سورۃ البقرہ: آیت 213 - كان الناس أمة واحدة فبعث... - اردو

آیت 213 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةً وَٰحِدَةً فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّۦنَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ ٱلْكِتَٰبَ بِٱلْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ ۚ وَمَا ٱخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا ٱلَّذِينَ أُوتُوهُ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ ٱلْبَيِّنَٰتُ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لِمَا ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ مِنَ ٱلْحَقِّ بِإِذْنِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ يَهْدِى مَن يَشَآءُ إِلَىٰ صِرَٰطٍ مُّسْتَقِيمٍ

اردو ترجمہ

ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقہ پر تھے (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے، اور اُن کے ساتھ کتاب بر حق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے، ان کا فیصلہ کرے (اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا نہیں،) اختلاف اُن لوگوں نے کیا، جنہیں حق کا عمل دیا چکا تھا اُنہوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس کے لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے پس جو لوگ انبیا پر ایمان لے آئے، انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اُس حق کا راستہ دکھا دیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اللہ جسے چاہتا ہے، راہ راست دکھا دیتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kana alnnasu ommatan wahidatan fabaAAatha Allahu alnnabiyyeena mubashshireena wamunthireena waanzala maAAahumu alkitaba bialhaqqi liyahkuma bayna alnnasi feema ikhtalafoo feehi wama ikhtalafa feehi illa allatheena ootoohu min baAAdi ma jaathumu albayyinatu baghyan baynahum fahada Allahu allatheena amanoo lima ikhtalafoo feehi mina alhaqqi biithnihi waAllahu yahdee man yashao ila siratin mustaqeemin

آیت 213 کی تفسیر

یہ ہے وہ کہانی ۔ پہلے سب لوگ ایک امت ہی کے افراد تھے ۔ ایک تصور زندگی اور ایک ہی طرز عمل تھا۔ یہ اشارہ ہے اس چھوٹے انسانی خاندان کی طرف ، جو حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا کی ان اولاد پر مشتمل تھا ۔ اور ابھی ابن آدم کے درمیان افکار ونظریات کا اختلاف پیدا نہ ہوا تھا ۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کا آغاز ایک چھوٹے سے خاندان سے محض اس لئے کیا کہ انسانی زندگی میں خاندانی نظام خشت اول کی حیثیت رکھتا ہے۔ ابتدا میں انسانیت پر ایک ایسا دور گزرا ہے ، جس میں سب انسان ایک ہی سطح کے تھے ، ان کا ایک ہی رخ تھا ، ایک ہی نظریہ تھا ۔ وہ صرف ایک ہی خاندان کی شکل میں تھے ۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ انسان ترقی کرگئے ۔ پھر ادھر ادھر بکھرکر بسنے لگے ان کے بودوباش کے طریقوں میں اختلاف ہوگیا ۔ ان کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو خوبیاں ودیعت کی تھیں وہ ظاہر ہونے لگیں ۔ یہ خوبیاں اللہ نے تخلیق کے وقت ان کے اندر رکھ دی تھیں ۔ کسی میں کم تھیں کسی میں زیادہ ۔ اس کی حکمت اللہ ہی کے علم میں ہے اور زندگی کی بوقلمونی کے لئے یہ ضروری سمجھا گیا کہ کسی میں کچھ استعداد اور کسی کا کچھ رجحان ۔

قدرت کی اسکیم کے مطابق لوگوں کے درمیان نقطہ نظرکا اختلاف پیدا ہوگیا ، لہٰذا انسانیت نے اگلے درجے میں قدم رکھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی کے لئے نبی بھیجے جو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے تھے وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ” اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے ، ان کا فیصلہ کرے ۔ “

یہاں وہ عظیم حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے یہ کہ لوگوں کے درمیان اختلاف رائے ایک طبعی امر ہے ۔ کیونکہ اختلاف ان کی تخلیق کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے ۔ اس اختلاف ہی کے نتیجے میں وہ اسکیم روبعمل آتی ہے جس کی خاطر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے ۔ یعنی زمین پر نیابت الٰہی اور منصب خلافت کے چلانے میں انسان کو مختلف قسم کے فرائض سرانجام دینے تھے ، ان کے لئے مختلف قسم کے لوگ اور گوناگوں قابلتیں رکھنے والوں کی ضرورت تھی ، تاکہ یہ سب افراد مل کر نظام خلافت کو پوری ہم آہنگی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور اس کرہ ارض کی تعمیر و ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ اسکیم کو روبعمل لائیں اور ہر شخص اس میں اس کے لئے طے شدہ رول ادا کرے ، لہٰذا ضروری ہے کہ مختلف فرائض کی ادائیگی کے لئے لوگوں کی صلاحتیں بھی مختلف ہوں اور جس طرح انسان کی ضروریات ہیں اسی طرح انسانوں کی استعداد بھی مختلف ہو : وَلَا یَزَالُونَ مُختَلِفِینَ اِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذَٰلِکَ خَلَقَھُم ” اور یہ لوگ یونہی مختلف رہیں گے ۔ ماسوائے ان کے جن پر اللہ رحم فرمائے اور اسی اختلاف کے لئے تو اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے ۔ “

