سورۃ الانعام: آیت 95 - ۞ إن الله فالق الحب... - اردو

آیت 95 کی تفسیر, سورۃ الانعام

۞ إِنَّ ٱللَّهَ فَالِقُ ٱلْحَبِّ وَٱلنَّوَىٰ ۖ يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ ٱلْمَيِّتِ مِنَ ٱلْحَىِّ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ

اردو ترجمہ

دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا اللہ ہے وہی زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے اور وہی مُردہ کو زندہ سے خارج کرتا ہے یہ سارے کام کرنے والا اللہ ہے، پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna Allaha faliqu alhabbi waalnnawa yukhriju alhayya mina almayyiti wamukhriju almayyiti mina alhayyi thalikumu Allahu faanna tufakoona

آیت 95 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 95۔

یہ وہ معجزہ ہے جس کے راز تک کوئی نہیں پہنچ سکا یہ تو بڑی بات ہوگی کہ کوئی یہ معجزہ کر دیکھائے ۔ کیا معجزہ ؟ یعنی زندگی کی تخلیق اور اس کی نشوونما اور اس کی حرکت ‘ ہر وقت ایک زندہ اور بڑھنے والے درخت سے مردہ بیج نکالتا ہے اور ایک بےجان گٹھلی ایک بڑھنے والے درخت سے نکلتی ہے ۔ پھر اس بیج اور اس گٹھلی کے اندر پوشیدہ زندگی ایک پودے اور ایک درخت کی شکل اختیار کرتی ہے ۔ یہ ایک خفیہ راز ہے جس کی حقیقت کا علم صرف اللہ کی ذات کریم کو ہے ۔ اس زندگی کا اصل مصدر اور منبع کیا ہے ‘ اس بات کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ انسان نے جو بھی عملی ترقی کی ہے ‘ جس قدر زندگی کے ظاہری امور کا مطالعہ کیا ہے اور جس قدر خصائص بھی متعین کئے ہیں اس کی انتہاء پر ایک راز ہے جو غائب ہے ۔ اس سلسلے میں جس طرح پہلے انسان کا علم محدود تھا اسی طرح اس آخری دور کے ترقی یافتہ انسان کا علم بھی محدود ہے ۔ انسان صرف مظاہر اور خواص حیات سے واقف ہے لیکن اسے زندگی کے اصل منبع اور اس کی اصل ماہیت کا علم نہیں ہے ۔ صورت حال یہ ہے کہ زندگی ہماری آنکھوں کے سامنے رواں دواں ہے اور یہ معجزہ ہر لحظہ واقعہ ہوتا رہتا ہے ۔

اللہ وہ ذات ہے جس نے روز اول سے ایک مردہ حالت سے انسان کو زندگی پخشی ۔ یہ کائنات تو تھی مگر انسان نہ تھا یہ زمین تھی مگر اس پر زندگی نہ تھی ۔ پھر یہ زندگی اذان الہی سے نمودار ہوئی ۔ یہ کیسے نمودار ہوئی ؟ اس کا ہمیں علم نہیں ہے اور اس وقت سے لے کر آج تک یہ زندگی مردے سے نمودار ہو رہی ہے اور مردہ ذرات زندگی کے ذریعے زندگی پاتے ہیں ۔ یہ بےجان مواد زندہ عضوی شکل اختیار کرتا ہے ‘ اور پھر یہ زندگی خلیہ انسان کے جسم میں اور تمام جانداروں کے جسم میں داخل ہوتا ہے ۔ یہ زندہ ذرات اب مزید تغیر پذیری کے ذریعے زندہ خلیے بن جاتے ہیں اور اس کے بعد یہ زندہ خلیے پھر مرجاتے ہیں ۔ کیونکہ زندہ خلیے ہر وقت مردہ خلیوں کی شکل اختیار کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ہو یہ زندہ شخص یا جانور ایک دن مردہ ذرات کی شکل میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ یہ ہے مفہوم اس جملے کا ۔

(آیت) ” یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیَِّ (95)

