سورۃ المائدہ (5): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Maaida کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المائدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المائدہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Maaida
سُورَةُ المَائـِدَةِ
صفحہ 110 (آیات 14 سے 17 تک)

وَمِنَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّا نَصَٰرَىٰٓ أَخَذْنَا مِيثَٰقَهُمْ فَنَسُوا۟ حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا۟ بِهِۦ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ ٱلْعَدَاوَةَ وَٱلْبَغْضَآءَ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ ۚ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ ٱللَّهُ بِمَا كَانُوا۟ يَصْنَعُونَ يَٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ ٱلْكِتَٰبِ وَيَعْفُوا۟ عَن كَثِيرٍ ۚ قَدْ جَآءَكُم مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌ وَكِتَٰبٌ مُّبِينٌ يَهْدِى بِهِ ٱللَّهُ مَنِ ٱتَّبَعَ رِضْوَٰنَهُۥ سُبُلَ ٱلسَّلَٰمِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ بِإِذْنِهِۦ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَٰطٍ مُّسْتَقِيمٍ لَّقَدْ كَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْمَسِيحُ ٱبْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ ٱللَّهِ شَيْـًٔا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ ٱلْمَسِيحَ ٱبْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُۥ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
110

سورۃ المائدہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المائدہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اِسی طرح ہم نے اُن لوگوں سے بھی پختہ عہد لیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ ہم "نصاریٰ" ہیں، مگر ان کو بھی جو سبق یاد کرایا گیا تھا اس کا ایک بڑا حصہ اُنہوں نے فراموش کر دیا آخر کار ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے دشمنی اور آپس کے بغض و عناد کا بیج بو دیا، اور ضرور ایک وقت آئے گا جب اللہ انہیں بتائے گا کہ وہ دنیا میں کیا بناتے رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamina allatheena qaloo inna nasara akhathna meethaqahum fanasoo haththan mimma thukkiroo bihi faaghrayna baynahumu alAAadawata waalbaghdaa ila yawmi alqiyamati wasawfa yunabbiohumu Allahu bima kanoo yasnaAAoona

(آیت) ” وَمِنَ الَّذِیْنَ قَالُواْ إِنَّا نَصَارَی أَخَذْنَا مِیْثَاقَہُمْ فَنَسُواْ حَظّاً مِّمَّا ذُکِّرُواْ بِہِ فَأَغْرَیْْنَا بَیْْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاء إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَسَوْفَ یُنَبِّئُہُمُ اللّہُ بِمَا کَانُواْ یَصْنَعُونَ (14)

” اسی طرح ہم نے ان لوگوں سے بھی پختہ عہد لیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاری ہیں مگر ان کو بھی جو سبق یاد کرایا گیا تھا اس کا ایک بڑا حصہ انہوں نے فراموش کردیا ۔ آخر کار ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کیلئے دشمنی اور آپس میں بغض وعناد کا بیج بو دیا اور ضرور ایک وقت آئے گا جب اللہ انہیں بتائے گا کہ یہ دنیا میں کیا کیا بناتے رہے ہیں ۔ ‘

یہاں ایک خاص انداز تعبیر ہے اور اس کے اندر ایک خاص اشارہ ہے ۔ (آیت) ” ومن الذین قالوا انا نصری “۔ (5 : 14) ” اسی طرح ان لوگوں سے بھی عہد لیا تھا جنہوں نے کہا ہم نصاری ہیں۔ “

اس انداز کے اندر اشارہ یہ ہے کہ انہوں نے نصاری ہونے کا دعوی تو کیا تھا ‘ لیکن عملا انہوں نے اس عہد کو پورا نہ کیا تھا ۔ اس عہد وپیماں کی اساس یہ تھی کہ ہم اللہ کو صرف وحدہ لاشریک سمجھیں گے ۔ لیکن انہوں نے اپنی گمراہی کا آغاز ہی اپنے اساسی عقیدہ توحید سے کیا ۔ اس لائن پر وہ آگے بڑھ گئے اور یہ وہ سبق (حظ) تھا جو انہوں نے بھلا دیا حالانکہ یہ سبق انہیں اچھی طرح یاد کرایا گیا تھا ۔ اور اس سبق کو بھلانے کے نتیجے میں وہ غلط راہ پر دور نکل گئے اور ان کے درمیان فرقہ ورانہ اور گروہی اختلاف پیدا ہوئے اور پھر ان کے اندر بہت سے مذاہب اور مکاتب فکر پیدا ہوگئے ۔

یہ مکاتب فکر اس قدر بڑھے کہ آج ان کا شمار ممکن نہیں ہے ۔ قدیم زمانے میں بھی ان کے بیشمار فرقے تھے اور جدید دور میں بھی ان کے بیشمار فرقے ہیں ۔ (اجمالی بحث عنقریب آئے گی ) ان فرقوں کے درمیان اس قدر بغض وعداوت پیدا ہوگیا جس کی کوئی مثال تاریخ مذاہب میں نہیں ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ اختلافات قیامت تک رہیں گے اور اس لئے رہیں گے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے اپنے عہد کا کوئی پاس نہ رکھا ۔ انہوں نے اس سبق اور نظریہ حیات ہی کو بھلا دیا جو انہیں اچھی طرح یاد کرایا گیا تھا ۔ آخرت میں جب ان کو اللہ وہ تفصیلات بتائے گا کہ اس دنیا میں وہ کیا کیا کرتے رہے ہیں تب ان کی جزاء کا وہاں ہی فیصلہ ہوگا ۔ اس وقت اللہ کو ان کی تمام صنعت کاریوں کو ان کے سامنے رکھ کر ان کو خوب شرمندہ کرے گا اور پھر سزا دے گا ۔

