اس صفحہ میں سورہ Al-An'aam کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنعام کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 28 بَلْ بَدَا لَہُمْ مَّا کَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ ط۔ایسا نہیں تھا کہ انہیں حقیقت کا علم نہیں تھا۔ حق پہلے ہی ان پر واضح تھا ‘ بات ان پر پوری طرح کھل چکی تھی ‘ لیکن اس وقت ان پر حسد ‘ بغض اور تکبر کے پردے پڑے ہوئے تھے۔وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُہُوْا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ ۔دنیا میں جا کر پھر وہاں کے تقاضے سامنے آجائیں گے ‘ دنیا کے مال و دولت اور اولاد کی محبت اور دوسری نفسیاتی خواہشات پھر انہیں اسی راستے پر ڈال دیں گی۔
آیت 29 وَ قَالُوْٓا اِنْ ہِیَ الاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ ۔جیسے آج کل کفر و الحاد کے مختلف shades ہیں ‘ اس زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔ آج ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں جو اللہ کو تو مانتے ہیں ‘ آخرت کو نہیں مانتے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ اور آخرت کو مانتے ہیں ‘ لیکن رسالت کو نہیں مانتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بالکل ملحد اور مادہ پرست ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ ہم خود ہی پیدا ہوتے ہیں اور خود ہی اپنی طبعی موت مرجاتے ہیں ‘ اور ہماری زندگی صرف یہی ہے ‘ مرنے کے بعد اٹھنے والا کوئی معاملہ نہیں۔ اسی طرح اس دور میں بھی کفر و شرک کے مختلف shades موجود تھے۔ قریش کے اکثر لوگ اور عرب کے بیشتر مشرکین اللہ کو مانتے تھے ‘ آخرت کو مانتے تھے ‘ بعث بعد الموت کو بھی مانتے تھے ‘ لیکن اس کے ساتھ وہ دیوی دیوتاؤں کی سفارش اور شفاعت کے قائل تھے کہ ہمیں فلاں چھڑا لے گا ‘ فلاں بچا لے گا ‘ فلاں ہمارا حمایتی اور مدد گار ہوگا۔ لیکن ایک طبقہ ان میں بھی ایسا تھا جو کہتا تھا کہ زندگی بس یہی دنیا کی ہے ‘ اس کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔ یہاں اس آیت میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے۔
آیت 31 قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآء اللّٰہِ ط۔وہ اس بات کو جھٹلا رہے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی پیشی ‘ حاضری یا اللہ سے ملاقات وغیرہ ہوگی۔ حَتّٰیٓ اِذَا جَآءَ تْہُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً ایک شخص کے لیے انفرادی طور پر تو السَّاعَۃ گھڑی سے مراد اس کی موت کا وقت ہے ‘ لیکن عام طور پر اس سے قیامت ہی مراد لی گئی ہے۔ چناچہ اس کا مطلب ہے کہ جب قیامت اچانک آجائے گی۔قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطْنَا فِیْہَالا وَہُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَہُمْ عَلٰی ظُہُوْرِہِمْ ط اَلاَ سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ ۔جب قیامت حق بن کر سامنے آجائے گی تو ان کی حسرت کی کوئی انتہا نہ رہے گی۔ وہ اپنی پیٹھوں پر کفر ‘ شرک اور گناہوں کے بوجھ اٹھائے ہوئے میدان حشر میں پیش ہوں گے۔
آیت 32 وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ لَعِبٌ وَّلَہْوٌ ط۔اس کا مطلب یہ نہیں لینا چاہیے کہ دنیا کی زندگی کی کوئی حقیقت نہیں ہے ‘ بلکہ تقابل میں ایسا کہا جاتا ہے کہ آخرت کے مقابلے میں اس کی یہی حقیقت ہے۔ ایک شے ابدی ہے ‘ ہمیشہ ہمیش کی ہے اور ایک شے عارضی اور فانی ہے۔ ان دونوں کا آپس میں کیا مقابلہ ؟ جیسے دعائے استخارہ میں الفاظ آئے ہیں : فَاِنَّکَ تَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ اے اللہ ! تو ہی سب کچھ جانتا ہے ‘ میں کچھ نہیں جانتا۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ انسان کے پاس کوئی بھی علم نہیں ہے ‘ لیکن اللہ کے علم کے مقابلے میں کسی دوسرے کا علم کچھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح یہاں آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو لعب اور لہو قرار دیا گیا ہے۔ ورنہ دنیا تو ایک اعتبار سے آخرت کی کھیتی ہے۔ ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے کہ اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الآخِرَۃِ 1 ‘ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں بوؤگے تو وہاں کاٹو گے۔ اگر یہاں بوؤ گے نہیں تو وہاں کاٹو گے کیا ؟ یہ تعلق ہے آپس میں دنیا اور آخرت کا۔ اس اعتبار سے دنیا ایک حقیقت ہے اور ایک امتحانی وقفہ ہے۔ لیکن جب آپ تقابل کریں گے دنیا اور آخرت کا تو دنیا اور اس کا مال و متاع آخرت کی ابدیت اور اس کی شان و شوکت کے مقابلے میں گویا نہ ہونے کے برابر ہے۔ دنیا تو محض تین گھنٹے کے ایک ڈرامہ کی مانند ہے جس میں کسی کو بادشاہ بنا دیا جاتا ہے اور کسی کو فقیر۔ جب ڈرامہ ختم ہوتا ہے تو نہ بادشاہ سلامت بادشاہ ہیں اور نہ فقیر فقیر ہے۔ ڈرامہ ہال سے باہر جا کر کپڑے تبدیل کیے اور سب ایک جیسے بن گئے۔ یہ ہے دنیا کی اصل حقیقت۔ چناچہ اس آیت میں دنیا کو کھیل تماشا قرار دیا گیا ہے۔وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ اب وہ مقام آگیا ہے جسے میں نے اس سورة کے عمود کا ذروۂ سنام climax قراردیا تھا۔ یہاں ترجمہ کرتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے ‘ لیکن ہمیں ترجمانی کی کوشش تو بہر حال کرنی ہے۔