” وہ زندہ کو مردے سے خارج کرنے والا ہے اور مردے کو زندہ سے خارج کرنے والا ہے ۔ “

اللہ کے سوا کوئی بھی یہ کام نہیں کرسکتا اور یہ بھی ناممکن ہے کہ آغاز حیات کے وقت اللہ کے سوا کوئی اور حیات پیدا کرسکے اور نہ کوئی یہ قدرت رکھتا کہ وہ مردہ ذروں کو زندہ ذروں کی شکل دے دے ۔ یہ اللہ ہی ہے جو ان زندہ ذروں کو پھر مردہ ذروں کی شکل دیتا ہے اور یہ سرکل ایک ایسا سرکل ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ اس کا آغاز کب ہوا اور کب یہ سرکل ختم ہوگا ۔ سائنس دان جو قیافے لگاتے رہتے ہیں وہ محض احتمالات ہیں ۔

اس کرہ ارض پر ظہور حیات کے خصائص کے بارے میں آج تک سائنس دانوں نے جو نظریات بیان کیے ہیں ان میں سے کوئی نظریہ بھی تشفی بخش نہیں ہے ۔ صرف یہ نظریہ تشفی بخش ہے کہ اس دنیا پر تخلیق کائنات ذات باری کا کارنامہ ہے اور یورپ میں جب قرون وسطی میں عوام کنیسہ سے بھاگ کھڑے ہوئے جس طرح بدکے ہوئے گدھے ہوں یا جس طرح شیر کے ڈر سے جانور بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ۔ مذہب سے فرار اختیار کرنے والوں نے جب اس کرہ ارض پر تخلیق حیات کے راز کے عقدے کو حل کرنا چاہا ‘ پھر جب انہوں نے خود اس کائنات کی تخلیق کے رازوں سے پردہ اٹھانا چاہا ‘ اور یہ کام انہوں نے خدا کے نظریے کو اپناتے ہوئے کیا تو ان کی تمام مساعی ناکام رہیں اور بیسوی صدی میں اس موضوع پر جو کچھ بھی لکھا گیا وہ ایک مذاق کے سوا کچھ نہ تھا اور یہ تمام تحریریں عناد اور انکار مذہب پر مبنی تھیں اور کوئی مخلصانہ مساعی نہ تھیں ۔

ان سائنس دانوں میں سے بعض صحیح الفکر لوگوں نے اپنے عجز ناتوانی کا اعراف کیا ہے ۔ ایسے لوگوں کی باتوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس موضوع پر انسان کا علم کس قدر محدود ہے ۔ ہمارے ہاں بعض ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جو سترہویں یا انیسویں صدی کے مغربی افکار کو نقل کرتے ہیں ۔ اور دعوی کرتے ہیں کہ وہ سائنس دان ہیں اور صرف مشاہدے کے قائل ‘ جبکہ اہل مذہب عالم غیب کو ماننے والے ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ کو سمجھانے کے لئے میں یہاں بعض بڑے سائنس دانوں کے اقوال نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں مثلا بعض امریکی علماء یہاں تک پہنچے ہیں۔

ڈاکٹر فرانک ایلن ‘ کو رنل یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اور کینیڈا کی مانٹویا یونیورسٹی میں حیاتیات کے استاد ہیں ۔ اپنے ایک مقالے میں جس کا عنوان ہے ” یہ دنیا یہ یا اتفاقا وجود میں آئی یا منصوبے کے تحت “ ۔ یہ مقالہ بتجلی فی عصر العلم کتاب ترجمہ ڈاکٹر مرداش عبدالحمید سرفان سے نقل کیا گیا ہے ۔

” اگر یہ زندگی کسی سابقہ متعین منصوبے اور اسکیم کے تحت وجود میں نہیں لائی گئی تو پھر یہ اتفاقا وجود میں آگئی ہوگی ۔ وہ ” اتفاق “ کیا ہے ؟ معلوم ہونا چاہئے تاکہ ہم اس پر غور کریں اور دیکھیں کہ اس ” اتفاق “ کے ذریعے زندگی کا ظہور کس طرح ہوتا ہے ۔ “

