سورۃ الانعام (6): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-An'aam کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنعام کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانعام کے بارے میں معلومات

Surah Al-An'aam
سُورَةُ الأَنۡعَامِ
صفحہ 131 (آیات 28 سے 35 تک)

بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُوا۟ يُخْفُونَ مِن قَبْلُ ۖ وَلَوْ رُدُّوا۟ لَعَادُوا۟ لِمَا نُهُوا۟ عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَٰذِبُونَ وَقَالُوٓا۟ إِنْ هِىَ إِلَّا حَيَاتُنَا ٱلدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذْ وُقِفُوا۟ عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ قَالَ أَلَيْسَ هَٰذَا بِٱلْحَقِّ ۚ قَالُوا۟ بَلَىٰ وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا۟ ٱلْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ قَدْ خَسِرَ ٱلَّذِينَ كَذَّبُوا۟ بِلِقَآءِ ٱللَّهِ ۖ حَتَّىٰٓ إِذَا جَآءَتْهُمُ ٱلسَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا۟ يَٰحَسْرَتَنَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَىٰ ظُهُورِهِمْ ۚ أَلَا سَآءَ مَا يَزِرُونَ وَمَا ٱلْحَيَوٰةُ ٱلدُّنْيَآ إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ ٱلْءَاخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُۥ لَيَحْزُنُكَ ٱلَّذِى يَقُولُونَ ۖ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَٰكِنَّ ٱلظَّٰلِمِينَ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ يَجْحَدُونَ وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ فَصَبَرُوا۟ عَلَىٰ مَا كُذِّبُوا۟ وَأُوذُوا۟ حَتَّىٰٓ أَتَىٰهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَٰتِ ٱللَّهِ ۚ وَلَقَدْ جَآءَكَ مِن نَّبَإِى۟ ٱلْمُرْسَلِينَ وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ ٱسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِىَ نَفَقًا فِى ٱلْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِى ٱلسَّمَآءِ فَتَأْتِيَهُم بِـَٔايَةٍ ۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى ٱلْهُدَىٰ ۚ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْجَٰهِلِينَ
131

سورۃ الانعام کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانعام کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

در حقیقت یہ با ت وہ محض اس وجہ سے کہیں گے کہ جس حقیقت پر انہوں نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ اس وقت بے نقاب ہو کر ان کے سامنے آ چکی ہوگی، ورنہ اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں جس سے انہیں منع کیا گیا ہے، وہ تو ہیں ہی جھوٹے (اس لیے اپنی اس خواہش کے اظہار میں بھی جھوٹ ہی سے کام لیں گے)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal bada lahum ma kanoo yukhfoona min qablu walaw ruddoo laAAadoo lima nuhoo AAanhu wainnahum lakathiboona

آیت 28 بَلْ بَدَا لَہُمْ مَّا کَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ ط۔ایسا نہیں تھا کہ انہیں حقیقت کا علم نہیں تھا۔ حق پہلے ہی ان پر واضح تھا ‘ بات ان پر پوری طرح کھل چکی تھی ‘ لیکن اس وقت ان پر حسد ‘ بغض اور تکبر کے پردے پڑے ہوئے تھے۔وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُہُوْا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ ۔دنیا میں جا کر پھر وہاں کے تقاضے سامنے آجائیں گے ‘ دنیا کے مال و دولت اور اولاد کی محبت اور دوسری نفسیاتی خواہشات پھر انہیں اسی راستے پر ڈال دیں گی۔

اردو ترجمہ

آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo in hiya illa hayatuna alddunya wama nahnu bimabAAootheena

