سورۃ البقرہ: آیت 35 - وقلنا يا آدم اسكن أنت... - اردو

آیت 35 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَقُلْنَا يَٰٓـَٔادَمُ ٱسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ ٱلْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ

اردو ترجمہ

پھر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ "تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کا رُخ نہ کرنا، ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqulna ya adamu oskun anta wazawjuka aljannata wakula minha raghadan haythu shituma wala taqraba hathihi alshshajarata fatakoona mina alththalimeena

آیت 35 کی تفسیر

اس تقریب کے بعد اب ہمارے سامنے میدان کارزار ہے جس میں خلیفہ شر ‘ ابلیس ‘ اور خلیفہ خدا انسان ہے اور دونوں کے درمیان مسلسل جنگ ہورہی ہے ۔ یہ جنگ درحقیقت انسانی ضمیر اور اس کے دل و دماغ کے میدانوں میں لڑی جارہی ہے اور اس میں وہی انسان کامیاب ہوتے ہیں جو پختہ ارادے کے مالک ہوتے ہیں ۔ وہی سرخرو ہوتے ہیں جو اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں ۔ جوں جوں انسان اپنی خواہشات نفس کا بندہ بنتا چلا جاتا ہے اللہ تعالیٰ سے دورہوتا جاتا ہے۔ شر کی قوتوں کو پیش قدمی حاصل ہوتی جاتی ہے۔

وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ” پھر ہم نے آدم سے کہا تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ مگر اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوں گے ........ “۔ آدم وحوا کے لئے جنت کے تمام پھل جائز قرار دیئے گئے ‘ صرف ایک درخت کو مستثنیٰ رکھا گیا۔

صرف ایک درخت ........ شاید اس میں یہ اشارہ تھا کہ زمین میں نسل انسانی حلال و حرام کے قیود کی پابند ہوگی ‘ کیونکہ حدودوقیود کے بغیرآزاد اور خود مختار ارادہ کیونکر پیدا ہوسکتا ہے اور ایک متحرک بالارادہ انسان اور ایک مجبور حیوان کے درمیان فرق کیونکر ہوسکتا ہے ۔ اس کے سوا تو اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے عائد شدہ حدود وقیود کی پابندی کے سلسلے میں انسان کو آزمایا جائے ۔ یہ قوت ارادہ ہی ہے جو ایک حقیقی انسان اور ایک انسان نماحیوان کے درمیان فرق کردیتی ہے جو مویشیوں کی طرح دنیا میں چرتا پھرتا ہے اور بس۔