قابلیتوں اور فرائض کے اس قدرتی اختلاف کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان افکار کا اختلاف جنم لیتا ہے ، ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں ۔ ان کا طریقہ کار اور پھر آخر کار ان کا نظام زندگی بدل جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ یہ فطری اختلافات مطلوب حد تک ہونے ضروری ہیں ۔ البتہ ان اختلافات کو ایک وسیع دائرے کے اندر رہنا چاہئے اور یہ اختلافات تعمیری ہونے چاہییں اور سیدھے ہونے چاہئیں ۔ یہ وسیع دائرہ کیا ہے جس کے اندر یہ محدود ہوں ؟ وہ ایمانی تصور حیات کا دائرہ ہے اور یہ اس قدر وسیع ہے کہ مختلف استعداد رکھنے والے لوگ ، مختلف طاقتوں کے مالک لوگ ، اور مختلف قابلیتوں کے لوگ اس کے اندر پوری ہم آہنگی کے ساتھ کام کرسکتے ہیں ۔ ایمانی تصور حیات ان اختلافات یعنی فطری اختلافات کو نہ دباتا ہے اور نہ ہی بالکل ان کا قتل عام کرتا ہے بلکہ ان کو ایک تنظیم میں لاتا ہے اور ہم آہنگ کرتا ہے اور ان سب کے رخ کو اصلاح و ترقی کی شاہراہ کی طرف موڑ دیتا ہے۔

اندریں حالات میں ایک ایسے معیار کا وجود ضروری ہوگیا کہ باہم ٹکراؤ کی اس صورت میں لوگ اس کی طرف رجوع کریں ۔ جو ایک حاکم عادل ہو ، جس کے سامنے فریقین پیش ہوں اور جس کا قول فیصل ہو ، جس کے بعد بحث و تکرار ہی نہ رہے ، وہ ایسا ہو کہ سب لوگ اس کے ذریعہ ذوق یقین اپنے اندر پیش کریں فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا ” تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلاف رونما ہوگئے تھے ، ان کا فیصلہ کرے ۔ “

ہمیں چاہئے کہ لفظ بالحق پر غور کریں ۔ یہ دراصل اس امرپر قول فیصل ہے کہ حق وہی ہے جو کتاب اللہ میں ہے ۔ اور اس حق کو اس لئے اتارا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے مختلف تصورات ، ان کے طریقہ ہائے کار اور ان کی اقدار کے لئے بمنزلہ دیانت دار منصف ہے اور تمام اختلافات میں فیصلے کا آخری مقام ہے ۔ اس کے سوا سچائی کہیں نہیں ملے گی ، اس کے ساتھ کوئی متوازی منصف نہیں ہے ، اس کی بات کے بعد پھر کوئی بات نہیں ہے ، یہ حق جو ایک اور لاشریک ہے ، اس کے بغیر تمام اختلافات اور نظریات میں اسے حکم بنائے بغیر ، اور بغیر کسی مزید مقدمہ بازی اور بغیر کسی اعتراض کے اس کے حکم کو حکم آخر تسلیم کئے بغیر اس زندگی کی گاڑی سیدھی پٹری پر روانہ نہیں ہوسکتی ۔ ہرگز نہیں ہوسکتی ۔ لوگوں کے درمیان موجود شدید اختلافات ختم نہیں ہوسکتے ۔ زمین پرامن قائم نہیں ہوسکتا اور کسی صورت میں بھی ، ان تدابیر کے بغیر ، انسان امن وسلامتی میں داخل نہیں ہوسکتا۔

لوگ اپنے تصورات اور قوانین حیات کہاں سے لیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قوانین حیات اور نظام حیات کے سرچشمے کے تعین کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے کتاب اللہ کی اس حیثیت کو تسلیم کیا جائے کہ تمام اختلافات کا آخری فیصلہ کتاب اللہ ہی سے ہوگا۔ نیز یہ کہ یہ دوئی قبول نہیں کرتا ۔ اللہ پاک نے اس کتاب کو نازل فرمایا اور حق کے ساتھ نازل فرمایا۔ وہ منبع ایک ہی ہے ۔ اس میں تعدد ممکن نہیں اور یہ وہی منبع ہے جہاں سے کتاب اللہ کا نزول ہوا اور اس لئے ہوا کہ وہ اختلافی امور میں قوت فیصلہ ہو ، معیار حق ہو۔