آیت 29 وَ قَالُوْٓا اِنْ ہِیَ الاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ ۔جیسے آج کل کفر و الحاد کے مختلف shades ہیں ‘ اس زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔ آج ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں جو اللہ کو تو مانتے ہیں ‘ آخرت کو نہیں مانتے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ اور آخرت کو مانتے ہیں ‘ لیکن رسالت کو نہیں مانتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بالکل ملحد اور مادہ پرست ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ ہم خود ہی پیدا ہوتے ہیں اور خود ہی اپنی طبعی موت مرجاتے ہیں ‘ اور ہماری زندگی صرف یہی ہے ‘ مرنے کے بعد اٹھنے والا کوئی معاملہ نہیں۔ اسی طرح اس دور میں بھی کفر و شرک کے مختلف shades موجود تھے۔ قریش کے اکثر لوگ اور عرب کے بیشتر مشرکین اللہ کو مانتے تھے ‘ آخرت کو مانتے تھے ‘ بعث بعد الموت کو بھی مانتے تھے ‘ لیکن اس کے ساتھ وہ دیوی دیوتاؤں کی سفارش اور شفاعت کے قائل تھے کہ ہمیں فلاں چھڑا لے گا ‘ فلاں بچا لے گا ‘ فلاں ہمارا حمایتی اور مدد گار ہوگا۔ لیکن ایک طبقہ ان میں بھی ایسا تھا جو کہتا تھا کہ زندگی بس یہی دنیا کی ہے ‘ اس کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔ یہاں اس آیت میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے۔

اردو ترجمہ

کاش وہ منظر تم دیکھ سکو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اس وقت ان کا رب ان سے پوچھے گا "کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟" یہ کہیں گے "ہاں اے ہمارے رب! یہ حقیقت ہی ہے" وہ فرمائے گا "اچھا! تو اب اپنے انکار حقیقت کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaw tara ith wuqifoo AAala rabbihim qala alaysa hatha bialhaqqi qaloo bala warabbina qala fathooqoo alAAathaba bima kuntum takfuroona

اردو ترجمہ

نقصان میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے اپنی ملاقات کی اطلاع کو جھوٹ قرار دیا جب اچانک وہ گھڑی آ جائے گی تو یہی لوگ کہیں گے "افسوس! ہم سے اس معاملہ میں کیسی تقصیر ہوئی" اور اِن کا حال یہ ہوگا کہ اپنی پیٹھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے دیکھو! کیسا برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad khasira allatheena kaththaboo biliqai Allahi hatta itha jaathumu alssaAAatu baghtatan qaloo ya hasratana AAala ma farratna feeha wahum yahmiloona awzarahum AAala thuhoorihim ala saa ma yaziroona

آیت 31 قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآء اللّٰہِ ط۔وہ اس بات کو جھٹلا رہے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی پیشی ‘ حاضری یا اللہ سے ملاقات وغیرہ ہوگی۔ حَتّٰیٓ اِذَا جَآءَ تْہُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً ایک شخص کے لیے انفرادی طور پر تو السَّاعَۃ گھڑی سے مراد اس کی موت کا وقت ہے ‘ لیکن عام طور پر اس سے قیامت ہی مراد لی گئی ہے۔ چناچہ اس کا مطلب ہے کہ جب قیامت اچانک آجائے گی۔قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطْنَا فِیْہَالا وَہُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَہُمْ عَلٰی ظُہُوْرِہِمْ ط اَلاَ سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ ۔جب قیامت حق بن کر سامنے آجائے گی تو ان کی حسرت کی کوئی انتہا نہ رہے گی۔ وہ اپنی پیٹھوں پر کفر ‘ شرک اور گناہوں کے بوجھ اٹھائے ہوئے میدان حشر میں پیش ہوں گے۔

اردو ترجمہ

دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور ایک تماشا ہے، حقیقت میں آخرت ہی کا مقام اُن لوگوں کے لیے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں، پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لو گے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama alhayatu alddunya illa laAAibun walahwun walalddaru alakhirati khayrun lillatheena yattaqoona afala taAAqiloona

