سورۃ الانعام (6): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-An'aam کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنعام کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانعام کے بارے میں معلومات

Surah Al-An'aam
سُورَةُ الأَنۡعَامِ
صفحہ 140 (آیات 95 سے 101 تک)

۞ إِنَّ ٱللَّهَ فَالِقُ ٱلْحَبِّ وَٱلنَّوَىٰ ۖ يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ ٱلْمَيِّتِ مِنَ ٱلْحَىِّ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ فَالِقُ ٱلْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ ٱلَّيْلَ سَكَنًا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ حُسْبَانًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ ٱلْعَزِيزِ ٱلْعَلِيمِ وَهُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلنُّجُومَ لِتَهْتَدُوا۟ بِهَا فِى ظُلُمَٰتِ ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا ٱلْءَايَٰتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٰحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا ٱلْءَايَٰتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجْنَا بِهِۦ نَبَاتَ كُلِّ شَىْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَمِنَ ٱلنَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّٰتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَٱلزَّيْتُونَ وَٱلرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَٰبِهٍ ۗ ٱنظُرُوٓا۟ إِلَىٰ ثَمَرِهِۦٓ إِذَآ أَثْمَرَ وَيَنْعِهِۦٓ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكُمْ لَءَايَٰتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ وَجَعَلُوا۟ لِلَّهِ شُرَكَآءَ ٱلْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا۟ لَهُۥ بَنِينَ وَبَنَٰتٍۭ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ وَتَعَٰلَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ بَدِيعُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُۥ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُۥ صَٰحِبَةٌ ۖ وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ
140

سورۃ الانعام کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانعام کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا اللہ ہے وہی زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے اور وہی مُردہ کو زندہ سے خارج کرتا ہے یہ سارے کام کرنے والا اللہ ہے، پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna Allaha faliqu alhabbi waalnnawa yukhriju alhayya mina almayyiti wamukhriju almayyiti mina alhayyi thalikumu Allahu faanna tufakoona

(آیت) ” نمبر 95۔

یہ وہ معجزہ ہے جس کے راز تک کوئی نہیں پہنچ سکا یہ تو بڑی بات ہوگی کہ کوئی یہ معجزہ کر دیکھائے ۔ کیا معجزہ ؟ یعنی زندگی کی تخلیق اور اس کی نشوونما اور اس کی حرکت ‘ ہر وقت ایک زندہ اور بڑھنے والے درخت سے مردہ بیج نکالتا ہے اور ایک بےجان گٹھلی ایک بڑھنے والے درخت سے نکلتی ہے ۔ پھر اس بیج اور اس گٹھلی کے اندر پوشیدہ زندگی ایک پودے اور ایک درخت کی شکل اختیار کرتی ہے ۔ یہ ایک خفیہ راز ہے جس کی حقیقت کا علم صرف اللہ کی ذات کریم کو ہے ۔ اس زندگی کا اصل مصدر اور منبع کیا ہے ‘ اس بات کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ انسان نے جو بھی عملی ترقی کی ہے ‘ جس قدر زندگی کے ظاہری امور کا مطالعہ کیا ہے اور جس قدر خصائص بھی متعین کئے ہیں اس کی انتہاء پر ایک راز ہے جو غائب ہے ۔ اس سلسلے میں جس طرح پہلے انسان کا علم محدود تھا اسی طرح اس آخری دور کے ترقی یافتہ انسان کا علم بھی محدود ہے ۔ انسان صرف مظاہر اور خواص حیات سے واقف ہے لیکن اسے زندگی کے اصل منبع اور اس کی اصل ماہیت کا علم نہیں ہے ۔ صورت حال یہ ہے کہ زندگی ہماری آنکھوں کے سامنے رواں دواں ہے اور یہ معجزہ ہر لحظہ واقعہ ہوتا رہتا ہے ۔

اللہ وہ ذات ہے جس نے روز اول سے ایک مردہ حالت سے انسان کو زندگی پخشی ۔ یہ کائنات تو تھی مگر انسان نہ تھا یہ زمین تھی مگر اس پر زندگی نہ تھی ۔ پھر یہ زندگی اذان الہی سے نمودار ہوئی ۔ یہ کیسے نمودار ہوئی ؟ اس کا ہمیں علم نہیں ہے اور اس وقت سے لے کر آج تک یہ زندگی مردے سے نمودار ہو رہی ہے اور مردہ ذرات زندگی کے ذریعے زندگی پاتے ہیں ۔ یہ بےجان مواد زندہ عضوی شکل اختیار کرتا ہے ‘ اور پھر یہ زندگی خلیہ انسان کے جسم میں اور تمام جانداروں کے جسم میں داخل ہوتا ہے ۔ یہ زندہ ذرات اب مزید تغیر پذیری کے ذریعے زندہ خلیے بن جاتے ہیں اور اس کے بعد یہ زندہ خلیے پھر مرجاتے ہیں ۔ کیونکہ زندہ خلیے ہر وقت مردہ خلیوں کی شکل اختیار کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ہو یہ زندہ شخص یا جانور ایک دن مردہ ذرات کی شکل میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ یہ ہے مفہوم اس جملے کا ۔

(آیت) ” یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیَِّ (95)

” وہ زندہ کو مردے سے خارج کرنے والا ہے اور مردے کو زندہ سے خارج کرنے والا ہے ۔ “

اللہ کے سوا کوئی بھی یہ کام نہیں کرسکتا اور یہ بھی ناممکن ہے کہ آغاز حیات کے وقت اللہ کے سوا کوئی اور حیات پیدا کرسکے اور نہ کوئی یہ قدرت رکھتا کہ وہ مردہ ذروں کو زندہ ذروں کی شکل دے دے ۔ یہ اللہ ہی ہے جو ان زندہ ذروں کو پھر مردہ ذروں کی شکل دیتا ہے اور یہ سرکل ایک ایسا سرکل ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ اس کا آغاز کب ہوا اور کب یہ سرکل ختم ہوگا ۔ سائنس دان جو قیافے لگاتے رہتے ہیں وہ محض احتمالات ہیں ۔

اس کرہ ارض پر ظہور حیات کے خصائص کے بارے میں آج تک سائنس دانوں نے جو نظریات بیان کیے ہیں ان میں سے کوئی نظریہ بھی تشفی بخش نہیں ہے ۔ صرف یہ نظریہ تشفی بخش ہے کہ اس دنیا پر تخلیق کائنات ذات باری کا کارنامہ ہے اور یورپ میں جب قرون وسطی میں عوام کنیسہ سے بھاگ کھڑے ہوئے جس طرح بدکے ہوئے گدھے ہوں یا جس طرح شیر کے ڈر سے جانور بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ۔ مذہب سے فرار اختیار کرنے والوں نے جب اس کرہ ارض پر تخلیق حیات کے راز کے عقدے کو حل کرنا چاہا ‘ پھر جب انہوں نے خود اس کائنات کی تخلیق کے رازوں سے پردہ اٹھانا چاہا ‘ اور یہ کام انہوں نے خدا کے نظریے کو اپناتے ہوئے کیا تو ان کی تمام مساعی ناکام رہیں اور بیسوی صدی میں اس موضوع پر جو کچھ بھی لکھا گیا وہ ایک مذاق کے سوا کچھ نہ تھا اور یہ تمام تحریریں عناد اور انکار مذہب پر مبنی تھیں اور کوئی مخلصانہ مساعی نہ تھیں ۔

ان سائنس دانوں میں سے بعض صحیح الفکر لوگوں نے اپنے عجز ناتوانی کا اعراف کیا ہے ۔ ایسے لوگوں کی باتوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس موضوع پر انسان کا علم کس قدر محدود ہے ۔ ہمارے ہاں بعض ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جو سترہویں یا انیسویں صدی کے مغربی افکار کو نقل کرتے ہیں ۔ اور دعوی کرتے ہیں کہ وہ سائنس دان ہیں اور صرف مشاہدے کے قائل ‘ جبکہ اہل مذہب عالم غیب کو ماننے والے ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ کو سمجھانے کے لئے میں یہاں بعض بڑے سائنس دانوں کے اقوال نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں مثلا بعض امریکی علماء یہاں تک پہنچے ہیں۔

ڈاکٹر فرانک ایلن ‘ کو رنل یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اور کینیڈا کی مانٹویا یونیورسٹی میں حیاتیات کے استاد ہیں ۔ اپنے ایک مقالے میں جس کا عنوان ہے ” یہ دنیا یہ یا اتفاقا وجود میں آئی یا منصوبے کے تحت “ ۔ یہ مقالہ بتجلی فی عصر العلم کتاب ترجمہ ڈاکٹر مرداش عبدالحمید سرفان سے نقل کیا گیا ہے ۔