جو لوگ نصاری (مددگار) ہونے کا دعوی کرتے تھے ان کے درمیان اس قدر اختلافات ‘ تفرقہ بازی اور بغض وعداوت پیدا ہوئی جس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔ ان کی تاریخ قدیم میں بھی اور جدید تاریخ میں بھی جس کی حکایت اللہ تعالیٰ یہاں اپنی کتاب کریم میں فرماتے ہیں ۔ ان فرقہ وارانہ جنگوں میں اس قدر خون بہا کہ اس قدر خونریزی ان کی ان تمام تاریخی جنگوں میں نہ ہوئی جو انہوں نے اپنی پوری تاریخ میں لڑیں ، چاہے دینی عقائد سے پیدا ہونے والے اختلافات کے نتیجے میں یہ خونریزی ہوئی یا دینی سربراہی کے حصول کے لئے ہوئی یا سیاسی ‘ اقتصادی اور اجتماعی اختلافات کے نتیجے میں ہوئی ۔ یہ خونریز آویزش اس قدر طویل اور اس قدر گہری تھی کہ اس کے آثار صدیوں تک باقی رہے اور وہ زخم صدیوں بعد بھی مندمل نہ ہوئے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو اصدق القائلین ہیں ۔ یہ اختلاف قیامت تک رہیں گے اور ان کا سبب حقیقی صرف یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے اپنے عہد کو پس پشت ڈال دیا اور انہوں نے اس نظریاتی سبق کو بالکل بھلا دیا جو انہیں اچھی طرح یاد کرایا گیا تھا ، اس عہدوپیمان کی پہلی دفعہ یہ تھی کہ وہ عقیدہ توحید پر قائم رہیں گے ‘ جس سے انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے اٹھنے کے بہت تھوڑے عرصے بعد ہی انحراف کرلیا تھا اور اس کے اسباب اور واقعات کی تفصیلات یہاں پیش کرنا مشکل ہے ۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے محاضرات فی النصرانیہ ‘ ابو زہرہ اور فی ظلال القرآن پارئہ سوئم)

یہودیوں اور عیسائیوں کی جانب سے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد و پیمان کی خلاف ورزی اور اس پر کئے جانے والے تبصروں کا بیان یہاں تک پہنچ کر اب خطاب یہود ونصاری دونوں سے ہے ۔ دونوں کے سامنے اب حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا اعلان کیا جاتا ہے کہ یہ رسالت تمہارے لئے بھیجی گئی ہے جس طرح یہ رسالت امی عرب اقوام اور تمام جہان کے لئے ہے ، دنیا کے سب لوگ اس رسالت اور دعوت کے مخاطب ہیں ۔ سب کو اللہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس آخری رسول پر ایمان لائیں یہ بات اللہ کی جانب سے یہود ونصاری دونوں کے ساتھ کئے ہوئے عہد و پیمان کی ایک دفعہ ہے ‘ جیسا کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے بیان کرچکے ہیں ۔ اس نبی آخر الزماں نے بعض ایسی باتوں کے انکشافات بھی کئے ہیں جنہیں وہ چھپاتے تھے ‘ حالانکہ وہ منکشف کردہ امور ان کے ہاں موجود کتابوں میں موجود تھے ۔ انہوں نے ان باتوں کو نہایت ہی حفاظت میں خفیہ رکھا ‘ جو ان کی جانب سے وعدہ خلافی تھی ، کئی ایسی اور باتیں بھی تھیں کہ رسول خدا ﷺ نے عفو درگزر کرتے ہوئے ان کا انکشاف نہ کیا ‘ اس لئے کہ اسلام کے جدید قانونی نظام میں ان کے بارے میں انکشافات کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کی بعض گمراہیوں اور انحرافات کا ذکر فرماتے ہیں جو انہوں نے اپنے صحیح اسلامی عقائد کے اندر کئے مثلا نصاری کا یہ قول کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم خدا ہیں اور یہودیوں کا یہ کہنا کہ موسیٰ اللہ کے محبوب ہیں اور آخر میں بتایا جاتا ہے کہ اس آخری رسالت کے ان انکشافات اور اعلانات اور کھلی روشنی پھیلا دینے کے بعد تمہارے لئے اللہ اور انسانوں کے نزدیک کوئی حجت نہ رہے گی اور ان کے لئے اب یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ ہم پر چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ایک طویل دور گزر گیا تھا ‘ اس لئے خدا تعالیٰ کی تعلیمات ہم بھول گئے اور معاملہ ہم پر مشتبہ ہوگیا ۔

اردو ترجمہ

اے اہل کتاب! ہمارا رسول تمہارے پاس آ گیا ہے جو کتاب الٰہی کی بہت سی اُن باتوں کو تمہارے سامنے کھول رہا ہے جن پر تم پردہ ڈالا کرتے تھے، اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کر جاتا ہے تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آ گئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ahla alkitabi qad jaakum rasooluna yubayyinu lakum katheeran mimma kuntum tukhfoona mina alkitabi wayaAAfoo AAan katheerin qad jaakum mina Allahi noorun wakitabun mubeenun

(آیت) ” نمبر 15 تا 19۔

اہل کتاب اس بات کو پسند نہ کرتے تھے کہ ان کو اسلام کی طرف دعوت ایک ایسا نبی دے جو ان میں سے نہ ہو ۔ پھر یہ ان کوکب گوارا تھا کہ ان کے پاس نبی ایک ایسی امت سے آجائے جو ایک امی امت ہے اور جس کے مقابلے میں وہ اپنے آپ کو برتر اور ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو زیادہ عالم سمجھتے تھے ۔ اس لئے کہ وہ اہل کتاب تھے اور یہ عرب امی تھے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان امیوں کو سربلند کرنا چاہا تو ان میں ایک نبی مبعوث فرمایا ‘ اے خاتم النبین اور آخری رسول قرار دیا اور اس کی رسالت کو خاتم الرسالات قرار دیا ۔ اسے تمام انسانیت کے لئے عام رسالت قرار دیا گیا ۔ اللہ نے ان ان پڑھ لوگوں کو تعلیم دی اور ایک مختصر عرصے میں وہ تمام انسانیت کے مقابلے میں سب سے اونچے علمی مقام پر فائز ہوگئے وہ اپنے تصورات اور اعتقادات کے لحاظ سے ترقی یافتہ اور اپنے طریقہ کار اور نظام حیات کے لحاظ سے سب سے زیادہ درست ‘ اپنے نظم ونسق اور قانون کے اعتبار سے سب سے زیادہ افضل اور اپنے اخلاق اور معاشرت کے لحاظ سے سب سے زیادہ صالح تھے ۔ اور یہ سب باتیں اس میں شامل ہیں کہ یہ ان پر اللہ کا فضل وکرم تھا ۔ یہ دین ان کو بطور انعام دیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے دین پسند فرمایا تھا ۔ اگر عرب کے امیوں کو یہ نعمت نہ ملتی تو وہ ہر گز پوری انسانیت کے نگہبان نہ بن سکتے تھے ۔ اگر اس دین کو الگ کردیا جائے پھر عربوں کے پاس اور کیا تحفہ ہے جو وہ اس انسانیت کو دیں گے ۔

