سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 5 (آیات 25 سے 29 تک)

وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا۟ مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا۟ هَٰذَا ٱلَّذِى رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا۟ بِهِۦ مُتَشَٰبِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَآ أَزْوَٰجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ ۞ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَسْتَحْىِۦٓ أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فَيَقُولُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِۦ كَثِيرًا وَيَهْدِى بِهِۦ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِۦٓ إِلَّا ٱلْفَٰسِقِينَ ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ مِيثَٰقِهِۦ وَيَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْخَٰسِرُونَ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِٱللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَٰتًا فَأَحْيَٰكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ لَكُم مَّا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ ٱسْتَوَىٰٓ إِلَى ٱلسَّمَآءِ فَسَوَّىٰهُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَٰتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ
5

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور اے پیغمبرؐ، جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کر لیں، انہیں خوش خبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہونگے جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا، تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہونگی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wabashshiri allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati anna lahum jannatin tajree min tahtiha alanharu kullama ruziqoo minha min thamaratin rizqan qaloo hatha allathee ruziqna min qablu waotoo bihi mutashabihan walahum feeha azwajun mutahharatun wahum feeha khalidoona

اس خوفناک اور وحشتناک منظر کے بالمقابل ذرا دوسرا رخ بھی دیکھئے کہ انعامات واکرامات کی کیا فروانی ہے جو مومنین کا انتظار کررہی ہے ؟

وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (25)

” اور اے پیغمبر جو لوگ کتاب پر ایمان لے آئیں ، اور اس کے مطابق اپنے عمل درست کرلیں ، انہیں خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ ان باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے ۔ جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیاجائے گا تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے ہم کو دیئے جاچکے ہیں ۔ ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ “

یہ رنگا رنگ انعامات واکرامات ، نگاہ جاکر ان میں سے پاکیزہ بیویوں پر جاٹکتی ہے ۔ یہ پھل اس سے پہلے کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے اور جن کے بارے میں اہل جنت یہ خیال کریں گے کہ اس سے پ ہے بھی جنت میں ان کی تواضع ایسے ہی پھلوں سے کی گئی ہے ۔ یا وہ ان پھلوں کے ہم شکل پھل دیئے جائیں گے لیکن جب وہ انہیں چکھیں گے تو ان کی حیرانی کی انتہا نہ رہے گی کہ مزا ہر دفعہ علیحدہ اور پرکیف ہوگا۔ قدم قدم پر انہیں ایسے نئے تجربے ہوں گے ، جن سے ظاہر ہوگا کہ وہ رضائے الٰہی کے اطمینان بخش ماحول میں رہ رہے ہیں ۔ کیا خوب تفکہہ ہے کہ ہر دفعہ بظاہر ہم شکل پھلوں کی صورت میں انہیں ایک نہی نعمت دی جاتی ہے۔

شکل و صورت کی یہ ہم رنگی اور ذائقہ و حقیقت کا یہ تنوع ، تخلیق کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ایک ممتاز کاریگری ہے ، جس سے یہ کائنات بظاہر ایک عظیم حقیقت نظر آتی ہے ۔ اس عظیم نکتے کی وضاحت کے لئے مناسب ہے کہ ہم خود اس کا مطالعہ کریں ۔ دیکھئے تمام انسان تخلیقی اعتبار سے ایک ہیں ۔ سر ، جسم اور دوسرے اعضاء سب ایک جیسے ہیں۔ سب گوشت پوست اور ہڈیوں اور اعصاب سے بنے ہوئے ہیں ۔ سب کو دوآنکھیں ، دوکان ، ایک ناک اور ایک زبان دی گئی ہے ، اور سب اسی ایک زندہ (Cell) خلیے سے پیدا کئے گئے ہیں ۔ مادہ اور صورت کے لحاظ سے سب ایک جیسے ہیں لیکن اخلاق و قابلیت میں ایک دوسرے کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے اور اس ظاہری مشابہت کے باوجود یہ فرق کبھی آسمان و زمین سے بھی زیادہ ہوتا ہے ۔

جب انسان صنعت باری کی ان باریکیوں پر غور کرتا ہے تو سر چکرا جاتا ہے ۔ ذرا غور کیجئے ! مخلوقات کی مختلف اقسام اور اجناس میں کیا تنوع ہے ۔ مختلف شکلیں اور رنگارنگ خصوصیات ، قابلیتوں اور خصوصیتوں میں امتیاز ، لیکن ان تمام چیزوں کا آغاز صرف ایک جیسے خلیے سے ہوا ہے جو اپنی ترکیب اور ساخت کے لحاظ سے بالکل یک گونہ ہوتا ہے۔

پس کون سیاہ دل ہے جو اللہ کی قدرت کے ان کھلے آثار اور شواہد کو دیکھ کر بھی صرف اسی کی بندگی اور غلامی اختیار نہیں کرتا ؟ اور کون ہے جو ان معجزہ دلائل اور واضح براہین کے ہوتے ہوئے بھی اللہ کی ذات وصفات میں کسی کو اس کا ہمسر بناتا ہے ! حالانکہ یہ بیشمار آثار اور یہ بکثرت دلائل اس کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور وہ برابر ان کا مشاہدہ کررہا ہے ۔ کئی ایسے دلائل بھی ہیں جو اس کی نظروں اور مشاہدے سے اوجھل ہیں ۔