آیت 32 وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ لَعِبٌ وَّلَہْوٌ ط۔اس کا مطلب یہ نہیں لینا چاہیے کہ دنیا کی زندگی کی کوئی حقیقت نہیں ہے ‘ بلکہ تقابل میں ایسا کہا جاتا ہے کہ آخرت کے مقابلے میں اس کی یہی حقیقت ہے۔ ایک شے ابدی ہے ‘ ہمیشہ ہمیش کی ہے اور ایک شے عارضی اور فانی ہے۔ ان دونوں کا آپس میں کیا مقابلہ ؟ جیسے دعائے استخارہ میں الفاظ آئے ہیں : فَاِنَّکَ تَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ اے اللہ ! تو ہی سب کچھ جانتا ہے ‘ میں کچھ نہیں جانتا۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ انسان کے پاس کوئی بھی علم نہیں ہے ‘ لیکن اللہ کے علم کے مقابلے میں کسی دوسرے کا علم کچھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح یہاں آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو لعب اور لہو قرار دیا گیا ہے۔ ورنہ دنیا تو ایک اعتبار سے آخرت کی کھیتی ہے۔ ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے کہ اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الآخِرَۃِ 1 ‘ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں بوؤگے تو وہاں کاٹو گے۔ اگر یہاں بوؤ گے نہیں تو وہاں کاٹو گے کیا ؟ یہ تعلق ہے آپس میں دنیا اور آخرت کا۔ اس اعتبار سے دنیا ایک حقیقت ہے اور ایک امتحانی وقفہ ہے۔ لیکن جب آپ تقابل کریں گے دنیا اور آخرت کا تو دنیا اور اس کا مال و متاع آخرت کی ابدیت اور اس کی شان و شوکت کے مقابلے میں گویا نہ ہونے کے برابر ہے۔ دنیا تو محض تین گھنٹے کے ایک ڈرامہ کی مانند ہے جس میں کسی کو بادشاہ بنا دیا جاتا ہے اور کسی کو فقیر۔ جب ڈرامہ ختم ہوتا ہے تو نہ بادشاہ سلامت بادشاہ ہیں اور نہ فقیر فقیر ہے۔ ڈرامہ ہال سے باہر جا کر کپڑے تبدیل کیے اور سب ایک جیسے بن گئے۔ یہ ہے دنیا کی اصل حقیقت۔ چناچہ اس آیت میں دنیا کو کھیل تماشا قرار دیا گیا ہے۔وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ اب وہ مقام آگیا ہے جسے میں نے اس سورة کے عمود کا ذروۂ سنام climax قراردیا تھا۔ یہاں ترجمہ کرتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے ‘ لیکن ہمیں ترجمانی کی کوشش تو بہر حال کرنی ہے۔

اردو ترجمہ

اے محمدؐ! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad naAAlamu innahu layahzunuka allathee yaqooloona fainnahum la yukaththiboonaka walakinna alththalimeena biayati Allahi yajhadoona

آیت 33 قَدْ نَعْلَمُ اِنَّہٗ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ ہم جانتے ہیں کہ جو مطالبات یہ لوگ کر رہے ہیں ‘ آپ سے جو معجزات کا تقاضاکر رہے ہیں اس سے آپ رنجیدہ ہوتے ہیں۔ آپ کی ذات گویا چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آگئی ہے۔ ایک طرف اللہ کی مشیت ہے اور دوسری طرف ان لوگوں کے تقاضے۔ اب اس کا پہلا جواب تو یہ ہے :فَاِنَّہُمْ لاَ یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ ۔یہ لوگ قرآن کا انکار کر رہے ہیں ‘ ہمارا انکار کر رہے ہیں ‘ آپ ﷺ کا انکار انہوں نے کب کیا ہے ؟ یہاں سمجھانے کے اس انداز پر غور کیجیے ! کیا انہوں نے آپ ﷺ کو جھوٹا کہا ؟ نہیں کہا ! آپ ﷺ پر کوئی تہمت انہوں نے لگائی ؟ نہیں لگائی ! لہٰذا یہ لوگ جو تکذیب کر رہے ہیں ‘ یہ آپ ﷺ کی تکذیب تو نہیں ہو رہی ‘ تکذیب تو ہماری ہو رہی ہے ‘ غصہ تو ہمیں آنا چاہیے ‘ ناراض تو ہمیں ہونا چاہیے۔ یہ ہمارا کلام ہے اور یہ لوگ ہمارے کلام کو جھٹلا رہے ہیں۔ آپ ﷺ کا کام تو ہمارے کلام کو ان تک پہنچا دینا ہے۔ یہ سمجھانے کا ایک بڑا پیارا انداز ہے ‘ جیسے کوئی شفیق استاد اپنے شاگرد کو سمجھا رہا ہو۔ لیکن اب یہ بات درجہ بدرجہ آگے بڑھے گی۔ لہٰذا ان آیات کو پڑھتے ہوئے یہ اصول ذہن میں ضرور رکھئے کہ الرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلَ وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی۔ اب اس ضمن میں دوسرا جواب ملاحظہ ہو :