ان حالات میں اللہ تعالیٰ اہل کتاب کو پکارتا ہے ۔ یہ بات ریکارڈ پر لائی جاتی ہے کہ ان کو خصوصی طور پر اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جارہی ہے ۔ اس رسول پر ایمان لانے اور اس کی مدد کرنے کی دعوت ان کو دی جارہی ہے ۔ اس عہد و پیمان کے عین مطابق جو ان سے لیا گیا تھا کہ وہ نبی آخر الزمان کی مدد اور نصرت کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ یہ بات بھی ریکارڈ پر لاتا ہے کہ یہ رسول امی اللہ نے ان کے پاس بھیجا ہے ۔ وہ عربوں کا بھی رسول ہے ۔ اہل کتاب کے لئے بھی رسول ہے اور پھر پوری انسانیت کے لئے بھی رسول ہے ۔ اس لئے تم اس کی رسالت کا انکار نہیں کرسکتے اور نہ یہ کہہ سکتے ہو کہ آپ کی رسالت صرف عربوں کے لئے ہے یا یہ کہ اس رسالت میں اہل کتاب کو خصوصیت کے ساتھ کوئی دعوت نہیں دی گئی ہے ۔

(آیت) ” یاھل الکتب قد جآء کم رسولنا یبین لکم کثیرا مما کنتم تخفون من الکتب ویعفوا عن کثیر “ (4 : 15)

(اے اہل کتاب ‘ ہمارا رسول تمہارے پاس آگیا ہے جو کتاب الہی کی بہت سی ان باتوں کو تمہارے سامنے کھول رہا ہے جن پر تم پردہ ڈالا کرتے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کرجاتا ہے)

یعنی حضرت محمد ﷺ تمہاری جانب ایک رسول ہیں اور تمہارے بارے میں اس کے فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ تم نے صدیوں تک جن حقائق کو چھپایا ‘ جو تمہاری کتابوں میں تھے ‘ وہ ان کا کھل کر بیان کرے ۔ رازوں کا انکشاف کرے اور مجمل باتوں کی وضاحت کرے اور اس باب میں یہود ونصاری دونوں برابر ہیں ۔ نصاری نے تو دین کی پہلی اساس ہی کو چھپا دیا تھا یعنی عقیدہ توحید کو ۔ اسی طرح یہودیوں نے کئی شرعی احکام کو چھپا دیا تھا ۔ مثلا زانی کے لئے رجم کی سزا اور تمام لوگوں کے لئے سود کی حرمت ، نیز انہوں نے نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے بارے میں وارد ہونے والی بشارت کو بھی چھپا دیا تھا جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے ۔ (آیت) ” الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل) ” وہ جسے وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں “۔ اور یہ کہ رسول کریم ﷺ نے بہت سی ایسی باتوں کو نہیں چھیڑا جو انہوں نے چھپائی تھیں ۔ لیکن چونکہ وہ اسلامی شریعت میں داخل نہ تھیں یعنی انکو اللہ نے سابقہ شریعتوں کی دوسری چیزوں کی طرح منسوخ کردیا ‘ جو انسانی معاشروں سے متروک ہوگئی تھیں اگرچہ وہ کبھی مشروع تھیں لیکن انبیائے سابقہ کے چھوٹے چھوٹے معاشروں میں ‘ جن کیلئے اس سے پہلے رسول بھیجے گئے تھے مگر محدود وقت کے لئے ۔ یہاں تک کہ یہ آخری اور آفاقی رسالت آگئی جو تمام انسانیت کے لئے تھی ، یہ آخری رسالت دنیا میں جم گئی اور اللہ نے اسے مکمل کردیا اور اسے بطور نعمت لوگوں کے لئے مکمل دین کے طور پر پسند کرلیا ۔ اب اس کا فسخ ‘ اس میں کسی قسم کی تبدیلی اور کسی قسم کی ترمیم ممنوع ہوگئی ۔

اب یہاں یہ بھی بیان کردیا جاتا ہے کہ رسالت آخری کے اہداف کیا ہیں اور اس کی نوعیت کیا ہے اور یہ رسالت لوگوں کی زندگیوں میں کیا کیا تبدیلیاں لائے گی ،

(آیت) ” ۔۔۔۔۔ قد جآء کم من اللہ نور وکتب مبین (15) یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلم ویخرجھم من الظلمت الی النور باذنہ یھدیھم الی صراط مستقیم (16) (4 : 15۔ 16)

( تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے ۔ )

اس کتاب پر اس سے زیادہ نہ کوئی اور لفظ صادق آتا ہے ‘ نہ اس سے زیادہ پوری طرح منطبق ہوتا ہے اور نہ اس سے زیادہ اس کی حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ یہ کتاب ‘ قرآن ‘ ایک نور ہے اور ایک نئی روشنی ہے ۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اسے ایک مسلمان اپنے دل ‘ اپنے وجود ‘ اپنی پوری زندگی ‘ اپنے نقطہ نظر اور اپنی اقدار اور اپنے واقعات اور معاشرے کے تمام افراد کے بارے میں اچھی طرح محسوس کرتا ہے ۔ جونہی ایک مسلمان کے دل میں شمع ایمان روشن ہوتی ہے وہ اپنے اندر ایک روشنی اور ایک نور محسوس کرتا ہے ۔ اس نور سے اس کی شخصیت منور ہوتی ہے ‘ وہ مطمئن ‘ ہوجاتی ہے ۔ اس کے ماحول میں جو چیز بھی آتی ہے وہ منور ہوجاتی ہے ۔ واضح ہوجاتی ہے ‘ صاف صاف دکھائی دیتی ہے اور درست ہوجاتی ہے ۔