” اگر یہ زندگی کسی سابقہ متعین منصوبے اور اسکیم کے تحت وجود میں نہیں لائی گئی تو پھر یہ اتفاقا وجود میں آگئی ہوگی ۔ وہ ” اتفاق “ کیا ہے ؟ معلوم ہونا چاہئے تاکہ ہم اس پر غور کریں اور دیکھیں کہ اس ” اتفاق “ کے ذریعے زندگی کا ظہور کس طرح ہوتا ہے ۔ “

” اتفاق اور احتمال (بخت واتفاق) کے جو نظریات اس وقت پائے جاتے ہیں پہلے کی طرح نہیں ہیں ۔ دور جدید میں اب ان کے لئے ریاضی کے کچھ ٹھوس اصول اور قواعد مرتب ہوچکے ہیں اور اگر کسی موضوع پر یقینی فیصلہ نہ کی جاسکتا ہو تو ان اصولوں کے مطابق بخت واتفاق کے اصولوں کو کام میں لایا جاتا ہے اور ان اصولوں کے مطابق جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ اقرب الی الصواب ہوتے ہیں اگرچہ ان نتائج کے غلط ہوئے کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ حقیقت ہے کہ ریاضی کے زاویہ سے نظریہ بخت واتفاق نے کافی ترقی کرلی ہے ۔ ان قواعد اور اصولوں کے مطابق انسان کے لئے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ بعض واقعات کے بارے میں بات کرسکے ۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ واقعات اتفاقا ہوگئے ہیں اور جن کے ظہور کے اسباب و عوامل دوسرے ذرائع سے معلوم نہیں ہو سکتے ۔ (مثلا تاش کے کھیل میں پھول کا پھینکنا) ان تحقیقات کی وجہ سے انسان اس بات پر قادر ہوگیا ہے کہ وہ یہ بتا سکے کہ کیا چیز اتفاقا وجود میں آجاتی ہے اور کیا امر جو اتفاقا وجود میں نہیں آسکتا ۔

(اسلامی تصورحیات کے مطابق اس دنیا میں بخت واتفاق نہیں ہے ۔ ہر چیز کی تخلیق تقدیر الہی کے مطابق ہوتی ہے ۔ ان خلقلنا کل شیء بقدر۔

(ہم نے ہر چیز کو اندازے کے مطابق تخلیق کیا) اللہ نے تخلیق کائنات کے لئے اٹل قوانین وضع کئے ہیں ۔ جو واقعات ہوتے ہی ان ہر بار سنت الہیہ کے مطابق تقدیر الہی تصرف کرتی ہے ۔ اسی طرح یہ قوانین قدرت بھی کبھی کبھی ٹال دئیے جاتے ہیں اور ایک خارق عادت معجزہ صادر ہوجاتا ہے ۔ یہ بھی ایک خاص حکمت الہیہ کے مطابق ہوتا ہے کیونکہ یہ نوامیس فطرت اور خارق عادت بظاہر دونوں اللہ کی تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں ۔ ہم نے جو سائنس دانوں کے حوالے دیئے ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ ہم محولہ بالاعبارت سے پوری طرح متفق بھی ہوں) اور یہ بھی بتایا جاسکتا ہے کہ کون سا واقعہ کس قدر عرصے کے بعد اتفاقا نمودار ہوسکتا ہے ۔ اس تمہید کے بعد اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس کرہ ارض پر زندگی کا ظہور بطور اتفاق ہو سکتا ہے ۔ “

تمام زندہ خلیوں میں پروٹین بنیادی عناصر ترکیبی ہیں ۔ یہ پروٹین پانچ عناصر سے مرکب ہوتے ہیں ۔ کاربن ہائیڈوجن ‘ نائٹروجن ‘ آکسیجن اور گندھک ۔ ایک پروٹین میں چالیس ہزار ایٹم ہوتے ہیں ، کیمیاوی عناصر کی تعداد 29 ہے ۔ اور یہ سب غیر منظم اور نامعلوم مقداروں میں بکھرے ہوئے ہیں ۔

(عقل انتہائی بھی فلسفیانہ اصطلاحات میں سے ایک ہے ۔ ایک مسلمان اللہ پر صرف اس کے اسمائے حسنی ہی کا اطلاق کرسکتا ہے اس لئے اللہ پر اس لفظ کا اطلاق مناسب نہیں ہے)

ان پانچ عناصر کے آپس میں ملنے کے احتمال کے تعین کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس مادے کی مقدار اور زمانے کا تعین ہو اور وہ مادہ مسلسل ان عناصر پر مشتمل مخلوطہ میں رہے اور پھر اس قدر طویل عرصے تک وہ مادہ یونہی رہے تاکہ اس عرصے میں ” اتفاقا “ واقعہ ہوجائے اور یوں ایک عدد پروٹین حاصل ہوجائے ۔ “ غرض یہ تعین ضروری ہے کہ کتنا مادہ کتنے عرصے کے لئے ضروری ہے ۔ “

” سوئٹزر لینڈ کے ایک ریاضی دان نے کچھ حساب لگایا ہے (چار لزیوجین جے) اس نے اس کا حساب لگا کر کہا ہے کہ احتمال کے طور پر ایک پروٹین کی تشکیل پر ایک نسبت : دس کی قیمت 160 مرتبہ لگائی جائے (1 : 160 : 1) یہ اس قدر بڑی رقم بنتی ہے کہ زبان سے اس کا ادا کرنا بھی مشکل ہے نہ الفاظ کے ذریعے اسے بیان کیا جاسکتا ہے اور بطور اتفاق اس عمل کی تکمیل کے لئے یعنی ایک پروٹین کی تشکیل کے لئے اس قدر مادے کی ضرورت ہے جس کے ساتھ اس پوری کائنات کو کئی ملین بار بھرا جاسکتا ہو اور اگر صرف روئے زمین پر اتفاقا ایک پروٹین کو پیدا کرنا ہو تو اس کے لئے کئی بلین سالوں کی ضروری ہوگی اور یعنی 10 کی ” 243 (243 : 10) یہ زمانہ مذکور ماہر طبیات نے تجویز کیا ہے ۔

” پروٹین اینوایسڈ کے طویل سلسلوں سے تشکیل پاتے ہیں ‘ تو سوال یہ ہے کہ ان جزئیات کے ذرات کی باہم تالیف کس طرح ہوتی ہے ؟ جس طرح ان کی تشکیل طبعی ہوتی ہے اگر اس کے سوا کسی اور طریق سے ان کی تالیف ہو تو وہ زندگی کے اہل ہی نہیں رہتے ‘ اور بعض اوقات ایسے پروٹین زہربن جاتے ہیں ۔ ایک برطانوی سکالر ۔ ج ۔ ب سیتھر (J.B.SeAther) نے حساب لگایا ہے کہ ان سلسلوں میں پروٹینی ایٹم کس تعداد میں ہوتے ہیں انکے نزدیک انکی تعداد (48 : 10) ہوتی ہے ۔ اس لئے عقلا یہ بات محال ہے کہ احماض امینہ کا یہ پورا سلسلہ محض اتفاقی طور پر تالیف پا جائے اور دنیا میں ایک پروٹین بن جائے ۔ “

” لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بات پیش نظر رہے کہ پروٹین ایک کیمیاوی مادہ ہے جس کے اندر کوئی زندگی نہیں ہوتی اور اس کے اندر زندگی اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک اس کے اندر وہ خفیہ عمل نہیں ہوجاتا جو آج تک ایک عجیب راز ہے اور جس کی حقیقت کا ہمیں کوئی علم نہیں ہے اور اس بات کو صرف ” عقل لا انتہائی “ 2۔ جانتا ہے اور یہ صرف اللہ ہے جس کی حکمت بالغہ کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے کہ یہ پروٹینی جزء مقرحیات بنتا ہے ۔ یہ حیات کی منزل ہے جسے اللہ نے بنایا ۔ اس کو ایک بہترین شکل دی ہے اور اس کو راز حیات بخشا ہے ۔ “

نباتات کی موروثی صفات کے ایک ماہر مسٹر ایرٹنگ ولیم ‘ استاد طبیعیات جامعہ ایوی مچیگن مقالے بعنوان ” صرف مادیت کافی نہیں ہے “ میں لکھتے ہیں :

سائنس اس بات پر قادر نہیں ہے کہ نہایت ہی چھوٹے ایٹم لاتعداد صورت میں کس طرح وجود میں آجاتے ہیں ‘ جن سے دنیا کے تمام مادے مرکب ہوتے ہیں اور اس طرح سائنس کوئی قابل اعتماد توجیہ نہیں کرسکتی کہ ان چھوٹے چھوٹے ایٹموں سے ذی حیات جاندار کس طرح اتفاقا بن جاتے ہیں اور یہ نظریہ کہ تمام جاندار اپنی موجودہ ترقی یافتہ صورت میں بسبب حدوث غفرات عشورئیہ اور ھجائن کے تجمعات کی وجہ سے پہلے پہنچے ایک ایسا نظریہ ہے جو کسی ایسی دلیل ومنطق کی اساس پر قائم نہیں ہے جس پر اطمینان ہوتا ہو ‘ یہ بات محض تسلیم کرلینے کی وجہ سے ہی ممکن ہے ۔ “