اردو ترجمہ

ہاں، اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں، وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے، اور جو ماننے والے نہیں ہیں، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کرتا ہے، جو فاسق ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna Allaha la yastahyee an yadriba mathalan ma baAAoodatan fama fawqaha faamma allatheena amanoo fayaAAlamoona annahu alhaqqu min rabbihim waamma allatheena kafaroo fayaqooloona matha arada Allahu bihatha mathalan yudillu bihi katheeran wayahdee bihi katheeran wama yudillu bihi illa alfasiqeena

اس سے قبل سورت کی ابتداء میں قرآن مجید یہود ومشرکین سے تعلق رکھنے والے منافقین کو اس شخص سے تشبیہ دی تھی جو آگ جلاتا ہے یا اس شخص کے ساتھ جو آسمانی بادلوں کی تاریکی اور گرج وچمک میں گھرا ہوا ہے ، نیز اس سے پہلے مکی دور کے نازل شدہ قرآن کریم میں بھی کئی تمثیلیں بیان کی گئی ہیں اور جو مدینہ میں عام طور پر پڑھی جاتی تھیں ۔ مثلاً جو لوگ رب العالمین کا انکار کرتے ہیں انہیں مکڑی سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا ” ان کی مثال اس مکڑی کی طرح ہے کو اپنا گھر بناتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا جالاہوتا ہے ۔ کاش کے یہ لوگ جانتے ۔ “ ایک جگہ کہا گیا تھا جن کو یہ پکارتے ہیں ، ان کے عجز وماندگی کا حال یہ ہے ” وہ لوگ جو اللہ کے سوا پکارے جاتے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ اگر وہ سب بھی جمع ہوجائیں تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکیں گے ۔ بلکہ اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے بھاگے تو وہ اس سے چھڑا نہیں سکتے ۔ کیا براحال ہے طالب اور مطلوب دونوں کا ؟ “

یہ آیات بتارہی ہیں کہ منافقین جن میں یہود ومشرکین دونوں شریک تھے ، ایسی تشبیہات پر اعتراض کرتے تھے کہ ان تشبیہات میں منافقین کا مذاق اڑایا گیا ہے ۔ ان میں مکھیوں اور مکڑیوں جیسی حقیر چیزوں کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ جل شانہ کی مقدس ذات اس سے برتر وبالا ہے ۔ یہ اعتراض مشرکین مکہ اور منافقین مدینہ کے پھیلائے ہوئے شبہات اور انتشار کے مختلف پہلوؤں اور تدبیروں میں سے ایک ہے۔

چناچہ ان آیات میں ان شبہات کی تردید کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ تمثیلوں کے بیان سے اللہ کا مقصد کیا ہے کفار کو اس بات سے ڈرایا جاتا ہے کہ وہ اس فریب کاری سے باز آجائیں اور مومنین کو اطمینان دلایا جاتا ہے کہ ان مثالوں سے ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوگا۔

إِنَّ اللَّهَ لا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ” اللہ اس بات سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی کسی حقیر ترچیز کی تمثیلیں دے ۔ “ کیونکہ اللہ جس طرح چھوٹی چیز کا رب ہے اسی طرح بڑی چیزوں کا بھی رب ہے۔ مچھر کا بھی خالق ہے اور ہاتھی کا بھی خالق ہے ۔ جس طرح ہاتھی کی تخلیق ایک اعجاز ہے اسی طرح مچھر کی تخلیق بھی ایک اعجاز ہے اور ان دونوں کی زندگی ایک ایسا راز سربستہ ہے ، جس کا علم اللہ کے سوا آج تک کسی کو نہیں ہے ۔ پھر تمثیل تو ایک پیرایہ اظہار ہوتا ہے اور اس کی غرض وغایت صرف یہ ہوتی ہے کہ اس کی مدد سے مدعا کو اچھی طرح کھول کر ذہن نشین کرایا جائے ، نہ یہ کہ جس چیز سے تشبیہ دی جارہی ہے وہ کوئی عظیم الشان چیز ہی ہو ۔ ضرب الامثال میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا تذکرہ معیوب ہو۔ بلکہ ان تمثیلات کے بیان کے ذریعہ تو اللہ تعالیٰ دلوں کو آزماتا اور نفوس کو پرکھنا چاہتا ہے۔

فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ” جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب کی طرف سے آیا ہے ۔ “ اپنے ایمان کی بدولت وہ اللہ جل شانہ سے اس طرح ہدایت لیتے ہیں جس طرح ان کی شان ہے ۔ نیز وہ جانتے ہیں کہ ان تمثیلوں میں کیا حکمت پوشیدہ ہے ۔ ان کا نور سے لبریز ہے ۔ ان کی روح حساس ہے ، ان کا دل و دماغ اس ہدایت کے لئے کھلا ہے ۔ ان کے پاس اللہ جو حکم آتا ہے ، اللہ کی جو بات ان تک پہنچتی ہے ، وہ اس کی حکمت اور اس کے پس منظر کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔

وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلا ” اور جو ماننے والے نہیں ہیں ، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار ؟ “ یہ اس شخص کا سوال ہے جس کی نظروں سے اللہ کا نور اور اس کی حکمت اوجھل ہے ۔ وہ سنت الٰہی اور تدبیر الٰہی کو نہیں جانتا ۔ ایسا سوال وہ لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا کوئی احترام نہیں ہوتا اور وہ اللہ تعالیٰ کے تصرفات کو ان نظروں سے نہیں دیکھتے جن سے انہیں اللہ کا ایک بندہ اور فرمانبردار غلام دیکھتا ہے ۔ ایسے لوگ کبھی تو بطور اعتراض اور ناپسندیدگی ایسی باتیں کرتے ہیں ، یا وہ ایسی باتیں اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ بھی ایسی باتیں کرسکتا ہے۔

