سورۃ الانسان: آیت 9 - إنما نطعمكم لوجه الله لا... - اردو

آیت 9 کی تفسیر, سورۃ الانسان

إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ ٱللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَآءً وَلَا شُكُورًا

اردو ترجمہ

(اور اُن سے کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innama nutAAimukum liwajhi Allahi la nureedu minkum jazaan wala shukooran

آیت 9 کی تفسیر

انما نطعمکم .................................... قمطریرا (9:76 تا 10) ” ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں ، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ ، ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا “۔ یہ گویا بلند پایہ قلوب کے اندر رحمت اور محبت کی موجیں ہیں۔ اور یہ محض اللہ کی رضامندی کے حصول کے لئے ہیں۔ ان مہربانیوں سے وہ کوئی جزاء اور کوئی معاوضہ بلکہ شکریہ تک نہیں چاہتے۔ نہ کبرو غرور کا اظہار کرتے ہیں اور نہ غرباء پر اقتدار قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بس وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ اس فعل کی وجہ سے سخت مصیبت کے دن کی تکالیف سے بچ جائیں ، کیونکہ صدقہ کی وجہ سے مصیبت ٹلتی ہے اور اہل ایمان کو حضور اکرم ﷺ نے بتایا ہے۔

اتق .................... تمرہ ” آگ سے بچو اگرچہ کھجور کے دانے کی ایک پھاڑی کے ساتھ “۔

اطعام مساکین دراصل اس اعلیٰ جذبے کا اظہار تھا جو یہ لوگ اپنے اندر رکھتے تھے۔ یوں وہ محتاجوں کی بنیادی ضروریات کا انتظام کرتے تھے ، لیکن غریبوں اور محتاجوں کی امداد کی شکل و صورت مختلف معاشروں میں مختلف ہوسکتی ہے ، لہٰذا ضروری نہیں ہے کہ غریبوں اور محتاجوں کے طعام کی شکل و صورت وہی ہو جو ابتدائی دور میں مروج تھی۔ اصل بات وہ جذبہ ہے جو اطعام المساکین کی تہہ میں کام کررہا ہوتا ہے۔ ہر معاشرے میں اہل ثروت کو اسے زندہ رکھنا چاہئے اور اس معاملے میں ان کے دلوں کو حساس ہونا چاہئے۔ جذبات زندہ ہوں اور دلوں کے اندر جذبہ خیر موجزن ہو ، اور بھلائی کے اس جذبے کے تحت ماسوائے رضائے الٰہی کے اور کوئی دنیاوی مقصد نہ ہو کہ کوئی دنیاوی نفع مقصود ہو یہاں تک کہ شکریہ کی توقع تک پیش نظر نہ ہو۔

دور جدید میں منظم ٹیکس نافذ کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کے ذمہ فرائض عائد کیے جاتے ہیں اور حکومتیں اجتماعی کفالت کے لئے بجٹ عائد کرتی ہیں۔ اور محتاجوں کی امداد بھی کی جاتی ہے لیکن ان آیات میں اسلامی نظام نے جو ہدایات دی ہیں ، ان اقدامات کے ذریعہ ان کا ایک پہلو ہی پورا ہوتا ہے اور جسے فریضہ زکوٰة کے ذریعہ پورا کیا گیا ہے۔ لیکن یہ ایک پہلو ہے یعنی محتاجوں کی ضروریات کو پ ورا کرنا ، جبکہ اسلامی نظام کے پیش نظر یہ بھی ہے کہ دہندگان کو بھی روحانی پاکیزگی حاصل ہو اور وہ بھی اعلیٰ سطح تک بلند ہوں ، محتاجوں کی مدد کرنے والوں کی تہذیب اور تربیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جیسا کہ بعض لوگ غرباء کی امداد کو ایک برا فعل تصور کرتے ہیں کہ اس طرح غرباء ذلیل ہوتے ہیں اور دینے والوں کا بھی مزاج بگڑ جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام دلوں کا عقیدہ ہے ، وہ ایک نظام تربیت ہے ، اگر جذبہ انفاق درست ہو تو اس کے ذریعہ انفاق کرنے والے کی بھی اصلاح ہوتی ہے اور غرباء کو بھی نفع ہوتا ہے۔ یوں انفاق سے دو فائدے ہوتے ہیں ، جو اس دین کے پیش ہیں۔

آیت 9 - سورۃ الانسان: (إنما نطعمكم لوجه الله لا نريد منكم جزاء ولا شكورا...) - اردو