سورۃ المائدہ: آیت 16 - يهدي به الله من اتبع... - اردو

آیت 16 کی تفسیر, سورۃ المائدہ

يَهْدِى بِهِ ٱللَّهُ مَنِ ٱتَّبَعَ رِضْوَٰنَهُۥ سُبُلَ ٱلسَّلَٰمِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ بِإِذْنِهِۦ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَٰطٍ مُّسْتَقِيمٍ

اردو ترجمہ

جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے اُن کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yahdee bihi Allahu mani ittabaAAa ridwanahu subula alssalami wayukhrijuhum mina alththulumati ila alnnoori biithnihi wayahdeehim ila siratin mustaqeemin

آیت 16 کی تفسیر

(آیت) ” یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلم ویخرجھم من الظلمت الی النور باذنہ یھدیھم الی صراط مستقیم (4 : 16)

(جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے ۔ )

اللہ نے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا ہے اور جو لوگ اللہ کی اس رضا مندی اور پسند کے تابع ہوں گے اور اسے اپنے لئے پسند کریں گے تو اللہ ایسے لوگوں کو سلامتی کے راستوں پر ڈال دیتا ہے ۔

” یہ انداز اظہار قرآن پر سو فیصدی منطبق ہے اور قرآن اس بات کا نہایت ہی صحیح مصداق ہے کہ وہ سلامتی کا واسطہ ہے ۔ اسلام ایک فرد کے لئے جو راہ متعین کرتا ہے وہ سلامتی کا راستہ ہے ۔ وہ ضمیر کی سلامتی ہے ‘ وہ عقل کی سلامتی ہے ‘ وہ اعضاء کی سلامتی ہے ۔ وہ گھر اور خاندان کی سلامتی ہے ۔ وہ معاشرے کی سلامتی ہے ‘ وہ بشریت و انسانیت کی سلامتی ہے ۔ وہ اس زندگی کے ساتھ سلامتی ہے ‘ وہ اس کائنات کے ساتھ سلامتی ہے ‘ وہ اللہ رب کائنات کے ساتھ سلامتی ہے ‘ وہ اللہ رب کائنات کے ساتھ سلامتی ‘ غرض ہمہ گیر اور ہمہ جہت سلامتی ہے جسے اس انسانیت نے نہ کبھی پایا ہے اور نہ کبھی پا سکے گی مگر صرف اسلامی نظام حیات میں ‘ صرف منہاج میں صرف اسلامی شریعت کے قانون میں اور صرف اس معاشرے میں جو اسلامی شریعت اور اسلامی نظریہ حیات کی اساس پر قائم ہو۔

یہ عظیم سچائی ہے کہ اللہ اس دین کی طرف اس شخص کی راہنمائی کرتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوا ہو ۔ اور وہ شخص ہوتا ہے جو خود بھی اللہ ہی کی مرضی کا خیال کرتا ہے اور اللہ ہی کی مرضی میں سلامتی کے راستے ہیں یعنی اسلام ۔ سلامتی کے تمام راستے اسلام میں ہیں ۔ اور اس سچائی کی گہرائی اور عمق کا ادراک وہی کرسکتا ہے جس نے جاہلیت قدیمہ اور جاہلیت جدیدہ کے وہ تمام راستے دیکھے ہوں جو جنگ جدال کے راستے ہیں ۔ اس حقیقت کی گہرائی کا ادراک وہی شخص کرسکتا ہے جس نے جاہلیت کی وجہ سے ضمیر کی گہرائیوں میں پیدا ہونے والی بےچینی کو خود دیکھا ہو اور اس کا مزہ چکھا ہو ۔ اسی طرح جس نے جاہلی رسم و رواج اور جاہلی نظامہائے حیات اور طور طریقوں سے پیدا ہونے والی بےچینوں کو دیکھا ہو اور اس افراتفری کو دیکھا ہو جو یہ نظام انسانی زندگی کے معاملات میں پیدا کردیتا ہے ۔

