سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 46 (آیات 270 سے 274 تک)

وَمَآ أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُهُۥ ۗ وَمَا لِلظَّٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ إِن تُبْدُوا۟ ٱلصَّدَقَٰتِ فَنِعِمَّا هِىَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا ٱلْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّـَٔاتِكُمْ ۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ۞ لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَىٰهُمْ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَآءُ ۗ وَمَا تُنفِقُوا۟ مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ٱبْتِغَآءَ وَجْهِ ٱللَّهِ ۚ وَمَا تُنفِقُوا۟ مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ لِلْفُقَرَآءِ ٱلَّذِينَ أُحْصِرُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِى ٱلْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ ٱلْجَاهِلُ أَغْنِيَآءَ مِنَ ٱلتَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَٰهُمْ لَا يَسْـَٔلُونَ ٱلنَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا۟ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُم بِٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
46

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہو اور جو نذر بھی مانی ہو، اللہ کو اُس کا علم ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama anfaqtum min nafaqatin aw nathartum min nathrin fainna Allaha yaAAlamuhu wama lilththalimeena min ansarin

اردو ترجمہ

اگر اپنے صدقات علانیہ دو، تو یہ بھی اچھا ہے، لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو، تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے تمہاری بہت سی برائیاں اِس طرز عمل سے محو ہو جاتی ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہوئے اللہ کو بہر حال اُس کی خبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In tubdoo alssadaqati faniAAimma hiya wain tukhfooha watutooha alfuqaraa fahuwa khayrun lakum wayukaffiru AAankum min sayyiatikum waAllahu bima taAAmaloona khabeerun

آیت 271 اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّاہِیَ ج۔خاص طور پر زکوٰۃ کا معاملہ تو علانیہ ہی ہے۔ تو اگر تم اپنے صدقات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی ٹھیک ہے۔ اس لیے کہ کم سے کم فقراء کا حق تو ادا ہوگیا ‘ کسی کی ضرورت تو پوری ہوگئی۔ وَاِنْ تُخْفُوْہَا وَتُؤْتُوْہَا الْفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ط۔ یاد رہے کہ یہ بات صدقات نافلہ کے لیے ہے۔ لیکن جو صدقات واجبہ ہیں ‘ جو لازماً دینے ہیں ‘ مثلاً زکوٰۃ اور عشر ‘ ان کے لیے اخفاء نہیں ہے۔ یہ دین کی حکمت ہے ‘ اس کو ذہن میں رکھیے کہ فرض عبادات علانیہ ادا کی جائیں گی۔ یہ وسوسہ بھی شیطان بہت سوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے کہ کیا پانچ وقت مسجد میں جا کر نماز پڑھنے سے لوگوں پر اپنے تقویٰ کا رعب ڈالنا چاہتے ہو ؟ گھر میں پڑھ لیا کرو ! یا داڑھی اس لیے رکھو گے کہ لوگ تمہیں سمجھیں کہ بڑا متقی ہے ؟ ایسے وساوس شیطانی کو کوئی اہمیت نہیں دینی چاہیے اور جو چیز فرض و واجب ہے ‘ وہ علی الاعلان کرنی چاہیے ‘ اس کے اظہار میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ ہاں جو نفلی عبادات ہیں ‘ صدقات نافلہ ہیں یا نفل نماز ہے اسے چھپا کر کرنا چاہیے۔ نفل عبادت کا اظہار بہت بڑا فتنہ ہے۔ لہٰذا فرمایا کہ اگر تم اپنے صدقات چھپا کر چپکے سے ضرورت مندوں کو دے دو تو وہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔

اردو ترجمہ

لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمے داری تم پر نہیں ہے ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے اور خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لیے بھلا ہے آخر تم اسی لیے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو تو جو کچھ مال تم خیرات میں خرچ کرو گے، اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laysa AAalayka hudahum walakinna Allaha yahdee man yashao wama tunfiqoo min khayrin falianfusikum wama tunfiqoona illa ibtighaa wajhi Allahi wama tunfiqoo min khayrin yuwaffa ilaykum waantum la tuthlamoona

آیت 272 لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدٰٹہُمْ ان کو ہدایت دینے کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے ‘ آپ ﷺ پر ذمہّ داری تبلیغ کی ہے۔ ہم نے آپ کو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاََنْفُسِکُمْ ط اس کا اجر وثواب بڑھا چڑھا کر تم ہی کو دیا جائے گا ‘ سات سو گنا ‘ چودہ سو گنا یا اس سے بھی زیادہ۔وَمَا تُنْفِقُوْنَ الاَّ ابْتِغَآءَ وَجْہِ اللّٰہِ ط تبھی تمہیں اس قدر اجر ملے گا۔ اگر ریاکارانہ خرچ کیا تھا تو اجر کا کیا سوال ؟ وہ تو شرک بن جائے گا۔وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ تمہاری ذرا بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔اب واضح کیا جا رہا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کا سب سے بڑھ کر حق دار کون ہے۔