ان کی اس روش پر تہدید اور تنبیہ کی صورت میں انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ ان تمثیلوں کے پیچھے اللہ کی ایک خاص تدبیر کام کررہی ہے ۔ یہ تمثیلیں لوگوں کی تقدیرکا فیصلہ کررہی ہیں ۔

يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلا الْفَاسِقِينَ ” اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے اور گمراہی میں ان ہی کو مبتلا کردیتا ہے جو فاسق ہیں ۔ “ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون قدرت ہے کہ وہ انسانوں کو امتحان اور ابتلا میں ڈالتا ہے ان آزمائشوں اور ابتلاؤں میں ہر انسان متقضائے طبیعت و استعداد کے مطابق طرز عمل اختیار کرتا ہے ۔ ہر شخص کی روش اس طریق حیات کے مطابق ہوتی ہے جو اس نے اپنے لئے پسند کیا ہوتا ہے۔ آزمائش ایک ہی ہوتی ہے لیکن مختلف نظام ہائے زندگی اختیار کرنے والے لوگوں پر اس کے اثرات مختلف ہوتے ہیں ۔ مثلاً مصیبت اور تکلیف ہی کو لے لیجئے ۔ سب لوگ مصائب میں مبتلاہوتے ہیں ۔ مومن بھی اور فاسق بھی ۔ ایک صالح جو اللہ کی رحمتوں اور حکمتوں پر پختہ یقین رکھتا ہے وہ جب مصیبت میں مبتلاہوتا ہے تو وہ زیادہ خشیت زیادہ عاجزی اور تضرع سے اللہ کے سامنے ملتجی ہوتا ہے ۔ لیکن اگر ایک فاسق تکلیف میں مبتلا ہو تو اس کے قدم اکھڑجاتے ہیں ، وہ اللہ سے اور بعید ہوجاتا ہے ۔ وہ مومنین کی صفوں سے نکل جاتا ہے ۔ اسی طرح خوشحالی اور تکاثر کو لے لیجئے کہ .... بعض لوگ اس آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ لیکن ایک مومن جب زیادہ انعامات اور اکرامات پاتا ہے تو وہ زیادہ بیدار ہوجاتا ہے ۔ وہ شکر الٰہی میں پہلے سے بھی زیادہ حساس ہوجاتا ہے ۔ لیکن جب ایک فاس کو سہولتیں ملتی ہیں تو وہ اسے برباد کردیتی ہیں۔ وہ غرور میں مبتلا ہوجاتا ہے اور گمراہی کی روش اختیار کرتا ہے ۔ اسی طرح اللہ نے لوگوں کے لئے جو تمثیلیں بیان کیں ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا ” ان سے بھی وہ بہتوں کو گمراہ کرتا ہے “ اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کی طرف سے آنے والی ہدایت کو اچھی طرح قبول نہیں کرتے ۔ وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ” اور بہتوں کو راہ ہدایت دکھا دیتا ہے ۔ “ اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو حکمت باری کو جانتے ہوتے ہیں۔

وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلا الْفَاسِقِينَ ” اور گمراہی میں انہی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں ۔ “ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے دل پہلے سے فاسق ہوجاتے ہیں ۔ چناچہ یہ لوگ ہدایت اور اصلاح کی روش سے نکل جاتے ہیں لہٰذا ان کا صلہ یہی ہے کہ ان کی اس ضلالت میں اور اضافہ کردیاجائے۔

اردو ترجمہ

اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اُسے کاٹتے ہیں، اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yanqudoona AAahda Allahi min baAAdi meethaqihi wayaqtaAAoona ma amara Allahu bihi an yoosala wayufsidoona fee alardi olaika humu alkhasiroona

جس طرح اس سورت کے آغاز میں متقین کی صفات کو تفصیل سے بیان کیا گیا تھا اسی طرح یہاں فاسقین کی خصوصیات کو بھی قدرے تفصیل سے لیا جاتا ہے ۔ کیونکہ اس پوری سورت میں روئے سخن ایسے ہی لوگوں کی طرف رہے گا ۔ نیز انسان ہر زمانے میں انہی ہر طبقات میں منقسم رہتے ہیں اور وہ یہ ہیں ۔

الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (27)

” جو اللہ کے عہد کو مضبوطی سے باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں ، اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ، حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ “

وہ کون سا عہد ہے جسے یہ توڑتے ہیں ؟ وہ کون ساتعلق ہے کہ اللہ نے اس کے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور اسے یہ کاٹتے ہیں ؟ اور جو فساد یہ کرتے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے ؟ ان سب امور کو سیاق کلام میں مجمل چھوڑدیا گیا ہے ۔ کیونکہ یہاں اصولی طور پر ایسے لوگوں کا مزاج بتایا جارہا ہے ۔ ان کی نوعیت کو متعین ومشخص کیا جارہا ہے ۔ کسی حادثے یا کسی مخصوص واقعہ کا بیان مقصود نہیں ہے بلکہ ایک عمومی صورتحال کی وضاحت مطلوب ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور ایسے لوگوں کے درمیان جو عہد بھی ہے وہ توڑدیا گیا ہے اور اللہ نے جن جن انسانی رابطوں کے قیام کا حکم دیا ہے ، وہ سب کے سب ان لوگوں نے توڑدیئے ہیں اور جو فساد بھی ممکن ہے اس کا ارتکاب یہ کرتے رہتے ہیں ۔ ان کی فطرت میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے ۔ لہٰذا یہ کسی عہد اور کسی رابطے کے پابند نہیں ہیں ۔ اور کسی فساد سے بھی باز نہیں رہتے ۔ ان کی مثال کچے پھل کی سی ہے ، جو شجر حیات سے جدا ہوگیا ہو ، گل اور سڑ گیا ہو اور زندگی نے اسے پرے پھینک دیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جن تمثیلوں سے مومنین ہدایت پاتے ہیں ، ان سے ایسے لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں ، جو چیزیں متقین کے لئے سبب ہدایت ہوتی ہیں وہ ان فاسقین کے لئے باعث ضلالت ہورہی ہیں ۔