وہ کتاب اپنی ماہیت کے اعتبار سے ایک ہی ہے۔ سب رسول اسی ایک کتاب کو لے کر آتے رہے ہیں ، لہٰذا تمام آسمانی کتابیں ایک ہی کتاب ہیں اور تمام ملتیں بھی دراصل ایک ہی ملت ہیں اور ان کتب ورسل کے تصورات حیات بھی دراصل ایک ہی ہیں ۔ ایک اللہ ، ایک معبود ، تمام انسانوں کے لئے ایک ہی قانون ساز ، البتہ مختلف ادوار اور مختلف ملل ونحل اور مختلف طرز ہائے زندگی اور مختلف قسم کے ادوار کے لئے تفصیلی اور جزوی احکام میں قدرے فرق ہوا۔ اور تمام حذف واضافہ کے بعد آخری مستقل اور مکمل صورت قرآنی تعلیمات اور ان تعلمیات کے ذریعہ زندگی کو بغیر کسی رکاوٹ کے ترقی کی راہ پر آزادانہ طور پر ڈال دیا گیا ، تاکہ انسانی زندگی اپنے وسیع دائرے میں ، اللہ کی راہنمائی اور ہدایت کی روشنی میں ، اللہ کی شریعت اور زندہ نظام زندگی کے مطابق اپنے وسیع حدود میں ترقی کرتی چلی جائے ۔

کتاب اللہ کے بارے میں قرآن کریم کا یہ فیصلہ ہی دراصل تمام نظریات اور تمام عقائد کے بارے میں صحیح اسلامی نقطہ نظر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اصل میں ہر نبی اسی ایک دین کو لے کر آیاجو چند بنیادی عقائد یعنی عقیدہ توحیدوغیرہ پر مشتمل رہا ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہر امت نے اپنے رسول کے اٹھ جانے کے بعد رفتہ رفتہ اپنے اصل دین سے انحراف اختیار کرلیا اور غلط روایات اور کہانیوں کا ایک ایسا انبار جمع ہوا کہ اس کے اندر دین اصل الاصول دب کر رہ گئے ۔ لوگ اصل دین سے دور جاپڑے ۔ یوں ضرورت پیش آتی ہے کہ ایک جدید رسالت ایک جدید نبی کے ذریعے بھیجی جائے ۔

جدید نبی ضرور آتا رہا لیکن دراصل دین اسلام کی تجدید ہی ہوتی رہی ۔ خرافات کا جو انبار دین میں داخل ہوچکا تھا یہ رسول اس کی نفی کرتا رہا۔ اور اس دور کے حالات کے مطابق لوگوں کو ایک نظام ایک قانون دیا جاتا رہا ۔ ایک نظام معاشرت کی بنیاد رکھتا رہا ، تاآنکہ قرآن نازل ہوا اور اب دینی نظریات و عقائد کے بارے میں قرآن کریم ہی لائق اتباع ہے اور حق ہے۔

بعض غیر مسلم علماء جب تاریخ مذاہب و عقائد پر بحث کرتے ہیں تو ان کا منہاج بحث یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر نبی کی تعلیمات کو نبی ماقبل سے مختلف ثابت کرتے ہیں ، یوں گویا وہ نظریاتی ارتقاء ثابت کرتے ہیں۔ بعض مسلم محققین بھی اس منہج بحث سے متاثر ہوجاتے ہیں اور غیر شعوری طور پر وہ بھی ادیان کے اصل نظریات و عقائد میں تغیر وبتدل ڈھونڈتے ہیں ۔ یہ انداز بحث مستشرقین اور مذاہب کے بارے میں خود مغرب کے اہل تحقیق اختیار کرتے ہیں۔

ایمان کے اصل تصور میں تسلسل اور ثبات کا یہ نظریہ ہی اس کتاب کا مقصد نزول ہے ، جسے سچائی کے ساتھ نازل کیا گیا ہے اور اس لئے نازل کیا گیا کہ وہ لوگوں کے درمیان ، ان کے اختلافی مسائل کے بارے میں فیصلہ کرے ۔ ہر دور میں ، ہر رسول ، نبی کے بارے میں اور ابتدائی زمانوں سے لے کر آج تک تمام مسائل کے بارے میں کرے ۔

اس بات کی ضرورت تھی کہ ایک ایسی ترازو موجود ہو جس کے مطابق سب لوگ اپنے نظریات و عقائد کی قیمت معلوم کریں ۔ ایک قول فیصل ہو جس کے بعد بحث ختم ہوجائے ، نیز اس بات کی بھی اشد ضرورت تھی کہ اس ترازو اور اس قول فیصل کا سرچشمہ انسانی نہ ہو ۔ یہ ترازو اور قول فیصل اس ذات کا ہو جو انسانی خواہشات سے متاثر نہ ہو ، وہ انسانی نقائص سے بھی پاک ہو اور اس سرچشمے میں انسان کی طرح جہالت بھی نہ ہو ۔ پھر اس قسم کی ترازو قائم کرنے کے لئے لامحدود علم کی ضرورت ہے ۔ ہر واقعہ کا علم ضروری ہے ، خواہ ہوچکا ہے ، ہورہا ہے یا ہونے والا ہے ۔ یہ علم ہو بھی مطلق یعنی وہ علم نہ زمانے کی قید سے مقید ہو کر ایک ہی چیز زمانے کے اعتبار سے جدا ہوجاتی ہے۔ ماضی ، حال اور مستقبل قرار پاتی ہے ۔ ایک چیز یقینی ، ظنی اور مجہول کہلاتی ہے ۔ ایک ہی چیز کبھی حاضر ہوتی ہے کبھی غائب ہوتی ہے ۔ کبھی قابل مشاہدہ ہوتی ہے اور کبھی چھپی ہوئی ۔ پھر مکان کی قید سے ایک ہی چیز قریب ہوتی ہے ، پھر وہی بعید ہوتی ہے ۔ کبھی دائرہ نظر میں ہوتی ہے کبھی پس پردہ ہوتی ہے ، یا کبھی محسوس ہوتی ہے اور کبھی غیر محسوس ہوتی ہے ، غرض ایسے اللہ و معبود کے علم کی ضرورت ہے جو یہ جانے کہ کیا پیدا کیا اور کس نے پیدا کیا ۔ اسے معلوم ہو کہ مفید کیا ہے اور کیا سب کے لئے مفید ہے ۔

