سورۃ الملک: آیت 22 - أفمن يمشي مكبا على وجهه... - اردو

آیت 22 کی تفسیر, سورۃ الملک

أَفَمَن يَمْشِى مُكِبًّا عَلَىٰ وَجْهِهِۦٓ أَهْدَىٰٓ أَمَّن يَمْشِى سَوِيًّا عَلَىٰ صِرَٰطٍ مُّسْتَقِيمٍ

اردو ترجمہ

بھلا سوچو، جو شخص منہ اوندھائے چل رہا ہو وہ زیادہ صحیح راہ پانے والا ہے یا وہ جو سر اٹھائے سیدھا ایک ہموار سڑک پر چل رہا ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaman yamshee mukibban AAala wajhihi ahda amman yamshee sawiyyan AAala siratin mustaqeemin

آیت 22 کی تفسیر

افمن .................... مستقیم

” جو شخص اوندھا چلتا ہے وہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک وہ کہ وہ پاﺅں پر سیدھا نہیں چلتا بلکہ منہ کے بل چلتا ہے ، حالانکہ اللہ نے چلنے کے لئے پاﺅں پیدا کئے ہیں ، یا اس سے مراد یہ ہے کہ وہ راہ میں گرتا پڑتا ہے اور پھر اٹھ کر چلتا ہے۔ اور پھر منہ کے بل گرتا ہے ، اور اسے سیدھی چال نصیب نہیں ہے۔ یہ اس بدبخت شخص کی حالت ہے جو مشقت برداشت کرتا ہے ، تکلیفیں اٹھاتا ہے ، گرتا پڑتا جاتا اور منزل مقصود سے بھی محروم رہتا ہے ، اس کے مقابلے میں ایک مومن سیدھا شاہراہ پر ایک متوازن رفتار سے جارہا ہے ، راستہ بھی واضح ہے ، جاری راستہ ہے اور یقینا منزل تک پہنچانے والا راستہ ہے۔

پہلا حال ایک بدبخت ، گمراہ اور سرکش انسان کا ہے۔ یہ اللہ کی راہ سے محروم ہے ، اللہ کی ہدایت سے محروم ہے۔ یہ اللہ کے قوانین قدرت سے محروم ہے ، یہ فطرت کے اصولوں سے ٹکراتا ہے ، مخلوق خدا سے متصادم ہے۔ اس لئے کہ یہ غلط راہ پر چلتا ہے اور سیدھی راہ نہیں لیتا۔ یہ غلط پگڈنڈیوں پر جارہا ہے جن میں نشیب و فراز اور پتھریلی راہ ہے۔ یہ گرتا جاتا ہے اور سخت مشقت میں راہ طے کررہا ہے اور دائمی گمراہی میں ہے۔

اور دوسرا وہ شخص ہے جو نیک بخت ، سنجیدہ ، راہ خدا سے واقف ، اس پر چلنے والا ، اللہ کے قوانین قدرت کے مطابق صحیح رفتار رکھتا ہے ، سیدھی جاری راہ پر ہے جس پر قافلہ ایمان اپنے لاﺅ لشکر اور سازو سامان کے ساتھ رواں دواں ہے جس پر اس پوری کائنات کا قافلہ مخلوقات رواں دواں ہے۔ خواہ زندہ مخلوق ہے یا غیر زندہ !

ایمان کی زندگی درصل یسر ہے ، آسانی ہے ، استقامت ہے ، سیدھی راہوں پر چین ہے ، اور کفر کی زندگی سختی ہے ، گرنا پڑنا ہے ، اوندھا چلنا ہے اور غلط راہوں پر چلنا ہے۔

پھر ہر شخص غور کرے کہ ان دونوں میں سے کون سی راہ درست ہے ، کیا اس کے جواب کی ضرورت ہے۔ نہیں اس سوال کے اندر جواب موجود ہے۔ یہ تصدیقی اور تقریری سوال ہے کہ بات یہی ہے۔

یہ سوال و جواب یوں ختم ہوتا ہے جب ہمارا تخیل ان دو افراد کی تصویر اور تمثیل کے پیچھے دوڑتا ہے۔ ایک گروہ ہے کہ اپنے منہ کے بل چتا ہے ، گرتا ہے ، اٹھتا ہے ، پھر گرتا ہے ، پتھریلی راہ ہے۔ ٹیڑھی راہ ، خاردار راہ ہے۔ منزل مقصود معلوم نہیں ہے ، صرف گرتا ، اٹھتا ہے۔ ہر کوئی اپنے طور پر بھاگ رہا ہے جبکہ دوسری ایک جماعت ہے جو ایک قافلے کی شکل میں ہمقدم چل رہی ہے۔ جس عے قدم سیدھے نہیں ، راہ سیدھی ہے ، جاری رہا ہے بلکہ شاہراہ ، اور منزل مقصود یعنی کہ سب لوگ ادھر جارہے ہیں۔

