سورۃ الانبیاء: آیت 78 - وداوود وسليمان إذ يحكمان في... - اردو

آیت 78 کی تفسیر, سورۃ الانبیاء

وَدَاوُۥدَ وَسُلَيْمَٰنَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِى ٱلْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ ٱلْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَٰهِدِينَ

اردو ترجمہ

اور اِسی نعمت سے ہم نے داؤدؑ اورسلیمانؑ کو سرفراز کیا یاد کرو وہ موقع جبکہ وہ دونوں ایک کھیت کے مقدمے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں رات کے وقت دُوسرے لوگوں کی بکریاں پھیل گئی تھیں، اور ہم اُن کی عدالت خود دیکھ رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wadawooda wasulaymana ith yahkumani fee alharthi ith nafashat feehi ghanamu alqawmi wakunna lihukmihim shahideena

آیت 78 کی تفسیر

وداود و سلیمن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وکنا لھم حفظین (87 : 28) ”

کھیت کا وہ کیا قصہ تھا جس کے بارے میں حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیھما السلام نے فیصلہ کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ دو آدمی حضرت دائود کے پاس آئے۔ ایک کھیت کا مالک تھا یعنی فصل کا اور انگور کے باغ کا اور دوسرا بکریوں کا ۔ کھیت کے مالک نے کہا کہ اس شخص کی بکریاں رات کے وقت میرے کھیت میں پھیل گئیں اور انہوں نے سب کچھ کھالیا اور کھیت میں کچھ نہ رہا۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے فیصلہ دیا کہ وہ باغ کے بدلے اس شخص کی بکریاں لے لے۔ بکریوں والے صاحب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس گئے اور ان کے سامنے قصہ دہرایا اور انہیں بتایا کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے تو یہ فیصلہ دے دیا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) والد کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی فیصلہ وہ نہیں ہے جو آپ نے کیا ہے۔ انہوں نے کہا وہ کیسے ؟ انہوں نے کہا آپ یہ بکریاں کھیت یا باغ والے شخص کے حوالے کردیں تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے اور کھیت بکریوں کے مالک کو دے دیں تاکہ وہ کھیت میں کام کرے اور اسی حالت میں لے آئے جس طرح تھا۔ اس کے بعدہر شخص وہ چیز دوسرے کو دے دے جو اسکے پاس ہے۔ کھیت والا کھیت لے لے اور بکریوں والا بکریاں لے لے۔ تو حضرت دائود (علیہ السلام) نے کہا ‘ ٹھیک فیصلہ وہی ہے جو آپ نے کیا۔ انہوں نے سلیمان (علیہ السلام) کے فیصلے کو نافذ کردیا۔

یاد رہے کہ حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیھما السلام نے جج کے طور پر اجتہادی فیصلہ کیا تھا۔ اللہ بھی ان کے فیصلے کو دیکھ رہا تھا۔ اللہ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو زیادہ مناسب اور مضبوط فیصلہ الہام کردیا اور سلیمان اسے جس طرح سمجھے وہ زیادہ اچھا تھا۔

حضرت دائود (علیہ السلام) نے نقصان کا محض تاوان ادا کرنے کی طرف خیال کیا۔ یہ تھا فقط انصاف۔ لیکن حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے عدل کے ساتھ تعمیر و ترقی کا بھی خیال رکھا اور عدل کے نتیجے میں فریقین کو تعمیر و ترقی کے کام پر لگا دیا۔ عدل کی یہ دوسری صورت زیادہ مثبت ‘ مفید اور تعمیری ہے اور یہ اللہ کی توفیق اور الہام ہے کہ وہ جسے چاہے دے دے۔

حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیھما السلام دونوں کو حکم ‘ علم اور فیصلے کے اختیار ات تھے۔

وکلا اتینا حکما وعلما (12 : 97) ” حکم اور علم ہم نے دونوں کو عطا کیا تھا “۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کے فیصلے میں کوئی غلطی نہتھی لیکن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا فیصلہ زیادہ اچھا تھا کیونکہ وہ الہام کے نتیجے میں ہوا تھا۔

اس کے بعد قرآن مجید ان مخصوص امور کا ذکر کرتا ہے جو حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیھما السلام کو علیحدہ علیحدہ دیئے گئے تھے ‘ پہلے حضرت دائود علیہ السلام۔

