سورۃ الانعام: آیت 98 - وهو الذي أنشأكم من نفس... - اردو

آیت 98 کی تفسیر, سورۃ الانعام

وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٰحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا ٱلْءَايَٰتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ

اردو ترجمہ

اور وہی ہے جس نے ایک متنفس سے تم کو پید ا کیا پھر ہر ایک کے لیے ایک جائے قرار ہے اور ایک اس کے سونپے جانے کی جگہ یہ نشانیاں ہم نے واضح کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahuwa allathee anshaakum min nafsin wahidatin famustaqarrun wamustawdaAAun qad fassalna alayati liqawmin yafqahoona

آیت 98 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 98۔

اب یہ چٹکی براہ راست ہے ‘ اور یہ ٹچ نفس انسانی اور ذات انسانی کو دیا جاتا ہے ۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے انسان ایک ہی نفس سے پیدا کئے گئے ہیں کیونکہ مرد اور عورت اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی ہیں ۔ لہذا پوری بشریت ایک حقیقت واحدہ ہے مرد و عورت کے درمیان زندگی کا آغاز تناسل کے خلیہ سے شروع ہوتا ہے ۔ مثلا خلیہ جب صلب پدر میں ہوتا ہے تو وہ جائے قرار میں ہوتا ہے ۔ جب وہی خلیہ رحم مادر میں جاتا ہے تو وہ اس کے لئے سپردگی کی جگہ ہے اس کے بعد زندگی بڑھتی ہے اور پھیل جاتی ہے اور مختلف نسلوں اور رنگوں میں تقسیم ہوجاتی ہے ۔ مختلف گروہوں اور زبانوں میں بٹ جاتی ہے مختلف اقوام وقبائل میں تقسیم ہوجاتی ہے اور اس زندگی کے اس قدر نمونے بن جاتے ہیں جن کا گننا مشکل ہوجاتا ہے پھر زندگی کے اس قدر کلچر وجود میں آجاتے ہیں کہ زندگی موجود رہے گی آتے رہیں گے ۔

(نفس واحدہ سے مراد میں نے نفس انسانیت لیا ہے اس لئے کہ مجھے اس بارے میں قابل اعتماد حدیث نہیں ملی کہ حوا آدم سے پیدا

کیا گیا)

(آیت) ” قَدْ فَصَّلْنَا الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (97)

” دیکھو ہم نے نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیں ‘ ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں “۔

یہاں فقیہ وہ شخص ہوگا ‘ جو اس نفس انسانی کی تخلیق کے بارے میں اللہ کی کاریگری کا ادراک رکھتا ہو اور پھر اس بات میں مہارت رکھتا ہو کہ ایک انسان آگے جا کر کن کن کلچروں اور نمونوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور یوں انسان ایک نفس کو بذریعہ نسل آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے ۔ اس عمل سے بیشمار مرد اور عورتیں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور انسانی آبادی بڑھتی رہتی ہے ۔ یہ تمام کام اللہ کی اس حکمت کے نتیجے میں پورا ہوتا ہے جسے اس نے نظام زوجیت کے ذریعے فرض قرار دیا ۔ جس کے ذریعے آبادی بڑھتی ہے ‘ بچوں کی نشوونما دائرہ انسانیت کے اندر ہوتی ہے اور وہ آئندہ زندگی میں وظیفہ انسانیت ادا کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ۔

ہم یہاں ظلال القرآن میں اس موضوع کی پوری تفصیلات نہیں دے سکتے جس سے انسانیت کے دونوں اصناف کے درمیان تمام تعلقات کو زیر بحث لا سکیں ۔ اس کے لئے تو علیحدہ ایک کتاب کی ضرورت ہے ۔

(دیکھئے کتاب خصائص التصور الاسلامی میں بحث حقیقۃ الحیاۃ)

