سورۃ الملک: آیت 21 - أمن هذا الذي يرزقكم إن... - اردو

آیت 21 کی تفسیر, سورۃ الملک

أَمَّنْ هَٰذَا ٱلَّذِى يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُۥ ۚ بَل لَّجُّوا۟ فِى عُتُوٍّ وَنُفُورٍ

اردو ترجمہ

یا پھر بتاؤ، کون ہے جو تمہیں رزق دے سکتا ہے اگر رحمان اپنا رزق روک لے؟ دراصل یہ لوگ سر کشی اور حق سے گریز پر اڑے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Amman hatha allathee yarzuqukum in amsaka rizqahu bal lajjoo fee AAutuwwin wanufoorin

آیت 21 کی تفسیر

امن ھذا ................ نفور

” جیسا کہ اوپر گزر گیا۔ ہر انسان اللہ کے پیدا کردہ اسباب کا مرہون منت ہے۔ اللہ ان اسباب میں سے کسی ایک سبب کو کھینچ لے تو بھول سے لوگ مرجائیں۔ اور یہ رزق اللہ نے اس کائنات کی اسکیم میں بطور سلسلہ اسباب رکھا ہوا ہے۔ یہ اسباب سب کے سب ایسے ہیں جو انسان کی قدرت میں نہیں ہیں۔ اور یہ تمام انسانوں کی دسترس میں ہیں۔ یہ سب اسباب انسان کے وجود سے بھی پہلے پیدا کردیئے گئے تھے۔ اور یہ اسباب اپنی طبیعی قوت اور طاقت کے اعتبار سے انسان سے بہت ہی بڑے ہیں اور ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک سبب بھی دست قدرت کی طرف سے محو کردیا جائے تو انسان سب کے سب صفحہ ہستی سے مٹ جائیں۔

اگر اللہ پانی ختم کردے ، ہوا کو بند کردے یا وہ عناصر ختم کردے جس سے اشیاء بنی ہیں ، تو کون ہے جو لاسکتا ہے۔ زمین سے ہزار گنا بڑے ستارے موجود ہیں لیکن حیات اور اسباب حیات سے خالی ہیں۔

اس گہرے وسیع اور عظیم مفہوم کے اندر لفظ رزق کے تمام مفہوم سما جاتے ہیں۔ جس رزق کے بارے میں انسان یہ زعم رکھتا ہے کہ اسے وہ کماتا ہے ، مثلاً محنت کرکے ایجاد کرکے ، پیداوار حاصل کرکے ، جبکہ یہ تمام کام بعض اسباب وعناصر پر موقوف ہیں اور دوسری جانب سے اللہ نے جن اقوام کو وہ اسباب دیئے ہیں ان پر بھی موقوف ہیں۔ کیونکہ ایک کام کرنے والا جو سانس بھی لیتا ہے اور جو حرکت بھی کرتا ہے ، وہ اللہ کے رزق ہی کی وجہ سے کرتا ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جس نے اس عامل کو پیدا کیا۔ اسے قدرت اور طاقت بخشی۔ اسے ایک نفس دیا ، جو اس دنیا میں سانس لیتا ہے ، پھر اس کے جسم کے اندر جو مواد چلتا ہے ، اس کے ذریعہ اسے قوت حاصل ہوتی ہے اور وہ حرکت کرتا ہے ، اور جو عقلی کام وہ کرتا ہے وہ بھی اس عقلی قوت کی وجہ سے کرپاتا ہے جو اللہ نے اس کے دماغ میں رکھی ہے اور صانع اور موجد جو بھی ایجاد کرتا ہے اس میں اللہ ہی کا پیدا کردہ میٹریل استعمال کرتا ہے۔ اور اس عمل میں بھی انسان اور کائناتی اسباب استعمال کرتا ہے جو اللہ کا رزق اور عطیہ ہیں۔

امن ھذا ........................ رزقہ (76 : 12) ” پھر بتاﺅ، کون ہے جو تمہیں رزق دے سکتا ہے۔ اگر رحمن اپنا رزق روک لے “۔

بل ............ ونفور (76 : 12) ” دراصل یہ لوگ سرکشی اور حق سے گریز پر اڑے ہوئے ہیں۔ “ یہ طے کرنے کے بعد کہ رزق صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے ، یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ روگردانی اور سرکشی کرتے ہیں اور نہایت ہی تکبر میں دعوت اسلامی سے نفرت کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ اللہ کے رزق پر پل رہے ہیں ، لہٰذا اللہ کا رزق کھا کر سرکشی کرنا اور غرور میں دین سے گریز کرنا نہایت قبیح اور گھٹیا فعل ہے کیونکو ان کی تمام ضروریات اللہ کی طرف سے فضل وکرم پر مشتمل ہے۔ اور پھر یہ بھی روگردانی اور تکبر کرتے ہیں۔

یہ ان لوگوں کی تصویر ہے جو اللہ کی دعوت کا انکار کرتے ہیں ، کبروسرکشی کی حالت میں اور سخت تکبرانہ نفرت کے ساتھ ، یہ بھولے ہوئے ہیں کہ وہ اللہ کی مخلوق ہیں اور اللہ کے فضل وکرم پر زندہ رہے ہیں اور وہ اپنے وجود ، اپنی زندگی کی ضروریات کے مالک بھی نہیں ہیں۔

اپنے ان حالات کے باوجودالٹا وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھیوں کے بارے میں یہ دعویٰ کرتے تھے کہ یہ گمراہ لوگ ہیں۔ اور اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتے تھے۔ اور ہر دور میں خدا کی طرف بلانے والوں کے بارے میں یہی سمجھا جاتا ہے ، چناچہ ایسے مدعیان اور اہل ایمان کی اصل حقیقت کو ایک تمثیل یا ایک منظر کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔

آیت 21{ اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِیْ یَرْزُقُـکُمْ اِنْ اَمْسَکَ رِزْقَہٗ } ”پھر بھلا کون ہے وہ جو تمہیں رزق دے سکے اگر اللہ اپنے رزق کو روک لے ؟“ { بَلْ لَّجُّوْا فِیْ عُتُوٍّوَّنُفُوْرٍ۔ } ”بلکہ یہ لوگ اپنی سرکشی اور حق سے گریز میں بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔“ اگلی آیت فلسفہ و حکمت ِقرآن کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔

آیت 21 - سورۃ الملک: (أمن هذا الذي يرزقكم إن أمسك رزقه ۚ بل لجوا في عتو ونفور...) - اردو