سورۃ البقرہ: آیت 27 - الذين ينقضون عهد الله من... - اردو

آیت 27 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ مِيثَٰقِهِۦ وَيَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْخَٰسِرُونَ

اردو ترجمہ

اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اُسے کاٹتے ہیں، اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yanqudoona AAahda Allahi min baAAdi meethaqihi wayaqtaAAoona ma amara Allahu bihi an yoosala wayufsidoona fee alardi olaika humu alkhasiroona

آیت 27 کی تفسیر

جس طرح اس سورت کے آغاز میں متقین کی صفات کو تفصیل سے بیان کیا گیا تھا اسی طرح یہاں فاسقین کی خصوصیات کو بھی قدرے تفصیل سے لیا جاتا ہے ۔ کیونکہ اس پوری سورت میں روئے سخن ایسے ہی لوگوں کی طرف رہے گا ۔ نیز انسان ہر زمانے میں انہی ہر طبقات میں منقسم رہتے ہیں اور وہ یہ ہیں ۔

الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (27)

” جو اللہ کے عہد کو مضبوطی سے باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں ، اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ، حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ “

وہ کون سا عہد ہے جسے یہ توڑتے ہیں ؟ وہ کون ساتعلق ہے کہ اللہ نے اس کے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور اسے یہ کاٹتے ہیں ؟ اور جو فساد یہ کرتے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے ؟ ان سب امور کو سیاق کلام میں مجمل چھوڑدیا گیا ہے ۔ کیونکہ یہاں اصولی طور پر ایسے لوگوں کا مزاج بتایا جارہا ہے ۔ ان کی نوعیت کو متعین ومشخص کیا جارہا ہے ۔ کسی حادثے یا کسی مخصوص واقعہ کا بیان مقصود نہیں ہے بلکہ ایک عمومی صورتحال کی وضاحت مطلوب ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور ایسے لوگوں کے درمیان جو عہد بھی ہے وہ توڑدیا گیا ہے اور اللہ نے جن جن انسانی رابطوں کے قیام کا حکم دیا ہے ، وہ سب کے سب ان لوگوں نے توڑدیئے ہیں اور جو فساد بھی ممکن ہے اس کا ارتکاب یہ کرتے رہتے ہیں ۔ ان کی فطرت میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے ۔ لہٰذا یہ کسی عہد اور کسی رابطے کے پابند نہیں ہیں ۔ اور کسی فساد سے بھی باز نہیں رہتے ۔ ان کی مثال کچے پھل کی سی ہے ، جو شجر حیات سے جدا ہوگیا ہو ، گل اور سڑ گیا ہو اور زندگی نے اسے پرے پھینک دیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جن تمثیلوں سے مومنین ہدایت پاتے ہیں ، ان سے ایسے لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں ، جو چیزیں متقین کے لئے سبب ہدایت ہوتی ہیں وہ ان فاسقین کے لئے باعث ضلالت ہورہی ہیں ۔

ایسے لوگ جو کبھی یہود ومشرکین کے منافقین کی صورت میں مدینہ میں پائے جاتے تھے اور جو دعوت اسلامی کے مقابلے میں ایک بڑی رکاوٹ تھے اور جو آج بھی نام اور عنوان کی مختصر تبدیلی اور بالکل معمولی اختلاف کے ساتھ تحریک کی راہ میں سنگ گراں بنے ہوئے ہیں ، ان کی فتنہ انگیزیوں کے نشانات تودیکھئے ۔ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ ” جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں۔ “ انسانوں اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو پیمان بندھا ہوا ہے اس کی کئی شکلیں اور صورتیں ہیں ۔ ایک تو وہ جبلی عہد ہے جو ہر ذی حیات کی جبلت میں ودیعت کیا گیا ہے ۔ اس کی رو سے ہر ذی حیات کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے خالق کی معرفت حاصل کرے اور اس کی بندگی کرے ۔ انسانی فطرت میں ہمیشہ عقیدہ خداوندی کے لئے پیاس رہتی ہے ۔ لیکن کبھی اس کی فطرت سلیمہ میں فساد رونما ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں انسان راہ راست سے بھٹک جاتا ہے ، اور دوسروں کو اللہ کا ہمسر اور شریک بنانے لگتا ہے۔ نیز اس کی ایک صورت عہد خلافت کی ہے ، جو اللہ تعالیٰ اور آدم (علیہ السلام) کے درمیان طے پایا۔ جس کا تذکرہ عنقریب ہوگا۔