” اتفاق اور احتمال (بخت واتفاق) کے جو نظریات اس وقت پائے جاتے ہیں پہلے کی طرح نہیں ہیں ۔ دور جدید میں اب ان کے لئے ریاضی کے کچھ ٹھوس اصول اور قواعد مرتب ہوچکے ہیں اور اگر کسی موضوع پر یقینی فیصلہ نہ کی جاسکتا ہو تو ان اصولوں کے مطابق بخت واتفاق کے اصولوں کو کام میں لایا جاتا ہے اور ان اصولوں کے مطابق جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ اقرب الی الصواب ہوتے ہیں اگرچہ ان نتائج کے غلط ہوئے کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ حقیقت ہے کہ ریاضی کے زاویہ سے نظریہ بخت واتفاق نے کافی ترقی کرلی ہے ۔ ان قواعد اور اصولوں کے مطابق انسان کے لئے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ بعض واقعات کے بارے میں بات کرسکے ۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ واقعات اتفاقا ہوگئے ہیں اور جن کے ظہور کے اسباب و عوامل دوسرے ذرائع سے معلوم نہیں ہو سکتے ۔ (مثلا تاش کے کھیل میں پھول کا پھینکنا) ان تحقیقات کی وجہ سے انسان اس بات پر قادر ہوگیا ہے کہ وہ یہ بتا سکے کہ کیا چیز اتفاقا وجود میں آجاتی ہے اور کیا امر جو اتفاقا وجود میں نہیں آسکتا ۔

(اسلامی تصورحیات کے مطابق اس دنیا میں بخت واتفاق نہیں ہے ۔ ہر چیز کی تخلیق تقدیر الہی کے مطابق ہوتی ہے ۔ ان خلقلنا کل شیء بقدر۔

(ہم نے ہر چیز کو اندازے کے مطابق تخلیق کیا) اللہ نے تخلیق کائنات کے لئے اٹل قوانین وضع کئے ہیں ۔ جو واقعات ہوتے ہی ان ہر بار سنت الہیہ کے مطابق تقدیر الہی تصرف کرتی ہے ۔ اسی طرح یہ قوانین قدرت بھی کبھی کبھی ٹال دئیے جاتے ہیں اور ایک خارق عادت معجزہ صادر ہوجاتا ہے ۔ یہ بھی ایک خاص حکمت الہیہ کے مطابق ہوتا ہے کیونکہ یہ نوامیس فطرت اور خارق عادت بظاہر دونوں اللہ کی تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں ۔ ہم نے جو سائنس دانوں کے حوالے دیئے ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ ہم محولہ بالاعبارت سے پوری طرح متفق بھی ہوں) اور یہ بھی بتایا جاسکتا ہے کہ کون سا واقعہ کس قدر عرصے کے بعد اتفاقا نمودار ہوسکتا ہے ۔ اس تمہید کے بعد اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس کرہ ارض پر زندگی کا ظہور بطور اتفاق ہو سکتا ہے ۔ “

تمام زندہ خلیوں میں پروٹین بنیادی عناصر ترکیبی ہیں ۔ یہ پروٹین پانچ عناصر سے مرکب ہوتے ہیں ۔ کاربن ہائیڈوجن ‘ نائٹروجن ‘ آکسیجن اور گندھک ۔ ایک پروٹین میں چالیس ہزار ایٹم ہوتے ہیں ، کیمیاوی عناصر کی تعداد 29 ہے ۔ اور یہ سب غیر منظم اور نامعلوم مقداروں میں بکھرے ہوئے ہیں ۔

(عقل انتہائی بھی فلسفیانہ اصطلاحات میں سے ایک ہے ۔ ایک مسلمان اللہ پر صرف اس کے اسمائے حسنی ہی کا اطلاق کرسکتا ہے اس لئے اللہ پر اس لفظ کا اطلاق مناسب نہیں ہے)

ان پانچ عناصر کے آپس میں ملنے کے احتمال کے تعین کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس مادے کی مقدار اور زمانے کا تعین ہو اور وہ مادہ مسلسل ان عناصر پر مشتمل مخلوطہ میں رہے اور پھر اس قدر طویل عرصے تک وہ مادہ یونہی رہے تاکہ اس عرصے میں ” اتفاقا “ واقعہ ہوجائے اور یوں ایک عدد پروٹین حاصل ہوجائے ۔ “ غرض یہ تعین ضروری ہے کہ کتنا مادہ کتنے عرصے کے لئے ضروری ہے ۔ “

