سورۃ الانسان (76): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Insaan کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الانسان کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانسان کے بارے میں معلومات

Surah Al-Insaan
سُورَةُ الإِنسَانِ
صفحہ 579 (آیات 6 سے 25 تک)

عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ ٱللَّهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا يُوفُونَ بِٱلنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُۥ مُسْتَطِيرًا وَيُطْعِمُونَ ٱلطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ ٱللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَآءً وَلَا شُكُورًا إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا فَوَقَىٰهُمُ ٱللَّهُ شَرَّ ذَٰلِكَ ٱلْيَوْمِ وَلَقَّىٰهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا وَجَزَىٰهُم بِمَا صَبَرُوا۟ جَنَّةً وَحَرِيرًا مُّتَّكِـِٔينَ فِيهَا عَلَى ٱلْأَرَآئِكِ ۖ لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلَٰلُهَا وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلًا وَيُطَافُ عَلَيْهِم بِـَٔانِيَةٍ مِّن فِضَّةٍ وَأَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِيرَا۠ قَوَارِيرَا۟ مِن فِضَّةٍ قَدَّرُوهَا تَقْدِيرًا وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنجَبِيلًا عَيْنًا فِيهَا تُسَمَّىٰ سَلْسَبِيلًا ۞ وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَٰنٌ مُّخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنثُورًا وَإِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا عَٰلِيَهُمْ ثِيَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ ۖ وَحُلُّوٓا۟ أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ وَسَقَىٰهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا إِنَّ هَٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَآءً وَكَانَ سَعْيُكُم مَّشْكُورًا إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلْقُرْءَانَ تَنزِيلًا فَٱصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ ءَاثِمًا أَوْ كَفُورًا وَٱذْكُرِ ٱسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
579

سورۃ الانسان کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانسان کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

یہ ایک بہتا چشمہ ہوگا جس کے پانی کے ساتھ اللہ کے بندے شراب پئیں گے اور جہاں چاہیں گے بسہولت اس کی شاخیں لیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAaynan yashrabu biha AAibadu Allahi yufajjiroonaha tafjeeran

اردو ترجمہ

یہ وہ لوگ ہونگے جو (دنیا میں) نذر پوری کرتے ہیں، اور اُس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yoofoona bialnnathri wayakhafoona yawman kana sharruhu mustateeran

یہ نہایت روشن اور شفاف تصویر ہے اور یہ ان مخلصین اور سچے لوگوں کی شکل ہے جو اللہ کے احکام اور اسلامی نظریہ حیات کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے بندوں پر غایت درجہ مہربان ہوتے ہیں۔ اور اپنے مقابلے میں دوسرے بندگان خدا کو ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کا ڈر اور خوف ان پر طاری رہتا ہے ، وہ اللہ کی رضامندی کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اور ان پر اسلام کے حوالے جو بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے وہ اللہ کے عذاب سے ہر وقت ڈرتے ہیں۔

یوفون بالنذر (v:76) ” وہ نذر پوری کرتے ہیں “۔ یعنی جو عبادات اور نیک کام خود اپنے اوپر لازم کرتے ہیں ، ان کی وفا کرتے ہیں یعنی وہ دین اسلام کے معاملے کو بڑی سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اس کی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں۔ وہ ان ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے کی سعی نہیں کرتے اور نہ ذمہ داری قبول کرکے اور اس کا حلف اٹھانے کے بعد اسے نظرانداز کرتے ہیں۔ یہی ہے معنی اس بات کا کہ وہ نذر پوری کرتے ہیں۔ یہ ہے مفہوم یوفون بالنذر کا۔ اس کا مفہوم فقہی اور معروف نذر ونیاز سے زیادہ وسیع ہے۔ جس میں اجتماعی اور دینی ذمہ داریاں بھی داخل ہیں۔

ویخافون .................... مستطیرا (7:76) ” اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہوگی “۔ وہ اس دن کی حالت اور صفت کا نقشہ ان کے ذہن میں بڑی خوبی کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے ، جس کی مصیبت عام ہوگی اور تمام قصور واروں اور بدکاروں تک اس دن کی مصیبت پہنچے گی۔ لہٰذا وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اس دن کے عام اور وسیع شر کے زد میں کہیں وہ نہ آجائیں۔ یہ ہے حالت ان کے موقف اور تقویٰ کی۔ وہ اس بھاری ذمہ داری اور دین کے عظیم فرائض کا شدید احساس رکھتے ہیں اور کوتاہیوں اور قصوروں سے ڈرتے ہیں۔ اگرچہ وہ عبادت گزار اور اطاعت شعار ہوں۔

اردو ترجمہ

اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WayutAAimona alttaAAama AAala hubbihi miskeenan wayateeman waaseeran

ویطعمون .................... واسیرا (8:76) ” اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدکو کھانا کھلاتے ہیں “۔ یہ ان کی نیکی ، مہربانی اور بھلائی کا شعور ہے لیکن اس کا اظہار مساکین وغیرہ کو کھانا کھلانے کی شکل میں کیا گیا ہے۔ باوجود اس کے کہ ان کو اس کھانے کی خود اشد ضرورت ہے ، کیونکہ ایسے لوگوں کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ یہ لوگ اس کھانے سے محبت کرتے ہیں ، الایہ کہ وہ خود اس کی طرف محتاج ہوں ، لیکن اس احتیاج کے باوجود وہ ایثار کرتے ہیں اور یہ کھانا دوسروں پر خرچ کرتے ہیں۔

