سورہ یوسف: آیت 7 - ۞ لقد كان في يوسف... - اردو

آیت 7 کی تفسیر, سورہ یوسف

۞ لَّقَدْ كَانَ فِى يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِۦٓ ءَايَٰتٌ لِّلسَّآئِلِينَ

اردو ترجمہ

حقیقت یہ ہے کہ یوسفؑ اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں اِن پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad kana fee yoosufa waikhwatihi ayatun lilssaileena

آیت 7 کی تفسیر

اب پردہ گرا ہے ، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ ایک دوسرا منظر سامنے آتا ہے۔ برادران یوسف اس میں متحرک نظر آتے ہیں۔ ان کی حرکات سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ اہم واقعات پیش آنے والے ہیں۔

لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ الخ : حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصے میں بہت سی آیات اور نشانیاں ہیں اور ان کے ذریعہ انسان بڑے حقائق تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ افتتاحیہ کلمات قارئین کو متوجہ متنبہ اور بات کی اہمیت کی تحریک کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ کلمات اس طرح ہیں جس طرح اسٹیج پر سے پردہ گرا دیا جاتا ہے اور اسٹیج کے اوپر جو کچھ ہوتا ہے ، وہ سامنے نظر آنے لگتا ہے کیونکہ ان کلمات کے بعد متصلاً برادران یوسف بات کرتے نظر آتے ہیں اور وہ اس مکالمے میں یوسف کے خلاف سازش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

کیا یہاں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کے سامنے اپنا خواب بیان کردیا تھا جیسا کہ کتاب عہد قدیم کہتی ہے یا نہیں ، یہاں سیاق کلام سے ایسی کوئی بات معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ان کا الزام یہ ہے کہ حضرت یعقوب یوسف اور ان کے سگے بھائی سے زیادہ محبت کیوں کرتے ہیں۔ اگر ان کو معلوم ہوتا کہ حضرت یوسف نے خواب دیکھا ہے تو ان کی زبان سے اس کا ذکر ضرور ہوجاتا۔ اور یوں وہ کینہ پروری اور حقد و حسد کے لیے معذور بھی ہوتے ، اس لیے کہ حضرت یعقوب نے یوسف کو خواب کو پوشیدہ رکھنے کا جو مشورہ دیا تھا تو محض اسی لیے دیا تھا کہ آپ کو دوسرے حالات کے پیش نظر معلوم تھا کہ وہ جل بھن اٹھیں گے اور اس حسد اور کینے واقع تو ہونا ہی تھا کیونکہ اس بھٹی سے گزر کر ہی حضرت یوسف نے اپنے مقررہ مقام تک پہنچنا تھا۔ ان کی زندگی کے حالات ، ان کے خاندانی حالات اور پھر ان کا حضرت یعقوب کے بڑھاپے میں پیدا ہونا ، چھوٹا ہونا ، کین کہ بڑھاپے میں چھوٹے بچوں کے ساتھ بہت پیار ہوتا ہے ، خصوصا جبکہ چھوٹے بچے سوتیلی اور چھوٹی ماں کے ہوں۔

آیت 7 لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ وَاِخْوَتِهٖٓ اٰيٰتٌ لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ یعنی جن لوگوں قریش مکہ نے یہ سوال پوچھا ہے اور جن لوگوں یہود مدینہ کے کہنے پر پوچھا ہے ان سب کے لیے اس قصے میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ اگر وہ صرف اس ایک قصے کو حقیقت کی نظروں سے دیکھیں اور اس پر غور کریں تو بہت سے حقائق نکھر کر ان کے سامنے آجائیں گے۔

