اس صفحہ میں سورہ Al-Insaan کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الانسان کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 6{ عَیْنًا یَّشْرَبُ بِہَا عِبَادُ اللّٰہِ یُفَجِّرُوْنَہَا تَفْجِیْرًا۔ } ”یہ ایک چشمہ ہے جس میں سے اللہ کے خاص بندے پئیں گے اور جدھر چاہیں گے اس کی شاخیں نکال لے جائیں گے۔“ یعنی اگر وہ چاہیں گے تو اس چشمے میں سے اپنی مرضی سے نہریں نکال کر اپنے اپنے علاقے کی طرف لے جائیں گے۔
آیت 8{ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا۔ } ”اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اللہ کی محبت میں مسکین کو ‘ یتیم کو اور قیدی کو۔“ عَلٰی حُبِّہکا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ وہ مال کی محبت کے علی الرغم کھانا کھلاتے ہیں۔ یعنی ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کی محبت میں بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اگرچہ ان کے دلوں میں بھی مال سے محبت کا جذبہ ہے اور ان کا جی بھی چاہتا ہے کہ وہ اپنے مال کو سنبھال سنبھال کر رکھیں ‘ لیکن اپنے ان جذبات کے باوجود وہ محض اللہ کی رضا کے لیے مستحقین کو کھانا کھلانے میں اپنا مال خرچ کرتے رہتے ہیں۔ ہم پڑھ چکے ہیں کہ حب ِمال کا علاج ہی انفاق فی سبیل اللہ ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو قرآن مجید میں جگہ جگہ بشارتیں دی گئی ہیں۔ ملاحظہ ہو سورة الحدید کی یہ آیت :{ اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَھُمْ وَلَھُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ۔ } ”یقینا صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو قرض حسنہ دیں ‘ ان کو کئی گنا بڑھا کردیا جائے گا اور ان کے لیے بڑا باعزت اجر ہوگا۔“
آیت 10{ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا۔ } ”ہم تو ڈرتے ہیں اپنے رب کی طرف سے ایک ایسے دن سے جس کی اداسی بڑی ہولناک ہوگی۔“ عَبُوْس کا لفظ ایسے شخص کے لیے بولا جاتا ہے جس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہ آتی ہو ‘ بلکہ غصہ اور وحشت برستی ہو۔ جب کہ قمطریر کا معنی ہے بہت سخت ‘ بہت کرخت ‘ ہولناک اور طویل۔ چناچہ یہاں اس سے مراد میدانِ محشر کی وہ کیفیت ہے جس کی وجہ سے کھرب ہا کھرب انسان متفکر ّاور پریشان ہوں گے اور ان میں سے کسی ایک کے چہرے پر بھی مسکراہٹ کے آثار تک نظر نہیں آئیں گے۔
آیت 1 1{ فَوَقٰـٹہُمُ اللّٰہُ شَرَّ ذٰلِکَ الْیَوْمِ } ”تو اللہ انہیں بچا لے گا اس دن کے شر سے“ { وَلَقّٰٹہُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًا۔ } ”اور بخش دے گا انہیں تروتازگی اور مسرت۔“ یعنی چہروں کی تازگی اور دلوں کا سرور۔
آیت 12{ وَجَزٰٹہُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًا۔ } ”اور بدلے میں دے گا انہیں ان کے صبر کے سبب جنت اور ریشم کا لباس۔“ دنیا میں وہ لوگ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجاآوری میں لگے رہے۔ انہوں نے فاقوں سے رہنا گوارا کرلیا لیکن حرام کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے انہوں نے اپنی جانیں تک قربان کردیں۔ ان کے اس صبر کے بدلے میں اللہ تعالیٰ انہیں رہنے کے لیے جنت اور پہننے کے لیے ریشم کی پوشاکیں عطا کرے گا۔