ایسے لوگ جو کبھی یہود ومشرکین کے منافقین کی صورت میں مدینہ میں پائے جاتے تھے اور جو دعوت اسلامی کے مقابلے میں ایک بڑی رکاوٹ تھے اور جو آج بھی نام اور عنوان کی مختصر تبدیلی اور بالکل معمولی اختلاف کے ساتھ تحریک کی راہ میں سنگ گراں بنے ہوئے ہیں ، ان کی فتنہ انگیزیوں کے نشانات تودیکھئے ۔ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ ” جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں۔ “ انسانوں اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو پیمان بندھا ہوا ہے اس کی کئی شکلیں اور صورتیں ہیں ۔ ایک تو وہ جبلی عہد ہے جو ہر ذی حیات کی جبلت میں ودیعت کیا گیا ہے ۔ اس کی رو سے ہر ذی حیات کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے خالق کی معرفت حاصل کرے اور اس کی بندگی کرے ۔ انسانی فطرت میں ہمیشہ عقیدہ خداوندی کے لئے پیاس رہتی ہے ۔ لیکن کبھی اس کی فطرت سلیمہ میں فساد رونما ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں انسان راہ راست سے بھٹک جاتا ہے ، اور دوسروں کو اللہ کا ہمسر اور شریک بنانے لگتا ہے۔ نیز اس کی ایک صورت عہد خلافت کی ہے ، جو اللہ تعالیٰ اور آدم (علیہ السلام) کے درمیان طے پایا۔ جس کا تذکرہ عنقریب ہوگا۔

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ (38) وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (39)

” پھر میری طرف سے جو ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقعہ نہ ہوگا اور جو لوگ اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ “

نیز اس عہد کی ایک شکل وہ ہے جو مختلف پیغمبروں کے ذریعے مختلف اقوام سے باندھی گئی کہ وہ صرف ایک اللہ جل شانہ کی بندگی کریں اور اپنی زندگی میں صرف اسی کی تجویز کردہ نظام حیات اور نظام قانون کو اپنائیں گے ۔ یہ سب عہد ایسے ہیں جنہیں فاسق لوگ توڑتے ہیں ۔ اور جب کوئی اللہ تعالیٰ سے پختہ پیمان باندھنے کے بعد توڑتا ہے تو پھر وہ کسی دوسرے عہد کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ۔ جس کے اندر اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد شکنی کا حوصلہ ہوتا ہے ، وہ اس کے بعد کسی عہدوپیمان کا کوئی احترام نہیں کرتا۔

وَ یَقطَعُونَ مَآ اَمَرَ اللہ ُ بِہٖٓ اَن یُّوصَلَ ” اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں ۔ “ اللہ تعالیٰ نے کسی قسم کے روابط وتعلقات کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ اس نے یہ حکم دیا ہے کہ عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے ، اس نے یہ حکم دیا ہے کہ پوری انسانیت کی عظیم برادری قائم کی جائے اور ہر انسان دوسرے کا بھائی ہو۔ اور ان سب سے مقدم درجے میں اس نے حکم دیا ہے کہ ایک نظریاتی اخوت اور ایمانی برادری قائم کی جائے کیونکہ کوئی ربط اور تعلق ایمان ونظریہ کے سوا مضبوط نہیں ہوسکتا۔ جب وہ تعلقات و روابط ٹوٹ جائیں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے تو پھر تمام رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور تمام روابط ختم ہوجاتے ہیں ۔ زمین پر افراتفری عام ہوجاتی ہے اور شر و فساد پھیل جاتا ہے۔

وَيُفْسِدُونَ فِي الأرْضِ ” اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ “ زمین پر فساد پھیلانے کی بھی کئی شکلیں ہیں ۔ سب کی سب اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑنے اللہ تعالیٰ نے جن تعلقات کو جوڑنے کا حکم دیا ہے ، ان کے کاٹنے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ان تمام فسادات کا سرچشمہ یہ ہے کہ انسان اس نظام حیات کو ترک کردے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی اور اس کے تصرفات کے لئے تجویز کیا ہے ۔ اسلامی نظام حیات ہی وہ راہ ہے جو ان تمام راہوں سے علیحدہ ہوجاتی ہے اور جو شر و فساد پر منتہی ہوتی ہیں ۔ اگر صورت یہ ہو کہ اسلامی نظام زندگی کے تصرف واقتدار سے اس دنیا کے امور آزاد کردیئے گئے ہوں ، اس زندگی کو اللہ کی شریعت کے دائرے سے نکال دیا گیا ہو تو ممکن نہیں ہے کہ اس دنیا کی اصلاح ہوسکے ۔ جب بھی ایسا ہوا ہے کہ انسانوں اور ان کے رب کے درمیان یہ مضبوط تعلق نہیں رہا ۔ تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا شر و فساد کے عظیم سیلاب کی لپیٹ میں آگئی ہے ، انسانی اخلاق خراب ہوگئے ہیں ، لوگوں کی زندگی اور احوال تباہ ہوگئے ۔ ان کی معیشت برباد ہوگئی ۔ غرض ایسے حالات میں یہ زمین اور اس کے اوپر رہنے والی تمام جاندار مخلوق اور تمام چیزوں میں فساد رونما ہوجاتا ہے اور یہی وہ تباہ کاری اور شر و فساد ہے جو اللہ کی نافرمانی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے ایسے فساد میں مبتلالوگ اسی کے مستحق ہوتے ہیں کہ جن امور سے مومنین کو راہ ہدایت نصیب ہوتی ہے وہ ان کے لئے باعث گمراہی ہوتے ہیں۔

