سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 33 (آیات 211 سے 215 تک)

سَلْ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ كَمْ ءَاتَيْنَٰهُم مِّنْ ءَايَةٍۭ بَيِّنَةٍ ۗ وَمَن يُبَدِّلْ نِعْمَةَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُ فَإِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ٱلْحَيَوٰةُ ٱلدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ۘ وَٱلَّذِينَ ٱتَّقَوْا۟ فَوْقَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ ۗ وَٱللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةً وَٰحِدَةً فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّۦنَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ ٱلْكِتَٰبَ بِٱلْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ ۚ وَمَا ٱخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا ٱلَّذِينَ أُوتُوهُ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ ٱلْبَيِّنَٰتُ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لِمَا ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ مِنَ ٱلْحَقِّ بِإِذْنِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ يَهْدِى مَن يَشَآءُ إِلَىٰ صِرَٰطٍ مُّسْتَقِيمٍ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا۟ ٱلْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوْا۟ مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ ٱلْبَأْسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوا۟ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَعَهُۥ مَتَىٰ نَصْرُ ٱللَّهِ ۗ أَلَآ إِنَّ نَصْرَ ٱللَّهِ قَرِيبٌ يَسْـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَآ أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَٰلِدَيْنِ وَٱلْأَقْرَبِينَ وَٱلْيَتَٰمَىٰ وَٱلْمَسَٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا۟ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ
33

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

بنی اسرائیل سے پوچھو: کیسی کھلی کھلی نشانیاں ہم نے اُنہیں دکھائی ہیں (اور پھر یہ بھی انہیں سے پوچھ لو کہ) اللہ کی نعمت پانے کے بعد جو قوم اس کو شقاوت سے بدلتی ہے اُسے اللہ کیسی سخت سزادیتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sal banee israeela kam ataynahum min ayatin bayyinatin waman yubaddil niAAmata Allahi min baAAdi ma jaathu fainna Allaha shadeedu alAAiqabi

احسان فراموش اسرائیل اور ترغیب صدقات اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ دیکھو بنی اسرائیل کو میں نے بہت سے معجزات دکھلا دئیے حضرت موسیٰ ؑ کہ ہاتھوں لکڑی ان کے ہاتھ کی روشنی ان کے لئے دریا کو چیر دینا ان پر سخت گرمیوں میں ابر کا سایہ کرنا من وسلویٰ اتارنا وغیرہ وغیرہ جن سے میرا خود مختار فاعل کل ہونا صاف ظاہر تھا اور میرے نبی حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت کی کھلی تصدیق تھی لیکن تاہم ان لوگوں نے میری ان نعمتوں کا کفر کیا اور بجائے ایمان کے کفر پر آرے رہے اور میری نعمتوں پر بجائے شکر کے ناشکری کی پھر بھلا میرے سخت عذاب سے یہ کیسے بچ سکتے ؟ یہی خبر کفار و قریش کے بارے میں بھی بیان فرمائی ارشاد ہے آیت (اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ) 14۔ ابرہیم :28) کیا تو نے ان لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر یعنی جہنم جیسی بدترین قرار گاہ میں پہنچا دیا۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ یہ کفار صرف دنیا کی زندگی پر دیوانے ہوئے ہیں مال جمع کرنا اور اللہ کی راہ کے خرچ میں بخل کرنا یہی ان کا رنگ ڈھنگ ہے، بلکہ ایمان دار اس دنیائے فانی سے سیر چشم ہیں اور پروردگار کی رضامندی میں اپنے مال لٹاتے رہتے ہیں یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، حالانکہ حقیق نصیب والے یہی لوگ ہیں قیامت کے دن ان کے مرتبے دیکھ کر ان کافروں کی آنکھیں کھل جائیں گی اس وقت اپنی بدتری اور ان کی برتری دیکھ کر معاملہ اونچ نیچ سمجھ میں آجائے گی۔ دنیا کی روزی جسے اللہ جتنی چاہے دے دے جسے چاہے بےحساب دے بلکہ جسے چاہے یہاں بھی دے اور پھر وہاں بھی دے حدیث شریف میں ہے اے ابن آدم تو میری راہ میں خرچ کر میں تجھے دیتا چلا جاؤں گا، آپ نے حضرت بلال سے فرمایا راہ اللہ میں دئیے جاؤ اور عرش والے سے تنگی کا خوف نہ کرو، قرآن میں ہے آیت (وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ) 34۔ سبأ :39) تم جو کچھ خرچ کرو اللہ اس کا بدلہ دے گا، صحیح حدیث میں ہے ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ایک دعا کرتا ہے اے اللہ تیری راہ میں خرچ کرنے والے کو عزت فرما دوسرا کہتا ہے بخیل کے مال کو تباہ و برباد کر۔ ایک اور حدیث میں ہے انسان کہتا رہتا میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال وہ ہے جسے تو نے کھایا وہ تو فنا ہوچکا اور جسے پہن لیا وہ بوسیدہ ہوگیا ہاں جو تو نے صدقہ میں دیا اسے تو نے باقی رکھ لیا اس کے سوا جو کچھ اسے تو تو دوسروں کے لئے چھوڑ کر یہاں سے چل دے گا، مسند احمد کی حدیث میں ہے دنیا اس کا گھر ہے جس کا گھر نہ ہو، دنیا اس کا مال ہے جس کا مال نہ ہو دنیا کے لئے جمع وہ کرتا ہے جسے عقل نہ ہو۔