اس قسم کی میزان قائم کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ میزان قائم کرنے والا ضروریات سے بےنیاز ہو ، نقص سے پاک ہو ، فنا سے مبرا ہو ، کوئی چیز اس سے بچ نہ سکتی ہو ، اور موت اسے لاحق نہ ہوتی ہو ، وہ طمع سے پاک ہو ، اسے کسی چیز کی رغبت نہ ہو اور نہ کسی کا ڈر ہو ۔ وہ اس پوری کائنات پر غالب ہو اور اس کی ہر چیز اور ہر شخص پر حکمرانی ہو ۔ غرض میزان اس اللہ اور معبود کی ہو جو خواہشات سے پاک ، ضروریات سے پاک اور اس میں کوئی قصور اور کمی نہ ہو۔

رہی خود انسان کی عقل و دانش ، تو اس کے لئے تو یہی کافی ہے کہ وہ بدلتے ہوئے حالات پر نظر رکھے ، بدلتے ہوئے ماحول پر اس کی نظر ہو ، نئی نئی ضروریات اس کے سامنے ہوں اور پھر وہ ان حالات میں ایک متعین وقت اور ایک مخصوص صورتحال میں ، ہم آۃ ن گی پیدا کرے ، لیکن اس صورت میں جب انسان کے پاس کوئی معیار حق موجود ہو ، جس کے ذریعہ انسان اپنی غلطی اور اپنی راستی کا اندازہ کرسکے ۔ اپنی راست روی اور کج روی معلوم کرسکے ، برسر حق اور برسر باطل ہونے کا اندازہ کرسکے اور یہ سب فیصلے اسی معیار کے مطابق ہی ہوں ۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس کے مطابق زندگی صحیح ڈگر پر چل سکتی ہے ۔ اور لوگ اس بات پر مطمئن ہوسکتے ہیں کہ ان کے امور سیاست و قیادت رب معبود کے ہاتھ میں ہیں۔

یہ کتاب سچائی کے ساتھ اس لئے نہیں اتاری گئی کہ یہ لوگوں کے درمیان قدرتی صلاحیتیوں کے امتیازات ختم کردے ۔ متنوع وسائل حیات کو ختم کردے ، مختلف طور طریقوں اور مختلف قابلیتوں کا فرق اور امتیاز مٹاڈالے بلکہ اس کتاب کا مقصد ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اگر لوگوں کے درمیان کسی معاملے میں اختلاف ہوجائے تو حق کے مطابق فیصلہ کردے۔

اس حقیقت کو اگر صحیح طرح ذہنن نشین کرلیا جائے تو اس کے منطقی نتیجہ کے طور پر اسلام کا تاریخی نقطہ نظر اچھی طرح سمجھاجاسکتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام اس کتاب کو ، جسے اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ نازل فرمایا ، لوگوں کے اختلافی امور میں ایک لازمی حاکمیت کا درجہ دیتا ہے۔ وہ اس کتاب کو انسانی زندگی کا اصل الاصول قرار دیتا ہے۔

اب قافلہ حیات کو دیکھا جائے گا کہ اگر وہ اس اصل سے متفق ہے ، اس کے مطابق جارہا ہے ، اس اصول پر قائم ہے ، تو وہ راہ حق پر ہے ۔ اگر قافلہ نظام حیات سے نکل جائے اور کچھ دوسرے اصولوں پر چل پڑے ، تو معلوم ہوجائے گا کہ اب یہ قافلہ راہ باطل پر گامزن ہوگیا ہے ۔

اگر تاریخ انسان کے کسی دور میں تمام کے تمام انسان اس نظام باطل پر راضی بھی ہوجائیں تب بھی وہ اس باطل کو حق میں نہیں بدل سکتے ۔ باطل ، باطل ہی رہے گا ۔ اس لئے کہ لوگ حق و باطل کھرے اور کھوٹے کو معلوم کرنے کا معیار ہی نہیں ہیں ۔ وہ حکم نہیں ہیں ۔ لوگ اگر خود کسی بات کا فیصلہ کرلیں تو وہ حق نہیں بن جائے گی اور نہ یہ کہ اگر پوری انسانی آبادی کوئی فیصلہ کردے تو وہ دین بن جائے گا ۔

