سورۃ الانفال (8): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Anfaal کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنفال کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانفال کے بارے میں معلومات

Surah Al-Anfaal
سُورَةُ الأَنفَالِ
صفحہ 184 (آیات 53 سے 61 تک)

ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا۟ مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ كَدَأْبِ ءَالِ فِرْعَوْنَ ۙ وَٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَذَّبُوا۟ بِـَٔايَٰتِ رَبِّهِمْ فَأَهْلَكْنَٰهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَغْرَقْنَآ ءَالَ فِرْعَوْنَ ۚ وَكُلٌّ كَانُوا۟ ظَٰلِمِينَ إِنَّ شَرَّ ٱلدَّوَآبِّ عِندَ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ عَٰهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِى كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِى ٱلْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِم مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَٱنۢبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَآءٍ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْخَآئِنِينَ وَلَا يَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ سَبَقُوٓا۟ ۚ إِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُونَ وَأَعِدُّوا۟ لَهُم مَّا ٱسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ ٱلْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِۦ عَدُوَّ ٱللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَءَاخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ ٱللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا۟ مِن شَىْءٍ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ۞ وَإِن جَنَحُوا۟ لِلسَّلْمِ فَٱجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
184

سورۃ الانفال کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانفال کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل دیتی اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika bianna Allaha lam yaku mughayyiran niAAmatan anAAamaha AAala qawmin hatta yughayyiroo ma bianfusihim waanna Allaha sameeAAun AAaleemun

اللہ ظالم نہیں لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنی دی ہوئی نعمتیں گناہوں سے پہلے نہیں چھینتا۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی ان باتوں کو نہ بدل دیں جو ان کے دلوں میں ہیں۔ جب وہ کسی قوم کی باتوں کی وجہ سے انہیں برائی پہنچانا چاہتا ہے تو اس کے ارادے کوئی بدل نہیں سکتا۔ نہ اس کے پاس کوئی حمایتی کھڑا ہوسکتا ہے۔ تم دیکھ لو کہ فرعونیوں اور ان جیسے ان سے گذشتہ لوگوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ انہیں اللہ نے اپنی نعمتیں دیں وہ سیاہ کاریوں میں مبتلا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دیئے ہوئے باغات چشمے کھیتیاں خزانے محلات اور نعمتیں جن میں وہ بد مست ہو رہے تھے سب چھین لیں۔ اس بارے میں انہوں نے اپنا برا آپ کیا۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا۔

اردو ترجمہ

آلِ فرعون اور ان سے پہلے کی قوموں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ اِسی ضابطہ کے مطابق تھا انہوں نے اپنے رب کی آیات کو جھٹلایا تب ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کیا اور آل فرعون کو غرق کر دیا یہ سب ظالم لوگ تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kadabi ali firAAawna waallatheena min qablihim kaththaboo biayati rabbihim faahlaknahum bithunoobihim waaghraqna ala firAAawna wakullun kanoo thalimeena

اردو ترجمہ

یقیناً اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna sharra alddawabbi AAinda Allahi allatheena kafaroo fahum la yuminoona

زمین کی بدترین مخلوق وعدہ خلاف کفار ہیں زمین پر جتنے بھی چلتے پھرتے ہیں ان سب سے بدتر اللہ کے نزدیک بےایمان کافر ہیں جو عہد کر کے توڑ دیتے ہیں۔ ادھر قول وقرار کیا ادھر پھرگئے، ادھر قسمیں کھائیں ادھر توڑ دیں۔ نہ اللہ کا خوف نہ گناہ کا کھٹکا۔ پس جو ان پر لڑائی میں غالب آجائے تو ایسی سزا کے بعد آنے والوں کو بھی عبرت حاصل ہو۔ وہ بھی خوف زدہ ہوجائیں پھر ممکن ہے کہ اپنے ایسے کرتوت سے باز رہیں۔

اردو ترجمہ

(خصوصاً) ان میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تو نے معاہدہ کیا پھر وہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena AAahadta minhum thumma yanqudoona AAahdahum fee kulli marratin wahum la yattaqoona

اردو ترجمہ

پس اگر یہ لوگ تمہیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لو کہ ان کے بعد جو دُوسرے لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں ان کے حواس باختہ ہو جائیں توقع ہے کہ کہ بد عہدوں کے اِس انجام سے وہ سبق لیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faimma tathqafannahum fee alharbi fasharrid bihim man khalfahum laAAallahum yaththakkaroona