انسان کی شخصیت کا فیچر ‘ اس کی مٹی کی تاریکی ‘ اس کے گوشت و پوست کی کثافت ‘ اس کی شہوت ولذت کا جوش و خروش سب منور ہوجاتے ہیں ۔ سب کے سب چمکتے ہیں ‘ روشن ہوجاتے ہیں اور واضح ہو کر نکھر جاتے ہیں ۔ مادیت کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے ۔ کثافت اور جوش میں لطافت اور ٹھنڈک آجاتی ہے ۔ انسان کی فکر ونظر سے غبار اور اجمال دور ہوجاتا ہے۔ اس کے اقدام سے تردو اور خلجان ختم ہوجاتا ہے ۔ اس کی جہت نظر سے حیرانی اور پریشانی دور ہوجاتی ہے ۔ وہ مویشیوں کے راستے پر نہیں چلتا جس کی کوئی منزل ہوتی ہے نہ نشان منزل ۔ اس کا راستہ واضح ‘ سیدھا اور روشن ہوجاتا ہے ۔ اس کا نصب العین واضح اور مقاصد حیات متعین ہوجاتے ہیں اور نفس انسانی اس راہ پر مطمئن ہوجاتا ہے ۔

” یہ نور اور واضح کتاب ہے “ یہ دونوں اوصاف نور اور مبین ایک چیز کے اوصاف نور اور مبین ایک چیز کے اوصاف ہیں اور یہ وہ کتاب ہے جسے نبی ﷺ لے کر آتے ہیں ۔

اردو ترجمہ

جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے اُن کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yahdee bihi Allahu mani ittabaAAa ridwanahu subula alssalami wayukhrijuhum mina alththulumati ila alnnoori biithnihi wayahdeehim ila siratin mustaqeemin

(آیت) ” یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلم ویخرجھم من الظلمت الی النور باذنہ یھدیھم الی صراط مستقیم (4 : 16)

(جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے ۔ )

اللہ نے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا ہے اور جو لوگ اللہ کی اس رضا مندی اور پسند کے تابع ہوں گے اور اسے اپنے لئے پسند کریں گے تو اللہ ایسے لوگوں کو سلامتی کے راستوں پر ڈال دیتا ہے ۔

” یہ انداز اظہار قرآن پر سو فیصدی منطبق ہے اور قرآن اس بات کا نہایت ہی صحیح مصداق ہے کہ وہ سلامتی کا واسطہ ہے ۔ اسلام ایک فرد کے لئے جو راہ متعین کرتا ہے وہ سلامتی کا راستہ ہے ۔ وہ ضمیر کی سلامتی ہے ‘ وہ عقل کی سلامتی ہے ‘ وہ اعضاء کی سلامتی ہے ۔ وہ گھر اور خاندان کی سلامتی ہے ۔ وہ معاشرے کی سلامتی ہے ‘ وہ بشریت و انسانیت کی سلامتی ہے ۔ وہ اس زندگی کے ساتھ سلامتی ہے ‘ وہ اس کائنات کے ساتھ سلامتی ہے ‘ وہ اللہ رب کائنات کے ساتھ سلامتی ہے ‘ وہ اللہ رب کائنات کے ساتھ سلامتی ‘ غرض ہمہ گیر اور ہمہ جہت سلامتی ہے جسے اس انسانیت نے نہ کبھی پایا ہے اور نہ کبھی پا سکے گی مگر صرف اسلامی نظام حیات میں ‘ صرف منہاج میں صرف اسلامی شریعت کے قانون میں اور صرف اس معاشرے میں جو اسلامی شریعت اور اسلامی نظریہ حیات کی اساس پر قائم ہو۔

یہ عظیم سچائی ہے کہ اللہ اس دین کی طرف اس شخص کی راہنمائی کرتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوا ہو ۔ اور وہ شخص ہوتا ہے جو خود بھی اللہ ہی کی مرضی کا خیال کرتا ہے اور اللہ ہی کی مرضی میں سلامتی کے راستے ہیں یعنی اسلام ۔ سلامتی کے تمام راستے اسلام میں ہیں ۔ اور اس سچائی کی گہرائی اور عمق کا ادراک وہی کرسکتا ہے جس نے جاہلیت قدیمہ اور جاہلیت جدیدہ کے وہ تمام راستے دیکھے ہوں جو جنگ جدال کے راستے ہیں ۔ اس حقیقت کی گہرائی کا ادراک وہی شخص کرسکتا ہے جس نے جاہلیت کی وجہ سے ضمیر کی گہرائیوں میں پیدا ہونے والی بےچینی کو خود دیکھا ہو اور اس کا مزہ چکھا ہو ۔ اسی طرح جس نے جاہلی رسم و رواج اور جاہلی نظامہائے حیات اور طور طریقوں سے پیدا ہونے والی بےچینوں کو دیکھا ہو اور اس افراتفری کو دیکھا ہو جو یہ نظام انسانی زندگی کے معاملات میں پیدا کردیتا ہے ۔

ان آیات کے ساتھ سب سے جن لوگوں کو خطاب کیا گیا تھا وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ سبل السلام کا مفہوم کیا ہے کیونکہ جاہلیت میں رہ کر ان لوگوں کو اچھی طرح تجربہ تھا کہ سلامتی کیا چیز ہے ؟ اس لئے وہ ذاتی طور پر سبل السلام کے مفہوم سے واقف تھے ۔ وہ ذاتی طور پر اس کے مزے لے رہے تھے اس لئے کہ وہ جاہلیت کی اس ناآشنا زندگی سے نکلے تھے ۔

اس وقت ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اسلام کے امن وسلامتی کے اس پہلو کا ادراک کریں کیونکہ ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی جاہلیت میں انسانیت ظلم وستم کا شکار ہو رہی ہے صدیوں سے ہر قسم کی جنگ برپا ہے ‘ میدان میں بھی اور انسانی ضمیر میں بھی اور معاشروں کے اندر بھی ۔