اردو ترجمہ

خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے ان کی خود داری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں اُن کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lilfuqarai allatheena ohsiroo fee sabeeli Allahi la yastateeAAoona darban fee alardi yahsabuhumu aljahilu aghniyaa mina alttaAAaffufi taAArifuhum biseemahum la yasaloona alnnasa ilhafan wama tunfiqoo min khayrin fainna Allaha bihi AAaleemun

آیت 273 لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ جیسے رسول اللہ ﷺ کے دور میں اصحاب صفہ تھے کہ مسجد نبوی ﷺ میں آکر بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنا وقت تلاش معاش میں صرف نہیں کر رہے ‘ آنحضور ﷺ سے علم سیکھ رہے ہیں اور جہاں جہاں سے مطالبہ آرہا ہے کہ معلمین اور مبلغینّ کی ضرورت ہے وہاں ان کو بھیجا جا رہا ہے۔ اگر وہ معاش کیّ جدوجہد کرتے تو یہ تعلیم کیسے حاصل کرتے ؟ اسی طرح دین کی کسی خدمت کے لیے کچھ لوگ اپنے آپ کو وقف کردیتے ہیں تو وہ اس کا مصداق ہوں گے۔ آپ نے دین کی دعوت و تبلیغ اور نشر و اشاعت کے لیے کوئی تحریک اٹھائی ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ ہمہ وقتی کارکن درکار ہوں گے۔ ان کارکنوں کی معاش کا مسئلہ ہوگا۔ وہ آٹھ آٹھ گھنٹے دفتروں میں جا کر کام کریں اور وہاں افسروں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی سنیں ‘ آنے جانے میں بھی دو دو گھنٹے لگائیں تو اب وہ دین کے کام کے لیے کون سا وقت نکالیں گے اور کیا کام کریں گے ؟ لہٰذا کچھ لوگ تو ہونے چاہئیں جو اس کام میں ہمہ وقت لگ جائیں۔ لیکن پیٹ تو ان کے ساتھ بھی ہیں ‘ اولاد تو ان کی بھی ہوگی۔ لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ ز۔ زمین کے اندر گھوم پھر کر تجارت کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ج ۔ یہ اس طرح کے فقیر تو ہیں نہیں جو لپٹ کر مانگتے ہوں۔ ان کی خود داری کی وجہ سے عام طور پر جو ناواقف شخص ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ غنی ہیں ‘ خوشحال ہیں ‘ انہیں کوئی ضرورت ہی نہیں ‘ انہوں نے کبھی مانگا ہی نہیں۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس طرح کے سوالی نہیں ہیں ‘ وہ فقیر نہیں ہیں ‘ انہوں نے تو اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے اپنے آپ کو لگا دیا ہے۔ یہ تمہارا کام ہے کہ انہیں تلاش کرو اور ان کی ضروریات پوری کرو۔ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰہُمْ ج ۔ ظاہربات ہے کہ فقر و احتیاج کا اثر چہرے پر تو آجاتا ہے۔ اگر کسی کو صحیح غذا نہیں مل رہی ہے تو چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہوگا۔ لاَ یَسْءَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ط۔ وہ ان سائلوں کی طرح نہیں ہیں جو اصل میں اپنی محنت کا صلہ وصول کرتے ہیں کہ آپ کے سر ہو کر آپ سے زبردستی کچھ نہ کچھ نکلوا لیتے ہیں۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے کہ اقامت دین کیّ جدوجہد میں جو لوگ ہمہ وقت لگ جائیں ‘ آخر ان کے لیے ذریعۂ معاش کیا ہو ؟ اس وقت اس پر تفصیل سے گفتگو ممکن نہیں۔ بہرحال یہ سمجھ لیجیے کہ یہ دو رکوع انفاق کے موضوع پر قرآن حکیم کا نقطۂ عروج ہیں اور یہ آخری آیت ان میں اہم ترین ہے۔ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ ۔ یہ نہ سمجھنا کہ تمہارا انفاق اللہ کے علم میں نہیں ہے۔ تم خاموشی کے ساتھ ‘ اخفا کے ساتھ لوگوں کے ساتھ تعاون کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بھرپور بدلہ دے گا۔

اردو ترجمہ

جو لو گ اپنے مال شب و روز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yunfiqoona amwalahum biallayli waalnnahari sirran waAAalaniyatan falahum ajruhum AAinda rabbihim wala khawfun AAalayhim wala hum yahzanoona