اردو ترجمہ

اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو، یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waimma takhafanna min qawmin khiyanatan fainbith ilayhim AAala sawain inna Allaha la yuhibbu alkhaineena

اللہ خائنوں کو پسند نہیں فرماتا ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی اگر کسی سے تمہارا عہد و پیمان ہو اور تمہیں خوف ہو کہ یہ بدعہدی اور وعدہ خلافی کریں گے تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ برابری کی حالت میں عہد نامہ توڑ دو اور انہیں اطلاع کردو تاکہ وہ بھی صلح کے خیال میں نہ رہیں۔ کچھ دن پہلے ہی سے انہیں خبر دو۔ اللہ خیانت کو ناپسند فرماتا ہے کافروں سے بھی تم خیانت نہ کرو۔ مسند احمد میں ہے کہ امیر معاویہ نے لشکریوں کی روم کی سرحد کی طرف پیش قدمی شروع کی کہ مدت صلح ختم ہوتے ہی ان پر اچانک حملہ کردیں تو ایک شیخ اپنی سواری پر سوار یہ کہتے ہوئے آئے کہ وعدہ وفائی کرو، عذر درست نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ جب کسی قوم سے عہد و پیمان ہوجائیں تو نہ کوئی گرہ کھولو نہ باندھو جب تک کہ مدت صلح ختم نہ جوئے یا انہیں اطلاع دے کر عہد نامہ چاک نہ ہوجائے۔ جب یہ بات حضرت معاویہ کو پہنچی تو آپ نے اسی وقت فوج کو واپسی کا حکم دے دیا۔ یہ شیخ حضرت عمرو بن عنبسہ تھے۔ حضرت سلمان فارسی نے ایک شہر کے قلعے کے پاس پہنچ کر اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم مجھے بلاؤ میں تمہیں بلاؤں گا جیسے کہ میں رسول اللہ ﷺ کو انہیں بلاتے دیکھا ہے۔ پھر فرمایا میں بھی انہیں میں سے ایک شخص تھا پس مجھے اللہ عزوجل نے اسلام کی ہدایت کی اگر تم بھی مسلمان ہوجاؤ تو جو ہمارا حق ہے وہی تمہارا حق ہوگا اور جو ہم پر ہے تم پر بھی وہی ہوگا اور اگر تم اس نہیں مانتے تو ذلت کے ساتھ تمہیں جزیہ دینا ہوگا اسے بھی قبول نہ کرو تو ہم تمہیں ابھی سے مطلع کرتے ہیں جب کہ ہم تم برابری کی حالت میں ہیں اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں رکھتا۔ تین دن تک انہیں اسی طرح دعوت دی آخر چوتھے روز صبح ہی حملہ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فتح دی اور مدد فرمائی۔

اردو ترجمہ

منکرینِ حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے، یقیناً وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala yahsabanna allatheena kafaroo sabaqoo innahum la yuAAjizoona

