سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 5 (آیات 25 سے 29 تک)

وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا۟ مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا۟ هَٰذَا ٱلَّذِى رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا۟ بِهِۦ مُتَشَٰبِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَآ أَزْوَٰجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ ۞ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَسْتَحْىِۦٓ أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فَيَقُولُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِۦ كَثِيرًا وَيَهْدِى بِهِۦ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِۦٓ إِلَّا ٱلْفَٰسِقِينَ ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ مِيثَٰقِهِۦ وَيَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْخَٰسِرُونَ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِٱللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَٰتًا فَأَحْيَٰكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ لَكُم مَّا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ ٱسْتَوَىٰٓ إِلَى ٱلسَّمَآءِ فَسَوَّىٰهُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَٰتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ
5

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

اور اے پیغمبرؐ، جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کر لیں، انہیں خوش خبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہونگے جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا، تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہونگی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wabashshiri allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati anna lahum jannatin tajree min tahtiha alanharu kullama ruziqoo minha min thamaratin rizqan qaloo hatha allathee ruziqna min qablu waotoo bihi mutashabihan walahum feeha azwajun mutahharatun wahum feeha khalidoona

اعمال وجہ بشارت چونکہ پہلے کافروں اور دشمنان دین کی سزا عذاب اور رسوائی کا ذکر ہوا تھا اس لئے یہاں ایمانداروں اور نیک صالح لوگوں کی جزا ثواب اور سرخروئی کا بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کے مثانی ہونے کے ایک معنی یہ بھی ہیں جو صحیح تر قول بھی ہے کہ اس میں ہر مضمون تقابلی جائزہ کے ساتھ ہوا ہے اس کا مفصل بیان بھی کسی مناسب جگہ آئے گا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ ہی کفر کا۔ کفر کے ساتھ ایمان کا۔ نیکوں کے ساتھ بدوں کا۔ اور بدوں کے ساتھ نیکوں کا ذکر ضرور آتا ہے جس چیز کا بیان ہوتا ہے اس کے مقابلہ کی چیز کا بھی ذکر کردیا جاتا ہے چاہے معنی میں متشابہ ہوں، یہ دونوں لفظ قرآن کے اوصاف میں وارد ہوئے ہیں اسے مثانی بھی کہا گیا ہے اور متشابہ بھی فرمایا گیا ہے۔ جنتوں میں نہریں بہنا اس کے درختوں اور بالاخانوں کے نیچے بہنا ہے حدیث شریف میں ہے کہ نہریں بہتی ہیں لیکن گڑھا نہیں اور حدیث میں ہے کہ نہر کوثر کے دونوں کنارے سچے موتیوں کے قبے ہیں اس کی مٹی مشک خالص ہے اور اس کی کنکریاں لولو اور جواہر ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی یہ نعمتیں عطا فرمائے وہ احسان کرنے والا بڑا رحیم ہے حدیث میں ہے جنت کی نہریں مشکی پہاڑوں کے نیچے سے جاری ہوتی ہیں۔ (ابن ابی حاتم) حضرت عبداللہ ؓ سے بھی یہ مروی ہے جنتیوں کا یہ قول کہ پہلے بھی ہم کو یہ میوے دئے گئے تھے اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں بھی یہ میوے ہمیں ملے تھے صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی تھے صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی تھے صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی دئیے گئے تھے یہ اس لئے کہیں گے کہ ظاہری صورت و شکل میں وہ بالکل مشابہ ہوں گے۔ یحییٰ بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک پیالہ آئے گا کھائیں گے پھر دوسرا آئے گا تو کہیں گے یہ تو ابھی کھایا ہے فرشتے کہیں گے کھائیے تو اگرچہ صورت شکل میں یکساں ہیں لیکن مزہ اور ہے۔ فرماتے ہیں جنت کی گھاس زعفران ہے اس کے ٹیلے مشک کے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت غلمان ادھر ادھر سے میوے لا لا کر پیش کر رہے ہیں وہ کھا رہے ہیں وہ پھر پیش کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں اسے تو ابھی کھایا ہے وہ جواب دیتے ہیں حضرت رنگ روپ ایک ہے لیکن ذائقہ اور ہی ہے چکھ کر دیکھئے کھاتے ہیں تو اور ہی لطف پاتے ہیں یہی معنی ہیں کہ ہم شکل لائیں جائیں گے۔ دنیا کے میووں سے بھی اور نام شکل اور صورت میں بھی ملتے جلتے ہوں گے لیکن مزہ کچھ دوسرا ہی ہوگا۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ صرف نام میں مشابہت ہے ورنہ کہاں یہاں کی چیز کہاں وہاں کی ؟ یہاں تو فقط نام ہی ہے عبدالرحمن کا قول ہے دنیا کے پھلوں جیسے پھل دیکھ کر کہہ دیں گے کہ یہ تو دنیا میں کھاچکے ہیں مگر جب چکھیں گے تو لذت کچھ اور ہی ہوگی۔ وہاں جو بیویاں انہیں ملیں گی وہ گندگی ناپاکی حیض و نفاس پیشاب، پاخانہ، تھوک، رینٹ، منی وغیرہ سے پاک صاف ہوں گی حضرت حوا (علیہما السلام) بھی حیض سے پاک تھیں لیکن نافرمانی سرزد ہوتے ہی یہ بلا آگئی یہ قول سنداً غریب ہے ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ حیض پاخانہ تھوک رینٹ سے وہ پاک ہیں۔ اس حدیث کے راوی عبدالرزاق بن عمر یزیعی ہیں مستدرک حاکم میں بیان کیا جنہیں ابو حاتم البستی نے احتجاج کے قابل نہیں سمجھا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں بلکہ حضرت قتادہ کا قول ہے واللہ اعلم۔ ان تمام نعمتوں کے ساتھ اس زبردست نعمت کو دیکھئے کہ نہ یہ نعمتیں فنا ہوں۔ نہ نعمتوں والے فنا ہوں نہ نعمتیں ان سے چھنیں نہ یہ نعمتوں سے الگ کئے جائیں۔ نہ موت ہے نہ خاتمہ ہے نہ آخر ہے نہ ٹوٹنا اور کم ہونا ہے اللہ رب العالمین جواد و کریم برورحیم سے التجا ہے کہ وہ مالک ہمیں بھی اہل جنت کے زمرے میں شامل کرے اور انہیں کے ساتھ ہمارا حشر کرے۔ آمین۔