اس صفت سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ کے اندر موجود مشرک معاشرے میں معاشی صورت حال کیا تھی ، یہاں غرباء اور محتاجوں پر اتفاق کا کوئی رواج نہ تھا۔ فخر ومباہات اور نمائش کے لئے تو وہ بہت کچھ لٹا دیتے تھے لیکن غریبوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہ تھی۔ اس خود غرضی اور کنجوسی کے میدان میں اسلام کے پرور دہ یہ نیک لوگ ہی غرباء کے لئے سایہ دار درخت تھے۔ وہ اپنی ذاتی محتاجی کے باوجود لوگوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ خلوص اور محبت کے جذبات کے ساتھ اور اللہ کی رضامندی کی خاطر وہ یہ نیکی کرتے تھے۔ چناچہ ان کی نیت اور ان کے مقصد کو بھی یہاں ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ کس طرح اور کیونکر خرچ کرتے تھے۔

اردو ترجمہ

(اور اُن سے کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innama nutAAimukum liwajhi Allahi la nureedu minkum jazaan wala shukooran

انما نطعمکم .................................... قمطریرا (9:76 تا 10) ” ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں ، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ ، ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا “۔ یہ گویا بلند پایہ قلوب کے اندر رحمت اور محبت کی موجیں ہیں۔ اور یہ محض اللہ کی رضامندی کے حصول کے لئے ہیں۔ ان مہربانیوں سے وہ کوئی جزاء اور کوئی معاوضہ بلکہ شکریہ تک نہیں چاہتے۔ نہ کبرو غرور کا اظہار کرتے ہیں اور نہ غرباء پر اقتدار قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بس وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ اس فعل کی وجہ سے سخت مصیبت کے دن کی تکالیف سے بچ جائیں ، کیونکہ صدقہ کی وجہ سے مصیبت ٹلتی ہے اور اہل ایمان کو حضور اکرم ﷺ نے بتایا ہے۔

اتق .................... تمرہ ” آگ سے بچو اگرچہ کھجور کے دانے کی ایک پھاڑی کے ساتھ “۔

اطعام مساکین دراصل اس اعلیٰ جذبے کا اظہار تھا جو یہ لوگ اپنے اندر رکھتے تھے۔ یوں وہ محتاجوں کی بنیادی ضروریات کا انتظام کرتے تھے ، لیکن غریبوں اور محتاجوں کی امداد کی شکل و صورت مختلف معاشروں میں مختلف ہوسکتی ہے ، لہٰذا ضروری نہیں ہے کہ غریبوں اور محتاجوں کے طعام کی شکل و صورت وہی ہو جو ابتدائی دور میں مروج تھی۔ اصل بات وہ جذبہ ہے جو اطعام المساکین کی تہہ میں کام کررہا ہوتا ہے۔ ہر معاشرے میں اہل ثروت کو اسے زندہ رکھنا چاہئے اور اس معاملے میں ان کے دلوں کو حساس ہونا چاہئے۔ جذبات زندہ ہوں اور دلوں کے اندر جذبہ خیر موجزن ہو ، اور بھلائی کے اس جذبے کے تحت ماسوائے رضائے الٰہی کے اور کوئی دنیاوی مقصد نہ ہو کہ کوئی دنیاوی نفع مقصود ہو یہاں تک کہ شکریہ کی توقع تک پیش نظر نہ ہو۔

دور جدید میں منظم ٹیکس نافذ کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کے ذمہ فرائض عائد کیے جاتے ہیں اور حکومتیں اجتماعی کفالت کے لئے بجٹ عائد کرتی ہیں۔ اور محتاجوں کی امداد بھی کی جاتی ہے لیکن ان آیات میں اسلامی نظام نے جو ہدایات دی ہیں ، ان اقدامات کے ذریعہ ان کا ایک پہلو ہی پورا ہوتا ہے اور جسے فریضہ زکوٰة کے ذریعہ پورا کیا گیا ہے۔ لیکن یہ ایک پہلو ہے یعنی محتاجوں کی ضروریات کو پ ورا کرنا ، جبکہ اسلامی نظام کے پیش نظر یہ بھی ہے کہ دہندگان کو بھی روحانی پاکیزگی حاصل ہو اور وہ بھی اعلیٰ سطح تک بلند ہوں ، محتاجوں کی مدد کرنے والوں کی تہذیب اور تربیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جیسا کہ بعض لوگ غرباء کی امداد کو ایک برا فعل تصور کرتے ہیں کہ اس طرح غرباء ذلیل ہوتے ہیں اور دینے والوں کا بھی مزاج بگڑ جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام دلوں کا عقیدہ ہے ، وہ ایک نظام تربیت ہے ، اگر جذبہ انفاق درست ہو تو اس کے ذریعہ انفاق کرنے والے کی بھی اصلاح ہوتی ہے اور غرباء کو بھی نفع ہوتا ہے۔ یوں انفاق سے دو فائدے ہوتے ہیں ، جو اس دین کے پیش ہیں۔