آیت 35 وَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جنت کون سی ہے ؟ اکثر حضرات کے نزدیک یہ جنت کہیں آسمان ہی میں تھی اور آسمان ہی میں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی۔ البتہ یہ سب مانتے ہیں کہ یہ وہ جنت الفردوس نہیں تھی جس میں جانے کے بعد نکلنے کا کوئی سوال نہیں۔ اس جنت میں تو آخرت میں لوگوں کو جا کر داخل ہونا ہے اور اس میں داخلے کے بعد پھر وہاں سے نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے ‘ اور میرا رجحان اسی رائے کی طرف ہے ‘ کہ تخلیق آدم علیہ السلام اسی زمین پر ہوئی ہے۔ وہ تخلیق جن مراحل سے گزری وہ اس وقت ہمارا موضوع بحث نہیں ہے۔ بائیولوجی اور وحی دونوں اس پر متفق ہیں کہ قشر ارض Crust of the Earth یعنی مٹی سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ اس کے بعد کسی اونچے مقام پر کسی سرسبز و شاداب علاقے میں حضرت آدم علیہ السلام کو رکھا گیا ‘ جہاں ہر قسم کے میوے تھے ‘ ہر شے بافراغتّ میسر تھی۔ ازروئے الفاظ قرآنی : اِنَّ لَکَ اَلاَّ تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَا تَعْرٰی وَاَنَّکَ لَا تَظْمَاُ فِیْھَا وَلَا تَضْحٰی۔ طٰہٰ ”یہاں تمہارے لیے یہ آسائشیں موجود ہیں کہ نہ تمہیں اس میں بھوک لگے گی نہ عریانی لاحق ہوگی۔ اور یہ کہ نہ تمہیں اس میں پیاس تنگ کرے گی نہ دھوپ ستائے گی“۔ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کو وہاں ہر طرح کی آسائشیں حاصل تھیں۔ البتہ یہ جنت صرف ایک demonstration کے لیے تھی کہ انہیں نظر آجائے کہ شیطان ان کا اور ان کی اولاد کا ازلی دشمن ہے ‘ وہ انہیں ورغلائے گا اور طرح طرح سے وسوسہ اندازی کرے گا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ کسی شخص کا انتخاب تو ہوگیا اور وہ CSP cadre میں آگیا ‘ لیکن اس کی تعیناتی posting سے پہلے اسے سول سروس اکیڈمی میں زیرتربیت رکھا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں جو لفظ ہبوط اُترنا آ رہا ہے وہ صرف اسی ایک معنی میں نہیں آتا ‘ اس کے دوسرے معانی بھی ہیں۔ یہ چیزیں پھر متشابہات میں سے رہیں گی۔ اس لیے ان کے بارے میں غور و فکر سے کوئی ایک یا دوسری رائے اختیار کی جاسکتی ہے۔ واللہ اعلم !وَکُلَا مِنْھَا رَغَدًا حَیْثُ شِءْتُمَاص یہاں ہر طرح کے پھل موجود ہیں ‘ جو چاہو بلاروک ٹوک کھاؤ۔ وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ یہاں پر اس درخت کا نام نہیں لیا گیا ‘ اشارہ کردیا گیا کہ اس درخت کے قریب بھی مت ‘ جانا۔فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ تم حد سے گزرنے والوں میں شمار ہو گے۔ اب اس کی بھی حکمت سمجھئے کہ یہ اس demonstration کا حصہّ ہے کہ دنیا میں کھانے پینے کی ہزاروں چیزیں مباح ہیں ‘ صرف چند چیزیں حرام ہیں۔ اب اگر تم ہزاروں مباح چیزوں کو چھوڑ کر حرام میں منہ مارتے ہو تو یہ نافرمانی شمار ہوگی۔ اللہ نے مباحات کا دائرہ بہت وسیع رکھا ہے۔ چند رشتے ہیں جو بیان کردیے گئے کہ یہ حرام ہیں ‘ محرمات ابدیہ ہیں ‘ ان سے تو شادی نہیں ہوسکتی ‘ باقی ایک مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے دنیا کے کسی بھی کونے میں شادی کرسکتا ہے ‘ اس کے لیے کروڑوں options کھلے ہیں۔ پھر ایک نہیں ‘ دو دو ‘ تین تین ‘ چار چار تک عورتوں سے شادی کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے باوجود انسان شادی نہ کرے اور زنا کرے ‘ تو یہ گویا اس کی اپنی خباثت نفس ہے۔ چناچہ آدم و حوا علیہ السلام کو بتادیا گیا کہ یہ پورا باغ تمہارے لیے مباح ہے ‘ بس یہ ایک درخت ہے ‘ اس کے پاس نہ جانا۔ درخت کا نام لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ تو صرف ایک آزمائش اور اس کی demonstration تھی۔