آیت 33 قَدْ نَعْلَمُ اِنَّہٗ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ ہم جانتے ہیں کہ جو مطالبات یہ لوگ کر رہے ہیں ‘ آپ سے جو معجزات کا تقاضاکر رہے ہیں اس سے آپ رنجیدہ ہوتے ہیں۔ آپ کی ذات گویا چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آگئی ہے۔ ایک طرف اللہ کی مشیت ہے اور دوسری طرف ان لوگوں کے تقاضے۔ اب اس کا پہلا جواب تو یہ ہے :فَاِنَّہُمْ لاَ یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ ۔یہ لوگ قرآن کا انکار کر رہے ہیں ‘ ہمارا انکار کر رہے ہیں ‘ آپ ﷺ کا انکار انہوں نے کب کیا ہے ؟ یہاں سمجھانے کے اس انداز پر غور کیجیے ! کیا انہوں نے آپ ﷺ کو جھوٹا کہا ؟ نہیں کہا ! آپ ﷺ پر کوئی تہمت انہوں نے لگائی ؟ نہیں لگائی ! لہٰذا یہ لوگ جو تکذیب کر رہے ہیں ‘ یہ آپ ﷺ کی تکذیب تو نہیں ہو رہی ‘ تکذیب تو ہماری ہو رہی ہے ‘ غصہ تو ہمیں آنا چاہیے ‘ ناراض تو ہمیں ہونا چاہیے۔ یہ ہمارا کلام ہے اور یہ لوگ ہمارے کلام کو جھٹلا رہے ہیں۔ آپ ﷺ کا کام تو ہمارے کلام کو ان تک پہنچا دینا ہے۔ یہ سمجھانے کا ایک بڑا پیارا انداز ہے ‘ جیسے کوئی شفیق استاد اپنے شاگرد کو سمجھا رہا ہو۔ لیکن اب یہ بات درجہ بدرجہ آگے بڑھے گی۔ لہٰذا ان آیات کو پڑھتے ہوئے یہ اصول ذہن میں ضرور رکھئے کہ الرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلَ وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی۔ اب اس ضمن میں دوسرا جواب ملاحظہ ہو :
آیت 34 وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰیٓ اَتٰٹہُمْ نَصْرُنَاج ولاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ج ہمارا ایک قانون ‘ ایک طریقہ اور ایک ضابطہ ہے ‘ اس لیے آپ ﷺ کو یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔ آپ کو جس منصب پر فائز کیا گیا ہے اس کے بارے میں ہم نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ یہ بہت بھاری بوجھ ہے : اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا المزمل بیشک ہم آپ پر عنقریب ایک بھاری بوجھ ڈالنے والے ہیں۔وَلَقدْ جَآءَ کَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ ۔آپ ﷺ کے علم میں ہے کہ ہمارے بندے نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تک صبر کیا۔ اب اس کے بعد تلخ ترین بات آرہی ہے۔
آیت 35 وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِاٰیَۃٍ ط ہمارا تو فیصلہ اٹل ہے کہ ہم کوئی ایسا معجزہ نہیں دکھائیں گے ‘ آپ لے آئیں جہاں سے لاسکتے ہیں۔ غور کریں کس انداز میں حضور ﷺ سے گفتگو ہو رہی ہے۔ وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْہُدٰی اگر اللہ چاہتا تو آن واحد میں سب کو صاحب ایمان بنا دیتا ‘ نیک بنا دیتا۔فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ اس معاملے میں آپ جذباتی نہ ہوں۔ یہی لفظ سورة ہود میں حضرت نوح علیہ السلام سے خطاب میں آیا ہے۔ جب حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کی کہ اے اللہ میرا بیٹا میری نگاہوں کے سامنے غرق ہوگیا جب کہ تیرا وعدہ تھا کہ میرے اہل کو تو بچا لے گا : اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ ھود : 45 میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے۔ تو اس کا جواب بھی بہت سخت تھا : اِنِّیْٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم جاہلوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ ذرا غور کریں ‘ یہ اللہ کا وہ بندہ ہے جس نے ساڑھے نوسو برس تک اللہ کی چاکری کی ‘ اللہ کے دین کی دعوت پھیلائی ‘ اس میں محنت کی ‘ مشقت کی اور ہر طرح کی مشکلات اٹھائیں۔ لیکن اللہ کی شان بہت بلند ہے ‘ بہت بلند ہے ‘ بہت بلند ہے ! اسی لیے فرمایا کہ اے نبی ﷺ اگر سب کو ہدایت پر لانا مقصود ہو تو ہمارے لیے کیا مشکل ہے کہ ہم آن واحد میں سب کو ابوبکر صدیق رض کی مانند بنا دیں ‘ اور اگر ہم سب کو بگاڑنا چاہیں تو آن واحد میں سب کے سب ابلیس بن جائیں۔ مگر اصل مقصود تو امتحان ہے ‘ آزمائش ہے۔ جو حق پر چلنا چاہتا ہے ‘ حق کا طالب ہے اس کو حق مل جائے گا۔