کفار کے مقابلہ کے ہر وقت تیار رہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافر لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہم سے بھاگ نکلے ہم ان کی پکڑ پر قادر نہیں بلکہ وہ ہر وقت ہمارے قبضہ قدرت میں ہیں وہ ہمیں ہرا نہیں سکتے اور آیت میں ہے برائیاں کرنے والے ہم سے آگے بڑھ نہیں سکتے۔ فرماتا ہے کافر ہمیں یہاں ہرا نہیں سکتے وہاں کا ٹھکانا آگ ہے جو بدترین جگہ ہے اور فرمان ہے کافروں کا شہروں میں آنا جانا چلنا پھرنا کہیں تجھے دھوکے میں نہ ڈال دے۔ یہ تو سب آنی جانی چیزیں ہیں ان کا ٹھکانا دوزخ ہے جو بدترین گود ہے۔ پھر مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی طاقت و امکان کے مطابق ان کفار کے مقابلے کے لیے ہر وقت مستعد رہو جو قوت طاقت گھوڑے، لشکر رکھ سکتے ہیں موجود رکھو۔ مسند میں ہے کہ حضور ﷺ نے منبر پر قوت کی تفسیر تیر اندازی سے کی اور دو مرتبہ یہی فرمایا تیر اندازی کیا کرو سواری کیا کرو اور تیر اندازی گھوڑ سواری سے بہتر ہے۔ فرماتے ہیں گھوڑوں کے پالنے والے تین قسم کے ہیں ایک تو اجر وثواب پانے والے، ایک نہ تو ثواب نہ عذاب پانے والے ایک عذاب بگھتنے والے۔ جو جہاد کے ارادے سے پالے اس کے گھوڑے کا چلنا پھرنا تیرنا، چگنا باعث ثواب ہے یہاں تک کہ اگر وہ اپنی رسی توڑ کر کہیں چڑھ جائے تو بھی اس کے نشانات قدم اور اس کی لید پر اسے نیکیاں ملتی ہیں کسی نہر پر گذارتے ہوئے وہ پانی پی لے اگرچہ مجاہد نے پلانے کا ارادہ نہ بھی کیا ہو تاہم اسے نیکیاں ملتی ہیں۔ پس یہ گھوڑا تو اس کے پالنے والے کے لیے بڑے اجرو ثواب کا ذریعہ ہے۔ اور جس شخص نے گھوڑا اس نیت سے پالا کہ وہ دوسروں سے بےنیاز ہوجائے پھر اللہ کا حق بھی اس کی گردن اور اس کی سواری میں نہیں بھولا یہ اس کے لیے جائز ہے یعنی نہ اسے اجر نہ اسے گناہ۔ تیسرا وہ شخص جس نے فخر و ریا کے طور پر پالا اور مسلمانوں کے مقابلے کے لیے وہ اس کے ذمے و بال ہے اور اس کی گردن پر بوجھ ہے آپ سے دریافت کیا گیا کہ اچھاگدھوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ فرمایا اس کے بارے میں کوئی آیت تو اتری نہیں ہاں یہ جامع عام آیت موجود ہے کہ جو شخص ایک ذرے کے برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ایک ذرے کے برابر بھی برائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں گھوڑے تین طرح کے ہیں۔ رحمان کے شیطان کے اور انسان کے۔ اس میں ہے کی شیطانی گھوڑے وہ ہیں جو گھوڑ دوڑ کی شرطیں لگانے اور جوئے بازی کرنے کے لیے ہوں۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ تیر اندازی گھوڑ سواری سے افضل ہے۔ امام مالک اس کے خلاف ہیں لیکن جمہور کا قول قوی ہے کہ کیونکہ حدیث میں آچکا ہے۔ حضرت معاویہ بن خدیج حضرت ابوذر کے پاس گئے اس وقت وہ اپنے گھوڑے کی خدمت کر رہے تھے پوچھا تمہیں یہ گھوڑا کیا کام آتا ہے ؟ فرمایا میرا خیال ہے کہ اس جانور کی دعا میرے حق میں قبول ہوگی۔ کہا جانور اور دعا ؟ فرمایا ہاں اللہ کی قسم ہر گھوڑا ہر صبح دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تو نے مجھے اپنے بندوں میں سے ایک کے حوالے کیا ہے تو مجھے اس کی تمام اہل سے اور مال سے اور اولاد سے زیادہ محبوب بنا کر اس کے پاس رکھ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ہر عربی گھوڑے کو ہر صبح دو دعائیں کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی بندھی ہوئی ہے گھوڑوں والے اللہ کی مدد میں ہیں اسے نیک نیتی سے جہاد کے ارادے سے پالنے والا ایسا ہے جیسے کوئی شخص ہر وقت ہاتھ بڑھاکر خیرات کرتا ہے۔ اور بھی حدیثیں اس بارے میں بہت سی ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں بھلائی کی تفصیل ہے کہ اجر اور غنیمت۔ فرماتا ہے اس سے تمہارے دشمن خوف زدہ اور ہیبت خوردہ رہیں گے ان ظاہری مقابلے کے دشمنوں کے علاوہ اور دشمن بھی ہیں یعنی بنو قریظہ، فارس اور محلوں کے شیاطین۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ اس سے مراد جنات ہیں۔ ایک منکر حدیث میں ہے جس گھر میں کوئی آزاد گھوڑا ہو وہ گھر کبھی بدنصیب نہیں ہوگا لیکن اس روایت کی تو سند ٹھیک ہے نہ یہ صحیح ہے۔ اور اس سے مراد منافق بھی لی گئی ہے۔ اور یہی قول زیادہ مناسب بھی ہے جیسے فرمان الٰہی ہے (وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ ڀ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ01001ۚ) 9۔ التوبہ :101) تمہارے چاروں طرف دیہاتی اور شہری منافق ہیں جنہیں تم نہیں جانتے لیکن ہم ان سے خوب واقف ہیں۔ پھر ارشاد ہے کہ جہاد میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا بدلہ پاؤ گے۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک درہم کا ثواب سات سو گنا کر کے ملے گا جیسے کہ (مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۭوَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ02601) 2۔ البقرة :261) اتری تو آپ نے فرمایا کہ وہ بھی جو سوال کرے چاہے وہ کسی دین کا ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ یہ روایت غریب ہے ابن ابی حاتم نے اسے روایت کیا ہے۔