(یہ بھی سائنس دانوں کا خبط ہے کہ عناصر کی مقدار معلوم نہیں ہے ۔ ان عناصر کی مقدار بھی مقرر ہے)

باہلر یونیورسٹی کے پروفیسر طبیعیات ڈاکٹر البرٹ میکومب ونسٹر اپنے ایک مقالے کا عنوان یہ دیتے ہیں ” سائنس نے میرا ایمان باللہ کو مضبوط کردیا “۔ وہ لکھتے ہیں :

’ میں نے حیاتیات کے مطالعہ میں اپنے آپ کو مصروف رکھا ۔ حیاتیات وہ علم ہے جس کا موضوع زندگی ہے جس کا میدان مطالعہ بہت ہی وسیع ہے اور اللہ کی تمام مخلوقات میں سے زیادہ دلکش چیز اس دنیا کی زندہ مخلوق ہے ۔ “

” ذرا پودے کو دیکھئے ‘ یہ نہایت ہی چھوٹا پودا ہے ۔ یہ راستے کے ایک کنارے پر اگا ہوا ہے ۔ کیا آپ بیشمار انسانی مصنوعات وآلات میں سے کسی چیز کو اس کے مقابلے میں پیش کرسکتے ہیں ۔ یہ ایک زندہ آلہ ہے اور مسلسل رات دن چلتا رہتا ہے ۔ اس کے اندر ہزاروں کیمیاوی عمل اور ردعمل واقعہ ہوتے رہتے ہیں ‘ طبعی تغیرات ہوتے ہیں اور پروٹوپلازم کے تحت ہوتے ہیں ۔ یہ وہ مادہ ہے جو تمام زندہ کائنات کی ترکیب میں داخل ہوتا ہے ۔ “

” سوال یہ ہے کہ یہ زندہ اور پیچیدہ آلہ کہاں سے آگیا ؟ اسے اللہ نے صرف اس کو اس شکل میں نہیں بنایا بلکہ اللہ نے پوری زندگی کو بھی تخلیق کیا ہے اور اسے اپنے تحفظ کی قوت بھی دی ہے ۔ وہ اس زندگی کو تسلسل بھی ہے اور اس نے اس کے اندر وہ تمام خواص رکھے ہیں اور تمام خصوصی صفات اس کے اندر ودیعت کیں ہیں جن کی وجہ سے ہم ایک پودے اور دوسرے پودے کے درمیان فرق کرتے ہیں ۔ زندہ اشیاء میں اس عظیم کثرت کا مطالعہ بھی ایک عظیم اور دلچسپ موضوع ہے اور اس سے قدرت کی طاقت کی بو قلمونیوں کا اظہار ہوتا ہے ۔ وہ خلیہ جس کے ذریعے نسل کشی ہوتی ہے اور ایک نیا پودا وجود میں آتا ہے اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ صرف مائیکرو سکوپ سے نظر آتا ہے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس پودے کے خواص ‘ ہر رگ ‘ ہر ریشہ ‘ ہر شاخ اور ہر تنا ‘ ہر جڑ اور ہر چھوٹا ریشہ ‘ ایسے انجینئروں کی زیر نگرانی سرانجام پاتا ہے کہ یہ تمام نقوش اس چھوٹے سے خلیہ کے اندر موجود ہوتے ہیں اور اس کے اندر موجود رہتے ہیں ۔ یہ انجینئرکون ہوتے ہیں ؟ یہ کروموسوم ہوتے ہیں ۔ “

میں سمجھتا ہوں کہ اس قدر حوالے کافی ہیں اب پھر ہم دوبارہ اس حسن ادا کی طرف لوٹتے ہیں جو قرآن کریک کی عبارت میں موجود ہے ۔ :

(آیت) ” ذَلِکُمُ اللّہُ رَبُّکُمْ (6 : 102) (یہ سارے کام کرنے والا تو اللہ تمہارا رب ہے ۔ “ جو اس معجزہ حیات کا موجد ہے اور اس معجزے کا ظہور تسلسل سے ہو رہا ہے لیکن راز حیات کسی کو بھی معلوم نہیں ہے ۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ تمہارا رب اور وہی اس بات کا مستحق ہے کہ تم لوگ اس کے حلقہ بگوش بنو ۔ اس کے ساتھ خشوع و خضوع کرو اور اس کے احکام کا اتباع کرو۔

(آیت) ” فَأَنَّی تُؤْفَکُونَ (95) ” پھر تم کدھر بہکے چلے جارہے ہو ؟ “ تم اس سچائی سے صرف نظر کر کے دوسری راہوں پر چل رہے ہو حالانکہ یہ راہ حق ہے عقلی طور پر واضح ہے ‘ دل لگتی بات ہے اور چشم بصیرت کے لئے تشفی ہے ۔

یہ معجزہ یعنی مردے سے زندہ کو نکالنا ‘ قرآن نے اس کا ذکر بار بار کیا ہے اور اس حقیقت کو بھی قرآن نے باربار دہرایا ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے جو بتلاتے ہیں کہ خالق خائنات وحدہ لاشریک ہے ۔ یہ اس لئے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ خالق کائنات ایک ہے اور اسی وحدہ لا شریک کی بندگی کی ضرورت ہے ۔ عقیدہ ونظریہ میں بھی وحدہ لا شریک کو مانا جائے اور ربوبیت بھی اسی وحدہ لاشریک کی تسلیم کی جائے ۔ مراسم عبودیت بھی اسی کے سامنے بجا لائے جائیں اور زندگی کے قوانین اور ضوابط بھی اسی کے احکام سے اخذ کئے جائیں ۔ صرف اسی کے نافذ کردہ قانونی نظام یعنی شریعت کی پابندی کی جائے ۔

(اس مصنف نے اس مقالے میں برٹرینڈرسل کے اس نظریے کی تردید کی ہے کہ زندگی اتفاق کے طور پر وجود میں آتی ہے اور اتفاقا چلی جاتی ہے)

قرآن کریم میں ان باتوں کا ذکر محض لاہوتی فلسفیانہ انداز میں نہیں کیا جاتا ۔ یہ دین تو بہت ہی معقول اور سنجیدہ دین ہے اور لوگوں کا وقت لاہوتی مباحث اور فلسفیانہ موشگافیوں میں ضائع نہیں کرتا ۔ دین اسلام کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں کے تصور حیات کو درست کیا جائے اور انہیں صحیح افکار اور صحیح عقائد دیئے جائیں تاکہ انکی ظاہری اور باطنی زندگی درست ہو سکے ۔ لوگوں کی زندگی کی اصلاح صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ وہ صرف اللہ وحدہ کی بندگی کی طرف لوٹ جائیں اور اپنے جیسے انسانوں کی غلامی کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکیں ۔ جب تک کہ وہ اپنی پوری زندگی میں اللہ کی اطاعت اختیار نہ کرلیں اور روز مرہ کی زندگی میں اللہ وحدہ کی شریعت کو نہ اپنالیں ۔ حیات کے بارے میں ان کا عقیدہ اور نظریہ درست نہیں ہوسکتا ، ان کی زندگی میں ایسے لوگوں کا اقتدار نہ ہو جو زبردستی ان پر مسلط ہوگئے ہوں ‘ جو بالفاظ دیگر حق الوہیت کے دعویدار ہیں اور لوگوں کی زندگیوں پر اللہ کے حق حاکمیت کے بجائے وہ خود اپنا حق استعمال کرتے ہی ۔ یوں وہ اس دنیا کے جھوٹے خداؤں میں شامل ہوگئے ہیں انہوں نے لوگوں کی حیات دنیوی میں بگاڑ پیدا کردیا ہے اور یہ فساد محض اس لئے ہے کہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی اطاعت کرنے لگتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان باتوں پر تعقیب یہ آتی ہے ۔

(آیت) ” ذَلِکُمُ اللّہُ فَأَنَّی تُؤْفَکُونَ (95) ” یہ سارے کام تو اللہ تمہارے رب کے ہیں پھر تم کدھر بہکے چلے جارہے ہو ؟ “ تمہاری زندگی میں ربوبیت یعنی مکمل اطاعت کا مستحق تو وہی ہے ۔ رب کا مفہوم ہے مربی ‘ جس کی طرف انسان متوجہ ہو ‘ جو سردار اور حاکم ہو ‘ اپنے ان مفہومات کے ساتھ اللہ کے سوا کوئی اور رب نہیں ہے ۔

(لفظ رب کی توضیح کے لئے دیکھئے امیر جماعت اسلامی پاکستان کی کتاب المصطلحات الاربعہ فی القرآن)

