سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 6 (آیات 30 سے 37 تک)

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّى جَاعِلٌ فِى ٱلْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوٓا۟ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ ٱلدِّمَآءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّىٓ أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلْأَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى ٱلْمَلَٰٓئِكَةِ فَقَالَ أَنۢبِـُٔونِى بِأَسْمَآءِ هَٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ قَالُوا۟ سُبْحَٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَآ ۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ قَالَ يَٰٓـَٔادَمُ أَنۢبِئْهُم بِأَسْمَآئِهِمْ ۖ فَلَمَّآ أَنۢبَأَهُم بِأَسْمَآئِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّىٓ أَعْلَمُ غَيْبَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُوا۟ لِءَادَمَ فَسَجَدُوٓا۟ إِلَّآ إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَٱسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ ٱلْكَٰفِرِينَ وَقُلْنَا يَٰٓـَٔادَمُ ٱسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ ٱلْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ فَأَزَلَّهُمَا ٱلشَّيْطَٰنُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا ٱهْبِطُوا۟ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَٰعٌ إِلَىٰ حِينٍ فَتَلَقَّىٰٓ ءَادَمُ مِن رَّبِّهِۦ كَلِمَٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ
6

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں" انہوں نے عرض کیا: "کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں" فرمایا: "میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qala rabbuka lilmalaikati innee jaAAilun fee alardi khaleefatan qaloo atajAAalu feeha man yufsidu feeha wayasfiku alddimaa wanahnu nusabbihu bihamdika wanuqaddisu laka qala innee aAAlamu ma la taAAlamoona

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأرْضِ خَلِيفَةً ” پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو ، جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ “ تو معلوم ہوا کہ یہ عالم بالا کی خاص مشیئت ہے کہ اس کائنات میں پیدا کئے جانے والے اس نئے موجود (انسان ) کو اس زمین کے تمام اختیارات دے دیئے جائیں ۔ اسے اس دنیا میں آزاد چھوڑ دیا جائے اور اس کائنات کے مقصد تخلیق اور اسے عدم سے وجود میں لانے کی غرض وغایت کا اظہار اور اس کے بروئے کار لانے کا کام اس انسان کے سپرد کردیا جائے اور اس انسان کو اس زمین کی تحلیل و ترکیب ، اس کی تبدیلی اور ترقی ، اس کے اندر پوشیدہ خزانوں کا کھوج لگانے اور اس خام ذخائر کا پتہ لگانے اور انہیں مسخر کرنے کے کام میں لگادیاجائے۔ یہ سب کام اللہ کے حکم سے ہو اور انسان کی اس عظیم مہم کا ایک حصہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے اس انسان کے سپرد کی ۔

نیز استخلاف آدم سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ نے اس جدید مخلوق (انسان) کے اندر ایسی پوشیدہ قوتیں ودیعت کی ہیں اور اسے ایسی استعداددی ہے جس کے ذریعے وہ اس زمین کے اندر پوشیدہ تمام قوتوں ، تمام مفید ذخیروں اور خام مواد کو کام میں لاسکتا ہے ۔ اسے اللہ تعالیٰ نے ایسی اندرونی اور خفیہ طاقتیں دی ہیں جن کے ذریعے وہ اس منشاء خداوندی کو بروئے کار لاسکتا ہے۔

نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کائنات پر حاوی ہونے والے قوانین قدرت اور نوامیس فطرت اور اس انسان اور اس کی قوتوں پر نافذ ہونے والے قوانین شریعت کے درمیان مکمل توافق اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے تاکہ ان دونوں قوانین کے درمیان تصادم اور تضاد نہ ہو اور انسانی طاقت اور قوتیں اس عظیم کائنات کے قوانین قدرت اور نوامیس فطرت سے ٹکرا کر پاش پاش نہ ہوجائے۔

نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک اعزاز ہے جو اس کائنات کے اندر اور اس پورے کرہ ارض پر حضرت انسان کو دیا گیا ۔ یہ وہ شرف ہے جو انسان کے خالق رحیم اور خداوند کریم نے اس کے لئے پسند فرمایا اور کیا ہی بلند ہے یہ مقام ! اور تمام باتیں عالم بالا کے اس جلیل القدر اشارے سے معلوم ہوتی ہیں کہ ” میں زمین پر اپناخلیفہ بنانے والا ہوں۔ “ بالخصوص جبکہ آج ہم چشم سر اور بصیرت دونوں سے عیاں دیکھ رہے ہیں کہ انسان نے اس کائنات میں یہ کام کیا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی اس زمین میں یہتکوینی مقصد پورا کیا جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا اور اس وسیع مملکت میں اسے اپنا خلیفہ بنایا گیا تھا۔

قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ” انہوں نے عرض کیا ، کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے نظام کو بگاڑ دے اور خونریزیاں کرے گا ؟ آپ کی حمد وثناکے ساتھ ساتھ تسبیح اور آپ کے لئے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں ۔ “ ملائکہ کی اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یا تو اس وقت موجودہ صورتحال سے آنے والی مخلوق کے بارے میں اندازہ کرلیا تھا یا اس سے پہلے زمین میں جو مخلوق بسائی گئی تھی اس کے تجربات کی روشنی میں انہوں نے یہ بات کہی ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اپنی خداد بصیرت کے ذریعے معلوم کرلیا ہو کہ آنے والی مخلوق کسی ہوگی ؟ نیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زمین میں انسانی زندگی کے لئے جو ضروری تقاضے تھے اس سے انہوں نے اس مخلوق کی فطرت کا اندازہ لگالیاہو۔ اس لئے وہ جانتے تھے یا کم ازکم انہیں یہ توقع تھی کہ آنے والی یہ نئی مخلوق زمین میں فساد برپاکرے گی اور یہاں خونریزیاں ہوں گی ۔ انہوں نے یہ سوال اس لئے بھی اٹھایا کہ اپنی پاک فطرت اور معصومیت کی وجہ سے وہ خیر مطلق اور ہمہ جہت امن وامان کا ہی تصور کرسکتے تھے ۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس کائنات کا مقصد وجود اور سبب تخلیق صرف یہ ہے کہ اللہ کی حمد وثنا کے ساتھ اس کی تقدیس کی جائے اور یہ بات ان کی موجودگی سے پوری طرح سرانجام دی جارہی تھی ۔ کیونکہ یہ فرشتے ہر وقت اللہ کی حمد وثناکے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے رہتے تھے اور کسی وقت بھی اس کی بندگی اور اطاعت سے منہ نہ موڑتے تھے ۔

لیکن اس زمین کی ساخت وپرداخت اور اس کی اندر زندگی کی بوقلمونیوں کے بروئے کار لانے میں جو گہری اور دوررس مصلحت کارفرماتھی وہ ان کی نظر سے اوجھل تھی ۔ مشیت الٰہی یہ تھی کہ اللہ کا یہ خلیفہ جو اگرچہ کبھی کبھار فساد پھیلائے گا ، خونزریزیاں بھی کرے گا ، اس زمین کو مسخر کرے ، اسے ترقی دے ، اس کی ساخت کو بدلے تاکہ اللہ کا منشاپورا ہو اور اس معمولی اور جزوی شر و فساد کے ہوئے وہ عظیم بھلائیاں پروان چڑھیں جو عمومی اور سب کائنات کو شامل ہیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اس وسیع کائنات میں دائمی نشوونما ، مسلسل تہذیب کی ترقی ، تخریب وتعمیر کا دائمی عمل ، پیہم جدوجہد ، نہ رکنے والی جستجو ، مسلسل تغیر وتبدیلی کے ذریعہ یہ عظیم تربھلائی اور بہبود بروئے کارلائی جائے ۔

چناچہ ان کے اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عالم الغیب اور علیم وخبیر ہے یہ فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لا تَعْلَمُونَ ” میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ “

اردو ترجمہ

اس کے بعد اللہ نے آدمؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا "اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAAallama adama alasmaa kullaha thumma AAaradahum AAala almalaikati faqala anbioonee biasmai haolai in kuntum sadiqeena

