سورہ یوسف: آیت 6 - وكذلك يجتبيك ربك ويعلمك من... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورہ یوسف

وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ ٱلْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكَ وَعَلَىٰٓ ءَالِ يَعْقُوبَ كَمَآ أَتَمَّهَا عَلَىٰٓ أَبَوَيْكَ مِن قَبْلُ إِبْرَٰهِيمَ وَإِسْحَٰقَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

اردو ترجمہ

اور ایسا ہی ہوگا (جیسا تو نے خواب میں دیکھا ہے کہ) تیرا رب تجھے (اپنے کام کے لیے) منتخب کرے گا اور تجھے باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھائے گا اور تیرے اوپر اور آل یعقوبؑ پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے وہ تیرے بزرگوں، ابراہیمؑ اور اسحاقؑ پر کر چکا ہے، یقیناً تیرا رب علیم اور حکیم ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakathalika yajtabeeka rabbuka wayuAAallimuka min taweeli alahadeethi wayutimmu niAAmatahu AAalayka waAAala ali yaAAqooba kama atammaha AAala abawayka min qablu ibraheema waishaqa inna rabbaka AAaleemun hakeemun

آیت 6 کی تفسیر

حضرت یعقوب کی سوچ اس اہم خواب کے بارے میں یہ بتا رہی ہے کہ حضرت یوسف اللہ کے ہاں برگزیدہ بن گئے ہیں اور ان پر اسی طرح کا فضل و کرم ہوچکا ہے کہ جس طرح ان کے باپ اور دادا پر ہوچکا ہے یعنی حضرت اسحاق اور ابراہیم پر ، عربی میں باپ اور دادا دونوں کے لیے " اب " کا لفظ بولا جاتا ہے۔

البتہ آیت کا یہ حصہ ویعلمک من تاویل الاحادیث " تجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھائے گا " تاویل کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بات کے انجام کا علم ہوجائے۔ احادیث سے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ اللہ حضرت یوسف کو نبی کا منصب عطا کرے گا ، اسے سچا شعور دے گا ، دور رس بصیرت دے گا جس کی وجہ سے وہ ہر بات کے انجام اور نتائج کو پہلے سے معلوم کرلیں گے اور یہ صلاحیت الہی صلاحیت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ یہ ان لوگوں کو دیتا ہے جن کو تیز فہم اور ادراک عطا ہوتا ہے۔

دوسرا مفہوم احادیث سے خوابیں بھی ہوسکتی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ حضرت یوسف کو خوابوں کی تعبیر کے سلسلے میں دور رس بصیرت دے گا۔ یہ دونوں مفہوم احادیث کے ہوسکتے ہیں اور دوسرا مفہوم تو عملاً قصے میں موجود ہے۔

اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ: " تمہارا رب علیم و حکیم ہے " وہی علم اور حکمت کا سر چشمہ ہے جسے وہ چیزیں چاہے دے سکتا ہے۔

خوابوں اور احلام کی حقیقت کیا ہے۔ مناسب ہے کہ یہاں ان پر ایک نوٹ دے دیا جائے کیونکہ اس قصے کی اہم کڑیاں خوابوں پر مشتمل ہیں۔

ایک مسلمان کو یہ عقیدہ لازماً رکھنا پڑتا ہے کہ بعض خوابیں ایسی ہوتی ہیں جو مستقبل قریب یا بعید کے بارے میں صریح پیشین گوئی کرتی ہیں ، کیونکہ اس سورت میں حضرت یوسف کے خواب ، حضرت یوسف کے دو ساتھیوں کے خواب اور شاہ مصر کے خواب اور ان کا ذکر صراحت سے اس بات کو لازم کرتے ہیں کہ خوابوں کے اندر پیشین گوئی آجاتی ہے۔ پھر ہم میں سے ہر شخص اپنی شخصی زندگی میں اس قسم کی خوابیں اور بشارتیں دیکھتا ہے اور وہ سچی ثابت ہوتی ہیں۔ اس قدر سچی کہ انسان خواب کی حقیقت کا انکار نہیں کرتا۔ کیونکہ عملاً ہر شخص اس حقیقت کو موجود پاتا ہے۔ خواب پر یقین کرنے کے لیے یہ سورت اور قرآن کی تصریحات ہی کافی ہیں لیکن جس دوسری بات کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ بھی ایک عملی اور تجربی حقیقت ہے اور اس کا انکار کرنا ممکن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر خواب کی حقیقت کیا ہے۔ نفسیاتی تجربہ کرنے والوں نے کہا ہے کہ خوابیں در اصل انسان کے خفیہ اور خوابیدہ خواہشات کا عکس ہوتی ہیں۔ بےیہ بھی خوابوں کا ایک پہلو ہے ، لیکن یہ تمام خوابوں کی تعبیر نہیں ہے۔ فرائیڈ اپنی مکمل بےدینی اور اپنی مکمل ہٹ دھرمی کے باوجود اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ بعض خوابیں یقینا پیشین گوئی کا درجہ رکھتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ان مبشرات کی نوعیت کیا ہوتی ہے ؟ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ خواب کی حقیقت کو ہم سمجھ سکیں یا نہیں لیکن اس بات میں شک نہیں ہے کہ بعض خوابیں نہایت ہی سچی ہوتی ہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ کی عجیب و غریب مخلوق ہے اور اللہ نے اس کے وجود کے اندر جو قوانین اور حکمت ودیعت کی ہے ہم اس کے بعض پہلوؤں کو جان سکیں۔