اردو ترجمہ

جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے، اُن کے لیے دنیا کی زندگی بڑی محبوب و دل پسند بنا دی گئی ہے ایسے لوگ ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں، مگر قیامت کے روز پرہیز گار لوگ ہی اُن کے مقابلے میں عالی مقام ہوں گے رہا دنیا کا رزق، تو اللہ کو اختیار ہے، جسے چاہے بے حساب دے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Zuyyina lillatheena kafaroo alhayatu alddunya wayaskharoona mina allatheena amanoo waallatheena ittaqaw fawqahum yawma alqiyamati waAllahu yarzuqu man yashao bighayri hisabin

اردو ترجمہ

ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقہ پر تھے (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے، اور اُن کے ساتھ کتاب بر حق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے، ان کا فیصلہ کرے (اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا نہیں،) اختلاف اُن لوگوں نے کیا، جنہیں حق کا عمل دیا چکا تھا اُنہوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس کے لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے پس جو لوگ انبیا پر ایمان لے آئے، انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اُس حق کا راستہ دکھا دیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اللہ جسے چاہتا ہے، راہ راست دکھا دیتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kana alnnasu ommatan wahidatan fabaAAatha Allahu alnnabiyyeena mubashshireena wamunthireena waanzala maAAahumu alkitaba bialhaqqi liyahkuma bayna alnnasi feema ikhtalafoo feehi wama ikhtalafa feehi illa allatheena ootoohu min baAAdi ma jaathumu albayyinatu baghyan baynahum fahada Allahu allatheena amanoo lima ikhtalafoo feehi mina alhaqqi biithnihi waAllahu yahdee man yashao ila siratin mustaqeemin