اعزاز آدم ؑ حضرت آدم ؑ کی یہ اور بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کرانے کے بعد انہیں جنت میں رکھا اور ہر چیز کی رخصت دے دی ابن مردویہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر ؓ نے ایک مرتبہ حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا حضرت آدم نبی تھے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! نبی بھی، رسول بھی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے آمنے سامنے بات چیت کی اور انہیں فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔ عام مفسرین کا بیان ہے کہ آسمانی جنت میں انہیں بسایا گیا تھا لیکن معتزلہ اور قدریہ کہتے ہیں کہ یہ جنت زمین پر تھی۔ سورة اعراف میں اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس عبارت قرآنی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں رہنے سے پہلے حضرت حوا پیدا کی گئی تھیں۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ اہل کتاب وغیرہ کے علماء سے بروایت ابن عباس مروی ہے کہ ابلیس کے مردود قرار دینے کے بعد حضرت آدم ؑ کے علم کو ظاہر کر کے پھر ان پر اونگھ کی فوقیت طاری کردی گئی اور ان کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کو پیدا کیا۔ جب آنکھ کھول کر حضرت آدم نے انہیں دیکھا تو اپنے خون اور گوشت کی وجہ سے ان میں انس و محبت ان کے دل میں پیدا ہوئی۔ پھر پروردگار نے انہیں ان کے نکاح میں دیا اور جنت میں رہائش کا حکم عطا فرمایا۔ بعض کہتے ہیں کہ آدم ؑ کے جنت میں داخل ہوجانے کے بعد حضرت حوا پیدا کی گئیں۔ حضرت ابن عباس ابن مسعود وغیرہ صحابہ سے مروی ہے کہ ابلیس کو جنت سے نکالنے کے بعد حضرت آدم ؑ کو جنت میں جگہ دی گئی۔ لیکن تن تنہا تھے اس وجہ سے ان کی نیند میں حضرت حوا کو ان کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ جاگے، انہیں دیکھا تو پوچھا تم کون ہو اور کیوں پیدا کی گئی ہو ؟ حضرت حوا نے فرمایا میں ایک عورت ہوں اور آپ کے ساتھ رہنے اور تسکین کا سبب بننے کے لئے پیدا کی گئی ہو تو فوراً فرشتوں نے پوچھا فرمائیے ان کا نام کیا ہے ؟ حضرت آدم نے کہا " حوا " انہوں نے کہا اس نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے ؟ فرمایا اس لئے کہ یہ ایک زندہ سے پیدا کی گئی ہیں۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ کی آواز آئی، اے آدم اب تم اور تمہاری بیوی جنت میں با آرام و اطمینان رہو اور جو چاہو کھاؤ۔ لیکن ایک خاص درخت سے روکنا دراصل امتحان تھا۔ بعض کہتے ہیں یہ انگور کی بیل تھی۔ کوئی کہتا ہے۔ گیہوں کا درخت تھا۔ کسی نے سنبلہ کہا ہے۔ کسی نے کھجور، کسی نے انجیر کہا ہے۔ کسی نے کہا ہے اس درخت کے کھانے سے انسانی حاجت ہوتی تھی جو جنت کے لائق نہیں۔ کسی نے کہا ہے، اس درخت کا پھل کھا کر فرشتے ہمیشہ کی زندگی پا گئے ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کوئی ایک درخت تھا جس سے اللہ نے روک دیا۔ نہ قرآن سے اس کا تعین ثابت ہوتا ہے نہ کسی صحیح حدیث سے۔ مفسرین میں اختلاف ہے اور اس کے معلوم ہونے سے کوئی اہم فائدہ اور نہ معلوم ہونے سے کوئی نقصان نہیں۔ لہذا اس کی جستجو کی کیا ضرورت ؟ اللہ ہی کو اس کا بہتر علم ہے۔ امام رازی وغیرہ نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے اور ٹھیک بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے۔ عنھا کی ضمیر کا مرجع بعض نے جنت کہا ہے اور بعض نے شجرہ۔ ایک قرأت فازالھما بھی ہے تو معنی یہ ہوئے کہ اس جنت سے ان دونوں کو بےتعلق اور الگ کردیا اور دوسرے معنی یہ بھی ہوئے کہ اسی درخت کے سبب شیطان نے انہیں بہکا دیا۔ سفر ارضی کا آغاز لفظ عن سبب کے معنی میں بھی آیا ہے آیت (یوفک عنہ) میں۔ اس نافرمانی کی وجہ سے جنتی لباس اور وہ پاک مکان، نفیس روزی وغیرہ سب چھن گئی اور دنیا میں اتار دئیے گئے اور کہہ دیا گیا کہ اب تو زمین میں ہی تمہارا رزق ہے، قیامت تک یہیں پڑے رہو گے اور اس سے فائدہ حاصل کرتے رہو گے۔ سانپ اور ابلیس کا قصہ، یعنی ابلیس کس طرح جنت میں پہنچا۔ کس طرح وسوسہ ڈالا وغیرہ، اس کے بارے میں لمبے چوڑے قصے مفسرین نے لکھے ہیں لیکن وہ سب بنی اسرائیل کے ہاں کا خزانہ ہے، تاہم ہم انہیں سورة اعراف میں بیان کریں گے کیونکہ اس واقعہ کا بیان وہاں کسی قدر تفصیل کے ساتھ ہے۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ درخت کا پھل چکھتے ہی جنتی لباس اتر گیا۔ اپنے تئیں ننگا دیکھ کر ادھر ادھر دوڑنے لگے لیکن چونکہ قد طویل تھا اور سر کے بال لمبے تھے، وہ ایک درخت میں اٹک گئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم کیا مجھ سے بھاگتے ہو ؟ عرض کیا نہیں الٰہی میں تو شرمندگی سے منہ چھپائے پھرتا ہوں۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم ! میرے پاس سے چلے جاؤ، مجھے میری عزت کی قسم میرے پاس میرے نافرمان نہیں رہ سکتے، اگر اتنی مخلوق تم میں پیدا کروں کہ زمین بھر جائے اور پھر وہ میری نافرمانی کرے تو یقینا میں اسے بھی نافرمانوں کے گھر میں پہنچا دوں۔ یہ روایت غریب ہے اور ساتھ ہی اس میں انقطاع بلکہ اعضال بھی ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت آدم نماز عصر کے بعد سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کی ایک ساعت ہی جنت میں رہے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں یہ ایک ساعت ایک سو تیس سال کی تھی۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں نویں یا دسویں ساعت میں حضرت آدم کا اخراج ہوا۔ ان کے ساتھ جنت کی ایک شاخ تھی اور جنت کے درخت کا ایک تاج سر پر تھا۔ سدی کا قول ہے کہ حضرت آدم ہند میں اترے، آپ کے ساتھ حجر اسود تھا اور جنتی درخت کے پتے جو ہند میں پھیلا دئیے اور اس سے خوشبودار درخت پیدا ہوئے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ہند کے شہر " دھنا " میں اترے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ مکہ اور طائف کے درمیان اترے تھے۔ حسن بصری فرماتے ہیں حضرت آدم ہند میں اور مائی حواہ جدہ میں اتریں اور ابلیس بصرہ سے چند میل کے فاصلہ پر دست میساں میں پھینکا گیا اور سانپ اصفہان میں۔ ابن عمر کا قول ہے کہ حضرت آدم صفا پر اور حضرت حوا مروہ پر اترے۔ اترتے وقت دونوں ہاتھ گھٹنوں پر تھے اور سر جھکا ہوا تھا اور ابلیس انگلیوں میں انگلیاں ڈالے آسمان کی طرف نظریں جمائے اترا۔ حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام صفتیں سکھا دیں اور پھلوں کا توشہ دیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ تمام دنوں میں بہتر دن جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم پیدا کئے گئے، اسی میں جنت میں داخل کئے گئے۔ اور اسی دن نکالے گئے ملاحظہ ہو صحیح مسلم اور نسائی۔ امام رازی فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی وجوہات مضمر ہیں۔ اول تو یہ سوچنا چاہئے کہ ذرا سی لغزش پر حضرت آدم ؑ کو کس قدر سزا ہوئی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ تم گناہوں پر گناہ کئے جاتے ہو اور جنت کے طالب ہو کیا تم بھول گئے کہ تمہارے باپ آدم ؑ کو محض ایک ہلکے سے گناہ پر جنت سے نکال دیا گیا۔ ہم تو یہاں دشمن کی قید میں ہیں، دیکھئے ! کب صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے وطن پہنچیں۔ فتح موصلی کہتے ہیں ہم جنتی تھے، ابلیس کے بہکانے میں آ کر دنیا کی قید میں آ پھنسے، اب سوائے غم و رنج کے یہاں کیا رکھا ہے ؟ یہ قید و بند اسی وقت ٹوٹے گی جب ہم وہیں پہنچ جائیں جہاں سے نکالے گئے ہیں۔ اگر کوئی معترض اعتراض کرے کہ جب آدم ؑ آسمانی جنت میں تھے اور ابلیس راندہء درگاہ ہوچکا تھا تو پھر وہ وہاں کیسے پہنچا ؟ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ جنت زمین میں تھی لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے جواب ہیں کہ بطور اکرام کے اس کا داخل ہونامنع تھا نہ کہ بطور اہانت اور چوری کے۔ چناچہ توراۃ میں ہے کہ سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں گیا اور یہ بھی جواب ہے کہ وہ جنت میں نہیں گیا تھا بلکہ باہر ہی سے اس نے وسوسہ ان کے دل میں ڈالا تھا۔ اور بعض نے کہا ہے کہ زمین سے ہی وسوسہ ان کے دل میں ڈالا۔ قرطبی نے یہاں پر سانپوں کے بارے میں اور ان کے مار ڈالنے کے حکم سے متعلق حدیثیں بھی تحریر کی ہیں جو بہت مفید اور باموقع ہیں۔

آیت 35 - سورۃ البقرہ: (وقلنا يا آدم اسكن أنت وزوجك الجنة وكلا منها رغدا حيث شئتما ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين...) - اردو