اردو ترجمہ

پردہ شب کو چاک کر کے وہی صبح نکالتا ہے اُسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے اُسی نے چاند اور سورج کے طلوع و غروب کا حساب مقرر کیا ہے یہ سب اُسی زبردست قدرت اور علم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faliqu alisbahi wajaAAala allayla sakanan waalshshamsa waalqamara husbanan thalika taqdeeru alAAazeezi alAAaleemi

(آیت) ” نمبر 96۔

دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا اللہ ہے ۔ پردہ شب کو چاک کرکے وہی صبح کو نکالتا ہے ۔ وہی ہے جس نے سکون کے لئے رات بنائی ہے ‘ اور وہی ہے جس نے چاند ستاروں کی گردش کے لئے صحیح اوقات مقرر کئے ہیں ۔ ان کی گردش کے لئے ایک مقرر نظام تجویز کیا ہے اور اس نظام کو اس قدر موثر اور کنٹرول میں رکھا ہے جس سے اس کے مکمل قبضے کا ثبوت ملتا ہے اور جس سے اس کے وسیع اور محیط علم کا ثبوت ملتا ہے ۔

رات کی تاریکیوں سے سپیدہ صبح نکالنا ایک ایسا ہی عمل ہے جس طرح گٹھلی اور دانے کو پھاڑ کر اس سے پودا اور درخت نکالا جاتا ہے ۔ ایک حرکت میں صبح کی روشنی نمودار ہوتی ہے ۔ اور دوسری حرکت میں پودے کی سوئی برآمد ہوتی ہے ۔ ان دونوں مثالوں میں وجہ تشبیہ یہ ہے کہ دونوں میں حرکت ‘ زندگی خوبصورتی اور جمال ہے جبکہ دونوں حقیقتیں اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک جیسی بھی ہیں ۔

گٹھلی اور دانے کو پھاڑ کر اس سے پودوں کا اخراج جبکہ یہ جامد تھے اور رات کو تاریکیوں سے اور سکون سے صبح کی روشنی نکالنا یہ بھی وجہ مماثلت ہے ۔ گٹھلی اور رات دونوں کے اندر سکون موجود ہے ۔ اس کائنات میں صبح وشام اور وقت و سکون کاموجودہ نظام زندگی اور ہر چیز کے اگنے اور بڑھنے سے خاص تعلق رکھتا ہے ۔

زمین کا اپنے محور کے گرد گھومنا ‘ اور سورج کے سامنے ایک فاصلے اور متعین فاصلے پر رہنا ‘ چاند کا موجودہ حجم اور موجودہ فاصلہ اور موجودہ درجہ حرارت ‘ یہ وہ اندازے اور تقدیرات ہیں جن کی وجہ سے اس کرہ ارض پر زندگی ممکن ہوسکی ہے اور انہی اندازوں اور تدابیر تکوینی کی وجہ سے انسانی اور نباتاتی زندگی ممکن ہو سکتی ہے ۔ انہی کی وجہ سے گٹھلی اور دانے کو پھاڑ کر نباتات اگ سکے ہیں ۔

یہ ایک کائنات ہے جسے دقیق حسابی اور ریاضی اصولوں پر استوار کیا گیا ہے ۔ اس کے اندر ہر قسم کے ذی حیات کی زندگی کا بھی پہلے سے حساب موجود ہے ۔ اس زندگی کا مقام اور اس کی نوعیت ایک ایسی کائنات ہے جس کے اندر بخت واتفاق کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ نیز یہاں اس نظریے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہاں وجود بخت واتفاق سے ہے لیکن اس بخت واتفاق کے لئے حساب و کتاب اور ضابطہ مقرر ہے ۔

جو لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ زندگی اس کائنات میں جاری ہے لیکن اس کائنات کو زندگی کے ساتھ کوئی ہم آہنگی نہیں ہے بلکہ کائنات زندگی کی مخالف اور دشمن ہے ۔ یہ چھوٹا ساسیارہ یعنی کرہ ارض جس کے اوپر یہ زندگی موجود ہے ‘ بتا رہا ہے کہ وہ اس زندگی کا مخالف ہے ۔ ایسے لوگوں میں بعض تو یہ کہتے ہیں کہ اگر اس کائنات کا کوئی الہ ہوتا تو وہ اس چھوٹے سے کرہ ارض اور اس پر موجود زندگی کے جھمیلوں میں نہ پڑتا اور اس قسم کے دوسرے خرافات یہ لوگ بکتے ہیں ۔ کبھی اسے علم اور سائنس کا نام دیتے ہیں کبھی اسے فلسفہ کہتے ہیں اور یہ خرافات ایسے ہیں کہ ان کی طرف کسی سنجیدہ نگاہ کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔

یہ لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں جو ان کے نفوس پر حاوی ہیں اور ان سائنسی نتائج کو بھی تسلیم نہیں کرتے جن کا استخراج خود انہیں نے کیا ہے ۔ ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دین میں جو فیصلے کر لئے وہ ان کے خلاف کسی واضح ترین حقیقت کا سامنا کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں ۔ وہ اپنے فیصلوں کو سینے سے لگا کر بھاگ رہے ہیں ۔ وہ لوگ ذات باری سے بھاگ رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنی وحدانیت کے دلائل ان کے سامنے منکشف کرتے چلے جاتے ہیں اور اس کی قدرت کے نظارے ہر طرف عام ہیں اور دعوت نظارہ دے رہے ہیں ‘ وہ ذات باری سے فرار کرتے ہوئے جو راہ بھی لیتے ہیں اس کے آخری سرے پر ذات باری پھر کھڑی ہوتی ہے ۔ یوں وہ پریشان ہو کر دوسری گلی سے بھاگتے ہیں لیکن وہاں بھی انہیں ذات باری کی حقیقت کبری نظر آتی ہے۔

یہ علمی اور عقلی دونوں لحاظ سے یتیم ہیں ‘ علمی لحاظ سے تہی دامن ہیں اور نہایت ہی بدبخت ہیں ۔ یہ لوگ کینسہ اور اس کے الہ سے بہت پہلے بھاگے تھے ‘ اس لئے کہ کینسہ نے انہیں اپنا غلام بنا لیا تھا ۔ وہ اس طرح بھاگے تھے جس طرح کسی شیر کی آمد پر گدھے بدکتے ہیں اور وہ آج تک بھاگے ہی رہے ہیں ۔ اس صدی کے اوائل تک وہ بھاگتے رہے اور آج تک سرپٹ بھاگ رہے ہیں لیکن پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھتے کہ آیا کلیسا اب بھی ان کا پیچھا کر رہا ہے یا نہیں یا خود کلیسا نے اپنا غلط موقف ترک کردیا ہے یا ابھی تک اسی موقف پر قائم ہے ۔ ان لوگوں کا سانس ابھی تک پھولا ہوا ہے لیکن بھاگ رہے ہیں ۔

یہ بدبخت خستہ حال لوگ ہیں اور ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہوں نے سائنس کے میدان میں جو دریافتیں کی ہیں ان کے نتائج ان کا پیچھا کر رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کہاں تک بھاگتے رہیں گے ۔ فرانک ایلن جس کی تحریروں سے اس سے قبل ہم اقتباسات دیکھ آئے ہیں دنیا میں زندگی کی نمود کے بارے میں کہتے ہیں :

” زندگی کے لئے زمین کی سازگاری نے ‘ یہاں زندگی کو مختلف شکلوں میں ترقی دی ہے ۔ زندگی کی ان بوقلمونیوں کی توجیہ سے ہم محض ” اتفاق “ نہیں کرسکتے اور نہ لاادریت سے اس کی کوئی تعبیر کرسکتے ہیں اس لئے کہ یہ زمین ایک کرہ ہے جو ہوا میں معلق ہے ۔ یہ اپنے اردگرد چکر لگا رہی ہے ۔ اس کے نتیجے میں رات اور دن پیدا ہوتے ہیں اور فضاؤں میں یہ زمین سال میں ایک بار سورج کے اردگرد بھی گھومتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں مختلف موسم آگے پیچھے آتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہمارے اس کرے کا زیادہ سے زیادہ حصہ قابل رہائش بن جاتا ہے ۔ مختلف قسم کے نباتات اگ آتے ہیں ۔ اگر یہ زمین ایک ہی جگہ رہتی تو اس قدر اقسام کے نباتات نہ ہوتے ۔ اس کرہ ارض کے اردگرد ایک گیس اوزون کا پردہ ہے جس میں ایسی قسم کی گیسیں پائی جاتی ہیں جو زندگی کے لئے اہم ہیں ۔ ان گیسوں کا یہ خول بہت بلندی تک گیا ہوا ہے ۔ “