اردو ترجمہ

تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kayfa takfuroona biAllahi wakuntum amwatan faahyakum thumma yumeetukum thumma yuhyeekum thumma ilayhi turjaAAoona

ان قوی دلائل کے ہوتے ہوئے اللہ کا انکار کرنا ، کفر و انکار کی وہ قبیح اور ناپسندیدہ روش ہے جس کی پشت پر کوئی سند و دلیل نہیں ہے ۔ قرآن کریم یہاں ایک ایسی حقیقت پیش کرتا ہے جس سے ان کے لئے کوئی راہ فرار نہیں ہے۔ وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ اس حقیقت اور اس کے لازمی نتائج کو تسلیم کرلیں ۔ قرآن ان کے سامنے قافلہ حیات اور اس کے مختلف حالات و کیفیات لاکر رکھ دیتا ہے تاکہ وہ اس پر غور کریں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان مردہ حالت میں تھے ، اللہ نے انہیں زندگی سے نوازا ، اللہ ہی انہیں حالت موت سے حالت حیات کی طرف لایا ، یہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے کہ سوائے قدرت الٰہی اور تخلیق الٰہی کے اس کی کوئی اور توجیہ وہ نہیں کرسکتے ۔ وہ زندہ ہیں ان کے قلب جسدی میں حیات موجود ہے ؟ اس حیات کا خالق کون ہے ؟ وہ کون ہے جس نے جمادات میں یہ زائد صفت ، صفت حیات پیدا کی ؟ کیونکہ جمادات جن پر موت وجمود کی حالت طاری ہے ، وہ حیات کی حقیقت ومزاج سے بالکل مختلف ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس حیات کا مصدر کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سوال ایسا ہے کہ عقل ونفس ہر وقت کوئی حقیقی اور تشفی بخش جواب چاہتا ہے اور کسی کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس سوال کو نظر انداز کرسکے ۔ پھر اس سوال کے جواب میں کوئی ایسی بات انسان کو مطمئن نہیں کرسکتی جس میں اس مادی دنیا سے آگے کسی خالق ذات کو تسلیم نہ کیا گیا ہو۔

غرض یہ زندگی جو اس زمین پر رواں دواں ہے اور جس کی روش جمادات سے بالکل مختلف ہے کہاں سے آئی ؟ اس کا واحد تشفی بخش جواب یہ ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے آئی اور اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے ، یہی جواب ایسا ہے جو سمجھ میں آسکتا ہے ۔ اگر کسی کو یہ جواب تسلیم نہیں ہے تو ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ لائے وہ کوئی تشفی بخش جواب ؟

یہ ہے وہ حقیقت جسے قرآن کریم اس موقع پر لوگوں کے سامنے رکھتا ہے ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ” تم اللہ کے ساتھ کفر کارویہ اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بےجان تھے ، اس نے تم کو زندگی عطاکی ۔ “ یعنی تم اس طرح بےجان تھے جس طرح تمہارے اردگرد پھیلی ہوئی یہ کائنات بےجان ہے ۔ اس نے تمہارے اندر جان پیدا کی اور تمہیں زندہ کیا ۔ کوئی اپنے خالق سے انکار کیوں کرسکتا ہے ۔ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ” پھر تمہاری جان سلب کرلے گا۔ “ یہ بھی ایک ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ کیونکہ زندہ وذی روح مخلوقات کا مرنا روزمرہ کا معمول ومشاہدہ ہے ۔ لہٰذا زندگی کے بعد مرنا ایک ایسی حقیقت ہے جو ازخود ہی ذہنوں پر حاوی ہوتی ہے اور اس میں کسی قسم کی بحث وجدال کی کوئی گنجائش نہیں ہے ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ” پھر وہ تمہیں دوبارہ زندگی عطاکرے گا۔ “ یہ تھی وہ حقیقت جس میں ان کو شک تھا ، لہٰذا وہ اس کے بارے میں بحث وجدال کرتے تھے اور آج بھی اس میں بعض کج فطرت لوگ شک کرتے ہیں ، جو آج پھر صدیوں قبل کی جاہلیت کی طرف لوٹ چکے ہیں ۔ لیکن انسان اگر اس بات پر غور کرے کہ وہ پہلے بھی کچھ نہ تھا۔ اسے پیدا کیا گیا ، لہٰذا یہ بات عقل سے بعید نہیں ہے کہ موت کے بعد دوبارہ اسے زندہ کیا جاسکتا ہے ۔ پس یہ عقیدہ کوئی ایسا عجوبہ نہیں ہے کہ لازماً اس کی تکذیب ہی کی جائے ۔

ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ” پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کرجانا ہے۔ “ جیسا کہ اس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا اسی طرح تم اس کی طرف لوٹوگے ، جس طرح اس نے تمہیں زمین میں پھیلایا۔ اسی طرح تم اٹھائے جاؤگے ۔ جس طرح تم مردہ حالت سے نکال کر اس زندہ حالت میں لائے گئے ۔ اسی طرح تم اسی کی طرف پلٹ کر جاؤگے تاکہ وہ تمہارے درمیان اپنا حکم نافذ کرے اور تمہارے قضیوں کا فیصلہ کرے۔

یہ ایک مختصر سی آیت ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر پل بھر میں زندگی کا پورا دفتر پھیلا بھی دیا ۔ اور لپیٹ بھی لیا ۔ ایک چمک اٹھی اور دیکھا گیا کہ پوری انسانیت اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ اللہ نے پہلے اسے زندہ کرکے زمین میں پھیلایا ، پھر اسے اچانک موت نے آلیا ، پھر روز محشر کا منظر ہے جس میں پوری انسانیت اٹھ رہی ہے اور اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے بعینہ اسی طرح جس طرح پہلے اللہ نے اسے زندہ کیا تھا ۔ اس برق رفتارپیرایہ بیان میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ صاف صاف نظر آتی ہے اور انسانی احساس و شعور پر اس کے گہرے اثرات پڑتے ہیں ۔

اردو ترجمہ

وہی تو ہے، جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پید ا کیں، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee khalaqa lakum ma fee alardi jameeAAan thumma istawa ila alssamai fasawwahunna sabAAa samawatin wahuwa bikulli shayin AAaleemun

اس پہلی چمک کے متصلاً بعد روشنی کی ایک دوسری کرن آتی ہے جو پہلی کے لئے تکمیل کا درجہ رکھتی ہے ۔ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الأرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کی ہیں ، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔ “ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے بارے میں مفسرین اور متکلمین نے طویل بحثیں کی ہیں ، قبلیت ، وبعدیت اور استوا اور تسویہ اور دوسری کلامی بحثیں یہاں کی جاتی ہیں ۔ لیکن یہ حضرات اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ قبل وبعد ، محض انسانی اصطلاحات ہیں ، اللہ تعالیٰ کے لئے ان کا کوئی مفہوم نہیں ہے ۔ یہ حضرات اس بات کو بھی سامنے نہیں رکھتے کہ استوا اور تسویہ انسانی لغی اصطلاحات ہیں جو لامحدود ذات کو انسان کے محدود تصور کے قریب لے آتی ہیں ۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔ قرآن کی ایسی تعبیروں پر علمائے اسلام نے جو طویل بحثیں کیں ، وہ اس مصیبت اور آفت کا نتیجہ تھیں جو یونانی فلسفہ اور یہود ونصاریٰ کی لاہوتی بحثوں کی صورت میں امت مسلمہ پر نازل ہوئی۔ یہ بحثیں تب پیداہوئیں جب اس فلسفہ اور ان لاہوتی بحثوں نے عربوں کی سادہ ذہنیت اور مسلمانوں کے پاکیزہ خیالات کو گدلا کردیا تھا۔ اب ہمارے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ ہم بھی اس مصیبت میں خواہ مخواہ گرفتار ہوجائیں اور منطقی اور کلامی جدلیات میں قرآن کریم کے حسن و جمال کو گم کردیں ۔

اس لئے ہمیں چاہئے کہ ان مصنوعی تعبیرات واصطلاحات سے آزاد ہوکر یہ دیکھیں کہ پوری کائنات کو انسان کے لئے پیدا کرنے کی حقیقت کیا ہے ؟ اس حقیقت سے کس چیز کا اظہارہورہا ہے ۔ اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے وجود انسانی کا کیا مقصد قرار پاتا ہے ۔ اس زمین پر انسان کے کیا فرائض ہیں ۔ اللہ کے ہاں انسان کی قدر و قیمت کیا ہے ۔ نیز اسلامی تصورحیات اور تصور کائنات میں انسان کی کیا قدر و قیمت ہے اور اسلامی نظام زندگی میں انسان کا مقام کیا ہے ؟

هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الأرْضِ جَمِيعًا ” اللہ تو وہی ہے جس نے تمہاری زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔ “ یہاں لفظ لکم یعنی ” تمہارے لئے “ اپنے گہری معنویت لئے ہوئے ہے ۔ یہ اس گہری حقیقت کا اظہار کررہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس انسان کو ایک عظیم مقصد کے لئے پیدا کیا ہے ۔ اس کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ وہ زمین پر اللہ کانائب اور خلیفہ ہو ۔ زمین کے اندر جو کچھ ہو وہ اس کی ملکیت ہو اور وہ اس میں مؤثر اور متصرف ہو ۔ کیونکہ اللہ کی اس طویل و عریض کائنات میں وہی اعلیٰ مخلوق ہے ۔ وہ اس وسیع میراث کا پہلا وارث ہے ۔ لہٰذا اس زمین کے حالات اور اس کے انقلابات کے اندر اس کا کردار بھی اول درجے کا ہے ۔ وہ جس طرح اس زمین کا سردار ہے اسی طرح اس کے آلات کا بھی سردار ہے۔ وہ آلات پیداوار کے ہاتھ میں مقید اور بےبس نہیں ہے ، جس طرح آج کی مادی دنیا میں انسان ان آلات کے ہاتھوں بےبس ہوچکا ہے ۔ نیز وہ ان تبدیلیوں اور تغیرات کا بھی تابع نہیں ہے جو انسان اور انسان کے باہم روابط میں ان آلات کی پیدا کردہ ہیں جیسا کہ آج کل کے مادہ پرستانہ تصور حیات میں انسان اور اس کے کردار کو حقیر تر سمجھا جاتا ہے اور اسے بےجان اور بےشعور آلات کا غلام بنادیا جاتا ہے ۔ حالانکہ وہ ان سے برتر اور ان کا سردار ہے ۔ قرآن کی رو سے ساری اقدار میں سے کوئی بھی ایسی نہیں ہے کہ اسے انسانیت کی قدر و قیمت سے برتری حاصل ہو۔ انسان تو اس کے سامنے ذلیل و خوار ہو اور وہ اس کے مقابلے میں بلند وبالا ہو۔ وہ تمام مقاصد جن کے نتیجے میں انسان کی انسانیت کی تذلیل ہو ۔ وہ انسان کے مقصد وجود ہی کے خلاف ہیں اور اس لئے معیوب ہیں ، چاہے ان کے نتیجے میں بیشمار مادی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ چناچہ اسلامی تصور حیات کے مطابق انسان کی شرافت اور انسان کی برتری وہ پہلی قدر ہے جو سب اقدار سے اولیت رکھتی ہے ۔ تمام مادی قدریں اس کے تابع ہیں اور ان کا درجہ بعد میں آتا ہے ۔