اردو ترجمہ

ہاں، اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں، وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے، اور جو ماننے والے نہیں ہیں، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کرتا ہے، جو فاسق ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna Allaha la yastahyee an yadriba mathalan ma baAAoodatan fama fawqaha faamma allatheena amanoo fayaAAlamoona annahu alhaqqu min rabbihim waamma allatheena kafaroo fayaqooloona matha arada Allahu bihatha mathalan yudillu bihi katheeran wayahdee bihi katheeran wama yudillu bihi illa alfasiqeena

اللہ جل شانہ کی مثالیں اور دنیا ابن عباس ابن مسعود اور چند صحابہ ؓ سے روایت ہے کہ جب اوپر کی تین آیتوں میں منافقوں کی دو مثالیں بیان ہوئیں یعنی آگ اور پانی کی تو وہ کہنے لگے کہ ایسی ایسی چھوٹی مثالیں اللہ تعالیٰ ہرگز بیان نہیں کرتا۔ اس پر یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔ حضرت قتادہ ؒ فرماتے ہیں جب قرآن پاک میں مکڑی اور مکھی کی مثال بیان ہوئی تو مشرک کہنے لگے بھلا ایسی حقیر چیزوں کے بیان کی قرآن جیسی اللہ کی کتاب میں کیا ضرورت تو جواباً یہ آیتیں اتریں اور کہا گیا کہ حق کے بیان سے اللہ تعالیٰ نہیں شرماتا خواہ وہ کم ہو یا زیادہ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکہ میں اتری حالانکہ ایسا نہیں واللہ اعلم۔ اور بزرگوں سے بھی اس طرح کا شان نزول مروی ہے۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں یہ خود ایک مستقل مثال ہے جو دنیا کے بارے میں بیان کی گئی۔ مچھر جب تک بھوکا ہوتا ہے زندہ رہتا ہے جہاں موٹا تازہ ہوا مرا۔ اسی طرح یہ لوگ ہیں کہ جب دنیاوی نعمتیں دل کھول کر حاصل کرلیتے ہیں وہیں اللہ کی پکڑ آجاتی ہے جیسے اور جگہ فرمایا آیت (فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ) 6۔ الانعام :44) جب یہ ہماری نصیحت بھول جاتے ہیں تو ہم ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیتے ہیں یہاں تک کہ اترانے لگتے ہیں اب دفعتہً ہم انہیں پکڑ لیتے ہیں (ابن جریر ابن ابی حاتم) امام ابن جریر نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور مناسبت بھی اسی کی زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے واللہ اعلم۔ تو مطلب یہ ہوا کہ مثال چھوٹی سے چھوٹی ہو یا بڑی سے بڑی بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نہ رکتا ہے نہ جھجھکتا ہے۔ لفظ ما یہاں پر کمی کے معنی بتانے کے لئے ہے اور بعوضۃ کا زیربدلیت کی بنا پر عربی قاعدے کے مطابق ہے جو ادنیٰ سے ادنیٰ چیز پر صادق آسکتا ہے یا " ما " نکرہ موصوفہ ہے اور " بعوضہ " صفت ہے ابن جریر " ما " کا موصولہ ہونا اور " بعوضہ " کا اسی اعراب سے معرب ہونا پسند فرماتے ہیں اور کلام عرب میں یہ بکثرت رائج ہے کہ وہ ما اور من کے صلہ کو انہی دونوں کا اعراف دیا کرتے ہیں اس لئے کہ کبھی یہ نکرہ ہوتے ہیں اور کبھی معرفہ جیسے حسان بن ثابت کے شعروں میں ہے۔ یکفی بنا فضلا علی من غیرنا حب النبی محمدا یانا ہمیں غیروں پر صرف یہی فضیلت کافی ہے کہ ہمارے دل جب نبی ﷺ سے پر ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ " بعوضہ " منصوب ہو حذف جار کی بنا پر اور اس سے پہلے اور بین کا لفظ مقدر مانا جائے۔ کسائی اور قرا اسی کو پسند کرتے ہیں ضحاک اور ابراہیم بن عبلہ " بعوضہ " پڑھتے ہیں۔ ابن جنبی کہتے ہیں یہ " ما " کا صلہ ہوگا اور عائد حذف مانی جائے گی جیسے آیت (تمام علی الذی احسن میں فما فوقھا) کے دو معنی بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ اس سے بھی ہلکی اور ردی چیز۔ جیسے کسی شخص کی بخیلی کا ایک شخص ذکر کرے تو دوسرا کہتا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ گرا ہوا ہے۔ کسائی اور ابو عبیدہ یہی کہتے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔ دوسرے یہ معنی ہیں کہ اس سے زیادہ بڑی اس لئے کہ بھلا مچھر سے ہلکی اور چھوٹی چیز اور کیا ہوگی ؟ قتادہ بن وعامہ کا یہی قول ہے۔ ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ جس کسی مسلمان کو کانٹا چبھے یا اس سے زیادہ تو اس پر بھی اس کے درجے بڑھتے ہیں اور گناہ مٹتے ہیں اس حدیث میں بھی یہی لفظ فوقھا ہے تو مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ان چھوٹی بڑی چیزوں کے پیدا کرنے سے شرماتا نہیں اور نہ رکتا ہے۔ اسی طرخ انہیں مثال کے طور پر بیان کرنے سے بھی اسے عار نہیں۔ ایک جگہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے کان لگا کر سنو جنہیں اللہ کے سوا پکار سکتے ہو وہ سارے کے سارے جمع ہوجائیں تو بھی ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے بلکہ مکھی اگر ان سے کچھ چھین لے جائے تو یہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ عابد اور معبود دونوں ہی بیحد کمزور ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا ان لوگوں کی مثال جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو مددگار بناتے ہیں مکڑی کے جالے جیسی ہے جس کا گھر تمام گھروں سے زیادہ بودا اور کمزور ہے اور جگہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی مثال پاک درخت سے دی جس کی جڑ مضبوط ہو اور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں جو بحکم اللہ ہر وقت پھل دیتا ہو۔ ان مثالوں کو اللہ تعالیٰ لوگوں کے غورو تدبر کے لئے بیان فرماتا ہے اور ناپاک کلام کی مثال ناپاک درخت جیسی ہے جو زمین کے اوپر اوپر ہی ہو اور جڑیں مضبوط نہ ہوں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو مضبوط بات کے ساتھ دنیا اور آخرت میں برقرار رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کرنا ہے اللہ جو چاہے کرے۔ دوسری جگہ فرمایا اللہ تعالیٰ اس مملوک غلام کی مثال پیش کرتا ہے جسے کسی چیز پر اختیار نہیں۔ اور جگہ فرمایا۔ دو شخصوں کی مثال اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے جن میں سے ایک تو گونگا اور بالکل گرا پڑا بےطاقت ہے جو اپنے آقا پر بوجھ ہے جہاں جائے برائی ہی لے کر آئے اور دوسرا وہ جو عدل و حق کا حکم کرے، کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ دوسری جگہ ہے اللہ تعالیٰ تمہارے لئے خود تمہاری مثال بیان فرماتا ہے کیا تم اپنی چیزوں میں اپنے غلاموں کو بھی اپنا شریک اور برابر کا حصہ دار سمجھتے ہو ؟ اور جگہ ارشاد ہے ان مثالوں کو ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں اور انہیں (پوری طرح) صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں۔ بعض سلف صالحین فرماتے ہیں جب میں قرآن کی کسی مثال کو سنتا ہوں اور سمجھ نہیں سکتا تو مجھے رونا آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ان مثالوں کو صرف عالم ہی سمجھ سکتے ہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں مثالیں خواہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ایماندار ان پر ایمان لاتے ہیں اور انہیں حق جانتے ہیں اور ان سے ہدایت پاتے ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ وہ انہیں اللہ کا کلام سمجھتے ہیں۔ " انہ " کی ضمیر کا مرجع مثال ہے یعنی مومن اس مثال کو اللہ کی جانب سے اور حق سمجھتے ہیں اور کافر باتیں بناتے ہیں جیسے سورة مدثر میں آیت (وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰۗىِٕكَةً) 74۔ المدثر :31) یعنی ہم نے آگ والے فرشتوں کی گنتی کو کفار کی آزمائش کا سبب بنایا ہے۔ اہل کتاب یقین کرتے ہیں اور ایماندار ایمان میں بڑھ جاتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کو کوئی شک نہیں رہتا لیکن بیمار دل اور کفار کہہ اٹھتے ہیں کہ اس مثال سے کیا مراد ؟ اسی طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہاں بھی اسی ہدایت و ضلالت کو بیان کیا۔ ایک ہی مثال کے دو ردعمل کیوں ؟ ٭٭ صحابہ کرام سے مروی ہے کہ اس سے گمراہ منافق ہوتے ہیں اور مومن راہ پاتے ہیں۔ گمراہ اپنی گمراہی میں بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس مثال کے درست اور صحیح ہونے کا علم ہونے کے باوجود اسے جھٹلاتے ہیں اور مومن اقرار کر کے ہدایت ایمان کو بڑھا لیتے ہیں۔ فاسقین سے مراد منافق ہیں۔ بعض نے کہا ہے کافر مراد ہیں جو پہچانتے ہیں اور انکار کرتے ہیں۔ حضرت سعد کہتے ہیں مراد خوارج ہیں۔ اگر اس قول کی سند حضرت سعد بن ابی وقاص تک صحیح ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ تفسیر معنوی ہے اس سے مراد خوارج نہیں ہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ فرقہ بھی فاسقوں میں داخل ہے۔ جنہوں نے نہرو ان میں حضرت علی پر چڑھائی کی تھی تو یہ لوگ گو نزول آیت کے وقت موجود نہ تھے لیکن اپنے بدترین وصف کی وجہ سے معناً فاسقوں میں داخل ہیں۔ انہیں خارجی اس لئے کہا گیا ہے کہ امام کی اطاعت سے نکل گئے تھے اور شریعت اسلام کی پابندی سے آزاد ہوگئے تھے۔ لغت میں فاسق کہتے ہیں اطاعت اور فرمانبرداری سے نکل جانے کو۔ جب چھلکا ہٹا کر خوشہ نکلتا ہے تو عرب کہتے ہیں فسقت چوہے کو بھی فویسقہ کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بل سے نکل کر فساد کرتا ہے۔ صحیحین کی حدیث ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچ جانور فاسق ہیں حرم میں اور حرم سے باہر کے قتل کر دئیے جائیں۔ کوا، چیل، بچھو، چوہا اور کالا کتا۔ پس لفظ فاسق کافر کو اور ہر نافرمان کو شامل ہے لیکن کافر فسق زیادہ سخت اور زیادہ برا ہے اور آیت میں مراد فاسق سے کافر ہے واللہ اعلم۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ بعد میں ان کا وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتے ہیں۔ اس کے فرمان کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور یہ سب اوصاف کفار کے ہیں۔ مومنوں کے اوصاف تو اس کے برخلاف ہوتے ہیں جیسے سورة رعد میں بیان ہے کہ آیت (افمن یعلم) الخ کیا پس وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تجھ پر اترا وہ حق ہے کیا اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو اندھا ہو ؟ نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں جو اللہ کے وعدوں کو پورا کرتے ہیں اور میثاق نہیں توڑتے اور اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں جوڑتے ہیں اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور حساب کی برائی سے کانپتے رہتے ہیں۔ آگے چل کر فرمایا۔ جو لوگ اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیں اور جس چیز کو ملانے کا اللہ کا حکم ہو وہ اسے نہ ملائیں اور زمین میں فساد پھیلائیں ان کے لئے لعنتیں ہیں اور ان کے لئے برا گھر ہے۔ یہاں عہد سے مراد وہ وصیت ہے جو اللہ نے بندوں کو کی تھی جو اس کے تمام احکام بجا لانے اور تمام نافرمانیوں سے بچنے پر مشتمل ہے۔ اس کا توڑ دینا اس پر عمل نہ کرنا ہے۔ بعض کہتے ہیں عہد توڑنے والے اہل کتاب کے کافر منافق اور ہیں اور عہد وہ ہے جو ان سے تورات میں لیا گیا تھا کہ وہ اس کی تمام باتوں پر عمل کریں اور محمد ﷺ کی اتباع کریں جب بھی آپ تشریف لے آئیں آپ کی نبوت کا اقرار کریں اور جو کچھ آپ اللہ کی جانب سے لے کر آئیں اس کی تصدیق کریں اور اس عہد کو توڑ دینا یہ ہے کہ انہوں نے آپ کی نبوت کا علم ہونے کے باوجود الٹا اطاعت سے انکار کردیا اور باوجود عہد کا علم ہونے کے اسے چھپایا دنیاوی مصلحتوں کی بنا پر اس کا الٹ کیا۔ امام ابن جریر اس قول کو پسند کرتے ہیں اور مقاتل بن حیان کا بھی یہی قول ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی خاص جماعت نہیں بلکہ شک و کفر و نفاق والے سب کے سب مراد ہیں۔ عہد سے مراد توحید اور نبی ﷺ کی نبوت کا اقرار کرانا ہے جن کی دلیل میں کھلی ہوئی نشانیاں اور بڑے بڑے معجزے موجود ہیں اور اس عہد کو توڑ دینا توحید و سنت سے منہ موڑنا اور انکار کرنا ہے یہ قول اچھا ہے زمحشری کا میلان بھی اسی طرح ہے وہ کہتے ہیں عہد سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ماننے کا اقرار ہے جو فطرت انسان میں داخل ہونے کے علاوہ روز میثاق بھی منوایا گیا ہے۔ فرمایا گیا تھا کہ آیت (اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ) 7۔ الاعراف :172) کیا میں تمہارا رب ہوں ؟ تو سب نے جواب دیا تھا بلٰی بیشک تو ہمارا رب ہے۔ پھر وہ کتابیں دی گئیں ان میں بھی اقرار کرایا گیا جیسے فرمایا آیت (وَاَوْفُوْا بِعَهْدِىْٓ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ) 2۔ البقرۃ :40) میرے عہد کو نبھاؤ میں بھی اپنے وعدے پورے کروں گا۔ بعض کہتے ہیں وہ عہد مراد ہے جو روحوں سے لیا گیا تھا جب وہ حضرت آدم ؑ کی پیٹھ سے نکالی گئی تھیں جیسے فرماتا ہے آیت (وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ) 7۔ الاعراف :172) جب تیرے رب نے اولاد آدم سے وعدہ لیا کہ میں ہی تمہارا رب ہوں اور ان سب نے اقرار کیا۔ اور اس کا توڑنا اس سے انحراف ہے۔ یہ تمام اقوال تفسیر ابن جریر میں منقول ہیں۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں عہد اللہ کو توڑنا منافقوں کا کام ہے جن میں یہ چھ خصلتیں ہوتی ہیں۔ بات کرنے میں جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، امانت میں خیانت کرنا، اللہ کے عہد کو مضبوطی کے بعد توڑ دینا، اللہ تعالیٰ نے جن رشتوں کے ملانے کا حکم دیا ہے، انہیں نہ ملانا، زمین میں فساد پھیلانا۔ یہ چھ خصلتیں ان کی اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب کہ ان کا غلبہ ہو اور جب وہ مغلوب ہوتے ہیں تو تین اگلے کام کرتے ہیں۔ سدی فرماتے ہیں قرآن کے احکام کو پڑھنا جاننا سچ کہنا پھر نہ ماننا بھی عہد کو توڑنا تھا اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان سے مراد صلہ رحمی کرنا، قرابت کے حقوق ادا کرنا وغیرہ ہے جیسے اور جگہ قرآن مجید میں ہے آیت (فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ) 47۔ محمد :22) قریب ہے کہ تم اگر لوٹو تو زمین میں فساد کرو اور رشتے ناتے توڑ دو۔ ابن جریر اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت عام ہے یعنی جسے ملانے اور ادا کرنے کا حکم دیا تھا انہوں نے اسے توڑا اور حکم عدولی کی۔ خاسرون سے مراد آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں جیسے فرمان باری ہے۔ آیت (اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ) 13۔ الرعد :25) ان لوگوں کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا فرمان ہے کہ اہل اسلام کے سوا جہاں دوسروں کے لئے یہ لفظ آیا ہے وہاں مراد گنہگار ہیں۔ خاسرون جمع ہے خاسر کی۔ چونکہ ان لوگوں نے نفسیاتی خواہشوں اور دنیوی لذتوں میں پڑ کر رحمت اللہ سے علیحدگی کرلی اس لئے انہیں نقصان یافتہ کہا گیا جیسے وہ شخص جسے اپنی تجارت میں گھاٹا آئے اسی طرح یہ کافرو منافق ہیں یعنی قیامت والے دن جب رحم و کرم کی بہت ہی حاجت ہوگی اس دن رحمت الٰہی سے محروم رہ جائیں گے۔

