سورۃ الملک (67): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Mulk کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الملك کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الملک کے بارے میں معلومات

Surah Al-Mulk
سُورَةُ المُلۡكِ
صفحہ 563 (آیات 13 سے 26 تک)

وَأَسِرُّوا۟ قَوْلَكُمْ أَوِ ٱجْهَرُوا۟ بِهِۦٓ ۖ إِنَّهُۥ عَلِيمٌۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ ٱللَّطِيفُ ٱلْخَبِيرُ هُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ ذَلُولًا فَٱمْشُوا۟ فِى مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا۟ مِن رِّزْقِهِۦ ۖ وَإِلَيْهِ ٱلنُّشُورُ ءَأَمِنتُم مَّن فِى ٱلسَّمَآءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ ٱلْأَرْضَ فَإِذَا هِىَ تَمُورُ أَمْ أَمِنتُم مَّن فِى ٱلسَّمَآءِ أَن يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ وَلَقَدْ كَذَّبَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ أَوَلَمْ يَرَوْا۟ إِلَى ٱلطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَٰٓفَّٰتٍ وَيَقْبِضْنَ ۚ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا ٱلرَّحْمَٰنُ ۚ إِنَّهُۥ بِكُلِّ شَىْءٍۭ بَصِيرٌ أَمَّنْ هَٰذَا ٱلَّذِى هُوَ جُندٌ لَّكُمْ يَنصُرُكُم مِّن دُونِ ٱلرَّحْمَٰنِ ۚ إِنِ ٱلْكَٰفِرُونَ إِلَّا فِى غُرُورٍ أَمَّنْ هَٰذَا ٱلَّذِى يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُۥ ۚ بَل لَّجُّوا۟ فِى عُتُوٍّ وَنُفُورٍ أَفَمَن يَمْشِى مُكِبًّا عَلَىٰ وَجْهِهِۦٓ أَهْدَىٰٓ أَمَّن يَمْشِى سَوِيًّا عَلَىٰ صِرَٰطٍ مُّسْتَقِيمٍ قُلْ هُوَ ٱلَّذِىٓ أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَٰرَ وَٱلْأَفْـِٔدَةَ ۖ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ قُلْ هُوَ ٱلَّذِى ذَرَأَكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا ٱلْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ قُلْ إِنَّمَا ٱلْعِلْمُ عِندَ ٱللَّهِ وَإِنَّمَآ أَنَا۠ نَذِيرٌ مُّبِينٌ
563

سورۃ الملک کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الملک کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

تم خواہ چپکے سے بات کرو یا اونچی آواز سے (اللہ کے لیے یکساں ہے)، وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waasirroo qawlakum awi ijharoo bihi innahu AAaleemun bithati alssudoori

واسروا .................... الخبیر

تم کوئی بات خفیہ کرو یا جہرا کرو ، اللہ کو تو علم ہے۔ وہ جہر ، خفی اور دل کی باتوں کو بھی جانتا ہے۔

انہ علیم ............................ الصدور (76 : 31) ” وہ دلوں کا حال جانتا ہے “۔ وہ بات جو ابھی دل کو چھوڑ کر منہ پر نہیں آئی۔ کیونکہ ان باتوں کو دلوں کے اندر اس نے تو پیدا کیا ہے جس طرح دلوں کو اس نے پیدا کیا ہے۔

اردو ترجمہ

کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟ حالانکہ وہ باریک بیں اور باخبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ala yaAAlamu man khalaqa wahuwa allateefu alkhabeeru

الا یعلم من خلق (76 : 41) ” کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا “۔

وھو ................ الخبیر (76 : 41) ” حالانکہ وہ باریک بین اور باخبر ہے “۔ اس کا علم بہت ہی باریکی اور تاریکی تک پہنچا ہواہوتا ہے۔ ہر خقی ومستور بھی اس کے علم میں ہے۔

جو لوگ اپنی کوئی حرکت اللہ سے چھپاتے ہیں ، یا باتیں اللہ سے چھپاتے ہیں ، یا دل کی نیت کے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ تو نیت ہے ، وہ ایک مضحکہ خیز سوچ رکھتے ہیں۔ جس ضمیر میں وہ بات چھپاتے ہیں وہکس کے ہاتھ میں ہے ؟ وہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اس کے اندر ابھرنے والی سوچ کی تمام لہروں کو وہ جانتا ہے۔ نیت و ارادہ بھی اللہ کی مخلوقات کا حصہ ہے۔ اور اس کو بھی وہ جانتا ہے کہ کون کیا ارادہ رکھتا ہے۔ لوگ کیا چھپاتے ہیں اور کیا نہیں چھپاتے۔

قرآن انسان قلب میں یہ حقیقت بٹھانا چاہتا ہے اس لئے کہ اس طرح وہ حقیقت کبریٰ کا صحیح ادراک کرسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان کے اندر بیداری اور تقویٰ کا احساس بڑھتا ہے ، جس کا تعلق اس عظیم ذمہ داری کے ساتھ ہے ، جو انہوں نے اس جہاں میں اٹھائی ہے یعنی دنیا میں صحیح نظریہ حیات پھیلانا ، عدالت کا قیام ، اور نیت اور عمل میں خلوص کا حصول اور یہ مقام کوئی انسان اس وقت تک نہیں پاسکتا جب تک وہ ظاہر و باطن میں خدا سے نہ ڈرتا ہو ، اور اللہ بہت ہی لطیف وخبیر ہے۔

جب ایک مومن اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو وہ خفیہ نیت میں بھی اللہ سے ڈرتا ہے اور دل میں پوشیدہ وسوسہ کے بارے میں بھی ڈرتا ہے اور ظاہری قول اور قعل سے بھی ڈرتا ہے اگر وہ اللہ کی مرضی کے خلاف ہو ، کیونکہ اللہ تو وسوسہ سے خبردار ہے۔

اس کے بعد اب روئے سخن انسان کے نفوس اور ان کی نگرانی کے موضوع سے ، زمین کی طرف پھرتا ہے کہ اس کی تخلیق انسان کے لئے ہوئی ہے اور اس زمین کو تمہارے زیر نگیں بنایا گیا اور سب چیزیں تمہارے لئے پیدا کی ہیں۔

اردو ترجمہ

وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے، چلو اُس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق، اُسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee jaAAala lakumu alarda thaloolan faimshoo fee manakibiha wakuloo min rizqihi wailayhi alnnushooru

ھوالذی .................... النشور

” لوگوں کی حالت یہ ہے کہ اس زمین پر رہتے رہتے اور اس زمین پر ان کو ہر قسم کی رہائشی سہولتیں ہونے کی وجہ سے ، اس میں چلنے پھرنے کی قدرت اور اس کی مٹی ، پانی ، ہوا اور دوسرے خزانوں پر دسترس کی وجہ سے اور اس کی تمام پیداوار استعمال کرنے کی وجہ سے ، لوگ یہاں کی زندگی کے عادی ہوگئے ہیں اور یہ بات تک بھول گئے ہیں کہ اللہ نے اس کو ان کے لئے مسخر کردیا ہے اور ان کی دسترس میں دے دیا ہے۔ قرآن کریم بار بار ان کو یہ سبق یاد دلاتا ہے کہ ذرا اس پر غور کرو اور دیکھو۔ چناچہ ہر دور میں لوگوں نے اپنے اپنے علم کے مطابق تسخیر کائنات کے مفہوم کو سمجھا۔

ایک مسخر زمین ، ابتدائی دور کے سننے والوں کے ذہن میں صرف یہ مفہوم رکھتی تھی کہ اس زمین کے اوپر ہم چل سکتے ہیں۔ پیدل یا گھوڑوں پر سوار ہوکر ، یا کشتی پر سوار ہوکر جو سمندر کے سینے کو چیرتی چلی جاتی ہے۔ اور اس میں زراعت کرسکتے ہیں اور اس کے اندر جو کچھ زندہ و مردہ مخلوقات ہے ، اسے استعمال کرسکتے ہیں۔ پانی ، ہوا اور زمین اور ہر قسم کے نباتات وغیرہ۔

یہی مجمل مفہومات تھے جن کو اب سائنس نے ذرا مزید مفصل بنادیا ہے ، جہاں تک آج ہمارا علم آگے بڑھا ہے اور ہمارے اس علم کی وجہ سے اس نص قرآنی کا مفہوم بھی مزید وسیع ہوگیا ہے آئندہ نسلیں اس سے زیادہ سمجھیں گی۔

اب جدید علوم کے مطابق اس کا مفہوم کس قدر وسیع ہے۔ یہ لفص ذلول بالعموم ایک جانور کے لئے استعمال ہوتا ہے جو سدھایا ہوا ہو۔ یعنی جو سواری کے لئے اچھا ہو ، مطیع ہو ، زمین پر اس لفظ کا اطلاق اب ہم اچھی طرح سمجھے ہیں کہ یہ زمین بھی درصال ایک سواری ہے ، اگر یہ ٹھہری ہوگی ، پر سکون اور جمی ہوئی ہے ، لیکن دراصل یہ متحرک سواری ہے بلکہ نہایت ہی تیز رفتار سواری ہے۔ اللہ نے اسے ایسا تابع جانور بنایا ہے کہ سوار کو اٹھا کر پھینک نہیں دیتی اور نہ اسے ہوا میں اڑا دیتی ہے۔ نہ اس کے اوپر انسان کے قدم ڈگمگاتے ہیں اور نہ یہ انسان کو گھڑے یا اونٹ پر سوار ہونے والے کی طرح ہلاتی ہے ، جھٹکے دیتی ہے ، اچھالتی ہے ، جس طرح ایک غیر ” ذلول “ جانور ایسا کرتا ہے۔ پھر یہ ایک ایسا جانور ہے کہ تابع جانور کی طرح دودھ دینے والی بھی ہے۔