دیکھئے ! اب ہم چشم بصیرت سے نہایت بلند روشنیوں میں عالم بالا کے کسی مقام پر فرشتوں کی ایک جمعیت کا مشاہدہ کررہے ہیں اس تقریب میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ انسانیت کا منصب خلافت سپرد کیا جارہا ہے اور یوں ہیں اس عظیم راز سے آگاہ کردیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی اس انسانی مخلوق کی ذات میں ودیعت فرمایا ہے۔ وہ راز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مفاہیم کے اظہار کے لئے ان کے نام رکھنے کی صلاحیت دی اور اس طرح انسان ان ناموں کے ذریعہ اظہار مافی الضمیر کرتے ہیں ۔ ناموں کی حقیقت کیا ہے ؟ صرف یہ کہ وہ مختلف قسم کی آوازیں ہیں جو اپنے منہ سے نکالتا ہے اور جو ان محسوسات اور اشخاص پر دلالت کرتی ہیں جنہیں انسان دیکھتا ہے ۔ اس زمین پر حیات انسانی کو آسان بنانے کے لئے یہ ایک اہم صلاحیت ہے جو اللہ نے انسان کو دی ہے ۔ اس کی افادیت کا صحیح تصور اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب ہم تھوڑی دیر کے لئے یہ فرض کرلیں کہ انسان .... کے اندر اشیاء کے نام رکھنے اور استعمال کرنے کی قدرت نہیں ہے ۔ اب دیکھئے ایک دوسرے کو سمجھنے میں اور باہم معاملات طے کرنے میں کیا مشکلات ہیں ؟ جن سے اچانک یہ دوچار ہوگئے ۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں کوئی معاملہ کرنا چاہتا ہے تو خود اس چیز کا حاضر کرنا ضروری ہوجاتا ہے تاکہ وہ اس کے بارے میں کوئی مفاہمت کرسکیں ۔ اگر کسی درخت کا معاملہ درپیش ہے تو ضروری ہے کہ درخت سامنے ہو۔ اگر کسی پہاڑ اور قطعہ زمین کے بارے میں جو کچھ طے کرنا ہے تو ضروری ہے کہ سب لوگ وہاں جائیں ۔ اگر کسی فرد بشرکا معاملہ ہے تو ضروری ہے کہ اسے سامنے لایاجائے ۔ ذرا سوچئے مشکلات کا ایک طوفان برپا ہوگیا ہے اور جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ غرض اگر اللہ تعالیٰ حضرت انسان کو یہ راز نہ بتاتے کہ ہر معنی ومفہوم کا اظہار ان ناموں کے ذریعے ہوسکتا ہے تو ہماری زندگی دوقدم بھی آگے نہ بڑھ سکتی۔

رہے فرشتے تو انہیں اس قابلیت کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ ان کے کام اور ان کی ڈیوٹی کی جو نوعیت تھی اس کے لئے اس کی ضرورت ہی نہ تھی کہ وہ ہر چیز کے نام کو جانیں ۔ اس لئے اللہ نے اس وقت فرشتوں کو یہ رازنہ بتایا تھا۔ جب اللہ نے آدم کو یہ راز بتایا اور فرشتوں کے سامنے جب یہ چیزیں پیش کی گئیں تو وہ ان کے نام نہ بتاسکے ۔ وہ یہ نہ جانتے تھے کہہ مختلف چیزوں اور اشخاص کا نام رکھ کر الفاظ کے ذریعے انہیں بسہولت سمجھا جاسکتا ہے ۔ چناچہ انہوں نے اپنی اس ناکامی کو دیکھ کر اللہ کی حمد وثنابیان کی اور اپنے عجز ودرماندگی کا اقرار کیا اور کہہ دیا ان کا علم تو صرف انہی چیزوں تک محدود ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دی ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کا تعارف کرایا اور آخر میں نتیجہ بحث کے طور پر یوں انہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت اور وسعت علم کی راہنمائی کی ۔” میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ آسمانوں اور زمینوں کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں ۔ جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اسے بھی میں جانتا ہوں۔ “

