یہ ایک عجیب انداز کلام ہے۔ اس میں ایک خوفناک گرفت اور ہولناک رعب و دبدبہ کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس کے سنتے ہی انسان بھاگنے اور اپنا مقام چھوڑنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ حال تو ان لوگوں کا ہوجائے گا جو سنیں اور دیکھیں۔ رہے وہ لوگ جن کو یہ سزا دی جائے تو ان کی حالت تو معلوم ہے کہ کیا ہوگی ؟ یہ وہ ضرب ہے جس کا حکم اللہ نے اپنے رسول کو دیا ہے اور خوفناک ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ان لوگوں کے لیے عبرتناک بھی ہے جنہوں نے نقص عہد کی تیاری کر رکھی ہو ، جنہوں نے انسانی قواعد و ضوابط کو چھوڑ دیا ہو۔ یہ ہدایات اس لیے دی گئیں تاکہ اسلامی محاذ امن کا سانس لے اور اس کی ہیبت کی وجہ سے خارجی قوتیں ، جو بھی ہوں ، اس قدر سہم جائیں کہ وہ اسلام کے پھیلاؤ کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں خواہ وہ قریب کی ہوں یا دور کی ہوں۔
اسلامی نظام حیات کا یہ مزاج ہے اور اسلامی تحریک کے ذہن میں اسے اچھی طرح بیٹھ جانا چاہیے کہ اس دین کے لیے ہیبت اور رعب ضروری ہے ، اس کے لیے قوت ضروری ہے۔ اس کے لیے خوفناک شان لازمی ہے اور یہ ضروری ہے کہ ان طاغوتی قوتوں کو مرعوب کردیا جائے تاکہ وہ اسلام کے پھیلاؤ کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں ، اس لیے کہ اسلام پورے کرہ ارض پر انسانوں کی آزادی کا علمبردار ہے اور وہ انسان کو ہر طاغوتی قوت سے نجات دینا چاہتا ہے ، جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اس دین کا طریق کار یہ ہے کہ محض دعوت و تبلیغ سے کام لیا جائے اور ان مادی رکاوٹوں کو نہ چھیڑا جائے جو طاغوت نے کھڑی کردی ہیں ، وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اس دین کے مزاج کو بالکل نہیں سمجھا ہے۔
یہ تو تھا پہلا حکم ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے عملاً نقص عہد کا ارتکاب کرلیا تھا۔ ان کے بارے میں یہ کہا گیا کہ ان کی ایسی خبر لی جائے اور ان پر ایسی فیصلہ کن ضرب لگائی جائے کہ ان کے لیے اور کے بعد دوسرے دیکھنے سننے والوں کے لیے عبرت ہو اور ان کے کیمپوں میں خوف طاری کردے۔
آیت 57 فَاِمَّا تَثْقَفَنَّہُمْ فِی الْْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِہِمْ مَّنْ خَلْفَہُمْ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُوْنَ ۔یہ یہودی آپ لوگوں کے خلاف کفار مکہ کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر سازشیں تو ہر وقت کرتے ہی رہتے ہیں ‘ لیکن اگر ان میں سے کچھ لوگ میدان جنگ میں بھی پکڑے جائیں کہ وہ قریش کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے ہوں تو ایسی صورت میں ان کو ایسی عبرت ناک سزا دو کہ قریش مکہ جو پیچھے بیٹھ کر ان کی ڈوریں ہلا رہے ہیں اور ان سازشوں کی منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں ان کے ہوش بھی ٹھکانے آجائیں۔