اردو ترجمہ

اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اُسے کاٹتے ہیں، اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yanqudoona AAahda Allahi min baAAdi meethaqihi wayaqtaAAoona ma amara Allahu bihi an yoosala wayufsidoona fee alardi olaika humu alkhasiroona

اردو ترجمہ

تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kayfa takfuroona biAllahi wakuntum amwatan faahyakum thumma yumeetukum thumma yuhyeekum thumma ilayhi turjaAAoona

ٹھوس دلائل پر مبنی دعوت اس بات کا ثبوت دیتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے وہ قدرتوں والا ہے۔ وہی پیدا کرنے والا اور اختیار والا ہے۔ اس آیت میں فرمایا تم اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار کیسے کرسکتے ہو ؟ یا اس کے ساتھ دوسرے کو عبادت میں شریک کیسے کرسکتے ہو ؟ جبکہ تمہیں عدم سے وجود میں لانے والا ایک وہی ہے۔ دوسری جگہ فرمایا کیا یہ بغیر کسی چیز کے پیدا کئے گئے ؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں ؟ انہوں نے زمین و آسمان بھی پیدا کیا ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ بےیقین لوگ ہیں۔ اور جگہ ارشاد ہوتا ہے آیت (ھل اتی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیأ مذکورا) یقینا انسان پر وہ زمانہ بھی آیا ہے جس وقت یہ قابل ذکر چیز ہی نہ تھا۔ اور بھی اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ کفار جو کہیں گے آیت (رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ) 40۔ غافر :11) اے اللہ دو دفعہ تو نے ہمیں مارا اور دو دفعہ جلایا ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے۔ اس سے مراد یہی ہے جو اس آیت (وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ) 2۔ البقرۃ :28) میں ہے مطلب یہ ہے کہ تم اپنے باپوں کی پیٹھ میں مردہ تھے یعنی کچھ بھی نہ تھے۔ اس نے تمہیں زندہ کیا یعنی پیدا کیا پھر تمہیں مارے گا یعنی موت ایک روز ضرور آئے گی پھر تمہیں قبروں سے اٹھائے گا۔ پس ایک حالت مردہ پن کی دنیا میں آنے سے پہلے پھر دوسری دنیا میں مرنے اور قبروں کی طرف جانے کی پھر قیامت کے روز اٹھ کھڑے ہونے کی۔ دو زندگیاں اور دو موتیں۔ ابو صالح فرماتے ہیں کہ قبر میں انسان کو زندہ کردیا جاتا ہے۔ عبدالرحمن بن زید کا بیان ہے کہ حضرت آدم ؑ کی پیٹھ میں انہیں پیدا کیا پھر ان سے عہد و پیمان لے کر بےجان کردیا پھر ماں کے پیٹ میں انہیں پیدا کیا پھر دنیوی موت ان پر آئی پھر قیامت والے دن انہیں زندہ کرے گا لیکن یہ قول غریب ہے۔ پہلا قول ہی درست ہے۔ ابن مسعود، ابن عباس اور تابعین کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔ قرآن میں اور جگہ ہے آیت (قُلِ اللّٰهُ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ) 45۔ الجاثیۃ :26) اللہ ہی تمہیں پیدا کرتا ہے پھر مارتا ہے پھر تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا۔ ان پتھروں اور تصویروں کو جنہیں مشرکین پوجتے تھے قرآن نے مردہ کہا۔ فرمایا اموات غیر احیاء وہ سب مردہ ہیں زندہ نہیں۔ زمین کے بارے میں فرمایا آیت (وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ) 36۔ یس :33) ان کے لئے مردہ زمین بھی ہماری صداقت کی نشانی ہے جسے ہم زندہ کرتے ہیں اور اس سے دانے نکالتے ہیں جسے یہ کھاتے ہیں۔

اردو ترجمہ

وہی تو ہے، جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پید ا کیں، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee khalaqa lakum ma fee alardi jameeAAan thumma istawa ila alssamai fasawwahunna sabAAa samawatin wahuwa bikulli shayin AAaleemun