اسلام کا نظریہ ہے کہ اگر لوگ کسی بات پر عمل پیرا ہیں ۔ اگر لوگ کسی بات کے قائل ہوگئے ہیں ، اگر سب لوگ کسی غلط اصول پر اپنی زندگیاں استوار بھی کرلیں تب بھی وہ قول ، وہ فعل اور وہ اصول حق میں نہیں بدل جاتا ۔ اگر وہ اللہ کی کتاب کے خلاف ہو ، لوگوں کا اجتماع اس باطل کو اصول دین میں داخل نہیں کردیتا ، نہ لوگوں کے اس عمل سے وہ اصول دین کی تعبیر وتشریح بن جائے گا ۔ ایسی باتوں پر اگر صدیوں عمل ہوتا رہا ہے ۔ تب بھی اس کے معنی یہ نہیں کہ اب وہ جائز ہوگئی ہیں ۔

یہ ایک حقیقت ہے اور اس کی بڑی اہمیت ہے ۔ اصول دین میں لوگوں نے کئی نئی چیزیں داخل کردی ہیں اور صرف اس صورت میں ہم ان چیزوں کو دین سے علیحدہ کرسکتے ہیں کہ کتاب اللہ کو حکم مانیں ۔ خود اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ مختلف مراحل میں لوگوں نے اصول دین سے انحراف کیا اور یہ انحراف رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے ۔ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا چونکہ ایک عرصہ سے لوگوں کی زندگی کا اجتماعی نظام اس انحراف پر استوار ہوگیا ہے اس لئے اب یہ انحراف ہی اسلامی نظام کی واقعی اور عملی شکل ہے ۔ ہرگز نہیں ، ایسا نہیں ہوسکتا۔

اگر تاریخ میں اسلام سے کوئی انحراف ہوا ہے اور تعامل بن گیا تو اسلام اس کا ذمہ دار نہیں ہے۔ یہ انحراف اب بھی ایک غلطی تصور ہوگی ۔ اسے حجت نہ سمجھاجائے گا اور نہ وہ کوئی نظیر قرار پائے گا ۔ اس لئے جو لوگ نئے سرے سے اسلامی نظام زندگی قائم کرنا چاہتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ ان تمام انحرافات کو اکھاڑ پھینکیں ، ان کو کالعدم قرار دیں ۔ اور سب لوگ اس کتاب کی طرف لوٹ آئیں جو نازل ہی اس لئے کی گئی ہے کہ حق کے ساتھ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ کرے اور ان کے درمیان حکم ہو۔

جب یہ کتاب آئی تو لوگ ہر طرف سے خواہشات میں گھرے ہوئے تھے ۔ لوگوں پر ان کی خواہشات غالب تھیں ۔ خوف اور لالچ مرغوبات اور کجروی لوگوں کو اللہ کی اس کتاب کی حاکمیت سے دور کئے ہوئے تھی ۔ لوگوں نے حق کی طرف لوٹنا چھوڑ دیا تھا ۔ محض خواہشات نفسیانیہ کی بناپروَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ” اختلاف ان لوگوں نے کیا جنہیں حق کا علم دیا جاچکا تھا ، انہوں نے روشن ہدایات پالینے کے بعد محض اس لئے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے ۔ “

بغی سے مراد حسد ہے۔ لالچ میں منافست ہے ۔ حرص میں مقابلہ اور خواہشات نفسانیہ کی حسد ہے ۔ غرض یہ حسد اور منافست ہی ہے جس نے لوگوں کو اسلامی تصور حیات اور اسلامی نظام زندگی کے بارے میں اختلاف کو ہوا دینے پر آمادہ کیا ۔ لوگ تفرقہ بازی ، عناد اور بحث و تکرار میں مبتلا رہے ۔

اس اصول کے مطابق مذہبی اختلافات کا تاریخی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگر اصول دین کے بارے میں کبھی دوآدمیوں کے درمیان اختلاف ہوا ہے تو دو میں سے ایک کے دل میں حسد ضرور تھا ، یا دونوں ہی حسد کا شکار تھے لیکن اگر ان فریقین میں ایمانی قوت موجود ہو تو پھر اتحاد واتفاق کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ” پس جو لوگ انبیاء پر ایمان لے آئے انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھایا ، جس میں ان لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ “

اہل ایمان کو اس لئے ہدایت نصیب ہوئی کہ ان کے دل صاف تھے ، ان کی روح یکسو تھی ، ان کے دلوں میں حق تک پہنچنے کی امنگ تھی ۔ اگر حالات ایسے ہوں تو پھر حق تک پہنچنا اور اس پر جم جانا بہت ہی آسان ہوجاتا ہے وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ” اللہ جسے چاہتا ہے ، راہ راست دکھا دیتا ہے۔ “