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ (38) وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (39)

” پھر میری طرف سے جو ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقعہ نہ ہوگا اور جو لوگ اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ “

نیز اس عہد کی ایک شکل وہ ہے جو مختلف پیغمبروں کے ذریعے مختلف اقوام سے باندھی گئی کہ وہ صرف ایک اللہ جل شانہ کی بندگی کریں اور اپنی زندگی میں صرف اسی کی تجویز کردہ نظام حیات اور نظام قانون کو اپنائیں گے ۔ یہ سب عہد ایسے ہیں جنہیں فاسق لوگ توڑتے ہیں ۔ اور جب کوئی اللہ تعالیٰ سے پختہ پیمان باندھنے کے بعد توڑتا ہے تو پھر وہ کسی دوسرے عہد کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ۔ جس کے اندر اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد شکنی کا حوصلہ ہوتا ہے ، وہ اس کے بعد کسی عہدوپیمان کا کوئی احترام نہیں کرتا۔

وَ یَقطَعُونَ مَآ اَمَرَ اللہ ُ بِہٖٓ اَن یُّوصَلَ ” اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں ۔ “ اللہ تعالیٰ نے کسی قسم کے روابط وتعلقات کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ اس نے یہ حکم دیا ہے کہ عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے ، اس نے یہ حکم دیا ہے کہ پوری انسانیت کی عظیم برادری قائم کی جائے اور ہر انسان دوسرے کا بھائی ہو۔ اور ان سب سے مقدم درجے میں اس نے حکم دیا ہے کہ ایک نظریاتی اخوت اور ایمانی برادری قائم کی جائے کیونکہ کوئی ربط اور تعلق ایمان ونظریہ کے سوا مضبوط نہیں ہوسکتا۔ جب وہ تعلقات و روابط ٹوٹ جائیں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے تو پھر تمام رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور تمام روابط ختم ہوجاتے ہیں ۔ زمین پر افراتفری عام ہوجاتی ہے اور شر و فساد پھیل جاتا ہے۔

وَيُفْسِدُونَ فِي الأرْضِ ” اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ “ زمین پر فساد پھیلانے کی بھی کئی شکلیں ہیں ۔ سب کی سب اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑنے اللہ تعالیٰ نے جن تعلقات کو جوڑنے کا حکم دیا ہے ، ان کے کاٹنے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ان تمام فسادات کا سرچشمہ یہ ہے کہ انسان اس نظام حیات کو ترک کردے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی اور اس کے تصرفات کے لئے تجویز کیا ہے ۔ اسلامی نظام حیات ہی وہ راہ ہے جو ان تمام راہوں سے علیحدہ ہوجاتی ہے اور جو شر و فساد پر منتہی ہوتی ہیں ۔ اگر صورت یہ ہو کہ اسلامی نظام زندگی کے تصرف واقتدار سے اس دنیا کے امور آزاد کردیئے گئے ہوں ، اس زندگی کو اللہ کی شریعت کے دائرے سے نکال دیا گیا ہو تو ممکن نہیں ہے کہ اس دنیا کی اصلاح ہوسکے ۔ جب بھی ایسا ہوا ہے کہ انسانوں اور ان کے رب کے درمیان یہ مضبوط تعلق نہیں رہا ۔ تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا شر و فساد کے عظیم سیلاب کی لپیٹ میں آگئی ہے ، انسانی اخلاق خراب ہوگئے ہیں ، لوگوں کی زندگی اور احوال تباہ ہوگئے ۔ ان کی معیشت برباد ہوگئی ۔ غرض ایسے حالات میں یہ زمین اور اس کے اوپر رہنے والی تمام جاندار مخلوق اور تمام چیزوں میں فساد رونما ہوجاتا ہے اور یہی وہ تباہ کاری اور شر و فساد ہے جو اللہ کی نافرمانی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے ایسے فساد میں مبتلالوگ اسی کے مستحق ہوتے ہیں کہ جن امور سے مومنین کو راہ ہدایت نصیب ہوتی ہے وہ ان کے لئے باعث گمراہی ہوتے ہیں۔