اردو ترجمہ

ہمیں تو اپنے رب سے اُس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna nakhafu min rabbina yawman AAaboosan qamtareeran

اردو ترجمہ

پس اللہ تعالیٰ انہیں اُس دن کے شر سے بچا لے گا اور انہیں تازگی اور سرور بخشے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fawaqahumu Allahu sharra thalika alyawmi walaqqahum nadratan wasurooran

یہاں نہایت تیزی کے ساتھ یہ اعلان کردیا جاتا ہے کہ یہ لوگ اس دن کے شر سے بچا لیے جائیں گے جس سے وہ بہت ڈرتے ہیں تاکہ دنیا میں بھی یہ لوگ مطمئن ہوجائیں کیونکہ یہاں وہ قرآن کریم کی ہدایات اخذ کرتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں ، اس لئے وہاں ان کو اللہ کی جانب سے تروتازگی اور مسرت حاصل ہوگی۔ ان کو سخت مصیبت والے دن کا وہاں احساس ہی نہ ہوگا کیونکہ یہاں وہ خوف کھاتے تھے اور اللہ کے سامنے جانے سے ڈرتے تھے۔ چناچہ قیامت میں ان کے دل تروتازہ اور ان کا شعور مسرت آمیز ہوگا۔

اردو ترجمہ

اور اُن کے صبر کے بدلے میں اُنہیں جنت اور ریشمی لباس عطا کریگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajazahum bima sabaroo jannatan wahareeran

اس کے بعد جنت کی نعمتوں کا مزید ذکر اور تفصیلات :۔

وجزھم .................... وحریرا

” اور ان کے صبر کے بدلے میں انہیں جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا “۔ اس جنت میں ان کی مستقل رہائش ہوگی اور ریشمی لباس ہوگا جسے وہ پہنیں گے۔

اردو ترجمہ

وہاں وہ اونچی مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہونگے نہ اُنہیں دھوپ کی گرمی ستائے گی نہ جاڑے کی ٹھر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Muttakieena feeha AAala alaraiki la yarawna feeha shamsan wala zamhareeran

متکئین ........................ زمھریرا

گویا وہاں ان کی محفلیں منعقد ہوتی رہیں گی جن میں وہ اطمینان کے ساتھ بیٹھیں گے اور سب کے سب خوشحال اور نعمتوں اور آسائشوں میں ڈوبے ہوئے ، خوشگوار موسموں میں ہوں گے جہاں نہ گرمی کی شدت ہوگی اور نہ سردیوں کی منجمد کرنے والی سردی ہوگی۔ بہرحال وہ ایک دوسرا جہاں ہوگا ۔ جس میں ہمارے جہاں والے شمس وقمرنہ ہوں گے۔ ایک نئی دنیا ہوگی یہی ہم کہہ سکتے ہیں۔

اردو ترجمہ

جنت کی چھاؤں ان پر جھکی ہوئی سایہ کر رہی ہوگی، اور اُس کے پھل ہر وقت ان کے بس میں ہوں گے (کہ جس طرح چاہیں انہیں توڑ لیں)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wadaniyatan AAalayhim thilaluha wathullilat qutoofuha tathleelan

ودانیة ............................ تذلیلا

۔ یہ کہ چھاﺅں بھی قریب ہوگی اور جنت کے درختوں کے پھل بھی ان پر جھکے ہوں گے ، تو اس سے زیادہ خوشی اور مسرت اور عیش و عشرت کیا ہوسکتی ہے۔ یہ اعلیٰ ترین تصور ہے ، خوشحالی اور فارغ البالی کا۔

یہ تو ہے اس جنت کی عمومی صورت حال جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لئے تیار کیا ہے ، جن کے لئے یہ صورت بیان کی گئی ہے ، جو نہایت ہی خوبصورت ہے اور روشن ہے تاکہ دنیا میں کتاب الٰہی میں پڑھ کر وہ خوش ہوں۔ ان نعمتوں اور سہولیات کی مزید تفصیلات :۔

اردو ترجمہ

اُن کے آگے چاندی کے برتن اور شیشے کے پیالے گردش کرائے جا رہے ہونگے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayutafu AAalayhim bianiyatin min fiddatin waakwabin kanat qawareera

ویطاف ........................ سلسبیلا

یہ لوگ نہایت ہی آسائش اور عیش و عشرت میں ہوں گے۔ سایوں میں تختوں پر بیٹھے ہوں گے ، سائے نہایت ہی گہرے اور خوشگوار ہوں گے ، نہایت ہی اچھی فضا میں پھل درختوں کے ساتھ اس طرح لٹک رہے ہوں گے کہ وہ جب چاہیں توڑ سکیں گے۔ پھر ان پر جو مشروبات تقسیم ہوں گے ، وہ چاندی کے خوبصورت برتنوں میں ہوں گے۔ اور شیشوں کے جام چل رہے ہوں گے اور یہ شیشے بھی چاندی کی قسم کے سفید ہوں گے۔ یعنی چاندی کو اس طرح شفاف بنایا جائے گا کہ وہ شیشہ نظر آئے گا۔ جس کی مثال اس جہاں میں نہ ہوگی۔ پھر جو مشروب ان کے سامنے پیش ہوگا ، وہ نہایت مناسب ، ہر شخص کی ضرورت کے مطابق ہوگا اور یہ مشروب اک ایسے جاری چشمے سے بھر کر لایا جائے گا جسے سلسبیل کہا جائے گا اور یہ نہایت ہی میٹھا اور خوشگوار ہوگا۔