ایسی سچی خوابوں کی حقیقت کو ہم اس انداز سے تعبیر کرتے ہیں کہ ماضی اور مستقبل کے حوادث اور واقعات کو ہم اس لیے نہیں سمجھ سکتے کہ ہمارے اور ان کے درمیان زمان و مکان کا پردہ حائل ہوتا ہے یا ایک چیز حاضر بھی ہوتی ہے۔ لیکن ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوتی ہے۔ ماضی اور مستقبل کو تو زمانے کا فیکٹر ہماری نظروں سے اوجھل کردیتا ہے۔ جیسا کہ حاضر بعید کو مکان کا فیکٹر ہمارے علم سے دور رکھتا ہے۔ بعض اوقات انسان کے اندر ایسے حواس جاگ اٹھتے ہیں یا قوی ہوجاتے ہیں۔ جو زمانے کے پردوں کو پھاڑ کر آگے دیکھ لیتے ہیں ، لیکن ان کی صورت مبہم ہوتی ہے۔ یہ مکمل علم نہیں ہوتا لیکن استشقاف ہوتا ہے اور بعض لوگوں کو یہ جاگتے ہوئے بھی حاصل ہوتا ہے اور بعض لوگوں کو یہ احساس سوتے میں ہوتا ہے لیکن ہمیں نہ اس کی حقیقت کا علم ہے اور نہ زمان کی حقیقت کا۔ اس طرح مکان جو مادے سے عبارت ہے یہ بھی ہمیں اچھی طرح معلوم نہیں ہے۔

وما اوتیتم من العلم الا قلیلا " تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے " بہرحال حضرت یوسف نے خواب دیکھا اور اس کی تعبیر آرہی ہے۔

جہاں تک میر تعلق ہے میں یہ کہوں گا کہ میں ہر چیز کی تکذیب کرسکتا ہوں لیکن میں ایک ایسے واقعہ کی تکذیب نہیں کرسکتا جو خود مجھے پیش آیا۔ میں نے خوب میں دیکھا کہ میری ایک بھانجی کی آنکھوں میں خون ہے اور اسے نظر نہیں آ رہا ہے۔ میں نے گھر خط لکھا اور اس میں اس کی آنکھوں کے بارے میں پوچھا کہ اسے کیا ہوگیا ہے ؟ تو انہوں نے لکھا کہ اسے ایک ایسی تکلیف ہے کہ باہر سے نظر نہیں آرہی۔ بظاہر اس کی آنکھیں درست نظر آتی ہیں لیکن اسے کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ اور یہ کہ اس کا علاج ہو رہا ہے۔ میر خواب سچی تھی اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جس کے ذکر کی ضرورت نہیں۔

آیت 6 وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ حضرت یعقوب نے سمجھ لیا کہ میرے بیٹوں میں سے یوسف کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے لیے چن لیا ہے۔وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ یہاں پر تاویل حدیث کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک خوابوں کی تعبیر اور دوسرے معاملہ فہمی اور دور بینی باتوں کی کنہ تہ تک پہنچ جانا ‘ حقیقت تک رسائی ہوجانا۔ وَيُـــتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَعَلٰٓي اٰلِ يَعْقُوْبَ كَمَآ اَتَمَّــهَا عَلٰٓي اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ یہاں حضرت یعقوب نے کسر نفسی کے سبب حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق کے ساتھ اپنا نام نہیں لیا۔

بشارت اور نصیحت حضرت یعقوب ؑ اپنے لخت جگر حضرت یوسف ؑ کو انہیں ملنے والے مرتبوں کی خبر دیتے ہیں کہ جس طرح خواب میں اس نے تمہیں یہ فضیلت دکھائی اسی طرح وہ تمہیں نبوت کا بلند مرتبہ عطا فرمائے گا۔ اور تمہیں خواب کی تعبیر سکھا دے گا۔ اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دے گا یعنی نبوت۔ جیسے کہ اس سے پہلے وہ ابراہیم خلیل اللہ ؑ کو اور حضرت اسحاق ؑ کو بھی عطا فرما چکا ہے جو تمہارے دادا اور پردادا تھے۔ اللہ تعالیٰ اس سے خوب واقف ہے کہ نبوت کے لائق کون ہے ؟

آیت 6 - سورہ یوسف: (وكذلك يجتبيك ربك ويعلمك من تأويل الأحاديث ويتم نعمته عليك وعلى آل يعقوب كما أتمها على أبويك من قبل إبراهيم...) - اردو