ان آیات کے ساتھ سب سے جن لوگوں کو خطاب کیا گیا تھا وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ سبل السلام کا مفہوم کیا ہے کیونکہ جاہلیت میں رہ کر ان لوگوں کو اچھی طرح تجربہ تھا کہ سلامتی کیا چیز ہے ؟ اس لئے وہ ذاتی طور پر سبل السلام کے مفہوم سے واقف تھے ۔ وہ ذاتی طور پر اس کے مزے لے رہے تھے اس لئے کہ وہ جاہلیت کی اس ناآشنا زندگی سے نکلے تھے ۔

اس وقت ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اسلام کے امن وسلامتی کے اس پہلو کا ادراک کریں کیونکہ ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی جاہلیت میں انسانیت ظلم وستم کا شکار ہو رہی ہے صدیوں سے ہر قسم کی جنگ برپا ہے ‘ میدان میں بھی اور انسانی ضمیر میں بھی اور معاشروں کے اندر بھی ۔

ہم لوگ جو اسلام کی سلامتی کے زیر سایہ تاریخ اسلام کے ایک دور میں زندگی بسر کرچکے ہیں اب اس سلامتی کو ترک کرکے ‘ اس نہ ختم ہونے والی کشمکش اور جنگ میں داخل ہوگئے ہیں جس نے ہمارے دلوں اور ارواح کو توڑ پھوڑ دیا ہے ‘ جس نے ہمارے اخلاق اور طرز عمل کو شکست وریخت سے دو چار کردیا ہے ‘ جس نے ہمارے معاشرے اور ہماری اقوام کو تہس نہس کردیا ہے ۔ حالانکہ ہم بڑی سہولت سے دوبارہ اس سلامتی میں داخل ہو سکتے ہیں اس لئے کہ اس سلامتی کا پیغام ہمارے پاس محفوظ ہے ۔ یہ اس وقت اپنا معجزہ دکھا سکتا ہے کہ جب ہم اللہ کی مرضی پر راضی ہوجائیں اور اپنے لئے اس کو پسند کرلیں کیونکہ اسے اللہ نے ہمارے لئے پسند کرلیا ہے ۔

ہم اس وقت جاہلیت کے مصائب جھیل رہے ہیں حالانکہ اسلام ہمارے قریب ہے ‘ ہمارے پاس ہے ۔ ہم جاہلیت کی مسلسل جنگ اور بےامنی میں مبتلا ہیں ۔ اگرچہ اسلام کی سلامتی ہماری دست رس میں ہے ۔ کیا ہی برا سودا ہے جو ہم کر رہے ہیں کہ ہم ایک اعلی چیز دے کر ایک ادنی چیز خرید رہے ہیں ۔ ہم گمراہی لے کر ہدایت چھوڑ رہے ہیں اور ہم امن وسلامتی کی راہ دیکھا سکتے ہیں خود سخت انتشار کا شکار ہیں ۔ ہم انسانیت کو جاہلیت کی بدامنی سے اس وقت نکال سکیں گے جب پہلے ہم خود اپنے نفوس کو جاہلیت سے نکال کر باہر لائیں ۔ پہلے ہم خود اسلامی سلامتی کی چھاؤں میں پناہ لے لیں ۔ جب ہم اللہ کی رضا مندی کی چھاؤں میں داخل ہوجائیں ، اور اس دین کے تابع ہوجائیں جو اللہ نے ہمارے لئے پسند کیا ہے تو ہم ان لوگوں میں داخل ہوجائیں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ سلامتی کی راہوں (سبل السلام) پر سیدھے گئے ہیں اور انہیں اللہ نے ان راہوں پر ڈالا ہے ۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے الاسلام والسلام العالمی ۔ الاسلام ومشکلات الحضارہ اور تفسیر فی ظلال القرآن پارہ دوئم تفسیر آیت ادخلوا فی السلم)

