سورۃ البقرہ: آیت 273 - للفقراء الذين أحصروا في سبيل... - اردو

آیت 273 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

لِلْفُقَرَآءِ ٱلَّذِينَ أُحْصِرُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِى ٱلْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ ٱلْجَاهِلُ أَغْنِيَآءَ مِنَ ٱلتَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَٰهُمْ لَا يَسْـَٔلُونَ ٱلنَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا۟ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ

اردو ترجمہ

خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے ان کی خود داری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں اُن کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lilfuqarai allatheena ohsiroo fee sabeeli Allahi la yastateeAAoona darban fee alardi yahsabuhumu aljahilu aghniyaa mina alttaAAaffufi taAArifuhum biseemahum la yasaloona alnnasa ilhafan wama tunfiqoo min khayrin fainna Allaha bihi AAaleemun

آیت 273 کی تفسیر

یہ پر تأثیر صفت مہاجرین کی ایک جماعت پر پوری طرح منطبق تھی ۔ وہ اپنے پیچھے اپنی دولت اور اپنا خاندان چھوڑ آئے ہوئے تھے وہ مدینہ میں قیام پذیر تھے اور انہوں نے اپنے آپ کو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے وقف کرلیا تھا ۔ یہ لوگ ہر وقت رسول اللہ ﷺ کے باڈی گارڈ تھے ۔ مثلاً اہل صفہ جو رسول اللہ ﷺ کی اقامت گاہوں کے محافظ بھی تھے ۔ کوئی دشمن ان سے آنکھ چراکر رسول اللہ ﷺ کی اقامت گاہوں تک نہ پہنچ سکتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے وقف تھے اور کسب معاش یا تجارتی مقاصد کے لئے ادہر ادہر نہ جاسکتے تھے ۔ اس صورت حال کے باوجود وہ لوگوں سے کچھ مانگتے بھی نہ تھے ۔ وہ اس قدر خوددارانہ رویہ اختیار کئے ہوئے تھے کہ جو شخص ان کے حالات سے وقف نہ ہوتا ، وہ سمجھتا کہ یہ تو بہت خوش حال اور فارغ البال لوگ ہیں ۔ نہ کسی سے کچھ مانگتے ہیں اور نہ ہی کوئی کاروبار کرتے ہیں ۔ صرف اصحاب عقل و دانش ان کی اصل صورت حال وکیفیت کو سمجھ پاتے تھے۔

لیکن اس ابتدائی مصداق کے باوجود ، یہ آیت عام ہے ۔ اس کا اطلاق ہر دور اور ہر زمانے میں پائے جانے والے لوگوں پر ہوتا ہے جو شرفاء میں سے ہوں جو ایسے حالات میں محبوس ہوں کہ وہ ان میں تلاش معاش نہ کرسکتے ہوں ۔ اور ان کی شرافت نفس انہیں اس بات سے روک رہی ہو کہ وہ کسی سے سوال کریں ۔ وہ بظاہر ایسا رویہ رکھتے ہوں جس سے ان کی اصل حالت کا اندازہ نہ ہوسکتا ہو اور ان کی اس ظاہری حالت کے پس پردہ جو صورت حال ہو ، ناواقف آدمی ان کی اس خودداری کی وجہ سے اس کا صحیح اندازہ نہ کرسکتا ہو ، ہاں ایک حساس اور سمجھ دار شخص ہی ان کی اصل صورت حال سے واقف ہوسکتا ہو۔ اس لئے کسی بھی شخص کے اندرونی تیز احساسات چہرے پر آہی جاتے ہیں۔ اگر چہ وہ شخص حیاء اور خودداری کی وجہ سے انہیں چھپانے کی بہتیری کوشش کرتا ہو۔

یہ ایک ایسی تصویر ہے جو گہرے اشارات کی مظہر ہے ۔ یہ مختصر آیت ان شرفاء کی ایسی تصویر بناتی ہے ۔ یہ ایک مکمل تصویر ہے اور خودداری اور حیا چشمی کے رنگوں سے بنی ہوئی ہے ۔ اس آیت کا ہر جملہ گویا نقاش کی قلم کی نوک ۔ جو ان لوگوں کے خدوخال کو کاغذ پر منتقل کرتی چلی جارہی ہے اور اس تصویر سے ان کے تأثرات اور احساسات کا پوری طرح اظہار ہوتا ہے ۔ جو نہی ایک انسان ان آیات کی تلاوت کرتا ہے ، اس کی لوح دماغ پر ان حضرات کی تصاویر منقش ہوجاتی ہیں ۔ اس طرح کہ گویا وہ شخصیات نظروں کے سامنے کھڑی ہیں ۔ وہ چہرے صاف نظر آرہے ہیں ۔ انسانیت کے مختلف نمونوں کی تصویر کشی میں قرآن کریم کا یہی انداز ہے ۔ مختلف قسم کے انسان یوں نظر آتے ہیں کہ گویا وہ زندہ اور متحرک شخصیات ہیں ۔