ہم لوگ جو اسلام کی سلامتی کے زیر سایہ تاریخ اسلام کے ایک دور میں زندگی بسر کرچکے ہیں اب اس سلامتی کو ترک کرکے ‘ اس نہ ختم ہونے والی کشمکش اور جنگ میں داخل ہوگئے ہیں جس نے ہمارے دلوں اور ارواح کو توڑ پھوڑ دیا ہے ‘ جس نے ہمارے اخلاق اور طرز عمل کو شکست وریخت سے دو چار کردیا ہے ‘ جس نے ہمارے معاشرے اور ہماری اقوام کو تہس نہس کردیا ہے ۔ حالانکہ ہم بڑی سہولت سے دوبارہ اس سلامتی میں داخل ہو سکتے ہیں اس لئے کہ اس سلامتی کا پیغام ہمارے پاس محفوظ ہے ۔ یہ اس وقت اپنا معجزہ دکھا سکتا ہے کہ جب ہم اللہ کی مرضی پر راضی ہوجائیں اور اپنے لئے اس کو پسند کرلیں کیونکہ اسے اللہ نے ہمارے لئے پسند کرلیا ہے ۔

ہم اس وقت جاہلیت کے مصائب جھیل رہے ہیں حالانکہ اسلام ہمارے قریب ہے ‘ ہمارے پاس ہے ۔ ہم جاہلیت کی مسلسل جنگ اور بےامنی میں مبتلا ہیں ۔ اگرچہ اسلام کی سلامتی ہماری دست رس میں ہے ۔ کیا ہی برا سودا ہے جو ہم کر رہے ہیں کہ ہم ایک اعلی چیز دے کر ایک ادنی چیز خرید رہے ہیں ۔ ہم گمراہی لے کر ہدایت چھوڑ رہے ہیں اور ہم امن وسلامتی کی راہ دیکھا سکتے ہیں خود سخت انتشار کا شکار ہیں ۔ ہم انسانیت کو جاہلیت کی بدامنی سے اس وقت نکال سکیں گے جب پہلے ہم خود اپنے نفوس کو جاہلیت سے نکال کر باہر لائیں ۔ پہلے ہم خود اسلامی سلامتی کی چھاؤں میں پناہ لے لیں ۔ جب ہم اللہ کی رضا مندی کی چھاؤں میں داخل ہوجائیں ، اور اس دین کے تابع ہوجائیں جو اللہ نے ہمارے لئے پسند کیا ہے تو ہم ان لوگوں میں داخل ہوجائیں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ سلامتی کی راہوں (سبل السلام) پر سیدھے گئے ہیں اور انہیں اللہ نے ان راہوں پر ڈالا ہے ۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے الاسلام والسلام العالمی ۔ الاسلام ومشکلات الحضارہ اور تفسیر فی ظلال القرآن پارہ دوئم تفسیر آیت ادخلوا فی السلم)

(آیت) ” ویخرجھم من الظلمت الی النور باذنہ (4 : 16) ” اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے ۔ “ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاہلیتیں سب کی سب اندھیرے ہیں ۔ ان میں شکوک و شبہات کے اندھیرے ہوتے ہیں ‘ ان میں خرافات ‘ داستانوں اور تصورات کے اندھیرے ہوتے ہیں اور شہوت پرستی ‘ میلانات اور رجحانات کے اندھیرے اور صحرا ہوتے ہیں ‘ حیرانی ‘ بےچینی اور وحشت اور سرگردانی کے اندھیرے ہوتے ہیں ۔ لوگ اس میں درگاہ امن وسلامتی سے بہت ہی دور ہوجاتے ہیں ۔ پھر اقدار میں اضطراب ‘ حسن وقبح کے پیمانوں میں اضطراب اور حکومت کی ہدایت میں اضطراب پیدا ہوجاتا ہے ۔ اسلامی نظام کی روشنی ان تاریکیوں کے بالمقابل ہے اور روشنی بہرحال روشنی ہے جو اندھیروں میں دور سے نظر آتی ہے ۔ اس میں عقل روشن ‘ ضمیر روشن ‘ شخصیت روشن اور زندگی اور اس کے تمام امور روشن ہوتے ہیں ۔

(آیت) ” ویھدیھم الی صراط مستقیم “ (6 : 16) ” اور راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔ “ یہ راستہ نفس انسانی کی فطرت کے ساتھ ساتھ سیدھا ہے اور ان قوانین کے ساتھ ساتھ جاتا ہے جن کی فطرت پر حکمرانی ہے یہ راستہ اس کائنات کی فطرت کے بھی ساتھ ساتھ جاتا ہے اور جن نوامیس کے مطابق یہ کائنات جاری ہے اس کے ساتھ بھی سیدھا جارہا ہے ۔ یہ راستہ سیدھا اللہ کی طرف جاتا ہے ، نہ اس میں بھول بھلیاں ہے اور نہ اس میں موڑ ہیں ۔ نہ اس میں مختلف پگ ڈنڈیاں ہیں اور نہ مختلف رجحانات ہیں ۔

اللہ ہی ہے جس نے اس انسان اور اس کی فطرت کو پیدا کیا ہے ۔ اس نے اس کائنات اور اس کے نوامیس کو پیدا کیا ہے اسی نے پھر انسان کے لئے اسلامی نظام حیات وضع کیا ہے ۔ وہی ہے جس نے اہل ایمان کے لئے یہ دین پسند کیا ہے ۔ اس لئے یہ بات قدرتی اور واضح ہے کہ یہ نظام لوگوں کو صحیح اور سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرے ۔ جبکہ تمام دوسرے نظام اور مناہج جو عاجز ‘ جاہل اور فانی انسان نے بنائے ہیں وہ اس سے بالکل قاصر ہیں۔

اللہ عظیم ہے اور سچا ہے ‘ اور دونوں جہانوں سے بےنیاز ہے ۔ ان کی ہدایت سے اسے کوئی فائدہ ہے نہ ان کی ضلالت میں اس کا کوئی نقصان ہے لیکن وہ محض اپنی شفقت سے انہیں اس راستے پر لانا پسند کرتا ہے ۔

یہ ہے صراط مستقیم ۔ رہا یہ راستہ کہ اللہ مسیح ابن مریم ہے تو یہ کفریہ راہ ہے ۔ یہ عقیدہ کہ یہود ونصاری اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے محبوب ہیں تو یہ افتراء ہے اور اس پر کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے ۔ اہل کتاب میں یہ دونوں عقائد پائے جاتے تھے اور یہ دونوں عقیدے توحید کے خلوص میں ملاوٹ پیدا کرتے تھے ۔ اور نبی آخر الزمان آئے ہی اس لئے ہیں کہ لوگوں کے غلط عقائد کو درست کریں ۔ اور جو لوگ اصل حقیقت سے منحرف ہو کر ادھر ادھر ہوگئے ہیں انہیں صحیح راستے پر لے آئیں ۔