وہ راہ کون سی ہے جس کی طرف یہ کتاب راہنمائی کرتی ہے ؟ وہ نظام جو حق پر قائم ہوتا ہے اور حق پر چلتا ہے اور حق پر جمارہتا ہے۔ لوگوں کی خواہشات کے مطابق کبھی ادہر ادہر نہیں بدلتا۔ انسانوں کی مرغوبات اور ان کے رجحانات کے ہاتھ میں ایک کھلونابن کر نہیں رہ جاتا۔

اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے راہ مستقیم کے لئے چن لیتا ہے ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کون لوگ ہیں جن میں قبولیت حق کی استعداد ہے اور پھر اس پر جم سکتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جو سلامتی کی راہ پالیتے ہیں بلکہ سلامتی کے دائرے میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ یہی لوگ غالب ہوں گے ۔ اگرچہ دنیا پرستوں کی نظروں میں ان کی کچھ قدروقیمت نہیں ہوتی اور یہ لوگ محروم تصور ہوتے ہیں ۔ اگرچہ یہ دنیا پرست ان کا مذاق اڑاتے ہیں ، جس طرح کافر مومنین کا مذاق اڑاتے ہیں ۔

اب تک جو ہدایات دی گئیں ان کا مقصد یہ تھا ، جماعت مسلمہ کے دل میں ایک مکمل واضح اور جامع تصور حیات قائم ہوجائے ۔ یہ ہدایات یہاں ختم ہوجاتی ہیں ۔ اب جماعت مسلمہ کو توجہ دلائی جاتی ہے کہ وہ ذرا ان اہل ایمان کے حالات کا مطالعہ کرے ، جو اپنے مخالف دشمنان اسلام ، مشرکین اور اہل کتاب کے اختلاف رائے رکھتے تھے ، پھر ان نظریاتی اختلافات کی وجہ سے ان پر بیشمار مصیبتیں آئیں ۔ ان اختلافات کی بناپر بڑی بڑی جنگیں لڑی گئیں ، لوگوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے اور وہ چور چور ہوگئے۔

جماعت مسلمہ کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ یہ سنت اللہ ہے جو زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے ۔ یوں اہل ایمان کو عام لوگوں سے علیحدہ کردیا جاتا ہے اور انہیں جنت میں داخل کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے ۔ تاکہ وہ اس میں داخل ہوں اور اس کے مستحق ہوں۔ سنت اللہ یہ ہے کہ نظریاتی لوگ اپنے نظریات کی مدافعت کریں ۔ وہ اپنے عقائد ونظریات کے لئے مشکلات ، تکالیف اور دکھ و درد برداشت کریں ۔ انہیں کبھی فتح نصیب ہوگی کبھی شکست لیکن وہ ہر حال میں اپنے نظریات پر ثابت قدم رہیں گے ، کوئی سختی انہیں متزلزل نہ کرسکے گی ۔ کوئی قوت انہیں ڈرا نہ سکے گی ۔ مشکلات اور آزمائشوں کے پے درپے حملوں میں وہ ہمت نہ ہاریں ۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ لوگ اللہ کی نصرت کے مستحق ہوجائیں گے ۔ کیونکہ وہ اللہ کے دین کے امین بن گئے ہیں اور جو امانت ان کے سپرد کی گئی ہے اس میں وہ دیانت دار ہیں ۔ وہ اس کو بچانے کی قابلیت رکھتے ہیں اور اس کے لئے وہ جنت کے بھی مستحق ہیں ۔ ان کی روحیں خوف سے آزاد ہوگئی ہیں ، وہ ذلت سے آزاد ہوگئے ہیں ۔ وہ عیش و آرام کے حریص نہیں رہے ۔ بلکہ انہیں اب خود اپنی زندگی کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ ایسے حالات میں اللہ کے یہ سپاہی آب وگل کی اس دنیا سے بہت ہی دور ہوجاتے ہیں اور جنت اور اللہ کے زیادہ قریب ہوجاتے ہیں۔