” سوئٹزر لینڈ کے ایک ریاضی دان نے کچھ حساب لگایا ہے (چار لزیوجین جے) اس نے اس کا حساب لگا کر کہا ہے کہ احتمال کے طور پر ایک پروٹین کی تشکیل پر ایک نسبت : دس کی قیمت 160 مرتبہ لگائی جائے (1 : 160 : 1) یہ اس قدر بڑی رقم بنتی ہے کہ زبان سے اس کا ادا کرنا بھی مشکل ہے نہ الفاظ کے ذریعے اسے بیان کیا جاسکتا ہے اور بطور اتفاق اس عمل کی تکمیل کے لئے یعنی ایک پروٹین کی تشکیل کے لئے اس قدر مادے کی ضرورت ہے جس کے ساتھ اس پوری کائنات کو کئی ملین بار بھرا جاسکتا ہو اور اگر صرف روئے زمین پر اتفاقا ایک پروٹین کو پیدا کرنا ہو تو اس کے لئے کئی بلین سالوں کی ضروری ہوگی اور یعنی 10 کی ” 243 (243 : 10) یہ زمانہ مذکور ماہر طبیات نے تجویز کیا ہے ۔

” پروٹین اینوایسڈ کے طویل سلسلوں سے تشکیل پاتے ہیں ‘ تو سوال یہ ہے کہ ان جزئیات کے ذرات کی باہم تالیف کس طرح ہوتی ہے ؟ جس طرح ان کی تشکیل طبعی ہوتی ہے اگر اس کے سوا کسی اور طریق سے ان کی تالیف ہو تو وہ زندگی کے اہل ہی نہیں رہتے ‘ اور بعض اوقات ایسے پروٹین زہربن جاتے ہیں ۔ ایک برطانوی سکالر ۔ ج ۔ ب سیتھر (J.B.SeAther) نے حساب لگایا ہے کہ ان سلسلوں میں پروٹینی ایٹم کس تعداد میں ہوتے ہیں انکے نزدیک انکی تعداد (48 : 10) ہوتی ہے ۔ اس لئے عقلا یہ بات محال ہے کہ احماض امینہ کا یہ پورا سلسلہ محض اتفاقی طور پر تالیف پا جائے اور دنیا میں ایک پروٹین بن جائے ۔ “

” لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بات پیش نظر رہے کہ پروٹین ایک کیمیاوی مادہ ہے جس کے اندر کوئی زندگی نہیں ہوتی اور اس کے اندر زندگی اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک اس کے اندر وہ خفیہ عمل نہیں ہوجاتا جو آج تک ایک عجیب راز ہے اور جس کی حقیقت کا ہمیں کوئی علم نہیں ہے اور اس بات کو صرف ” عقل لا انتہائی “ 2۔ جانتا ہے اور یہ صرف اللہ ہے جس کی حکمت بالغہ کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے کہ یہ پروٹینی جزء مقرحیات بنتا ہے ۔ یہ حیات کی منزل ہے جسے اللہ نے بنایا ۔ اس کو ایک بہترین شکل دی ہے اور اس کو راز حیات بخشا ہے ۔ “

نباتات کی موروثی صفات کے ایک ماہر مسٹر ایرٹنگ ولیم ‘ استاد طبیعیات جامعہ ایوی مچیگن مقالے بعنوان ” صرف مادیت کافی نہیں ہے “ میں لکھتے ہیں :

سائنس اس بات پر قادر نہیں ہے کہ نہایت ہی چھوٹے ایٹم لاتعداد صورت میں کس طرح وجود میں آجاتے ہیں ‘ جن سے دنیا کے تمام مادے مرکب ہوتے ہیں اور اس طرح سائنس کوئی قابل اعتماد توجیہ نہیں کرسکتی کہ ان چھوٹے چھوٹے ایٹموں سے ذی حیات جاندار کس طرح اتفاقا بن جاتے ہیں اور یہ نظریہ کہ تمام جاندار اپنی موجودہ ترقی یافتہ صورت میں بسبب حدوث غفرات عشورئیہ اور ھجائن کے تجمعات کی وجہ سے پہلے پہنچے ایک ایسا نظریہ ہے جو کسی ایسی دلیل ومنطق کی اساس پر قائم نہیں ہے جس پر اطمینان ہوتا ہو ‘ یہ بات محض تسلیم کرلینے کی وجہ سے ہی ممکن ہے ۔ “