اردو ترجمہ

یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا مسیح ابن مریم ہی خدا ہے اے محمدؐ! ان سے کہو کہ اگر خدا مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اُس کو اِس ارادے سے باز رکھ سکے؟ اللہ تو زمین اور آسمانوں کا اور اُن سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمانوں کے درمیان پائی جاتی ہیں، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اس کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad kafara allatheena qaloo inna Allaha huwa almaseehu ibnu maryama qul faman yamliku mina Allahi shayan in arada an yuhlika almaseeha ibna maryama waommahu waman fee alardi jameeAAan walillahi mulku alssamawati waalardi wama baynahuma yakhluqu ma yashao waAllahu AAala kulli shayin qadeerun

(آیت) ” لقد کفرا لذین قالوا ان اللہ ھو المسیح ابن مریم ، (قل فمن یملک من اللہ شیئا ان اراد ان یھلک المسیح ابن مریم وامہ ومن فی الارض جمیعا وللہ ملک السموت والارض وما بینھما یخلق ما یشآء واللہ علی کل شیء قدیر (17)

” یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم خدا ہے ۔ اے نبی ! ان سے کہو کہ اگر خدا مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کردینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اس کو اس ارادے سے باز رکھ سکے ؟ اللہ تو زمین اور آسمانوں کا اور ان سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان پائی جاتی ہے ۔ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اس کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے ۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کی طرف سے جو عقیدہ لے کر آئے تھے وہ وہی عقیدہ توحید تھا جسے ہر رسول لے کر آیا ۔ صرف اللہ وحدہ کی بندگی کرنا وہ اقرار ہے جو ہر رسول نے کیا ہے لیکن اس صاف اور ممتاز عقیدے کے اندر تحریفات کرلی گئیں ۔ یہ تحرفات اس وقت ہوئیں جب عیسائیت کے اندر بت پرستی داخل ہوئی اور عیسائیوں نے بت پرستی کے غلط مواد کو لا کر عقیدہ توحید کا جزء بنا دیا اور اس کو اس کے اندر اس قدر گڈ مڈ کردیا کہ عیسائیوں کے عقیدہ توحید کا اصلی جوہر نکالنا ممکن ہی نہ رہا ۔

عیسائیت کے اندر یہ انحرافات اچانک ایک ہی دفعہ نہیں آگئے ۔ یہ شرکیہ عقائد آہستہ آہستہ عیسائیت کے اندر داخل ہوتے رہے ۔ ایک ایک کرکے عیسائیوں کی مذہبی مجالس نے انکو دین میں داخل کیا جو یکے بعد دیگرے منعقد ہوتی رہیں ۔ عیسائیوں کے عقائد عجیب و غریب شکل اختیار کر گئے جن میں دیو مالائی کہانیاں داخل ہوگئیں ‘ جن کو سن کر انسان حیرت زدہ ہوجاتا ہے ۔ یہاں تک کہ خود عیسائیوں میں سے اہل ایمان لوگوں کے لئے اس عقیدے کی تشریح مشکل ہوگئی ۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اٹھالئے جانے کے بعد کچھ عرصے تک آپ کے شاگردوں اور متبعین کے اندر عقیدہ توحید رائم رہا ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حالات کے بارے میں جو اناجیل لکھی گئیں ان میں سے ایک اہم انجیل ‘ انجیل برناباس ہے ۔ یہ انجیل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں یہ کہتی ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے رسول تھے ۔ اس کے بعد ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ۔ بعض نے یہ کہا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تمام رسولوں کی طرح ایک رسول تھے ، بعض نے کہا کہ ٹھیک ہے وہ رسول ہیں لیکن ان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے ۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ وہ اللہ کے بیٹھے ہیں اس لئے کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے ہیں ۔ لیکن اس قول کے مطابق وہ اللہ کی مخلوق ہیں ۔ بعض کا قول یہ تھا کہ وہ اللہ کے بیٹے تھے مگر مخلوق نہ تھے ‘ بلکہ وہ باپ کی طرح قدیم تھے ۔

ان اختلافات کو ختم کرنے کے لئے 325 ء میں بمقام نیقیا ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 48 ہزار مذہبی لیڈر اور علماء شامل ہوئے ۔ انکے بارے میں ایک مذہبی لیڈر جو تاریخ عیسائیت کے مشہور ماہر ہیں ، کہتے ہیں :

یہ لوگ آراء و مذاہب میں مختلف تھے بعض یہ کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انکی ماں اللہ کے علاوہ دو خدا ہیں۔ ان کو بربری کہا جاتا تھا اور عام طور پر ریمنین کے نام سے مشہور تھے ۔ بعض یہ کہتے تھے کہ مسیح باپ سے اس طرح پیدا ہوئے جس طرح آگ کے ایک شعلے سے دوسرا شعلہ پیدا ہوتا ہے ۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اصل شعلہ دوسرے جدا ہونے والے شعلے کی وجہ سے کم ہوگیا ہے ۔ یہ قول سابلیوس اور اس کے متبعین نے اختیار کیا ہے ۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ مریم حاملہ نہیں ہوئی یعنی دس ماہ تک ۔ حضرت عیسیٰ آپ کے پیٹ سے اس طرح ہوکر نکل آئے جس طرح پانی پرنالے سے نکل آتا ہے ۔ اس لئے کہ کلمہ آپ کے کان میں داخل ہوا اور وہاں سے نکلا جہا سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور یہ عمل فورا ہوا ۔ یہ قول الیان اور اس کے ساتھیوں کا ہے ۔ ان میں سے بعض کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ انسان تھے اور وہ انسانی جوہری سے پیدا ہوئے تھے ۔ ان کے ساتھ اللہ کی رحمت شامل ہوگئی اور اپنی مرضی سے اس میں حلول کرگئی اور اسی وجہ سے ابن اللہ کا لقب انہیں نے پایا ۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ جوہر قدیم ہے اور ایک ہے ۔ وہ ایک اقنوم ہے جس کے تین نام ہیں ۔ یہ لوگ کلمہ ‘ روح القدس پر ایمان نہیں لاتے ۔ یہ پولس شمشاطی کا قول ہے ۔ یہ الطاکیہ کا پیٹر تھا ۔ اور ان لوگوں کو بولیقانیوں کہا جاتا ہے ۔ ان میں سے بعض یہ کہتے تھے کہ یہ تین خدا تھے اور اب بھی ہیں ۔ ایک صالح ‘ ایک طالح اور ایک عادل ۔ یہ قول لعین مرقیون اور اس کے ساتھیوں کا ہے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ مرقیون حواریوں کا صدر تھا ۔ یہ لوگ پطرس کو نہیں مانتے ۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو حضرت مسیح کو خدا سمجھتے تھے اور یہ پطرس کا عقیدہ تھا جسے پیغام بر کہا جاتا ہے ۔ یہی عقیدہ تین سوا سی اسقفوں نے اختیار کیا تھا “۔ (محاضرات فی النصرانیہ شیخ ابو زہرہ)