لیکن یہاں اس قدر تذکرے کی بہرحال ضرورت ہے کہ نطفے سے مرد اور عورت کس طرح پیدا ہوجاتے ہیں اور کس طرح ایک غیبانی قوت اور قدرت الہی مرد اور عورتوں کی تعداد کو برابر رکھتی ہے تاکہ آئندہ نسل کشی کے لئے اور سلسلہ توالد وتکاثر کو جاری رکھنے کے لئے مناسب انتظام ہو ۔ اس سے قبل ہم نے آیت ۔

(آیت) ” وعندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا الا ھو “۔ (6 : 59) کی تفسیر میں کہا تھا کہ مرد کے مادہ منویہ کے اندر جو کروموسوم ہوتے ہیں اور جب ان کا التفاء عورت کے انڈے کے ساتھ ہوتا ہے تو اس وقت صرف تقدیر الہی ہوتی ہے جو مذکر کروموسوم کو مؤنث کروموسوم پر ترجیح دیتی ہے یا اس کے برعکس فیصلہ کرتی ہے اور یہ ترجیح از جانب تقدیر الہی غیب الہی ہے ۔ اس معاملے میں کسی انسان کو کوئی اختیار نہیں ہے ۔

یہ تقدیر فیصلہ کرتی ہے اور کسی کو لڑکا عطا ہوتا ہے اور کسی کو لڑکی ۔ یہ تقدیر تمام روئے زمین پر مردوں اور عورتوں کی تعداد کے اندر مطلوب توازن کو برقرار رکھتی کہ کس قدر مرد درکار ہیں اور کس قدر عورتیں ۔ چناچہ آج تک پوری انسانیت کی سطح پر اس توازن کے اندر کوئی فرق نہیں پڑا اور اس توازن کے ذریعے سلسلہ توالد وتکاثر آج تک جاری وساری ہے ۔ یہ درست ہے کہ اگر مرد کم ہوں تو بھی توالد وتکاثر کا سلسلہ جاری رہ سکتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اسکیم کا مطلب فقط یہ تھا کہ انسانوں کے درمیان نہ صرف نسل کشی کا انتظام کر دیاجائے بلکہ ساتھ یہ بھی مطلوب تھا کہ حیوانی سطح سے اوپر جا کر انسان کی ازدواجی زندگی میں توازن اور استحکام پیدا ہو ‘ کیونکہ اس استحکام کے بغیر مقاصد انسانیت کی تکمیل ممکن نہ ہوتی ۔ ان میں سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ ماں باپ کی پرورش کے بغیر بچوں کی تربیت اسلامی خطوط پر ممکن نہ تھی یعنی ایک خاندان کی خوشگوار فضا کے اندر تاکہ یہ بچے آئندہ زندگی میں اپنا انسانی کردار ادا کرسکیں ۔ صرف یہ نہ ہو کہ بچے ایک حیوان کی طرح مادی زندگی کے لحاظ سے بلوغ تک پہنچ جائیں ۔ انسانی کردار یہ بچے تب ہی ادا کرسکتے ہیں جب یہ ایک پرسکون خاندانی زندگی میں ماں اور باپ دونوں کی پرورش میں ایک طویل عرصے تک رہیں کیونکہ انسانی بچہ حیوانات کے مقابلے میں ایک طویل عرصے تک بچپن میں ہوتا ہے اور محتاج ہوتا ہے ۔

مرد اور عورتوں کی تعداد کے درمیان یہ توازن اس بات پر کافی وشافی دلیل ہے کہ اس کائنات میں خالق کائنات کی تدبیر ‘ حکمت اور اس کی تقدیر کس طرح ہر وقت کارفرما ہے لیکن یہ دلیل اور نشانی صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو فقیہ ہیں (لقوم یفقھون) رہے وہ لوگ جو اندھے ہیں اور حقیقت ان کی نظروں سے اوجھل ہے تو ان کی نابینائی کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ ان کے سرخیل وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو سائنس دان کہتے ہیں اور کسی غیبی حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ وہ عالم الغیب تسلیم کرنے والوں کے ساتھ مذاق کرتے ہیں تو ایسے لوگ ان آیات الہیہ کو اس طرح پڑھ کر گزر جاتے ہیں جس طرح اندھے گزر جاتے ہیں ۔ ان لوگوں کی نظروں سے حقیقت اوجھل رہتی ہے اور ان کی حالت یہ ہوتی ہے ۔