اب خوشی میں مزید اضافے کے طور پر جو لوگ یہ چاندی کے برتنوں میں شراب طہور پیش کررہے ہوں گے وہ نہایت ہی خوبصورت لڑکے ہوں گے جو ہمیشہ ایسے لڑکے رہیں گے اور روشن چہرے والے ہوں گے۔ یہ وقت گزر جانے کے ساتھ بوڑھے نہ ہوں گے۔ یہ لوگ ہمیشہ لڑکوں کی طرح تروتازہ اور خوبصورت چہروں والے ہوں گے۔ وہ یوں نظر آئیں گے جیسے موتی جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔

اردو ترجمہ

شیشے بھی وہ جو چاندی کی قسم کے ہونگے، اور ان کو (منتظمین جنت نے) ٹھیک اندازے کے مطابق بھرا ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qawareera min fiddatin qaddarooha taqdeeran

اردو ترجمہ

ان کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayusqawna feeha kasan kana mizajuha zanjabeelan

اردو ترجمہ

یہ جنت کا ایک چشمہ ہوگا جسے سلسبیل کہا جاتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAaynan feeha tusamma salsabeelan

اردو ترجمہ

ان کی خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دیے گئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayatoofu AAalayhim wildanun mukhalladoona itha raaytahum hasibtahum luluan manthooran

اردو ترجمہ

وہاں جدھر بھی تم نگاہ ڈالو گے نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک بڑی سلطنت کا سر و سامان تمہیں نظر آئے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha raayta thamma raayta naAAeeman wamulkan kabeeran

اس کے بعد قرآن مجید ایک نگاہ میں پورے لفظ کو نہایت مختصر الفاظ میں پیش کرتا ہے اور دعوت نظارہ دیتا ہے۔

واذا رایت ................................ کبیرا

ہر طرف نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک عظیم مملکت کا سازو سامان ہوگا ، جس میں ابرار عیش کریں گے جو اللہ کے مقرب بندے ہوں گے اور یہ تو تھی جنت کی اجمالی حالت۔

یہاں بعض چیزوں کا خصوصی ذکر بھی کیا جاتا ہے جو اس عظیم حکومتی انتظام کا مظہر ہیں گویا یہ حکومتی نظام کا نمونہ ہیں۔

اردو ترجمہ

اُن کے اوپر باریک ریشم کے سبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں گے، ان کو چاندی کے کنگن پہنا ئے جائیں گے، اور ان کا رب ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAaliyahum thiyabu sundusin khudrun waistabraqun wahulloo asawira min fiddatin wasaqahum rabbuhum sharaban tahooran

علیھم ............................ طھورا

سندس نہایت باریک ریشم کو کہتے ہیں اور استبرق موٹے ریشم کے کپڑوں کو کہتے ہیں۔ ایسے حالات میں جب وہ سب زینت کیے ہوئے ہوں اور خوب عیش و عشرت کررہے ہوں ، ان کا رب ان کے لئے یہ انتظام فرمارہا ہوگا ، جو نہایت ہی کریم عطا کنندہ ہے۔ اور اس سے ان انتظامات کی قدر و قیمت اور بڑھ جاتی ہے کہ یہ انتظام رب تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔ اور ان بہترین انتظامات کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے اعزاز میں یہ کلمات بھی کہے جائیں گے۔

اردو ترجمہ

یہ ہے تمہاری جزا اور تمہاری کارگزاری قابل قدر ٹھیری ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna hatha kana lakum jazaan wakana saAAyukum mashkooran

ان ھذا ........................ مشکورا

عالم بالا سے یہ تقریر ان کے اعزاز میں ہوگی ، چناچہ ان کلمات کی وجہ سے ان انعامات کی قدروقیمت دوچند ہوجاتی ہے۔ ان الفاظ پر انعامات جنت کی یہ تفصیلات ختم ہوتی ہیں۔ اور یوں لوگوں کو پکارا جاتا ہے کہ قیدوبند اور آگ وسلاسل سے بھاگو اور ان نعمتوں میں داخل ہوجاﺅ۔ ابھی وقت ہے اور دونوں راستے تمہارے لئے کھلے ہیں۔

جنت کی طرف اس پکار کی انتہا پر اور جنت کی خوشگوار نعمتوں کے ذکر کے بعد ، اب ان مشرکین کے حالات کو لیا جاتا ہے ، جو عناد میں مبتلا ہیں اور تکذیب پر اصرار کررہے ہیں ، جو دعوت اسلامی کی حقیقت کو ابھی تک نہیں سمجھ سکے۔ اور وہ دعوت اسلامی کے معاملے میں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ سودا بازی کرنا چاہتے ہیں۔ یا وہ چاہتے ہیں کہ حضور ﷺ کی بعض ایسی باتوں کو ترک کردیں جن سے ان کو سخت تکلیف ہوتی ہے۔ ایک طرف یہ لوگ نبی ﷺ کے ساتھ سودا بازی کرتے ہیں اور دوسری طرف اہل ایمان پر تشدد کرتے ہیں۔ ان کو ایذائیں دیتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور خود بھلائی ، جنت اور نعیم میں مقیم سے منہ موڑتے ہیں۔ ان حالات میں اس سورت کا یہ آخری حصہ آتا ہے اور ان مسائل پر قرآن کے مخصوص انداز پر تبصرہ کیا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، ہم نے ہی تم پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna nahnu nazzalna AAalayka alqurana tanzeelan