یہ ہے قرآنی انداز گفتگو کہ معنوی اور فلسفیانہ حقائق کو نہایت ہی مجسم اور مشخص انداز میں ہماری نظروں کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ معانی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

مکبا علی ................ اھدی (76 : 22) ہدایت وضلالت کے ذکر کے بعد ، اب ان کو وہ وسائل دکھائے جاتے ہیں جو اللہ نے ہدایت وضلالت کے سلسلے میں ان کو دے رکھے ہیں ، یعنی وہ قدرتی قوتیں جن کے ذریعے وہ حقائق کا ادراک کرسکتے ہیں۔ جن سے وہ فائدہ نہ اٹھاتے تھے اور جن کا وہ شکر بھی ادا نہ کرتے تھے۔

آیت 22 { اَفَمَنْ یَّمْشِیْ مُکِبًّا عَلٰی وَجْہِہٖٓ اَہْدٰٓی اَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ } ”تو کیا وہ شخص جو اپنے منہ کے بل گھسٹ رہا ہے زیادہ ہدایت پر ہے یا وہ جو سیدھا ہو کر چل رہا ہے ایک سیدھے راستے پر ؟“ اس آیت میں دو قسم کے انسانوں کے ”طرزِ زندگی“ کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ ایک قسم کے انسان وہ ہیں جو انسان ہوتے ہوئے بھی حیوانی سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جیسے ان کی حیوانی جبلت انہیں چلا رہی ہے بس اسی طرح وہ چلے جا رہے ہیں۔ بظاہر تو وہ اپنی زندگی کی منصوبہ بندیاں بھی کرتے ہیں ‘ معاشی دوڑ دھوپ میں بھی سرگرمِ عمل رہتے ہیں ‘ کھاتے پیتے بھی ہیں اور دوسری ضروریات بھی پوری کرتے ہیں ‘ لیکن یہ سب کچھ وہ اپنے جبلی داعیات کے تحت کرتے ہیں۔ جبلی داعیات کی تعمیل و تکمیل کے علاوہ ان کے سامنے زندگی کا کوئی اور مقصد ہے ہی نہیں۔ ان لوگوں کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص فاصلہ طے کرنے کے لیے چوپایوں کی طرح اوندھا ہو کر منہ کے بل خود کو گھسیٹ رہا ہو۔ ظاہر ہے ایسا شخص نہ تو راستہ دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی اسے اپنی منزل کی کچھ خبر ہوتی ہے۔ دوسری مثال اس شخص کی ہے جو سیدھے راستے پر انسانوں کی طرح سیدھا کھڑے ہو کر چل رہا ہے۔ اس مثال کے مصداق وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی منزل طے کر رکھی ہے۔ وہ طے شدہ منزل پر پہنچانے والے درست راستے کا تعین بھی کرچکے ہیں اور پوری یکسوئی کے ساتھ اس راستے پر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ ظاہر ہے دنیا میں ان لوگوں کی منزل اقامت دین ہے جبکہ آخرت کے حوالے سے وہ رضائے الٰہی کے حصول کے متمنی ہیں۔ آیت زیر مطالعہ میں جو فلسفہ بیان ہوا ہے اس کی وضاحت قبل ازیں سورة الحج کی آیت 73 کے تحت بھی کی جاچکی ہے۔ اس فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز انسان کو حیوانات سے ممیز و ممتاز کرتی ہے وہ اس کا نظریہ اور اس کی سوچ ہے۔ گویا انسان حقیقت میں وہی ہے جس کا کوئی نظریہ ہو ‘ کوئی آئیڈیل اور کوئی نصب العین ہو۔ جو انسان کسی نظریے اور نصب العین کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فرمان { اُولٰٓـئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّط } الاعراف : 179 کے مصداق ہیں ‘ یعنی وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ ظاہر ہے جانوروں کو تو شعور کی اس سطح پر پیدا ہی نہیں کیا گیا کہ وہ اپنی زندگی کا کوئی نصب العین متعین کرسکیں۔ ان کی تخلیق کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ انسان کسی نہ کسی طور پر انہیں اپنے کام میں لائیں اور بس۔ سورة الحج کی مذکورہ آیت آیت 73 میں بتوں اور ان کے پجاریوں کی تمثیل کے پردے میں یہ حقیقت بھی واضح کردی گئی ہے کہ جس انسان کا نظریہ یا آئیڈیل بلند ہوگا اس کی شخصیت بھی بلند ہوگی ‘ جبکہ گھٹیا آئیڈیل کے پیچھے بھاگنے والے انسان کی سوچ اور شخصیت بھی گھٹیا ہو کر رہ جائے گی۔

آیت 22 - سورۃ الملک: (أفمن يمشي مكبا على وجهه أهدى أمن يمشي سويا على صراط مستقيم...) - اردو