(یہ بھی سائنس دانوں کا خبط ہے کہ عناصر کی مقدار معلوم نہیں ہے ۔ ان عناصر کی مقدار بھی مقرر ہے)

باہلر یونیورسٹی کے پروفیسر طبیعیات ڈاکٹر البرٹ میکومب ونسٹر اپنے ایک مقالے کا عنوان یہ دیتے ہیں ” سائنس نے میرا ایمان باللہ کو مضبوط کردیا “۔ وہ لکھتے ہیں :

’ میں نے حیاتیات کے مطالعہ میں اپنے آپ کو مصروف رکھا ۔ حیاتیات وہ علم ہے جس کا موضوع زندگی ہے جس کا میدان مطالعہ بہت ہی وسیع ہے اور اللہ کی تمام مخلوقات میں سے زیادہ دلکش چیز اس دنیا کی زندہ مخلوق ہے ۔ “

” ذرا پودے کو دیکھئے ‘ یہ نہایت ہی چھوٹا پودا ہے ۔ یہ راستے کے ایک کنارے پر اگا ہوا ہے ۔ کیا آپ بیشمار انسانی مصنوعات وآلات میں سے کسی چیز کو اس کے مقابلے میں پیش کرسکتے ہیں ۔ یہ ایک زندہ آلہ ہے اور مسلسل رات دن چلتا رہتا ہے ۔ اس کے اندر ہزاروں کیمیاوی عمل اور ردعمل واقعہ ہوتے رہتے ہیں ‘ طبعی تغیرات ہوتے ہیں اور پروٹوپلازم کے تحت ہوتے ہیں ۔ یہ وہ مادہ ہے جو تمام زندہ کائنات کی ترکیب میں داخل ہوتا ہے ۔ “

” سوال یہ ہے کہ یہ زندہ اور پیچیدہ آلہ کہاں سے آگیا ؟ اسے اللہ نے صرف اس کو اس شکل میں نہیں بنایا بلکہ اللہ نے پوری زندگی کو بھی تخلیق کیا ہے اور اسے اپنے تحفظ کی قوت بھی دی ہے ۔ وہ اس زندگی کو تسلسل بھی ہے اور اس نے اس کے اندر وہ تمام خواص رکھے ہیں اور تمام خصوصی صفات اس کے اندر ودیعت کیں ہیں جن کی وجہ سے ہم ایک پودے اور دوسرے پودے کے درمیان فرق کرتے ہیں ۔ زندہ اشیاء میں اس عظیم کثرت کا مطالعہ بھی ایک عظیم اور دلچسپ موضوع ہے اور اس سے قدرت کی طاقت کی بو قلمونیوں کا اظہار ہوتا ہے ۔ وہ خلیہ جس کے ذریعے نسل کشی ہوتی ہے اور ایک نیا پودا وجود میں آتا ہے اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ صرف مائیکرو سکوپ سے نظر آتا ہے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس پودے کے خواص ‘ ہر رگ ‘ ہر ریشہ ‘ ہر شاخ اور ہر تنا ‘ ہر جڑ اور ہر چھوٹا ریشہ ‘ ایسے انجینئروں کی زیر نگرانی سرانجام پاتا ہے کہ یہ تمام نقوش اس چھوٹے سے خلیہ کے اندر موجود ہوتے ہیں اور اس کے اندر موجود رہتے ہیں ۔ یہ انجینئرکون ہوتے ہیں ؟ یہ کروموسوم ہوتے ہیں ۔ “

میں سمجھتا ہوں کہ اس قدر حوالے کافی ہیں اب پھر ہم دوبارہ اس حسن ادا کی طرف لوٹتے ہیں جو قرآن کریک کی عبارت میں موجود ہے ۔ :

(آیت) ” ذَلِکُمُ اللّہُ رَبُّکُمْ (6 : 102) (یہ سارے کام کرنے والا تو اللہ تمہارا رب ہے ۔ “ جو اس معجزہ حیات کا موجد ہے اور اس معجزے کا ظہور تسلسل سے ہو رہا ہے لیکن راز حیات کسی کو بھی معلوم نہیں ہے ۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ تمہارا رب اور وہی اس بات کا مستحق ہے کہ تم لوگ اس کے حلقہ بگوش بنو ۔ اس کے ساتھ خشوع و خضوع کرو اور اس کے احکام کا اتباع کرو۔