یہ جانور یا یہ گولا جس کے اوپر ہم سوار ہیں ، یہ اپنے ارد گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ کے حساب سے چکر لگارہی ہے اور اس محوری رفتار کے ساتھ ساتھ یہ سورج کے گرد 56 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی دوڑ رہی ہے۔ پھر یہ زمین یہ سورج اور سورج کی پوری کہکشاں 02 ہزار میل فی گھنٹہ کے حساب سے آسمان کے برج جبار (VAST ORBTTA) کی سمت چلتے ہیں جس کا ایک چکر 62 کروڑ سال میں پورا ہوتا ہے۔ ان تمام رفتاروں کے باوجود ، ان تمام دوڑوں کے باوجود ہم بڑے آرام سے اس گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے ہوتے ہیں اور یہ گھوڑا بہت بڑا ” ذلول “ ہے۔ اس قدر سکون سے جارہا ہے کہ رفتار کا احساس بھی ہیں ہورہا ہے۔ بڑے سکون سے بیٹھا ہے۔ اس کے اعصاب پر کوئی دباﺅ نہیں ہے اور یہ نہیں ہورہا کہ اس سے گر کر اس کی بوٹی بوٹی اس کائنات میں بکھر جائے۔ اور اس گھوڑے کے اوپر سے انسان کبھی بھی نہیں گرتا۔

پھر یہ تین مختلف الاطراف حرکتوں میں یہ گھوڑا جتا ہوا ہے۔ ان میں دو حرکتوں ، یعنی حرکت محوری اور حرکت شمسی کے اثرات کو تو ہم جانتے ہیں۔ انسانوں پر بھی ان کا اثر ہے ، زمین پر بھی ان کا اثر ہے اور اس زمین پر پائی جانے والی زندگی پر بھی ان کا اثر ہوتا ہے۔ زمین کی گردش کی محوری کی وجہ سے لیل ونہار پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ہمیشہ رات ہوتی تو سردی کی وجہ سے تمام چیزیں جم جاتیں ، اور سورج کے گرد اس کا جو دورہ ہے اس سے موسم اور مختلف فصلوں کے اوقات کا تعین ہوتا ہے۔ اور اگر ایک ہی موسم رہتا تو زمین کی موجودہ شکل نہ ہوتی۔ رہی تیسری حرکت تو ابھی ہمیں اس کی حکمت کا علم نہیں ہوسکا اور یہ ضروری ہے کہ اس عظیم کائنات کے کسی عظیم تر نظام سے اس کا کوئی تعلق ہو۔ واللہ اعلم !

یہ گھوڑاجو بیک وقت ان مختلف اطراف میں یہ حرکات کررہا ہے اپنی اس حرکت کے دوران اپنی جگہ جما ہوا ہے یا جما ہو نظر آتا ہے۔ اور یہ اپنے محور پر 5 ئ 23 درجہ جھکا ہوا ہے۔ اور اس جھکاﺅ کے نتیجے ہی میں چار مختلف موسم پیدا ہوتے ہیں۔ یہ موسم زمین کی گردش شمسی کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگر اس حرکت میں ذرا بھی خلل آجائے تو ہمارا تمام موسمی نظام ، بارشوں کا نظام اور فصلیں اگنے کا نظام اور ماہ وسال کا نظام ختم ہوجائے ، بلکہ ممکن ہے کہ زمین پر سے زندگی ہی ناپید ہوجائے۔

اللہ نے زمین کو اس رطح انسان کے لئے سدھایا ہوا ہے کہ اس کے اندر جاذبیت کی ایسی مقداررکھی ہے کہ زمین انسان کو اپنے اوپر چپکائے رکھتی ہے اور تمام حرکات کے دوران انسان اس کے اوپر ادھر ادھر نہیں لڑھکتے۔ اسی طرح اس کے اوپر فضا کے دباﺅ کا نظام قائم کیا گیا ہے جس کی وجہ سے انسان بسبولت اس کے اوپر چل سکتا ہے۔ اگرچہ موجودہ فضائی دباﺅ ذرا بھی زیادہ ہوتا تو انسان کے لئے زمین کے اوپر چلنا ممکن ہی نہ رہتا یا چلنا ممکن بہت ہی مشکل ہوتا۔ زیادہ دباﺅ کی وجہ سے انسان چپک جاتا یا چلنے کے قابل نہ ہوتا۔ اور اگر موجود دباﺅ سے بھی اسے قدرے کم کردیا جاتا تو انسان فضا میں چھلانگیں لگاتا پھرتا اور اس کے قدم مضطرب ہوجاتے۔ یا اس کا پیٹ اندرونی دباﺅ سے پھٹ جاتا۔ کانوں کے پردے پھٹ جاتے۔ جس طرح ان لوگوں کو پیش آتا ہے جو بالائی فضا میں چلے جاتے ہیں اور ان کو موجودہ فضائی دباﺅ مصنوعی طور پر فراہم نہیں کیا جاتا۔

پھر اللہ نے موجودہ زمین کو مسخر کردیا۔ اس نے زمین کی سطح کو ہموار کردیا ہے اور اوپر سے اس پر نرم مٹی فراہم کردی ہے۔ اگر یہ زمین ایک مضبوط صحرا کی طرح ہوتی جس طرح سائنس دانوں نے یہ مقروضہ کیا ہے کہ یہ ٹھنڈی ہوکر ایک چٹان بن گئی تھی۔ تو اس پر چلنا بھی مشکل ہوتا اور اس کے اندر کوئی روئیدگی بھی نہ ہوتی ، لیکن فضائی عوامل ، ہوا ، گرمی ، سردی اور سارشوں نے ان سخت پتھروں کو توڑاپھوڑا اور اس طرح زمین پر یہ مٹی پیدا ہوئی ، جس کے اندر ہر قسم کی پیداوار ممکن ہوتی ہے ( اور اسی سے انسان بھی بنایا گیا) یوں اس سوار یکے سوار اس کا دودھ بھی پیتے ہیں۔

اور اللہ نے زمین کو اس طرح مسخر بنایا کہ اس کے اوپر جو ہوا جمع کی اس کے اندر انسان اور دوسری زندگی کی تمام ضروریات جمع کردیں۔ اور یہ ضروریات اس طرح باریک بینی کے ساتھ اس ہوا کے اندر رکھ دیں کہ اگر ان عناصر میں سے کوئی چیز ذرا بھی کم وبیش کردی جائے تو کرہ ارض کے اوپر سے تمام زندگی ختم ہوجائے۔ ہوا میں آکسیجن کی نسبت 12 ہے اور نائٹروجن 87 % ہے اور باقی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے اور دوسری گیسیں ہیں۔ اور یہ نسبت زمین پر زندگی کے قیام کے لئے لازمی ہے۔

پھر اللہ نے زمین کو انسانی زندگی کی ہزارہا ضروریات کے لئے موزوں قرار دیا۔ ان میں زمین کا موجودہ حجم ، سورج کا موجودہ حجم اور چاند کا موجودہ حجم سب کے سب سازگار ہیں۔ پھر شمس وقمر سے زمین کی موجودہ دوری ، سورج کا درجہ حرارت ، اور زمین کے چھلکے کا موجودہ موٹاپا اور زمین کی موجودہ رفتار ، زمین کا اپنے محور پر ایک طرف جھکا ہوا ہونا اور پھر خشکی اور تری کی موجودہ نسبت اور ہوا کی موجودہ کثافت اور یہ اس قسم کی دوسری چیزیں سب مل کر زمین کو انسان کے لئے مسخر کرتی ہے اور ذلول بناتی ہیں اور انہی چیزوں کی وجہ سے انسانوں کا رزق فراہم ہوا ہے اور ان سے مختلف حیوانات اور پھر انسان کو زندگی ملی ہے۔

یہ قرآنی آیت ان امور کی طرف اشارہ کررہی ہے تاکہ اسے ہر دور کا آدمی اپنی علمی استطاعت کے مطابق سمجھ سکے۔ جس قدر انسانی مشاہدہ آگے بڑھے گا۔ آیت کا مفہوم وسیع ہوتا جائے گا اور انسان یہ شعور تازہ کرتا رہے گا کہ سب بادشاہی اللہ کے ہاتھ ہی میں ہے۔ وہ ہر چیز کا نگہبان ہے۔ انسان کے پورے ماحول میں ہر چیز کا بھی نگہبان ہے۔ یہ زمین انسان کے لئے مسخرکردی گئی ہے۔ انسان کی حفاظت بھی اللہ کررہا ہے اور اگر کسی وقت اس کی نگہبانی اٹھ جائے تو یہ پورے کا پورا نظام یکلخت بگڑ جائے۔

