سورۃ المعارج: آیت 17 - تدعو من أدبر وتولى... - اردو

آیت 17 کی تفسیر, سورۃ المعارج

تَدْعُوا۟ مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلَّىٰ

اردو ترجمہ

پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی ہر اُس شخص کو جس نے حق سے منہ موڑا اور پیٹھ پھیری

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

TadAAoo man adbara watawalla

آیت 17 کی تفسیر

تدعوا .................... فاوعی (07 : 81) ” پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی ہر اس شخص کو ، جس نے حق سے منہ موڑا اور پیٹھ پھیری اور مال جمع کیا اور سینت سینت کر رکھا “۔ یہ اس کو اسی طرح بلائے گی جس طرح اسے اس سے قبل دنیا میں راہ ہدایت کی طرف بلایا جاتا تھا۔ اور یہ پیٹھ پھیر کر چلا جاتا تھا۔ لیکن آج جبکہ اسے یہ بلارہی ہے تو اس قابل نہیں ہے کہ پیٹھ پھیر کر چلا جائے۔ اس سے قبل یہ دعوت اسلامی کے مقابلے میں مال جمع کرنے میں لگا ہوا تھا اور اس مال کو وہ برتنوں اور تجوریوں میں محفوظ کرکے رکھتا تھا۔ اور آج یہ دعوت بلائے جہنم کی طرف سے ہے۔ نہ یہ اسے رد کرسکتا ہے نہ مال دے کر جان کو چھڑا سکتا ہے۔

اس سورت ، اس سے پہلی سورت اور سورة قلم میں بھی تاکید اس بات کی تھی کہ ان کے جرم میں یہ بات بھی شامل تھی یہ لوگ مال جمع کرتے تھے اور مساکین کے کھانے پر لوگوں کو نہ ابھارتے تھے۔ یعنی کفر ، شرک اور تکذیب کے ساتھ ساتھ ان کا یہ جرم بھی تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر ، گمراہی اور تکذیب کے ساتھ ساتھ مکہ میں تحریک کو یہ مشکل بھی درپیش تھی کہ لوگ بخیل تھے اور دولت پرست تھے اور غریبوں کا خیال نہ رکھتے تھے۔ اس لئے بار بار ان امور کی طرف بھی اشارہ کیا کہ فقیروں ، مسکینوں کو نظر انداز کرنا اور بہت زیادہ دولت پرست و مادہ پرست ہونا موجب عذاب ہے۔

اس سورت میں دوسرے اشارات بھی ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت دعوت اسلامی کا آغاز جس مکی معاشرے میں ہوا تھا ، اس کے خدوخال کیا تھے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ تھا جس میں لوگ مال و دولت جمع کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ تجارت اور سود خواری ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ قریش کے سردار تجارتی کوٹھیوں کے مالک تھے اور ہر ایک کے اپنے اپنے قافلے ہوتے تھے۔ جو یہ گرمیوں اور سردیوں میں چلاتے تھے۔ دولت پر لوگ ہر طرف سے ٹوٹ پڑتے تھے۔ ہر شخص بےحد بخیل تھا۔ فقراء اور مساکین محروم تھے۔ یتیم اور لاچار بھوکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاشی ناہمواری کو دور کرنے کے لئے قرآن کریم نے بار بار بتکرار احکامات صادر کیے ، بار بار حرص کی مذمت کی۔ انسانی نفوس کے اندر اتر کر بخل اور حرص کو جڑوں سے نکالا۔ اور یہ کام اسلام نے فتح سے قبل نظریاتی طور پر کیا اور فتح کے بعد عملی طور پر کیا۔ مثلاً رہا کی ممانعت کی گئی۔ لوگوں کے اموال باطل طریقوں سے کھانے کی ممانعت کی گئی۔ یتیموں کے مال کے کھانے کو آگکھانا بتایا گیا ، اور یتیموں کے مال میں اسراف سے اور ظلم سے روکا گیا۔ یتیموں کے نکاح کو اس لئے روکنے کی ممانعت کی گئی کہ ان کا مال کھاتے رہیں یا یتیم لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی رغبت اس لئے رکھی جائے کہ ان کا مال ہڑپ کرلیں۔ غرض جو اقدامات ، ہدایات اور تنبیہات کی گئیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت لوگوں کی معاشی صورت حالات کیا تھی اور یہ کہ اسلام کی ابدی معاشی پالیسی کیا ہے۔ کسی اسلامی معاشرے کے لئے دائمی ہدایات یہی ہیں کہ بخل ، حسد اور حرص سے بچو اور مادیت اور دولت کے بندھنوں سے اپنے آپ کو آزاد کرو اور یہ پالیسی پورے قرآن میں جاری رکھی گئی۔

اس سے قبل قیامت کے ہولناک مناظر دکھائے جاچکے ، خوف اور عذاب کی صورت میں۔ اب بتایا جاتا ہے کہ خوشی اور غم کے مختلف مواقع پر نفس انسانی کا رد عمل کیسا ہوتا ہے۔ ایمان کی حالت میں انسان مختلف حالات کے مقابلے میں کیا رد عمل کرتا ہے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایمان کی حالت میں رد عمل کیا ہوتا ہے۔ اور ایمان نہ ہونے کی صورت میں کیا ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مومنین کا انجام کیا ہے اور کافرین کا انجام کیا ہے ؟

جہنم کی آگ ہر اس شخص کو پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر شکارکرے گی جس نے حق سے اعراض کیا تھا اور اللہ کے کلام کو پس ِپشت ڈال دیا تھا۔ دین کی دعوت اور نبی کریم ﷺ کے مشن کو کبھی لائق اعتناء نہیں سمجھا تھا۔

آیت 17 - سورۃ المعارج: (تدعو من أدبر وتولى...) - اردو