سورہ یوسف: آیت 9 - اقتلوا يوسف أو اطرحوه أرضا... - اردو

آیت 9 کی تفسیر, سورہ یوسف

ٱقْتُلُوا۟ يُوسُفَ أَوِ ٱطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا۟ مِنۢ بَعْدِهِۦ قَوْمًا صَٰلِحِينَ

اردو ترجمہ

چلو یوسفؑ کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے یہ کام کر لینے کے بعد پھر نیک بن رہنا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Oqtuloo yoosufa awi itrahoohu ardan yakhlu lakum wajhu abeekum watakoonoo min baAAdihi qawman saliheena

آیت 9 کی تفسیر

اقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا : " چلو یوسف کو قتل کردو یا اسے کہیں پھینک دو " دونوں باتیں قباحت اور جرم کے اعتبار سے ایک ہیں ، کیونکہ کسی بچے کو ایک ایسی زمین پھینکنا جو دور دراز ہو ، گویا اسے قتل کرنے کے برابر ہے کیونکہ ایسے حالات میں اکثر موت واقع ہوجاتی ہے۔ اور کیوں ایسا کرو ؟

يَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِيْكُمْ : " تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہوجائے " اب یوسف تمہاری راہ کی رکاوٹ نہ رہیں گے۔ یعنی ان کا دل یوسف کی محبت سے خالی ہوجائے گا۔ جب وہ دیکھیں گے کہ یوسف موجود ہی نہیں ہے۔ حضرت یعقوب اس سے محبت نہ کریں گے۔ اور ان سے محبت شروع ہوجائے گی۔ اور یہ کس قدر عظیم جرم ہے ؟ تو اس کا علاج یہ ہے کہ یہ اس سے توبہ کرلیں گے ، صالح ہوجائیں گے اور توبہ و صلاح سے ماضی کے جرائم معاف ہوجائیں گے۔

وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ : " یہ کام کرلینے کے بعد پھر نیک بن رہنا " یوں شیطان کو موقعہ مل جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان تنازعات پیدا کردے۔ جب لوگ ایک دوسرے پر غصے میں آجاتے ہیں ہیں وہ بعض کو بعض پر حملہ آور ہونے پر آمادہ کرتا ہے۔ اور غصے کی حالت میں انسان کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ کیونکہ انسان کو اپنے اوپر کنٹرول نہیں رہتا۔ اور انسان واقعات اور امور کا اچھی طرح جائزہ نہیں لے سکتا۔ چناچہ جب برادران یوسف کے دلوں میں کینہ کی آگ بھڑک اٹھی تو عین اس وقت شیطان پردے سے سامنے آیا اور کہا کہ اسے قتل کردو ، اس کے بعد توبہ کا دروازہ کھلا ہے ، حالانکہ توبہ ایسی نہیں ہوتی۔ توبہ اس صورت میں ہوتی ہے کہ انسان سے بتقاضائے بشریت کوئی غلطی سرزد ہوجائے اور وہ اس پر پشیمان ہوجائے۔ یہ توبہ نہیں کہ پہلے توبہ کرنے کے ارادے سے غلطی کرے۔ منصوبے کے تحت جرم کرے۔ درحقیقت یہ توبہ سے غلط فائدہ اٹھانا ہے اور توبہ کو ارتکاب جرائم کے لیے جواز کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ اور یہ انداز انسان کو شیطان سکھاتا ہے رحمن نہیں۔

آیت 9 اقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا يَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِيْكُمْ یوسف چونکہ ان دونوں میں بڑا ہے اس لیے وہی والد صاحب کی ساری توجہ اور عنایات کا مرکز و محور بنا ہوا ہے۔ چناچہ جب یہ نہیں رہے گا تو لا محالہ والد صاحب کی تمام تر شفقت اور مہربانی ہمارے لیے ہی ہوگی۔وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ اس فقرے میں ان کے نفس اور ضمیر کی کشمکش کی جھلک صاف نظر آرہی ہے۔ ضمیر تو مسلسل ملامت کر رہا تھا کہ یہ کیا کرنے لگے ہو ؟ اپنے بھائی کو قتل کرنا چاہتے ہو ؟ یہ تمہاری سوچ درست نہیں ہے ! لیکن عام طور پر ایسے مواقع پر انسان کا نفس اس کے ضمیر پر غالب آجاتا ہے جیسا کہ ہم نے سورة المائدۃ آیت 30 میں ہابیل اور قابیل کے سلسلے میں پڑھا تھا : فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیْہِ ”پس قابیل کے نفس نے اسے آمادہ کر ہی لیا اپنے بھائی کے قتل کرنے پر۔“اسی طرح ان لوگوں نے بھی اپنے ضمیر کی آواز کو دبا کر آپس میں مشورہ کیا کہ ایک دفعہ یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتار لو ‘ پھر اس کے بعد توبہ کر کے اور کفارہ وغیرہ ادا کر کے کسی نہ کسی طرح اس جرم کی تلافی کردیں گے اور باقی زندگی نیک بن کر رہیں گے۔

آیت 9 - سورہ یوسف: (اقتلوا يوسف أو اطرحوه أرضا يخل لكم وجه أبيكم وتكونوا من بعده قوما صالحين...) - اردو