ان شرفاء اور فقراء کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ ضروریات اور حاجات کو یوں چھپاتے ہیں ۔ جس طرح ایک انسان اپنے ستر کو چھپاتا ہے ۔ ایسے لوگوں کو اگر کچھ دیا جائے تو وہ صرف تنہائی میں دیا جائے تاکہ ان کی خودداری اور عزت نفس کو ٹھیس نہ لگے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کے آخر میں ایک قسم کا اشارہ دیا جاتا ہے کہ ایسے لوگوں کی امداد بھی نہایت ہی خفیہ طریقے سے کی جانی چاہئے ۔ چناچہ انفاق کنندہ کو یقین دہائی کرائی جاتی ہے کہ اللہ خوب جانتا ہے ۔ اور اس کی پوری پوری جزا دینے والا ہے۔ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ............... ” ایسے لوگوں کی اعانت میں جو مال تم خرچ کروگے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا۔ “ یہ صرف اللہ ہی ہے جو خفیہ بھیدوں کا جانتا ہے اور اس کے ہاں کوئی بھلائی بغیر اجر کے ضائع نہیں ہوتی ۔

سب سے آخر میں اس ضابطہ انفاق فی سبیل اللہ کا خاتمہ ایک عام اور ایک کلیہ پر مشتمل آیت پر ہوتا ہے ۔ جو ہر قسم کے انفاق اور صدقات کو شامل ہے ۔ اور اس کا حکم بھی عام ہے اور ہر اس چیز کو شامل ہے جو اللہ کے لئے دی جائے ۔

آیت 273 لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ جیسے رسول اللہ ﷺ کے دور میں اصحاب صفہ تھے کہ مسجد نبوی ﷺ میں آکر بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنا وقت تلاش معاش میں صرف نہیں کر رہے ‘ آنحضور ﷺ سے علم سیکھ رہے ہیں اور جہاں جہاں سے مطالبہ آرہا ہے کہ معلمین اور مبلغینّ کی ضرورت ہے وہاں ان کو بھیجا جا رہا ہے۔ اگر وہ معاش کیّ جدوجہد کرتے تو یہ تعلیم کیسے حاصل کرتے ؟ اسی طرح دین کی کسی خدمت کے لیے کچھ لوگ اپنے آپ کو وقف کردیتے ہیں تو وہ اس کا مصداق ہوں گے۔ آپ نے دین کی دعوت و تبلیغ اور نشر و اشاعت کے لیے کوئی تحریک اٹھائی ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ ہمہ وقتی کارکن درکار ہوں گے۔ ان کارکنوں کی معاش کا مسئلہ ہوگا۔ وہ آٹھ آٹھ گھنٹے دفتروں میں جا کر کام کریں اور وہاں افسروں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی سنیں ‘ آنے جانے میں بھی دو دو گھنٹے لگائیں تو اب وہ دین کے کام کے لیے کون سا وقت نکالیں گے اور کیا کام کریں گے ؟ لہٰذا کچھ لوگ تو ہونے چاہئیں جو اس کام میں ہمہ وقت لگ جائیں۔ لیکن پیٹ تو ان کے ساتھ بھی ہیں ‘ اولاد تو ان کی بھی ہوگی۔ لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ ز۔ زمین کے اندر گھوم پھر کر تجارت کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ج ۔ یہ اس طرح کے فقیر تو ہیں نہیں جو لپٹ کر مانگتے ہوں۔ ان کی خود داری کی وجہ سے عام طور پر جو ناواقف شخص ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ غنی ہیں ‘ خوشحال ہیں ‘ انہیں کوئی ضرورت ہی نہیں ‘ انہوں نے کبھی مانگا ہی نہیں۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس طرح کے سوالی نہیں ہیں ‘ وہ فقیر نہیں ہیں ‘ انہوں نے تو اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے اپنے آپ کو لگا دیا ہے۔ یہ تمہارا کام ہے کہ انہیں تلاش کرو اور ان کی ضروریات پوری کرو۔ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰہُمْ ج ۔ ظاہربات ہے کہ فقر و احتیاج کا اثر چہرے پر تو آجاتا ہے۔ اگر کسی کو صحیح غذا نہیں مل رہی ہے تو چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہوگا۔ لاَ یَسْءَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ط۔ وہ ان سائلوں کی طرح نہیں ہیں جو اصل میں اپنی محنت کا صلہ وصول کرتے ہیں کہ آپ کے سر ہو کر آپ سے زبردستی کچھ نہ کچھ نکلوا لیتے ہیں۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے کہ اقامت دین کیّ جدوجہد میں جو لوگ ہمہ وقت لگ جائیں ‘ آخر ان کے لیے ذریعۂ معاش کیا ہو ؟ اس وقت اس پر تفصیل سے گفتگو ممکن نہیں۔ بہرحال یہ سمجھ لیجیے کہ یہ دو رکوع انفاق کے موضوع پر قرآن حکیم کا نقطۂ عروج ہیں اور یہ آخری آیت ان میں اہم ترین ہے۔ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ ۔ یہ نہ سمجھنا کہ تمہارا انفاق اللہ کے علم میں نہیں ہے۔ تم خاموشی کے ساتھ ‘ اخفا کے ساتھ لوگوں کے ساتھ تعاون کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بھرپور بدلہ دے گا۔

آیت 273 - سورۃ البقرہ: (للفقراء الذين أحصروا في سبيل الله لا يستطيعون ضربا في الأرض يحسبهم الجاهل أغنياء من التعفف تعرفهم بسيماهم لا يسألون...) - اردو