انا نحن ................................ طویلا

ان چار آیات آیات میں دعوت اسلامی کے حوالے سے ایک عظیم حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو داعیان حق کی زندگی میں اچھی طرح رچ اور بس جائے اور وہ ایک طویل عرصہ تک اس حالت میں رہیں اور اس میں غوروفکر کریں اور اس کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کے حقیقی مفہوم ، اس کی عملی شکل اور اس کے ایمانی اور نفسیاتی تقاضوں کو پورا کریں۔

حضور اکرم ﷺ کی دعوت کا بنیادی نکتہ عقیدہ توحید تھا اور آپ ایک عرصہ تک مشرکین مکہ کے سامنے اسے پیش کرتے رہے تھے۔ آپ عقیدہ توحید کو محض ایک عقیدے کے طور پر ان کے سامنے نہ پیش کرتے تھے۔ اگر آپ صرف ایک عقیدے کا اظہار کرتے تو اس کا برداشت کرنا ان کے لئے آسان ہوتا ، کیونکہ عقیدہ شرک جس کے اوپر وہ لوگ جمے ہوئے تھے ، وہ کوئی ٹھوس قوت اور ثبات والا عقیدہ نہ تھا کہ وہ اس کے ذریعہ عقیدہ توحید کا مقابلہ کرسکتے ، کیونکہ اسلامی عقیدہ توحید نہایت قوی ، سادہ اور ٹھوس عقیدہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلامی دعوت اور اسلامی عقیدہ توحید کے ساتھ کچھ حالات ایسے تھے جن کی وجہ سے یہ لوگ عناد اور دشمنی پر اتر آئے۔ اور وہ تاریخی کشمکش برپا ہوئی جس کا ذکر قرآن نے بھی جا بجا کیا ہے۔ شرک کے عقیدے کی وجہ سے دراصل قریش کو ایک اجتماعی قیادت کا مقام حاصل تھا۔ اور اس عقیدے کے ارد گرد اعلیٰ خداﺅں کا جو تانا بانا بنا گیا تھا ، اور پھر ان خداﺅں کے ساتھ ان کے جو اجتماعی مفادات وابستہ ہوگئے تھے یہی وہ باتیں تھیں جن کی وجہ سے قریش دعوت اسلامی کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ حالانکہ ان کا موقف بظاہر بالکل باطل تھا۔ اور اس باطل عقیدے کو یہ لوگ لے کر اسلام کے ظاہر ، سادہ اور قوی عقیدے کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ مزید یہ کہ جاہلی زندگی کی عیاشی ، لذت کوشی اور شہوت رانی اور اباحیت ان کو مجبور کررہی تھی کہ اس نئے عقیدہ اور نظام کا مقابلہ کیا جائے۔ کیونکہ اس نظام میں قانونی ، اخلاقی پابندیاں ہیں اور اعلیٰ انسانی قدروں پر زور دیا گیا ہے اور جس میں فحاظی اور آزاد شہوت رانی پر پابندیاں تھیں ، جبکہ وہ ایسی زندگی گزار رہے تھے جو اخلاقی بندھنوں سے آزاد تھی۔

یہ اسباب خواہ ان کا تعلق اجتماعی قیادت وسیادت سے ہو یا اقتدار اور مصالح سے ہو یا عادات ، عرف عام ، رسم و رواج اور موروثی تقالید سے ہو ، یا جن کا تعلق اخلاقی حدود وقیود کی آزادی سے ہو۔ جو پہلی دعوت اسلامی کے مقابلے میں اس وقت کے لوگوں کو اٹھا لائے تھے۔ یہی اسباب آج بھی قائم ہیں اور آج بھی ہر ملک اور ہر سر زمین کی دعوت اسلامی کا مقابلہ انہی اسباب ووجوہات سے کیا جارہا ہے۔ یہ نظریاتی دعوت کا مقابلہ انہی اسباب کی وجہ سے کیا جاتا ہے ، جس کی وجہ دعوت اسلامی کا کام پر مشقت ، مشکل اور دشوار ہوتا ہے۔

لہٰذاداعیان حق کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت پر طویل وقت تک غور وفکر کریں اور ان حقائق میں زندہ رہیں جوان آیات میں بیان ہوئے ہیں ، چاہے یہ داعیان جس زمان ومکان میں ہوں کیونکہ دعوت اسلامی خواہ جس زمان ومکان میں ہو ، اسے انہی حالات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ جو حضور اکرم ﷺ کو پیش آئے۔

رسول اللہ ﷺ کو اللہ کی جانب سے یہ پیغام ملا کہ آپ لوگوں کو برے انجام سے ڈرائیں اور آپ سے کہا گیا۔