” یہ گیس اس قدر کثیف ہے کہ آسمانوں سے ہزاروں شہاب جو زمین کی طرف آتے ہیں وہ اس سے ٹکرا کر ٹوٹ جاتے ہیں اور یہ تیس میل ایک سیکنڈ کے حساب سے ٹوٹتے ہیں ۔ ان گیسوں کا خول اس کرہ ارض کے درجہ حرارت کو بھی کنٹرول کرتا ہے اور اسے زندگی کے لئے مناسب حدود میں رکھتا ہے ۔ ان گیسوں کی وجہ سے آبی بخارات فضاؤں میں دور تک چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بارش میں بدل کر زمین کو موت کے بعد دوبارہ زندہ کردیتے ہیں ۔ بارش کی وجہ سے ہمیں میٹھا پانی ملتا ہے ‘ اور اگر بارشیں نہ ہوتیں تو یہ زمین ایک چٹیل میدان ہوتی اور اس میں کوئی اگنے والی چیز یا دوسری حیوانی زندگی کا کوئی نام ونشان نہ ہوتا ۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فضا اور سطح زمین کے گرد دوسرے خول نظام طبیعی کے اندر ایک توازن پیدا کرتے ہیں ۔ “

غرض اب ایسے علمی اور سائنسی دلائل کا انبار لگ گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کرہ ارض پر آثار حیات اور اقسام حیات کی کوئی تعبیر دل لگتی تعبیر نہیں کہی جاسکتی ۔ اس زندگی کے آغاز ‘ نشوونما اور اس کے قیام دوام کے لئے جو عوامل کار فرما ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کائنات ایک منصوبے کے تحت وجود میں آتی ہے ۔ ان دلائل میں سے بعض وہ ہٰن جن کا ذکر علم طبیعیات کے مذکورہ بالا ماہرین نے کیا ہے ۔ ان کے علاوہ بھی بیشمار آثار و دلائل ہیں جن کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ۔ اور یہ اللہ ہی کی ذات ہے ۔

(آیت) ” الذی اعطی کل شی خلقہ ثم ھدی “۔ ” جس نے زندگی دی اور پھر ہدایت دی اور جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا لیکن اندازے اور منصوبے کے ساتھ ۔ “

اردو ترجمہ

اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا دیکھو ہم نے نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahuwa allathee jaAAala lakumu alnnujooma litahtadoo biha fee thulumati albarri waalbahri qad fassalna alayati liqawmin yaAAlamoona

(آیت) ” نمبر 97۔

یہ نظام فلکی کے منظر کا تتمہ ہے جس کے اندر سورج چاند اور ستارے سرگرداں اور یہ پوری کائنات کے منظر کا حصہ ہے جو نہایت ہی وسیع ‘ نہایت ہی حیران کن ہے اور جس کی تمام حرکات و سکنات انسانی زندگی اور اس کے مفادات اور ضروریات کے ساتھ وابستہ ہیں ۔

(آیت) ” لِتَہْتَدُواْ بِہَا فِیْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ “۔ (6 : 97) ‘

” تاکہ تم ان کے ذریعے صحرا اور سمندروں کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرو۔ “

صحراؤں اور سمندروں کی دوریوں میں انسان ہمیشہ ستاروں کے زریعے راستہ معلوم کرتا آیا ہے اور آج بھی وہی نظام ہے ۔ اصول وہی ہیں اگرچہ دور جدید کے اکتشافات کی وجہ سے وسائل بدل گئے ہیں ۔ سمندری سفر کے لئے جدید آلات تیار ہوگئے ہیں لیکن اصل الاصول یہی ہے ان سفروں میں قطب شمالی اور ستاروں سے ہدایت لی جاتی ہے ۔ ظلمات البر والبحر میں حسی اور حقیقی اندھیرا بھی شامل ہے اور فکری اور تصوراتی اندھیرا بھی ۔ لہذا نص قرآن جس طرح آج سے صدیوں پہلے بامقصد تھی اسی طرح آج بھی بامقصد ار بامصداق ہے ۔ آج کی بحری زندگی میں بھی اسی اصول کے مطابق ہے۔ آج بھی قرآن انسانوں سے اسی طرح مخاطب ہے جس طرح آج سے پہلے تھا حالانکہ آج کے دور میں انسانی انفس اور آفاق میں اللہ نے انسان کو وسیع علم سے نوازا ہے لیکن آج بھی ہماری بحری سفری زندگی اسی آیت کی مصداق ہے ۔

قرآن آج بھی فطری انداز میں انسانوں کو خطاب کرتا ہے اور تکوینی حقائق انکے سامنے رکھتا ہے ۔ محض نظریاتی بنیادوں پر خطاب نہیں کرتا بلکہ ” واقعی “ صورت انسان کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو آج تک قائم ہے اس صورت میں خطاب کے نتیجے میں صانع کائنات کی کارفرمائی واضح طور پر نظر آتی ہے ۔ اللہ کی تقدیر اس کی تدبیر اور اس کی شان رحیمی عقل ونظر سے بالکل روشن نظر آتی ہے ۔ انسان بصیرت حاصل کرتا ہے ‘ اس کے ادراک کو جلا ملتی ہے اور وہ کائنات پر تدبر بھی کرتا ہے ۔ اس سے نصیحت بھی حاصل کرتا ہے اور اپنے علم ‘ اپنی معرفت اور ترقی کو اس کائنات میں کار فرما حقیقت کبری کے ادراک کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حقیقت انسان کے سامنے رکھنے کے بعد کہ اللہ بحر وبر کے اندھیروں میں ان کی راہنمائی کا انتظام کرتا ہے یہ تعقیب آتی ہے ۔

(آیت) ” قَدْ فَصَّلْنَا الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (97)

” دیکھو ہم نے نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیں ‘ ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں “۔

اس لئے کہ صحرا کی پہنائیوں اور سمندر کی تاریکیوں میں ستاروں سے ہدایت تب ہی لی جاسکتی ہے جب انسان کو ستاروں کے مداروں ‘ ان کے دوروں اور مختلف اوقات میں ان کے مواقع کے بارے میں علم حاصل ہو اور معنوی اندھیروں میں ہدایت وہ لوگ لے سکتے ہیں جنہیں علم ہو کہ یہ کائنات صانع حکیم کی بنائی ہوئی ہے جیسا کہ ہم نے کہا یہاں ہدایت سے مراد دونوں قسم کی ہدایات ہیں ‘ حسی اور بحری سفر کی ہدایات بھی اور معنوی اور گمراہی قلب ونظر کی ہدایات بھی ۔ وہ لوگ جو ستاروں کو حسی رہبری کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اس رہبری سے اپنے خالق تک پہنچنے کی ہدایت وبصیرت اخذ نہیں کرتے وہ گویا علم سے محروم ہیں کیونکہ انہوں نے ان چیزوں سے جھوٹی اور حقیر ہدایت تولی لیکن ہدایت کبری اخذ نہ کی ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس کائنات کا تعلق رب کائنات سے کاٹنا چاہتے ہیں اور اس کائنات کے ان دلائل سے وہ ہدایت اخذ نہیں کرتے جو مبدع عظیم پر دال ہیں ۔ صدق اللہ العظیم ۔

اردو ترجمہ

اور وہی ہے جس نے ایک متنفس سے تم کو پید ا کیا پھر ہر ایک کے لیے ایک جائے قرار ہے اور ایک اس کے سونپے جانے کی جگہ یہ نشانیاں ہم نے واضح کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahuwa allathee anshaakum min nafsin wahidatin famustaqarrun wamustawdaAAun qad fassalna alayati liqawmin yafqahoona

(آیت) ” نمبر 98۔

اب یہ چٹکی براہ راست ہے ‘ اور یہ ٹچ نفس انسانی اور ذات انسانی کو دیا جاتا ہے ۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے انسان ایک ہی نفس سے پیدا کئے گئے ہیں کیونکہ مرد اور عورت اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی ہیں ۔ لہذا پوری بشریت ایک حقیقت واحدہ ہے مرد و عورت کے درمیان زندگی کا آغاز تناسل کے خلیہ سے شروع ہوتا ہے ۔ مثلا خلیہ جب صلب پدر میں ہوتا ہے تو وہ جائے قرار میں ہوتا ہے ۔ جب وہی خلیہ رحم مادر میں جاتا ہے تو وہ اس کے لئے سپردگی کی جگہ ہے اس کے بعد زندگی بڑھتی ہے اور پھیل جاتی ہے اور مختلف نسلوں اور رنگوں میں تقسیم ہوجاتی ہے ۔ مختلف گروہوں اور زبانوں میں بٹ جاتی ہے مختلف اقوام وقبائل میں تقسیم ہوجاتی ہے اور اس زندگی کے اس قدر نمونے بن جاتے ہیں جن کا گننا مشکل ہوجاتا ہے پھر زندگی کے اس قدر کلچر وجود میں آجاتے ہیں کہ زندگی موجود رہے گی آتے رہیں گے ۔