اب ہم اس سورة مبارکہ کا جو رکوع پڑھ رہے ہیں یہ آج کے حالات میں اہم ترین ہے۔ یہ رکوع سود کی حرمت اور شناعت پر قرآن حکیم کا انتہائی اہم مقام ہے۔ اس دور میں اللہ تعالیٰ کے خلاف بغاوت کی سب سے بڑی صورت تو غیر اللہ کی حاکمیت کا تصور ہے ‘ جو سب سے بڑا شرک ہے۔ اگرچہ نفسیاتی اور داخلی اعتبار سے سب سے بڑا شرک مادّے پر توکلّ ہے ‘ لیکن خارجی اور واقعاتی دنیا میں اس وقت سب سے بڑا شرک غیر اللہ کی حاکمیت ہے ‘ جو اب عوامی حاکمیت کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ اس کے بعد اس وقت کے گناہوں اور بدعملی میں سب سے بڑا فتنہ اور فساد سود کی بنیاد پر ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے بڑی شیطنت جو یہودیوں کے ذریعے سے پورے کرۂ ارضی کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے بےتاب ہے ‘ وہ یہی سود کا ہتھکنڈا ہے۔ یہاں اس کی حرمت دو ٹوک انداز میں بیان کردی گئی۔ اس مقام پر میرے ذہن میں کبھی کبھی ایک سوال پیدا ہوتا تھا کہ اس رکوع کی پہلی آیت کا تعلق تو انفاق فی سبیل اللہ سے ہے ‘ لہٰذا اسے پچھلے رکوع کے ساتھ شامل ہونا چاہیے تھا ‘ لیکن بعد میں یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہوئی کہ اس آیت کو بڑی حکمت کے ساتھ اس رکوع کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ وہ حکمت میں بعد میں بیان کروں گا آیت 274 اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ بالَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلاَنِیَۃً صدقات واجبہ علانیہ اور صدقات نافلہ خفیہ طور پر دیتے ہیں۔فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْج وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ اس کے برعکس معاملہ ان کا ہے جو سود کھاتے ہیں۔ وجہ کیا ہے ؟ اصل مسئلہ ہے قدر زائد surplus value کا ! آپ کا کوئی شغل ہے ‘ کوئی کاروبار ہے یا ملازمت ہے ‘ آپ کما رہے ہیں ‘ اس سے آپ کا خرچ پورا ہو رہا ہے ‘ کچھ بچت بھی ہو رہی ہے۔ اب اس بچت کا اصل مصرف کیا ہے ؟ آیت 219 میں ہم پڑھ آئے ہیں : وَیَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلِ الْعَفْوَ ط لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کتنا خرچ کریں ؟ کہہ دیجیے جو بھی زائد از ضرورت ہو ! چناچہ اصل راستہ تو یہ ہے کہ اپنی بچت کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔ یا محتاجوں کو دے دو یا اللہ کے دین کی نشرو اشاعت اور سربلندی میں لگا دو۔ لیکن سود خورانہ ذہنیت یہ ہے کہ اس بچت کو بھی مزید کمائی کا ذریعہ بناؤ۔ لہٰذا اصل میں سود خوری انفاق فی سبیل اللہ کی ضد ہے۔ یہ عقدہ مجھ پر اس وقت کھلا جب میں نے اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا کے اصول کے تحت سورة الروم کی آیت 39 کا مطالعہ کیا۔ وہاں بھی ان دونوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لایا گیا ہے ‘ اللہ کی رضا جوئی کے لیے انفاق اور اس کے مقابلے میں ربا ‘ یعنی سود پر رقم دینا۔ فرمایا : وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا فِیْ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ج اور جو مال تم دیتے ہو سود پر تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ محنت کوئی کر رہا ہے اور آپ اس کی کمائی میں سے اپنے سرمائے کی وجہ سے وصول کر رہے ہیں تو آپ کا مال اس کے مال میں شامل ہو کر اس کی محنت سے بڑھ رہا ہے۔ لیکن اللہ کے ہاں اس کی بڑھوتری نہیں ہوتی۔ وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ اور وہ جو تم زکوٰۃ اور صدقات میں دے دیتے ہو محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے تو یہی لوگ اپنے مال اللہ کے ہاں بڑھا رہے ہیں۔ ان کا مال مسلسل بڑھ رہا ہے ‘ اس کی بڑھوتری ہو رہی ہے۔ چناچہ انفاق فی سبیل اللہ اور صدقات و زکوٰۃ وغیرہ کا معاملہ سود کے بالمقابل اور اس کے برعکس ہے۔ اپنے اس بچت کے مال کو یا تو کوئی اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا یا پھر سودی منافع حاصل کرنے کا ذریعہ بنائے گا۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ آج کے بینکنگ کے نظام میں سب سے زیادہ زور بچت saving پر دیا جاتا ہے اور اس کے لیے سیونگ اکاؤنٹ اور بہت سی پرکشش منافع بخش سکیمیں متعارف کرائی جاتی ہیں۔ ان کی طرف سے یہی ترغیب دی جاتی ہے کہ بچت کرو مزید کمانے کے لیے ! بچت اس لیے نہیں کہ اپنا پیٹ کاٹو اور غرباء کی ضروریات پوری کرو ‘ اپنا معیار زندگی کم کرو اور اللہ کے دین کے لیے خرچ کرو۔ نہیں ‘ بلکہ اس لیے کہ جو کچھ تم بچاؤ وہ ہمیں دو ‘ تاکہ وہ ہم زیادہ شرح سود پر دوسروں کو دیں اور تھوڑی شرح سود تمہیں دے دیں۔ چناچہ انفاق اور سود ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

46