سورہ نحل: آیت 57 - ويجعلون لله البنات سبحانه ۙ... - اردو

آیت 57 کی تفسیر, سورہ نحل

وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ ٱلْبَنَٰتِ سُبْحَٰنَهُۥ ۙ وَلَهُم مَّا يَشْتَهُونَ

اردو ترجمہ

یہ خدا کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں سبحان اللہ! اور اِن کے لیے وہ جو یہ خود چاہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WayajAAaloona lillahi albanati subhanahu walahum ma yashtahoona

آیت 57 کی تفسیر

آیت نمبر 57 تا 59

عقائد کے بارے میں انسان کا فکری انتشار اور فساد صرف عقائد کے حدود تک ہی محدود نہیں رہا کرتا بلکہ یہ زندگی کے پورے طور طریقوں اور رسم و رواج میں سرایت کرجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظریہ زندگی کے لئے واحد محرک ہوتا ہے۔ چاہے یہ کسی کی زندگی میں یہ نظریہ بادی النظر میں محرک نظر آئے یا پس منظر میں ہو۔ دور جاہلیت کے عرب یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ کی بیٹیاں ہیں یعنی فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ لیکن ان کی اپنی حالت یہ تھی کہ وہ اپنے گھر میں بیٹی کی ولادت کو بہت ہی برا خیال کرتے تھے۔ ان کے خیال میں بیٹیاں اللہ کے لئے ہیں اور وہ چونکہ بیٹوں کو پسند کرتے ہیں اس لیے بیٹے ان کے ہیں۔

ان کے اس نظریاتی فساد ہی کی وجہ سے ان کے ہاں یہ رسم بد پڑگئی کہ وہ بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے یا اگر زندہ رکھ لیتے تو ان کو نہایت ہی ذلت ، بدسلوکی اور کم تر درجے میں رکھتے اور ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے۔ ان کا خیال تھا کہ لڑکیوں کی وجہ سے ان کو خفت اٹھانی پڑے گی اور ان کی مالی حالت گر جائے گی کیونکہ عورتیں نہ جنگ کرسکتی ہیں اور نہ بہت زیادہ کمائی کے لائق ہوتی ہیں۔ بعض اوقات لوٹ مار اور ڈاکے میں عورتوں کو باندیاں بنا کرلے جاتے تھے یا وہ خاندان پر بوجھ بن جاتی تھیں۔ یوں خاندان کی مالیات پر بوجھ ہوتیں ، اس لیے وہ انہیں پسند نہ کرتے۔

جبکہ صحیح نظریات ان سب باتوں سے بہت دور ہیں۔ صحیح عقیدہ یہ ہے کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ سب کا رازق ہے۔ ہر شخص کو وہی بات پیش آتی ہے جو اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ انسان کو اللہ نے ذی شرف پیدا کیا ہے اور اس میں مرد عورت برابر ہیں ، پھر عوت کے بغیر نہ انسانیت جاری رہ سکتی اور نہ مکمل ہو سکتی جیسا کہ اللہ کا حکم ہے۔

یہاں جاہلیت کے رسم و رواج کی خوب تصویر کشی کی جاتی ہے۔

واذا بشر احدکم بالانثی ظل وجھہ مسودا وھو کظیم (16 : 57) “ جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ نہایت ہی کبیدہ خاطر ہوتا ہے ”۔ یعنی حزن و ملال سے اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے غم کو چھپانے کی سعی لا حاصل کرتا ہے ۔ وہ اس ولادت کو ایک مصیبت سمجھتا ہے لیکن در حقیقت وہ اللہ کا عطیہ ہوتی ہے جیسا کہ بینا ایک عطیہ ہوتا ہے کیونکہ انسان بذات خود رحم مادر میں نہ مرد بنا سکتا ہے اور نہ عورت پیدا کرسکتا ہے۔ نہ انسان خود جنین میں حیات پھونک سکتا ہے نہ انسان ایک سادہ نطفے سے انسان تیار کرسکتا ہے۔ اگر انسان صرف انسانی زندگی کی تخلیق پر ہی غور کرے کہ کس طرح نطفے سے لے کر ایک تندرست و توانا انسان تک وہ نشوونما پاتی ہے تو بچہ چاہے مرد ہو یا عورت ہو ، وہ خوشی خوشہ اس کا استقبال کرے۔ سوچنے والے انسان کے لئے تو ہر بچہ اللہ کا معجزہ ہے اور یہ معجزہ بار بار دہرایا جاتا ہے لیکن بار بار دہرائے جانے کے باوجود اس معجزے کی حقیقت میں کوئی فرق نہیں آتا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر انسان صحیح الفکر ہو تو وہ لڑکی کی پیدائش کی اطلاع پا کر نہ غمگین ہو اور نہ لوگوں سے چھپتا پھرے۔ اس لیے کہ لڑکی کی تخلیق میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ اس معاملے میں ایک باپ تو اس عظیم معجزہ کے صدور میں محض ایک پرزہ ہے اور بس۔

اب اللہ کی حکمت کو دیکھیں اور یہ کہ معجزۂ حیات کا صدور کس طرح ہوتا ہے ؟ بادی النظر میں یہ بات نظر آتی ہے کہ انسان کو اللہ ایک مرد اور عورت کے ملاپ کے ساتھ پیدا کرتا ہے ، حیات انسانی کے وجود میں آنے کے لئے جس طرح مرد ضروری ہے ، اسی طرح عورت بھی ضروری ہے بلکہ مرد کے مقابلے میں عورت کی ضرورت زیادہ ہے کیونکہ بچے کی نشوونما کے لئے تو عورت زیادہ ضروری اور اہم ہے جبکہ مرد کے لئے بھی وہ جائے قرار ہے۔ تو پھر عورت کی پیدائش پر کسی کا چہرہ کیوں سیاہ ہوجاتا ہے اور پھر قوم سے کیوں بھاگتا پھرتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے کہ حیات بشر کا تسلسل عورت کے بغیر ممکن نہیں ہے ؟