شہنشاہ قسطنطین نے یہ آخری عقیدہ اپنا لیا جو حال ہی میں عیسائی بنا تھا اور عیسائیت کے بارے میں زیادہ علم نہ رکھتا تھا ۔ اس نے اپنی فوجوں کو مخالفین کے خلاف چھوڑ دیا ، یہ لوگ جلاوطن کردیئے گئے ، خصوصا ان لوگوں پر بےپناہ مظالم ڈھائے گئے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت کے قائل نہ تھے ، وہ صرف باپ کو الہ سمجھتے تھے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مخلوق اور ناسوتی سمجھتے تھے ۔

تاریخ اقوام قبط کے مصنف اس فیصلے کے متن کے بارے میں لکھتے ہیں :

” یہ مقدس مجلس اور رسول کا کنیسہ ہر اس عقیدے کو حرام قرار دیتا جس میں یہ تسلیم کیا گیا ہو کہ کہ ایک ایسا زمانہ تھا جس میں ابن اللہ موجود نہ تھا ۔ اور یہ کہ ولادت سے پہلے وہ موجود نہ تھا ۔ یہ کہ وہ عدم سے وجود میں آیا ۔ یا یہ بیٹا ایسے مادے اور جوہر سے پیدا کیا گیا جو باپ سے الگ تھا۔ پھر یہ عقیدہ کہ اسے پیدا کیا گیا یا یہ کہ وہ تغیر پذیر ہے اور اس پر سایہ گردس طاری ہوتا ہے ۔ “

لیکن یہ مجلس عیسائیوں میں اہل توحید کو ختم نہ کرسکی اور ان میں سے آریوس کی شاخ قائم رہی ۔ یہ شاخ قسطنطینہ افطاکیہ ‘ بابل اور اسکندریہ اور پورے مصر پر قابض ہوگئی ۔

اس کے بعد روح القدس کے بارے میں اختلافات شروع ہوگئے ۔ بعض نے کہا کہ وہ بھی الہ ہے ۔ بعض نے کہا کہ وہ الہ نہیں ہے ۔ اس پر قسطنطنیہ کی پہلی مجلس 381 میں منعقد ہوئی تاکہ ان اختلافات کو ختم کرے ۔

اس مجلس میں اسکندریہ کے اسقف نے مقالہ پڑھا اور اس کے مطابق یہ فیصلہ دؤیموثاوس بطریق اسکندریہ کہتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک روح القدس اللہ کی روح کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اور اللہ کی روح ‘ اس کی زندگی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اگر ہم کہیں کہ روح القدس مخلوق ہے تو ہمارا قول یہ ہوگا کہ اللہ کی روح مخلوق ہے اور جب ہم اس کے قائل ہوگئے کہ اللہ کی روح مخلوق ہے تو ہم اس کے قائل ہوجائیں گے کہ اللہ کی زندگی مخلوق ہے اور جب ہم نے کہا کہ اللہ کی زندگی مخلوق ہے تو سارا عقیدہ یہ ہوجائے گا کہ اللہ زندہ نہیں ہے ۔ جب ہم نے یہ عقیدہ اختیار کرلیا کہ اللہ زندہ نہیں ہے تو ہم نے کفر اختیار کرلیا۔ اور جو کافر ہوجائے اس پر لعنت واجب ہے ۔ “

یوں اس مجلس میں حضرت مسیح کی الوہیت کے بارے میں قطعی فیصلہ کردیا گیا ‘ جس طرح نیقیا کی مجلس میں اس بارے میں فیصلہ ہوا تھا ۔ اس طرح باپ ‘ بیٹے اور روح القدس پر مشتمل تثلیث ثابت ہوگئے ، اس کے بعد ایک اور اختلاف شروع ہوا ۔ یہ اختلاف یہ تھا کہ طیبعت الہیہ اور طبیعت انسانی کے درمیان امتزاج کیسے ہوگیا یا لاہوت اور ناسوت کے اندر امتزاج کیسے ہوگیا ؟ قسطنطنیہ کے پادری نسطور کی رائے یہ تھی کہ ایک اقنوم ہے اور ایک طبیعت ہے ۔ اقنوم کی الوہیت باپ سے ہے اور اس کی نسبت باپ کی طرف ہوگی اور انسانی طبیعت مریم سے ولادت میں منتقل ہوئی اور مریم الہ نہ تھی اس لئے کہ وہ ایک انسان کی والدہ تھی وہ الہ کی والدہ نہ تھی ۔۔۔۔۔ کے بیٹے لکھتے ہیں کہ مسیح جو لوگوں کے اندر آیا اور اس نے لوگوں کے ساتھ بات چیت کی :

” یہ انسان جو کہتا ہے کہ وہ مسیح ہے اور محبت کے ساتھ بیٹے سے متحد سے اور کہا جاتا ہے وہ اللہ اور ابن اللہ ہے ۔ یہ حقیقت میں نہیں ہے بلکہ یہ وہبی ہے ۔ “

پھر کہتا ہے :