آیت 27 الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مِیْثَاقِہٖص اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان سب سے بڑا عہد ”عہد الست“ ہے ‘ جس کا ذکر سورة الاعراف میں آئے گا۔ یہ عہد عالم ارواح میں تمام ارواح انسانیہ نے کیا تھا ‘ ان میں میں بھی تھا ‘ آپ بھی تھے ‘ سب تھے۔ الغرض تمام کے تمام انسان جتنے آج تک دنیا میں آ چکے ہیں اور جو قیامت تک ابھی آنے والے ہیں ‘ اس عہد کے وقت موجود تھے ‘ لیکن صرف ارواح کی شکل میں تھے ‘ جسم موجود نہیں تھے۔ اور یہ بات یاد رکھیے کہ انسان کا روحانی وجود مکمل وجود ہے اور اوّلاً تخلیق اسی کی ہوئی تھی۔ ”عہدالست“ میں تمام بنی آدم سے اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا : اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے ایک ہی جواب دیا : بَلٰی کیوں نہیں ! تو یہ جو فاسق ہیں ‘ نافرمان ہیں ‘ سرکش ہیں ‘ انہوں نے اس عہد کو توڑا اور اللہ کو اپنا مالک ‘ اپنا خالق اور اپنا حاکم ماننے کی بجائے خود حاکم بن کر بیٹھ گئے اور اس طرح کے دعوے کیے : اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ ”کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے ؟“ غیر اللہ کی حاکمیتّ sovereignty کو تسلیم کرنا سب سے بڑی بغاوت ‘ سرکشی ‘ فسق اور نافرمانی ہے ‘ خواہ وہ ملوکیتّ کی صورت میں ہو یا عوامی حاکمیت popular sovereignty کی صورت میں۔وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ اللہ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے ‘ یہ قطع رحمی کرتے ہیں۔ مال کی طلب میں ‘ اس کے مال کو ہتھیانے کے لیے بھائی بھائی کو ختم کردیتا ہے۔ انسان اپنی ذاتی اغراض کے لیے ‘ اپنے تکبرّ اور تعلّی کی خاطر تمام اخلاقی حدود کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ ہماری شریعت کا فلسفہ یہ ہے کہ ہمیں دو طرح کے تعلقات جوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک تعلق ہے بندے کا اللہ کے ساتھ۔ اس کا تعلق ”حقوق اللہ“ سے ہے۔ جبکہ ایک تعلق ہے بندوں کا بندوں کے ساتھ۔ یہ ”حقوق العباد“ سے متعلق ہے۔ اللہ کا حق یہ ہے کہ اسے حاکم اور مالک سمجھو اور خود اس کے بندے بنو۔ جبکہ انسانوں کا حق یہ ہے کہ : کُوْنُوْا عِبَاد اللّٰہِ اِخْوَانًا 3 ”سب آپس میں بھائی بھائی ہو کر اللہ کے بندے بن جاؤ۔“ اس ضمن میں اہم ترین رحمی رشتہ ہے ‘ یعنی سگے بہن بھائی۔ پھر دادا دادی کی اولاد میں تمام چچا زاد وغیرہ cousins آجائیں گے۔ اس کے اوپر پردادا پردادی کی اولاد کا دائرہ مزید وسیع ہوجائے گا۔ اسی طرح اوپر چلتے جائیں یہاں تک کہ آدم و حوا پر تمام انسان جمع ہوجائیں گے۔ تو رحمی رشتہ کی بڑی اہمیت ہے۔ یہاں فاسقین کی دو صفات بیان کردی گئیں۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کے عہد کو مضبوطی سے باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور دوسرے یہ کہ جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے یہ انہیں قطع کرتے ہیں۔ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط ”اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔“ متذکرہ بالا دونوں چیزوں کے نتیجے میں زمین میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ انسان اللہ کی اطاعت سے باغی ہوجائیں یا آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگیں تو اس کا نتیجہ فساد فی الارض کی صورت میں نکلتا ہے۔اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ یہی لوگ ہیں جو بالآخر آخری اور دائمی خسارے میں رہنے والے ہیں۔

آیت 27 - سورۃ البقرہ: (الذين ينقضون عهد الله من بعد ميثاقه ويقطعون ما أمر الله به أن يوصل ويفسدون في الأرض ۚ أولئك هم...) - اردو