جب انسانی ضمیر میں یہ بات بیٹھ گئی ، تو اللہ رحمن اور رحیم نے حکم دیا کہ اس زمین کی چھاتی پر گھومو پھرو اور اس کے اندر جو ارزاق رکھے ہوئے ہیں ان کو استعمال کرو۔

فامشوا .................... من رزقہ (76 : 51) ” چلو اس کی چھاتی پر اور کھاﺅ خدا کا رزق “۔ مناکب کے معنی ہیں اس کی بلندیاں یا اس کی پہلو۔ جب اللہ نے زمین کی بلندیوں اور پہلوﺅں کی اجازت دے دی تو اس کے میدان اور اس کی وادیوں میں پھرنے کی اجازت بھی اس میں آگئی اور اس کے اندر جو بھی رزق ہے وہ اللہ کا پیدا کردہ ہے۔ وہ کسی کا مال نہیں ہے ، جو کسی کے ہاتھ میں ہو ، یہ سب اس کی ملکیت میں ہے۔ اور اس کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے ، اس سے جو بالعموم لوگوں کے ذہن میں آتا ہے ، لفظ رزق سے۔ اس سے صرف وہ مال مراد نہیں ہے و کسی کے قبضے میں ہوتا کہ وہ اس سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ اس رزق سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جو انسان کے لئے رزق کے اسباب ہیں اور جو اس زمین کے اندر ودیعت کی ہوئی ہیں۔ وہ تمام عناصر جن سے یہ زمین بنائی گئی ہے اور وہ تمام عناصر جن کے استعمال کے لئے اللہ نے نباتات ، حیوانات اور انسانوں کو اہل بنایا۔ اس رزق کی تشریح جدید علوم ناے خوب کردی ہے مختصراً اس کی نوعیت یوں ہے :

” ہر پودے کی زندگی ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کے چھوٹے ذرات مالیکیولزئزوزرات پر موقوف ہے جو ہوا میں ہوتے ہیں۔ جن کو یہ پودا سانس لے کر کذب کرتا ہے۔ یہ ایک کیمیاوی عمل ہے جو سورج کی روشنی میں مکمل ہوتا ہے ، یوں سمجھنا چاہئے کہ درختوں کے پتے دراصل درختوں کے پھیپھڑے ہیں۔ سورج کی روشنی میں پودے اس قابل ہوتے ہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کریں اور کاربن کو آکسیجن سے علیحدہ کردیں اور آکسیجن کو واپس کردیں اور کاربن کو ہائیڈروجن کے ساتھ ملا کر ، جسے جڑوں کے ذریعہ پودا پانی کی شکل میں اخذ کرتا ہے ، (جہاں پانی کی آکسیجن اور ہائیڈرون کی علیحدگی ہوجاتی ہے) اور پھر نہایت ہی حیران کن انداز سے قدرت ان عناصر سے شکر اور نامیاتی ریشے اور متعدد دوسرے کیمیاوی مواد تیار کرتی ہے ، جس سے پھل اور پھول تیار ہوتے ہیں اور جس مواد سے پودا اپنی غذا بھی لیتا ہے اور روئے زمین کے تمام دوسرے حیوانات کے لئے غذا تیار بھی کرتا ہے ، اور اس دوران یہ پودا جو آکسیجن سانس کے ذریعہ کھینچتا ہے اسے نکال دیتا ہے ، جس کے بغیر پانچ سیکنڈ کے اندر اندر زندگی ختم ہوجاتی ہے “۔

” اسی طرح معلوم ہوتا ہے تمام نباتات ، تمام جنگلات ، تمام جھاڑیاں پانی پر پائی جانے والی کائی ، تمام فصلیں دراصل کاربن اور پانی سے تشکیل پاتی ہیں۔ حیوانات اور انسان کاربن ڈائی آکسائیڈ سے نکالتے ہیں اور نباتات آکسیجن نکالتے ہیں۔ اگر یہ تبادلہ نہ ہوتا تو انسان زندگی اور حیوانی زندگی سب آکسیجن اور سب کاربن ڈائی آکسائیڈ کو آخر کار ختم کردیتے اور جب یہ توازن ختم ہوجاتا تو پودے جھلس جاتے اور انسان مرجاتے۔ حال ہی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ایک قلیل مقدار حیوانات کی زندگی کے لئے ضروری ہے جبکہ نباتات کو بھی آکسیجن کی قلیل مقدار کی ضرورت ہوتی ہے “۔

” اگرچہ ہم ہائیڈروجن کو سانس کے ذریعے نہیں جذب کرتے۔ لیکن اس کا وجود بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر پانی موجود نہیں ہوتا اور پانی انسانی اور حیوانی زندگی کے لئے نباتات کے لئے اس قدر ضروری ہے کہ اس کے بغیر انسانوں اور حیوانوں کی زندگی ممکن ہی نہیں “۔ (” سائنس ایمان کی دعوت دیتی ہے “ ترجمہ محمود صالح فلکی ص 02 ، 12) ۔

اسی طرح نائٹروجن کا بھی زمین کے رزق کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔

” نائٹروجن کے بغیر کوئی غذائی پودا نشوونما نہیں پاسکتا۔ اسے کسی نہ کسی طرح نائٹروجن ملنا چاہئے۔ زرعی زمین میں نائٹروجن کے داخل ہونے کے دو طریقے ہیں۔ یہ کہ ایک خاص قسم کا بیکٹریا یعنی (جراثیم) سبزی نما نباتات کی جڑوں میں رہتے ہیں۔ شفتل ، چنا ، لوبیا وغیرہ کی جڑوں میں۔ یہ جراثیم خالص نائٹروجن حاصل کرتے ہیں مثلاً ہوا اسے اور ان کو مرکب شکل میں زمین میں چھوڑتے ہیں اور پھر پودا اس کو اپنے اندر جذب کرسکتا ہے۔ جب یہ پودا مرجاتا ہے تو یہ مرکب نائٹروجن زمین کے اندر ہی رہ جاتا ہے “۔

” ایک طریقہ دوسرا بھی ہے ، جس کے ذریعہ نائٹروجن زمین میں داخل ہوجاتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب ایسی ہوائیں چلتی ہیں جن میں بجلی چمکتی ہے۔ ہواﺅں کے اندر جب بھی چمکتی ہے تو کسی آکسیجن اور نائٹروجن کو متحد کردیتی ہے۔ اور بارش اسے زمین پر ایک مرکب نائٹروجن کے طور پر پھینک دیتی ہے۔ اس صورت میں کہ پودے ان کو جذب کرسکیں “۔

کیونکہ پودے خالص نائٹروجن کو اپنے اندر جذب نہیں کرسکتے۔ اس لئے کہ ہوا میں اس کی نسبت 87 % ہوتی ہے “۔ (” سائنس ایمان کی دعوت دیتی ہے “ ترجمہ محمود صالح فلکی ص 02 ، 12) ۔

اور زمین کے اندر جو جامد اور سیال رزق موجود ہے یہ سب زمین اس کے حالات رزق کے ساتم متعلق ہے۔

یہاں اندر کے ارزاق کی تشریحات کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ الفظ رزق کا مفہوم یہاں بہت ہی وسیع ہے اور بہت ہی گہرا ہے۔ اور جب اللہ ہمیں اجازت دیتا ہے کہ تم زمین میں پھرو اور رزق تلاش کرو کہ تمہارے لئے زمین کو مسخر کیا گیا ہے تو یہ سب اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں اور ہمیں اجازت ہے۔ جس قدر انسان اس سے استعفادہ کرسکے۔

فامشوا ............................ من رزقہ (76 : 51) ” چلو اس کی چھاتی پر اور کھاﺅ خدا کا رزق “۔

لیکن یہ اجازت ایک متعین وقت تک کے لئے ہے اور وقت کا تعین کردیا گیا ہے جو اللہ کے علم میں ہے۔ اللہ کی تدبیر کائنات کے مطابق ہے۔ زندگی اور موت کے عرصہ ابتلا تک کھاﺅ لیکن اس کے بعد۔

والیہ النشور (76 : 51) ” اسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہوکر جانا ہے “۔ اسی کی طرف جانا اور اگر تم نہیں مانتے تو بتاﺅ کس کی طرف جانا ہے ؟ اس کے سوا جائے پناہ تو کہیں بھی نہیں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

ابھی انسان اس زمین کی پشت پر اور اس کے اندر اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہی ہورہا تھا اور اللہ کے حکم سے زمین پر چل کر نعمتیں سمیٹ رہا تھا کہ اچانک اس سدھائی ہوئی تابعداد زمین کے اندر ایک جنبش پیدا ہوتی ہے اور اس کا یہ توازن اور رفتار یکدم ختم ہوجاتی ہے۔ اب یہی پر سکون زمین ان پر بمباری کررہی ہے اور پہاڑ گرارہی ہے۔ ان کے احساس اور تصورات میں ایک زلزلہ برپا کردیا جاتا ہے تاکہ یہ لوگ زمین کے قرار و سکون اور نعمتوں سے لطف اندوز ہونے میں ہی مگن نہ ہوجائیں اور ذرا اس بادشاہ کی طف بھی دیکھیں جس نے اس نظام کو قائم کررکھا ہے ، اپنے دلوں اور سوچوں کو اللہ کے ساتھ مربوط رکھیں۔