اردو ترجمہ

اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دُوسرے اعداء کو خوف زدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaaAAiddoo lahum ma istataAAtum min quwwatin wamin ribati alkhayli turhiboona bihi AAaduwwa Allahi waAAaduwwakum waakhareena min doonihim la taAAlamoonahumu Allahu yaAAlamuhum wama tunfiqoo min shayin fee sabeeli Allahi yuwaffa ilaykum waantum la tuthlamoona

اردو ترجمہ

اور اے نبیؐ، اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو، یقیناً وہی سننے اور جاننے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain janahoo lilssalmi faijnah laha watawakkal AAala Allahi innahu huwa alssameeAAu alAAaleemu

جس قوم سے بد عہدی کا خوف ہو انہیں آگاہ کر کے عہد نامہ چاک کر دو فرمان ہے کہ جب کسی قوم کی خیانت کا خوف ہو تو برابری سے آگاہ کر کے عہد نامہ چاک کر ڈالو، لڑائی کی اطلاع کردو۔ اس کے بعد اگر وہ لڑائی پر آمادگی ظاہر کریں تو اللہ پر بھروسہ کر کے جہاد شروع کردو اور اگر وہ پھر صلح پر آمادہ ہوجائیں تو تم پھر صلح و صفائی کرلو۔ اسی آیت کی تعمیل میں حدیبیہ والے دن رسول کریم ﷺ نے مشرکین مکہ سے نو سال کی مدت کے لیے صلح کرلی جو شرائط کے ساتھ طے ہوئی۔ حضرت علی سے منقول ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عنقریب اختلاف ہوگا اور بہتر یہ ہے کہ ہو سکے تو صلح ہی کرلینا (مسند امام احمد) مجاہد کہتے ہیں یہ بنو قریظہ کے بارے میں اتری ہے لیکن یہ محل نظر میں ہے سارا قصہ بدر کا ہے۔ بہت سے بزرگوں کا خیال ہے کہ سورة براۃ کی آیت سے (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ 29؀) 9۔ التوبہ :29) سے منسوخ ہے کہ لیکن اس میں بھی نظر ہے کیونکہ اس آیت میں جہاد کا حکم طاقت و استطاعت پر ہے لیکن دشموں کی زیادتی کے وقت ان سے صلح کرلینا بلاشک و شبہ جائز ہے جیسے کہ اس آیت میں ہے اور جیسے کہ حدیبیہ کی صلح اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے کی۔ پس اس کے بارے میں کوئی نص اس کے خلاف یا خصوصیت یا منسوخیت کی نہیں آئی واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے اللہ پر بھروسہ رکھ وہی تجھے کافی ہے وہی تیرا مددگار ہے۔ اگر یہ دھوکہ بازی کر کے کوئی فریب دینا چاہتے ہیں اور اس درمیان میں اپنی شان و شوکت اور آلات جنگ بڑھانا چاہتے ہیں تو تو بےفکر رہ اللہ تیرا طرف دار ہے اور تجھے کافی ہے اس کے مقابلے کا کوئی نہیں پھر اپنی ایک اعلیٰ نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ مہاجرین و انصار سے صرف اپنے فضل سے تیری تائید کی۔ انہیں تجھ پر ایمان لانے تیری اطاعت کرنے کی توفیق دی۔ تیری مدد اور تیری نصرت پر انہیں آمادہ کیا۔ اگرچہ آپ روئے زمین کے تمام خزانے خرچ کر ڈالتا لیکن ان میں وہ الفت وہ محبت پیدا نہ کرسکتا جو اللہ نے خود کردی۔ ان کی صدیوں پرانی عداوتیں دور کردیں اور اوس و خزرج انصار کے دونوں قبیلوں میں جاہلیت میں آپس میں خوب تلوار چلا کرتی تھی۔ نور ایمان نے اس عداوت کو محبت سے بدل دیا۔ جیسے قرآن کا بیان ہے کہ اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ تم آپس میں اپنے دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل ملادئیے اور اپنے فضل سے تمہیں بھائی بھائی بنادیا تم جہنم کے کنارے تک پہنچ گئے تھے لیکن اس نے تمہیں بچالیا۔ اللہ تعالیٰ تمہاری ہدایت کے لیے اسی طرح اپنی باتیں بیان فرماتا ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت رسول اللہ ﷺ نے انصار سے فرمایا کہ اے انصاریو کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں پاکر اللہ کی عنایت سے تمہیں راہ راست نہیں دکھائی ؟ کیا تم فقیر نہ تھے ؟ اللہ تعالیٰ نے تمہیں میری وجہ سے امیر کردیا جدا جدا تھے اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہارے دل ملا دیئے۔ آپ کی ہر بات پر انصاف کہتے جاتے تھے کہ بیشک اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا اس سے بھی زیادہ احسان ہم پر ہے۔ الغرض اپنے اس انعام و اکرام کو بیان فرما کر اپنی عزت و حکمت کا اظہار کیا کہ وہ بلند جناب ہے اس سے امید رکھنے والا ناامید نہیں رہتا اس پر توکل کرنے والا سرسبز رہتا ہے اور اپنے کاموں میں اپنے حکموں میں حکیم ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس سے قرابت داری کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور یہ تب ہوتا ہے جب نعمت کی ناشکری کی جاتی ہے۔ جناب باری سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر روئے زمین کے خزانے بھی ختم کردیتا تو تیرے بس میں نہ تھا کہ ان کے دل ملا دے۔ شاعر کہتا ہے تجھ سے دھوکا کرنے والا تجھ سے بےپرواہی برتنے والا تیرا رشتے دار نہیں بلکہ تیرا حقیقی رشتے دار وہ ہے جو تیری آواز پر لبیک کہے اور تیرے دشمنوں کی سرکوبی میں تیرا ساتھ دے۔ اور شاعر کہتا ہے میں نے تو خوب مل جل کر آزما کر دیکھ لیا کہ قرابت داری سے بھی بڑھ کر دلوں کا میل جول ہے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں میں نہ جان سکا کہ یہ سب قول ابن عباس کا ہے یا ان سے نیچے کے راویوں میں سے کسی کا ہے۔ ابن مسعود فرماتے ہیں ان کی یہ محبت راہ حق میں تھی توحید و سنت کی بنا پر تھی۔ ابن عباس فرماتے ہیں رشتے داریاں ٹوٹ جاتی ہیں احسان کی بھی ناشکری کردی جاتی ہے لیکن جب اللہ کی جانب سے دل ملا دیئے جاتے ہیں انہیں کوئی جدا نہیں کرسکتا ہے پھر آپ نے اسی جملے کی تلاوت فرمائیں۔ عبدہ بن ابی لبابہ فرماتے ہیں میری حضرت مجاہد ؒ سے ملاقات ہوئی آپ نے مجھ سے مصافحہ کر کے فرمایا کہ جب دو شخص اللہ کی راہ میں محبت رکھنے والے آپس میں ملتے ہیں ایک دوسرے خندہ پیشانی سے ہاتھ ملاتے ہیں تو دونوں کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت کے خشک پتے میں نے کہا یہ کام تو بہت آسان ہے فرمایا یہ نہ کہو یہی الفت وہ ہے جس کی نسبت جناب باری فرماتا ہے کہ اگر روئے زمین کے خزانے خرچ کر دے تو بھی یہ تیرے بس کی بات نہیں کہ دلوں میں الفت و محبت پیدا کردے۔ ان کے اس فرمان سے مجھے یقین ہوگیا کہ یہ مجھ سے بہت زیادہ سمجھ دار ہیں۔ ولید بن ابی مغیث کہتے ہیں میں نے حضرت مجاہد سے سنا کہ جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں میں نے پوچھا صرف مصافحہ سے ہی ؟ تو آپ نے فرمایا کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ پھر آپ نے اسی جملے کی تلاوت کی۔ تو حضرت ولید نے فرمایا تم مجھ سے بہت بڑے عالم ہو۔ عمیر بن اسحاق کہتے ہیں سب سے پہلے چیز جو لوگوں میں سے اٹھ جائے گی و الفت و محبت ہے۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی سے مل کر اس سے مصافحہ کرتا ہے تو دونوں کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت کے خشک پتے ہوا سے۔ ان کے سب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں گوہ وہ سمندر کی جھاگ جتنے ہوں۔

184