یہاں اللہ تعالیٰ اپنی جس نعمت کا ذکر فرما رہے ہیں اور اس کے کفران پر نکیر ہورہی ہے وہ صرف یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین کی تمام نعمتوں سے نوازا بلکہ یہ بھی ہے کہ انسان ان تمام چیزوں کا مالک اور متصرف بھی ہے اور یہ کہ انسان کی قدر و قیمت ان تمام مادی اقدار سے برتر ہے جن پر یہ زمین حاوی ہے ۔ جس انعام کا یہاں ذکر ہے ملکیت کائنات اور زمین کے ذخائر سے انتفاع سے بھی آگے ، وہ انسانی شرافت اور انسان کی برتری کی نعمت ہے۔

ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ” پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے۔ “ یہاں اس بات کی ضرورت نہیں کہ استواء الی السماء کی حقیقت وماہیت کیا ہے ؟ ہمارے لئے یہ جاننا کافی ہے کہ آسمان کی طرف متوجہ ہونے سے مراد کیا ہے ؟ استوا الی السماء قدرت الٰہی کے اظہار کا ایک پیرایہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے تخلیق وتکوین کا ارادہ فرمایا۔ اسی طرح سات آسمانوں کی حقیقت اور ان کی شکل اور حدود اربعہ کے تعین کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ آیت کے اس اصولی اور عام مفہوم کا سمجھ لینا ہی کافی ہے۔ کفار چونکہ کائنات کے خالق ونگہبان کے منکر تھے ، اس لئے یہاں یہ بیان کیا گیا کہ اللہ ہی زمین و آسمان کا خالق ہے ۔ اس نے انسانوں کے لئے زمین کی تمام مخلوق کو مسخر کرلیا ہے اور آسمانوں کے اندر اس طرح نظم اور ربط پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے اس کرہ ارض پر زندگی کا باقی رہنا آسان اور سہل ہوگیا ہے ۔

وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ “ وہی سب کا خالق اور سب کا مدبر ہے ، لہٰذا ظاہر ہے کہ وہ ہر چیز کا علم بھی رکھتا ہے ۔ پوری کائنات کی تدبیر کے ساتھ ساتھ پوری کائنات کا علم بھی رکھنا ایک ایسی حقیقت ہے جو اس کائنات کے خالق وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کے مہمیز کا کام دیتی ہے ۔ اس سے انسان اس وحدہ لاشریک مدبر کی بندگی کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ اور بطور شکر نعمت اپنے رازق اور منعم کی بندگی بجالاتا ہے ۔

یہاں آکر سورت کی ابتدائی بحثیں ختم ہوجاتی ہیں ۔ اس پوری بحث میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ لوگ ایمان لے آئیں اور مومنین ومتقین کے اختیار کردہ راستے کو اپنالیں ۔

درس 3 ایک نظر میں

قرآن کریم میں مختلف مواقع پر قصص کا بیان ہوتا ہے۔ موقع ومحل خود بتا دیتا ہے کہ یہاں اس قصے کے بیان سے غرض وغایت کیا ہے ‘ سلسلہ کلام کی کون سی کڑی سے تعرض کیا جارہا ہے ؟ کس شکل و صورت میں قصہ پیش ہورہا ہے اور وہ طرز ادا کیا ہے جس میں وہ قصہ بیان ہورہا ہے ........ اس اسلوب کلام سے روحانی ‘ فکری اور فنی فضا میں ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ ایک تو موضوع کلام کا حق ادا ہوجاتا ہے دوسری طرف بیان قصہ کی نفسیاتی اغراض بھی پوری ہوجاتی ہیں اور قصہ کو لانے سے جو اثرات پیدا کرنے مطلوب ہوتے ہیں وہ ہوجاتے ہین۔

بعض لوگوں یہ وہم ہوا ہے کہ قرآنی قصص میں تکرار ہے کیونکہ ایک ہی قصہ مختلف شکلوں میں کئی جگہ دہرایا گیا ہے ۔ لیکن گہری نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوجاتا ہے کہ جن قصوں کا کوئی ایک حصہ یا پورے قصے کو کسی جگہ دہرایا گیا ہے تو وہاں وہ اپنی سابقہ شکل و صورت میں ہی نہیں بیان ہوا بلکہ دونوں مقامات پر قصے کی مقدار اور سیاق کلام اور طرز ادا بالکل مختلف ہوتی ہے ۔ جہاں بھی قصے کا کوئی حصہ دہرایا جاتا ہے وہاں ایک نئی بات کہنی مطلوب ہوتی ہے لہٰذا فی الحقیقت قرآن کریم میں بیان قصص میں کوئی تکرار نہیں ہے ۔