یایھا .................... فانذر (2:74) ” اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے اٹھو اور ڈراﺅ“۔ جب آپ نے دعوت کا آغاز کیا تو یہ اسباب آپ کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوگئے۔ قوم پوری کی پوری دعوت جدید کی راہ روکن کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ جن حالت پر وہ قائم ہیں ان کو جوں کا توں رکھیں ، باوجود اس کے کہ وہ جانتے تھے کہ ان کا عقیدہ کمزور اور ناقابل قیام ہے۔ پہلے ان کے اندر عناد کا جذبہ پیدا ہوا ، پھر انہوں نے اپنے ان کمزور اور بودے عقائد کا دفاع شروع کردیا۔ اور ان کی جو اجتماعی حالت تھی۔ زندگی کے جو رسم و رواج تھے ، جو آزادی اور بےقیدی تھی اور جو عریانی اور فحاشی رائج تھی اس کے دفاع میں یہ لوگ دعوت اسلامی کی راہ روکنے لگے کیونکہ یہ جدید دعوت ان کے لئے خطرہ تھی۔

دعوت اسلامی کا مقابلہ یوں شروع ہوتا ہے کہ ابتداء میں دعوت پر چند سعید روحیں لبیک کہتی ہیں۔ ان کو اذیت دی جاتی ہے اور دھمکیوں اور اذیتوں کے ذریعہ اس کو اس دین سے پھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد دعوت کے خلاف ایسا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں دعوت کی غلط تصور بیٹھ جائے۔ مختلق قسم کے بےبنیاد الزامات عائد کیے جاتے ہیں تاکہ جو لوگ داخل ہوگئے ہوں وہ اگر باز نہیں آئے تو اور لوگ داخل نہ ہوں۔ کیونکہ جو لوگ دعوت اسلامی کو سمجھ چکے ہوتے ہیں ان کو دعوت سے روکنے اور واپس لانے کے مقابلے میں نئے لوگوں کو روکنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔

یہ وسائل اختیار کرنے کے بعد انہوں نے حضرت نبی ﷺ پر دھمکیوں اور تشدد کے علاوہ دوسرے تمام دباﺅ بھی ڈالنا شروع کیے کہ آپ ان کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کا طریقہ اختیار کرلیں۔ اور آپ ان کے عقائد ، ان کے رسم و رواج اور بتوں کے خلاف باتیں بند کریں وہ بھی آپ کے ساتھ چھیڑچھاڑ نہیں کریں گے۔ یہ سودا بازی بعینہ ایسی تھی جیسا کہ دنیاوی معاملات کے بارے میں لوگ مصالحت کے لئے درمیانی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ یہی وہ مراحل ہیں جو ہر اس شخص کو پیش آتے جو کھبی زمان ومکان میں منہاج النبوة پر دعوت اسلامی کا کام کرتا ہے۔

نبی ﷺ تو اللہ کے رسول تھے۔ اللہ نے ان کو فتنوں اور دشمنوں سے بچا لیا۔ لیکن آپ بہرحال انسان جانتا تھا کہ آپ بشر ہیں اور آپ کے ساتھی ضعیف ہیں اس لئے اللہ نے ان کو دشمنوں کے حوالے نہیں فرمایا اور ان کی مدد فرمائی۔ اور قدم قدم پر نشانات راہ بتلائے گئے .... چناچہ ان آیات میں اسی امداد کا ذکر ہے اور اس رہنمائی کا ذکر ہے جو اس مشکل مرحلے میں کی گئی۔

انا نحن .................... تنزیلا (23:76) ”” اے نبی ! ہم نے ہی تم پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے “۔

یہ پہلا نکتہ توجہ طلب ہے ، بتایا جاتا ہے کہ اس دعوت کا سرچشمہ اور ماخذ کیا ہے۔ یہ دعوت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف ہے۔ اور اللہ ہی اس کا سرچشمہ ہے۔ اسی نے قرآن نازل کیا ہے۔ اللہ کے سوا اس کے اندر کسی اور کا کوئی دخل نہیں ہے اور نہ اللہ کی دعوت کی سوا کسی اور کی دعوت اس کے ساتھ مل سکتی ہے۔ اس کی ہدایات صرف اللہ سے لی جاتی ہیں۔ اس کی کوئی فکر کسی اور ذریعہ سے نہیں پیش جاتی۔ اللہ ہی نے قرآن کریم نازل فرمایا ہے ، اللہ ہی حضرت نبی ﷺ کو حکم دیا ہے لہٰذا یہ دعوت اللہ کی ہدایت کے مطابق چل رہی ہے اور اس کے بتائے ہوئے نشانات پر جارہی ہے۔ کیونکہ اس دعوت کا ماخذ قرآن ہے جو نازل ہی اللہ نے کیا ہے۔

لیکن باطل نہایت مغرور اور سرکش ہوتا ہے اور شربظاہر پھولا ہوا نظر آتا ہے ، اس لئے مومنین کو اذیت دی جاتی ہے۔ ہر قسم کا شر اور فتنہ ان کی راہ میں ہے۔ دعوت اسلامی کے دشمن صرف یہ کرسکتے ہیں کہ وہ لوگوں کو دعوت اسلامی کو قبول کرنے سے روکیں اور اس پر وہ اصرار کرتے رہیں۔ اس پر مزید یہ کہ وہ اپنے عقائد ، رسم و رواج اور فتنہ انگیزیوں پر جمے ہوتے ہیں۔ شر و فساد اور فتنہ انگیزی کے اس دور میں یہ لوگ مصالحت اور میانہ روی کی پیش کش کرتے ہیں ، معاملات کو نصف نصف تقسیم کرتے ہیں۔ یہ ان مشکل حالات میں ایک پرکشش پیشکش ہے۔ اور ایسے حالات میں اس قسم کی پیشکش کو رد کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ لیکن ایسے حالات میں ایک دوسری تنبیہ آتی ہے اور اس اہم معاملے کی طرف مبذول کرائی جاتی ہے۔