(آیت) ” ویخرجھم من الظلمت الی النور باذنہ (4 : 16) ” اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے ۔ “ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاہلیتیں سب کی سب اندھیرے ہیں ۔ ان میں شکوک و شبہات کے اندھیرے ہوتے ہیں ‘ ان میں خرافات ‘ داستانوں اور تصورات کے اندھیرے ہوتے ہیں اور شہوت پرستی ‘ میلانات اور رجحانات کے اندھیرے اور صحرا ہوتے ہیں ‘ حیرانی ‘ بےچینی اور وحشت اور سرگردانی کے اندھیرے ہوتے ہیں ۔ لوگ اس میں درگاہ امن وسلامتی سے بہت ہی دور ہوجاتے ہیں ۔ پھر اقدار میں اضطراب ‘ حسن وقبح کے پیمانوں میں اضطراب اور حکومت کی ہدایت میں اضطراب پیدا ہوجاتا ہے ۔ اسلامی نظام کی روشنی ان تاریکیوں کے بالمقابل ہے اور روشنی بہرحال روشنی ہے جو اندھیروں میں دور سے نظر آتی ہے ۔ اس میں عقل روشن ‘ ضمیر روشن ‘ شخصیت روشن اور زندگی اور اس کے تمام امور روشن ہوتے ہیں ۔

(آیت) ” ویھدیھم الی صراط مستقیم “ (6 : 16) ” اور راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔ “ یہ راستہ نفس انسانی کی فطرت کے ساتھ ساتھ سیدھا ہے اور ان قوانین کے ساتھ ساتھ جاتا ہے جن کی فطرت پر حکمرانی ہے یہ راستہ اس کائنات کی فطرت کے بھی ساتھ ساتھ جاتا ہے اور جن نوامیس کے مطابق یہ کائنات جاری ہے اس کے ساتھ بھی سیدھا جارہا ہے ۔ یہ راستہ سیدھا اللہ کی طرف جاتا ہے ، نہ اس میں بھول بھلیاں ہے اور نہ اس میں موڑ ہیں ۔ نہ اس میں مختلف پگ ڈنڈیاں ہیں اور نہ مختلف رجحانات ہیں ۔

اللہ ہی ہے جس نے اس انسان اور اس کی فطرت کو پیدا کیا ہے ۔ اس نے اس کائنات اور اس کے نوامیس کو پیدا کیا ہے اسی نے پھر انسان کے لئے اسلامی نظام حیات وضع کیا ہے ۔ وہی ہے جس نے اہل ایمان کے لئے یہ دین پسند کیا ہے ۔ اس لئے یہ بات قدرتی اور واضح ہے کہ یہ نظام لوگوں کو صحیح اور سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرے ۔ جبکہ تمام دوسرے نظام اور مناہج جو عاجز ‘ جاہل اور فانی انسان نے بنائے ہیں وہ اس سے بالکل قاصر ہیں۔

اللہ عظیم ہے اور سچا ہے ‘ اور دونوں جہانوں سے بےنیاز ہے ۔ ان کی ہدایت سے اسے کوئی فائدہ ہے نہ ان کی ضلالت میں اس کا کوئی نقصان ہے لیکن وہ محض اپنی شفقت سے انہیں اس راستے پر لانا پسند کرتا ہے ۔

یہ ہے صراط مستقیم ۔ رہا یہ راستہ کہ اللہ مسیح ابن مریم ہے تو یہ کفریہ راہ ہے ۔ یہ عقیدہ کہ یہود ونصاری اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے محبوب ہیں تو یہ افتراء ہے اور اس پر کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے ۔ اہل کتاب میں یہ دونوں عقائد پائے جاتے تھے اور یہ دونوں عقیدے توحید کے خلوص میں ملاوٹ پیدا کرتے تھے ۔ اور نبی آخر الزمان آئے ہی اس لئے ہیں کہ لوگوں کے غلط عقائد کو درست کریں ۔ اور جو لوگ اصل حقیقت سے منحرف ہو کر ادھر ادھر ہوگئے ہیں انہیں صحیح راستے پر لے آئیں ۔

آیت 16 - سورۃ المائدہ: (يهدي به الله من اتبع رضوانه سبل السلام ويخرجهم من الظلمات إلى النور بإذنه ويهديهم إلى صراط مستقيم...) - اردو