وسخرنا۔۔۔۔۔۔۔۔ وکنا فعلین (12 : 97) وعلمنہ صنعۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکرون (12 : 08) ” اور دائود کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا تھا جو تسبیح کرتے تھے ‘ اس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے اور ہم نے اس کو تمہارے فائدے کے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی تھی ‘ تاکہ تم کو ایک دوسرے کی مار سے بچائے ‘ پھر کیا تم شکر گزار ہو ؟ “

حضرت دائود (علیہ السلام) کے مزا میر مشہور ہیں۔ یہ اللہ کی حمد تھی جو وہ نہایت یہ خوش الحانی سے پڑھتے تھے۔ ان کی آواز کی گونج سے انکا ماحول بھر جاتا تھا اور انکے ساتھ پہاڑ اور پرندے بھی اسے دہراتے تھے۔

جب کسی بندے کا دل اپنے رب سے جڑ جاتا ہے تو وہ یوں محسوس کرتا ہے کہ وہ اس پوری کائنات کے ساتھ یکجا ہوگیا ہے اور اس پوری کائنات کا دل میرے ساتھ دھڑکتا ہے اور وہ تمام رکاوٹیں اور پردے ہٹ جاتے ہیں جو اللہ کی مخلوقات کے مختلف انواع واجناس کے درمیان اس دوئی کے شعور کی وجہ سے فاصلے پیدا ہوجاتے ہیں۔ جب انسان اس مقام پر پہنچ جائے تو ان تمام انواع کے ضمیر اس کائنات کے ضمیر کے ساتھ مل جاتے ہیں۔

بعض لمحات میں ایک ایسی روشنی سامنے آتی ہے کہ روح یہ محسوس کرتی ہے کہ وہ اس کائنات کے ساتھ ایک ہے۔ اس کے اندر سب کچھ آگیا ہے ‘ ایسے لمحات میں روح یہ نہیں محسوس کرتی کہ اس سے باہر بھی کچھ ہے۔ وہ یہ بھی محسوس نہیں کرتی کہ وہ اپنے ماحول سے علحدہ ہے۔ پورا ماحول روح انسانی میں گم اور انسان اپنے ماحول میں گم ہوجاتا ہے۔

نص قرآنی سے ہماری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) خوش الحانی سے حمد پڑھتے تھے تو وہ اپنے ممتزیز ‘ مفصل اور مخصوص مقام میں موجود نفس کو بھول جاتے تھے۔ ان کی روح اس سایہ ربی میں چلی جاتی تھی جو اس کائنات پر سایہ لگن ہے۔ اس پوری کائنات پر خواہ وہ جمامد مخلوق ہو یا زندہ ‘ اس طرح حضرت دائود محسوس کرتے ھتے کہ انکے ساتھ یہ پوری کائنات حمد خواں ہے۔ اور جس طرح وہ ثنا خواں ہیں اس طرح وہ بھی ثنا خواں ہے۔ پھر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوری کائنات ایک کورس کی شکل میں ‘ ایک گروپ کی طرح اللہ کی حمد و ثنا اور تسبیح و تہلیل گا رہی ہے۔

وان من شیئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تسبیحھم ” جو چیز بھی ہے وہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے لیکن تم اس کی تسبیح کو نہیں سمجھتے “۔ اور اس تسبیح کو وہی شخص سمجھتا ہے جس کے سامنے سے پردے ہٹ جائیں ‘ فاصلے مٹ جائیں اور وہ روح کا ئنات اور ارواح کون ومکان کے ساتھ چلتا ہو ‘ جو سب کی سب اللہ کی سمت میں رخ کیے ہوئے ہیں۔

وسخرنا۔۔۔۔۔۔۔۔ وکنا فعلین (12 : 97) ” اور ہم نے دائود کے ساتھ پاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا جو تسبیح کرتے تھے اور اس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے “۔ اللہ کے لیے مشکل ہی کیا ہے ؟ یا کیا کوئی چیز اللہ کے حکم سے سرتابی کرسکتی ہے جب اللہ چاہے۔ چاہے وہ لوگوں کے ہاں ہوا کرتی ہے یا نہیں ہوا کرتی۔