دیکھئے ! اب چشم بصیرت سے نہایت بلند روشنیوں میں عالم بالا کے کسی مقام پر فرشتوں کی کسی جمعیت کا مشاہدہ کررہے ہیں اس تقریب میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ انسانیت کو منصب خلافت سپرد کیا جارہا ہے اور یوں ہمیں اس عظیم راز سے آگاہ کردیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی اس انسانی مخلوق کی ذات میں ودیعت فرمایا ہے۔ وہ راز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مفاہیم کے اظہار کے لئے ان کے نام رکھنے کی صلاحیت دی ہے اور اس طرح انسان ان ناموں کے ذریعہ اظہار مافی الضمیر کرتے ہیں۔ ناموں کی حقیقت کیا ہے ؟ صرف یہ کہ وہ مختلف قسم کی آوازیں ہیں جو انسان اپنے منہ سے نکالتا ہے اور جو ان محسوسات اور اشخاص پر دلالت کرتی ہیں جنہیں انسان دیکھتا ہے ۔ اس زمین پر حیات انسانی کو آسان بنانے کے لئے یہ ایک اہم صلاحیت ہے جو اللہ نے انسان کو دی ہے ۔ اس کی افادیت کا صحیح تصور اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب ہم تھوڑی دیر کے لئے یہ فرض کرلیں کہ انسان۔۔۔۔۔ کہ اندر اشیاء کے نام رکھنے اور استعمال کرنے کی قدرت نہیں ہے۔ ایک دیکھئے ایک دوسرے کو سمجھنے میں اور باہم معاملات طے کرنے میں کرنے میں کیا مشکلات ہیں ؟ جن سے اچانک یہ دوچار ہوگئے۔ اگر کسی کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں کوئی معاملہ کرنا چاہتا ہے تو خود اس چیز کا حاضر کرنا ضروری ہوجاتا ہے تاکہ وہ اس کے بارے میں کوئی مفاہمت کرسکیں ۔ اگر کسی درخت کا معاملہ درپیش ہے تو ضروری ہے درخت سامنے ہو ۔ اگر کسی پہاڑ اور قطعہ زمین کے بارے میں کچھ طے کرنا ہے تو ضروری ہے کہ سب لوگ وہاں جائیں ۔ اگر کسی فرد بشر کا معاملہ ہے تو ضروری ہے کہ اسے سامنے لایاجائے ۔ ذرا سوچئے مشکلات کا ایک طوفان برپا ہوگیا ہے اور جینا دوبھر ہوگیا ہے ۔ غرض اگر اللہ تعالیٰ حضرت انسان کو یہ راز نہ بتاتے کہ ہر معنی ومفہوم کا اظہار ناموں کے ذریعے ہوسکتا ہے تو ہماری زندگی دوقدم بھی آگے نہ بڑھ سکتی ۔

رہے فرشتے تو انہیں اس قابلیت کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ ان کے کام اور ان کی ڈیوٹی کی جو نوعیت تھی اس کے لئے اس کی ضرورت ہی نہ تھی کہ وہ ہر چیز کے نام کو جانیں ۔ اس لئے اللہ نے اس وقت فرشتوں کو یہ راز نہ بتایا تھا ۔ جب اللہ نے آدم کو یہ راز بتایا اور فرشتوں کے سامنے جب چیزیں پیش کی گئیں تو وہ ان کے نام نہ بتاسکے ۔ وہ یہ نہ جانتے تھے کہ مختلف چیزوں اور اشخاص کا نام رکھ کر الفاظ کے ذریعے انہیں بہ سہولت سمجھایا جاسکتا ہے ۔ چناچہ انہوں نے اپنی اس ناکامی کو دیکھ کر اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور اپنے عجز اور درماندگی کا اقرار کیا اور کہہ دیا ان کا علم تو صرف انہی چیزوں تک محدود ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دی ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) تعارف کرایا اور آخر میں نتیجہ بحث کے طور پر اور آخر میں نتیجہ بحث کے طور پر یوں انہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت اور وسعت علم کی طرف راہنمائی کی ۔” میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں ۔ جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اسے میں جانتا ہوں۔ “

اردو ترجمہ

انہوں نے عرض کیا: "نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo subhanaka la AAilma lana illa ma AAallamtana innaka anta alAAaleemu alhakeemu

اردو ترجمہ

پھر اللہ نے آدمؑ سے کہا: "تم اِنہیں اِن چیزوں کے نام بتاؤ" جب اس نے ان کو اُن سب کے نام بتا دیے، تو اللہ نے فرمایا: "میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں، جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے بھی میں جانتا ہوں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala ya adamu anbihum biasmaihim falamma anbaahum biasmaihim qala alam aqul lakum innee aAAlamu ghayba alssamawati waalardi waaAAlamu ma tubdoona wama kuntum taktumoona

اردو ترجمہ

پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کے آگے جھک جاؤ، تو سب جھک گئے، مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qulna lilmalaikati osjudoo liadama fasajadoo illa ibleesa aba waistakbara wakana mina alkafireena

آخرکار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹادیا اور انہیں اس حالت سے نکلواکر چھوڑا جس میں وہ تھے ۔ ہم نے حکم دیا کہ ” اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ ‘ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے ۔ “ اس وقت آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی جس کو اس کے رب نے قبول کرلیا کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ “

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ فَسَجَدُوا ” پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ تو سب جھک گئے ۔ اب ذرا اس مفسد اور خوں آشام مخلوق کی عزت افزائی دیکھئے کہ وہ کروبیوں کی مسجود ہورہی ہے ۔ فرشتوں سے بھی بلند ہوجاتی ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے ایک تو اسے معرفت الٰہی کا راز بخشا گیا دوسرے یہ کہ اسے ایک صاحب ارادہ مخلوق بنایا گیا ہے ۔ انسان جس راہ کو اختیار کرنا چاہے آزادانہ اختیار کرسکتا ہے ۔ غرض فطرت انسانی کی یہ دورنگی اپنے ارادے پر اس کا اختیار اور اس کے ذریعے اپنے لئے راہ حیات کے تعین کی آزادی اور اپنی خاص کوششوں اور جدوجہد سے ہداقیت انسانیت کی ذمہ داری اور اس فریضے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی قدرت وغیرہ ہی وہ چیزیں ہیں جن میں اس کے اس عظیم اعزاز کا راز پوشیدہ ہے ۔

چناچہ اس تقریب میں باری تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سب فرشتے آدم خاکی کے سامنے سربسجود ہوجاتے ہیں إِلا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ” مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا “

اس تقریب میں شریر مخلوق مجسم ہوکر سامنے آجاتی ہے خود ذات اقدس کی بارگاہ میں باری تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے اور صاحب فضیلت کے فضل اور اعزاز کا انکار کیا جاتا ہے ۔ یہ شریر مخلوق گناہ پر مصر ہے اور فہم و فراست کے تمام دروازے اس کے لئے بند ہوجاتے ہیں ۔

سیاق کلام سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ابلیس اگرچہ فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا لیکن وہ ملائکہ میں سے نہ تھا کیونکہ اگر وہ فرشتوں میں سے ہوتا تو اسے سرتابی کی مجال نہ ہوتی کیونکہ فرشتوں کی صفت اور خاصیت یہ ہے کہ لَا یَعۡصُوۡنَ مَا اَمَرَھُمۡ وَیَفۡعَلُوۡنَ مَا یُوۡمَرُوۡنَ ” اللہ جو انہیں حکم دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ انہیں جو حکم دیا جاتا ہے وہ اسے کر گزرتے ہیں ۔ “ اگرچہ یہ استثنائی جملہ کہ ” سب فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے “ بظاہر یہ بتاتا ہے کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا لیکن وہ چونکہ فرشتوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا اسی لئے سلسلہ کلام میں ایسی استثناء لائی گئی ۔ عرب کہتے ہیں جَاءَ بَنُوا فُلَانٍ اِلَّا اَحۡمَدٌ فلاں قوم کے سب لوگ آگئے مگر احمد حالانکہ احمد ان میں سے نہیں ہوتا بلکہ وہ ان کے جوار میں رہتا ہے ۔ دوسری جگہ قرآن مجید اس کی تصریح کرتا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا اور جنوں کو اللہ تعالیٰ نے آگ کے شعلے سے پیدا کیا ہے۔ اس سے یہ بات قطعیت کے ساتھ معلوم ہوجاتی ہے کہ وہ فرشتوں میں سے نہ تھا۔

اردو ترجمہ

پھر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ "تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کا رُخ نہ کرنا، ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqulna ya adamu oskun anta wazawjuka aljannata wakula minha raghadan haythu shituma wala taqraba hathihi alshshajarata fatakoona mina alththalimeena

اس تقریب کے بعد اب ہمارے سامنے میدان کارزار ہے جس میں خلیفہ شر ‘ ابلیس ‘ اور خلیفہ خدا انسان ہے اور دونوں کے درمیان مسلسل جنگ ہورہی ہے ۔ یہ جنگ درحقیقت انسانی ضمیر اور اس کے دل و دماغ کے میدانوں میں لڑی جارہی ہے اور اس میں وہی انسان کامیاب ہوتے ہیں جو پختہ ارادے کے مالک ہوتے ہیں ۔ وہی سرخرو ہوتے ہیں جو اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں ۔ جوں جوں انسان اپنی خواہشات نفس کا بندہ بنتا چلا جاتا ہے اللہ تعالیٰ سے دورہوتا جاتا ہے۔ شر کی قوتوں کو پیش قدمی حاصل ہوتی جاتی ہے۔

وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ” پھر ہم نے آدم سے کہا تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ مگر اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوں گے ........ “۔ آدم وحوا کے لئے جنت کے تمام پھل جائز قرار دیئے گئے ‘ صرف ایک درخت کو مستثنیٰ رکھا گیا۔

صرف ایک درخت ........ شاید اس میں یہ اشارہ تھا کہ زمین میں نسل انسانی حلال و حرام کے قیود کی پابند ہوگی ‘ کیونکہ حدودوقیود کے بغیرآزاد اور خود مختار ارادہ کیونکر پیدا ہوسکتا ہے اور ایک متحرک بالارادہ انسان اور ایک مجبور حیوان کے درمیان فرق کیونکر ہوسکتا ہے ۔ اس کے سوا تو اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے عائد شدہ حدود وقیود کی پابندی کے سلسلے میں انسان کو آزمایا جائے ۔ یہ قوت ارادہ ہی ہے جو ایک حقیقی انسان اور ایک انسان نماحیوان کے درمیان فرق کردیتی ہے جو مویشیوں کی طرح دنیا میں چرتا پھرتا ہے اور بس۔

اردو ترجمہ

آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اُس حالت سے نکلوا کر چھوڑا، جس میں وہ تھے ہم نے حکم دیا کہ، "اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faazallahuma alshshaytanu AAanha faakhrajahuma mimma kana feehi waqulna ihbitoo baAAdukum libaAAdin AAaduwwun walakum fee alardi mustaqarrun wamataAAun ila heenin

فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ” آخرکار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹادیا اور انہیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے ۔ “ ........ ذرا تعبیر کا شاہ کار دیکھئے ۔ شیطان نے انہیں پھسلایا ۔ “ پھسلانے کا لفظ ہی پوری صور تحال کی تصویر کھینچ دیتا ہے ۔ گویا ہم بچشم سر دیکھ رہے ہیں کہ شیطان انہیں دھکیل دھکیل کر جنت سے نکالنے کی کوشش کررہا ہے ۔ گویا وہ اچانک ان کی ثابت قدمی کو دھکا دیتا ہے اور وہ گرجاتے ہیں اور نیچے آرہتے ہیں ۔

یہاں آدم اور ابلیس کشمکش کا پہلاتجربہ مکمل ہوجاتا ہے ۔ آدم (علیہ السلام) اپنے عہد کو بھول جاتے ہیں ‘ وہ اس کے بھٹکانے کے سامنے کمزور پڑجاتے ہیں ۔ اللہ کا حکم سچائی بن کر سامنے آتا ہے اور قضائے الٰہی کا اعلان یوں ہوتا ہے ۔

وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الأرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ ” ہم نے حکم دیا کہ اب تم یہاں سے اتر جاؤ ‘ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے ۔ “ یہ اعلان تھا کہ اب آدم وابلیس کا معرکہ اپنی مقرر جگہ یعنی اس زمین پر شروع ہوجانا ہے۔ اور اب یہ معرکہ قیامت تک یوں ہی برپا رہے گا ۔

آدم (علیہ السلام) گرنے کے بعد اب سنبھلتے ہیں اور اٹھتے ہیں ‘ کیونکہ گرنا اور اٹھنا فطرت انسانی ہے ۔ اب اللہ کی رحمت انہیں اپنے سایہ رحمت وعاطفت میں لے لیتی ہے اور جو بھی اللہ کی رحمت کے دامن میں پناہ لے اور اس کی چوکھٹ پر آگرے یہ رحمت بےپایاں ہمیشہ اسے ڈھانپ لیا کرتی ہے ۔

اردو ترجمہ

اس وقت آدمؑ نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی، جس کو اس کے رب نے قبول کر لیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fatalaqqa adamu min rabbihi kalimatin fataba AAalayhi innahu huwa alttawwabu alrraheemu

فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ” اس وقت آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی ‘ جس کو اس کے رب نے قبول کرلیا ۔ کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ “ آدم اور نسل آدم کے ساتھ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک دآئمی معاہدہ ہے ۔ بات مکمل ہوگئی ۔ آدم اس زمین پر اللہ کا ایک بااختیار اور ذی ارادہ خلیفہ قرار پایا ۔ اس کا کام ہے کہ وہ فلاح کی راہ اختیار کرتا ہے یا ہلاکت و بربادی کی ۔

6