” نسطور کا عقیدہ یہ تھا کہ ہمارا رب یسوع المسیح الہ نہ تھا ۔ یعنی اپنی ذات کے اعتبار سے بلکہ ‘ وہ انسان تھا جو برکت اور نعمت سے پر تھا یا وہ سہم من اللہ تھا تو اس نے کوئی غلطی نہیں کی ہے اور نہ اس نے کفریہ بات کی ہے ۔ “

اسقف روم نے اس کی رائے کی مخالفت کی ‘ اسی طرح اسکندریہ کے صدر پادری نے اور انطاکیہ کے اسقفوں نے بھی مخالفت کی اس لئے انہوں نے ایک چوتھی مجلس پر اتفاق کیا ۔ یہ مجلس انس میں 413 ء میں منعقد ہوئی اس مجلس نے فیصلہ کیا جس طرح ابن بطریق کہتے ہیں :

” مریم اللہ کی والدہ ہیں اور حضرت مسیح سچے الہ اور انساں ہیں اور وہ دو طبیعتوں کے ساتھ مشہور ہیں اور یہ دونوں ایک ہی اقنوم میں ایک ہوگئی ہیں ۔ “ اس مجلس نے نسطور پر لعنت بھیجی ۔

اس کے بعد اسکندریہ کے کنیسہ نے ایک نئی رائے اختیار کی ۔ اس کے لئے پھر افس میں ایک دوسری مجلس منعقد ہوئی اور اس نے فیصلہ کیا :

” مسیح ایک ہی طبیعت ہے جس میں لاہوت اور ناسوت جمع ہوگئے ہیں “ لیکن اس رائے کو تسلیم نہ کیا گیا اور اس بارے میں شدید اختلاف جاری رہے ۔ اس پر طلقدونیہ کی مجلس 451 ء میں منعقد ہوئی اس نے فیصلہ کیا : کہ مسیح کی دو طبیعتیں ہیں ‘ ایک نہیں ہے ۔ لاہوت ایک طبیعت ہے جو علیحدہ ہے اور ناسوت ایک جدا طیبعت ہے ۔ اور دونوں کا النقاء مسیح کی ذات میں ہوگیا ہے ۔ “ ان لوگوں نے افس کی مجلس دوئم پر لعن طعن کیا۔

لیکن مصریوں نے اس مجلس کے فیصلوں کو تسلیم نہ کیا ۔ اس کے نتیجے میں مصر کے مذہب متوفییہ اور ساہی مذہب جو قیصر روم کی حکومت کا پروردہ تھا ‘ کے درمیان خونریز اختلافات ہوئے جس کے بارے میں اس سے پہلے ہم آرنولڈ کے مقالے کا حوالہ دے چکے ہیں ۔ دیکھئے اس کی کتاب ” دعوت اسلامی “ ۔ آغاز سورة آل عمران میں۔

ہمارا خیال ہے کہ الوہیت مسیح کے بارے میں اس قدر افکار باطلہ کے حوالے کافی ہیں کہ اس غلط عقیدے کی وجہ سے کس قدر خونریز فسادات ہوتے رہے اور کس قدر طویل عداوتیں ہوئیں اور کس قدر فرقے وجود میں آئے جو آج تک موجود ہیں ۔

اس کے بعد آخری رسالت آتی ہے تاکہ وہ اس مسئلے کا سچائی کے ساتھ فیصلہ کر دے اور فیصلہ کے ساتھ ناقابل تردید بات کرے ۔ چناچہ آخری رسول آتا ہے اور وہ اہل کتاب کو صحیح عقیدے کی تلقین یوں کرتا ہے ” وہ لوگ بھی کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ مسیح ابن مریم ہیں۔ “ اور ” وہ لوگ بھی کافر ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تینوں کا ایک ہے “ (تفصیلات آگے آرہی ہیں)

اللہ تعالیٰ ان کو متوجہ کرتے ہیں کہ ذرا عقل سے تو کام لو اور ذرا واقعی صورت حالات پر بھی غور کرو (ان سے کہو کہ اگر خدا مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کردینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اس کو اس ارادے سے باز رکھ سکے ؟ )

اس طرح اللہ کی ذات ‘ اس کی طبیعت ‘ اس کی مشیت ‘ اس کی قوت اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات کے اندر مکمل طور پر جدائی کردی جاتی ہے ۔ اسی طرح اس کی والدہ کی ذات اور تمام دوسری ذاتوں کو اللہ سے علیحدہ کردیا جاتا ہے ۔ نہایت ہی قطعیت اور نہایت ہی وضاحت کے ساتھ ۔ یوں کہ اللہ کی ذات وحدہ لاشریک ہے ۔ اس کی مشیت بےقید ہے ۔ اس کی حکومت صرف اس کی ہے۔ کوئی بھی اس کی مشیت کو رد نہیں کرسکتا نہ اس کے احکام کو رد کرسکتا ہے ۔ وہ مسیح ابن مریم ‘ اس کی والدہ اور تمام باشندگان زمین کو ہلاک کرسکتا ہے ۔ وہ ہر چیز کا مالک ہے ۔ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور خالق لازما مخلوق سے جدا ہوتا ہے اور ہر چیز اس کی مخلوق ہے۔

(آیت) ” وللہ ملک السموت والارض وما بینھما یخلق ما یشآء واللہ علی کل شیء قدیر “۔

اللہ تو زمین اور آسمانوں کا اور ان سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان پائی جاتی ہے ۔ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اس کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے ۔

یوں اسلامی عقیدہ صاف ہوکر خالص ہوجاتا ہے ۔ نہایت ہی واضح اور نہایت ہی سادہ اور وہ بےراہ روی ‘ افکار پریشاں ‘ بےحقیقت داستانوں اور بت پرستوں کے مقابلے میں جو اہل کتاب کے ایک گروہ کے عقائد کے ساتھ شامل تھے ‘ ان کے تہ بہ تہ ڈھیروں کے مقابلے میں بالکل صاف اور معقول بن جاتا ہے اور اسلامی عقیدے اور نظریے کا پہلا خاصہ یعنی یہ کہ الوہیت اور حاکمیت صرف اللہ کے لئیی ہے اور بندگی صرف اللہ کی ہوگی ‘ بلاکسی شبہ ‘ بلاکسی پیچیدگی اور بغیر کسی گردوغبار کے دونوں حقیقتوں کے درمیان فیصلہ کن اور واضح فرق ہوجاتا ہے ۔

110