آیت 78 وَدَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْکُمٰنِ فِی الْْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ ج ”کسی شخص نے اپنی کھیتی میں بڑی محنت سے فصل تیار کی تھی مگر کسی دوسرے قبیلے کی بکریوں کے ریوڑ نے کھیت میں گھس کر تمام فصل تباہ کردی۔ اب یہ مقدمہ حضرت داؤد علیہ السلام کی عدالت میں پیش ہوا۔

ایک ہی مقدمہ میں داؤد ؑ اور سلیمان ؑ کے مختلف فیصلے۔ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں یہ کھیتی انگور کی تھی جس کے خوشے لٹک رہے تھے نفشت کے معنی ہیں رات کے وقت جانوروں کے چرنے کے۔ اور دن کے وقت چرنے کو عربی میں ہمل کہتے ہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں اس باغ کو بکریوں نے بگاڑ دیا، حضرت داؤد ؑ نے یہ فیصلہ کیا کہ باغ کے نقصان کے بدلے یہ بکریاں باغ والے کو دے دی جائیں۔ حضرت سلیمان ؑ نے یہ فیصلہ سن کر عرض کی کہ اے اللہ کے نبی ؑ اس کے سوا بھی فیصلے کی کوئی صورت ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ کیا ؟ جواب دیا کہ بکریاں باغ والے کے حوالے کردی جائیں وہ ان سے فائدہ اٹھاتا رہے اور باغ بکری والے کو دے دیا جائے یہ اس میں انگور کی بیلوں کی خدمت کرے یہاں تک کہ بیلیں ٹھیک ٹھاک ہوجائیں انگور لگیں اور پھر اسی حالت پر آجائیں جس پر تھے تو باغ والے کو اس کا باغ سونپ دے اور باغ والا اسے اس کی بکریاں سونپ دے۔ یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ ہم نے اس جھگڑے کا صحیح فیصلہ حضرت سلیمان ؑ کو سمجھا دیا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں حضرت داؤد ؑ کا یہ فیصلہ سن کر بکریوں والے اپنا سا منہ لے کر صرف کتوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے واپس جا رہے تھے حضرت سلیمان ؑ نے انہیں دیکھ کر دریافت کیا کہ تمہارا فیصلہ کیا ہوا ؟ انہوں نے خبردی تو آپ نے فرمایا اگر میں اس جگہ ہوتا تو یہ فیصلہ نہ دیتا بلکہ کچھ اور فیصلہ کرتا حضرت داؤد ؑ کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے انہیں بلوایا اور پوچھا کہ بیٹے تم کیا فیصلہ کرتے ؟ آپ نے وہی اوپر والا فیصلہ سنایا۔ حضرت مسروق ؒ فرماتے ہیں ان بکریوں نے خوشے اور پتے سب کھالئے تھے۔ تو حضرت داؤد ؑ کے فیصلے کے خلاف حضرت سلیمان ؑ نے فیصلہ دیا کہ ان لوگوں کی بکریاں باغ والوں کو دے دی جائیں اور یہ باغ انہیں سونپا جائے جب تک باغ اپنی اصلی حالت پر آئے تب تک بکریوں کے بچے اور ان کا دودھ اور ان کا کل نفع باغ والوں کا۔ پھر ہر ایک کو ان کی چیز سونپ دی جائے۔ قاضی شریح ؒ کے پاس بھی ایک ایسا ہی جھگڑا آیا تو آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر دن کو بکریوں نے نقصان پہنچایا ہے تب تو کوئی معاوضہ نہیں۔ اور اگر رات کو نقصان پہنچایا ہے تو بکریوں والے ضامن ہیں۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضرت برا بن عازب ؓ کی اونٹنی کسی باغ میں چلی گئی اور وہاں باغ کا بڑا نقصان کیا تو رسول اللہ ﷺ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ باغ والوں پر دن کے وقت باغ کی حفاظت ہے اور جو نقصان جانوروں سے رات کو ہو اس کا جرمانہ جانور والوں پر ہے اس حدیث میں علتیں نکالی گئی ہیں اور ہم نے کتاب الاحکام میں اللہ کے فضل سے اس کی پوری تفصیل بیان کردی ہے۔ مروی ہے کہ حضرت ایاس بن معاویہ ؒ سے جب کہ قاضی بننے کی درخواست کی گئی تو وہ حسن ؒ کے پاس آئے اور روئے۔ پوچھا گیا کہ ابو سعید آپ کیوں روتے ہیں ؟ فرمایا مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ اگر قاضی نے اجتہاد کیا پھر غلطی کی وہ جہنمی ہے اور جو خواہش نفس کی طرف جھک گیا وہ بھی جہنمی ہے ہاں جس نے اجتہاد کیا اور صحت پر پہنچ گیا وہ جنت میں پہنچا۔ حضرت حسن یہ سن کر فرمانے لگے سنو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی قضاۃ کا ذکر فرمایا ہے ظاہر ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اعلیٰ منصب پر ہوتے ہیں، ان کے قول سے ان لوگوں کی باتیں رد ہوسکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کی تعریف تو بیان فرمائی ہے لیکن حضرت داؤد ؑ کی مذمت بیان نہیں فرمائی۔ پھر فرمانے لگے سنو تین باتوں کا عہد اللہ تعالیٰ نے قاضیوں سے لیا ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ منصفین شرع دینوی نفع کی وجہ سے بدل نہ دیں، دوسرے یہ کہ اپنے دلی ارادوں اور خواہشوں کے پیچھے نہ پڑجائیں، تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی (يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاس بالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ 26؀) 38۔ ص :26) یعنی اے داؤد ہم نے تجھے زمین کا خلیفہ بنایا ہے تو لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلے کرتا رہ خواہش کے پیچے نہ پڑ کہ اللہ کی راہ سے بہک جائے۔ اور ارشاد ہے آیت (فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ 44؀) 5۔ المآئدہ :44) لوگوں سے نہ ڈرو مجھی سے ڈرتے رہا کرو اور فرمان ہے آیت (وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا وَاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ 41؀) 2۔ البقرة :41) میری آیتوں کو معمولی نفع کی خاطر بیچ نہ دیا کرو۔ میں کہتا ہوں انبیاء (علیہم السلام) کی معصومیت میں اور ان کی منجانب اللہ ہر وقت تائید ہوتے رہنے میں تو کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ رہے اور لوگ تو صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جب حاکم اجتہاد اور کوشش کرے پھر صحت تک بھی پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور جب پوری کوشش کے بعد بھی غلطی کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ یہ حدیث صاف بتلا رہی ہے کہ حضرت ایاس ؒ کو جو وہم تھا کہ باوجود پوری جدوجہد کے بھی خطا کرجائے تو دوزخی ہے یہ غلط ہے، واللہ اعلم۔ سنن کی اور حدیث میں ہے قاضی تین قسم کے ہیں ایک جنتی دو جہنمی اور جس نے حق کو معلوم کرلیا اور اسی سے فیصلہ کیا وہ جنتی۔ اور جس نے جہالت کے ساتھ فیصلہ کیا وہ جہنمی اور جسنے حق کو جانتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ دیا وہ بھی جہنمی۔ قرآن کریم کے بیان کردہ اس واقعے کے قریب ہی وہ قصہ ہے جو مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں دو عورتیں تھیں جن کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے بھیڑیا آکر ایک بچے کو اٹھا لے گیا اب ہر ایک دوسری سے کہنے لگی کہ تیرا بچہ گیا اور جو ہے وہ میرا بچہ ہے۔ آخر یہ قصہ حضرت داؤد ؑ کے سامنے پیش ہوا۔ آپ نے بڑی عورت کو ڈگری دے دی کہ یہ بچہ تیرا ہے یہ یہاں سے نکلیں راستے میں حضرت سلیمان ؑ تھے آپ نے دونوں کو بلایا اور فرمایا چھری لاؤ میں اس لڑکے کے دو ٹکڑے کرکے آدھا آدھا دونوں کو دے دیتا ہوں اس پر بڑی تو خاموش ہوگئی لیکن چھوٹی نے ہائے واویلا شروع کردیا کہ اللہ آپ پر رحم کرے آپ ایسا نہ کیجئے یہ لڑکا اسی بڑی کا ہے اسی کو دے دیجئے۔ حضرت سلیمان ؑ معاملے کو سمجھ گئے اور لڑکا چھوٹی عورت کو دلادیا۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے امام نسائی ؒ نے اس پر باب باندھا ہے کہ حاکم کو جائز ہے کہ اپنا فیصلہ اپنے دل میں رکھ کر حقیقت کو معلوم کرنے کے لئے اس کے خلاف کچھ کہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ابن عساکر میں ہے کہ ایک خوبصورت عورت سے ایک رئیس نے ملنا چاہا لیکن عورت نے نہ مانا اسی طرح تین اور شخصوں نے بھی اس سے بدکاری کا ارادہ کیا لیکن وہ باز رہی۔ اس پر وہ رؤسا خار کھا گئے اور آپس میں اتفاق کرکے حضرت داؤد ؑ کی عدالت میں جاکر سب نے گواہی دی کہ وہ عورت اپنے کتے سے ایسا کام کرتی ہے چاروں کے متفقہ بیان پر حکم ہوگیا کہ اسے رجم کردیا جائے۔ اسی شام کو حضرت سلیمان ؑ اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر خود حاکم بنے اور چار لڑکے ان لوگوں کی طرح آپ کے پاس اس مقدمے کو لائے اور ایک عورت کی نسبت یہی کہا۔ حضرت سلیمان ؑ نے حکم دیا ان چاروں کو الگ الگ کردو۔ پھر ایک کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ اس کتے کا رنگ کیسا تھا ؟ اس نے کہا سیاہ۔ پھر دوسرے کو تنہا بلایا اس سے بھی یہی سوال کیا اس نے کہا سرخ۔ تیسرے نے کہا خاکی۔ چوتھے نے کہا سفید آپ نے اسی وقت فیصلہ دیا کہ عورت پر یہ نری تہمت ہے اور ان چاروں کو قتل کردیا جائے۔ حضرت داؤد ؑ کے پاس بھی یہ واقعہ بیان کیا گیا۔ آپ نے اسی وقت فی الفور ان چاروں امیروں کو بلایا اور اسی طرح الگ الگ ان سے اس کتے کا رنگ کی بابت سوال کیا۔ یہ گڑبڑا گئے کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ کہا۔ آپ کو ان کا جھوٹ معلوم ہوگیا اور حکم فرمایا کہ انہیں قتل کردیا جائے۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ حضرت داؤد ؑ کو وہ نورانی گلا عطا فرمایا گیا تھا اور آپ ایسی خوش آوازی اور خلوص کے ساتھ زبور پڑھتے تھے کہ پرند بھی اپنی پرواز چھوڑ کر تھم جاتے تھے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے لگتے تھے اسی طرح پہاڑ بھی۔ ایک روایت میں ہے کہ رات کے وقت حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ تلاوت قرآن کریم کررہے تھے رسول اللہ ﷺ ان کی میٹھی رسیلی اور خلوص بھری آواز سن کر ٹھہر گئے اور دیر تک سنتے رہے پھر فرمانے لگے یہ تو آل داؤد کی آوازوں کی شیرینی دیئے گئے ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو جب معلوم ہوا تو فرمانے لگے کہ یارسول اللہ ﷺ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ حضور ﷺ میری قرأت سن رہے ہیں تو میں اور بھی اچھی طرح پڑھتا۔ حضرت ابو عثمان نہدی ؓ فرماتے ہیں میں نے تو کسی بہتر سے بہتر باجے کی آواز میں بھی وہ مزہ نہیں پایا جو حضرت موسیٰ اشعری ؓ کی آواز میں تھا۔ پس اتنی خوش آوازی کو حضور ﷺ نے حضرت داؤد ؑ کی خوش آوازی کا ایک حصہ قرار دیا۔ اب سمجھ لیجئے کہ خود داؤد ؑ کی آواز کیسی ہوگی ؟ پھر اپنا ایک اور احسان بتاتا ہے کہ حضرت داؤد ؑ کو زرہیں بنانی ہم نے سکھا دی تھیں۔ آپ کے زمانے سے پہلے بغیر کنڈلوں اور بغیر حلقوں کی زرہ بنتی تھیں۔ کنڈلوں دار اور حلقوں والی زرہیں آپ نے ہی بنائیں۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ ہم نے حضرت داؤد ؑ کے لئے لوہے کو نرم کردیا تھا کہ وہ بہترین زرہ تیار کریں اور ٹھیک انداز سے ان میں حلقے بنائیں۔ یہ زرہیں میدان جنگ میں کام آتی تھیں۔ پس یہ نعمت وہ تھی جس پر لوگوں کو اللہ کی شکرگزاری کرنی چاہے۔ ہم نے زورآور ہوا کو حضرت سلیمان ؑ کے تابع کردیا تھا جو انہیں ان کے فرمان کے مطابق برکت والی زمین یعنی ملک شام میں پہنچا دیتی تھی۔ ہمیں ہر چیز کا علم ہے۔ آپ اپنے تخت پر مع اپنے لاؤ لشکر اور سامان اسباب کے بیٹھ جاتے تھے۔ پھر جہان جانا چاہتے ہوا آپ کو آپ کے فرمان کے مطابق گھڑی بھر میں وہاں پہنچا دیتی۔ تخت کے اوپر سے پرند پر کھولے آپ پر سایہ ڈالتے جیسے فرمان ہے آیت (فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيْحَ تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖ رُخَاۗءً حَيْثُ اَصَابَ 36؀ۙ) 38۔ ص :36) یعنی ہم نے ہوا کو ان کا تابع کردیا کہ جہان پہنچنا چاہتے ان کے حکم کے مطابق اسی طرف نرمی سے لے چلتی۔ صبح شام مہینہ مہینہ بھر کی راہ کو طے کرلیتی۔ حضرت سعید بن جبیر ؒ فرماتے ہیں کہ چھ ہزار کرسی لگائی جاتی۔ آپ کے قریب مومن انسان بیٹھتے ان کے پیچھے مومن جن ہوتے۔ پھر آپ کے حکم سے سب پر پرند سایہ کرتے پھر حکم کرتے تو ہوا آپ کو لے چلتی۔ عبداللہ بن عبید بن عمیر ؒ فرماتے ہیں حضرت سلیمان ؑ کو حکم دیتے وہ مثل بڑے تودے کے جمع ہوجاتی گویا پہاڑ ہے پھر اس کے سب سے بلند مکان پر فرش افروز ہونے کا حکم دیتے پھر پہردار گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے فرش پر چڑھ جاتے پھر ہوا کو حکم دیتے وہ آپ کو بلندی پر لے جاتی آپ اس وقت سرنیچا کرلیتے دائیں بائیں بالکل نہ دیکھتے اس میں آپ کی تواضع اور اللہ کی شکر گزاری مقصود ہوتی تھی۔ کیونکہ آپ کو اپنی فروتنی کا علم تھا۔ پھر جہاں آپ حکم دیتے وہیں ہوا آپ کو اتار دیتی۔ اسی طرح سرکش جنات بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کے قبضے میں کردیئے تھے جو سمندروں میں غوطے لگا کرموتی اور جواہر وغیرہ نکال لایا کرتے تھے اور بھی بہت سے کام کاج کرتے تھے جیسے فرمان ہے آیت (وَالشَّيٰطِيْنَ كُلَّ بَنَّاۗءٍ وَّغَوَّاصٍ 37؀ۙ) 38۔ ص :37) ہم نے سرکش جنوں کو ان کا ماتحت کردیا تھا جو معمار تھے اور غوطہ خور۔ اور ان کے علاوہ اور شیاطین بھی ان کے ماتحت تھے جو زنجیروں میں بندھے رہتے تھے اور ہم ہی سلیمان کے حافظ ونگہبان تھے کوئی شیطان انہیں برائی نہ پہنچا سکتا تھا بلکہ سب کے سب ان کے ماتحت فرماں بردار اور تابع تھے کوئی ان کے قریب بھی نہ پھٹک سکتا تھا کی آپ کی حکمرانی ان پر چلتی تھی جسے چاہتے قید کرلیتے جسے چاہتے آزاد کردیتے اسی کو فرمایا کہ اور جنات تھے جو جکڑے رہا کرتے تھے۔

آیت 78 - سورۃ الانبیاء: (وداوود وسليمان إذ يحكمان في الحرث إذ نفشت فيه غنم القوم وكنا لحكمهم شاهدين...) - اردو