یوسف ؑ کے خاندان کا تعارف فی الواقع حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات اس قابل ہیں کہ ان کا دریافت کرنے والا ان سے بہت سی عبرتیں حاصل کرسکے اور نصیحتیں لے سکے۔ حضرت یوسف کے ایک ہی ماں سے دوسرے بھائی بنیامین تھے باقی سب بھائی دوسری ماں سے تھے۔ یہ سب آپس میں کہتے ہیں ہے کہ واللہ ابا جان ہم سے زیادہ ان دونوں کو چاہتے ہیں۔ تعجب ہے کہ ہم پر جو جماعت ہیں ان کو ترجیح دیتے ہیں جو صرف دو ہیں۔ یقینا یہ تو والد صاحب کی صریح غلطی ہے۔ یہ یاد رہے کہ حضرت یوسف ؑ کے بھائیوں کی نبوت پر در اصل کوئی دلیل نہیں اور آیت کا طرز بیان تو بالکل اس کے خلاف پر ہے۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد انہیں نبوت ملی لیکن یہ چیز بھی محتاج دلیل ہے اور دلیل میں آیت قرآنی (قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا باللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ڮ وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ01306) 2۔ البقرة :136) میں سے لفظ اسباط پیش کرنا بھی احتمال سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ بطون بنی اسرائیل کو اسباط کہا جاتا جا ہے جیسے کہ عرب کو قبائل کہا جاتا ہے اور عجم کو شعوب کہا جاتا ہے۔ پس آیت میں صرف اتنا ہی ہے کہ بنی اسرائیل کے اسباط پر وحی الٰہی نازل ہوگئی انہیں اس لیے اجمالاً ذکر کیا گیا کہ یہ بہت تھے لیکن ہر سبط برادران یوسف میں سے ایک کی نسل تھی۔ پس اس کی کوئی دلیل نہیں کہ خاص ان بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے خلعت نبوت سے نوازا تھا واللہ اعلم۔ پھر آپس میں کہتے ہیں ایک کام کرو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ یوسف کا پاپ ہی کاٹو۔ نہ یہ ہو نہ ہماری راہ کا کانٹا بنے۔ ہم ہی ہم نظر آئیں۔ اور ابا کی محبت صرف ہمارے ہی ساتھ رہے۔ اب اسے باپ سے ہٹانے کی دو صورتیں ہیں یا تو اسے مار ہی ڈالو۔ یا کہیں ایسی دور دوراز جگہ پھینک آؤ کہ ایک کی دوسرے کو خبر ہی نہ ہو۔ اور یہ واردات کر کے پھر نیک بن جانا توبہ کرلینا اللہ معاف کرنے والا ہے یہ سن کر ایک نے مشورہ دیا جو سب سے بڑا تھا اس کا نام روبیل تھا۔ کوئی کہتا ہے یہودا تھا کوئی کہتا ہے شمعون تھا۔ اس نے کہا بھئی یہ تو ناانصافی ہے۔ بےوجہ، بےقصور صرف عداوت میں آکر خون ناحق گردن پر لینا تو ٹھیک نہیں۔ یہ بھی کچھ اللہ کی حکمت تھی رب کو منظور ہی نہ تھا ان میں قتل یوسف کی قوت ہی نہ تھی۔ منظور رب تو یہ تھا کہ یوسف کو نبی بنائے، بادشاہ بنائے اور انہیں عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا کرے۔ پس ان کے دل روبیل کی رائے سے نرم ہوگئے اور طے ہوا کہ اسے کسی غیر آباد کنویں کی تہ میں پھینک دیں۔ قتادہ کہتے ہیں یہ بیت المقدس کا کنواں تھا انہیں یہ خیال ہوا کہ ممکن ہے مسافر وہاں سے گزریں اور وہ اسے اپنے قافلے میں لے جائیں پھر کہاں یہ اور کہاں ہم ؟ جب گڑ دیئے کام نکلتا ہو تو زہر کیوں دو ؟ بغیر قتل کئے مقصود حاصل ہوتا ہے تو کیوں ہاتھ خون سے آلود کرو۔ ان کے گناہ کا تصور تو کرو۔ یہ رشتے داری کے توڑنے، باپ کی نافرمانی کرنے، چھوٹے پر ظلم کرنے، بےگناہ کو نقصان پہنچانے بڑے بوڑھے کو ستانے اور حقدار کا حق کاٹنے حرمت و فضلیت کا خلاف کرنے بزرگی کو ٹالنے اور اپنے باپ کو دکھ پہنچانے اور اسے اس کے کلیجے کی ٹھنڈک اور آنکھوں کے سکھ سے ہمیشہ کے لیے دور کرنے اور بوڑھے باپ، اللہ کے لاڈلے پیغمبر کو اس بڑھاپے میں ناقابل برداشت صدمہ پہنچانے اور اس بےسمجھ بچے کو اپنے مہربان باپ کی پیار بھری نگاہوں سے ہمیشہ اوجھل کرنے کے درپے ہیں۔ اللہ کے دو نبیوں کو دکھ دینا چاہتے ہیں۔ محبوب اور محب میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں، سکھ کی جانوں کو دکھ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ پھول سے نازک بےزبان بچے کو اس کے مشفق مہربان بوڑھے باپ کی نرم و گرم گودی سے الگ کرتے ہیں۔ اللہ انہیں بخشے آہ شیطان نے کیسی الٹی پڑھائی ہے۔ اور انہوں نے بھی کیسی بدی پر کمر باندھی ہے۔

آیت 7 - سورہ یوسف: (۞ لقد كان في يوسف وإخوته آيات للسائلين...) - اردو