آیت 13{ مُّتَّکِئِیْنَ فِیْہَا عَلَی الْاَرَآئِکِ } ”وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوئے ہوں گے اس میں تختوں کے اوپر۔“ { لَا یَرَوْنَ فِیْہَا شَمْسًا وَّلَا زَمْہَرِیْرًا۔ } ”نہیں دیکھیں گے وہ اس میں دھوپ کی حدت اور نہ سخت سردی۔“ زَمْہَرِیر ایسی سخت سردی کو کہتے ہیں جو انسان پر زبردست کپکپی طاری کر دے۔ چناچہ جنت میں اہل جنت کو نہ تو دھوپ کی تپش تنگ کرے گی اور نہ ہی انہیں ٹھٹھرنے والی سردی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گویا جنت میں مسلسل معتدل موسم کا سماں ہوگا۔
آیت 16{ قَوَارِیْرَا مِنْ فِضَّۃٍ } ”ایسا شیشہ جو چاندی کا ہوگا“ دراصل وہ آب خورے یا جام انتہائی نفیس اور شفاف crystal clear چاندی سے بنے ہوں گے ‘ لیکن دیکھنے میں وہ شیشے جیسے ہوں گے۔ { قَدَّرُوْہَا تَقْدِیْرًا۔ } ”ان کو ساقیانِ جنت نے بھرا ہوگا بھرپور اندازے کے مطابق۔“
آیت 19{ وَیَطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَج } ”اور ان پر گردش میں رہیں گے ایسے لڑکے خدامِ جنت جو ہمیشہ اسی عمر اور شکل میں رہیں گے۔“ { اِذَا رَاَیْتَہُمْ حَسِبْتَہُمْ لُــؤْلُــؤًا مَّنْثُوْرًا۔ } ”جب تم انہیں دیکھو گے تو محسوس کرو گے کہ جیسے وہ موتی ہیں بکھرے ہوئے۔“ یعنی وہ نوعمر خادم نہایت خوبصورت ہوں گے۔
آیت 21{ عٰلِیَہُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌز } ”ان کے اوپر لباس ہوں گے باریک سبز ریشم کے اور گاڑھے ریشم کے“ { وَّحُلُّوْٓا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّۃٍج } ”اور انہیں کنگن پہنائے جائیں گے چاندی کے۔“ { وَسَقٰٹہُمْ رَبُّہُمْ شَرَابًا طَہُوْرًا۔ } ”اور پلائے گا انہیں ان کا پروردگار نہایت پاکیزہ مشروب۔“
آیت 22{ اِنَّ ہٰذَا کَانَ لَـکُمْ جَزَآئً وَّکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا۔ } ”اور کہا جائے گا : یہ تم لوگوں کے لیے بدلہ ہے ‘ اور تمہاری جدوجہد مقبول ہوچکی ہے۔“ تم لوگ اپنی دنیوی زندگی میں غلبہ دین کے لیے جو جدوجہد کرتے رہے تھے وہ اللہ کے ہاں قبول کرلی گئی ہے اور اس کی قدردانی کے طور پر تم لوگوں کو جنت اور اس کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہے۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ !
آیت 24{ فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ } ”تو آپ انتظار کیجیے اپنے رب کے حکم کا“ ربط ِمضمون کے اعتبار سے یوں سمجھئے کہ ان آیات کا تعلق سورة القیامہ کی ان آیات سے ہے : { لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ - اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۔ } ”آپ ﷺ اس قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو تیزی سے حرکت نہ دیں۔ اسے جمع کرنا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے“۔ یعنی ہم نے قرآن مجید کو بطرز تنزیل تھوڑا تھوڑا کر کے ہی نازل کرنا ہے ‘ ہماری مشیت اسی میں ہے۔ ہمارا ہر حکم اور ہر فیصلہ اسی وقت پر نازل ہوگا جو وقت ہم نے اس کے نزول کے لیے طے کر رکھا ہے۔ چناچہ آپ ﷺ کو نہ صرف نزول قرآن کے حوالے سے صبر کرنا ہے بلکہ مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے بھی آپ ﷺ کو اپنے رب کے احکام کا منتظر رہنا ہے۔ { وَلَا تُطِعْ مِنْہُمْ اٰثِمًا اَوْ کَفُوْرًا۔ } ”اور آپ ﷺ ان میں سے کسی گناہگار یا ناشکرے کی باتوں پر دھیان نہ دیجیے۔“