اس صفحہ میں سورہ Yusuf کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يوسف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
حضرت یعقوب نے خواب کو راز میں رکھنے کا سبب یہ بتایا کہ شیطان انسان کا دشمن ہے اور بعض لوگوں کے دلوں کو دوسرے کے خلاف حسد اور بغض سے بھر دیتا ہے اور وہ لوگوں کو آمادہ کرتا رہتا ہے کہ وہ غلطی کریں ، شر کریں اور بڑی بڑی غلطیوں کو وہ لوگوں کے سامنے معمولی کرکے اور خوشنما کرکے پیش کرتا ہے۔
حضرت یعقوب ابن حضرت اسحاق ابن ابراہیم (علیہم السلام) تھے نبوت کا خاندان تھا۔ انہوں نے خوب سنتے ہی محسوس کرلیا تھا کہ یہ بیٹا ایک تابناک مستقبل کا مالک ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ یہ تابناک مستقبل دین ، اصلاح اور علم و معرفت کے میدان میں ہوگا۔ پھر ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ حضرت ابراہیم کی اولاد میں اس شمع نے روشن رہنا تھا ، لہذا وہ یہ توقع رکھتے تھے کہ وارث نبوت یقینا حضرت یوسف ہیں ہیں۔ اس لیے انہوں نے ان کو اس کی بشارت دے دی :
حضرت یعقوب کی سوچ اس اہم خواب کے بارے میں یہ بتا رہی ہے کہ حضرت یوسف اللہ کے ہاں برگزیدہ بن گئے ہیں اور ان پر اسی طرح کا فضل و کرم ہوچکا ہے کہ جس طرح ان کے باپ اور دادا پر ہوچکا ہے یعنی حضرت اسحاق اور ابراہیم پر ، عربی میں باپ اور دادا دونوں کے لیے " اب " کا لفظ بولا جاتا ہے۔
البتہ آیت کا یہ حصہ ویعلمک من تاویل الاحادیث " تجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھائے گا " تاویل کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بات کے انجام کا علم ہوجائے۔ احادیث سے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ اللہ حضرت یوسف کو نبی کا منصب عطا کرے گا ، اسے سچا شعور دے گا ، دور رس بصیرت دے گا جس کی وجہ سے وہ ہر بات کے انجام اور نتائج کو پہلے سے معلوم کرلیں گے اور یہ صلاحیت الہی صلاحیت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ یہ ان لوگوں کو دیتا ہے جن کو تیز فہم اور ادراک عطا ہوتا ہے۔
دوسرا مفہوم احادیث سے خوابیں بھی ہوسکتی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ حضرت یوسف کو خوابوں کی تعبیر کے سلسلے میں دور رس بصیرت دے گا۔ یہ دونوں مفہوم احادیث کے ہوسکتے ہیں اور دوسرا مفہوم تو عملاً قصے میں موجود ہے۔
اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ: " تمہارا رب علیم و حکیم ہے " وہی علم اور حکمت کا سر چشمہ ہے جسے وہ چیزیں چاہے دے سکتا ہے۔
خوابوں اور احلام کی حقیقت کیا ہے۔ مناسب ہے کہ یہاں ان پر ایک نوٹ دے دیا جائے کیونکہ اس قصے کی اہم کڑیاں خوابوں پر مشتمل ہیں۔
ایک مسلمان کو یہ عقیدہ لازماً رکھنا پڑتا ہے کہ بعض خوابیں ایسی ہوتی ہیں جو مستقبل قریب یا بعید کے بارے میں صریح پیشین گوئی کرتی ہیں ، کیونکہ اس سورت میں حضرت یوسف کے خواب ، حضرت یوسف کے دو ساتھیوں کے خواب اور شاہ مصر کے خواب اور ان کا ذکر صراحت سے اس بات کو لازم کرتے ہیں کہ خوابوں کے اندر پیشین گوئی آجاتی ہے۔ پھر ہم میں سے ہر شخص اپنی شخصی زندگی میں اس قسم کی خوابیں اور بشارتیں دیکھتا ہے اور وہ سچی ثابت ہوتی ہیں۔ اس قدر سچی کہ انسان خواب کی حقیقت کا انکار نہیں کرتا۔ کیونکہ عملاً ہر شخص اس حقیقت کو موجود پاتا ہے۔ خواب پر یقین کرنے کے لیے یہ سورت اور قرآن کی تصریحات ہی کافی ہیں لیکن جس دوسری بات کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ بھی ایک عملی اور تجربی حقیقت ہے اور اس کا انکار کرنا ممکن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر خواب کی حقیقت کیا ہے۔ نفسیاتی تجربہ کرنے والوں نے کہا ہے کہ خوابیں در اصل انسان کے خفیہ اور خوابیدہ خواہشات کا عکس ہوتی ہیں۔ بےیہ بھی خوابوں کا ایک پہلو ہے ، لیکن یہ تمام خوابوں کی تعبیر نہیں ہے۔ فرائیڈ اپنی مکمل بےدینی اور اپنی مکمل ہٹ دھرمی کے باوجود اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ بعض خوابیں یقینا پیشین گوئی کا درجہ رکھتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان مبشرات کی نوعیت کیا ہوتی ہے ؟ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ خواب کی حقیقت کو ہم سمجھ سکیں یا نہیں لیکن اس بات میں شک نہیں ہے کہ بعض خوابیں نہایت ہی سچی ہوتی ہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ کی عجیب و غریب مخلوق ہے اور اللہ نے اس کے وجود کے اندر جو قوانین اور حکمت ودیعت کی ہے ہم اس کے بعض پہلوؤں کو جان سکیں۔
ایسی سچی خوابوں کی حقیقت کو ہم اس انداز سے تعبیر کرتے ہیں کہ ماضی اور مستقبل کے حوادث اور واقعات کو ہم اس لیے نہیں سمجھ سکتے کہ ہمارے اور ان کے درمیان زمان و مکان کا پردہ حائل ہوتا ہے یا ایک چیز حاضر بھی ہوتی ہے۔ لیکن ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوتی ہے۔ ماضی اور مستقبل کو تو زمانے کا فیکٹر ہماری نظروں سے اوجھل کردیتا ہے۔ جیسا کہ حاضر بعید کو مکان کا فیکٹر ہمارے علم سے دور رکھتا ہے۔ بعض اوقات انسان کے اندر ایسے حواس جاگ اٹھتے ہیں یا قوی ہوجاتے ہیں۔ جو زمانے کے پردوں کو پھاڑ کر آگے دیکھ لیتے ہیں ، لیکن ان کی صورت مبہم ہوتی ہے۔ یہ مکمل علم نہیں ہوتا لیکن استشقاف ہوتا ہے اور بعض لوگوں کو یہ جاگتے ہوئے بھی حاصل ہوتا ہے اور بعض لوگوں کو یہ احساس سوتے میں ہوتا ہے لیکن ہمیں نہ اس کی حقیقت کا علم ہے اور نہ زمان کی حقیقت کا۔ اس طرح مکان جو مادے سے عبارت ہے یہ بھی ہمیں اچھی طرح معلوم نہیں ہے۔
وما اوتیتم من العلم الا قلیلا " تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے " بہرحال حضرت یوسف نے خواب دیکھا اور اس کی تعبیر آرہی ہے۔
جہاں تک میر تعلق ہے میں یہ کہوں گا کہ میں ہر چیز کی تکذیب کرسکتا ہوں لیکن میں ایک ایسے واقعہ کی تکذیب نہیں کرسکتا جو خود مجھے پیش آیا۔ میں نے خوب میں دیکھا کہ میری ایک بھانجی کی آنکھوں میں خون ہے اور اسے نظر نہیں آ رہا ہے۔ میں نے گھر خط لکھا اور اس میں اس کی آنکھوں کے بارے میں پوچھا کہ اسے کیا ہوگیا ہے ؟ تو انہوں نے لکھا کہ اسے ایک ایسی تکلیف ہے کہ باہر سے نظر نہیں آرہی۔ بظاہر اس کی آنکھیں درست نظر آتی ہیں لیکن اسے کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ اور یہ کہ اس کا علاج ہو رہا ہے۔ میر خواب سچی تھی اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جس کے ذکر کی ضرورت نہیں۔
اب پردہ گرا ہے ، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ ایک دوسرا منظر سامنے آتا ہے۔ برادران یوسف اس میں متحرک نظر آتے ہیں۔ ان کی حرکات سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ اہم واقعات پیش آنے والے ہیں۔
لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ الخ : حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصے میں بہت سی آیات اور نشانیاں ہیں اور ان کے ذریعہ انسان بڑے حقائق تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ افتتاحیہ کلمات قارئین کو متوجہ متنبہ اور بات کی اہمیت کی تحریک کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ کلمات اس طرح ہیں جس طرح اسٹیج پر سے پردہ گرا دیا جاتا ہے اور اسٹیج کے اوپر جو کچھ ہوتا ہے ، وہ سامنے نظر آنے لگتا ہے کیونکہ ان کلمات کے بعد متصلاً برادران یوسف بات کرتے نظر آتے ہیں اور وہ اس مکالمے میں یوسف کے خلاف سازش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کیا یہاں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کے سامنے اپنا خواب بیان کردیا تھا جیسا کہ کتاب عہد قدیم کہتی ہے یا نہیں ، یہاں سیاق کلام سے ایسی کوئی بات معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ان کا الزام یہ ہے کہ حضرت یعقوب یوسف اور ان کے سگے بھائی سے زیادہ محبت کیوں کرتے ہیں۔ اگر ان کو معلوم ہوتا کہ حضرت یوسف نے خواب دیکھا ہے تو ان کی زبان سے اس کا ذکر ضرور ہوجاتا۔ اور یوں وہ کینہ پروری اور حقد و حسد کے لیے معذور بھی ہوتے ، اس لیے کہ حضرت یعقوب نے یوسف کو خواب کو پوشیدہ رکھنے کا جو مشورہ دیا تھا تو محض اسی لیے دیا تھا کہ آپ کو دوسرے حالات کے پیش نظر معلوم تھا کہ وہ جل بھن اٹھیں گے اور اس حسد اور کینے واقع تو ہونا ہی تھا کیونکہ اس بھٹی سے گزر کر ہی حضرت یوسف نے اپنے مقررہ مقام تک پہنچنا تھا۔ ان کی زندگی کے حالات ، ان کے خاندانی حالات اور پھر ان کا حضرت یعقوب کے بڑھاپے میں پیدا ہونا ، چھوٹا ہونا ، کین کہ بڑھاپے میں چھوٹے بچوں کے ساتھ بہت پیار ہوتا ہے ، خصوصا جبکہ چھوٹے بچے سوتیلی اور چھوٹی ماں کے ہوں۔
لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ وَاِخْوَتِهٖٓ اٰيٰتٌ لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ ۔ اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰٓي اَبِيْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ ۭ اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِۨ: حقیقت یہ ہے کہ یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں ان پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا " یہ یوسف اور اس کا بھائی دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں ، حالانک کہ ہم پورا تجھا ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے اباجان بالکل بہک گئے ہیں "۔
یہ کہ ہم ایک مضبوط جتھا ہیں ، ہم اسلام اور خاندان کی مدافعت کرتے ہیں اور مفید ہیں۔ جبکہ ہمارے والد محترم ہمارے مقابلے میں ایک بچے اور ایک لڑکے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ، باوجود اس کے کہ ان کے مقابلے میں ہماری افادیت بھی زیادہ ہے اور تعداد بھی۔
ان کا غیظ و غضب اور کینہ جوش مارتا ہے ، عین اس وقت شیطان ان کے دلوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ اب وہ واقعات کا صحیح اندازہ نہیں کرپاتے۔ معمولی باتیں ان کو پہاڑ نظر آتی ہیں۔ عظیم جرائم ان و چھوٹے نظر آنے لگتے ہیں۔ ایک انسان کا قتل ان کے لیے اب ایک معمولی بات بن جاتی ہے۔ پھر ایک بچے کی وہ جان لینے کے درپے ہیں جو نہ جانتا ہے اور نہ اپنا دفاع کرسکتا ہے۔ پھر وہ ان کا بھائی بھی ہے اور اس کے باوجود کہ یہ ایک برگزیدہ نبی کے بیٹے ہیں۔ اگرچہ وہ خود نبی نہ تھے۔ ان کے لیے ان کے باپ کی زیادہ محبت ایک عظیم جرم بن گیا ہے ، یہاں تک کہ باپ کی زیادہ محبت کرنا قتل کے لیے جواز بن گیا ہے حالانکہ قتل شرک کے بعد سب سے بڑا جرم ہے۔
اقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا : " چلو یوسف کو قتل کردو یا اسے کہیں پھینک دو " دونوں باتیں قباحت اور جرم کے اعتبار سے ایک ہیں ، کیونکہ کسی بچے کو ایک ایسی زمین پھینکنا جو دور دراز ہو ، گویا اسے قتل کرنے کے برابر ہے کیونکہ ایسے حالات میں اکثر موت واقع ہوجاتی ہے۔ اور کیوں ایسا کرو ؟
يَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِيْكُمْ : " تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہوجائے " اب یوسف تمہاری راہ کی رکاوٹ نہ رہیں گے۔ یعنی ان کا دل یوسف کی محبت سے خالی ہوجائے گا۔ جب وہ دیکھیں گے کہ یوسف موجود ہی نہیں ہے۔ حضرت یعقوب اس سے محبت نہ کریں گے۔ اور ان سے محبت شروع ہوجائے گی۔ اور یہ کس قدر عظیم جرم ہے ؟ تو اس کا علاج یہ ہے کہ یہ اس سے توبہ کرلیں گے ، صالح ہوجائیں گے اور توبہ و صلاح سے ماضی کے جرائم معاف ہوجائیں گے۔
وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ : " یہ کام کرلینے کے بعد پھر نیک بن رہنا " یوں شیطان کو موقعہ مل جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان تنازعات پیدا کردے۔ جب لوگ ایک دوسرے پر غصے میں آجاتے ہیں ہیں وہ بعض کو بعض پر حملہ آور ہونے پر آمادہ کرتا ہے۔ اور غصے کی حالت میں انسان کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ کیونکہ انسان کو اپنے اوپر کنٹرول نہیں رہتا۔ اور انسان واقعات اور امور کا اچھی طرح جائزہ نہیں لے سکتا۔ چناچہ جب برادران یوسف کے دلوں میں کینہ کی آگ بھڑک اٹھی تو عین اس وقت شیطان پردے سے سامنے آیا اور کہا کہ اسے قتل کردو ، اس کے بعد توبہ کا دروازہ کھلا ہے ، حالانکہ توبہ ایسی نہیں ہوتی۔ توبہ اس صورت میں ہوتی ہے کہ انسان سے بتقاضائے بشریت کوئی غلطی سرزد ہوجائے اور وہ اس پر پشیمان ہوجائے۔ یہ توبہ نہیں کہ پہلے توبہ کرنے کے ارادے سے غلطی کرے۔ منصوبے کے تحت جرم کرے۔ درحقیقت یہ توبہ سے غلط فائدہ اٹھانا ہے اور توبہ کو ارتکاب جرائم کے لیے جواز کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ اور یہ انداز انسان کو شیطان سکھاتا ہے رحمن نہیں۔
ہاں اس موقعہ پر ان میں سے ایک شخص کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے ، وہ اس ہولناک منصوبے کو برداشت نہیں کرسکتا۔ چناچہ یہ شخص ایک ایسا حل پیش کرتا ہے کہ حضرت یوسف قتل ہونے سے بھی بچ جائیں اور ان کے لیے ان کے باپ بھی فارغ ہوجائیں۔ وہ یہ تجویز کرتا ہے کہ اسے بیابان میں پھینکنے کی بجائے قافلوں کی آمدورفت والے کنویں میں پھینک دیں ، کوئی قافلے والے اسے پکڑ کرلے جائیں گے۔ کیونکہ غیر آباد جنگل میں اس کی ہلاکت کا امکان زیادہ ہے اور شارع عام کے کنویں میں بہت ہی کم ہے کیونکہ کوئی قافلہ آئے گا اور اسے غنیمت سمجھ کرلے جائے گا۔ اور وہ باپ کی نظروں سے اور دور ہوجائے گا۔
قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَـقْتُلُوْا يُوْسُفَ وَاَلْقُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّـيَّارَةِ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ ۔ " اس پر ان میں سے ایک بولا۔ یوسف کو قتل نہ کرو ، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو ۔ کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا "
اس شخص نے جو یہ کہا ہے ان کنتم فعلین " اگر کرنا ہی ہے " ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ برادران یوسف ان کے ساتھ یہ حرکت کریں گے۔ نیز اگر انہوں نے کرنا ہے تو یہ ناپسندیدہ فعل ہے۔ اور خوشی کا باعث نہیں ہے۔ بہرحال یہ تجویز اس کے کینہ کو پوری طرح ٹھنڈا کرنے والی نہ تھی اور انہوں نے قتل یوسف کا جو فیصلہ کیا تھا اس سے وہ واپس آنے کے لیے تیار نہ تھے اور یہ باتیں اگلے منظر سے معلوم ہوتی ہیں۔
اب یہ لوگ اپنے باپ کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور انہیں آمادہ کر رہے ہیں کہ یوسف کو ان کے ساتھ جانے دیں۔ اب وہ باپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ، یوسف کے خلاف سازش کر رہے ہیں ، ذرا براہ راست ان کی بات سنیں۔
اس قرار داد پر انہوں نے اپنے باپ سے کہا : ابا جان کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں۔ کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے ، کچھ چر چگ لے گا ، اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں۔ کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے ، کچھ چر چگ لے گا ، اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں۔ باپ نے کہا تمہارا اسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے جبکہ تم اس سے غافل ہو۔ انہوں نے جواب دیا اگر ہمارے ہوتے اسے بھیڑئیے نے کھالی تو ہم بڑے نکمے ہوں گے۔
قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَالَكَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰي يُوْسُفَ : " کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے " یہ ایک سوال ہے لیکن اس میں ایک خفیہ خباثت ، غصہ اور ناگواری بھی ہے۔ لیکن وہ باپ کو آمادہ بھی کر رہے ہیں کہ وہ ان پر اعتبار کرتے ہوئے یوسف کو ان کے حوالے کردیں ، حضرت یعقوب کی عادت یہ تھی کہ وہ یوسف کو ساتھ ہی رکھتے تھے اور جب ان کے دوسرے بیٹے کسی دور دراز کی مہم پر جاتے تھے تو درازی سفر ، مشکلات سفر اور مشقت مہم کی وجہ سے یوسف کو ساتھ جانے نہ دیتے تھے کیونکہ وہ چھوٹا اور یہ بڑے تھے۔ انہوں نے نہایت ہی مکارانہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے باپ کو یہ تاثر دیا کہ شاید وہ ہم پر یوسف کے معاملے میں اعتماد نہیں کرتے۔ حالانکہ ہمارے سب کے باپ ہیں اور یوسف بھائی ہیں۔ نہایت ہی مکارانہ انداز میں وہ بدگمانی کی نفی کر رہے ہیں۔ ذرا ان کی اس خبیث چال پر ایک بار پھر نظر ڈالیں۔
مَالَكَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰي يُوْسُفَ وَاِنَّا لَهٗ لَنٰصِحُوْنَ : " کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں "۔ ہمارے دل تو صاف ہیں۔ ان میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ ہماری نیت صفا ہے اور ہم مخلص ہیں ، یہاں ان کی جانب سے اخلاص اور صفائی کا دعوی اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ نہایت ہی گہری چال چل رہے ہیں اور حد درجہ دھوکے باز ہیں۔
یہ لوگ نہایت ہی تاکیدی الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ اور یوسف کو اس سفر میں جو خوشیاں ملنے والی ہیں ان کی خوب تصویر کشی کر رہے ہیں کہ وہ خوش ہوں گے ، ورزش کریں گے ، یوں وہ دھوکہ دے کر والد کو آمادہ کر رہے ہیں کہ وہ یوسف کو ان کے ساتھ بھیج دیں۔
ان کی اس چرب زبانی کا حضرت یعقوب بھی یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ بات نہیں ، کہ میں تم پر اعتماد نہیں کرتا بلکہ اصل خطرہ یہ ہے کہ علاقے میں بھیڑیے زیادہ ہیں اور میں یہ خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ کہیں اسے کوئی بھیڑیا نہ کھالے۔
یعنی تمہارا لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور میں اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکتا۔ یہی وہ بات جو ان کے دلوں میں کینہ کی آگ دہکا رہی ہتھی کہ اباجان یوسف کو ہر وقت ساتھ رکھتے ہیں اور کسی وقت بھی اپنے سے جدا نہیں کرتے اگرچہ ایک دن کے لیے کیوں نہ ہو۔ حالانکہ وہ اسے سیر و تفریح کے لیے لے جا رہے ہیں۔
حضرت یعقوب نے کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ کھالے جبکہ تم غافل ہو۔ در اصل وہ کینہ اور حسد کی وجہ سے اس قدر اندھے ہوگئے تھے کہ وہ سوچتے بھی نہ تھے کہ آخر یوسف کے قتل کے بعد وہ جواب کیا دیں گے ، لیکن حضرت یعقوب کے اس اندیشے نے ان کو عذر بتا دیا۔
اب انہوں نے اس اندیشے کا رد کرنے کے لیے پھر نہایت ہی موثر اسلوب اختیار کیا ، کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس قدر جتھے کے ہوتے ہوئے بھی کوئی بھیڑیا یوسف کو پھاڑ کھائے۔ یہ کیسے ممکن ہے ورنہ ہم تو بہت ہی نکمے اور خسارے میں ہوں گے۔
اس مکالمے کے نتیجے میں حضرت یعقوب اپنے تمام اندیشوں کے باوجود مجبور ہوگئے کہ وہ یوسف کو ان کے ساتھ چھوڑ دیں اور یوں تقدیر الٰہی کے مطابق قصے کی مزید کڑیاں ظہور پذیر ہوں۔