اردو ترجمہ

کیا تم اِس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تمہیں زمین میں دھنسا دے اور یکایک یہ زمین جھکولے کھانے لگے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aamintum man fee alssamai an yakhsifa bikumu alarda faitha hiya tamooru

ء امنتم ........................ نکیر

یہ انسان جو اس سدھائی ہوئی مطیع فرمان سواری پر سوار ہوکر مزے لوٹ رہا ہے اور اس سواری کے اندر ہی اپنا رزق دودھ کی شکل میں حاصل کرتا ہے ، اسے معلوم ہے کہ یہ مطیع فرمان سواری ایک دن بگڑ جائے گی اور جب اللہ کا حکم ہوگا تو یہ ایسی نہ رہے گی۔ یہ ذرا سا جھٹکا ہی دے گی کہ اس کے اوپر کی تمام چیزیں ادھر ادھر بکھر جائیں گی اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح لرز جائیں گے اور یہ اس قدر تیز جھکولے کھانے لگے گی اور ایسے حالات بڑے زلزلوں اور بڑی بڑی آتش نشانیوں کے وقت بھی ہوتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رکی ہوئی اور تابع زمین کے اندر کس قدر سرکشی ہے جو ناقابل کنٹرول ہے۔ اس کی زمام تو اللہ نے پکڑ رکھی ہے۔ اس لئے یہ جھٹکے نہیں کھاتی ہے اور جب یہ چند سیکنڈ یا ایک منٹ کے لئے بھی جھٹکے دے تو زمین کے اوپر انسانوں نے جس قدر پختہ سے پختہ قلعے تعمیر کیے ہوئے ہیں ، سب مسمار ہوجاتے ہیں۔ اور یہ بستیوں کی بستیاں اس کے پیٹ کے اندر دھنس جاتی ہیں اور جب انسان اس کے اندر جارہے ہوں تو کوئی چیز بھی انہیں بچا نہ سکے۔

زلزلوں ، آتش فشانی اور دھنسنے کے وقت یہ فرعون انسان پھر چوہوں کی طرح ادھر ادھر بھاگتے ہیں۔ جس طرح چوہے پنجرے میں بند ہوں اور وہ نکلنے کے لئے ادھر ادھر بھاگتے ہیں۔ ایک منٹ پہلے تو یہ غافل ، مست ، سرکش اور اس ذات عالی مقام سے غافل تھے جس نے اس سرکش سواری کی زمان کو تھام رکھا تھا اور اب ہر طرف بھگڈر ہے۔

انسان اس دنیا میں ایسی آندھیاں بھی دیکھتے ہیں جو بادوباراں کے ساتھ پتھر بھی برسارہی ہوتی ہیں اور جس جس بستی سے گزرتی ہیں ، درختوں ، خیموں اور مکانات کو اڑاتی چلی جاتی ہیں۔ جنگلات کو جلا کر بھسم کردیتی ہیں اور لوگ دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ بےبس دیکھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کا علم اور ان کی قوت اور ٹیکنالوجی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ یہ طوفان ہزاروں میل کی رفتار سے چلتے ہیں اور پتھر اڑاتے اور سمندروں کو خشکیوں پر چڑھاتے چلے جاتے ہیں تو انسان ان کے سامنے ایک مچھر اور چیونٹی کے برابر رہ جاتا ہے ، لیکن یہ اللہ کی قوت ہی ہوتی ہے جو اپنی افواج کو روکتی ہے اور پھر یہ زمین اور یہ سواری قرار پکڑتی ہے۔

قرآن کریم انسانوں کو یاد دلاتا ہے کہ یہ سواری جو تمہارے لئے سدھائی ہے اور بڑی سلامتی سے چل رہی ہے ، تم کہیں دھوکہ نہ کھا جاﺅ، یہ تو خالق کائنات کے کنٹرول میں ہے اور اسی نے اسے تمہارے لئے سدھایا ہے ، اس کی سرکشیاں جب شروع ہوں گی تو تم پھر اپنے آپ کو کسی صورت میں بچا نہ سکو گے۔ یہ زمین جھکولے کھاسکتی ہے اور تیز رفتاری اختیار کرسکتی ہے۔ یہ اپنے اندر سے گرم گرم لاوا بھی اگل سکتی ہے ، یہ تمہیں زمین کے اندر بھی دھنسا سکتی ہے ، پتھروں کی بارش بھی ہوسکتی ہے۔ کوئی انسانی طاقت اس کو نہیں روک سکتی۔ اور نہ کوئی انسانی طاقت اسے تباہی و بربادی سے دور کرسکتی ہے۔ اللہ اس قدر ڈراتا ہے کہ دل دہل جاتے ہیں اور اعصاب شل ہوجاتے ہیں اور اعضا تھرتھرانے لگتے ہیں۔

فستعلمون ................ نذیر (76 : 71) ” پھر تمہیں معلوم ہوجائے کہ میری تنبیہہ کیسی ہوتی ہے “۔ اب ان کے سامنے تاریخی واقعات کی طرف ایک مجمل اشارہ پیش کیا جاتا ہے کہ ازمنہ ماضیہ میں بعض منکرین کا عبرتناک انجام تمہارے سامنے ہے۔

اردو ترجمہ

کیا تم اِس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تم پر پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیج دے؟ پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری تنبیہ کیسی ہوتی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Am amintum man fee alssamai an yursila AAalaykum hasiban fasataAAlamoona kayfa natheeri

اردو ترجمہ

اِن سے پہلے گزرے ہوئے لوگ جھٹلا چکے ہیں پھر دیکھ لو کہ میری گرفت کیسی سخت تھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad kaththaba allatheena min qablihim fakayfa kana nakeeri

ولقد کذب .................... نکیر (76 : 81) ” ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ جھٹلا چکے ہیں۔ پھر دیکھ لو کہ میری گرفت کیسی سخت تھی “۔ نکسیر کا مفہوم ہے غصہ اور سرزنش اور اس کے نتیجے میں آنے والی سزا۔ ان کو وہ واقعات معلوم ہیں کہ اللہ نے امم سابقہ کو پکڑا۔ انہی سے پوچھا جاتا ہے کہ تم ہی بتاﺅ کہ پکڑ کیسے رہی۔

فکیف کان نکیر (76 : 81) ” کیونکہ آثار ان کے سامنے تھے۔ لہذا وہ جانتے کہ عذاب کیسا رہا۔

یہاں اللہ ان کی جس بےخوفی پر تنبیہ فرماتا ہے وہ ایسی بےخوفی ہے ، جس میں انسان اللہ سے غافل ہوجائے۔ ایسا امان ہے جس کے نتیجے میں انسان کے دل سے اللہ کی قدرت کا ڈر نکل جائے اور اللہ کی عظمت کا خیال نہ رہے۔ اس بےخوفی سے مراد وہ امن و اطمینان کی حالت نہیں ہے جو ذکر الٰہی کے نتیجے میں انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ جو اللہ کی رحمت اور اس کی نگہبان کے یقین سے نصیب ہوتا ہے۔ مومن اللہ کی رحمت اور فضل کا امیدوار ہوتا ہے۔ لیکن غافل نہیں ہوتا۔ اللہ کو یاد کرنے والا مومن تو ہر وقت اس کی طرف نظریں اٹھائے ہوئے ہوتا ہے۔ اس سے حیا کرتا ہے ، اس کے غضب سے ڈرتا ہے۔ اور ہر وقت دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تیری تقدیر میں میرے لئے جو مشکل لکھی ہے اس سے بچا اور عافیت نصیب کر۔ وہ ہر وقت ڈرتا ہے۔

امام احمد نے اپنی اسناد کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ” میں نے رسول اللہ کو کھبی بےفکری کی حالت میں یوں ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کی حلق کا کوا نظرآتا ہو۔ آپ صرف تبسم فرماتے۔ اور رسول اللہ ﷺ یوں تھے کہ جب کوئی بادل دیکھتے یا تند ہوا دیکھتے تو آپ کے چہرے پر اثر ہوجاتا۔ تو میں نے کہا کہ اے رسول خدا لوگ جب بادل دیکھتے ہیں یا ہوا دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اس امید پر کہ اس میں بارش ہوگی۔ اور میں دیکھتی ہوں کہ آپ جب ان چیزوں کو دیکھتے تو آپ کے چہرے پر کراہیت کے آثار نظر آتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اے عائشہ .... اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اس میں عذاب الٰہی نہ ہو ، بعض اقوام کو ہوا سے عذاب دیا گیا ، ” ایک قوم نے عذاب دیکھا اور کہا یہ ہے بادل جو ہم پر بارش کردے گا “۔ (صحیحین)

یہ ہے دائمی جاگتا احساس ، اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے نظام قضاوقدر کے بارے میں اور احادیث میں آپ کی سیرت سے بھی نقل ہوا ہے ، یہ احساس اللہ کی رحمت پر اطمینان اور اللہ کے فضل کی امیدواری کے خلاف نہیں ہے۔

