سورۃ الانعام: آیت 35 - وإن كان كبر عليك إعراضهم... - اردو

آیت 35 کی تفسیر, سورۃ الانعام

وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ ٱسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِىَ نَفَقًا فِى ٱلْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِى ٱلسَّمَآءِ فَتَأْتِيَهُم بِـَٔايَةٍ ۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى ٱلْهُدَىٰ ۚ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْجَٰهِلِينَ

اردو ترجمہ

تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر سکتا تھا، لہٰذا نادان مت بنو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain kana kabura AAalayka iAAraduhum faini istataAAta an tabtaghiya nafaqan fee alardi aw sullaman fee alssamai fatatiyahum biayatin walaw shaa Allahu lajamaAAahum AAala alhuda fala takoonanna mina aljahileena

آیت 35 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 35 تا 36۔

نہایت ہی شاہانہ انداز کے درمیان سے خوف کے چشمے پھوٹ رہے ہیں ۔ کوئی ان الفاظ کی ہولناکی اور اس معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ اس حقیقت کو اپنے ذہن میں تازہ نہ رکھے کہ یہ الفاظ رب العالمین کی طرف سے ہیں اور ان کیساتھ اللہ رب العالمین نے اپنے نبی کو مخاطب کیا ہے جن کی صفات میں صابر ہونا اور اولوالعزم رسولوں میں سے ہونا اہم صفات ہیں ۔ جنہوں نے نہایت ہی صبر اور خلوص کے ساتھ اپنی قوم کی جانب سے پہنچنے والی ایذاؤں کو برداشت کیا ۔ آپ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرح ان کو بددعا نہ دی حالانکہ ایک زمانہ ان کی تیش ذنیاں سہتے رہے ۔ اور نہایت ہی صبر اور حلم کا مظاہرہ فرماتے رہے ۔

اے محمد ! یہ تو ہماری سنت ہے ۔ اگر ان لوگوں کی بےرخی اور ان کی جانب سے مسلسل تکذیب آپ برداشت نہیں کرسکتے اور آپ بہرحال انہیں کوئی معجزہ ہی دکھانا چاہتے ہیں تو پھر اگر آپ کے اندر استطاعت ہے تو آپ زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈلیں یا آسمان تک پہنچنے کے لئے کوئی سیڑھی لگا لیں اور اس طرح ان لوگوں کے سامنے کوئی حیران کن معجزہ پیش کردیں ۔

ان کی ہدایت ‘ حقیقت یہ ہے کہ اس لئے موقوف نہیں ہے کہ تم ان کے سامنے کوئی معجزہ پیش کر دو ۔ صرف یہ کمی نہیں رہ گئی کہ بس کوئی معجزہ صادر ہوا اور وہ ہدایت کو قبول کرلیں ۔ جیسے وہ بالکل تیار بیٹھے ہوں ۔ اس طرح تو اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو انہیں ہدایت پر جمع کردیتا ۔ یا تو اللہ اس طرح کرتا کہ ابتداء ہی سے انہیں اس طرح پیدا کرتا کہ وہ ہدایت کے سوا کوئی اور راستہ قبول ہی نہ کرتے مثلا ملائکہ اور یا یوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو اپنی قدرت کے ذریعے راہ ہدایت کی طرف موڑ دیتا اور وہ ہدایت کی قبولیت کے لئے آمادہ ہوجاتے اور یا اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ صادر کردے جس کی وجہ سے ان کی گردنیں جھک جائیں اور کسی وجہ سے یا بغیر کسی وسیلہ کے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے دے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے ۔

لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی اس حکمت کی وجہ سے جو اس پوری کائنات میں جاری وساری ہے ‘ اس مخلوق مکرم حضرت انسان کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ۔ اس آسمانی منصوبے کے مطابق اس مقصد کی خاطر اس بات کی ضرورت تھی کہ اس مخلوق کو کچھ متعین صلاحتیں دی جاتیں اور یہ صلاحتیں ان صلاحیتوں سے جدا ہوں جو فرشتوں کو دی گئی تھیں ۔ ان خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ انسانوں کی صلاحیتوں کے درمیان تفاوت رکھی جائے ۔ یہ کہ لوگوں کے اندر ہدایت اور ایمان کی قبولیت کی استعداد بھی مختلف ہو اور لوگوں کے اندر قبولیت حق کے مادے کی مقدار بھی مختلف ہو ۔ یہ کام اللہ کے دائرہ قدرت کے مطابق اللہ کے قانون عدل کے مطابق اور اس کے قانون جزا وسزا کے عین مطابق ہو ۔

یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی جبر کے ذریعے لوگوں کو راہ ہدایت پر جمع نہیں فرمایا ۔ اللہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ہدایت کی راہ لیں اور ماننے نہ ماننے کا اختیار انہیں دے دیا اور آخرت میں اس پر عادلانہ جزاء وسزا کا اجراء فرمایا ۔ اس حقیقت کو جاننا چاہئے اور اس سے غافل نہ ہونا چاہئے ۔

(آیت) ” وَلَوْ شَاء اللّہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْہُدَی فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْجَاہِلِیْنَ (35) ” اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کرسکتا تھا لہذا نادان مت بنو ۔ “

شوکت کلام دیکھنے کے قابل ہے اور فیصلہ ہدایت بھی قابیل دید ہے ‘ لیکن بات کا موقع ومحل ہی ایسا تھا جس کے اندر اس زور دار بات اور دو ٹوک ہدایت کی ضرورت تھی ۔

اس کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ نے انسانوں کو کس مزاج اور کس فطرت پر پیدا کیا ہے اور یہ کہ وہ ہدایت کے مقابلے میں کیا موقف اختیار کرتے ہیں حالانکہ دعوت حق کے پاس ثبوت دلیل کی کوئی کمی نہیں ہوتی ۔

آیت 35 وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِاٰیَۃٍ ط ہمارا تو فیصلہ اٹل ہے کہ ہم کوئی ایسا معجزہ نہیں دکھائیں گے ‘ آپ لے آئیں جہاں سے لاسکتے ہیں۔ غور کریں کس انداز میں حضور ﷺ سے گفتگو ہو رہی ہے۔ وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْہُدٰی اگر اللہ چاہتا تو آن واحد میں سب کو صاحب ایمان بنا دیتا ‘ نیک بنا دیتا۔فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ اس معاملے میں آپ جذباتی نہ ہوں۔ یہی لفظ سورة ہود میں حضرت نوح علیہ السلام سے خطاب میں آیا ہے۔ جب حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کی کہ اے اللہ میرا بیٹا میری نگاہوں کے سامنے غرق ہوگیا جب کہ تیرا وعدہ تھا کہ میرے اہل کو تو بچا لے گا : اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ ھود : 45 میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے۔ تو اس کا جواب بھی بہت سخت تھا : اِنِّیْٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم جاہلوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ ذرا غور کریں ‘ یہ اللہ کا وہ بندہ ہے جس نے ساڑھے نوسو برس تک اللہ کی چاکری کی ‘ اللہ کے دین کی دعوت پھیلائی ‘ اس میں محنت کی ‘ مشقت کی اور ہر طرح کی مشکلات اٹھائیں۔ لیکن اللہ کی شان بہت بلند ہے ‘ بہت بلند ہے ‘ بہت بلند ہے ! اسی لیے فرمایا کہ اے نبی ﷺ اگر سب کو ہدایت پر لانا مقصود ہو تو ہمارے لیے کیا مشکل ہے کہ ہم آن واحد میں سب کو ابوبکر صدیق رض کی مانند بنا دیں ‘ اور اگر ہم سب کو بگاڑنا چاہیں تو آن واحد میں سب کے سب ابلیس بن جائیں۔ مگر اصل مقصود تو امتحان ہے ‘ آزمائش ہے۔ جو حق پر چلنا چاہتا ہے ‘ حق کا طالب ہے اس کو حق مل جائے گا۔

آیت 35 - سورۃ الانعام: (وإن كان كبر عليك إعراضهم فإن استطعت أن تبتغي نفقا في الأرض أو سلما في السماء فتأتيهم بآية ۚ ولو...) - اردو