آدم ؑ سے حضرت نوح ؑ تک حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ حضرت نوح اور حضرت آدم کے درمیان دس زمانے تھے ان زمانوں کے لوگ حق پر اور شریعت کے پابند تھے پھر اختلاف ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو مبعوث فرمایا، بلکہ آپ کی قرأت بھی یوں ہے آیت (وَمَا كَان النَّاسُ اِلَّآ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا) 10۔ یونس :19) ابی بن کعب کی قرأت بھی یہی ہے، قتادہ ؓ نے اس کی تفسیر اسی طرح کی ہے کہ جب ان میں اختلاف پیدا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا پیغمبر بھیجا یعنی حضرت نوح ؑ ، حضرت مجاہد بھی یہی کہتے ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک روایت مروی ہے کہ پہلے سب کے سب کافر تھے، لیکن اول قول معنی کے اعتبار سے بھی اور سند کے اعتبار سے بھی زیادہ صحیح ہے، پس ان پیغمبروں نے ایمان والوں کو خوشیاں سنائی اور ایمان نہ لانے والوں کو ڈرایا، ان کے ساتھ اللہ کی کتاب بھی تھی تاکہ لوگوں کے ہر اختلاف کا فیصلہ قانون الٰہی سے ہوسکے، لیکن ان دلائل کے بعد بھی صرف آپ کے حسد وبغض تعصب وضد اور نفسانیت کے بنا پر پھر اتفاق نہ کرسکے، لیکن ایمان دار سنبھل گئے اور اس اختلاف کے چکر سے نکل کر سیدھی راہ لگ گئے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آگے ہوں گے، اہل کتاب کو کتاب اللہ ہم سے پہلے دی گئی ہمیں اس کے بعد دی گئی لیکن انہوں نے اختلاف کیا اور اللہ پاک نے ہماری رہبری کی جمعہ کے بارے میں بھی نااتفاقی رہی لیکن ہمیں ہدایت نصیب ہوئی یہ کل کے کل اہل کتاب اس لحاظ سے بھی ہمارے پیچھے ہیں جمعہ ہمارا ہے ہفتہ یہودیوں کا اور اتوار نصرانیوں کا، زید بن اسلم فرماتے ہیں جمعہ کے علاوہ قبلہ کے بارے میں بھی یہی ہوا نصاریٰ نے مشرق کو قبلہ بنایا یہود نے بھی، ان میں بعض کی نماز رکوع ہے اور سجدہ نہیں، بعض کے ہاں سجدہ ہے اور رکوع نہیں، بعض نماز میں بولتے چلتے پھرتے رہتے ہیں لیکن امت محمد کی نماز سکون و وقار والی ہے نہ یہ بولیں نہ چلیں نہ پھریں، روزوں میں بھی اسی طرح اختلاف ہوا اور اس میں بھی امت محمدیہ کو ہدایت نصیب ہوئی ان میں سے کوئی تو دن کے بعض حصے کا روزہ رکھتا ہے کوئی گروہ بعض قسم کے کھانے چھوڑ دیتا ہے لیکن ہمارا روزہ ہر طرح کامل ہے اور اس میں بھی راہ حق ہمیں سمجھائی گئی ہے، اسی طرح حضرت ابراہیم کے بارے میں یہود نے کہا کہ وہ یہودی تھے نصرانیوں نے انہیں نصاری کہا لیکن دراصل وہ کسر مسلمان تھے پس اس بارے میں بھی ہماری رہبری کی گئی اور خلیل اللہ کی نسبت