(نفس واحدہ سے مراد میں نے نفس انسانیت لیا ہے اس لئے کہ مجھے اس بارے میں قابل اعتماد حدیث نہیں ملی کہ حوا آدم سے پیدا

کیا گیا)

(آیت) ” قَدْ فَصَّلْنَا الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (97)

” دیکھو ہم نے نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیں ‘ ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں “۔

یہاں فقیہ وہ شخص ہوگا ‘ جو اس نفس انسانی کی تخلیق کے بارے میں اللہ کی کاریگری کا ادراک رکھتا ہو اور پھر اس بات میں مہارت رکھتا ہو کہ ایک انسان آگے جا کر کن کن کلچروں اور نمونوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور یوں انسان ایک نفس کو بذریعہ نسل آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے ۔ اس عمل سے بیشمار مرد اور عورتیں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور انسانی آبادی بڑھتی رہتی ہے ۔ یہ تمام کام اللہ کی اس حکمت کے نتیجے میں پورا ہوتا ہے جسے اس نے نظام زوجیت کے ذریعے فرض قرار دیا ۔ جس کے ذریعے آبادی بڑھتی ہے ‘ بچوں کی نشوونما دائرہ انسانیت کے اندر ہوتی ہے اور وہ آئندہ زندگی میں وظیفہ انسانیت ادا کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ۔

ہم یہاں ظلال القرآن میں اس موضوع کی پوری تفصیلات نہیں دے سکتے جس سے انسانیت کے دونوں اصناف کے درمیان تمام تعلقات کو زیر بحث لا سکیں ۔ اس کے لئے تو علیحدہ ایک کتاب کی ضرورت ہے ۔

(دیکھئے کتاب خصائص التصور الاسلامی میں بحث حقیقۃ الحیاۃ)

لیکن یہاں اس قدر تذکرے کی بہرحال ضرورت ہے کہ نطفے سے مرد اور عورت کس طرح پیدا ہوجاتے ہیں اور کس طرح ایک غیبانی قوت اور قدرت الہی مرد اور عورتوں کی تعداد کو برابر رکھتی ہے تاکہ آئندہ نسل کشی کے لئے اور سلسلہ توالد وتکاثر کو جاری رکھنے کے لئے مناسب انتظام ہو ۔ اس سے قبل ہم نے آیت ۔

(آیت) ” وعندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا الا ھو “۔ (6 : 59) کی تفسیر میں کہا تھا کہ مرد کے مادہ منویہ کے اندر جو کروموسوم ہوتے ہیں اور جب ان کا التفاء عورت کے انڈے کے ساتھ ہوتا ہے تو اس وقت صرف تقدیر الہی ہوتی ہے جو مذکر کروموسوم کو مؤنث کروموسوم پر ترجیح دیتی ہے یا اس کے برعکس فیصلہ کرتی ہے اور یہ ترجیح از جانب تقدیر الہی غیب الہی ہے ۔ اس معاملے میں کسی انسان کو کوئی اختیار نہیں ہے ۔

یہ تقدیر فیصلہ کرتی ہے اور کسی کو لڑکا عطا ہوتا ہے اور کسی کو لڑکی ۔ یہ تقدیر تمام روئے زمین پر مردوں اور عورتوں کی تعداد کے اندر مطلوب توازن کو برقرار رکھتی کہ کس قدر مرد درکار ہیں اور کس قدر عورتیں ۔ چناچہ آج تک پوری انسانیت کی سطح پر اس توازن کے اندر کوئی فرق نہیں پڑا اور اس توازن کے ذریعے سلسلہ توالد وتکاثر آج تک جاری وساری ہے ۔ یہ درست ہے کہ اگر مرد کم ہوں تو بھی توالد وتکاثر کا سلسلہ جاری رہ سکتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اسکیم کا مطلب فقط یہ تھا کہ انسانوں کے درمیان نہ صرف نسل کشی کا انتظام کر دیاجائے بلکہ ساتھ یہ بھی مطلوب تھا کہ حیوانی سطح سے اوپر جا کر انسان کی ازدواجی زندگی میں توازن اور استحکام پیدا ہو ‘ کیونکہ اس استحکام کے بغیر مقاصد انسانیت کی تکمیل ممکن نہ ہوتی ۔ ان میں سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ ماں باپ کی پرورش کے بغیر بچوں کی تربیت اسلامی خطوط پر ممکن نہ تھی یعنی ایک خاندان کی خوشگوار فضا کے اندر تاکہ یہ بچے آئندہ زندگی میں اپنا انسانی کردار ادا کرسکیں ۔ صرف یہ نہ ہو کہ بچے ایک حیوان کی طرح مادی زندگی کے لحاظ سے بلوغ تک پہنچ جائیں ۔ انسانی کردار یہ بچے تب ہی ادا کرسکتے ہیں جب یہ ایک پرسکون خاندانی زندگی میں ماں اور باپ دونوں کی پرورش میں ایک طویل عرصے تک رہیں کیونکہ انسانی بچہ حیوانات کے مقابلے میں ایک طویل عرصے تک بچپن میں ہوتا ہے اور محتاج ہوتا ہے ۔

مرد اور عورتوں کی تعداد کے درمیان یہ توازن اس بات پر کافی وشافی دلیل ہے کہ اس کائنات میں خالق کائنات کی تدبیر ‘ حکمت اور اس کی تقدیر کس طرح ہر وقت کارفرما ہے لیکن یہ دلیل اور نشانی صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو فقیہ ہیں (لقوم یفقھون) رہے وہ لوگ جو اندھے ہیں اور حقیقت ان کی نظروں سے اوجھل ہے تو ان کی نابینائی کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ ان کے سرخیل وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو سائنس دان کہتے ہیں اور کسی غیبی حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ وہ عالم الغیب تسلیم کرنے والوں کے ساتھ مذاق کرتے ہیں تو ایسے لوگ ان آیات الہیہ کو اس طرح پڑھ کر گزر جاتے ہیں جس طرح اندھے گزر جاتے ہیں ۔ ان لوگوں کی نظروں سے حقیقت اوجھل رہتی ہے اور ان کی حالت یہ ہوتی ہے ۔

(آیت) ” وان یروا کل ایۃ لا یومنون بھا “ وہ جو نشانی بھی دیکھیں ‘ اس پر ایمان نہیں لاتے ۔

اب اگلی آیت میں اس زندگی کا منظر سامنے لایا جاتا ہے جو اس کرہ ارض پر ہر طرف نظر آتی ہے اور آنکھیں ہر روز اسے دیکھتی ہیں ۔ حواس کے دائرے کے اندر سے اور اس کو دیکھ کر دل و دماغ اس کے بارے میں سوچتے بھی ہیں ۔ ہمارے ادراک کو اس میں اللہ کی تخلیق اور کاریگری صاف صاف نظر بھی آتی ہے ۔ کلام الہی اسے اسی طرح پیش کرتا ہے جس طرح یہ چیزیں نظر آتی ہیں اور ان کے مختلف رنگ اور مختلف مناظر پیش کرکے ذرا نظروں کو ان کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے ‘ مختلف شکلیں اور مختلف قسمیں سامنے لائی جاتی ہیں ‘ انسانی وجدان کو بتایا جاتا ہے کہ زندگی کی نشوونما کو دیکھے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ قدرت نے کیسی کیسی چیزیں پیدا کی ہیں ۔ قلب انسانی کو اس طرح متوجہ کیا جاتا ہے کہ اس نظام کی خوبصورتی کو بھی ذرا دیکھے اور لطف اندوز ہو ۔

اردو ترجمہ

اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات اگائی، پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیے، پھر ان سے تہ بہ تہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے کے گچھے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جھکے پڑتے ہیں، اور انگور، زیتون اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور پھر اُن کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو، اِن چیزوں میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahuwa allathee anzala mina alssamai maan faakhrajna bihi nabata kulli shayin faakhrajna minhu khadiran nukhriju minhu habban mutarakiban wamina alnnakhli min talAAiha qinwanun daniyatun wajannatin min aAAnabin waalzzaytoona waalrrummana mushtabihan waghayra mutashabihin onthuroo ila thamarihi itha athmara wayanAAihi inna fee thalikum laayatin liqawmin yuminoona

(آیت) ” نمبر 99 ۔

قرآن کریم میں جب بھی حیاتیات اور نباتات کا ذکر ہوتا ہے اس دوران پانی کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے ۔

(آیت) ” وَہُوَ الَّذِیَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَخْرَجْنَا بِہِ نَبَاتَ کُلِّ شَیْْءٍ “۔ (6 : 99)

” اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا ‘ پھر اس کے ذریعے سے ہر قسم کی نباتات اگائیں ۔ “

