سورہ یوسف: آیت 50 - وقال الملك ائتوني به ۖ... - اردو

آیت 50 کی تفسیر, سورہ یوسف

وَقَالَ ٱلْمَلِكُ ٱئْتُونِى بِهِۦ ۖ فَلَمَّا جَآءَهُ ٱلرَّسُولُ قَالَ ٱرْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَسْـَٔلْهُ مَا بَالُ ٱلنِّسْوَةِ ٱلَّٰتِى قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ إِنَّ رَبِّى بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ

اردو ترجمہ

بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ مگر جب شاہی فرستادہ یوسفؑ کے پاس پہنچا تو اس نے کہا "اپنے رب کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ اُن عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ میرا رب تو ان کی مکاری سے واقف ہی ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala almaliku itoonee bihi falamma jaahu alrrasoolu qala irjiAA ila rabbika faisalhu ma balu alnniswati allatee qattaAAna aydiyahunna inna rabbee bikaydihinna AAaleemun

آیت 50 کی تفسیر

اب یہاں ہمارے سامنے ایک دوسرا منظر آتا ہے اور ان دونوں مناظر کے درمیان ایک خلا ہے۔ یہ خلا انسانی تخیل خود بھر دیتا ہے۔ اب ہم دوبارہ شاہی دربار میں ہیں۔ یہاں فرستادہ شاہی نے مکمل رپورٹ دے دی ہے۔ خواب کی تعبیر بتا دی گئی ہے۔ اب اس نے بادشاہ کو حضرت یوسف کی ناجائز سزا کے بارے میں بھی بتا دیا ہے۔ لیکن سیاق کلام میں یہ باتیں مذکور نہیں ہیں۔ ہمارے سامنے بادشاہ کی خواہش آتی ہے۔

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖ : بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ۔

مزید تفصیلات ترک کردی جاتی ہیں۔ بادشاہ کا حکم ہے۔ ہر کا رہ خود حضرت یوسف کے پاس پہنچتا ہے۔ لیکن حضرت یوسف ہر کارے کو لوٹا دیتے ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ یہ ہر کا رہ وہی ساقی ہے یا کوئی اور ہے۔ شاہی اوامر کا نفاذ شاید کسی اور کے ذمے ہو۔ لیکن حضرت یوسف طویل قید کے بعد بھی قید خانے سے نکلنے میں جلدی نہیں فرماتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مقدمے کا صحیح فیصلہ ہو ، احقاق حق ہو اور غلط کار لوگوں کی سازشیں بےنقاب ہوں اور وہ باعزت طور پر بری ہوکر نکلیں۔ یہ اطمینان قلب اور یہ طمانیت صرف ربانی تربیت کے نتیجے میں آسکتی ہے۔ اب وہ اس قدر پختہ کار ہوگئے ہیں ان کے مزاج میں عجلت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

حضرت یوسف کی سنجیدگہ اور پختہ کاری اور طمانیت دونوں مواقف میں واضح ہوتی ہے ، پہلے انہوں نے ساقی کو صرف یہ کہا کہ اپنے رب کے پاس میرا تذکرہ کردے۔ اور دوسرے میں انہوں نے رہائی کے احکام کے باوجود یہ کہہ دیا کہ پہلے میرے مقدمے کی تحقیقات کرو ، لیکن پہلے موقف اور دوسرے موقف میں فرق ہے کیونکہ چند سالوں کی قید اور تربیت نے ان کو مزید پختہ کار بنا دیا ہے۔

حضرت یوسف نے رہائی کے شاہی احکام کو اس لیے مسترد کیا کہ بادشاہ کو صحیح طرح معلوم تو ہوجائے کہ ان کے معاملے کی حقیقت کیا ہے اور ان عورتوں کے الزامات کی حقیقت کیا ہے ؟ حضرت یوسف نے عورتوں کے واقعات کی طرف اشارہ کرکے گویا یہ کہہ دیا کہ تحقیقات ہونے پر وہ عورتیں اصل صورت حال بتا سکتی ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ یہ تحقیقات یوسف کی عدم موجودگی میں ہو تاکہ یوسف کی شاہی دربار میں موجودگی غیر جانبدارانہ تحقیقات کو متاثر نہ کردے۔ یہ سب اس لیے کہ حضرت یوسف کو اپنی بےگناہی کا یقین تھا اور وہ مطمئن تھے کہ نتیجہ لازما ان کے حق میں ہوگا۔ کیونکہ سچائی چھپ نہیں سکتی ، نہ اسے دیر تک چھپایا جاسکتا ہے۔