یوں آیات میں بتایا جاتا ہے کہ تمام ظاہر اسباب کا ایک مسبب الاسباب ہے۔ تمام اسباب اول کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ اور وہ ذات باری ہے ، جس کے ہاتھ میں پوری بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ لہٰذا کسی گاﺅں کو زمین میں دھنسا دینا ، کسی کو آتش فشاں کی زد میں لانا ، کسی بستی کو زلزلے سے تباہ کردینا ، اور کسی بستی کو تیز ہواﺅں کی زد میں لانا صرف اللہ کی قدرت میں ہے۔ اور ان کے علاوہ یہ تمام کائناتی قوتیں اور یہ تمام طبیعیاتی قوتیں کیا کسی انسان کے ہاتھ میں ہیں۔ ان کا معاملہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ ان کے بارے میں جو اسباب گنواتے ہیں۔ وہ تو محض مفروضے ہیں جن کے ذریعہ انسان ان واقعات کی کوئی معقول تشریح کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان واقعات میں ان کا دخل وعمل کوئی نہیں ہوتا۔ اور نہ اپنے آپ کو ان واقعات سے بچا سکتے ہیں۔ اور انسان اس زمین کی پشت پر جو تبدیلیاں لاتے ہیں وہ ایک ہی جھٹکے سے نیست ونابود ہوجاتی ہیں۔ ایک آندھی اٹھتی ہے جس میں آگ ہوتی ہے تو وہ بھسم کرکے رکھ دیتی ہے۔ گویا کہ یہ کاغذی کھیل تھا۔ لہٰذا لوگوں کو چاہئے کہ وہ ہر معاملے کو صرف خالق کائنات کی طرف لوٹائیں اور اسے ہی تما حادثات کا سبب اول سمجھیں ، اسے ہی ان قوانین قدرت کا جاری کرنے والا سمجھیں جن کے مطابق کائنات چلائی جاتی ہے۔ اور وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوں کیونکہ آسمان ہی علامت بلندی ہے۔ اور یوں اللہ کو یاد کریں جس کے ہاتھ میں سب بادشاہیاں ہیں اور وہ سب چیزوں پر قاد رہے۔

انسان کے اندر جو قوت ہے وہ وہی ہے جو اسے خالق نے بخشی ہے۔ اس کے پاس وہی علم ہے جو خالق نے اسے دیا ہے۔ لیکن اس پوری کائنات کی زمام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اس کائنات کے قوانین اس اللہ کے بنائے ہوئے ہیں۔ اور اس کے اندر جو قوتیں ہیں وہ اللہ کی مدد کی وجہ سے ہیں۔ اور یہ قوتیں اللہ کے نظام قضا وقدر کے مطابق چلتی ہیں ان سے جو تکلیف انسان کو پہنچتی ہے ، ان سے جو نعمتیں انسان کو پہنچتی ہیں اور وقتاً فوقتاً جو واقعات وحادثات اس کائنات میں انسان کو پیش آتے رہتے ہیں وہ سب اللہ کی طرف سے ہیں اور جو بڑے بڑے حادثات انسان کو اس دنیا میں پیش آتے ہیں اور جن کے سامنے انسان بےبس کھڑا ہوتا ہے اور نہایت ہی بڑا نقصان اٹھاتا ہے ان کے جواب میں انسان صرف یہ کرسکتا ہے کہ وہ اللہ خالق کائنات کو یاد کرے اور اس کے سامنے دست بدعا ہو۔ جس نے ان قوتوں کو انسان کے لئے مسخر کیا ہے اور صرف اللہ سے معاونت طلب کرے کہ وہ ان قوتوں کو انسان کے لئے مسخر کردے۔

اور انسان جب اس حقیقت کو بھول جاتا ہے اور غرے میں مبتلا ہوکر دھوکہ کھا جاتا ہے اور اکڑتا ہے کہ اس نے تو اس کائنات کی بعض قوتوں کو مسخر کرلیا ہے ، تو ایسا شخص دراصل حقیقی علم سے دور ہوجاتا ہے اور اس کا رابطہ اب حقیقی علم سے کٹ جاتا ہے حالانکہ یہ حقیقی علم اسے اعلیٰ سرچشمے تک بلند کرتا ہے۔ اس طرح وہ مسخ ہوکر زمین پر گر جاتا ہے جبکہ حقیقی علم رکھنے والا شخص جو سچا مومن ہوتا ہے ، وہ سرنگوں ہوتا ہے لیکن وہ اس کائنات کے وسیع میلے تک رسائی حاصل کرلیتا ہے ، اس کا رابطہ باری تعالیٰ تک ہوجاتا ہے ۔ یہ ہے وہ رحمت خداوندی جس کا مزا وہی شخص لے سکتا ہے جس پر یہ رحمت ہوئی ہو اور یہ رحمت خداوندی اس شخص پر ہوتی ہے جس کے لئے اللہ لکھ دے۔

لیکن انسان جس پدر چاہے غرور کرے ، اس کائنات کی قوتیں اسے مجبور کردیتی ہیں کہ وہ عجز و انکسار کے ساتھ اپنی بےبسی کا اعتراف کرلے ، چاہے وہ حقیقی علم سے لذت آشنا ہو یا نہ ہو۔ وہ نئے نئے انکشافات کرتا ہے اور نئی نئی طبعی قوتیں کی تسخیر کرتا ہے ، اس کے بعد جب وہ کائناتی سرکش قوتوں کا کبھی سامنا کرتا ہے تو وہ اپنی عاجزی تسلیم کرلیتا ہے اور نہایت ذلت کے ساتھ تسلیم کرتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ کبھی وہ تندطوفان سے کسی پناہ گاہ میں چھپ جاتا ہے لیکن یہ طوفان نہایت سرکشی سے اس کے اوپر سے گزرتا ہے اور یہ اس کی راہ نہیں روک سکتا۔ زیادہ سے زیادہ وہ جو کرسکتا ہے ، وہ یہ ہے کہ طوفان کی زد سے بچ سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی کبھی کبھار۔ بعض اوقات یہ قوتیں اس قدر سرکش ہوتی ہیں کہ دیواروں سے پیچھے اور تہہ خانوں کے اندر اسے ہلاک کردیتی ہیں اور کبھی جب اس کو سمندر کی سرکشی سے واسطہ پڑتا ہے تو اس بڑے جہاز موجوں اور بگولوں کے اندر آکر غرق ہوجاتے ہیں اور یوں نظر آتے ہیں جس طرح بچوں کا کوئی کھیل تھا۔ رہے زلزلے اور آتش فشاں تو وہ تو اول روز سے آج تک ناقابل کنٹرول ہیں۔ یہ صرف عقل کا اندھا پن ہے جو کسی انسان کو یہ باور کراسکتا ہے کہ وہ اللہ کے سوا اکیلا بھی یہاں رہ سکتا ہے یا یہ کہ وہ اس کائنات کا مالک ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان اس زمین میں خدا کا نائب اور خلیفہ ہے۔ اور اسے علم ، قوت اور قدرت اسی قدر دی گئی جس قدر اللہ نے چاہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں اس کا محافظ اور نگہبان اللہ ہی ہے۔ وہ رازق بھی ہے اور معطی بھی ہے۔ اگر اللہ کا دست قدرت ایک لحظہ کے لئے بھی اس کی نگہبانی چھوڑ دے تو اس دنیا کی طبیعی قوتیں اسے ایک سیکنڈ کے اندر پیس کر رکھ دیں۔ بلکہ صرف مکھیاں اور چیونٹیاں ہی اسے کھا جائیں۔ لیکن وہ اللہ کے حکم سے یہاں محفوظ ہے اور معزز ہے۔ لہٰذا اسے معلوم ہونا چاہئے کہ یہ شرف وکرم کہاں سے اخذ کرتا ہے ، یہ تو اللہ کا فضل ہے جو اسے دیا گیا ہے۔

اب ڈراوے اور تنبیہ کے بعد اسے دوبارہ غور وفکر کی دعوت دی جاتی ہے۔ اور یہ ایک ایسے منظر میں جسے وہ بہت دیکھتا رہتا ہے ، ہر وقت دیکھتا رہتا ہے لیکن یہ انسان اس پر کم ہی غور کرتا ہے۔ حالانکہ وہ منظر قدرت الٰہی کا ایک بہت بڑا مظہر ہے اور اگر وہ اس پر غور کرے تو بہت کچھ اس سے سیکھ سکتا ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کی قدرت کے آثار میں سے ایک عجیب اثر ہے۔

اردو ترجمہ

کیا یہ لو گ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو پر پھیلائے اور سکیڑتے نہیں دیکھتے؟ رحمان کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھامے ہوئے ہو وہی ہر چیز کا نگہبان ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Awalam yaraw ila alttayri fawqahum saffatin wayaqbidna ma yumsikuhunna illa alrrahmanu innahu bikulli shayin baseerun

اولم یروا .................... بصیر

یہ خارق العادت معجزہ جو ہر وقت واقع ہوتا رہتا ہے۔ یہ چونکہ بار بار واقع ہوتا ہے اس لئے ہم اسے اہم نہیں سمجھتے۔ اور اس کے اندر اللہ کی جو قدرت کام کررہی ہے اسے بھی ہم بھول جاتے ہیں۔ خصوصاً جبکہ وہ صف بندی میں اڑتے ہیں اور پروں کو پھیلاتے ہیں اور سکیڑ لیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں وہ سف بستہ اڑتے ہیں۔ اور یہ پرندے بعض اوقات ایسے کرتب دکھاتے ہیں ، جن سے ان کی تخلیق کی خوبصورتی ظاہر ہوتی ہے۔ انسان دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ اللہ کی عجیب و غریب مخلوقات کا یہ ایک عجیب تماشا ہے۔ جس کے اندر کمال اور جمال باہم یکجا نظر آتے ہیں۔ اس منظر کی طرف قرآن کا اشارہ یہ ہے !