ہر چیز کی پیدائش میں پانی کا جو کردار ہے وہ بالکل ظاہر ہے اور اس کے بارے میں ایک پسماندہ اور ترقی یافتہ انسان دونوں یکساں طور پر جانتے ہیں ۔ عالم اور جاہل دونوں جانتے ہیں لیکن قرآن کریم نے ظاہری طور پر عوام کے لئے جو کچھ کہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز کی تخلیق میں پانی کا کردار کہیں زیادہ ہے ۔ مثلا سطح زمین پر مٹی کی فراہمی پانیوں کی مرہون منت ہے ۔ یہ بات میں ان نظریات کی اساس پر کہہ رہا ہوں جو اس وقت سطح زمین کے بارے میں معروف ہیں ۔ (اگر وہ درست ہوں) مثلا یہ کہ ابتداء میں سطح زمین آگ کا گولہ تھی ‘ اس کے بعد وہ سخت ہوگئی اس قدر سخت کہ سطح زمین پر نباتات اگنے کے لئے کوئی مٹی نہ تھی ‘ اس کے بعد فضائی عوامل اور پانی کی وجہ سے سطح زمین پر مٹی جمع ہونا شروع ہوئی اور اس کے بعد اس زمین کو تروتازہ اور سرسبز رکھنے کے لئے پانی اہم کردار ادا کرتا رہا ۔ اس کے بعد آسمانوں میں بجلیوں کی چمک کی وجہ سے برف اور بارشوں کے ساتھ ایسی نائٹروجن گرتی رہی جو پانیوں میں تحلیل ہو سکتی تھی اور اس طرح زمین کے اندر روئیدگی شروع ہوگئی ۔ یہ وہ کھاد ہے ‘ جسے آج انسان انہیں قوانین قدرت کے اصول کو اپنا کر بنا رہے ہیں اور یہ وہ مادہ ہے کہ اگر روئے زمین اس سے خالی ہوجائے تو زمین کے اوپر کوئی تروتازگی نہ رہے گی ۔

(آیت) ” فَأَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِراً نُّخْرِجُ مِنْہُ حَبّاً مُّتَرَاکِباً وَمِنَ النَّخْلِ مِن طَلْعِہَا قِنْوَانٌ دَانِیَۃٌ وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّیْْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِہاً وَغَیْْرَ مُتَشَابِہٍ “۔ (6 : 99)

” پھر اس سے ہرے بھرے کھیت اور درخت پیدا کئے پھر ان سے تہہ بہ تہہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھولوں کے گچھے پیدا کئے جو بوجھ کے مارے جھکے پڑتے ہیں اور انگور ‘ زیتوں اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور پھر ہر ایک کی خصوصیت جدا جدا بھی ہے ۔ “

ہر ہرا پودا تہ بہ تہ چڑھے ہوئے دانے دیتا ہے ۔ مثلا خوشے وغیرہ ۔ اور کھجور کے درخت کے اوپر چھوٹی چھوٹی شاخیں نکلتی ہیں ۔ (قنو۔ جمع قنوان) یعنی ہو شاخ جس پر کھجوریں لگتی ہیں ۔ پھر (قنوان دانیۃ (6 : 99) شاخیں جھکی ہوئی بھی ایک نہایت ہی دل پسند اور لطیف ترکیب ہے ۔ یہ پورا منظر یوں نظر آتا ہے کہ گویا ہرے بھرے کھیتوں اور باغ کی گھنی چھاؤں کے درمیان انسان سیر کر رہا ہو جس میں انگوروں کے باغ اور زیتون کے باغات ہیں ۔ یہ نباتات اپنی مختلف اقسام اور خاندانوں کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ ملتے جلتے بھی ہیں اور علیحدہ خصوصیات کے بھی مالک ہے ۔

(آیت) ” انظُرُواْ إِلِی ثَمَرِہِ إِذَا أَثْمَرَ وَیَنْعِہِ “۔ (6 : 99)

” یہ درخت جب پھلتے ہیں تو ان میں پھل آنے اور پھر ان کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو ‘ ‘۔

تیز احساس اور بیدار دل کے ساتھ ان کی طرف دیکھو ‘ یہ کس قدر تروتازہ ہیں اور جس وقت یہ پکتے ہیں تو کس قدر خوبصورت نظر آتے ہیں ۔ دیکھو اور ان خوبصورت مناظر کو دیکھ کر لطف حاصل کرو۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ تم ان کے پھلوں کو کھاؤ جب وہ پھل دے دیں بلکہ یہ کہا کہ تم غور کی نظر سے دیکھو کہ کس طرح پھل لگتا ہے اور کس خوبصورتی کے ساتھ پکتا ہے اس لئے کہ یہاں خوبصورتی کے اظہار کا اور دعوت نظارہ کا مقام ہے ۔ پھر ان مناظر کا گہری نظر سے مطالعہ کرکے اللہ کی نشانیوں پر غور کرنے کا مقام ہے ۔ نیز اللہ کی کاریگری اور اس کی صنعت کاریوں پر فکر و تدبر کا مقام ہے ۔

(آیت) ” إِنَّ فِیْ ذَلِکُمْ لآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ (99)

” ان چیزوں میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں “۔

ایمان ہی وہ نعمت ہے جس سے دل کھل جاتا ہے اور جس کے ذریعے بصیرت روشن ہوتی ہے اور فطرت میں کسی حقیقت کو قبولیت اور تسلیم کرنے کی جو صلاحیت ہوتی ہے اور وہ اجاگر ہوجاتی ہے ۔ ذات انسانی کا ربط اس کائنات کے ساتھ پیدا ہوجاتا ہے اور انسان کا وجدان اس پوری کائنات کے خالق اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے ورنہ بعض دل ایسے ہوتے ہیں جو بند ہوتے ہیں اور بعض لوگوں کی بصیرت تاریک ہوجاتی ہے ۔ ان کی فطرت کا رخ الٹے پاؤں کی طرف ہوتا ہے ۔ وہ اللہ کی ان کاری گریوں اور صنعت کاریوں کو دیکھتے ہیں ۔ ان تمام آیات و دلائل کو دیکھتے ہیں لیکن انہیں کوئی احساس نہیں ہوتا اور نہ وہ سچائی کو قبول کرتے ہیں ۔

(آیت) ” انما یستجیب الذین یسمعون “۔ قبول تو وہ لوگ کرتے ہیں جو سنتے ہیں “۔ اور ان آیات ونشانات کو صرف وہ لوگ پاتے ہیں جو صاحب ایمان ہوں ۔

جب بات یہاں تک پہنچتی ہے تو انسان کے قلب ونظر کے سامنے اس پوری کائنات کی کتاب کو پیش کردیا جاتا ہے جو اللہ کے وجود کے دلائل ‘ اس کی وحدانیت ‘ اس کی قدرت اور اس کی تدبیر کے مختلف مظاہر سے بھری پڑی ہے اور انسانی وجدان کو اس کائنات کے پر تو نے اچھی طرح ڈھانپ لیا ۔ انسانی ضمیر نے انسانی زندگی کو بدل کر رکھ دیا اور انسانی ضمیر اللہ کی حکیمانہ صنعت وخلاقی کا اعتراف کرنے لگا ، جب بات اس مقام پر پہنچ گئی تو اب مشرکین کے افعال شرکیہ کو پیش کیا جاتا ہے ۔ ایسے حالات میں کہ شرک انسان کو غیر مانوس اور انوکھا لگتا ہے اور معرفت کرد گار کی اس فضا میں اور اعتراف مبدع خلائق کے ان تصورات میں جب مشرکین کے افکار وبیمہ کو پیش کیا جاتا ہے تو وہ بالکل پوچ اور بےبنیاد نظر آتے ہیں اور ایک سلیم الفطرت انسان کا مزاج ان سے ابا کرتا ہے ۔ انسانی فہم وادراک اور انسانی عقل اسے مسترد کردیتی ہے اور فورا ان شرکیہ تصورات پر تنقید کی جاتی ہے اور اس انکار اور تنبیہ کے لئے فضا بالکل تیار ہے ۔

اردو ترجمہ

اِس پر بھی لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرا دیا، حالانکہ وہ اُن کا خالق ہے، اور بے جانے بوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کر دیں، حالانکہ وہ پاک اور بالا تر ہے اُن باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WajaAAaloo lillahi shurakaa aljinna wakhalaqahum wakharaqoo lahu baneena wabanatin bighayri AAilmin subhanahu wataAAala AAamma yasifoona