صحیح خیال تک ہم کو پہنچا دئیے گئے، حضرت عیسیٰ کو بھی یہودیوں نے جھٹلایا اور ان کی والدہ ماجدہ کی نسبت بدکلامی کی، نصرانیوں نے انہیں اللہ اور اللہ کا بیٹا کہا لیکن مسلمان اس افراط وتفریط سے بچا لئے گئے اور انہیں روح اللہ کلمۃ اللہ اور نبی برحق مانا، ربیع بن انس فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ جس طرح ابتداء میں سب لوگ اللہ واحد واحد کی عبادت کرنے والے نیکیوں کے عامل برائیوں سے مجتنب تھے بیچ میں اختلاف رونما ہوگیا تھا پس اس آخری امت کو اول کی طرح اختلاف سے ہٹا کر صحیح راہ پر لگا دیا یہ امت اور امتوں پر گواہ ہوگی یہاں تک کہ امت نوح پر بھی ان کی شہادت ہوگی، قوم یہود، قوم صالح، قوم شعیب اور آل فرعون کا بھی حساب کتاب انہی کی گواہیوں پر ہوگا یہ کہیں گے کہ ان پیغمبروں نے تبلیغ کی اور ان امتوں نے تکذیب کی، حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں آیت (واللہ یہدی) الخ، سے پہلے یہ لفظ بھی ہیں آیت (ولیکونوا شہداء علی الناس یوم القیامۃ) الخ، ابو العالیہ فرماتے ہیں اس آیت میں گویا حکم ہے کہ شبہ، گمراہی، اور فتنوں سے بچنا چاہئے، یہ ہدایت اللہ کے علم اور اس کی رہبری سے ہوئی وہ جسے چاہے راہ استقامت سجھا دیتا ہے، بخاری ومسلم میں ہے کہ آنحضرت ﷺ رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے تھے تو یہ پڑھتے دعا (اللہم رب جبریل ومیکائیل واسرافیل فاطر السماوات والارض عالم الغیب والشہادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اہدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تہدی من تشاء الی صراط مستقیم۔ یعنی اے اللہ اے جبرائیل ومیکائل اور اسرافیل کے اللہ عزوجل اے آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے الہ العالمین۔ اے چھپے کھلے کے جاننے والے اللہ جل شانہ تو ہی اپنے بندوں کے آپس کے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے میری دعا ہے کہ جس جس چیز میں یہ اختلاف کریں تو مجھے اس میں حق بات سمجھا تو جسے چاہے راہ راست دکھلا دیتا ہے حضور ﷺ سے ایک دعا یہ بھی منقول ہے (اللہم ارنا الحق حق وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ ولا تجعلہ متلبسا علینا فنضل واجعلنا للمتقین اماما)۔ اے اللہ ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی تابعدار نصیب فرما اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچا کہیں ایسا نہ کہ حق وباطل ہم پر خلط ملط ہوجائے اور ہم بہک جائیں اے اللہ ہمیں نیکوکار اور پرہیزگار لوگوں کا امام بنا۔