ظاہر ہے کہ سوچ ، نظریہ اور عقیدے کا انحراف اور فساد معاشرے کے اندر رسم و رواج اور لوگوں کے طرز عمل پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

الاساء ما یحکمون (16 : 59) “ دیکھو کیسے میرے حکم ہیں جو یہ لگاتے ہیں ”۔ اور ان کے یہ فیصلے اور اندازے کس قدر غلط ہیں

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی سوسائٹی کے اجتماعی تصورات اور سوسائٹی کی اجتماعی اخلاقیات کو درست کرنے کے لئے اسلامی نظریہ حیات کی اہمیت کیا ہے ؟ نیز اسلام نے عورت کے بارے میں انسانی نقطہ نظر میں کس قدر عظیم انقلاب برپا کیا ہے اور عورت کو کس قدر شرف عطا کیا۔ نہ صرف عورت کو بلکہ پوری انسانیت کو شر عطا کیا گیا ہے۔ کیونکہ دور جاہلیت میں نہ یہ کہ صرف عورت ذلیل تھی بلکہ انسانیت بذات خود ذلیل تھی۔ کیا یہ بات ظاہر نہیں ہے کہ عورت انسانیت کا اہم عنصر ہے اور اس کی توہین بذات خود ذلیل تھی۔ اس کو زندہ درگور کرنا انسانیت کا دفن کرنا ہے۔ کیا یہ فعل زندگی کے ایک اہم حصے کو ضائع کرنا نہ تھا اور اللہ کی حکمت تخلیق کے ساتھ جنگ نہ تھی۔ اللہ کی حکمت تخلیق تو یہ ہے کہ نہ صرف انسان بلکہ ہر زندہ چیز کی تخلیق نر اور مادہ سے ہو۔

جب بھی انسانیت صحیح عقائد اور صحیح نظریہ حیات سے منحرف ہوئی ہے ، اس کے اخلاق ، اس کے رسم و رواج کسی نہ کسی جاہلیت میں ڈوب گئے۔ آج دور جدید میں بھی اعلیٰ ترقیات کے باوجود دنیا بیسویں صدی کی جاہلیت کا شکار ہوگئی ہے آج بھی لڑکی کی پیدائش پر اس خوشی اور مسرت کا اظہار نہیں کیا جاتا ، جس طرح لڑکے کی پیدائش پر خوشی اور مسرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ بھی جاہلیت کے تصورات و رسومات میں سے ایک رسم ہے۔ اور یہ اس لیے پائی جاتی ہے کہ اسلامی نظریہ حیات ہماری نظروں میں صاف اور ستھرا نہیں ہے ۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ آج کل جاہلیت جدیدہ کے پرستار اشاروں کنایوں میں اسلامی عقائد و نظریات پر انگلی اٹھاتے ہیں کہ اسلام میں عورت کو یہ مقام دیا گیا ہے اور یہ کہ اسے آزادی نہیں ہے۔ یہ لوگ جاہلیت جدیدہ سے متاثر ہو کر اسلام پر اعتراضات کرتے ہیں لیکن ان لوگوں کے پیش نظر وہ عظیم انقلاب نہیں ہے جو عورت کے بارے میں اسلامی نظریات نے آج سے صدیوں قبل برپا کیا۔ عورت کے بارے میں لوگوں کی سوچ بدل دی اور اسے بلند رتبہ دیا۔ عورت کے بارے میں اسلام نے یہ انقلابی فکر محض دنیاوی ضرورت یا اجتماعی تقاضے یا اقتصادی ضرورت کے تحت نہیں دی تھی بلکہ یہ فکر و نظر کی تبدیلی ، اس اسلامی نظریہ حیات کو وجہ سے پیدا کی گئی جس نے پوری انسانیت کو شرف فضیلت بخشا۔ پوری انسانیت کی تکریم کی وجہ سے عورت کو بھی شرف ملا۔ یہ قرار دیا گیا کہ عورت حصہ حیات اور حصہ انسانیت ہے ، لہٰذا بشریت کے دو حصوں مردو عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔

اسلامی نظریہ حیات اور جاہلی نظریہ حیات کے درمیان فرق کیا ہے ؟ یہ فرق یوں ہے کہ اسلامی معاشرہ ایک ذمہ دار اور جوابدہ معاشرہ ہوتا ہے اور وہ آخرت کی جوابدہی پر ایمان رکھتا ہے جبکہ جاہلی معاشرہ وہ ہے جو آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ وہ ہر چیز کی قدرو قیمت اسی دنیا کے حوالے سے طے کرتا ہے۔ لہٰذا اعلیٰ عقیدہ اور نظریہ کے مظاہر بھی اعلیٰ ہوتے ہیں۔

آیت 57 وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ ۙ وَلَهُمْ مَّا يَشْتَهُوْنَ اللہ تعالیٰ کی اولاد کے طور پر وہ لوگ اس سے بیٹیاں منسوب کرتے ہیں جبکہ خود اپنے لیے وہ بیٹے پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے اللہ کے لیے اولاد تجویز بھی کی تو بیٹیاں تجویز کیں جو خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے۔

آیت 57 - سورہ نحل: (ويجعلون لله البنات سبحانه ۙ ولهم ما يشتهون...) - اردو