میں تو اللہ کی اطاعت کرتے رہے ‘ جبکہ کسی دوسرے معاملے میں کسی اور کی بات مانتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا نظام زندگی منتشر ہو کر رہ گیا۔ اس سلسلے میں اللہ کا حکم بہت واضح ہے : وَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ط الاعراف : 29 ”اور اسی کو پکارو دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے“۔ یعنی اللہ کی اطاعت کے متوازی کسی دوسرے کی اطاعت قابل قبول نہیں کہ کچھ احکام اللہ کے مان لیے جائیں اور کچھ میں کسی دوسرے کی پیروی کی جائے۔ ہاں اللہ کی اطاعت کے تابع رہ کر کسی اور کی اطاعت میں کوئی حرج نہیں۔ مثلاً والدین کی اطاعت کرنا ‘ اساتذہ کا کہنا ماننا اور حکامّ کا فرمانبردار بن کر رہنا ضروری ہے ‘ مگر اس وقت تک جب تک کہ ان میں سے کوئی اللہ کی معصیت کا حکم نہ دے۔ اس سلسلے میں نبی مکرم ﷺ نے بہت واضح اصول بیان فرما دیا ہے : لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ 1 یعنی مخلوق کی ایسی اطاعت نہیں کی جائے گی جس سے خالق کی نافرمانی ہوتی ہو۔ کُلُّ حِزْبٍم بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ ”ایک گروہ دین کے ایک حصے پر عمل کر رہا ہے ‘ دوسرے گروہ نے اپنی پسند کے کچھ اور احکام کو اپنی پیروی کے لیے منتخب کرلیا ہے اور تیسرے نے کوئی اور راستہ نکال لیا ہے۔ غرض مختلف گروہوں نے دین کے مختلف حصوں کو آپس میں بانٹ لیا ہے اور ہر گروہ اپنے طریقے میں مگن ہے اور اس پر اترا رہا ہے ‘ حالانکہ ان میں سے کوئی گروہ بھی پورے دین پر عمل پیرا نہیں ہے۔