اولم .................... ویقبضن (76 : 91) ”” کیا یہ لوگ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو پر پھیلائے اور سکیڑتے نہیں دیکھتے ؟ “ اس کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کو کس نے ڈیزائن کیا ہے ؟۔

ما یمسکھن الا الرحمن (76 : 91) ” رحمن کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھامے ہوئے ہو ؟ “۔ اور رحمن نے ان کو ہوا میں ان قوانین قدرت کے مطابق رکھا ہوا ہے جو ہوا کے بارے میں اللہ نے یہاں رکھے ہوئے ہیں اور ان قوانین کے اندر ایک عجیب ترتیب ہے اور ان قوانین کے مطابق اللہ ان پرندوں کی تخلیق کی ہے جس میں ایک ایک خلیے اور ایک ایک ذرے کا حساب محلوظ ہے۔ یہ وہ قوانین ہیں جن کے مطابق فضا کے اندر ہزاروں مساواتی فارمولے چلتے ہیں تاکہ ہوا میں پرندوں کی اڑان کا عمل مکمل ہو۔ اور یونہی انتظام کے ساتھ چلتا رہے۔

اور رحمن نے ان پرندوں کو اس حالت میں اپنی قدرت قادرہ کے ذریعے یوں رکھا ہوا ہے اور ان پر اس کی نظر اور نگرانی ہر وقت حاضر ہے اور کسی بھی وقت دور نہیں ہوتی۔ یہ اللہ ہی ہے کہ جو ان قوانین اور فارمولوں کو اس جہاں میں ہر وقت قائم ، متوازن اور منظم رکھتا ہے۔ یہ اصول کسی بھی وقت ٹوٹتے نہیں۔ ان میں کبھی خلل نہیں آتا۔ کبھی ان میں اضطراب نہیں آتا۔ ایک پلک جھپکنے کے لئے بھی ، ہر وقت۔

ما یمسکھن الا الرحمن (76 : 91) ” صرف رحمان ہی انہیں اس طرح تھامے ہوئے ہے “۔ کہ ہر پرندے اور ہر پر کو اللہ نے تھام رکھا ہے۔ اور یہ پرندہ جب ہوا میں پروں کو سیکڑلیتا ہے تو پھر فضا میں معلق ہوتا ہے ، اللہ اسے وہاں رکھ رہا ہوتا ہے۔

انہ بکل ................ بصیر (76 : 91) ” وہی ہر چیز کا نگہبان ہے “۔ وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے ، ہر چیز کی خبر رکھتا ہے۔ اس کے لئے حالات زندگی تیار رکھتا ہے ، اسے قوت دیتا ہے اور ہر لمحہ اس کی ضروریات ، روز مرہ کی ضروریات مہیا رکھتا ہے۔ جس طرح کوئی خبیر وبصیر رکھتا ہے۔ پرندوں کو فضا میں اسی طرح رکھتا ہے جس طرح تمام حیوانات کو زمین پر رکھتا ہے ، جو فضا میں اڑتے ہیں۔ جس طرح اس فضائے کائنات میں اس نے بڑے بڑے اجرام فلکی روک رکھے ہیں۔ جنہیں یوں روکنے والا اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ لیکن قرآن کریم لوگوں کو پکڑ کر ان کی آنکھوں اور دلوں کو ان تمام مناظر کی طرف کھینچ کر لاتا ہے جن کو وہ دیکھ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں۔ اور ان کے دلوں پر ان مناظر کے اشارات اور اثرات بٹھاتا ہے۔ ورنہ اللہ کی ہر صنعت میں اعجاز ہے اور اللہ کی ہر مخلوق میں اس کے آثار ہیں۔ اور ہر تن اور ہر نسل اس سے اپنی عقل کے مطابق دیکھ سکتی ہے۔ ایک بدوی کہتا تھا :

البعرة تدل علی البعیر ” اونٹ کی مینگنی دلالت کرتی ہے کہ اونٹ گزرا ہے “۔ اور آ کا انسان اپنے مشاہدات کے ذریعہ توفیق الٰہی سے سب کچھ جانتا ہے یا بہت کچھ جانتا ہے۔

اب قرآن دوبارہ ان کو ان کے ان حالات کی طرف لاتا ہے جن میں وہ بےبس ہوتا ہے ، طوفان ، زلزلوں ، آتش فشانی میں اور سنگ باری میں۔ فضا میں تیرنے والے پرندے کو دیکھ لیں کہ وہ تو فضائے کائنات میں اللہ کی توفیق سے امن میں ہیں تو دوبارہ ان کو ان کے مشکل لمحات یاد دلائے جاتے ہیں اور اسکی تکرار کا بہت اثر ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

بتاؤ، آخر وہ کونسا لشکر تمہارے پاس ہے جو رحمان کے مقابلے میں تمہاری مدد کر سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ منکرین دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Amman hatha allathee huwa jundun lakum yansurukum min dooni alrrahmani ini alkafiroona illa fee ghuroorin

امن ھذا ................................ فی غرور

” اللہ نے اس سے پہلے انسانوں کو خسف سے ڈرایا ، جبکہ اس سے قبل کئی مکذبین کو یہ سزا دی گئی ، پھر سنگباری سے ڈرایا جبکہ کئی پر سنگباری کی گئی۔ اور اسی طرح دوسرے مکذبین کی مختلف ہلاکتوں سے ڈرایا تھا۔ یہاں دوبارہ ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کون ہے جو ان کی امداد کرتا ہے اور اس قسم کی مختلف ہلاکتوں سے تمہیں بچاتا ہے ؟ اللہ کو پکڑ کر رحمن کے سوا کون روکے ہوئے ہیں ؟۔

ان الکفرون الا فی غرور (76 : 02) ” حقیقت یہ ہے کہ یہ منکرین دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں “۔ یہ دھوکہ ان کو اس بات پر مطمئن کردیتا ہے کہ وہ امن میں ہیں۔ کسی کی ضمانت اور اطمینان میں ہیں ، حالانکہ وہ اللہ کے غضب اور عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ کیونکہ وہ نہ ایمان لائے ہیں اور نہ عمل صالح کررہے ہیں ، جن کی وجہ سے اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے اور اللہ کا عذاب واقع نہیں ہوتا ہے۔

اور ایک چٹکی پھر دوبارہ ، ان کو احساس دلایا جاتا ہے کہ یہ رزق الٰہی جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے اگر اللہ کی طرف سے بند کردیا جائے تو پھر کون ہے جو اس قدر عظیم انتظام کرسکتا ہے۔

اردو ترجمہ

یا پھر بتاؤ، کون ہے جو تمہیں رزق دے سکتا ہے اگر رحمان اپنا رزق روک لے؟ دراصل یہ لوگ سر کشی اور حق سے گریز پر اڑے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Amman hatha allathee yarzuqukum in amsaka rizqahu bal lajjoo fee AAutuwwin wanufoorin

امن ھذا ................ نفور

” جیسا کہ اوپر گزر گیا۔ ہر انسان اللہ کے پیدا کردہ اسباب کا مرہون منت ہے۔ اللہ ان اسباب میں سے کسی ایک سبب کو کھینچ لے تو بھول سے لوگ مرجائیں۔ اور یہ رزق اللہ نے اس کائنات کی اسکیم میں بطور سلسلہ اسباب رکھا ہوا ہے۔ یہ اسباب سب کے سب ایسے ہیں جو انسان کی قدرت میں نہیں ہیں۔ اور یہ تمام انسانوں کی دسترس میں ہیں۔ یہ سب اسباب انسان کے وجود سے بھی پہلے پیدا کردیئے گئے تھے۔ اور یہ اسباب اپنی طبیعی قوت اور طاقت کے اعتبار سے انسان سے بہت ہی بڑے ہیں اور ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک سبب بھی دست قدرت کی طرف سے محو کردیا جائے تو انسان سب کے سب صفحہ ہستی سے مٹ جائیں۔

اگر اللہ پانی ختم کردے ، ہوا کو بند کردے یا وہ عناصر ختم کردے جس سے اشیاء بنی ہیں ، تو کون ہے جو لاسکتا ہے۔ زمین سے ہزار گنا بڑے ستارے موجود ہیں لیکن حیات اور اسباب حیات سے خالی ہیں۔