کچھ اور دلائل اوپر کی آیات میں ان دلائل قدرت کا بیان تھا جو خود انسان کے اندر ہیں اب اس مبارک آیت میں ان دلائل کا بیان ہو رہا ہے جو روز مرہ آنکھوں کے سامنے ہیں۔ " استوا " یہاں قصد کرنے اور متوجہ ہونے کے معنی میں ہے اس لئے کہ اس کا صلہ " الی " ہے " سوھن " کے معنی درست کرنے اور ساتوں آسمان بنانے کے ہیں سماء اسم جنس ہے۔ پھر بیان فرمایا کہ اس کا علم محیط کل ہے جیسے ارشاد آیت (اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ) 67۔ الملک :14) وہ بےعلم ہو کیسے سکتا ہے جو خالق ہو ؟ سورة سجدہ کی آیت (ائنکم لتکفرون) گویا اس آیت کی تفصیل ہے جس میں فرمایا ہے کیا تم اس اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ جس نے زمین کو صرف دو دن میں پیدا کیا تم اس کے لئے شریک ٹھہراتے ہو ؟ جو رب العالمین ہے جس نے زمین میں مضبوط پہاڑ اوپر سے گاڑ دئیے جس نے زمین میں برکتیں اور روزیاں رکھیں اور چار دن میں زمین کی سب چیزیں درست کردیں۔ جس میں دریافت کرنے والوں کی تشفی ہے پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہو کر جو دھویں کی شکل میں تھے فرمایا کہ اے زمینو اور آسمانو خوشی یا ناخوشی سے آؤ تو دونوں نے کہا باری تعالیٰ ہم تو برضا و خوشی حاضر ہیں۔ دو دن میں ان ساتوں آسمانوں کو پورا کردیا اور ہر آسمان میں اس کا کام بانٹ دیا اور دنیا کے آسمان کو ستاروں کے ساتھ مزین کردیا اور انہیں (شیطانوں سے) بچاؤں کا سبب بنایا۔ یہ ہے اندازہ اس اللہ کا جو بہت بڑا غالب اور بہت بڑے علم والا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے زمین پیدا کی پھر ساتوں آسمان۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر عمارت کا یہی قاعدہ ہے کہ پہلے نیچے کا حصہ بنایا جائے پھر اوپر کا مفسرین نے بھی اس کی تصریح کی ہے جس کا بیان بھی ابھی آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ لیکن یہ سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ آیت (ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ ۭ بَنٰىهَا) 79۔ النازعات :27) تمہاری پیدائش مشکل ہے یا آسمانوں کی ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے خلا کو بلند کر کے اسے ٹھیک ٹھاک کیا اور ان میں سے رات دن پیدا کئے پھر اس کے بعد زمین پھیلائی اس سے پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو گاڑا جو سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے کام کی چیزیں ہیں۔ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمان کے بعد ہے تو بعض بزرگوں نے تو فرمایا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں " ثم " صرف عطف خبر کے لئے ہے عطف فعل کے لئے نہیں یعنی یہ مطلب نہیں کہ زمین کے بعد آسمان کی پیدائش شروع کی بلکہ صرف خبر دینا مقصود ہے کہ آسمانوں کو بھی پیدا کیا اور زمینوں کو بھی۔ عرب شاعروں کے اشعار میں یہ موجود ہے کہ کہیں " ثم " صرف خبر کا خبر پر عطف ڈالنے کے لئے ہوتا ہے تقدیم تاخیر مراد نہیں ہوتی۔ اور بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ آیت " ءانتم " میں آسمانوں کی پیدائش کے بعد زمین کا پھیلانا اور بچھانا وغیرہ بیان ہوا ہے نہ کہ پیدا کرنا۔ تو ٹھیک یہ ہے کہ پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کو پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا اس طرح دونوں آیتیں ایک دوسرے کے مخالف نہ رہیں گی۔ اس عیب سے اللہ کا کلام بالکل محفوظ ہے۔ ابن عباس ؓ نے یہی معنی بیان فرمائے ہیں (یعنی پہلے زمین کی درستی وغیرہ یہ بعد کی چیز ہے) حضرت ابن مسعود حضرت ابن عباس اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اور کسی چیز کو پیدا نہیں کیا تھا جب اور مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو پانی سے دھواں بلند کیا وہ اونچا چڑھا اور اس سے آسمان بنائے پھر پانی خشک ہوگیا اور اس کی زمین بنائی پھر اس کو الگ الگ کر کے سات زمینیں بنائیں اتوار اور پیر کے دو دن میں یہ ساتوں زمینیں بن گئیں۔ زمین مچھلی پر ہے اور مچھلی وہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں ہے آیت (ن والقلم مچھلی پانی میں ہے اور پانی صفاۃ پر ہے اور صفاۃ فرشتے پر اور فرشتے پتھر پر زمین کانپنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو گاڑ دیا اور وہ ٹھہر گئی یہی معنی میں اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت (وَجَعَلْنَا فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ) 21۔ الانبیآء :38) زمین نہ ہلے اس لئے ہم نے اس میں پہاڑ جما دئیے ہیں۔ پہاڑ زمین کی پیداوار درخت وغیرہ زمین کی کل چیزیں منگل اور بدھ کے دو دنوں میں پیدا کیں اسی کا بیان آیت (قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ) 41۔ فصلت :9) والی آیت میں ہے پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی جو دھواں تھا آسمان بنایا پھر اسی میں ساتھ آسمان بنائے جمعرات اور جمعہ کے دو دنوں میں جمعہ کے دن کو اس لئے جمعہ کہا جاتا ہے کہ اس میں زمین و آسمان کی پیدائش جمع ہوگئی ہر آسمان میں اس نے فرشتوں کو پیدا کیا اور ان ان چیزوں کو جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں کہ دنیا آسمان کو ستاروں کے ساتھ زینت دی اور انہیں شیطان سے حفاظت کا سبب بنایا ان تمام چیزوں کو پیدا کر کے پروردگار نے عرش عظیم پر قرار پکڑا جسے فرماتا ہے۔ آیت (خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ) 7۔ الاعراف :54) یعنی چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کر کے پھر عرش پر مستوی ہوگیا اور جگہ فرمایا آیت (كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا) 21۔ الانبیآء :30) یعنی یہ دونوں دھواں سے تھے ہم نے انہیں پھاڑا اور پانی سے ہر چیز کو زندگی دی (تفسیر سدی) یہ موقوف قول جس میں کئی قسم کا احتمال ہے بہ ظاہراً ایسی اہم بات میں حجت تامہ نہیں ہوسکتا۔ واللہ اعلم) ابن جریر میں ہے حضرت عبداللہ بن سعید ؓ فرماتے ہیں کہ اتوار سے مخلوق کی پیدائش شروع ہوئی۔ دو دن میں زمینیں پیدا ہوئیں دو دن میں ان میں موجود تمام چیزیں پیدا کیں اور دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا جمعہ کے دن آخری وقت ان کی پیدائش ختم ہوئی اور اسی وقت حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا اور اسی وقت میں قیامت قائم ہوگی۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو آسمان سے پہلے پیدا کیا اس سے جو دھواں اوپر چڑھا اس کے آسمان بنائے جو ایک پر ایک اس طرح سات ہیں اور زمینیں ایک نیچے ایک اوپر اس طرح سات ہیں۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمانوں سے پہلے ہے جیسے سورة سجدہ کی آیت میں ہے۔ علماء کی اس پر متفق ہیں۔ صرف قتادہ فرماتے ہیں کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوئے ہیں۔ قرطبی اس میں توقف کرتے ہیں آیت (والنازعات) کی آیت کی وجہ سے یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں آسمان کی پیدائش کا ذکر زمین سے پہلے ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس سے جب یہ سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا کہ زمین پیدا تو آسمانوں سے پہلے کی گئی ہے لیکن بعد میں پھیلائی گئی ہے۔ یہی جواب اگلے پچھلے علماء کا ہے۔ سورة نازعات کی تفسیر میں بھی اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ حاصل امر یہ ہے کہ زمین کا پھیلانا اور بچھانا بعد میں ہے اور دحھا کا لفظ قرآن میں ہے اور اس کے بعد جو پانی چارہ پہاڑ وغیرہ کا ذکر ہے یہ گویا اس لفظ کی تشریح ہے جن جن چیزوں کی نشوونما کی قوت اس زمین میں رکھی تھی ان سب کو ظاہر کردیا اور زمین کی پیداوار طرح طرح کی مختلف شکلوں اور مختلف قسموں میں نکل آئی۔ اسی طرح آسمان میں بھی ٹھہرے رہنے والے چلنے والے ستارے وغیرہ بنائے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ صحیح مسلم اور نسائی میں حدیث میں ہے حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا مٹی کو اللہ تعالیٰ نے ہفتہ والے دن پیدا کیا، پہاڑوں کو اتوار کے دن، درختوں کو پیر کے دن، برائیوں کو منگل کے دن نور کو، بدھ کے دن، جانوروں کو جمعرات کے دن، آدم کو جمعہ کے دن اور عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت میں عصر کے بعد سے رات تک۔ یہ حدیث غرائب میں سے ہے۔ امام ابن مدینی امام بخاری وغیرہ نے اس پر بحث کی ہے اور فرمایا ہے کہ کعب کا اپنا قول اور حضرت ابوہریرہ نے کعب کا یہ قول سنا ہے اور بعض راویوں نے اسے غلطی سے مرفوع حدیث قرار دے لیا ہے۔ امام بیہقی کہتے ہیں۔

5