(آیت) ” وان یروا کل ایۃ لا یومنون بھا “ وہ جو نشانی بھی دیکھیں ‘ اس پر ایمان نہیں لاتے ۔

اب اگلی آیت میں اس زندگی کا منظر سامنے لایا جاتا ہے جو اس کرہ ارض پر ہر طرف نظر آتی ہے اور آنکھیں ہر روز اسے دیکھتی ہیں ۔ حواس کے دائرے کے اندر سے اور اس کو دیکھ کر دل و دماغ اس کے بارے میں سوچتے بھی ہیں ۔ ہمارے ادراک کو اس میں اللہ کی تخلیق اور کاریگری صاف صاف نظر بھی آتی ہے ۔ کلام الہی اسے اسی طرح پیش کرتا ہے جس طرح یہ چیزیں نظر آتی ہیں اور ان کے مختلف رنگ اور مختلف مناظر پیش کرکے ذرا نظروں کو ان کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے ‘ مختلف شکلیں اور مختلف قسمیں سامنے لائی جاتی ہیں ‘ انسانی وجدان کو بتایا جاتا ہے کہ زندگی کی نشوونما کو دیکھے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ قدرت نے کیسی کیسی چیزیں پیدا کی ہیں ۔ قلب انسانی کو اس طرح متوجہ کیا جاتا ہے کہ اس نظام کی خوبصورتی کو بھی ذرا دیکھے اور لطف اندوز ہو ۔

آیت 98 وَہُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ظاہر ہے کہ تمام نوع انسانی ایک ہی جان سے وجود میں آئی ہے۔ اس سے حضرت آدم علیہ السلام بھی مراد ہوسکتے ہیں اور اگر نظریہ ارتقاء میں کوئی حقیقت تسلیم کرلی جائے تو پھر تحقیق کا یہ سفر امیبا Amoeba تک چلا جاتا ہے کہ اس ایک جان سے مختلف ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے انسان بنا۔ امیبا میں کوئی sex یعنی تذکیر و تانیث کا معاملہ نہیں تھا۔ دوران ارتقاء رفتہ رفتہ sex ظاہر ہوا تو خَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا النساء : 1 والا مرحلہ آیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے اپنی کتاب قرآن اور علم جدید میں بہت عمدہ تحقیق کی ہے اور مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے بھی اس کی تصویب کی ہے۔ جن حضرات کو دلچسپی ہو کہ ایک جان سے تمام بنی نوع انسان کو پیدا کرنے کا کیا مطلب ہے ‘ وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْتَوْدَعٌ ط مستقر اور مستودع کے بارے میں مفسرین کے تین اقوال ہیں :پہلا قول یہ ہے کہ مستقر یہ دنیا ہے جہاں ہم رہ رہے ہیں اور مستودع سے مراد رحم مادر ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مستقر آخرت ہے اور مستودع قبر ہے۔ قبر میں انسان کو عارضی طور پر امانتاً رکھا جاتا ہے۔ یہ عالم برزخ ہے اور یہاں سے انسان نے بالآخر اپنے مستقر آخرت کی طرف جانا ہے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ مستقر آخرت ہے اور مستودع دنیا ہے۔ دنیا میں جو وقت ہم گزار رہے ہیں یہ آخرت کے مقابلے میں بہت ہی عارضی ہے۔