(آیت) ” نمبر 100 تا 101۔

عرب کے بعض مشرکین جنوں کی عبادت کرتے تھے ‘ لیکن ان کو علم نہیں تھا کہ جن ہیں کیا ۔ البتہ یہ انہیں ایک وہمی سی مخلوق سمجھتے تھے اور یہ بتوں کے پیچھے کوئی مخلوق تھی ۔ انسان جب ایک بالشت کے برابر بھی عقیدہ توحید سے ہٹ جائے تو وہ اس قدر ہٹتا چلا جاتا ہے کہ راہ حق سے کوسوں دور ہوجاتا ہے لیکن آخر کار انسان دیکھتا ہے کہ نقطہ آغاز کا انحراف اگرچہ تھوڑا سا اور ناقابل لحاظ تھا لیکن آگے جا کر دونوں راہوں کے درمیان بہت بڑی خلیج واقع ہوجاتی ہے ۔ یہ مشرکین مکہ آغاز میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے دین پر تھے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا دین وہی دین توحید تھا جسے اس علاقے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش کیا تھا۔ لیکن یہ لوگ اس عقیدہ توحید سے انکار کر بیٹھے ۔ اگرچہ یہ انحراف آغاز کار میں بہت ہی معمولی ہوگا لیکن وہ بت پرستی کے فعل شنیع پر منتج ہوا اور وہ یہاں تک آپہنچے کہ جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرانے لگے حالانکہ جن اللہ کی مخلوق ہیں ۔

(آیت) ” وَجَعَلُواْ لِلّہِ شُرَکَاء الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ (6 : 100)

” اس پر بھی لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا دیا حالانکہ وہ ان کا خالق ہے “۔

دنیا میں جس قدر بت پرست مذاہب گزرے ہیں اور جن کی نوعیت مختلف جاہلیتوں میں مختلف رہی ہے ان سب میں ایک شریر مخلوق کا تصور رہا ہے اور اس شریر مخلوق کا تصور ایسا ہی رہا ہے جس طرح شیطان کا تصور ہے ۔ تمام بت پرست ہمیشہ اس شریر مخلوق سے ڈرتے رہے ہیں ۔ چاہے یہ شریر مخلوق ارواح شریرہ ہوں یا اشخاص شریرہ ۔ ان بت پرست مذاہب میں یہ رواج رہا ہے کہ وہ اس شریر مخلوق کے شر سے بچنے کے لئے کچھ قربانیاں دیں ۔ ہوتے ہوتے یہ شرکیہ مذاہب ان کی پوجا کرنے لگے ۔

عرب بت پرستی میں بھی ایسے ہی تصورات پائے جاتے تھے مثلا وہ جنوں کی پوجا کرتے تھے ۔ ان کو اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے حالانکہ اللہ کی ذات ان چیزوں سے پاک ہے ۔ قرآن کریم یہاں ان کے ان عقائد کی کمزوری ان کو بتاتا ہے اور بالکل ایک لفظ میں بات کو ختم کردیتا ہے۔ (خلقھم) اللہ نے تو ان کو خود پیدا کیا۔ یہ ہے تو صرف ایک لفظ لیکن ان کے عقائد کو مذاق بنا دینے کے لئے یہ ایک لفظ ہی کافی ہے ۔ جب پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور اس نے ان کی تخلیق کی ہے تو اللہ کی مخلوق اس کے ساتھ شریک کیسے ہوجائے گی اور اس مخلوق کو الوہیت اور ربوبیت کے حقوق کیسے حاصل ہوجائیں گے ۔

ان لوگوں نے صرف اس دعوے پر ہی اکتفا نہ کیا ‘ کیونکہ بت پرستانہ ادہام جب شروع ہوتے ہیں تو پھر کسی حد پر جا کر نہیں رکتے اور یہ انحراف آگے ہی بڑھتا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ اس سے بھی آگے بڑھے اور یہ عقیدہ اختیار کرلیا کہ اللہ کے بیٹے اور بیٹیاں بھی ہیں۔

(آیت) ” ْ وَخَرَقُواْ لَہُ بَنِیْنَ وَبَنَاتٍ بِغَیْْرِ عِلْمٍ “ (6 : 100)

” اور بےجانے بوجھے اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کردیں ‘ ‘۔

خرقوا کا مفہوم ہے کہ انہوں نے جعلی طور پر یہ عقیدہ تصنیف کرلیا ۔ خرقوا کے معنے ہوتے ہیں اپنی جانب سے جھوٹ گھڑنا ۔ خرق کے اصل معنی پھاڑنے کے ہیں مثلا کوئی جھوٹی خبر لے کر آتا ہے ۔ یہودیوں کے نزدیک حضرت عزیر ابن اللہ تھے ۔ نصاری حضرت مسیح کو ابن اللہ کہتے تھے ۔ مشرکین مکہ کے نزدیک ملائکہ اللہ کی بیٹیاں تھیں ۔ وہ فرشتوں کو مادہ تصور کرتے تھے لیکن وہ کوئی معقول بات نہ کرتے تھے کہ وہ کیوں مؤنث ہیں ۔ کیونکہ جھوٹے دعوے ہمیشہ بغیر علم کے ہوا کرتے ہیں لہذا ان لوگوں کے دعوے بھی بغیر علم کے ہیں۔

(آیت) ” ٍ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یَصِفُونَ (100)

” حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں ۔ “

اس کے بعد اب اللہ تعالیٰ ان کے ان افتراؤں کے جواب میں اصل حقیقت سامنے لاتے ہیں ۔ ان کے غلط تصورات کی تردید فرماتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ ان میں کیا کیا جھول ہے ۔

اردو ترجمہ

وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں ہے اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

BadeeAAu alssamawati waalardi anna yakoonu lahu waladun walam takun lahu sahibatun wakhalaqa kulla shayin wahuwa bikulli shayin AAaleemun

(آیت) ” بَدِیْعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ أَنَّی یَکُونُ لَہُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُن لَّہُ صَاحِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْْء ٍ وہُوَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ(101)

” وہ تو آسمان اور زمین کا موجد ہے ‘ اس کا کوئی بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اس کی کوئی شریک زندگی ہی نہیں ہے ۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔ “

اللہ تو وہ ہے جو اس پوری کائنات کو عدم مطلق سے وجود میں لایا لہذا اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ کسی کو اپنا خلف تجویز کرے ۔ خلف اور پسماندگان تو اس ذات کے لئے ہوتے ہیں جو فانی ہو ۔ اور یا جو کمزور ہو اور اسے امداد کی ضرورت ہو ‘ یا جنہیں دیکھ کر وہ خوش ہوسکے ۔

پھر ان لوگوں کو معلوم ہے کہ توالد وتکاثر کا ضابطہ کیا ہوتا ہے ۔ کسی شخص کے لئے اس ہی کی جنس سے ایک مادہ جوڑ ہوتا ہے ۔ جب اللہ کی بیوی ہی نہیں ہے تو بیٹا کیسے ہوگا اور وہ ان چیزوں سے پاک بھی ہے ۔ اس جیسی تو کوئی چیز ہی نہیں ہے لہذا کس طرح ممکن ہے کہ بغیر شادی کے نسل چلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو حقیقت ہے لیکن قرآن کریم اس حقیقت کو ان کے لئے قریب الفہم بنا دیتا ہے اور ان کے ساتھ خطاب میں ان کی فہم کو ملحوظ رکھتا ہے تاکہ وہ اپنے مشاہدات کے رنگ میں بات کو سمجھ سکیں۔

یہاں قرآن کریم ان کی تردید میں صرف حقیقت تخلیق کو پیش کرتا ہے تاکہ شرک کا کوئی سایہ تک باقی نہ رہے ۔

یوں کہ کسی صورت میں بھی مخلوق خالق کے ساتھ شریک نہیں بن سکتی ۔ کیونکہ خالق اور مخلوق کی حقیقت ہی جدا ہوتی ہے اور دوسری دلیل اللہ یہ دیتے ہیں کہ اللہ ہی حقائق کا علم رکھتا ہے اور ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے ۔

(آیت) ” وَخَلَقَ کُلَّ شَیْْء ٍ وہُوَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ(101) یعنی خلق بھی اس کا ہے اور علم بھی وہی رکھتا ہے ۔

جس طرح اس سے قبل قرآن کریم نے مشرکین مکہ کی تردید کرتے ہوئے یہ کہا کہ ” اللہ نے ہر چیز کی تخلیق کی ہے ۔ “ اور اس سے ان کے ان تصورات کی تردید کردی گئی اور بتادیا گیا کہ اللہ کے بیٹے بیٹیاں کیسے ہوسکتی ہیں جبکہ اللہ کی کوئی شریک زندگی ہی نہیں ہے یا اللہ کا کوئی شریک خود اس کی مخلوق سے کیسے بن سکتا ہے ‘ تو یہاں دوبارہ اللہ کی صفت تخلیق کو لایا جاتا ہے تاکہ یہ بات ثابت کی جاسکے کہ چونکہ وہ خالق ہے اس لئے وہی معبود ہوگا اور ہمیں چاہئے کہ ہم صرف اسی کی بندگی کریں اور اپنی زندگی میں پورا دین صرف اس کا نافذ کریں اسی لئے کہ خالق وہی ہے ۔ اس کے سوا کوئی اللہ اور حاکم نہیں ہو سکتا اور نہ ان کا اس کے سوا کوئی رب ہو سکتا ہے ۔۔۔

140