قرآن کریم نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زبان سے لفظ رب استعمال کرایا ہے اور اسے مخاطب کی طرف مضاف کیا ہے (ربک) اس لیے کہ حضرت یوسف کا رب تو اللہ ہے جبکہ اس فرستادے کا رب بادشاہ جس کے نظام حکومت کا وہ کارندہ ہے اس سے رب کا یہ مفہوم سامنے آتا ہے کہ حکمران بھی رب ہوتا ہے۔

آیت 50 وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖ بادشاہ اپنے خواب کی تعبیر اور پھر اس کی ایسی اعلیٰ تدبیر سن کر یقیناً بہت متاثر ہوا ہوگا اور اس نے سوچا ہوگا کہ ایسے ذہین فطین شخص کو جیل میں نہیں بلکہ بادشاہ کا مشیر ہونا چاہیے۔ چناچہ اس نے حکم دیا کہ اس قیدی کو فوراً میرے پاس لے کر آؤ۔فَلَمَّا جَاۗءَهُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ بادشاہ کا پیغام لے کر جب قاصد آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کردیا کہ میں اس طرح ابھی جیل سے باہر نہیں آنا چاہتا۔ پہلے پورے معاملے کی چھان بین کی جائے کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں جیل بھیجا گیا تھا۔ اگر مجھ پر کوئی الزام ہے تو اس کی مکمل تفتیش ہو اور اگر میرا کوئی قصور نہیں ہے تو مجھے علی الاعلان بےگناہ اور بری قرار دیا جائے۔ چناچہ آپ نے اس قاصد سے فرمایا کہ تم اپنے بادشاہ کے پاس واپس جاؤ :اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِهِنَّ عَلِيْمٌبادشاہ تک یہ بات پہنچی تو اس نے سب بیگمات کو طلب کرلیا۔