اس گہرے وسیع اور عظیم مفہوم کے اندر لفظ رزق کے تمام مفہوم سما جاتے ہیں۔ جس رزق کے بارے میں انسان یہ زعم رکھتا ہے کہ اسے وہ کماتا ہے ، مثلاً محنت کرکے ایجاد کرکے ، پیداوار حاصل کرکے ، جبکہ یہ تمام کام بعض اسباب وعناصر پر موقوف ہیں اور دوسری جانب سے اللہ نے جن اقوام کو وہ اسباب دیئے ہیں ان پر بھی موقوف ہیں۔ کیونکہ ایک کام کرنے والا جو سانس بھی لیتا ہے اور جو حرکت بھی کرتا ہے ، وہ اللہ کے رزق ہی کی وجہ سے کرتا ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جس نے اس عامل کو پیدا کیا۔ اسے قدرت اور طاقت بخشی۔ اسے ایک نفس دیا ، جو اس دنیا میں سانس لیتا ہے ، پھر اس کے جسم کے اندر جو مواد چلتا ہے ، اس کے ذریعہ اسے قوت حاصل ہوتی ہے اور وہ حرکت کرتا ہے ، اور جو عقلی کام وہ کرتا ہے وہ بھی اس عقلی قوت کی وجہ سے کرپاتا ہے جو اللہ نے اس کے دماغ میں رکھی ہے اور صانع اور موجد جو بھی ایجاد کرتا ہے اس میں اللہ ہی کا پیدا کردہ میٹریل استعمال کرتا ہے۔ اور اس عمل میں بھی انسان اور کائناتی اسباب استعمال کرتا ہے جو اللہ کا رزق اور عطیہ ہیں۔

امن ھذا ........................ رزقہ (76 : 12) ” پھر بتاﺅ، کون ہے جو تمہیں رزق دے سکتا ہے۔ اگر رحمن اپنا رزق روک لے “۔

بل ............ ونفور (76 : 12) ” دراصل یہ لوگ سرکشی اور حق سے گریز پر اڑے ہوئے ہیں۔ “ یہ طے کرنے کے بعد کہ رزق صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے ، یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ روگردانی اور سرکشی کرتے ہیں اور نہایت ہی تکبر میں دعوت اسلامی سے نفرت کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ اللہ کے رزق پر پل رہے ہیں ، لہٰذا اللہ کا رزق کھا کر سرکشی کرنا اور غرور میں دین سے گریز کرنا نہایت قبیح اور گھٹیا فعل ہے کیونکو ان کی تمام ضروریات اللہ کی طرف سے فضل وکرم پر مشتمل ہے۔ اور پھر یہ بھی روگردانی اور تکبر کرتے ہیں۔

یہ ان لوگوں کی تصویر ہے جو اللہ کی دعوت کا انکار کرتے ہیں ، کبروسرکشی کی حالت میں اور سخت تکبرانہ نفرت کے ساتھ ، یہ بھولے ہوئے ہیں کہ وہ اللہ کی مخلوق ہیں اور اللہ کے فضل وکرم پر زندہ رہے ہیں اور وہ اپنے وجود ، اپنی زندگی کی ضروریات کے مالک بھی نہیں ہیں۔

اپنے ان حالات کے باوجودالٹا وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھیوں کے بارے میں یہ دعویٰ کرتے تھے کہ یہ گمراہ لوگ ہیں۔ اور اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتے تھے۔ اور ہر دور میں خدا کی طرف بلانے والوں کے بارے میں یہی سمجھا جاتا ہے ، چناچہ ایسے مدعیان اور اہل ایمان کی اصل حقیقت کو ایک تمثیل یا ایک منظر کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

بھلا سوچو، جو شخص منہ اوندھائے چل رہا ہو وہ زیادہ صحیح راہ پانے والا ہے یا وہ جو سر اٹھائے سیدھا ایک ہموار سڑک پر چل رہا ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaman yamshee mukibban AAala wajhihi ahda amman yamshee sawiyyan AAala siratin mustaqeemin

افمن .................... مستقیم

” جو شخص اوندھا چلتا ہے وہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک وہ کہ وہ پاﺅں پر سیدھا نہیں چلتا بلکہ منہ کے بل چلتا ہے ، حالانکہ اللہ نے چلنے کے لئے پاﺅں پیدا کئے ہیں ، یا اس سے مراد یہ ہے کہ وہ راہ میں گرتا پڑتا ہے اور پھر اٹھ کر چلتا ہے۔ اور پھر منہ کے بل گرتا ہے ، اور اسے سیدھی چال نصیب نہیں ہے۔ یہ اس بدبخت شخص کی حالت ہے جو مشقت برداشت کرتا ہے ، تکلیفیں اٹھاتا ہے ، گرتا پڑتا جاتا اور منزل مقصود سے بھی محروم رہتا ہے ، اس کے مقابلے میں ایک مومن سیدھا شاہراہ پر ایک متوازن رفتار سے جارہا ہے ، راستہ بھی واضح ہے ، جاری راستہ ہے اور یقینا منزل تک پہنچانے والا راستہ ہے۔

پہلا حال ایک بدبخت ، گمراہ اور سرکش انسان کا ہے۔ یہ اللہ کی راہ سے محروم ہے ، اللہ کی ہدایت سے محروم ہے۔ یہ اللہ کے قوانین قدرت سے محروم ہے ، یہ فطرت کے اصولوں سے ٹکراتا ہے ، مخلوق خدا سے متصادم ہے۔ اس لئے کہ یہ غلط راہ پر چلتا ہے اور سیدھی راہ نہیں لیتا۔ یہ غلط پگڈنڈیوں پر جارہا ہے جن میں نشیب و فراز اور پتھریلی راہ ہے۔ یہ گرتا جاتا ہے اور سخت مشقت میں راہ طے کررہا ہے اور دائمی گمراہی میں ہے۔

اور دوسرا وہ شخص ہے جو نیک بخت ، سنجیدہ ، راہ خدا سے واقف ، اس پر چلنے والا ، اللہ کے قوانین قدرت کے مطابق صحیح رفتار رکھتا ہے ، سیدھی جاری راہ پر ہے جس پر قافلہ ایمان اپنے لاﺅ لشکر اور سازو سامان کے ساتھ رواں دواں ہے جس پر اس پوری کائنات کا قافلہ مخلوقات رواں دواں ہے۔ خواہ زندہ مخلوق ہے یا غیر زندہ !

ایمان کی زندگی درصل یسر ہے ، آسانی ہے ، استقامت ہے ، سیدھی راہوں پر چین ہے ، اور کفر کی زندگی سختی ہے ، گرنا پڑنا ہے ، اوندھا چلنا ہے اور غلط راہوں پر چلنا ہے۔

پھر ہر شخص غور کرے کہ ان دونوں میں سے کون سی راہ درست ہے ، کیا اس کے جواب کی ضرورت ہے۔ نہیں اس سوال کے اندر جواب موجود ہے۔ یہ تصدیقی اور تقریری سوال ہے کہ بات یہی ہے۔

یہ سوال و جواب یوں ختم ہوتا ہے جب ہمارا تخیل ان دو افراد کی تصویر اور تمثیل کے پیچھے دوڑتا ہے۔ ایک گروہ ہے کہ اپنے منہ کے بل چتا ہے ، گرتا ہے ، اٹھتا ہے ، پھر گرتا ہے ، پتھریلی راہ ہے۔ ٹیڑھی راہ ، خاردار راہ ہے۔ منزل مقصود معلوم نہیں ہے ، صرف گرتا ، اٹھتا ہے۔ ہر کوئی اپنے طور پر بھاگ رہا ہے جبکہ دوسری ایک جماعت ہے جو ایک قافلے کی شکل میں ہمقدم چل رہی ہے۔ جس عے قدم سیدھے نہیں ، راہ سیدھی ہے ، جاری رہا ہے بلکہ شاہراہ ، اور منزل مقصود یعنی کہ سب لوگ ادھر جارہے ہیں۔

یہ ہے قرآنی انداز گفتگو کہ معنوی اور فلسفیانہ حقائق کو نہایت ہی مجسم اور مشخص انداز میں ہماری نظروں کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ معانی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

مکبا علی ................ اھدی (76 : 22) ہدایت وضلالت کے ذکر کے بعد ، اب ان کو وہ وسائل دکھائے جاتے ہیں جو اللہ نے ہدایت وضلالت کے سلسلے میں ان کو دے رکھے ہیں ، یعنی وہ قدرتی قوتیں جن کے ذریعے وہ حقائق کا ادراک کرسکتے ہیں۔ جن سے وہ فائدہ نہ اٹھاتے تھے اور جن کا وہ شکر بھی ادا نہ کرتے تھے۔

اردو ترجمہ

اِن سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقتیں دیں اور سوچنے سمجھنے والے دل دیے، مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul huwa allathee anshaakum wajaAAala lakumu alssamAAa waalabsara waalafidata qaleelan ma tashkuroona

قل ھوا .................... تشکرون

” یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ ہی نے انسان کو پیدا کیا ، اور اسے دیکھنے سننے اور سوچنے کی قوتیں بھی اللہ ہی نے دیں اور یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اللہ کی مخلوقات میں سے انسان اعلیٰ ارفع مخلوق ہے۔ اور وہ اس جہاں میں موجود ہے۔ اس نے خود اپنے آپ کو نہیں پیدا کیا ، لہٰذا اس سے اعلیٰ وارفع اور زیادہ علم والا موجود ہوگا۔ اور وہی خالق ہے ، کوئی شخص خالق کے اعتراف سے نہیں بھاگ سکتا ، کیونکہ خود انسان کا محض وجود ہی تقاضا کرتا ہے کہ کوئی ارفع قوت موجود ہے اور اس میں بحث وجدال کرنا اور شک کرنا محض ہٹ دھرمی ہے۔ قرآن کریم اس حقیقت کو یہاں اس لئے لاتا ہے کہ وہ بتائے کہ اللہ نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی قوتیں دی ہیں۔

وجعل .................... والا فئدة (76 : 32) ” تم کو سننے ، دیکھنے اور سوچنے کی طاقتیں دیں “۔ اور انسان نے اللہ کے یہ انعامات پاکر کیا کیا ؟ یہ سمع ، یہ بصارت اور یہ عقل کی قوت ؟ اور انسان کا طرز عمل دیکھئے !