بعض کج فہم لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن کریم کے بیان کردہ بعض واقعات تخلیقی ہیں یا ان کے بیان میں تصرف کیا گیا ہے یعنی محض مقاصد اور تحسین کلام کے لئے یہ قصے لائے گئے ہیں ۔ لیکن جو شخص بھی فطرت سلیم رکھتا ہو اور کھلی آنکھوں سے قرآن کا مطالعہ کرتا ہو وہ اس حقیقت کو بسہولت پالیتا ہے کہ ہر جگہ موضوع بحث کی مناسبت سے کوئی قصہ یا اس کا حصہ لایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انداز بیان اور طرز ادا بھی موقع ومحل کی مناسبت سے بالکل جدا ہوتی ہے ۔ قرآن کریم ایک دعوتی کتاب ہے ۔ ایک نظام زندگی ہے اور ایک نظام زندگی کا دستور بھی ہے ۔ وہ تسکین ذوق کی حکایت یا تاریخ کی کتاب نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت دین کے دوران منتخب قصے بھی بیان کئے جاتے ہیں ۔ قصوں کے اسلوب بیان اور ان کے مقدار کا فیصلہ سیاق کلام اور مناسبت حال کے لحاظ سے کیا جاتا ہے ۔ بیان قصص میں صرف حسن ادا کی بہترین خوبیوں ہی کا لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ زور کلام کی خاطر کہیں بھی واقعات میں اضافہ نہیں کیا گیا ہاں ہر جگہ واقعات کو بالکل ایک انوکھے انداز میں پیش کیا گیا ہے اور اثر انگیزی کے لئے صرف سچائی کی قوت اور حسن ادا پر ہی اعتماد کیا گیا ہے۔

قرآنی قصے درحقیقت قافلہ ایمان کے طویل اور مسلسل سفر کی داستان اور روئیداد ہوتے ہیں اور قرآن میں دعوت دین کی طویل کہانی کو سمودیا گیا ہے جو نسلاً بعد نسل لوگوں کے سامنے پیش کی جاتی رہی اور لوگ اسے قبول کرتے رہے ۔ یہ قصے ایک طرف تو انسانوں کی ان برگزیدہ ہستیوں کی کیفیت ایمان کو پیش کرتے ہیں جنہیں اس کام کے لئے منتخب کیا گیا اور دوسری طرف یہ بتاتے ہیں کہ ان برگزیدہ ہستیوں اور رب العالمین کے درمیان تعلق کی نواعیت کیا تھی ؟ ان قصوں کے ذریعہ ہم دیکھتے ہیں کہ یوں یہ قافلہ اہل کرم اس طویل شاہراہ پر چلاآتا ہے ۔ دل کی روشنی نور اور طہارت سے بھرتے ہوئے وہ دل کے اندر اس قیمتی متاع ‘ ایمان اور اس کائنات میں اس کی اہمیت کا شعور بیدار کرتے ہوئے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ وہ ایمانی تصور حیات کو تمام دوسرے عارضی تصورات زندگی سے ممیز کرتے ہوئے اسے انسان کے حس و شعور میں بٹھاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید جو کتاب دعوت ہے اس کا ایک بڑاحصہ ایسے ہی قصص پر مشتمل ہے۔

اب ہمیں چاہئے کہ ان تصریحات کی روشنی میں قصہ آدم کا مطالعہ کریں جیسا کہ سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے قافلہ حیات انسانی کی زندگی سے بحث کی گئی ہے بلکہ اس پوری کائنات کے وجود سے بحث کی گئی ۔ اس کے بعد انسان پر اپنی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے اس کرہ ارض کا ذکر ہوا اور بتایا گیا کہ اس زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ نے انسانوں کے لئے پیدا کیا ہے ۔ اس ضمن میں اس زمین پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو منصب خلافت عطاکئے جانے کا قصہ شروع ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ زمین کے اختیارات حضرت آدم (علیہ السلام) کے سپرد کردیتے ہیں لیکن اختیارات کی یہ سپردگی مشروط ہے اور حضرت آدم کے ساتھ ایک معاہدہ ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کو علم ومعرفت کی وہ ضروری مقدار بھی عطا کرتے ہیں جو بار خلافت اٹھانے کے لئے ضروری تھی نیز بعد میں چونکہ اللہ تعالیٰ نے منصب خلافت کا معاہدہ بنی اسرائیل سے کیا۔ اس لئے قصہ آدم اس کے لئے تمہید کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد بنی اسرائیل کو اس خلافت سے معزول کردیا اور قلمدان خلافت اس امت مسلمہ کے حوالے کردی جاتی ہے جو اللہ کے عہد کو اچھی طرح پورا کرنے والی ہے ۔ اس طرح یہ قصہ سیاق وسباق سے پوری طرح ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ اب ہمیں چاہئے کہ لمحی بھر آغاز انسانیت کے احوال پڑھیں اور دیکھیں کہ ان کے پس منظر میں کس قدر قیمتی ہدایات پوشیدہ ہیں ۔

پردہ اٹھتا ہے اور سب سے پہلے ہم عالم بالا کے اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں ۔ بلندیوں کی چمک اور روشنیوں کے نور بصیرت کے ذریعہ ہم انسانیت کے آغاز کی کہانی کو یوں اسٹیج ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

5