تعبیر کی صداقت اور شاہ مصر کا یوسف ؑ کو وزارت سونپنا خواب کی تعبیر معلوم کر کے جب قاصد پلٹا اور اس نے بادشاہ کو تمام حقیقت سے مطلع کیا۔ تو بادشاہ کو اپنے خواب کی تعبیر پر یقین آگیا۔ ساتھ ہی اسے بھی معلوم ہوگیا کہ حضرت یوسف ؑ بڑے ہی عالم فاضل شخص ہیں۔ خواب کی تعبیر میں تو آپ کو کمال حاصل ہے۔ ساتھ ہی اعلیٰ اخلاق والے حسن تدبیر والے اور خلق اللہ کا نفع چاہنے والے اور محض بےطمع شخص ہیں۔ اب اسے شوق ہوا کہ خود آپ سے ملاقات کرے۔ اسی وقت حکم دیا کہ جاؤ حضرت یوسف ؑ کو جیل خانے سے آزاد کر کے میرے پاس لے آؤ۔ دوبارہ قاصد آپ کے پاس آیا اور بادشاہ کا پیغام پہنچایا تو آپ نے فرمایا میں یہاں سے نہ نکلوں گا جب تک کہ شاہ مصر اور اسکے درباری اور اہل مصر یہ نہ معلوم کرلیں کہ میرا قصور کیا تھا ؟ عزیز کی بیوی کی نسبت جو بات مجھ سے منسوب کی گئی ہے اس میں سچ کہاں تک ہے اب تک میرا قید خانہ بھگتنا واقعہ کسی حقیقت کی بنا پر تھا ؟ یا صرف ظلم و زیادتی کی بناء پر ؟ تم اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا کر میرا یہ پیغام پہنچاؤ کہ وہ اس واقعہ کی پوری تحقیق کریں۔ حدیث شریف میں بھی حضرت یوسف ؑ کے اس صبر کی اور آپ کی اس شرافت و فضیلت کی تعریف آئی ہے۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ شک کے حقدار ہم بہ نسبت حضرت ابراہیم ؑ کے بابت زیادہ ہیں جب کہ انہوں نے فرمایا تھا میرے رب مجھے اپنا مردوں کا زندہ کرنا مع کیفیت دکھا (یعنی جب ہم اللہ کی اس قدرت میں شک نہیں کرتے تو حضرت ابراہیم ؑ جلیل القدر پیغمبر کیسے شک کرسکتے تھے ؟ پس آپ کی یہ طلب از روئے مزید اطمینان کے تھی نہ کہ ازروئے شک۔ چناچہ خود قرآن میں ہے کہ آپ نے فرمایا یہ میرے اطمینان دل کے لیے ہے۔ اللہ حضرت لوط ؑ پر رحم کرے وہ کسی زور آور جماعت یا مضبوط قلعہ کی پناہ میں آنا چاہنے لگے۔ اور سنو اگر میں یوسف ؑ کے برابر جیل خانہ بھگتے ہوئے ہوتا اور پھر قاصد میری رہائی کا پیغام لاتا تو میں تو اسی وقت جیل خانے سے آزادی منظور کرلیتا۔ مسند احمد میں اسی آیت فاضلہ کی تفسیر میں منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں ہوتا تو اسی وقت قاصد کی بات مان لیتا اور کوئی عذر تلاش نہ کرتا۔ مسند عبدالرزاق میں ہے آپ فرماتے ہیں واللہ مجھے حضرت یوسف ؑ کے صبر و کرم پر رہ رہ کر تعجب آتا ہے اللہ اسے بخشے دیکھو تو سہی بادشاہ نے خواب دیکھا ہے وہ تعبیر کے لیے مضطرب ہے قاصد آکر آپ سے تعبیر پوچھتا ہے آپ فوراً بغیر کسی شرط کے بتا دیتے ہیں۔ اگر میں ہوتا تو جب تک جیل خانے سے اپنی رہائی نہ کرا لیتا ہرگز نہ بتلاتا۔ مجھے حضرت یوسف ؑ کے صبر و کرم پر تعجب معلوم ہو رہا ہے۔ اللہ انہیں بخشے کہ جب ان کے پاس قاصد ان کی رہائی کا پیغام لے کر پہنچتا ہے تو آپ فرماتے ہیں ابھی نہیں جب تک کہ میری پاکیزگی، پاک دامنی اور بےقصوری سب پر تحقیق سے کھل نہ جائے۔ اگر میں انکی جگہ ہوتا تو میں تو دوڑ کر دروازے پر پہنچتا یہ روایت مرسل ہے۔ اب بادشاہ نے تحقیق کرنی شروع کی ان عورتیں کو جنہیں عزیز کی بیوی نے اپنے ہاں دعوت پر جمع کیا تھا اور خود اسے بھی دربار میں بلوایا۔ پھر ان تمام عورتوں سے پوچھا کہ ضیافت والے دن کیا گزری تھی ؟ سب بیان کرو۔ انہوں نے جواب دیا کہ ماشا اللہ یوسف پر کوئی الزام نہیں اس پر بےسروپا تہمت ہے۔ واللہ ہم خوب جانتی ہیں کہ یوسف میں کوئی بدی نہیں اس وقت عزیز کی بیوی خود بھی بول اٹھی کہ اب حق ظاہر ہوگیا واقعہ کھل گیا۔ حقیقت نکھر آئی مجھے خود اس امر کا اقرار ہے۔ کہ واقعی میں نے ہی اسے پھنسانا چاہا تھا۔ اس نے جو بروقت کہا تھا کہ یہ عورت مجھے پھسلا رہی تھی اس میں وہ بالکل سچا ہے۔ میں اس کا اقرار کرتی ہوں اور اپنا قصور آپ بیان کرتی ہوں تاکہ میرے خاوند یہ بات بھی جان لیں کہ میں نے اس کی کوئی خیانت دراصل نہیں کی۔ یوسف کی پاکدامنی کی وجہ سے کوئی شر اور برائی مجھ سے ظہور میں نہیں آئی۔ بدکاری سے اللہ تعالیٰ نے مجھے بچائے رکھا۔ میری اس اقرار سے اور واقعہ کے کھل جانے سے صاف ظاہر ہے اور میرے خاوند جان سکتے ہیں کہ میں برائی میں مبتلا نہیں ہوئی۔ یہ بالکل سچ ہے کہ خیانت کرنے والوں کی مکاریوں کو اللہ تعالیٰ فروغ نہیں دیا۔ ان کی دغا بازی کوئی پھل نہیں لاتی۔ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے بارہویں پارے کی تفسیر ختم ہوئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین۔

آیت 50 - سورہ یوسف: (وقال الملك ائتوني به ۖ فلما جاءه الرسول قال ارجع إلى ربك فاسأله ما بال النسوة اللاتي قطعن أيديهن ۚ...) - اردو