آیت 213 کَان النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً قف اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں سب کے سب انسان ایک ہی امت تھے۔ تمام انسان حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام نبی ہیں۔ چناچہ امت تو ایک ہی تھی۔ جب تک ان میں گمراہی پیدا نہیں ہوئی ‘ اختلافات پیدا نہیں ہوئے ‘ شیطان نے کچھ لوگوں کو نہیں ورغلایا ‘ اس وقت تک تو تمام انسان ایک ہی امت تھے۔ اب یہاں پر ایک لفظ محذوف ہے : ثُمَّ اخْتَلَفُوْا پھر ان میں اختلافات ہوئے۔ اختلاف کے نتیجے میں فساد پیدا ہوا اور کچھ لوگوں نے گمراہی کی روش اختیار کرلی۔ آدم علیہ السلام کا ایک بیٹا اگر ہابیل تھا تو دوسرا قابیل بھی تھا۔فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَص۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہ السلام کا سلسلہ جاری فرمایا جو نیکوکاروں کو بشارت دیتے تھے اور غلط کاروں کو خبردار کرتے تھے۔وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ ط وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ الاَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْم بَعْدِ مَا جَآءَ ‘ تْہُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًام بَیْنَہُمْ ج بَغْیًا کا لفظ قبل ازیں آیت 90 میں آچکا ہے۔ وہاں میں نے وضاحت کی تھی کہ دین میں اختلاف کا اصل سبب یہی ضدمّ ضدا والا رویہّ ہوتا ہے۔ انسان میں غالب ہونے کی جو طلب اور امنگ The urge to dominate موجود ہے وہ حق کو قبول کرنے میں مزاحم ہوجاتی ہے۔ دوسرے کی بات ماننا نفس انسانی پر بہت گراں گزرتا ہے۔ آدمی کہتا ہے میں اس کی بات کیوں مانوں ‘ یہ میری کیوں نہ مانے ؟ انسان کے اندر جہاں اچھے میلانات رکھے گئے ہیں وہاں بری امنگیں اور میلانات بھی رکھے گئے ہیں۔ چناچہ انسان کے باطن میں حق و باطل کی ایک کشاکش چلتی ہے۔ اسی طرح کی کشاکش خارج میں بھی چلتی ہے۔ تو فرمایا کہ جب انسانوں میں اختلافات رونما ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کو بھیجا جو مبشر اور منذر بن کر آئے۔ ُ ّ فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہٖ ط وَاللّٰہُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ سلسلۂ انبیاء و رسل کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان ﷺ پر قرآن حکیم نازل فرما کر ‘ اپنی توفیق سے ‘ اس نزاع و اختلاف میں حق کی راہ اہل ایمان پر کھولی ہے۔ اور اللہ ہی ہے جو اپنی مشیتّ اور حکمت کے تقاضوں کے مطابق جس کو چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے۔اب بڑی سخت آیت آرہی ہے ‘ جو بڑی لرزا دینے والی آیت ہے۔ صحابہ کرام رض میں سے ایک بڑی تعداد مہاجرین کی تھی جو مکہ کی سختیاں جھیل کر آئے تھے۔ ان کے لیے تو اب جو بھی مراحل آئندہ آنے والے تھے وہ بھی کوئی ایسے مشکل نہیں تھے۔ لیکن جو حضرات مدینہ منورہ میں ایمان لائے تھے ‘ یعنی انصار ‘ ان کے لیے تو یہ نئی نئی بات تھی۔ اس لیے کہ انہوں نے تو وہ سختیاں نہیں جھیلی تھیں جو مکہ میں مہاجرین نے جھیلی تھیں۔ تو اب روئے سخن خاص طور پر ان سے ہے ‘ اگرچہ خطاب عام ہے۔ قرآن مجید میں یہ اسلوب عام طور پر ملتا ہے کہ الفاظ عام ہیں ‘ لیکن روئے سخن کسی خاص طبقہ کی طرف ہے۔ تو درحقیقت یہاں انصار کو بتایا جا رہا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا پھولوں کی سیج نہیں ہے۔