(آیت) ” فَأَنَّی تُؤْفَکُونَ (95) ” پھر تم کدھر بہکے چلے جارہے ہو ؟ “ تم اس سچائی سے صرف نظر کر کے دوسری راہوں پر چل رہے ہو حالانکہ یہ راہ حق ہے عقلی طور پر واضح ہے ‘ دل لگتی بات ہے اور چشم بصیرت کے لئے تشفی ہے ۔

یہ معجزہ یعنی مردے سے زندہ کو نکالنا ‘ قرآن نے اس کا ذکر بار بار کیا ہے اور اس حقیقت کو بھی قرآن نے باربار دہرایا ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے جو بتلاتے ہیں کہ خالق خائنات وحدہ لاشریک ہے ۔ یہ اس لئے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ خالق کائنات ایک ہے اور اسی وحدہ لا شریک کی بندگی کی ضرورت ہے ۔ عقیدہ ونظریہ میں بھی وحدہ لا شریک کو مانا جائے اور ربوبیت بھی اسی وحدہ لاشریک کی تسلیم کی جائے ۔ مراسم عبودیت بھی اسی کے سامنے بجا لائے جائیں اور زندگی کے قوانین اور ضوابط بھی اسی کے احکام سے اخذ کئے جائیں ۔ صرف اسی کے نافذ کردہ قانونی نظام یعنی شریعت کی پابندی کی جائے ۔

(اس مصنف نے اس مقالے میں برٹرینڈرسل کے اس نظریے کی تردید کی ہے کہ زندگی اتفاق کے طور پر وجود میں آتی ہے اور اتفاقا چلی جاتی ہے)

قرآن کریم میں ان باتوں کا ذکر محض لاہوتی فلسفیانہ انداز میں نہیں کیا جاتا ۔ یہ دین تو بہت ہی معقول اور سنجیدہ دین ہے اور لوگوں کا وقت لاہوتی مباحث اور فلسفیانہ موشگافیوں میں ضائع نہیں کرتا ۔ دین اسلام کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں کے تصور حیات کو درست کیا جائے اور انہیں صحیح افکار اور صحیح عقائد دیئے جائیں تاکہ انکی ظاہری اور باطنی زندگی درست ہو سکے ۔ لوگوں کی زندگی کی اصلاح صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ وہ صرف اللہ وحدہ کی بندگی کی طرف لوٹ جائیں اور اپنے جیسے انسانوں کی غلامی کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکیں ۔ جب تک کہ وہ اپنی پوری زندگی میں اللہ کی اطاعت اختیار نہ کرلیں اور روز مرہ کی زندگی میں اللہ وحدہ کی شریعت کو نہ اپنالیں ۔ حیات کے بارے میں ان کا عقیدہ اور نظریہ درست نہیں ہوسکتا ، ان کی زندگی میں ایسے لوگوں کا اقتدار نہ ہو جو زبردستی ان پر مسلط ہوگئے ہوں ‘ جو بالفاظ دیگر حق الوہیت کے دعویدار ہیں اور لوگوں کی زندگیوں پر اللہ کے حق حاکمیت کے بجائے وہ خود اپنا حق استعمال کرتے ہی ۔ یوں وہ اس دنیا کے جھوٹے خداؤں میں شامل ہوگئے ہیں انہوں نے لوگوں کی حیات دنیوی میں بگاڑ پیدا کردیا ہے اور یہ فساد محض اس لئے ہے کہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی اطاعت کرنے لگتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان باتوں پر تعقیب یہ آتی ہے ۔

(آیت) ” ذَلِکُمُ اللّہُ فَأَنَّی تُؤْفَکُونَ (95) ” یہ سارے کام تو اللہ تمہارے رب کے ہیں پھر تم کدھر بہکے چلے جارہے ہو ؟ “ تمہاری زندگی میں ربوبیت یعنی مکمل اطاعت کا مستحق تو وہی ہے ۔ رب کا مفہوم ہے مربی ‘ جس کی طرف انسان متوجہ ہو ‘ جو سردار اور حاکم ہو ‘ اپنے ان مفہومات کے ساتھ اللہ کے سوا کوئی اور رب نہیں ہے ۔