اردو ترجمہ

لہٰذا تم اپنے رب کے حکم پر صبر کرو، اور اِن میں سے کسی بد عمل یا منکر حق کی بات نہ مانو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faisbir lihukmi rabbika wala tutiAA minhum athiman aw kafooran

فاصبر لحکم ........................ اوکفورا (24:76) ” لہٰذا تم اپنے رب کے حکم پر صبر کرو ، اور ان میں سے کسی بدعمل یا منکر حق کی بات نہ مانو “۔ کیونکہ تمہارے اور ان کے درمیان کوئی مصالحت نہیں ہوسکتی۔ نہ تمہارے درمیان کوئی پل ہے ، جس کے اوپر سے خیالات ، نظریات ادھر ادھر جاسکیں۔ کیونکہ تمہارے منہاج اور جاہلیت کے منہاج کے درمیان وسیع خلا ہے۔ اس کائنات کے بارے میں تمہارا تصور ان کے تصورات سے جدا ہے۔ تم حق پر ہو اور وہ کفر پر ہیں۔ تم ایمان پر ہو اور وہ باطل پر ہیں۔ تم نور پر ہو اور وہ اندھیرے میں ہیں۔ تم علم ومعرفت پر ہو اور وہ جاہلیت پر ہیں۔

پھر معاملات تمام اللہ کے احکام کے مطابق ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اللہ کا حکم اور نظام یہ ہے کہ وہ باطل کو بھی موقعہ اور مہلت دیتا ہے۔ شر کو بھی موقعہ دیتا ہے اور بعض اوقات اہل ایمان کو دیر تک آزمائشوں میں ڈال کر ان کو پاک اور خالص کرتا ہے۔ یہ تمام احکام اللہ کی حکمت کے مطابق صادر ہوتے ہیں ، اللہ کی تقدیر اور حکمت دنیا کو چلاتی ہے۔ لہٰذا۔

فاصبر ............ ربک (24:76) ” رب کے حکم پر صبر کرو “۔ اس وقت تک جب وقت آجائے۔ اذیت پر بھی صبر کرو ، مشکلات پر بھی صبر کرو ، باطل اگر غالب ہو تو بھی صبر کرو۔ شہ رگ پھولی ہوئی ہو تو صبر کرو ، آپ حق کے حامل ہیں۔ اور قرآن آپ کے پاس ہے جو حق پر مشتمل ہے اس لئے آپ حق پر جم جائیں ، صبر کریں اور ان کی پیش کشوں کو نظر انداز کردیں۔ یہ لوگ کچھ دو اور کچھ لو کی پالیسی کے مطابق فیصلہ چاہتے ہیں۔ کچھ اپنی باتوں منوانا چاہتے ہیں۔

ولا تطع .................... اوکفورا (24:76) ” اور ان میں کسی بدعمل یا منکر حق کی بات نہ مانو “۔ کیونکہ یہ لوگ آپ کو اللہ کی عبادت ، اللہ کی اطاعت اور حق پر چلنے نہیں دینا چاہتے۔ کیونکہ یہ لوگ بدکردار اور کفار ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ آپ بھی کسی قدر کفر اور شرک کا ارتکاب کریں تاکہ معاملے کا فیصلہ نصف نصف پر ہوجائے۔ کچھ اچھی باتیں وہ مانیں ، کچھ بری باتیں آپ مان لیں۔ اس طرح وہ آپ کو دھوکہ دے کر راضی کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کی جسمانی خواہشات پوری کرتے ہیں۔ چناچہ وہ آپ کو سربراہی کا منصب پیش کرتے ہیں۔ اور آپ کو دولت کی پیشکش بھی کرتے ہیں۔

عتبہ ابن ربیعہ آپ سے کہتا ہے ” اس کام کو چھوڑ دیجئے ، میں اپنی بیٹی آپ کے نکاح میں دیتا ہوں۔ میری بیٹیاں قریش کی خوبصورت ترین لڑکیاں ہیں “۔ غرض ہر دور اور ہر زمان ومکان میں داعیان حق کو انہی ذرائع سے ورغلایا گیا ہے۔

صبر کریں اگرچہ طویل عرصہ تک آپ کو جدوجہد کرنی پڑے۔ اگرچہ قریش کا تشدد سخت ہوجائے اور راستہ طویل ہوجائے لیکن صبر تو بہت ہی مشکل کام ہے۔ اور اس کے لئے سخت تیاری اور ریاضت کی ضرورت ہے اور وہ تیاری یہ ہے۔

اردو ترجمہ

اپنے رب کا نام صبح و شام یاد کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waothkuri isma rabbika bukratan waaseelan