اردو ترجمہ

پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ اُن پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ وقت کارسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی اُس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Am hasibtum an tadkhuloo aljannata walamma yatikum mathalu allatheena khalaw min qablikum massathumu albasao waalddarrao wazulziloo hatta yaqoola alrrasoolu waallatheena amanoo maAAahu mata nasru Allahi ala inna nasra Allahi qareebun

ہم سب کو آزمائش سے گزرنا ہے مطلب یہ ہے کہ آزمائش اور امتحان سے پہلے جنت کی آرزوئیں ٹھیک نہیں اگلی امتوں کا بھی امتحان لیا گیا، انہیں بھی بیماریاں مصیبتیں پہنچیں، بأساء کے معنی فقیری وضراء کے معنی سخت بیماری بھی کیا گیا ہے۔ (زلزلوا) ان پر دشمنوں کا خوف اس قدر طاری ہوا کہ کانپنے لگے ان تمام سخت امتحانوں میں وہ کامیاب ہوئے اور جنت کے وارث بنے، صحیح حدیث میں ہے ایک مرتبہ حضرت خباب بن ارت ؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ ہماری امداد کی دعا نہیں کرتے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا بس ابھی سے گھبرا اٹھے سنو تم سے اگلے موحدوں کو پکڑ کر ان کے سروں پر آرے رکھ دئیے جاتے تھے اور چیر کر ٹھیک دو ٹکڑے کر دئیے جاتے تھے لیکن تاہم وہ توحید وسنت سے نہ ہٹتے تھے، لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت پوست نوچے جاتے تھے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے دین کو نہیں چھوڑتے تھے، قسم اللہ کی اس میرے دین کو تو میرا رب اس قدر پورا کرے گا کہ بلا خوف وخطر صنعاء سے حضرموت تک سوار تنہا سفر کرنے لگے گا اسے سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہ ہوگا، البتہ دل میں یہ خیال ہونا اور بات ہے کہ کہیں میری بکریوں پر بھیڑیا نہ پڑے لیکن افسوس تم جلدی کرتے ہو، قرآن میں ٹھیک یہی مضمون دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ آیت (الۗمّۗ ۚ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ) 29۔ العنکبوت :1) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض ایمان کے اقرار سے ہی چھوڑ دئیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی ہم نے تو اگلوں کی بھی آزمائش کی سچوں کو اور جھوٹوں کو یقینا ہم نکھار کر رہیں گے، چناچہ اسی طرح صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین کی پوری آزمائش ہوئی یوم الاحزاب کو یعنی جنگ خندق میں ہوئی جیسے خود قرآن پاک نے اس کا نقشہ کھینچا ہے فرمان ہے آیت (اِذْ جَاۗءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ باللّٰهِ الظُّنُوْنَا) 33۔ الاحزاب :10) یعنی جبکہ کافروں نے تمہیں اوپر نیچے سے گھیر لیا جبکہ آنکھیں پتھرا گئیں اور دل حلقوم تک آگئے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ گمان ہونے لگے اس جگہ مومنوں کی پوری آزمائش ہوگئی اور وہ خوب جھنجھوڑ دئیے گئے جبکہ منافق اور ڈھل مل یقین لوگ کہنے لگے کہ اللہ رسول کے وعدے تو غرور کے ہی تھے ہرقل نے جب ابو سفیان سے ان کے کفر کی حالت میں پوچھا تھا کہ تمہاری کوئی لڑائی بھی اس دعویدار نبوت سے ہوئی ہے ابو سفیان نے کہا ہاں پوچھا پھر کیا رنگ رہا کہا کبھی ہم غالب رہے کبھی وہ غالب رہے تو ہرقل نے کہا انبیاء کی آزمائش اسی طرح ہوتی رہتی ہے لیکن انجام کار کھلا غلبہ انہیں کا ہوتا ہے مثل کے معنی طریقہ کے ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت (وَّمَضٰى مَثَلُ الْاَوَّلِيْنَ) 43۔ الزخرف :8) ، اگلے مومنوں نے مع نبیوں کے ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کی اور سخت اور تنگی سے نجات چاہی جنہیں جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ کی امداد بہت ہی نزدیک ہے جیسے اور جگہ ہے آیت (فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ۙ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ۭ) 94۔ الشرح :65) ، یقینا سختی کے ساتھ آسانی ہے برائی کے ساتھ بھلائی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ بندے جب ناامید ہونے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تعجب کرتا ہے کہ میری فریاد رسی تو آپہنچنے کو ہے اور یہ ناامید ہوتا چلا جا رہا ہے پس اللہ تعالیٰ ان کی عجلت اور اپنی رحمت کے قرب پر ہنس دیتا ہے۔

اردو ترجمہ

لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yasaloonaka matha yunfiqoona qul ma anfaqtum min khayrin falilwalidayni waalaqrabeena waalyatama waalmasakeeni waibni alssabeeli wama tafAAaloo min khayrin fainna Allaha bihi AAaleemun

نفلی خیرات مقاتل فرماتے ہیں یہ آیت نفلی خیرات کے بارے میں ہے، سدی کہتے ہیں اسے آیت زکوٰۃ نے منسوخ کردیا۔ لیکن یہ قول ذرا غور طلب ہے، مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے نبی لوگ تم سے سوال کرتے ہیں کہ وہ کس طرح خرچ کریں تم انہیں کہہ دو کہ ان لوگوں سے سلوک کریں جن کا بیان ہوا۔ حدیث میں ہے کہ اپنی ماں سے سلوک کر اور اپنے باپ اور اپنی بہن سے اور اپنے بھائی سے پھر اور قریبی اور قریبی لوگوں سے یہ حدیث بیان فرما کر حضرت میمون بن مہران نے اس آیت کی تلاوت کیا اور فرمایا یہ ہیں جن کے ساتھ مالی سلوک کیا جائے اور ان پر مال خرچ کیا جائے نہ کہ طبلوں باجوں تصویروں اور دیواروں پر کپڑا چسپاں کرنے میں۔ پھر ارشاد ہوتا ہے تم جو بھی نیک کام کرو اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اور وہ اس پر بہترین بدلہ عطا فرمائے گا وہ ذرے برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔

33