(لفظ رب کی توضیح کے لئے دیکھئے امیر جماعت اسلامی پاکستان کی کتاب المصطلحات الاربعہ فی القرآن)

آیت 95 اِنَّ اللّٰہَ فٰلِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ط۔عالم خلق کے اندر جو امور اور معاملات معمول کے مطابق وقوع پذیر ہو رہے ہیں ‘ یہاں ان کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ مثلاً آم کی گٹھلی زمین میں دبائی گئی ‘ کچھ دیر کے بعد وہ گٹھلی پھٹی اور اس میں سے دو پتے نکلے۔ اسی طرح پوری کائنات کا نظام چل رہا ہے۔ بظاہر یہ سب کچھ خود بخود ہوتا نظر آرہا ہے ‘ مگر حقیقت میں یہ سب کچھ ان فطری قوانین کے تحت ہو رہا ہے جو اللہ نے اس دنیا میں فزیکل اور کیمیکل تبدیلیوں کے لیے وضع کردیے ہیں۔ اس لیے اس کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے ہر چھوٹے بڑے معاملے کا فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا ذکر شیخ عبدالقادر جیلانی رض نے اپنے وصایا میں کیا ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے میرے بچے اس حقیقت کو ہر وقت مستحضر رکھنا کہ لَا فاعلَ فی الحقیقۃ ولا مؤثِّر اِلّا اللّٰہ یعنی حقیقت میں فاعل اور مؤثر اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ اشیاء میں جو تاثیر ہے وہ اسی کی عطا کردہ ہے ‘ اسی کے اذن سے ہے۔ تم کسی فعل کا ارادہ تو کرسکتے ہو لیکن فعل کا بالفعل انجام پذیر ہونا تمہارے اختیار میں نہیں ہے ‘ کیونکہ ہر فعل اللہ کے حکم سے انجام پذیرہو تا ہے۔