آدم ؑ سے حضرت نوح ؑ تک حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ حضرت نوح اور حضرت آدم کے درمیان دس زمانے تھے ان زمانوں کے لوگ حق پر اور شریعت کے پابند تھے پھر اختلاف ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو مبعوث فرمایا، بلکہ آپ کی قرأت بھی یوں ہے آیت (وَمَا كَان النَّاسُ اِلَّآ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا) 10۔ یونس :19) ابی بن کعب کی قرأت بھی یہی ہے، قتادہ ؓ نے اس کی تفسیر اسی طرح کی ہے کہ جب ان میں اختلاف پیدا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا پیغمبر بھیجا یعنی حضرت نوح ؑ ، حضرت مجاہد بھی یہی کہتے ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک روایت مروی ہے کہ پہلے سب کے سب کافر تھے، لیکن اول قول معنی کے اعتبار سے بھی اور سند کے اعتبار سے بھی زیادہ صحیح ہے، پس ان پیغمبروں نے ایمان والوں کو خوشیاں سنائی اور ایمان نہ لانے والوں کو ڈرایا، ان کے ساتھ اللہ کی کتاب بھی تھی تاکہ لوگوں کے ہر اختلاف کا فیصلہ قانون الٰہی سے ہوسکے، لیکن ان دلائل کے بعد بھی صرف آپ کے حسد وبغض تعصب وضد اور نفسانیت کے بنا پر پھر اتفاق نہ کرسکے، لیکن ایمان دار سنبھل گئے اور اس اختلاف کے چکر سے نکل کر سیدھی راہ لگ گئے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آگے ہوں گے، اہل کتاب کو کتاب اللہ ہم سے پہلے دی گئی ہمیں اس کے بعد دی گئی لیکن انہوں نے اختلاف کیا اور اللہ پاک نے ہماری رہبری کی جمعہ کے بارے میں بھی نااتفاقی رہی لیکن ہمیں ہدایت نصیب ہوئی یہ کل کے کل اہل کتاب اس لحاظ سے بھی ہمارے پیچھے ہیں جمعہ ہمارا ہے ہفتہ یہودیوں کا اور اتوار نصرانیوں کا، زید بن اسلم فرماتے ہیں جمعہ کے علاوہ قبلہ کے بارے میں بھی یہی ہوا نصاریٰ نے مشرق کو قبلہ بنایا یہود نے بھی، ان میں بعض کی نماز رکوع ہے اور سجدہ نہیں، بعض کے ہاں سجدہ ہے اور رکوع نہیں، بعض نماز میں بولتے چلتے پھرتے رہتے ہیں لیکن امت محمد کی نماز سکون و وقار والی ہے نہ یہ بولیں نہ چلیں نہ پھریں، روزوں میں بھی اسی طرح اختلاف ہوا اور اس میں بھی امت محمدیہ کو ہدایت نصیب ہوئی ان میں سے کوئی تو دن کے بعض حصے کا روزہ رکھتا ہے کوئی گروہ بعض قسم کے کھانے چھوڑ دیتا ہے لیکن ہمارا روزہ ہر طرح کامل ہے اور اس میں بھی راہ حق ہمیں سمجھائی گئی ہے، اسی طرح حضرت ابراہیم کے بارے میں یہود نے کہا کہ وہ یہودی تھے نصرانیوں نے انہیں نصاری کہا لیکن دراصل وہ کسر مسلمان تھے پس اس بارے میں بھی ہماری رہبری کی گئی اور خلیل اللہ کی نسبت صحیح خیال تک ہم کو پہنچا دئیے گئے، حضرت عیسیٰ کو بھی یہودیوں نے جھٹلایا اور ان کی والدہ ماجدہ کی نسبت بدکلامی کی، نصرانیوں نے انہیں اللہ اور اللہ کا بیٹا کہا لیکن مسلمان اس افراط وتفریط سے بچا لئے گئے اور انہیں روح اللہ کلمۃ اللہ اور نبی برحق مانا، ربیع بن انس فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ جس طرح ابتداء میں سب لوگ اللہ واحد واحد کی عبادت کرنے والے نیکیوں کے عامل برائیوں سے مجتنب تھے بیچ میں اختلاف رونما ہوگیا تھا پس اس آخری امت کو اول کی طرح اختلاف سے ہٹا کر صحیح راہ پر لگا دیا یہ امت اور امتوں پر گواہ ہوگی یہاں تک کہ امت نوح پر بھی ان کی شہادت ہوگی، قوم یہود، قوم صالح، قوم شعیب اور آل فرعون کا بھی حساب کتاب انہی کی گواہیوں پر ہوگا یہ کہیں گے کہ ان پیغمبروں نے تبلیغ کی اور ان امتوں نے تکذیب کی، حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں آیت (واللہ یہدی) الخ، سے پہلے یہ لفظ بھی ہیں آیت (ولیکونوا شہداء علی الناس یوم القیامۃ) الخ، ابو العالیہ فرماتے ہیں اس آیت میں گویا حکم ہے کہ شبہ، گمراہی، اور فتنوں سے بچنا چاہئے، یہ ہدایت اللہ کے علم اور اس کی رہبری سے ہوئی وہ جسے چاہے راہ استقامت سجھا دیتا ہے، بخاری ومسلم میں ہے کہ آنحضرت ﷺ رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے تھے تو یہ پڑھتے دعا (اللہم رب جبریل ومیکائیل واسرافیل فاطر السماوات والارض عالم الغیب والشہادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اہدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تہدی من تشاء الی صراط مستقیم۔ یعنی اے اللہ اے جبرائیل ومیکائل اور اسرافیل کے اللہ عزوجل اے آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے الہ العالمین۔ اے چھپے کھلے کے جاننے والے اللہ جل شانہ تو ہی اپنے بندوں کے آپس کے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے میری دعا ہے کہ جس جس چیز میں یہ اختلاف کریں تو مجھے اس میں حق بات سمجھا تو جسے چاہے راہ راست دکھلا دیتا ہے حضور ﷺ سے ایک دعا یہ بھی منقول ہے (اللہم ارنا الحق حق وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ ولا تجعلہ متلبسا علینا فنضل واجعلنا للمتقین اماما)۔ اے اللہ ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی تابعدار نصیب فرما اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچا کہیں ایسا نہ کہ حق وباطل ہم پر خلط ملط ہوجائے اور ہم بہک جائیں اے اللہ ہمیں نیکوکار اور پرہیزگار لوگوں کا امام بنا۔

آیت 213 - سورۃ البقرہ: (كان الناس أمة واحدة فبعث الله النبيين مبشرين ومنذرين وأنزل معهم الكتاب بالحق ليحكم بين الناس فيما اختلفوا فيه ۚ...) - اردو