واذکراسم ........................ طویلا (25:76 تا 26) ” اپنے رب کا نام صبح وشام یاد کرو ، رات کو بھی اس کے حضور سجدہ ریز ہو اور رات کے طویل اوقات میں اس کی تسبیح کرتے رہو “۔ یہ ہے زادراہ ۔ صبح وشام اللہ کا نام لینا اور طویل راتوں میں اللہ کی پاکی بیان کرنا ، اس سرچشمے سے رابطہ بحال رکھنا جہاں سے قرآن کریم کا نزول ہورہا ہے۔ جہاں سے دعوت اسلامی اور تحریک اسلامی برپا کرنے کا حکم صادر ہوا ہے۔ یہی سرچشمہ قوت کا بھی سرچشمہ ہے۔ یہی اس راہ کے سازو سامان کا بھی ماخذ ہے۔ اور اس کے ساتھ رابطے کا طریقہ ذکروفکر ، تسبیح وتہلیل اور دعاء و عبادت ہے۔ خصوصاً طویل راتوں کے اوقات میں۔ اس لئے کہ یہ راہ طویل ہے۔ اور یہ بوجھ بھاری ہے۔ لہٰذا اس راہ کے لئے بہت ہی بڑی مقدار میں زادراہ کی ضرورت ہے۔ اور طویل راتوں کی تنہائیوں میں صرف بندے اور رب کی ملاقات تنہائی میں رہتی ہے۔ نہایت پر امیدی اور محبت کی فضا میں۔ اس ملاقات سے تمام تھکاوٹیں اور تمام الجھنیں حل ہوجاتی ہیں۔ اور ضعیفی اور قلت وسائل کی کمی دور ہوجاتی ہے۔ اور تمام تھکاوٹیں ختم ہوجاتی ہیں۔ اور انسان دیکھ لیتا ہے کہ جس مقصد کے لئے وہ کام کررہا ہے وہ ایک عظیم مقصد ہے اور پھر اس کے مقابلے میں جدوجہد اور قربانیاں اور راہ کی مشکلات اور قربانیاں بہت کم نظر آتی ہیں۔

اللہ رحیم وکریم ہے ، اس نے اپنے بندوں کو دعوت کا ذمہ دار بنایا ، اس پر قرآن نازل فرمایا ، انہیں بتایا گیا کہ ان ذمہ داریوں کا بوجھ کیا ہے ، اور راہ کی مشکلات کیا ہیں۔ لہٰذا اللہ نے اپنے نبی کو بےسہارا نہیں چھوڑا۔ اس کی نصرت فرمائی اور یہ تربیت اور راہ کی ان مشکلات کے مقابلے کے لئے تیاری کروانا بھی دراصل اللہ کی مدد اور نصرت ہے۔ اصحاب دعوت اور احیائے اسلام کے لئے کام کرنے والوں کا یہی زادراہ ہے۔ ہر دور میں اور ہر جگہ .... یہ دعوت ایک ہے۔ اس کا طریق کار بھی ایک ہے اور حالات اور واقعات بھی ایک ہیں۔ اہل باطل نہ ہمیشہ اس کے خلاف ایک ہی راستہ اختیار کیا ہے۔ جو وسائل نبی ﷺ کے بر خلاف باطل نے اختیار کیے وہی ہر باطل ہر حق کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ ہمیشہ باطل ایک ہی قسم کے اسباب و وسائل لے کر حق کے مقابلے میں آتا ہے۔ لہٰذا حق کے اسباب اور وسائل بھی وہی ہونے چاہئیں۔ جو اللہ نے اختیار کیے ہیں۔

وہ حقائق کیا ہیں جن کے اندر داعیان حق کو رہنا چاہئے ؟ یہ وہی ہیں جو داعی اول نبی ﷺ کو سکھائے گئے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ دعوت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یہ کام اللہ کا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ حق جو اللہ کی طرف سے آیا ہے۔ اس کے ساتھ باطل کا آمیزہ نہیں ہوسکتا۔ نہ اہل حق اور اہل باطل کے درمیان باہم تعاون ہوسکتا ہے۔ یا کچھ لو اور کچھ دو پر سودا بازی ہوسکتی ہے۔ اس لئے کہ دونوں کے منہاج باہم مختلف ہیں ، دونوں کے راستے جدا ہیں۔ اگر کسی وقت باطل اپنی قوت اور دبدبے کی وجہ سے غالب ہوتا ہے تو اس میں بھی اللہ کی رضا اور حکمت ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں اہل ایمان کے لئے صبر ضروری ہوتا ہے اور اس میں اللہ کی حکمت ہوتی ہے۔ اور اہل حق کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ صبر ، نماز اور تسبیح اور تہلیل اور ذکر وفکر کے ذریعہ مشکلات پر قابو پائیں .... یہ ہے وہ عظیم حقیقت جس کا ادراک ان تمام لوگوں کو اچھی طرح کرلینا چاہئے جو دعوت دین لے کر اٹھتے ہیں۔

اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کے منہاج اور طریق کار کے درمیان جو جاہلیت کا منہاج ہے۔ اور اسلامی منہاج اور طریق کار کے درمیان جو خدائی منہاج ہے۔ مکمل جدائی اور فرق ہے۔ یہ لوگ اپنا بھلا نہیں چاہتے ، ان کے اغراض ومقاصد نہایت گرے پڑے ہیں اور ان کی سوچ بہت ہی چھوٹی ہے۔ کیا فرق ہے دونوں میں ؟

579