قدرت کی نشانیاں فرماتا ہے کہ تم سب انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے تن واحد یعنی حضرت آدم سے پیدا کیا ہے جیسے اور آیت میں ہے لوگو اپنے اس رب سے ڈور جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کی اسی سے اس کا جوڑ پیدا کیا پھر ان دونوں سے مرد و عورت خوب پھیلا دیئے مستقر سے مراد ماں کا پیٹ اور مستودع سے مراد باپ کی پیٹھ ہے اور قول ہے کہ جائے قرار دنیا ہے اور سپردگی کی جگہ موت کا وقت ہے۔ سعید بن جبیر فرماتے ہیں ماں کا پیٹ، زمین اور جب مرتا ہے سب جائے قرار کی تفسیر ہے، حسن بصری فرماتے ہیں جو مرگیا اس کے عمل رک گئے یہی مراد مستقر سے ہے۔ ابن مسعود کا فرمان ہے مستقر آخرت میں ہے لیکن پہلا قول ہی زیادہ ظاہر ہے، واللہ اعلم، سمجھداروں کے سامنے نشان ہائے قدرت بہت کچھ آ چکے، اللہ کی بہت سی باتیں بیان ہو چکیں جو کافی وافی ہیں۔ وہی اللہ ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا نہایت صحیح اندازے سے بڑا بابرکت پانی جو بندوں کی زندگانی کا باعث بنا اور سارے جہاں پر اللہ کی رحمت بن کر برسا، اسی سے تمام تر تروتازہ چیزیں اگیں جیسے فرمان ہے آیت (وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ) 21۔ الانبیآء :30) پانی سے ہم نے ہر چیز کی زندگانی قائم کردی۔ پھر اس سے سبزہ یعنی کھیتی اور درخت اگتے ہیں جس میں سے دانے اور پھل نکلتے ہیں، دانے بہت سارے ہوتے ہیں گتھے ہوئے تہ بہ تہ چڑھے ہوئے اور کجھور کے خوشے جو زمین کی طرف جھکے پڑتے ہیں۔ بعض درخت خرما چھوٹے ہوتے ہیں اور خوشے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ قنوان کو قبیلہ تمیم قنیان کہتا ہے اس کا مفرد قنو ہے، جیسے صنوان صنو کی جمع ہے اور باغات انگوروں کے۔ پس عرب کے نزدیک یہی دنوں میوے سب میوں سے اعلیٰ ہیں کھجور اور انگور اور فی الحقیقت ہیں بھی یہ اسی درجے کے۔ قرآن کی دوسری آیت (وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِيْلِ وَالْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْهُ سَكَرًا وَّرِزْقًا حَسَـنًا ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ) 16۔ النحل :67) میں اللہ تعالیٰ نے ان ہی دونوں چیزوں کا ذکر فرما کر اپنا احسان بیان فرمایا ہے اس میں جو شراب بنانے کا ذکر ہے اس پر بعض حضرات کہتے ہیں کہ حرمت شراب کے نازل ہونے سے پہلے کی یہ آیت ہے اور آیت میں بھی باغ کے ذکر میں فرمایا کہ ہم نے اس میں کھجور و انگور کے درخت پیدا کئے تھے۔ زیتون بھی ہیں انار بھی ہیں آپس میں ملتے جلتے پھل الگ الگ، شکل صورت مزہ حلاوت فوائد وغیرہ ہر ایک کے جدا گانہ، ان درختوں میں پھلوں کا آنا اور ان کا پکنا ملاحظہ کر اور اللہ کی ان قدرتوں کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کرو کہ لکڑی میں میوہ نکالتا ہے۔ عدم وجود میں لاتا ہے۔ سوکھے کو گیلا کرتا ہے۔ مٹھاس لذت خوشبو سب کچھ پیدا کرتا ہے رنگ روپ شکل صورت دیتا ہے فوائد رکھتا ہے۔ جیسے اور جگہ فرمایا ہے کہ پانی ایک زمین ایک کھیتیاں باغات ملے جلے لیکن ہم جسے چاہیں جب چاہیں بنادیں کھٹاس مٹھاس کمی زیادتی سب ہمارے قبضہ میں ہے یہ سب خالق کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن سے ایماندار اپنا عقیدہ مضبوط کرتے ہیں۔

آیت 98 - سورۃ الانعام: (وهو الذي أنشأكم من نفس واحدة فمستقر ومستودع ۗ قد فصلنا الآيات لقوم يفقهون...) - اردو