قلیلاً ما تشکرون (76 : 32) ” مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو “۔

سننے کی قوت اور دیکھنے کی قوت انسان کے نفس کے اندر دو عجیب معجزے ہیں۔ انسان نے ان کے بعض پہلو معلوم کر لئے ہیں۔ اور والافئدة سے قرآن سوچنے کی قوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ تو اعجب العجائب ہے۔ انسان کی عقلی قوت کے بارے میں ابھی تک انسان پوری معلومات نہیں حاصل کرسکا۔ عقل انسان کے اندر اللہ کا ایک منفرد معجزہ ہے۔

جدید علوم نے سننے کی قوت کے بارے میں بعض حیران کن باتوں کو دریافت کرلیا ہے ، مناسب ہے ان میں سے بعض چیزوں کا یہاں ذکر کردیا جائے۔

” ہمارے سننے کی حس بیرونی کان سے کام شروع کرتی ہے اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ اس کی انتہا کہاں ہوتی ہے ؟ سائنس دان کہتے ہیں کہ کہ آواز ہوا کے اندر جو لہریں پیدا کرتی ہے یہ لہریں کان تک جاتی ہیں۔ یہ کان ان کے اندر داخل کرنے کے لئے منظم کرتا ہے ، تاکہ یہ کان کے پردے کے اوپر پڑیں اور یوں یہ آواز کام کے پردے کی دوسری طرف گہرائی تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ گہرائی ایسی ہے کہ اس میں اسپرنگ کی طرح گول نالیاں ہیں اور یہ نصف دائرے کی شکل میں ہیں۔ اس گول نالیوں کے حصے میں چار ہزار قوس ہیں ، جو سر کے آلہ سماعت کے ساتھ پیوست ہیں “۔

” سوال یہ ہے کہ ہر ایک قوس کا طول کیا ہے اور اس کا حجم کیا ہے اور یو قوس کس طرح بنائے گئے ہیں ، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے اور یہ کس قدر چھوٹی جگہ میں رکھ دیئے گئے ہیں جبکہ ان کے علاوہ اور کئی ہڈیاں ہیں جو موجوں کی طرح متحرک ہوتی ہیں۔ اور یہ تمام سامان کان کے پردے کے پیچھے ایک چھوٹی سی کھلی جگہ میں ہے ! کان میں ایک سو ہزار (ایک لاکھ) سماعتی خلیات ہیں ! اور سماعت کے اعصاب کے آخر میں باریک ترین ریشے ہیں ، جن کی باریکی ہی محیرالعقول ہے اور اس کے تصور ہی سے سر چکرانے لگتا ہے “۔ (اللہ اور جدید علوم ، عبدالرزاق نوفل ، ص 75)

” انسانی حاسہ بصارت کو ذرا دیکھئے ، اس کے مرکز میں روشنی کا استقبال کرنے والوں کی 031 ملین (31 لاکھ) سیل ہیں۔ یہ استقبال کرنے والی آنکھیں اعصاب کے سرے ہیں اور آنکھ کے اہم حصے صلبہ قرنیہ (Cornea) جھلی (Plancenta) جالی (Ratina) یہ اہم اعضا ، ہزارہا اعصاب اور مراکز کے علاوہ ہیں۔ (حوالہ بالا ص 85) ۔

اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کرکے یہ خصوصیات اسے عبث نہیں دیں۔ اور نہ بغیر کسی ارادے منصوبے کے یونہی اتفاقاً یہ کام ہوگیا ہے۔ بلکہ یہ اس لئے دی گئی ہیں کہ انسان اس زمین پر زندگی بسر کرسکے۔ اور یوم الجزاء میں پھر اس سے زندگی کا حساب لے کر اسے جزاء وسزا دی جائے۔

اردو ترجمہ

اِن سے کہو، اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul huwa allathee tharaakum fee alardi wailayhi tuhsharoona

قل ھو ................ تحشرون

” الذرء کا عربی میں مفہوم ہے کہ کسی چیز کا بڑھنا۔ اور بڑھانے کے ساتھ ساتھ پھیلانا بھی اس کے مفہوم میں ہے اور الحشر کے معنی جمع کرنا ، یعنی پھیلانے کے بعد جمع کرنا۔ ” تصوراتی اعتبار سے یہ دونوں مخالف یا مختلف حرکتیں ہیں اور معنوی اعتبار سے باہم مقابل ہے۔ ایک کے مفہوم میں بڑھانا ، زمین میں پھیلانا اور بکھیرنا اور دوسرے مفہوم کا منظر ہے جمع کرنا اور اٹھانا ، ایک ہی آیت میں اللہ تعالیٰ دونوں مناظر کو جمع فرما دیتا ہے تاکہ انسانی احساس میں دونوں مناظر آجائیں۔ یہ قرآن کا تصور ہے۔ انسان جو زمین کے اندر منتشر ہوتے اور پھیلتے جاتے ہیں ان کو یادرکھنا چاہئے کہ ایک دن تمہارے جمع کا بھی ہے۔ جہاں جمع کرکے تمہیں ایک ہی میدان میں اٹھایا جائے گا اور اس حیات اور اس موت کے بعد یہ بہت ہی بڑا معاملہ ہے۔

اردو ترجمہ

یہ کہتے ہیں "اگر تم سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayaqooloona mata hatha alwaAAdu in kuntum sadiqeena

اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اس بڑے معاملے میں تم شک میں پڑے ہو ؟ اور سوالات کرتے ہو ؟

ویقولون .................... صدقین

” یہ ایک خلجان آلود سوال ہے اور اس کے اندر ہٹ دھرمی اور تکبر کی بو بھی۔

اس وعدے اور قیام قیامت کے وقت کا علم ہمیں اس قدر ہے کہ وہ اپنے وقت سے مقدم وموخر نہیں ہوسکتا۔ اس کا وقت ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ یہ یوم الجزاء ہے۔ ہمارے لئے اس میں کیا فرق ہے کہ وہ کل آجائے یا کئی ملین سال بعد آجائے ، ہماری زندگی تو مختصر زندگی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ آنے والی ہے اور اس کے لئے تیاری کرنا ضروری ہے۔ تمہیں اس میں بہرحال اٹھایا جائے گا اور جزاء وسزا ہوگی۔

اس لئے اللہ نے اس کے وقت کی اطلاع کسی کو نہیں دی ۔ کیونکہ قیامت کا وقت کسی کو معلوم ہوجانے میں کوئی فائدہ ہی کیا ہے۔ انسان کی عملی زندگی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ان احکامات کے ساتھ اس کا تعلق ہے ، جو انسان کو دیئے گئے ہیں۔ بلکہ مصلحت تو اس میں ہے کہ عام لوگوں کو اس کے وقوع کے وقت کا پتہ نہ ہو ، صرف اللہ کو پتہ ہو۔

اردو ترجمہ

کہو، "اِس کا علم تو اللہ کے پاس ہے، میں تو بس صاف صاف خبردار کر دینے والا ہوں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul innama alAAilmu AAinda Allahi wainnama ana natheerun mubeenun

قل انما ................ مبین

” یہاں خالق اور مخلوق کے درمیان پورا فرق ہوجاتا ہے۔ اللہ کی ذات علیحدہ اور ممتاز ہوجاتی ہے ، نہ اس کا کوئی شبیہ رہتا ہے اور نہ شریک۔ اور علم خالص اسی کے لئے مخصوص ہوجاتا ہے اور تمام مخلوق رسول ، ملائکہ اللہ کے سامنے باادب کھڑے رہ جاتے ہیں۔” کہو اس کا علم تو اللہ کے پاس ہے۔ میں تو بس صاف صاف خبردار کردینے والا ہوں “۔ جس طرح حدیث جبرائیل میں آتا ہے۔

مالمسﺅل عنھا باعلم من السائل ” کہ مسﺅل عنہ سائل سے زیادہ علم نہیں رکھتا “۔ یہ علم نہ رسولوں کے پاس ہے اور نہ فرشتوں کے پاس ہے ، رسول کا کام فقط ڈرانا ہے۔

یہ لوگ شک کے انداز میں قیامت کے بارے میں سوالات کرتے تھے اور اللہ کی طرف سے ان کو نہایت قطعی انداز میں جواب دیا جارہا تھا ، قرآن کریم اپنے مخصوص انداز میں یہ تخیل دیتا ہے کہ گویا یہ دن آہی گیا ہے اور یہ لوگ حشر کے میدان میں ہیں اور قیامت درپیش ہے اور اب وہاں یہ ہورہا ہے۔

563