اس کی حیرت ناک قدرت دانوں سے کھیتیاں بیج اور گٹھلی سے درخت اللہ ہی اگاتا ہے تم تو انہیں مٹی میں ڈال کر چلے آتے ہو وہاں انہیں اللہ تعالیٰ پھاڑتا ہے۔ کونپل نکالتا ہے پھر وہ بڑھتے ہیں قوی درخت بن جاتے ہیں اور دانے اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ پھر گویا اسی کی تفسیر میں فرمایا کہ زندہ درخت اور زندہ کھیتی کو مردہ بیج اور مردہ دانے سے وہ نکالتا ہے جیسے سورة یٰسین میں ارشاد ہے آیت (وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ ښ اَحْيَيْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَاْكُلُوْنَ) 36۔ یس :33) مخرج کا عطف فالق پر ہے اور مفسرین نے دوسرے انداز سے ان جملوں میں ربط قائم کیا ہے لیکن مطلب سب کا یہی ہے اور اسی کے قریب قریب ہے، کوئی کہتا ہے مرغی کا انڈے سے نکلنا اور مرغ سے انڈے کا نکلنا مراد ہے۔ بد شخص کے ہاں نیک اولاد ہونا اور نیکوں کی اولاد کا بد ہونا مراد ہے۔ وغیرہ۔ آیت درحقیقت ان تمام صورتوں کو گھیرے ہوئے ہے۔ پھر فرماتا ہے ان تمام کاموں کا کرنے والا اکیلا اللہ ہی ہے پھر کیا وجہ کہ تم حق سے پھرجاتے ہو ؟ اور اس لا شریک کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگتے ہو ؟ وہی دن کی روشنی کا لانے والا اور رات کے اندھیرے کا پیدا کرنے والا ہے۔ جیسے کہ اس سورت کے شروع میں فرمایا تھا کہ وہی نور و ظلمت کا پیدا کرنے والا ہے۔ رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو دن کی نورانیت سے بدل دیتا ہے۔ رات اپنے اندھیروں سمیت چھپ جاتی ہے اور دن اپنی تجلیوں سمیت کائنات پر قبضہ جما لیتا ہے، جیسے فرمان ہے وہی دن رات چڑھاتا ہے۔ الغرض چیز اور اس کی ضد اس کے زیر اختیار ہے اور یہ اس کی بےانتہا عظمت اور بہت بڑی سلطنت پر دلیل ہے۔ دن کی روشنی اور اس کی چہل پہل کی ظلمت اور اس کا سکون اس کی عظیم الشان قدرت کی نشانیاں ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (وَالضُّحٰى ۙ وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى ۙ) اور جیسے اس آیت میں فرمایا آیت (وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى ۙ وَالنَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى ۙ) 92۔ اللیل :12) اور آیت میں ہے (وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا ۽ وَاللَّيْلِ اِذَا يَغْشٰـىهَا ۽) 91۔ والشمس :34) ان تمام آیتوں میں دن رات کا اور نور و ظلمت روشنی اور اندھیرے کا ذکر ہے حضرت صہیب رومی ؒ سے ایک بار ان کی بیوی صاحبہ نے کہا کہ رات ہر ایک کے لئے آرام کی ہے لیکن میرے خاوند حضرت صہیب کے لئے وہ بھی آرام کی نہیں اس لئے کہ وہ رات کو اکثر حصہ جاگ کر کاٹتے ہیں۔ جب انہیں جنت یاد آتی ہے تو شوق بڑھ جاتا ہے اور یاد اللہ میں رات گزار دیتے ہیں اور جب جہنم کا خیال آجاتا ہے تو مارے خوف کے ان کی نیند اڑ جاتی ہے۔ سورج چاند اس کو مقرر کئے ہوئے اندازے پر برابر چل رہے ہیں کوئی تغیر اور اضطراب اس میں نہیں ہوتا ہر ایک کی منزل مقرر ہے جاڑے کی الگ گرمی کی الگ اور اسی اعتبار سے دن رات ظاہر ہوتے ہیں چھوٹے اور بڑے ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے آیت (ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ) 10۔ یونس :5) اسی اللہ نے سورج کو روشن اور چاند کو منور کیا ہے ان کی منزلیں مقرر کردی ہیں اور آیت میں ہے (لَا الشَّمْسُ يَنْۢبَغِيْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ) 36۔ یس :40) نہ تو آفتاب ہی سے بن پڑتا ہے کہ چاند کو جا لے اور نہ رات دن پر سبق لے سکتی ہے ہر ایک اپنے فلک میں تیرتا پھرتا ہے اور جگہ فرمایا سورج چاند ستارے سب اس کے فرمان کے ما تحت ہیں۔ یہاں فرمایا یہ سب اندازے اس اللہ کے مقرر کردہ ہیں جسے کوئی روک نہیں سکتا جس کے خلاف کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ جو ہر چیز کو جانتا ہے جس کے علم سے ایک ذرہ باہر نہیں۔ زمین و آسمان کی کوئی مخلوق اس سے پوشیدہ نہیں۔ عموماً قرآن کریم جہاں کہیں رات دن سورج چاند کی پیدائش کا ذکر کرتا ہے وہاں کلام کا خاتمہ اللہ جل و علا نے اپنی عزت و علم کی خبر پر کیا ہے جیسے اس آیت میں اور (واٰیتہ لھم اللیل) میں اور سورة حم سجدہ کی شروع کی آیت (وَزَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ ڰ وَحِفْظًا ۭ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ) 41۔ فصلت :12) میں۔ پھر فرمایا ستارے تمہیں خشکی اور تری میں راہ دکھانے کے لئے ہیں بعض سلف کا قول ہے کہ ستاروں میں ان تین فوائد کے علاوہ اگر کوئی اور کچھ مانے تو اس نے خطا کی اور اللہ پر چھوٹ باندھا ایک تو یہ کہ یہ آسمان کی زینت ہیں دوسرے یہ شیاطین پر آگ بن کر برستے ہیں جبکہ وہ آسمانوں کی خبریں لینے کو چڑھیں تیسرے یہ کہ مسافروں اور مقیم لوگوں کو یہ راستہ دکھاتے ہیں۔ پھر فرمایا ہم نے عقلمندوں عالموں اور واقف کار لوگوں کیلئے اپنی آیتیں بالتفصیل بیان فرما دی ہیں۔

آیت 95 - سورۃ الانعام: (۞ إن الله فالق الحب والنوى ۖ يخرج الحي من الميت ومخرج الميت من الحي ۚ ذلكم الله ۖ فأنى...) - اردو