اردو ترجمہ

تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں، انہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad kuththibat rusulun min qablika fasabaroo AAala ma kuththiboo waoothoo hatta atahum nasruna wala mubaddila likalimati Allahi walaqad jaaka min nabai almursaleena

آیت 34 وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰیٓ اَتٰٹہُمْ نَصْرُنَاج ولاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ج ہمارا ایک قانون ‘ ایک طریقہ اور ایک ضابطہ ہے ‘ اس لیے آپ ﷺ کو یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔ آپ کو جس منصب پر فائز کیا گیا ہے اس کے بارے میں ہم نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ یہ بہت بھاری بوجھ ہے : اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا المزمل بیشک ہم آپ پر عنقریب ایک بھاری بوجھ ڈالنے والے ہیں۔وَلَقدْ جَآءَ کَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ ۔آپ ﷺ کے علم میں ہے کہ ہمارے بندے نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تک صبر کیا۔ اب اس کے بعد تلخ ترین بات آرہی ہے۔

اردو ترجمہ

تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر سکتا تھا، لہٰذا نادان مت بنو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain kana kabura AAalayka iAAraduhum faini istataAAta an tabtaghiya nafaqan fee alardi aw sullaman fee alssamai fatatiyahum biayatin walaw shaa Allahu lajamaAAahum AAala alhuda fala takoonanna mina aljahileena

آیت 35 وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِاٰیَۃٍ ط ہمارا تو فیصلہ اٹل ہے کہ ہم کوئی ایسا معجزہ نہیں دکھائیں گے ‘ آپ لے آئیں جہاں سے لاسکتے ہیں۔ غور کریں کس انداز میں حضور ﷺ سے گفتگو ہو رہی ہے۔ وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْہُدٰی اگر اللہ چاہتا تو آن واحد میں سب کو صاحب ایمان بنا دیتا ‘ نیک بنا دیتا۔فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ اس معاملے میں آپ جذباتی نہ ہوں۔ یہی لفظ سورة ہود میں حضرت نوح علیہ السلام سے خطاب میں آیا ہے۔ جب حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کی کہ اے اللہ میرا بیٹا میری نگاہوں کے سامنے غرق ہوگیا جب کہ تیرا وعدہ تھا کہ میرے اہل کو تو بچا لے گا : اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ ھود : 45 میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے۔ تو اس کا جواب بھی بہت سخت تھا : اِنِّیْٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم جاہلوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ ذرا غور کریں ‘ یہ اللہ کا وہ بندہ ہے جس نے ساڑھے نوسو برس تک اللہ کی چاکری کی ‘ اللہ کے دین کی دعوت پھیلائی ‘ اس میں محنت کی ‘ مشقت کی اور ہر طرح کی مشکلات اٹھائیں۔ لیکن اللہ کی شان بہت بلند ہے ‘ بہت بلند ہے ‘ بہت بلند ہے ! اسی لیے فرمایا کہ اے نبی ﷺ اگر سب کو ہدایت پر لانا مقصود ہو تو ہمارے لیے کیا مشکل ہے کہ ہم آن واحد میں سب کو ابوبکر صدیق رض کی مانند بنا دیں ‘ اور اگر ہم سب کو بگاڑنا چاہیں تو آن واحد میں سب کے سب ابلیس بن جائیں۔ مگر اصل مقصود تو امتحان ہے ‘ آزمائش ہے۔ جو حق پر چلنا چاہتا ہے ‘ حق کا طالب ہے اس کو حق مل جائے گا۔

131